احمد

ویکی شیعہ سے

احمد، پیغمبر اسلامؐ کے مشہور ناموں میں سے ایک ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی ہوا ہے۔ قرآن میں حضرت عیسیؑ کی جانب سے اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ کو احمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

مفہوم شناسی

عربی زبان کے قواعد و ضوابط کی رو سے اگر اس لفظ کو "حمد" سے مشتق مانیں تو یہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ اس صورت میں اگر اسم مفعول یعنی "محمود" سے اسم تفضیل ینایا گیا ہو تو اس کے معنی "سب سے زیادہ لائق تعریف" اور اگر اسم فاعل یعنی "حامد" سے اسم تفضیل ینایا گیا ہو تو اس کے معنی "سب سے زیادہ تعریف کرنے والا" ہوگا۔ البتہ علم صرف میں اسم تفضیل کی ساخت سے مربوط قواعد خاص کر اہل بصرہ کے مطابق دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے۔ لیکن ان قواعد سے صرف نظر اگر دیکھا جائے تو علماء کے نزدیک پہلا احتمال زیادہ قابل قبول ہے۔[1] قدماء میں سے بعض علماء نے عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر احادیث نبوی سے استناد کرتے ہوئے جن کے مطابق قیامت کے دن پیغمبراکرمؐ کیلئے تعریف کے ایسے ذرایع کھول دئے جائیں گے جو اس سے پہلے کسی کیلئے نہیں کھولا ہو گا، دوسرے احتمال کو ترجیح دی ہیں۔[2]

قرآن و حدیث اور عربی ادب کی روشنی میں

اس لفظ کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی ہوا ہے [3] جہاں حضرت عیسیؑ اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ کو احمد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سعودی عربیہ کے شمال میں واقع "صفا" نامی پہاڑی سے پیدا ہونے والے پتھروں بھی اس لفظ سے قریب معنی والے اسامی لکھے ہوئے پائے گئے ہیں جن کے بارے میں آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اسامی خدا کے اسماء حسنی کے ساتھ مرکب اسامی کے مخفف ہیں۔

ابن قیم جوزی کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے تمام اسامی صرف مسمی کو مشخص کرنے والے اسامی نہیں بلکہ یہ اسامی ایسے اوصاف اور مشتقات ہیں جو اپنے مسمی کی تعریف و تمجید اور اس کے کمالات کو بھی دلالت کرتے ہیں۔[4] اگرچہ پرانے آثار میں اس نظریے پر صراحتا دلالت کرنے والی کوئی چیز نہیں پائی جاتی لیکن عملا قدیم الایام ہی سے مسلمانوں کے درمیان یہ نظریہ پایا جاتا تھا۔

اس نام کے وجہ تسمیہ کے بارے میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی لکھنے یا بولنے والا پیغمبر اکرمؐ کو "محمدؐ" کے علاوہ کسی اور نام سے مخاطب کرنا چاہتا تو سب سے پہلے جس نام کا انتخاب کیا جاتا تھا اور ہے وہ یہی نام یعنی احمد ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور حدیثی متن، جبیر بن مطعم کی وہ حدیث ہے جسے اس نے خود پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں آپؐ کے پانج(5) اسامی گرامی کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ محمدؐ اور احمد کا تذکرہ ہوا ہے۔اس حدیث کی سند پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ یہ حدیث زہری نے محمد بن جبیر سے اور انہوں نے جبیر بن مطعم سے نقل کی ہے۔[5] اور یہی حدیث مختصر اختلاف کے ساتھ جعفر بن ابی وحشیہ اور عتبہ بن مسلم نے نافع سے نقل کیا ہے جو جبیر بن مطعم کا دوسرا بیٹا ہے۔[6]

اسی طرح اعمش اور مسعودی نے عمرو بن مرہ سے انہوں نی ابوعبیدہ سے اور انہوں نے ابو موسی اشعری سے اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے[7] نیز یہ روایت حماد بن سلمہ نے عاصم سے انہوس نے زربن حبیش سے انہوں نے حذیفہ سے بھی نقل ہوئی ہےاسی طرح ابوبکر بن عیاش نے عاصم سے انہوں نے ابووائل سے انہوں نے حذیفہ نے پیغمبرؐ[8] بھی نقل ہوئی ہے۔ اس اسناد سے یہ نتیتجہ لیا جا سکتا ہے مذکورہ حدیث پہلی صدی ہجری میں مختلف صحابہ کے ذریعے نقل ہوتی رہی ہے لیکن دوسری صدی ہجری کے اوائل سے سینہ بہ سنہ نقل ہونے کے علاوہ وسیع پیمانے پر نقل ہونا شروع ہوا ہے۔

مذکورہ باتوں سے یہی جیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کیلئے ایک سے زیادہ نام خاص کر احمد کا نام پہلی صدی ہجری کے نصف صدی سے رائج تھا اور یہ بات قرآن کریم میں "اسمہ احمد" کے صریح جملے کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بعید بھی نہیں ہے۔

اسلام سے قبل اعراب میں اس نام کا رواج

بعض مسلمان دانشوروں اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ سے پہلے یہ لفظ کبھی بھی کسی شخص کے نام کے طور پر استعمال نہیں ہوا اور گویا یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی فضیلت اور خدا کی حکمتوں میں شمار ہوتی ہے تاکہ حضرت عیسی کی طرف سے بشارت دئے جانے کے بعد اس نام میں کسی کو کوئی غلطی یا اشتباہ کا شائبہ تک نہ رہے۔[9] لیکن اسلام سے پہلے اعراب میں اس نام کے رائج ہونے پر بعض قرائن و شواہد پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اسماء یہ ہیں: ابوعمرو احمد بن حفص بن مغیرہ مخزومی، احمد بن غجیان، احمد بن ثمامہ طایی، احمد بن دومان اور احمد بن زید[10]، اسی طرح بعض قبائل کا نام جیسے "بنواحمد" بھی اسلام سے پہلے عرب قبائل میں دیکھا جا سکتا ہے۔[11] نیز یہ نام بطور کنیت بھی استعمال ہوا ہے جیسے ابواحمد عبد ابن جحش۔[12]

مذکورہ بالا نمونہ جات اور پیغمبر اکرم کو قرآن میں اس نام کے ذریعے یاد کرنے کے علاوہ دیکھنے میں آتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے اوخر تک پیغمبر اکرمؐ کا یہ نام آپ کے دوسرے ناموں کے مقابلے میں زیادہ مشہور اور رائج بھی نہیں ہوا ہے۔[13]

اسلام میں اس نام کا رواج

واقدی نے پہلی صدی ہجری کے نصف صدی سے اس لفظ کے ذریعے نام رکھنے کی روایت نقل کی ہے جس کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ اس روایت کی رو سے جعفر بن ابی طالب کا اسماء بنت عمیس سے چوتھے فرزند کا نام احمد رکھا گیا تھا۔[14] جلکہ اکثر منابع میں اسماء بنت عمیس سے جعفر کے صرف تین بیٹوں عبداللہ، عون اور محمد کا نام لیا گیا ہے۔[15] اس کے علاوہ ان دو میاں بیوی کی اولاد کی کل تعداد 9 تک بیان کی گئی ہے جن میں احمد نام کا کوئی فرد موجود نہیں ہے۔

اسلامی تاریخ میں بصرہ کے مشہور شاعر اور ادیب خلیل (متوفی 170 ہجری قمری) کے والد احمد بن عمرو بن تمیم پہلا شخص ہے جس کا نام احمد رکھا کیا تھا۔ خلیل خود 74 سال کی عمر میں سنہ 170 ہجری کو رحلت کر گیا تھا،[16] اس حساب سے اس کی ولادت تقریبا سنہ 96 ہجری بنتی ہے یوں اس کے والد کو تقریبا پہلی صدی ہجری کے تین چوتھائی حصے میں یہ نام رکھا گیا تھا۔ اسی طرح امام زین العابدینؑ کے اصحاب میں سے بھی ایک شخص "احمد ابن حمویہ" بھی ہے،[17] اگر اس روایت پر اعتماد کیا جائے تو خلیل کے والد کے بعد یہ دوسرا شخص ہوگا جو تاریخ اسلام میں اس نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد امام باقرؑ کے صحابی "احمد بن محمد حضرمی" کا نام اس سلسلے میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔[18]

خلیل کا والد تاریخ اسلام میں اس نام سے موسوم ہونے والا پہلا شخص ہونے پر قدیم اسلامی منابع میں بھی شواہد پائے جاتے ہیں۔[19] یہاں تک کہ بعض اوقات اس سلسلے میں اتفاق نظر رکھنے کا دعوا بھی کیا جاتا ہے۔[20] یہ چیز اس تاریخی نکتے پر تاکید ہے کہ قدیم مسلمان مصنفین کے یہاں پہلی صدی ہجری کے اواسط میں اسلامی دنیا میں اس نام کے ذریعے اپنے فرزندوں کا نام رکھنے پر کوئی قرائن و شواہد موجود نہیں تھی۔

مسلمانوں کے یہاں اس نام کے رواج پانے میں تاخیر اور بعض دوسرے دلائل کی بنا پر بعض معاصر محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں یہ لفظ بعنوان نام استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ لفظ قرآن میں ایک صفت کے عنوان سے استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ نام کے طور پر اس وقت سے رائج ہوا جب سے پیغمبر اکرمؐ کو انجیل موعود میں "فارقلیط" کہنا لفظ "احمد" کے مترادف ہے جانا گیا۔[21]

قرآن مجید میں اس لفظ کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ کو یاد کرنا اگرچہ بطور صفت ہی کیوں نہ ہو، نیز اسلام سے پہلے عربوں میں اس نام کا رائج ہونا، مسلمانوں کے یہاں اس نام کے رواج پانے کیلئے کافی تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی یہاں اس کے رواج پانے میں تاخیر کے علل و اسباب کو صدر اسلام میں مسلمانوں کے اعتقادات کے اندر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے کسی نمونے اور تاریخ قرائن و شواہد کے پیچھے جائے بغیر بھی اس بارے میں ایک رائ قائم کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ صدر اسلام میں مسلمان جس طرح حضورؐ کی کنیت ابوالقاسم[22] نیز آپ کا نام مبارک محمد اور ابوالقاسم کے ذریعے اپنے بچوں کا نام رکھنے میں احتیاط کیا کرتے تھے،[23] احمد کے ذریعے بھی اپنے بچوں کا نام رکھنے میں احتیاط کیا کرتے تھے۔

اس تقدس اور احتیاط کو ختم کر کے اس نام کے ذریعے دوسروں کا نام رکھنا حتی اس کا مستحب ہونا[24] عصر صحابہ میں ہی حضور کے اسم مبارک "محمد" اور کنیت "ابوالقاسم" کی تقدس کو ختم کر کے اس نام اور کنیت کو اکھٹے کسی کیلئے نامگزاری کرنے کی سے زیادہ عجیب نہیں ہے۔[25]

پیغمبر اکرمؐ کو اس نام سے موسوم کرنے کے حوالے سے بعض احادیث وارد ہوئی ہیں جس کے مطابق آپؐ کے خاندان میں سے کسی بزرگ نے آپ کا یہ نام رکھا تھا۔ امام باقرؑ سے منسوب ایک حدیث میں آا ہے کہ جس وقت حضورؐ آپ کی مادر گرامی حضرت آمنہ کے شکم میں تھا تو ان کو غیب سے آواز آئی کہ اپنے بچے کا نام احمد رکھا جائے۔[26] اسی طرح شیعوں کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپؐ کو یہ نام آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے آپ کی ولادت کے نویں روز رکھا تھا اور آپ کو آسمان والوں کی ستائش کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔[27]

بعض سیرہ نویسوں کے مطابق حضورؐ کے اسامی احمد اور محمد میں سے تقدم زمانی میں احمد مقدم ہے یعنی آپ کو پہلے احمد کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے یہ حضرات اس مسئلے کو حضرت عیسی کے دور سے ربط دیتے ہیں چونکہ حضرت عیسی نے اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتے ہوئے آپ کو احمد کے نام سے یاد کیا تھا۔[28] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض حضرات ان دونوں ناموں میں زمانی تقدم اور تأخر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آپ کو اسم مبارک "محمد" کے ذریعے نام رکھنا صرف آپ کی ولادت کے بعد سے مربوط نہیں بلکہ آپ کو توریت میں ّبھی محمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس بنا پر شاید آپ کے اسامی میں اسم مبارک محمد تقدم زمانی رکھتا ہو۔[29]

پیغبر اکرمؐ کے ناموں کے حوالے سے تاریخی بحث سے قطع نظر بھی آپ کے اسامی میں علمیت سے ہٹ کر وصفیت کے پہلو سے احمد اور محمد کے درمیان موازنہ کر کے محمد کی نسبت احمد میں زیادہ تفضیل کے معنی پر تاکید ملتی ہے۔ خود آنحضرتؐ سے منقول ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ آپ کو زمین پر زمین والوں کی ستائش کی وجہ سے محمد جبکہ آسان والوں کی ستائش کی وجہ سے احمد کہا جاتا ہے۔[30]

اسم گرامی احمد میں تفضیل کا ایک اور جلوہ حضرت علیؑ اور ابی بن کعب کے ذریعے آپؐ سے منقول ایک حدیث میں نمایاں ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ حضورؐ کو بقیہ انبیاء پر حاصل پانچ برتریوں میں سے ایک آپ کو احمد کے ذریعے نام دینا ہے جو کسی دوسرے انبیاء کو حاصل نہیں۔[31] اس سے مشابہ ایک اور روایت ابن عباس سے جابر اور ابو ہریرہ نے نقل کیا ہے جس میں آپ کو اس نام سے یاد کرنے کے حوالے سے ایک اور فقره موجود ہے،[32] اور وہ یہ کہ آپ کے اسامی میں صرف یہ دونوں اسامی آپ کے اصلی نام ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ قدیم سند حضرت علیؑ سے منقول حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ انبیاء میں سے پانچ پیغمبر ایسے ہیں جن کے دو نام تھے ان میں سے آخری نبی، پیغمبر اسلام ہیں اور آپ کو احمد اور محمد کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔[33]

اشعار میں اس نام کا استعمال

احادیث کے علاوہ پہلی صدی ہجری کے شعراء جیسے حسان بن ثابت،[34]ابن زبعری[35]، امرؤالقیس کندی[36]اور کعب بن مالک[37] کے اشعار کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کو "احمد" کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[38]

آسمانی کتابوں میں احمد کی بشارت

حضرت عیسی کی زبانی قرآن کریم میں آخری نبی کی بشارت اور آپ کو احمد کے نام سے یاد کرنے کے علاوہ دوسرے انبیاء کی کتابوں میں بھی آخری نبی کی بشارت اسی نام کے ساتھ دی گئی ہے جس پر بہت ساری احادیث موجود ہیں۔

قرآن میں

قرآن مجید میں اس نام کا استعمال صرف حضرت عیسی کی زبانی پیغمبر اسلام کی بشارت دیتے ہوئے آپ کو "احمد" کے نام سے یاد کرنے کے مقام پر ہوا ہے اس سلسلے میں حضرت عیسی یوں گویا ہیں: "میں خدا کی طرف سے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں توریت کی تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے اور میں تمهیں ایک ایسے نبی کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آنے والا ہے جس کا نام احمد ہوگا"۔[39]

احادیث میں

قرآن میں حضرت عیسی کی زبانی دی گئی بشارت نے صدر اسلام سے ہی مسلمان دانشوروں کو دوسرے زمانوں میں بھی اس چیز کی نشانی ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ اسی تلاش کے نتیجے میں یہ علماء اس نتیجے پر پہچنے کہ انجیل میں بھی پیغمبر اسلام کے آنے کی بشارت اسی نام سے دی گئی ہے۔

اس بارے میں موجود نمونہ جات کو پیغمبر اکرمؐ سے منقول بہت ساری احادیث میں دیکھا جا سکتا ہے جسے بعض صحابہ‌ کرام جیسے ابن عباس اور جابر نے نقل کی ہیں ان احادیث کے مطابق حضورؐ کا نام قرآن میں "محمد"، انجیل میں "احمد" اور تورات میں "احبد" آیا ہے۔[40]

اس حوالے سے انجام پانے والے تحقیقات میں سے بعض کا ہدف اور مقصد بعینہ عربی لفظ "احمد" پر مشتمل بشارت کی تلاش تھی۔ نمونے کے طور پر مباہلہ کے واقعے میں منقول اس حدیث طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں عیسائی علماء کی زبانی لفظ "احمد" پر مشتمل بشارت نقل ہوئی ہے۔[41]کہ البتہ یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ ان احادیث جس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وه انجیل یوحنا میں لفظ "فارقلیط" کے ذریعے دی گئی بشارت مراد ہو۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان احادیث میں جو بشارت دی گئی ہے وہ لفظ "فارقلیط" کے ذریعے دی گئی بشارت سے سازگار نہیں ہے۔

اسی طرح ابن سعد سے منقول ایک روایت کی رو سے پہلی صدی ہجری میں تازہ مسلمان ہونے والے سہل مریسی مولای عثیمہ نامی تازہ مسلمان شخص جو خود "انجیل" کا قاری بھی تھا، کی زبانی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے چچا کے ہاں کتاب مقدس کا ایک نسخہ دیکھا جس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں مطالب موجود تھے جس میں آپؐ کے بارے میں آیا ہے: "وہ اسماعیل کی ذُرّیہ میں سے ہو گا جس کا نام احمد ہے"۔[42] اس روایت کے مطالب، کتاب مقدس کے سفر پیدایش (۲۰:۱۷) میں "مأدمأد" کے ذریعے دی گئی بشارت کے ساتھ قابل موازنہ ہے۔ توضیح اینکہ کتاب مقدس کے اس باب میں حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ مقام (سفرپیدایش: ۲۰:۱۷) میں "مأدماد" کے ذریعے بشارت دی گئی ہے، عہد عتیق کے ترجموں میں بھی اس مطلب کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔[43]

بعض مسلمان علماء "مأدمأد" سے مراد "محمد" لیتے ہیں۔ لفظ "مادماد" کھبے "مود مود" یا "مید مید" کی شکل میں لکھا جاتا ہے ان تمام صورتوں میں اس سے مراد آسمانی کتابوں میں پیغمبر اکرم کا نام ہے۔[44] یہ احتمال بھی موجود ہے کہ شاید سہل مریسی سے منقول عبارت کا مطلب بھی سفر پیدایش کا مذکورہ حصہ ہو نہ انجیل، با یہ کہ اس سے مراد "مأدمأد" کا احمد کے ذریعے ترجمہ مراد ہو۔

توریت میں

مسلمانوں کے یہاں سب سے زیادہ مشہور بشارت پہلی صدی ہجری سے مربوط ہے جسے توریت سے نقل کی گئی ہے جو عہد عتیق کے متن سے قابل تطبیق نہیں ہے جس کی عربی "عبدی المختارلیس بفظ و لاغلیظ" کے جملے سے آغاز ہوتی ہے۔ بعض احادیث میں اس "عبدمختار" جس کی بشارت دی گئی ہے سے مراد "احمد" لیا گیا ہے۔[45]

زبور داوود اور صحیفہ اشعیا میں

وہب بن منتبہ سے منقول ایک روایت میں حضرت داوود کی کتاب زبور میں پیغمبر اکرم کے آنے کی بشارت "احمد" کے نام سے دی گئی ہے۔[46] اسی طرح بعض احادیث میں اشعیا نبی کے صحیفہ[47]سے بھی یہی حکایت کی گئی ہے۔

حبقوق(حیقوق) نبی کے صحیفے میں

حبقوق یا (حیقوق) نبی سے منسوب صحیفے میں بھی پیغمیر اکرم کی بشارت دیتے ہوئے آپ کو "احمد" کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ نوفلی نے امام رضاؑ سے نقل کی ہے آپؑ نے حبقوق(حیقوق) نبی سے یوں نقل فرمایا: "خدا نے تبیان کو کوہ فاران سے لے آیا اور آسمان "احمد" اور اس کی امت کی ستائش سے قائم ہوئی…۔" جاءالله بالتبیان من جبل فاران و امتلأت السماوات من تسبیح احمد و امته …۔[48] حبقوق(حیقوق) نبی کی صحیفہ (۳:۳) میں یوں آیا ہے: "خدا تیمان سے آیا اور قدوس جبل فاران سے اور اس کے جلال نے آسمانوں کا ڈھانپ دیا اور زمین اس کی تعریف سے بھر گئی"۔ لفظ "اس کی جلال" ترجمہ ہے اصل عبرانی لفظ "ہووو" کا۔ ابن سعد کی کتاب طبقات میں مختلف اہل کتاب کے آسمانی تعلیمات میں لفظ احمد کی بشارت پر مشتمل متعدد احادیث کا وجود[49] دوسری صدی ہجری کے مسلمان علماء کی اس موضوع سے رکھنے والے دلچسپی کی نشاندہی کرتی ہے۔

انجیل یوحنا میں

تفصیلی مضمون: فاراقلیط

انجیل یوحنا میں حضرت عیسی کے بعد "فارقلیط" کے بھیجے جانے کی بشارت کو بعض اوقات احمد کی بشارت سے مرتبط قرار دیا جاتا ہے۔ "فارقلیط"(یا بارقلیط) کا لفظ یونانی زبان کے "پاراکلتوس" کا عربی ترجمہ ہے جس کی معنی مدافع، وکیل، شفیع یا میانجی کی ہیں، جسے کلیسا والے "تسلی دہندہ" سے تفسیر کرتے تھے۔[50]

مختلف صدیوں میں مسلمان دانشوروں نے کبھی کبھار اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حقیقت میں "پاراکلتوس" کا لفظ یونانی زبان میں "پریکلوتوس" کے لفظ کا تحریف شدہ نسخہ ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے ان کی یہ تعبیریں ادبی نقطہ نگاہ سے زیادہ دقیق اور ظریف نکتہ نہیں۔[51] پریکلوتوس لغت میں بزرگوار، مشہور اور عالی کے معنی میں ہے اور حضرت عیسی سے پہلے مختلف ادوار میں اس کا استعمال رہا ہے اور لغوی اعتبار سے پیغمبر اسلام کا اسم مبارک "محمد" یا "احمد" مراد لیا جا سکتا ہے۔

ماوردی اس نکتہ پر تصریح کی ہے کہ "فارقلیط" ایک ایسے اصل سے لیا گیا ہے جس کے معنی "حمد" اور ستائش ہے۔[52]۔ قدیم زمانے میں بھی بعض نظریات پائے جاتے تھے جس کے مطابق "فارق لیطا" یا "بارقلیط" کو "آوہ جو حق و باطل کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے" سے تفسیر کی گئی ہے۔[53] نیز ابن قیم نے بھی اس امر کی تصریح کی ہے کہ بعض لوگ "فارقلیط" کو قرآن میں مذکور لفظ احمد پر تطبیق کرتے ہیں۔[54]

حوالہ جات

  1. ابن قیم، زاد المعاد، ج۱، ص۶۹ بہ بعد۔
  2. قاضی عیاض، الشفاء، ج۱، ص۳۱۳-۳۱۲؛ سہیلی، الروض الانف، ج۲، ص۱۵۳؛ ملاعلی قاری، جمع الشمائل، ج۲، ص۱۸۲ـ۱۸۱۔
  3. صف: ۶۔
  4. ابن قیم، زاد المعاد، ج۱، ص۶۶۔
  5. بخاری، صحیح، ج۳، ص۲۰۱؛ مسلم بن حجاج، صحیح، ص۱۸۲۸؛ ترمذی، سنن، ج۵، ص۱۳۵۔
  6. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۱، ص۶۵ ؛ حاکم نیشابوری، مستدرک الصحیحین، ج۲، ص۶۰۴؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج۱، ص۱۵۵۔
  7. مسلم، صحیح، ص۱۸۲۸ـ۱۸۲۹؛ احمدبن حنبل، مسند، ج۴، ص۳۹۵، ۴۰۴،۴۰۷؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۱، ص۱۵۷_۱۵۶
  8. احمد بن حنبل، مسند، ج۵، ص۴۰۵؛ ترمذی، الشمائل، ص۲۱۱ـ۲۱۲؛ ابن سعد،الطبقات الکبیر،ج۱، ص۶۵۔
  9. قاضی عیاض،الشفاء، ۱/۳۱۳۔
  10. تنہا در روایت ابوہشام مخزومی، نک :ابن اثیر،علی،اسدالغابہ،۵۳و۱/۲۲؛ ابن حجر، الاصابہ، ۴/۱۳۹، زرقانی،شرح المواہب اللدنیہ، ۳/۱۵۸۔
  11. زرقانی،شرح المواہب اللدنیہ، ۳/۱۵۸۔
  12. ابن سعد،کتاب الطبقات الکبیر،۶۲ /۳(۱)؛ ابن اثیر،علی،اسدالغابہ،۵/۱۳۳؛ مونتگمری وات، ۱۱۱ بہ بعد
  13. (برای تداول این نامہا و مقایسہ، مونتگمری وات، ۱۱۷ـ۱۱۵)۔
  14. ابن حجر، الاصابہ، ۱/۹۷۔
  15. ابن سعد،کتاب الطبقات الکبیر،۲۳-۴/۲۲؛ ابن اثیر، علی،اسدالغابہ، ۵/۳۹۵؛ ابن عنبہ،عمدۃ الطالب، ۳۶۔
  16. ابن ندیم،الفہرست، ۴۸؛ نووی،تہذیب الاسماء و اللغات،۱/۱۷۸۔
  17. طوسی،رجال،۸۴۔
  18. برقی،رجال،۱۰؛ مونتگمری وات، ۱۱۱۔
  19. ابن ندیم،الفہرست، ۴۸۔
  20. ابن حجر،الاصابہ، ۱/۹۷۔
  21. مونتگمری وات،۱۱۳۔
  22. بخاری،صحیح، ۲/۱۴ ؛مسلم بن حجاج، صحیح،۱۶۸۴-۱۶۸۲۔
  23. ابوداوود سجستانی، سنن، ۴/۲۹۲ ؛ ترمذی، سنن، ۱۳۷_۵/۱۳۶؛ کلینی، الکافی، ۶/۲۱۔
  24. کلینی، الکافی، ۶/۱۹ ؛ زرقانی،شرح المواہب اللدنیہ، ۵/۳۰۱۔
  25. ابن حجر، الاصابہ، ۳/۵۰۹۔
  26. ابن سعد،کتاب الطبقات الکبیر، ۶۴و۱/۶۱؛ جبکہ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ، ۱/۱۴۵، میں "احمد"، کی جگہ "محمد" آیا ہے۔
  27. کلینی،الکافی، ۶/۳۴۔
  28. سہیلی، الروض الانف، ۲/۱۵۳۔
  29. ابن قیم،جلاءالافہام،ص ۹۸ بہ بعد۔
  30. قمی،تفسیر،۲/۳۶۵؛کلینی، الکافی،۶/۳۴؛ ابن بابویہ، علل الشرائع، ۱۲۸_۱/۱۲۷ و معانی الاخبار، ۵۲ـ۵۱ ؛الاختصاص، منسوب بہ شیخ مفید،، ۳۴۔
  31. احمد بن حنبل، مسند،۱/۹۸و۱/۱۵۸ ؛ سیوطی،الدرالمنثور، ۶/۲۱۴ ؛ بخاری، صحیح،۱/۷۰۔
  32. مسلم بن حجاج،صحیح، ۳۷۲ ـ ۳۷۰ ؛ ابن بابویہ، الخصال، ۱/۲۹۲۔
  33. ابن بابویہ،عیون اخبار الرضاؑ،۱/۱۹۲ ؛ بیہقی،دلائل النبوۃ،۱/۱۵۹ بہ نقل از خلیل بن احمد۔
  34. حسان بن ثابت، دیوان حسان، ۱/۲۷۰۔
  35. ابن طیفور،کتاب بغداد، ۵۳۔
  36. ابن حبیب،المحبر، ۱۸۶
  37. ابن حبیب،المحبر، ۲۷۲
  38. اسی طرح عبدالمطلب اور ابوطالب سے منسوب اشعار میں بھی اس مطلب کو مشاہده کیا جا سکتا ہے : سہیلی،الروض الانف، ۲/۱۵۷؛ دیوان ابی طالب،روایت ابوہفان مہزمی، ۱۲، ۱۳،۱۹، جمـ۔
  39. صف /۶۱/۶۔
  40. ابن بابویہ، معانی الاخبار، ۵۱؛ سیوطی، الخصائص الکبری، ۱/۱۳۳۔
  41. الاختصاص،منسوب بہ شیخ مفید،۱۱۳ـ۱۱۲؛ابن طاووس، سعد السعود، ۹۱ بہ بعد، روایت عبدالرزاق؛ابن طاووس، اقبال الاعمال،۵۰۹،روایت ابوالمفضل و ابن اشناس۔
  42. ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر،۱/۶۴،۱/۸۹
  43. ابن قیم، جلاءالافہام، ۹۹ بہ بعد؛ ابن کثیر،الفصول فی سرہ الرسولؐ،۱۱۴ـ۱۱۳۔
  44. ابن شہر آشوب،مناقب آل ابی طالب، ۱/۱۵۲؛طبرسی،اعلام الوری، ۸؛ابن قیم، جلاءالافہام، ۹۹؛کازرونی،نہایہ المسئول، ۱۴۰؛ابن کثیر،الفصول فی سرہ الرسولؐ،۱۱۴ـ۱۱۳، سیوطی، الخصائص الکبری، ۱/۱۳۳۔
  45. راوندی،الخرائج و الجرائح، ۸۰-۱/۷۹؛ ابن شبہ،تاریخ المدینہ، ۶۳۵-۲/۶۳۴۔ حضرت موسی کی زبانی احمد کی بشارت کیلئے مراجعہ کریں سہیلی، الروض الانف،۲/۱۵۳؛اربلی،کشف الغمہ، ۱/۷؛سیوطی،الخصائص الکبری،۱/۱۳۳۔
  46. ابن عساکر،تاریخ مدینہ دمشق، ۱/۵۰۳۔
  47. ابوحاتم رازی،اعلام النبوۃ، ۱۹۷۔
  48. ابن بابویہ، عیون اخبار الرضاؑ، ۱/۱۳۴؛ راوندی،الخرائج و الجرائح، ۱/۷۵؛ قس با:ابن ربن، الدین و الدولہ، ۱۶۹؛ابوحاتم رازی،اعلام النبوۃ، ۱۹۷؛ کراجکی،کنزالفوائد، ۹۱ کہ آخری مآخذ میں دانیال سے نام "محمد" نقل کی گئی ہے۔
  49. ابن سعد، طبقات الکبری،۱۰۷-۱/۱۰۳۔
  50. برای پیشینہ این تفسیر عرب ترجموں میں :ابن قیم جوزیہ، ہدایۃ الحیاری، ۸۴۔
  51. مونتگمری وات، ۱۱۴ـ۱۱۳۔
  52. ماوردی،اعلام النبوہ،ص۲۱۲۔
  53. قاضی عیاض،الشفاء،۱/۳۲۱؛ ابن اثیر مبارک،النہایہ، ۳/۴۳۹؛ابن قیم جوزیہ، ہدایۃ الحیاری، ۸۴۔
  54. ابن قیم جوزیہ، ہدایۃ الحیاری، ۹۰ـ۸۹؛ نکـ : فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۴-۱۱۹/۱۳۱۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی، اسدالغابہ، قاہرہ،۱۲۸۰ق۔
  • ابن اثیر، مبارک، النہایہ، بہ کوشش طاہر احمدی زاوی و محمود محمد طناحی، قاہرہ، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م۔
  • ابن بابویہ، محمد، عیون اخبار الرضا(ع)، نجف، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰م۔
  • ابن بابویہ، محمد، معانی الاخبار، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم،۱۳۶۱ش۔
  • ابن بابویہ، محمد، الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش۔
  • ابن بابویہ، محمد، علل الشرائع، نجف، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۶م۔
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش لیشتن اشتتر، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۱ق/۱۹۴۲م۔
  • ابن حجر، احمد، الاصابہ، قاہرہ ۱۳۲۸ق۔
  • ابن حجر، احمد، لسان المیزان، حیدرآباد دکن،۱۳۲۹ق۔
  • ابن ربن، علی، الدین و الدولہ، بہ کوشش عادل نویہض، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م۔
  • ابن سعد، محمد، کتاب الطبقات الکبیر، بہ کوشش زاخا و دیگران، لیدن، ۱۹۰۴ـ۱۹۱۵م۔
  • ابن شبہ، عمر، تاریخ المدینہ، بہ کوشش فہیم محمد شلتوت، حجاز، ۱۳۹۹ق/۱۹۷۹م۔
  • ابن شہر آشوب، محمد، مناقب آل ابی طالب، قم چاپخانہ علمیہ۔
  • ابن طاووس، علی، اقبال الاعمال، تہران ۱۳۲ق۔
  • ابن طاووس، علی، سعد السعود، نجف،۱۳۶۹ق/۱۹۵۰م۔
  • ابن طیفور، احمد، کتاب بغداد، بہ کوشش محمد زاہد کوثری، قاہرہ، ۱۳۶۸ق/۱۹۴۹م۔
  • ابن عساکر، علی، تاریخ مدینہ دمشق، (عمان)، دارالبشیر۔
  • ابن عنبہ، احمد، عمدۃ الطالب، نجف ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱م۔
  • ابن قیم جوزیہ، محمد، زادالمعاد، در حاشیہ شرح المواہب۔
  • ابن قیم جوزیہ، محمد، ہدایۃ الحیاری، بہ کوشش سیف الدین کاتب، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰م۔
  • ابن قیم جوزیہ، محمد، جلاءالافہام، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • ابن کثیر، اسماعیل، الفصول فی سرہ الرسولؐ، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • ابن ندیم، الفہرست۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بہ کوشش طہ عبدالرئوف سعد، بیروت، ۱۹۷۵م۔
  • ابوحاتم رازی، احمد، اعلام النبوۃ، بہ کوشش صلاح صاوی و غلامرضا اعوانی، تہران، ۱۳۵۶ ش۔
  • ابوداوود سجستانی، سلیمان، سنن، بہ کوشش محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ، داراحیاء السنہ النبویہ؛
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق۔
  • الاختصاص، منسوب بہ شیخ مفید، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم جماعہ المدرسین۔
  • اربلی، علی، کشف الغمہ، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • بخاری، محمد، صحیح، ہمراہ با حاشیہ سندی، قاہرہ۔
  • برقی، احمد، رجال، بہ کوشش جلال الدین محدث ارموی، ہمراہ رجال ابن داوود حلی، تہران، ۱۳۴۲ش۔
  • بیہقی، احمد، دلائل النبوۃ، بہ کوشش عبدالمعطی قلعجی، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • ترمذی، محمد، الشمائل، ہمراہ با حاشیہ با جوری، قاہرہ، ۱۳۴۴ق۔
  • ترمذی، محمد، سنن، بہ کوشش احمد محمد شاکر و دیگران، قاہرہ، ۱۳۵۷ق/۱۹۳۸م۔
  • حاکم نیشابوری، محمد، مستدرک الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۴ق۔
  • دیوان ابی طالب، روایت ابوہفان مہزمی، نجف، ۱۳۵۶ق۔
  • دیوان حسان بن ثابت، بہ کوشش ولید عرفات، بیروت، ۱۹۷۴م۔
  • راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم،۱۴۰۹ ق۔
  • زرقانی، محمد، شرح المواہب اللدنیہ، قاہرہ، ۱۳۲۹ق۔
  • سہیلی، عبدالرحمان، الروض الانف، بہ کوشش عبدالرحمان وکیل، قاہرہ، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔
  • سیوطی، الدرالمنثور، قاہرہ،۱۳۱۴ق۔
  • سیوطی، الخصائص الکبری، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • طبَرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، نجف،۱۳۹۰ق۔
  • طوسی، محمد، رجال، نجف،۱۳۸۰ق/۱۹۶۱م۔
  • عہد جدید۔
  • عہد عتیق۔
  • فخر الدین رازی، محمد، التفسیر الکبیر، قاہرہ، المطبعہ البہیہ۔
  • القاب الرسول و عترتہ(ع)، المجموعہ النفیسہ، قم ۱۴۰۶ق۔
  • قاضی عیاض، الشفاء، بہ کوشش علی محمد بجاوی، بیروت،۱۹۷۷م۔
  • قرطبی،محمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت،۱۹۶۶م۔
  • قمی، علی، تفسیر، نجف،۱۳۸۷ق۔
  • کازرونی، محمد، نہایہ المسئول، ترجمہ کہن فارسی، بہ کوشش محمد جعفر یاحقی، تہران ۱۳۶۶ش۔
  • کراجکی، محمد، کنزالفوائد، تبریز، ۱۳۲۲ق۔
  • کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۹۱ق۔
  • ماوردی، علی، اعلام النبوہ، بہ کوشش محمد معتصم باللہ، بیروت،۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ،۱۹۵۵ م۔
  • ملاعلی قاری، جمع الشمائل، قاہرہ، ۱۳۱۸ق۔
  • نووی، یحیی، تہذیب الاسماء و اللغات، قاہرہ،۱۹۲۷م۔
  • Montgomery Watt, W۔, “His Name Is Ahmad”, The Muslim Word, New York, 1953, vol۔ XLIII