معجزہ

ویکی شیعہ سے

معجزہ، ایسا خارق العادہ کام ہے کہ جو پیغمبران الہی طبیعی اور عادی قوانین کے بر خلاف اپنی نبوت کے اثبات کیلئے انجام دیتے ہیں کہ جنہیں عام انسان انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ تحدی، معارض نہ ہونا اور مغلوب نہ ہونا معجزے کی شرائط و خصوصیات میں سے ہیں۔

شیعہ متکلمین کے عقیدے کے مطابق معجزہ قاعدۂ علیت سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا ہے نیز یہ صاحب معجزہ کی قدرت الہی سے بہرہ مند ہونے اور اس کے دعوائے صداقت کو بیان کرتا ہے۔ دینی تعلیمات میں بہت سے پیغمبروں کے معجزات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض معجزات حواس ظاہری سے قابل ادراک اور بعض عقلی ہوتے ہیں کہ عادی طور پر انسان کے حیطۂ قدرت سے خارج اور انہیں صرف عقل کے ذریعے درک کیا جا سکتا ہے۔ مُردوں کو زندہ کرنا، عصائے حضرت موسی، ید بیضا، حضرت ابراہیم کا آتش میں زندہ رہنا اور قرآن کریم بعض انبیا کے مشہور ترین معجزات ہیں۔

مفہوم شناسی

مُعجِزَہ "ع ج ز" کے مادہ سے اسم فاعل کے وزن پر ہے۔[1] ایسے کام کے معنا میں ہے جو دوسرے لوگوں کو انجام دینے سے عاجز کرتا ہے۔ دینی اصطلاح اور کلامی کی اصطلاح میں ایسے غیر معمولی کام کو کہا جاتا ہے کہ جو دعوائے نبوت اور تحدی کے ساتھ ہوتا ہے نیز کوئی دوسرا اسکے مقابلے کی توان نہیں رکھتا ہے۔[2]

ایک عمومی تعریف کے مطابق ایسا غیر عادی کام جو عنایت اور خصوصی اذن الہی سے انجام پاتا ہے اور اسکا ہدف خدا کی طرف سے دیئے گئے منصب کو اثبات کرنا ہوتا ہے۔ تحدی، معارض نہ ہونا اور مغلوب نہ ہونا اس کی پہچان اور شناخت کی علامات میں سے ہیں۔[3]

فرق

کرامت اور معجزہ

کرامت اولیائے الہی کا ایک ایسا غیر عادی فعل ہے جو نبوت کے ادعا کے ہمرا نہیں ہوتا ہے۔[4] جبکہ غیر معمولی کام کا ادعائے نبوت کے ہمرا ہونا معجزے کی شرائط میں سے ہے۔[5]

معجزہ اور جادو

متکلمین اور فلاسفہ کی طرف سے سحر اور جادو اور معجزہ اور کرامت کے درمیان فرق بیان ہوئے:

  • منشائے فعل: معجزه اور کرامت کے فعل کا مشا عنایت خداوندی سے اپنے صالح افراد سے پیدا ہوتا ہے۔ جادو، شعبدہ اور اس جیسے افعال کی مانند طرح سیکھنے اور مشق کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔
  • ہدف و انگیزه: انبیا اور صاحبان کرامت ایداف الہی حاصل کرنے کے در پے ہوتے ہیں اور وہ معجزہ اور کرامت کو دینی تعلیمات کی حقانیت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ جادوگر اکثر شہرت، مال اور مقام کی خاطر انہیں استعمال کرتے ہیں۔[6]
  • خصوصیاتِ عمل: سحر و جادو میں ایسی خصوصیات ہیں جو معجزہ اور کرامت میں نہیں ہوتی ہیں جیسے جادو کا قابل تکرار ہونا، دوسروں کو نقصان پہنچانے کا خطرہ اور دوسرے کے ہاتھوں شکست کھانا۔[7]

شرائطِ معجزہ

کلامی کتابوں میں معجزے کی مختلف چند شرائط ذکر ہوئے ہیں ۔ان میں تین شرائط تمام کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں:

  • خارق العاده یعنی غیر معمولی ہونا؛
  • دعوائے نبوت کے ساتھ ہونا؛
  • دعوی میں مطابقت ہونا اس کا معنا یہ ہے کہ معجزہ اسی بات پر ختم ہو جس کا معجزہ کرنے والے نے دعوی کیا ہو۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی کسی کنویں کے پانی کے زیادہ ہونے کا ادعا کرے اور کنویں کا پانی زیادہ ہونے کی بجائے کم ہو جائے تو یہ معجزہ نہیں ہوگا۔[8]

ہدفِ معجزہ

عقیدۂ اسلامی اور کلامی مآخذ کے مطابق معجزے سے پیغمبروں کا ہدف اپنے دعوائے نبوت کو ثابت کرنا ہوتا ہے تا کہ اس کے ذریعے لوگ ایمان لے آئیں اور انکی تعلیمات کی پیروی کر کے سعادت حاصل کریں۔[9]

معجزه اور قانون علیت

اصل علیت اور فعل اعجاز کا باہمی ارتباط کا مسئلہ بحث معجزے کے مسائل میں سے ہے۔ عالم کے اندر ہر نئی پیدا ہونے والی چیز علت کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، لیکن اس علت کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ معلوم بھی ہو۔ کوئی بھی نئی چیز کسی علت کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی ہے لیکن کسی غیر معلوم چیز کا علت ہونا ممکن ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ طبیعت انسان کے علم اور پہچان کا دائرہ کار طبیعی امور اور علمی تجربہ گاہوں تک ہی محدود ہے اور کبھی بھی وجودی یا عدمی غیر طبیعی امور کو یا انکے مؤثر ہونے کو تجرباتی وسائل و آلات کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ [10]

معجزات انبیا کا باہمی فرق

دینی منابع کے مطابق انبیا کے مختلف معجزات تھے اگرچہ وہ تمام غیر عادی ہونے مشترک تھے۔ یہ اختلاف مختلف زمانوں میں لوگوں کی معولامات اور معارف میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ حکمت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر زمانے میں اسکے انبیا کا معجزہ اسی قسم سے ہو کہ جس میں اس زمانے کے لوگ مہارت رکھتے ہوں۔ جیسا کہ حضرت حضرت موسی کے زمانے میں جادو کا فن اپنے عروج میں تھا اور اہل فن بخوبی سحر کو غیر سحر سے تشخیص دیتے تھے۔ عصا کو حضرت حضرت موسی کا معجزہ قرار دیا تا کہ جادوگر اس کے مشابہ لانے سے عاجز ہوں اور اس کے ذریعے دوسروں پر اسکی حجت اور دلیل تمام ہو سکے۔ اسی طرح حضرت حضرت عیسی کے زمانے میں طب کو رونق حاصل تھی، حضرت عیسی کو مردے زندہ کرنے، پیدائشی نابینا کو بینا کرنے کا معجزہ دیا تا کہ اسکی دیگر موجود طبیبوں پر برتری ظاہر ہو سکے اور ان لوگوں کا حضرت حضرت عیسی کے افعال کے غیر عادی ہونے کا اقرار حضرت حضرت عیسی کے ادعا پر شاہد اور ان لوگوں پر اسکی حجت تمام کرے۔[11] رسول اکرم (ص) کے زمانے میں عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اپنے عروج پر تھی، ادبا اور شعرا باہمی رقابت کرتے تھے نیز شعر کو اس زمانے میں حجاز کے اندر ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ان لوگوں کے سامنے قرآن کے معجزہ کی تاثیر کے دلائل میں سے ایک یہی امر تھا۔

اقسام

بعض مفکریں معجزے کی دو اقسام کے قائل ہیں :

اس قسم کے معجزات کی یہ خصوصیت ہے کہ عام لوگ اور دانشور حضرات بھی اسے درک کرتے ہیں اور لوگوں کیلئے اس میں زیادہ جاذبیت پائی جاتی ہے۔ لیکن جادوگری جیسے غیر عادی کاموں سے اسے تشخیص دینا زیادہ مشکل ہوتا ہے بلکہ اس کی تشخیص اس فن کے مخصوص افراد کی آگاہی اور تبحر علمی کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ جیسا کہ عصائے حضرت موسی کے معجزے میں جادو کے نہ ہونے کی تشخیص جادوگروں اور اس فن کے لوگوں سے ظاہر ہوتی ہے۔

  • عقلی معجزات: عقلی معجزه ایسا کام ہے کہ جو حواس خمسۂ ظاہریہ کے حیطہ سے باہر ہے۔ اسے صرف عقل کے ذریعے ہی جانا جا سکتا ہے۔ معجزات کی یہ قسم دانشوروں کے ذریعے دریافت ہوتی ہے جیسے غیب کی خبر دینا۔[12]

معجزات انبیا

معجزات حضرت ابراہیم

  • آگ کا ٹھنڈا ہونا
قُلْنا یا نارُ کونی‏ بَرْداً وَ سَلاماً عَلی‏ إِبْراهیم ۶۹،انبیاء
ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوکر اور حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی کا باعث بن جا۔
  • پرندوں کے ٹکڑوں کا زندہ کرنا:
وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ أَرِنی‏ کیفَ تُحْی الْمَوْتی‏ قالَ أَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلی‏ وَ لکنْ لِیطْمَئِنَّ قَلْبی‏ قالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرْهُنَّ إِلَیک ثُمَّ اجْعَلْ عَلی‏ کلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ یأْتینَک سَعْیاً وَ اعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزیزٌ حَکیم
اے رسول (ص) وہ واقعہ یاد کرو۔ جب حضرت ابراہیم (ع) نے کہا: اے پروردگار! مجھے دکھلا کہ تو مُردوں کو کیوں کر زندہ کرتا ہے؟ خدا نے فرمایا: کیا تمہارا (اس پر) ایمان نہیں ہے؟ کہا: کیوں نہیں؟ (ایمان تو ہے) مگر چاہتا ہوں کہ (آنکھوں سے دیکھوں) تاکہ (دل) کو اطمینان ہو جائے (اور اسے قرار آئے) فرمایا: چار پرندے لو۔ اور انہیں اپنے پاس اکٹھا کرو اور اپنے سے مانوس بناؤ۔ پھر (انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے) ہر پہاڑ پر ایک ٹکڑا رکھ دو۔ پھر انہیں آواز دو۔ تو وہ دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آئیں گے اور خوب جان لو کہ خدا زبردست اور حکمت والا ہے۔ (260انبیاء)

معجزاتِ حضرت موسی

فرعون، کافروں اور بنی اسرائیل پر حجت تمام کرنے کیلئے قرآن کریم نے حضرت حضرت موسی کے درج ذیل چند معجزوں کی طرف اشارہ کیا ہے:

  • نو معجزے[13]: عصا، ید بیضاء، طوفان، ٹڈیوں اور خون کی بارش، پھلوں کی کمی، قحط، قمل(ایک جاندار جس نے فصلوں کو تباہ کر دیا، مینڈک، دریائے نیل میں شگاف کا پڑنا۔
  • فَأَرْسَلْنا عَلَیهِمُ الطُّوفانَ وَ الْجَرادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفادِعَ وَ الدَّمَ آیاتٍ مُفَصَّلاتٍ فَاسْتَکبَرُوا وَ کانُوا قَوْماً مُجْرِمینَ

پھر ہم نے بھیجا ان پر عذاب، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کی صورت میں) یہ کھلی ہوئی نشانیاں تھیں مگر وہ پھر بھی تکبر اور سرکشی ہی کرتے رہے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ (133)

  • نیل میں شگاف پڑنا اور قوم کا گزر جانا:
فَأَوْحَینا إِلی‏ مُوسی‏ أَنِ اضْرِبْ بِعَصاک الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکانَ کلُّ فِرْقٍ کالطَّوْدِ الْعَظِیمِ
سو ہم نے حضرت موسی کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ چنانچہ وہ دریا پھٹ گیا اور (پانی کا) ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔(63 شعراء)
  • چشموں کا پھوٹنا:
وَ إِذِ اسْتَسْقی‏ مُوسی‏ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصاک الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَیناً قَدْ عَلِمَ کلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ..
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب حضرت موسی نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا۔ تو ہم نے کہا اپنا عصا چٹان پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اس طرح ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ (ہم نے کہا) خدا کے دیئے ہوئے رزق سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (60 بقرہ)
  • مقتول بنی­ اسرائیل کا زندہ ہونا:
إِذْ قالَ مُوسی‏ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُکمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب حضرت موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔...۔ (67بقرہ)
  • سایہ دار بادل:
وَ ظَلَّلْنا عَلَیکمُ الْغَمام
اور ہم نے (صحرا) میں تماہرے اوپر بادل کا سایہ کیا (57بقرہ)۔
  • نزول منّ و سلوی:
وَ أَنْزَلْنا عَلَیکمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوی‏ کلُوا مِنْ طَیباتِ ما رَزَقْناکم...
...اور ہم نے تم پر من و سلوی نازل کیا جو کچھ ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ....۔(57 بقرہ)
  • بنی ­اسرائیل کے سروں پر کوہ طور کا ٹھہرنا:
وَ إِذْ أَخَذْنا مِیثاقَکمْ وَ رَفَعْنا فَوْقَکمُ الطُّورَ...
...اور یاد کرو جب ہم نے تمہارے سروں پر طور اٹھا(لٹکا) کر تم سے عہد لیا.....(63بقرہ)

معجزات حضرت عیسی

قرآن کریم نے حضرت عیسی کے چند معجزوں کی جانب اشارہ کیا ہے: مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں کو بینا کرنا، پیدائشی بہرے اور برص کے مریضوں کو شفا دینا، غیب کی خبریں دینا، پرندے کے مجسمے میں زندگی پیدا کرنا:

وَ رَسُولاً إِلی‏ بَنی‏ إِسْرائیلَ أَنِّی قَدْ جِئْتُکمْ بِآیةٍ مِنْ رَبِّکمْ أَنِّی أَخْلُقُ لَکمْ مِنَ الطِّینِ کهَیئَةِ الطَّیرِ فَأَنْفُخُ فیهِ فَیکونُ طَیراً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُبْرِئُ الْأَکمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْی الْمَوْتی‏ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُنَبِّئُکمْ بِما تَأْکلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی‏ بُیوتِکمْ إِنَّ فی‏ ذلِک لَآیةً لَکمْ إِنْ کنْتُمْ مُؤْمِنین

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنائے گا۔ (اور جب وہ مبعوث ہوگا تو کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی صورت بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ اور میں خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھاتے ہو۔ اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو وہ تمہیں بتاتا ہوں بے شک اس میں تمہارے لئے (خدا کی قدرت اور میری نبوت کی) بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ (49)

ختمی مرتبت کے معزات

تفصیلی مضمون: معجزات پیغمبر

آپ کے بعض معجزے عقلی اور بعض حسی ہیں ۔آپ کے چند معجزات درج ذیل ہیں:

  • شق القمر: شیعہ اور اہل سنت مفسروں نے ذکر کیا ہے کہ رسول خدا کی مکی زندگی میں قریش نے معجزے کا تقاضا کیا تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اسی وقت چاند دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔[14][15]
اِقْتَربَتِ السّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَ اِنْ یرَوا آیةً یعْرِضُوا وَ یقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرُّ
قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر ہو کسی نشانی کو دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ تو مستقل جادو ہے (جو پہلے سے چلا آ رہا ہے)(1،2 قمر)۔

ایک روز رسول خدا نے حضرت علی کو کسی کام ست روانہ کیا جب وہ واپس آئے تو وقت نماز عصر تھا۔ پیغمبر کو علم نہیں تھا کہ حضرت علی کے نماز عصر کے پڑھ لی ہے۔ اپؐ حضرت علی کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ اسی دوران نزول وحی شروع ہو گئی۔ یہ سلسلہ سورج کے غروب کے قریب تک جاری رہا۔ اختتام وحی پر پیغمبر نے حضرت علی سے استفسار کیا نماز عصر بجا لائے ہو۔ حضرت علی نے اپنی گود میں آپؐ کے سونے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں آپکو بیدار نہیں کر سکا۔ رسول اللہ نے بارگاہ الہی میں علی کی نماز کیلئے سورج کے پلٹنے کی دعا کی۔ سورج وقت فضیلت کی مقدار تک پلٹ آیا اور حضرت علی نے نماز پڑھی۔[16][17]

  • قرآن کریم: قرآن مجید معجزات پیغمبر اسلام میں سے بزرگ ترین معجزہ ہے۔ یہ معجزه مختلف جہات سے اعجاز کا حامل ہے اور چند جہت سے دیگ معجزات پر برتری رکھتا ہے:
  • دیگر معجزات تنہائی اثبات نبوت کیلئے کافی نہیں ہیں بلکہ یہ ثابت ہو کہ معجزہ لانے والے نے نبوت کا ادعا کیا ہے اور اس میں نبوت کی دیگر شرائط پائی جاتی ہیں تا کہ معجزہ اس کے دعوے کی صداقت پر دلیل بن سکے۔ لیکن قرآن کریم تنہائی اظبات نبوت کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ تمام امور کر صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔
  • دیگر معجزات اپنے زمانے سے مخصوص اور صرف مشاہدہ کرنے والوں کیلئے معجزہ ہیں اور دوسروں کیلئے نبوت کو ثابت نہیں کرتے ہیں۔ مگر یہ کہ کوئی معجزہ تواتر یا کسی ذریعے سے قطعی طور پر ثابت ہو جائیں جیسے عصائے حضرت موسی، ید بیضا، مردوں کو زندہ کرنا، سنگریزوں کا تسبیح کرنا یا انکی مانند دیگر معجزات جبکہ قرآن ہر زمانے، ہر کسی کیلئے روز قیامت تک کیلئے معجزہ ہے۔
  • ہر سورت تنہا معجزہ ہے، دوسرے معجزوں کے برعکس جو کہ مجموعی طور پر اور اسکے تمام اجزا کے موجود ہونے کی صورت میں معجزہ شمار ہوتے ہیں۔
  • دیگر معجزات صرف ایک جہت سے معجزہ ہوتے ہیں لیکن مختلف جہات سے معجزہ ہے۔[18]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. کشاف اصطلاحات الفنون، ج۲، ص۱۵۷۵
  2. مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ جرجانی، التعریفات، ص۹۶
  3. [1]
  4. سجادی، فرهنگ معارف اسلامی، ج۳، ص۱۵۶۹
  5. جرجانی، التعریفات، ص۷۹
  6. مکارم شیرازی، ج۸، ص۳۵۸
  7. رضائی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قران، ص۶۴ و۶۵
  8. نک: مفید، الارشاد، ص۱۲۶-۱۲۹
  9. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۲۱۹-۲۲۳
  10. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۲۲۶-۲۲۷
  11. طیب حسین، ج۱، ص۴۲
  12. معجزه شناسی، سعیدی روشن، ص۱۰۴
  13. اسراء 101
  14. قمی، ج۲، ص۳۴۱
  15. ابن شہر آشوب، ج۱، ص۱۶۳
  16. ابن عطیہ، ج۱، ص۷۹۱
  17. مسعودی، ابو الحسن، ص۱۵۳
  18. طیب حسین، ج‏۱، ص۴۱

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، مناقب، تحقیق: بقاعی، بیروت۔
  • ابن عطیہ، ابهی المراد، بیروت، مؤسسہ اعلمی، ۱۴۲۳ھ۔
  • جرجانی، میر سید شریف، التعریفات، تہران، ناصر خسرو، ۱۴۱۲ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، محاضرات فی الالهیات، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۴۲۸ھ۔
  • رضائی، محمد علی، پژوہشی در اعجاز علمی قران، رشت، کتاب مبین، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • سعیدی روشن، محمد باقر، معجزه شناسی، قم، بی‌نا۔
  • سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، دانشگاه تہران، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۸ہجری شمسی، چاپ دوم۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسر قمی، تحقیق: سید طیب موسوی جزائری، چاپ دارالکتاب، قم، ۱۳۶۷ہجری شمسی، چاپ چهارم۔
  • مسعودی، ابوالحسن، اثبات الوصیہ للامام علی‌بن ابیطالب، قم، انصاریان، ۱۴۲۳۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقائد، تہران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • مفید، النکت الاعتقادیہ، قم، الموتمر العالمی، ۱۴۱۳ھ۔
  • مفید، الارشاد فی معرفۃ الحجج علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔