بیعت عقبہ

ویکی شیعہ سے

بیعت عَقَبہ ہجرت سے پہلے یثرب کے لوگوں کی رسول خدا کی بیعت کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ مدینہ کے لوگوں نے رسول اللہ کی دو مرتبہ بیعت کی۔ پہلی بیعت 12ویں سال میں اور دوسری 13ویں سال میں ہوئی۔ یہ دونوں بیعتیں بیعت عقبہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ پہلی بیعت کو بیعت النساء اور دوسری بیعت کو بیعت الحرب کہا جاتا ہے۔ لیکن اکثر مؤرخین بیعت النساء کو فتح مکہ سے پہلے سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں بیعتیں ہجرت پیغمبر کا مقدمہ قرار پائیں اور اس کے ذریعے مسلمانوں کیلئے مدینہ ہجرت کرنے کے مواقع فراہم ہوئے۔

وجہ تسمیہ

عَقَبہ لغوی لحاظ سے پہاڑی راستے میں آنے والے موڑ[1] کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے پہاڑ کی بلندی کی طرف جایا جاتا ہے۔[2] پیغمبر اور یثرب کے لوگوں کے درمیان ہونے والی دونوں بیعتیں منا اور مکہ کے درمیان منا کے نزدیک واقع ہوئی اسی لئے اسی وجہ سے بیعت عقبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ مقام مکہ سے تقریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[3]

مقدمات بیعت

ایک جانب جب ابوطالب اور خدیجہ بعثت کے دسویں سال اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اب رسول خدا (ص) کا مکہ میں کوئی حمایتی نہیں رہا تو دوسری جانب مشرکین مکہ کی سخت گیریاں زیادہ ہو گئیں۔[4] بعثت کے گیارہویں سال رسول کا سامنا یثرب کے چھ افراد سے ہوا۔ بعض کے نزدیک اس ملاقات کا مقام عقبہ[5] اور بعض نے منا کہا ہے۔[6] یہ چھ افراد خزرج قبیلے سے تھے۔[7] رسول خدا نے ان کی شناخت معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ خزرج سے ہیں؛ پیامبر (ص) نے سوال کیا تم نے یہودیوں سے پیمان باندھا ہوا ہے؟ انہوں نے مثبت جواب دیا۔ پھر آپ نے ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو شروع کی اور انہیں اسلام کی دعوت پیش کی اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی۔ مدینہ کے یہودیوں سے مکہ میں نبی کے ظہور کے بارے میں سننے کی وجہ سے انہوں نے رسول کی جانب خصوصی توجہ کی۔ اس بات نے امید ایجاد کی کہ آپ کی موجودگی کی وجہ سے یثرب میں اوس و خزرج کے دو قبیلوں کے درمیان دشمنی کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مدینے واپسی پر لوگوں کے سامنے رسول اللہ کے ظہور کی داستان بیان کی۔

پہلی بیعت

یہ بیعت بعثت کے بارہویں سال حج کے موقع پر ہوئی۔ اوس و خزرج قبیلوں کے سات خاندانوں کے بارہ افراد نے عقبہ میں رسول خدا سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔ قبیلۂ خزرج سے اَسعَد بن زُرارة، عَوف بن حارث اور ان کئ بھائی برادر مُعاذ، ذَکوان بن عبد قیس، رافع بن مالک، عبادة بن صامت، ابی عبدالر حمن یزید بن ثَعلَبَہ، عباس بن عبادة بن نَضلَہ، عُقبَہ بن عامر بن نابی، قُطبَہ بن عامر بن حدیده اور قبیلۂ اوس کے ابو الہیثم بن تیہان، عُوَیم بن ساعدة اس بیعت میں شریک تھے۔[8]

شرائط بیعت

  1. خدا کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا۔
  2. چوری اور زنا نہیں کرنا۔
  3. اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔
  4. بہتان نہ باندھنا۔
  5. خیر و صلاح میں رسول خدا(ص) کی حکم عدولی نہ کرنا۔

اگر اس بیعت پر پابند رہے تو بہشت ان کیلئے ہوگی اور اگر اس کی مخالفت کی تو پھر خدا کو اختیار ہے کہ انہیں معاف کرے یا عذاب دے۔ بعض اسی بیعت کو بیعت النساء کہتے ہیں لیکن سورہ ممتحنہ کی 12ویں آیت کے پیش نظر فتح مکہ کے بعد رسول کی عورتوں سے بیعت کو بیعت النساء کہا جاتا ہے۔[9]

بیعت کے بعد رسول اللہ کا پہلا اقدام

اس بیعت کے بعد رسول اللہ نے انہیں قرآن کی تعلیم دینے کیلئے مُصعب بن عُمیر کو بھیجا۔[10] بعض مؤرخین مصعب کے بھیجنے کو دوسری بیعت کے بعد ذکر کرتے ہیں۔[11]

دوسری بیعت

یہ بیعت الحرب کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعثت کے تیرھویں سال حج کے موقع پر مِنیٰ کے دائیں درے پر بیعت ہوئی جہاں آج کل مسجد البیعہ موجود ہے۔ اس بیعت میں بہتّر مرد اور دو عورتیں حاضر تھیں۔ رسول کی جانب سے آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب بھی ہمراہ تھے۔ یثربی ایک ایک دو دو ہوکر رسول کے پاس آتے تھے۔ سب سے پہلے بنی زُریق سے رافع بن مالک بن عَجْلان رسول اللہ کے پاس آئے۔

عباس نے حاضرین سے کہا: جہاں تک ہو سکا ہم نے محمد کی حمایت کی۔ اب وہ تمہارے پاس آنا چاہتے ہیں۔ اگر تم ان کی حمایت کی قدرت رکھتے ہو تو ماشاء اللہ اور اگر اسکی قدرت نہیں رکھتے تو انہیں ہمارے پاس ہی رہنے دو۔ انہوں نے جواب میں کہا: ہم اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جس وہ جنگ کریں گے ہم اس سے جنگ کریں گے جس سے وہ صلح کریں گے ہم اسی سے صلح کریں گے۔ کہا گیا کہ بَراء بن مَعرور یا ابو الہیثم بن تیہان یا اسعد بن زراره پہلے بیعت کرنے والے ہیں۔[12]

وجہ تسمیہ

چونکہ یثربیوں نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ رسول جس سے جنگ کریں گے وہ بھی اس سے جنگ کریں اور رسول جس سے صلح کریں گے وہ بھی اس سے صلح کریں گے اسی مناسبت سے اس بیعت کو بیعت الحرب کہتے ہیں۔ بعض انصار نے تو پہلی رات ہی اپنی طرف سے جنگ پر آمادہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ عباس بن عباده نے بیعت کے بعد کہا کہ اگر آپ ابھی منا کے اندر حج میں مشغول کفار پر حملے کا حکم دیں تو میں حملہ کروں لیکن رسول اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا: تم اپنے قبیلوں اور رشتے داروں میں واپس لوٹ جاؤ۔[13]

فوائد

  • اس بیعت کے بعد رسول اللہ نے یثرب کے لوگوں میں بارہ افراد کو نقیب کے عنوان سے چنا۔[14]
  • یہ بیعت حضرت محمد کی ہجرت کا مقدمہ بنی۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. لسان العرب، ج۱، ص۶۲۱
  2. لسان العرب، ج۱، ص۶۲۱
  3. یاقوت حموی، ج ۳، ص ۶۹۲ـ۶۹۳.
  4. طبری، ج ۲، ص ۳۴۳ـ۳۴۴؛ ابن یشام، ج ۱، ص ۲۸۰؛ حسن ابراہیم حسن، ج ۱، ص ۹۱
  5. یاقوت حموی، ج ۳، ص ۶۹۳؛ طبری، ج ۲، ص ۳۵۳؛ حسن ابراہیم حسن، ج ۱، ص ۹۴؛ ابن سعد، ج ۱، ص ۲۱۸؛ ابن یشام، ج ۱، ص ۲۸۹؛ بلاذری، ج ۱، ص ۲۷۵.
  6. ابن سعد، ج ۱، ص۲۱۸
  7. قس یاقوت حموی، ایضا
  8. ترجمہ طبقات، ج۱، ص۲۰۵.
  9. حسن ابراہیم حسن، ج ۱، ص ۹۴ـ ۹۵؛ بلاذری، ج ۱، ص ۲۷۵ـ۲۷۶؛ ابن یشام، ج ۱، ص ۲۸۹ـ۲۹۱،۲۹۳؛ ابن سعد، ج ۱، ص ۲۲۰؛ طبری، ج ۲، ص ۳۵۳ـ ۳۵۷
  10. طبری، ج ۲، ص ۳۵۷؛ ابن سعد، ایضا؛ ابن یشام، ج ۱، ص ۲۹۳؛ بلاذری، ج ۱، ص ۲۷۶؛ حسن ابراہیم حسن، ایضا
  11. بلاذری، ج ۱، ص ۲۷۷
  12. ترجمہ طبقات، ج۱، صص۲۰۶-۲۰۸.
  13. ابن یشام، ج‏۱، ص:۴۴۸
  14. حسن ابراہیم حسن، ج ۱، ص ۹۶ـ ۹۸؛ بلاذری، ج ۱، ص ۲۷۷ـ ۲۷۸؛ ابن سعد، ج ۱، ص ۲۲۱ـ۲۲۲؛ طبری، ج ۲، ص ۳۶۲ـ۳۶۳؛ ابن یشام، ج ۱، ص ۳۰۰ـ۳۰۱.

مآخذ

  • ابن سعد، الطبقات الکبری ، بیروت ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ ع
  • ایضا، طبقات، تحقیق محمود مہدوی دامغانی، فرہنگ و اندیشہ، تہران، ١٣٧۴ش
  • ابن منظور، لسان العرب، نشر ادب حوزه، ۱۳۶۳ش/۱۹۸۵ ع
  • ابن ہشام، السیرة النبویہ، چاپ سہیل زکار، بیروت ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ ع
  • احمد بن یحیی بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، چاپ سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷ش/۱۹۹۶ ع
  • حسن ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام: السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی، ج ۱، قاہره ۱۹۶۴م، چاپ افست بیروت، بی‌ تا
  • عبد الرحمان بن عبدالله سہیلی، الروض الانف فی شرح السیرة النبویہ لابن ہشام، چاپ عبد الرحمان وکیل، قاہره ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹ ع
  • محمد بن جریر طبری، تاریخ الطبری، تاریخ الامم والملوک، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت (۱۳۸۲ـ۱۳۸۷ق/ ۱۹۶۲ـ۱۹۶۷ ع)
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، چاپ فردیناند ووستنفلد، لایپزیگ ۱۸۶۶ـ۱۸۷۳ق، چاپ افست تہران ۱۹۶۵ ع

بیرونی ربط

مقالے کا مآخذ: دانشنامہ جہان اسلام، بیعت عقبہ، سید جعفر شہیدی