مودت اہل بیت علیہم السلام

ویکی شیعہ سے
ضریح امام حسینؑ پر آیہ مودت

مودت اہل بیت علیہم السلام سے مراد رسول اللہؐ کی اہل بیت سے مودت و محبت ہے جو سورہ شوری کی آیت 23 کے مطابق اجر رسالت قرار پائی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی طرف سے منقول حدیث نبوی میں اہل بیتؑ کی محبت کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ سید محمد تیجانی کا کہنا ہے کہ اہل بیت کی مودت واجب ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے؛ اور اسی لئے اسے تقریب مذاہب اسلامی کے لئے بہتر عامل قرار دیتے ہیں۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ کی مودت واجب ہونے کا فلسفہ ان کی اطاعت تھی۔

احادیث میں اہل بیت کی مودت کے لئے دنیاوی اور اخروی متعدد آثار ذکر ہوئے ہیں۔ اہل بیت کی شفاعت، اعمال کی قبولیت اور پل صراط پر ثابت قدمی مودت کے اخروی آثار میں سے ہیں جبکہ مرنے سے پہلے توبہ، دوسرے کے مال کی لالچ نہ ہونا، زبان پر حکیمانہ گفتگو، مودت کے دنیوی آثار میں سے ہیں۔ بعض احادیث کے مطابق اہل بیت سے مودت، انسان کا حلال زادہ ہونے اور اہل بیتؑ کے دشمنوں سے دوستی، اہل بیتؑ سے محبت نہ ہونے کی علامت قرار دئے گئے ہیں۔

محمد محمدی ری شہری، اہل بیتؑ کی عزاداری کو ان سے محبت کے اظہار کا ایک طریقہ قرار دیتے ہیں؛ اسی طرح زیارت قبور ائمہؑ، ان کی خوشی میں خوشی منانا، اپنے بچوں پر ان کے نام رکھنا اہل بیت سے محبت کی ایک اور نشانی ہے۔ بعض محققین نے اہل سے محبت بڑھانے کے کچھ طریقے بیان کئے ہیں جن میں اہل بیتؑ کی فضیلت اور ان کی تہذیب کو بیان کرنا نیزعزاداری قائم کرنا شامل ہیں۔

بعض افراد نے روایات سے استناد کرتے ہوئے آخرت کی سعادت تک پہنچنے کے لئے اہل بیتؑ کی محبت کو کافی سمجھا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ اس طرح کی محبت ہوتے ہوئے گناہ کا مرتکب ہونا آخرت کو خراب نہیں کرتا ہے۔ لیکن شیعہ علما اس طرح کی اباحہ گری کو نہیں مانتے ہیں، اور ان احادیث کا کچھ اور معنی بیان کیا ہے۔ مثلا کہا ہے کہ ایسی احادیث ان گناہوں سے مربوط ہیں جو غفلت کی وجہ سے سرزد ہوئے ہیں، اور جان بوجھ کر انجام پانے والے گناہ اس میں شامل نہیں۔

مودت اہل بیت کے موضوع پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں «حبّ اہل البیت فی الکتاب و السنة» بقلم محمد تقی السید یوسف الحکیم اور علی رضا عظیمی فر کی کتاب «قرآن و محبت اہل بیت(ع)» شامل ہیں۔

اہمیت

مودت اہل بیتؑ ایک اصطلاح ہے جسے سورہ شورا کی آیت نمبر 23 سے اخذ کیا ہے جو آیہ مودت سے مشہور ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے اہل بیتؑ سے مودت کو اجرِ رسالت قرار دیا ہے۔[1] محمد رضا مظفر جیسے بعض شیعہ علما نے اہل بیت کی محبت کو ضروریات دین میں شمار کیا ہے۔[2] زیارت جامعہ کبیرہ میں اہل بیتؑ کی محبت کو اللہ سے محبت [3] اور شیعہ و سنی سے منقول احادیث میں اہل بیتؑ کی محبت کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔[4] امام باقرؑ کی ایک روایت میں محبت اہل بیتؑ کو ایمان اور ان سے دشمن کو کفر قرار دیا گیا ہے۔[5]

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ علامہ حلی اسی مودت سے امام علیؑ کی امامت اور شیعوں کی حقانیت پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام علیؑ کی مخالفت ان سے مودت کے منافی ہے جبکہ امام علیؑ کی مودت واجب ہے اور دوسرے خلفاء کی مودت واجب نہیں۔[6]

اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں سے شافعی مذب کے فقیہ شافعی سے منقول ہے:

إنْ كانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدفَلْيَشْہد الثََقلان أنّى رافِضی[7]
اگر آل محمدؐ کی محبت سے کوئی رافضی ہوتا ہے تو پھر ثقلین گواہ رہے کہ میں بھی رافضی ہوں

مودّت کو محبّت[8] اور تولّی[9] یا محبت سے بالاتر مرتبہ[10] اور اللہ سے محبت کی ایک شاخ قرار دی گئی ہے۔[11]

تعظیم شعائر

شیعہ حدیث کے محقق محمد محمدی ری شہری عزادری اہل بیتؑ کو اہل بیت سے اظہار محبت کا طریقہ اور تعظیم شعائر کا اہم مصداق سمجھتے ہیں۔[12] اسی طرح قبور ائمہ کی زیارت[13] ان کی خوشی میں خوشی منانا،[14] ان کے فضائل کو بیان کرنا[15] اور اپنے بچوں پر اہل بیتؑ کے نام رکھنے کو اہل بیتؑ سے اظہار محبت کا طریقہ سمجھتے ہیں۔[16]

اہل بیت کی مودت کا وجوب

آیہ مودت

قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَن یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَکُورٌ

ترجمہ: آپؐ کہئے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسکی نیکی میں اضافہ کردیں گے یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا(اور) بڑا قدردان ہے۔

قرآن، سورہ شوری آیہ 23

بعض محققین مودت کو اہل بیت کا مسلمانوں پر حھ،[17] مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ[18] اور وحدت اسلامی کا مناسب عنصر قرار دیتے ہیں۔[19] بعض شیعہ علما کے مطابق اہل بیت کی محبت واجب ہونے پر تمام مسلمانوں (ناصبیوں کے علاوہ) متفق ہیں۔[20] اہل سنت عالم دین شمس الدین ذہبی بھی محبت اہل بیتؑ واجب ہونے میں ہر قسم کے شک و شبہے کو نفی کرتے ہیں۔[21] اہل سنت مفسر قرآن فخر رازی محبت اہل بیت واجب ہونے پر یوں استدلال کرتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین سے محبت کرتے تھے اور پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کرنا امت اسلامی پر واجب ہے پس اہل بیتؑ کی محبت بھی واجب ہے۔[22] شافعی سے نقل ہوا ہے:

یا أہلَ بیتِ رسولِ اللہ حُبُّکُمفَرضٌ مِنَ الله فِی القرآنِ أنزَلَهُ[23]
اے اہل بیت رسول اللہ، تمہاری محبت اللہ کی طرف سے واجب اور قرآن میں نازل ہوئی ہے۔

مودت کے وجوب کا راز

تفسیر المیزان کے مؤلف علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ اہل بیت کی محبت واجب ہونے کا راز ان کا علمی مرجع ہونا ہے تاکہ وہ محبت کی وجہ سے علمی مسائل میں اہل بیتؑ کی طرف رجوع کریں؛ اسی لئے طباطبائی اہل بیتؑ کی محبت کو دین کے بقا کا ضامن سمجھتے ہیں۔[24] چودہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین محمدرضا مظفر کی نظر میں اہل بیت کی مودت کا واجب ہونا، ان کا اللہ سے قرب اور اس کے ہاں مقام منزلت کی وجہ سے ہے اور وہ شرک اور ہر اس گناہ سے منزہ اور پاک ہیں جو اللہ کی دوری کا باعث بنتا ہے۔[25] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ خامنہ ای اس مودت کو اہل بیت کی اطاعت کا ایک سہارا سمجھتے ہیں اور وہ قائل ہیں کہ مودت کا اظہار سے افراد میں اہل بیت کی ولایت محفوظ ہوتی ہے۔[26] پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین محمدتقی مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ کی محبت پیغمبر اکرمؐ سے رشتہ داری کی وجہ سے لازم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کی محبت اس وجہ سے واجب ہوئی ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کے عروج پر ہیں۔[27] اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ اس مودت کا واجب ہونے کا فلسفہ ان کی اطاعت کرنا ہے اور حقیقی مودت صرف اطاعت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔[28] شیعہ معاصر مورخ جواد محدثی کہتے ہیں کہ جس قدر محبت زیادہ ہوگی اسی حساب سے پیروی اور اطاعت میں بھی اضافہ ہوگا۔[29]

آثار

محققین مودت اہل بیت کو کمال مطلق کی طرف حرکت،[30] محبان اہل بیت کا ایک دوسرے سے قلبی رابطہ[31] اور دین میں نظم اور سالمیت کا باعث سمجھا ہے۔[32] امام علیؑ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے پانچویں صدی ہجری کے اہل سنت علما ابونعیم اصفہانی اور عبیداللہ حسکانی کہتے ہیں کہ صرف مومنین اہل بیتؑ کی مودت کا پاس رکھتے ہیں۔[33]

اخروی آثار

ایک حدیث نبوی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور ان کی اہل بیتؑ سے محبت سات جگہوں پر کام آتی ہے: 1۔ موت کے وقت 2. قبر میں 3. قیامت میں 4. نامہ اعمال لیتے ہوئے 5. حساب و کتاب کے وقت 6. میزان کے وقت 7. پُل صراط سے عبور کرتے ہوئے.[34] ایک اور روایت اہل سنت نے نقل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص اہل بیتؑ کی محبت کے ساتھ مر جائے، شہید کی طرف گناہوں کی مغفرت اور پورے ایمان کے ساتھ مر گیا ہے اور موت کے وقت اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے اور اس کی قبر سے دو دروازے بہشت کی جانب کھلتے ہیں اور اللہ تعالی فرشتوں کو اس کے قبر کے زائر قرار دیتا ہے۔[35] اہل بیتؑ کی محبت کے دیگر آثار درج ذیل ہیں:

  • شفاعت کا حقدار ٹھہرنا؛ [36]
  • اہل بیت کے ساتھ محشور ہونا؛ [37]
  • اعمال کی قبولیت؛[38]
  • باقیات صالحات؛[39]
  • پل صراط پر ثابت قدمی؛[40]
  • گناہوں کی مغفرت؛[41]

دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابن حجر ہیتمی حدیث باب حِطّۃ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ جس طرح سے بنی اسرائیل کے گناہ ان کے بابِ حطہ سے گزرنے کی وجہ سے معاف ہوئے تھے اسی طرح امتِ اسلامی کے گناہ بھی مودت اہل سے معاف ہوجاتے ہیں۔[42]

دنیوی آثار

ایک حدیث نبوی میں محبت اہل بیت کے درج ذیل دنیوی آثار ذکر ہوئے ہیں: زہد، کام کرنے کا شوق، دین میں پارسائی، عبادت کا شوق، موت سے پہلے توبہ، شب بیداری، دوسروں کے مال کی طرف لالچ نہ ہونا، عفو و بخششمسی، اللہ کے امر و نہی میں اطاعت اور دنیا کی محبت نہ ہونا اہم آثار میں سے ہیں۔[43] امام باقرؑ کی ایک روایت میں اہل کی محبت، دلوں کو پاک کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔[44] امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق دل میں اہل بیت کی محبت زبان کو حکمت آمیز بناتی ہے۔[45]

مودت کی علامتیں

امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق اہل بیت کی محبت اور ان کے دشمنوں سے محبت دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اہل بیت کے دشمن سے محبت کرتا ہے تو وہ اہل بیتؑ کا حقیقی محب نہیں ہے۔[46] اسی طرح امام علیؑ کی ایک روایت کے مطابق جو شخص محب اہل بیتؑ سے محبت نہیں کرتا ہے وہ اہل بیتؑ کا سچا محب نہیں ہے۔[47] ایک اور حدیث کے مطابق بےغیرت لوگ، زنا زادے، جن کا نطفہ حیض کے دوران ٹھہرا ہے اور وہ لوگ جو خود کو عورتوں کی شکل میں ڈھلتے ہیں وہ اہل بیت کے محب نہیں ہیں۔[48] ایک حدیث میں بھی اہل بیت کی محبت کو ولادت کی طہارت کی علامت قرار دیا ہے۔[49] اسی طرح عمل میں اہل بیت کی اطاعت کرنا اس شخص کی اہل بیت سے محبت میں سچائی کی دلیل قرار دیا ہے۔[50]

محبتِ اہل بیت سے گناہ ختم ہونا

کتاب «مودة اہل البیت و فضائلہم فی الکتاب و السنة» محبت اہل بیت کے موضوع پر محمدتقی السید یوسف الحکیم کی کتاب

بعض دیندار لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اہل بیت کی محبت سے ہر گناہ ختم ہوجاتا ہے اور گناہ سے محبِ اہل بیت کی سعادت کو ضرر نہیں پہنچا سکتا ہے۔[51] حوزہ علمیہ کے محقق علی نصیری کا کہنا ہے کہ مودت اہل بیتؑ سے گناہ ختم ہونے کا کو علمی استدلال نہیں ہے۔ یہ بات ایک حدیث سے استناد کیا ہے[52] جس میں کہا گیا ہے کہ علی کی محبت ایک نیکی ہے جسے کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچا سکتا ہے اور علی سے دشمنی ایک گناہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی کام نہیں آسکتی ہے۔[53]

محقق بحرانی ([[سنہ 1075 ہجری|1075ھ-1121ھ) اس حدیث کو مستفیضہ سمجھتے ہیں۔[54] لیکن بعض شیعہ علما نے اس حدیث کا ایک اور معنی بھی ذکر کیا ہے جو گناہ ختم ہونے سے مطابق نہیں ہے؛[55] مثلاً شیعہ متکلم شیخ مفید احتمال دیتے ہیں کہ ایسے گناہگار افراد کو برزخ میں عذاب دیا جائے گا اور قیامت کے دن گناہ سے پاک ہونگے اور جہنم سے نجات پائیں گے۔[56] بعض محققین کا کہنا ہے کہ صرف وہ گناہ اہل بیتؑ کی محبت سے معاف ہونگے جو غلطی اور غفلت سے انجام پائے ہیں۔ جان بوجھ کر انجام دئے جانے والے گناہ معاف نہیں ہونگے۔[57]

علی نصیری کا کہنا ہے کہ یہ عقیدہ لوگوں کا اپنے علما اور فقہا کے فتوے کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے بن گیا ہے۔[58] جواد محدثی محبت اہل بیت کا ادعا اورساتھ میں گناہ کی انجام دہی کو تضاد سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے سچی محبت وہ ہے جو پیروی اور اطاعت کا باعث بنے۔[59] فقہ الرضاؑ (امام رضا سے منسوب کتاب) میں عمل صالح اور محبت اہل بیت کا باہم دوطرفہ رابطہ قرار دیا گیا ہے اس طرح سے کہ ایک کے بغیر دوسرا قبول نہیں ہے۔[60] امام باقرؑ کی ایک روایت میں ہر وہ شخص جو اللہ کی اطاعت کرے اسے محب اہل بیتؑ اور جو اللہ کے احکام کی مخالفت کرے اسے اہل بیتؑ کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔[61]

مونوگراف

محبت اہل بیتؑ کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  • «مودة اہل البیت و فضائلہم فی الکتاب و السنة» و «حبّ اہل البیت فی الکتاب و السنة» مولف، محمدتقی السید یوسف الحکیم؛ یہ دونوں کتابیں پانچ ابواب پر مشتمل ہیں۔ پہلی کتاب سنہ 1419ھ کو[62] اور دوسری کتاب سنہ 1424ھ کو زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔[63]
  • «قرآن و محبت اہل بیت(ع)» تالیف علی رضا عظیمی فر؛ اس کتاب میں قرآن کی نظر میں اہل بیت کی محبت پر تحقیق ہوئی ہے اور کتاب کے آخر میں آیہ مودت کے بارے میں اہل سنت کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔[64]
  • «مبانی نظری و عملی حبّ اہل بیت(ع)»، تألیف اصغر طاہرزادہ؛ یہ کتاب مؤلف کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔[65]
  • «محبت نجات بخش» تالیف، عبدالرضا جمالی؛ اس کتاب میں مؤلف نے محبت اہل بیتؑ کے دنیوی اور اخروی آثار کو بیان کیا ہے۔[66]


متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. بشوی، حقوق اہل بیت(ع) در تفاسیر اہل سنت، 1434ھ، ص103.
  2. مظفر، عقائد الامامیہ، 1387شمسی، ص72؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیہ الاثنی عشریة، 1413ھ، ج3، ص181.
  3. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص613.
  4. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص46؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص364؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج43، ص241.
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص188.
  6. علامہ حلی، منہاج الکرامة، 1379شمسی، ص122.
  7. شافعی، دیوان الامام الشافعی، قاہرہ، ص89.
  8. فخلعی، آشنایی با پیشینہ، مبانی و دیدگاہ ہای مذہب شیعہ، 1387شمسی، ص118
  9. فخلعی، آشنایی با پیشینہ، مبانی و دیدگاہ ہای مذہب شیعہ، 1387شمسی، ص123.
  10. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص166؛ جوادی آملی، تسنیم، 1389ھ، ج6، ص50-51.
  11. امینی و دیگران، «ہم سنجی ارزش اخلاقی اتحاد و الفت با مودت ذی القربی و تأثیر آن در رشد معنوی انسان از دیدگاہ قرآن و حدیث»، ص11.
  12. محمدی ری شہری، فرہنگ نامہ مرثیہ سرایی و عزاداری سیدالشہدا، 1387شمسی، ص11-12.
  13. اکبریان، «محبت اہل بیت(ع) در قرآن»، ص42.
  14. اکبریان، «محبت اہل بیت(ع) در قرآن»، ص44.
  15. خادمی، «محبت بہ پیامبر و اہل بیت از دیدگاہ قرآن و روایات»، ص25.
  16. خادمی، «محبت بہ پیامبر و اہل بیت از دیدگاہ قرآن و روایات»، ص26.
  17. بشوی، حقوق اہل بیت(ع) در تفاسیر اہل سنت، 1434ھ، ص103.
  18. فخلعی، آشنایی با پیشینہ، مبانی و دیدگاہ ہای مذہب شیعہ، 1387شمسی، ص119
  19. تسخیری، وحدت اسلامی بر پایہ مرجعیت علمی اہل بیت(ع)، 1388شمسی، ص92.
  20. مظفر، عقائد الامامیہ، 1387شمسی، ص72؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیہ الاثنی عشریة، 1413ھ، ج3، ص181؛ تیجانی، فاسئلوا اہل الذکر، 1427ھ، ص237.
  21. ذہبی، المنتقی من منہاج الاعتدال، 1413ھ، ص451-452.
  22. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج27، ص595.
  23. شافعی، دیوان الامام الشافعی، قاہرہ، ص121.
  24. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج18، ص46-47.
  25. مظفر، عقائد الامامیہ، 1387شمسی، ص73.
  26. خامنہ ای، «بیانات در دیدار با جمعی از طلاب و روحانیون»، در سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ ای.
  27. مصباح یزدی، پندہای امام صادق(ع) بہ رہ جویان صادق، 1391شمسی، ص309.
  28. ربانی گلپایگانی، «درس امامت»، در سایت مدرسہ فقاہت.
  29. محدثی، «راہ ہای ایجاد محبت اہل بیت در نوجوانان و جوانان»، ص11.
  30. ہاشمی و دیگران، «کارکردہای تربیتی مودت اہل بیت(ع)»، ص22.
  31. ہاشمی، «کارکردہای تربیتی مودت اہل بیت(ع)»، ص23.
  32. امینی و دیگران، «ہم سنجی ارزش اخلاقی اتحاد و الفت با مودت ذی القربی و تأثیر آن در رشد معنوی انسان از دیدگاہ قرآن و حدیث»، ص20.
  33. اصبہانی، تاریخ اصبہان، 1410ھ، ج2، ص134؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص205.
  34. شیخ صدوق، خصال، 1362شمسی، ج2، ص360.
  35. ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج8، ص314.
  36. برقی، المحاسن، 1371شمسی، ج1، ص61.
  37. خزاز رازی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص300.
  38. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص364.
  39. شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص86.
  40. ابن اشعث، اشعثیات، مکتبة النینوی، ص182.
  41. شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص164.
  42. ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2، ص447.
  43. شیخ صدوق، خصال، 1362شمسی، ج2، ص515.
  44. قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص372.
  45. برقی، محاسن، 1371شمسی، ج1، ص61.
  46. قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص172.
  47. شیخ مفید، امالی، 1413ھ، ص334.
  48. قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص178.
  49. برقی، محاسن، 1371شمسی، ج1، ص138.
  50. خادمی، «محبت بہ پیامبر و اہل بیت از دیدگاہ قرآن و روایات»، ص24.
  51. نصیری، «اباحہ گری، آفت دین داری»، ص12.
  52. نصیری، «اباحہ گری، آفت دین داری»، ص12.
  53. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص335؛ ابن شہر آشوب، المناقب، 1379ھ، ج3، ص197.
  54. محقق بحرانی، الاربعون، 1417ھ، ص105.
  55. نصیری، «اباحہ گری، آفت دین داری»، ص12.
  56. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص75-76
  57. ترکاشوند، «محبت اہل بیت و رستگاری»، ص24.
  58. نصیری، «اباحہ گری، آفت دین داری»، ص14.
  59. محدثی، «راہ ہای ایجاد محبت اہل بیت در نوجوانان و جوانان»، ص15.
  60. منسوب بہ امام رضا(ع)، فقہ الرضا، 1406ھ، ص339.
  61. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص75.
  62. الحکیم، مودة اہل البیت و فضائلہم فی الکتاب و السنة، 1419ھ۔
  63. الحکیم، حبّ اہل البیت فی الکتاب و السنة، 1424ھ۔
  64. عظیمی فر، قرآن و محبت اہل بیت(ع)، 1394ہجری شمسی۔
  65. طاہرزادہ، مبانی نظری و عملی حبّ اہل بیت(ع)، 1390شمسی، ص4.
  66. جمالی، محبت نجات بخش، 1393ہجری شمسی۔

مآخذ

  • ابن اشعث، محمد بن محمد، اشعثیات، تہران، مکتبة النینوی، بی تا.
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، المناقب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن الحسن، تاریخ دمشق، بی جا، دار الفکر، 1415ھ۔
  • اصبہانی، ابونعیم، تاریخ اصبہان، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1410ھ۔
  • اکبریان، سید محمد، «محبت اہل بیت(ع) در قرآن»، در مجلہ رہ توشہ، شمارہ 115، بہار و تابستان 1398ہجری شمسی۔
  • الحکیم، محمدتقی السید یوسف، حبّ اہل البیت فی الکتاب و السنة، ہلند، مؤسسة الفکر الاسلامی، 1424ھ۔
  • الحکیم، محمدتقی السید یوسف، مودة اہل البیت و فضائلہم فی الکتاب و السنة، قم، الرسالة، 1419ھ۔
  • امینی، صدیقہ، و دیگران، «ہم سنجی ارزش اخلاقی اتحاد و الفت با مودت ذی القربی و تأثیر آن در رشد معنوی انسان از دیدگاہ قرآن و حدیث»، در مجلہ مطالعات فرہنگی و اجتماعی حوزہ، شمارہ 11، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دار الکتب الاسلامیة، 1371ہجری شمسی۔
  • بشوی، محمدیعقوب، حقوق اہل بیت(ع) در تفاسیر اہل سنت، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، 1434ھ۔
  • ترکاشوند، حسن، «محبت اہل بیت و رستگاری»، در مجلہ فرہنگ زیارت، شمارہ 26، فروردین 1395ہجری شمسی۔
  • تسخیری، محمدعلی، وحدت اسلامی بر پایہ مرجعیت علمی اہل بیت(ع)، ترجمہ جلال میرآقایی، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • تیجانی، محمد، فاسئلوا اہل الذکر، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1427ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جمالی، عبدالرضا، محبت نجات بخش، قم، زمزم ہدایت، 1393ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، اسراء، 1389ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • خادمی، عین اللہ، «محبت بہ پیامبر و اہل بیت از دیدگاہ قرآن و روایات»، در مجلہ رشد آموزش قرآن، شمارہ 5، 1383ہجری شمسی۔
  • خامنہ ای، سید علی، «بیانات در دیدار با جمعی از طلاب و روحانیون»، در سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ ای، تاریخ درج: 22 آذر 1388شمسی، تاریخ بازدید: 6 اسفند 1401ہجری شمسی۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الأثر فی النص علی الأئمة الاثنی عشر، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • ذہبی، شمس الدین، المنتقی من منہاج الاعتدال، ریاض، الرئاسة العامة لادارات البحوث العلمیة و الافتاء و الدعوة و الارشاد، 1413ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «درس امامت»، در سایت مدرسہ فقاہت، تاریخ درج: 2 اردیبہشت 1395شمسی، تاریخ بازدید: 6 اسفند 1401ہجری شمسی۔
  • شافعی، محمد بن ادریس، دیوان الامام الشافعی، قاہرہ، مکتبة ابن سینا بی تا.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافة، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الأمالی، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، بیروت، دار المفید، 1413ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ع)، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • طاہرزادہ، علی اصغر، مبانی نظری و عملی حبّ اہل بیت(ع)، اصفہان، لب المیزان، 1390ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • عظیمی فر، علیرضا، قرآن و محبت اہل بیت(ع)، قم، دانشکدہ اصول دین، 1394ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منہاج الکرامة، مشہد، تاسوعاء، 1379ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فخلعی، محمدتقی، آشنایی با پیشینہ، مبانی و دیدگاہ ہای مذہب شیعہ، تہران، نشر مشعر، 1387ہجری شمسی۔
  • قطب الدین راوندی، سعید بن ہبةاللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی(عج)، 1409ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • محدثی، جواد، «راہ ہای ایجاد محبت اہل بیت در نوجوانان و جوانان»، در مجلہ فرہنگ کوثر، شمارہ 29، مرداد 1378ہجری شمسی۔
  • محقق بحرانی، سلیمان الماحوزی، الأربعون حدیثاً فی اثبات امامة امیر المؤمنین، قم، المحقق، 1417ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، فرہنگ نامہ مرثیہ سرایی و عزاداری سیدالشہدا، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، پندہای امام صادق(ع) بہ رہ جویان صادق، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1391ہجری شمسی۔
  • منسوب بہ امام رضا، علی بن موسی(ع)، فقہ الرضا(ع)، مشہد، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1406ھ۔
  • نصیری، «اباحہ گری، آفت دین داری»، در مجلہ کتاب نقد، شمارہ 40، 1385ہجری شمسی۔
  • ہاشمی فاطمہ، و دیگران، «کارکردہای تربیتی مودت اہل بیت(ع)»، در مجلہ تربیت اسلامی، شمارہ 37، پاییز 1400ہجری شمسی۔
  • ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقة، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1417ھ۔