غزوۂ بنی لحیان

ویکی شیعہ سے
غزوہ بنی لحیان
سلسلۂ محارب:
رسول خداؐ کے غزوات
فائل:بنی لحیان.png

تاریخ
مقام غران،
محل وقوع خلیص اور عسفان کے درمیان ایک وادی، "المقر" نامی دیہ کے قریب مکہ سے 90 کلومیٹر اور عسفان سے 5 کلومیٹر دور۔
نتیجہ دشمن بھاگ گیا اور قریش مسلمانوں کے مد مقابل نہیں آسکے۔
سبب قریش کے حوصلے پست کرنا اور بنو لحیان کو سزا دینا جنہوں نے 6 مسلم مبلغین کو قتل کیا تھا۔
ملک حجاز
فریقین
مسلمان بنو لحیان
قائدین
حضرت محمدؐ


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ


غزوہ بنی لحیان رسول خداؐ کے غزوات ميں سے ایک ہے۔ بنو لحیان نے رجیع کے قریب نہتے مبلغین کو قتل کیا تھا چنانچہ آپؐ نے ان سے بدلہ لینے کا ارادہ کیا۔ غزوہ بنی قریظہ کے بعد مدینہ کی حالت سنبھل گئی تو آپؐ نے بنو لحیان کی طرف عزیمت کی اور بطن غران تک پیشقدمی کی۔ انھوں نے مسلم مبلغین کے مقام شہادت پر دو روز قیام کیا لیکن بنو لحیان کا کوئی آدمی ان کے ہاتھ نہیں لگا۔

غزوہ کی تاریخ

کتاب المغازی کے مؤلف واقدی نے اگرچہ ابتداء میں لکھا ہے کہ یہ غزوہ ربیع الاول کے آغاز میں واقع ہوا لیکن اس تاریخی واقعے کے آخر میں لکھا ہے کہ واقعہ ماہ محرم الحرام سنہ 6 ہجری کو رونما ہوا؛ لکھتے ہیں: وغاب رسول الله صلی الله علیه و سلم عن المدینة اربع عشرة لیلة وکان استخلف عن المدینة ابن ام مکتوم وکانت سنة ست فی المحرم۔[1]
ترجمہ: اور رسول خداؐ 14 دن تک مدینہ سے دور رہے اور مدینہ میں ابن ام مکتوم کو بطور جانشین مقرر کیا اور یہ سنہ 6 ہجری کا ماہمحرم تھا۔[2] ابن خلدون (متوفی 808 ہجری) نے بھی واقدی (متوفی 207 یا 209 ہجری) کی رائے اختیار کی ہے۔[3]

غران

غران خلیص اور عسفان کے درمیان ایک وادی کا نام ہے جو "مقر" نامی دیہات کے قریب مکہ سے 90 کلومیٹر اور عسفان سے 5 کلومیٹر دور جبکہ مدینہ سے تقریبا 360 کلومیٹر دور ہے۔[4] سمہودی لکھتا ہے: "غُرّان وادی ازرق کا نام ہے جو امج سے ایک میل پیچھے واقع ہے"۔[5]

وہ ابن اسحاق کا حوالہ دے کر مزید لکھتا ہے: غران ایک صحرا کا نام ہے اور عسفان ایک بڑے گاؤں کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ میں واقع ہے اور مکہ سے دو روز کے فاصلے پر ہے۔۔[6]

غران ایک صحرا کا اور عسفان ایک بڑے گاؤں کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ میں واقع ہے اور مکہ سے دو روز کے فاصلے پر ہے۔۔[7]

بنو لحیان

قبیلۂ بنی لحیان عدنانی عربوں کے قبیلے ہذیل بن مدرکہ کا ذیلی قبیلہ تھا؛ وہ مکہ کی حدود میں واقع غران کے علاقے میں سکونت پذیر تھے (جو امج (یا امح) ) اور عسفان کے درمیان واقع ہے۔[8] قبیلہ بنی لحیان بنو اسد کی شاخوں میں شمار ہوتا تھا۔[9]

عمر کحالہ اپنی کتاب معجم قبائل العرب میں لکھتا ہے: بنو لحیان ہذیل کے خاندانوں میں سے ایک تھا جو مکہ کے مشرق میں سکونت پذیر تھا۔[10]۔[11]۔[12] وہ بنو جرہم کی نسل سے تھے جن کا تعلق قحطانیوں سے تھا۔[13] لحیان بن ہذیل: عدنانی نسل سے ہے وہ بنو لحیان بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن عدنان ہیں۔ ظہور اسلام سے قبل حجاز کے شمالی علاقوں میں ان کی حکومت قائم تھی۔۔[14]۔[15]۔[16] قبیلہ بنو لحیان بنو اسد کی شاخوں سے تھا۔[17] اور بنو اسد قحطانی عرب تھے‎۔[18]

رجیع کا المیہ

بنو لحیان کی سازش

رجیع کا افسوسناک واقعہ ماہ صفر سنہ 4 ہجری کو رونما ہوا تھا جس میں 6 مسلم مبلغین کو بنو لحیان کی حیلہ گری سے تبلیغ کے لئے غران کے علاقے میں بلایا گیا تھا اور ان میں سے 3 افراد کو وہیں شہید کیا گیا اور 3 کو قریش سے انعام کی لالچ میں مکہ کی جانب لے جایا گیا اور ان سے ایک نے دشمن کے ہاتھوں سے فرار ہونے کی کوشش میں جام شہادت نوش کیا جبکہ 2 کو قریشیوں نے تختۂ دار پر لٹکا کر شہید کیا۔[19]

تفصیلی واقعہ

شمالی حجاز کے بعض عرب قبائل ـ منمجلہ عضل اور قارہ ـ نے بنو لحیان کی تحریک پر مدینہ کا سفر کیا اور مسلمانی کا اظہار کیا۔

انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے قرآن کے معلمین کی درخواست کی اور اپنے وطن واپسی کے وقت رجیع کے علاقے میں ہذیل اور بنو لحیان کی مدد سے اصحاب رسولؐ کو بےدردی سے قتل کیا۔[20]

قبیلہ بنو لحیان نے رسول خداؐ سے مبلغین بھیجنے کی درخواست کی تا کہ ان کی راہنمائیوں کی روشنی میں اسلام کو پہچان لیں اور مسلمان ہوجائیں۔ آپؐ نے اپنے 6 صحابیوں کو ان کی درخواست پر تبلیغ کے لئے روانہ کیا، مرثد غنوی کو اور بقولے عاصم بن ثابت کو ن کا امیر مقرر فرمایا اور ان کو ہدایات دیں۔[21] مبلغین میں مرثد غنوی، خالد لیثی، عاصم بن ثابت، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق شامل تھے۔[22]

مبلغین آئے ہوئے سازشی عناصر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب مدینہ سے بالکل دور رجیع کے مقام پر پہنچے تو مشرکین نے اپنی خیانت آشکار کردی اور ان کے قتل کا ارادہ کیا۔

مسلم مبلغین دفاع کے لئے تیار ہوئے خائن دشمنوں کے ساتھ لڑ پڑے لیکن ان کی تعداد کم تھی اور کچھ کرنے سے قاصر تھے چنانچہ دشمن نے مرثد، خالد اور عاصم کو شہید کردیا اور باقی 3 افراد قید کرلئے گئے۔ خالد بن طارق نے بیچ راستے ہاتھ پاؤں پر بندھی رسیاں کھول دیں اور دشمن کے ہاتھ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ لڑا اور نہایت مظلومیت کی حالت میں شہید ہوئے۔

دشمن کے گماشتے باقی دو افراد یعنی خبیب اور زید کو ـ جو ان کی قید میں تھے ـ مکہ لے گئے اور قریش کے سرغنوں کے سپرد کیا۔[23]

بایں حال جعفریان بحوالہ المغازی اور وہ بروایت "عروہ بن زبیر" لکھتا ہے کہ "رسول خداؐ نے اصحاب رجیع (یعنی مذکورہ 6 اور بروایتے 10 صحابیوں کو جاسوسی کی غرض سے مکہ روانہ کیا تھا لیکن رجیع کے علاقے میں انہیں بنو لحیان کی مزآحمت کا سامنا کرنا پڑا۔[24]۔[25] گوکہ زیادہ تر مؤرخین نے اس روایت کو قابل اعتنا نہیں سمبجھا ہے۔

رسول اللہؐ کا رد عمل

روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ناخوشگوار واقعے کے بعد، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ارد گرد کے حالات اور یہودیوں، منافقین اور مشرکین کی سازشوں کے پیش نظر مدینہ سے باہر نہیں نکلے۔

گوکہ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے واقعے کی خبر پاکر بنی لحیان کا تعاقب فرمایا اور مشرکین کو رسول خداؐ کی عزیمت کی خبر ملی تو انھوں نے ان دو اسیروں پر تشدد کیا اور اور ان سے کہا کہ رسول خداؐ (جو خبر پاکر محرم الحرام کے مہینے میں بنو لحیان کے تعاقب کے لئے نکلے تھے) کہ "محمدؐ حرام مہینے میں ہمارے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ان کے اصحاب کو ـ جو ہمارے ہاتھ میں اسیر ہیں ـ نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں۔ ۔[26] لیکن انھوں نے ماہ صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی انہیں شہید کردیا۔ [27]

سازشی قبائل پر لعن و نفرین

رسول خداؐ نے المیۂ رجیع کی خبر پا کر بنو لحیان، عضل اور قارہ پر لعن و نفرین کرتے ہوئے دعا کی: "خداوندا! بنو لحیان، قارہ اور عضل سے ـ جنہوں نے تیری اور میری متابعت نہی کی ہے ـ بدلہ لے اور انہیں شدید قحط میں مبتلا فرما"۔

بعض روایات کے مطابق رسول اللہ(ص ایک مہینے تک نماز کے قنوت میں ان لوگوں پر (منجملہ بنو لحیان) نفرین کرتے تھے جنہوں نے واقعۂ بئر معونہ اور المیۂ رجیع پر نفرین کی‌۔[28]

غزوہ بنی لحیان

اور مسلمانوں کو سخت فکرمند کیا اور انھوں نے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق رد عمل ظاہر کیا اور اور مدینہ کا انتظام ابن ام مکتوم کو سونپا اور 200 افراد ـ جن میں 20 گھڑ سوار بھی شامل تھے ـ کو مسلح کرکے بنو لحیان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے۔

رسول خداؐ نے غزوہ بنی قریظہ کے چھ مہینے بعد مسلم سنہ 4 ہجری میں شہید ہونے والے مبلغین کے قاتلوں کی سرکوبی کے لئے غران کی جانب عزیمت فرمائی۔ آپؐ دشمن کو ناگہانی حملہ کرکے آ لینا چاہتے تھے چنانچہ ابتداء میں بظاہر شام کی جانب روانہ ہوئے اور پھر سفر کا راستہ تبدیل کرکے مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور غران میں واقع بنو لحیان کی منزلگاہ میں پہنچے؛ لیکن احتیاطی تدابیر کے باوجود دشمن کو آپؐ کی آمد کی خبر ہوئی تو انھوں نے بھاگ کر پہاڑوں کی چوٹیوں میں پناہ لی۔

مروی ہے کہ رسول خداؐ صحرا کے راستے سے کچھ اس انداز سے پیشقدمی کررہے تھے کہ دشمن کے ممکنہ جاسوس نہ سمجھ سکیں کہ آپؐ کی منزل مقصود کیا ہے اور کس کی سرکوبی مقصود ہے۔ آپؐ نے مدینہ میں بھی فرمایا تھا کہ شام کی جانب سفر پر نکل رہے ہیں۔ لیکن مکہ کے قریب "صخیرات الیمام" کے مقام پر پہنچے تو نہایت تیز رفتاری سے وادی غران کی راہ لی۔ وادی غران میں شہدائے رجیع کے مقام شہادت کی طرف مڑے اور ان کے لئے فاتحہ پڑھی اور دعا کی اور انہیں شہادت کی مبارکباد دی۔ دشمن اپنے بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں میں فرار کرچکے تھے چنانچہ آپؐ نے ان کا تعاقب نہیں کیا اور دو روز تک وہیں قیام کیا۔ اور پھر واپسی کا فیصلہ کیا۔

ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ آپؐ نے بظاہر شام کی طرف عزیمت کی جب خبر شائع ہوئی تو آپؐ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تیز رفتاری سے بطن غران کے علاقے میں بنو لحیان کے مسکن میں اسی مقام پر پہنچے جہاں اسلامی مبلغین شہید ہوئے تھے۔ آپؐ نے ان کے لئے دعا کی اور فرمایا: "تمہیں شہادت مبارک ہو"۔

آپؐ نے غران کے عوام کو اپنے عزیزوں کی شہادت پر اپنے سوگ و عزا میں شریک قرار دیا اور ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ بنو لحیان کے فتنہ پرور خائنین ـ جو آپؐ کی موجودگی سے آگاہ ہوچکے تھے، اپنی خیانت کی سزا کے خوف سے پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف بھاگ گئے۔

[یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین سے حملے کرنے اور جنگیں لڑنے کی قوت سلب ہوچکی تھی چنانچہ] آپؐ نے قریش کو مرعوب کرنے کی غرض سے مکہ سے 30 میل دور عسفان کے علاقے تک پیشقدمی کی اور اپنے دو [یا 10] صحابیوں کو کراع الغمیم روانہ کیا جس کا فاصلہ مکہ سے صرف 8 میل تھا۔ صحابیوں کو بھجوانے کا مقصد علاقے کی صورت حال کا جائزہ لینا تھا۔ اس اثناء میں کوئی جنگ نہیں ہوئی تاہم آپؐ کے اس اقدام نے قریش کو شدید خوف میں مبتلا اور مرعوب کردیا کیونکہ انہیں بہرحال مسلمانوں کے اس اقدام کی خبر مل جاتی کہ آپؐ اپنے سپہ سالار اور علمدار علی علیہ السلام اور 200 مسلمان مجاہدین کے ہمراہ کسی کے خوف و خطر کے بغیر اور کسی کی مدد مانگے بغیر صرف اللہ کی نصرت اور ذات باری تعالی پر توکل کے سہارے مکہ کے نواح تک اور دشمن کے گھر کی دہلیز تک آئے تھے۔

بہر حال آپؐ ایک دو روز تک ان کی سرزمین میں مقیم رہے اور اپنے مسلح دستے خائنین کی تلاش کے لئے اطراف میں روانہ کئے لیکن دشمن ہاتھ نہ آیا۔

آنحضرتؐ عسفان کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں سے غمیم کی جانب چلے گئے لیکن مشرکین میں سے کوئی ہاتھ نہ آیا۔

پیغمبر اسلامؐ مدینہ واپسی کے وقت شہر کے دروازے پر رک گئے اور یوں دعا فرمائی:

"خداوندا! ہم (اپنے وطن کی طرف) پلٹنے والے، تیری جانب لوٹنے اور توبہ کرنے والے اور اپنے بادشاہ اور پروردگار کے شکرگذار ہیں... بار خدایا! سفر کی دشواری، بد عاقتبتی اور انجام بد کے خوف، خاندان اور مال میں حاجتمندی، محتاجی اور بدحالی اور تمام تر احوال میں صرف تیری پناہ چاہتے ہیں...۔[29]

حوالہ جات

  1. الواقدی، المغازی، ج1، ص537۔
  2. الواقدی، المغازی، ج1، ص537۔
  3. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص421۔
  4. جعفریان، سیره رسول خداؐ، ‌ص529۔
  5. سمهودی، وفاء الوفا، ج2، ص353-345۔
  6. السمهودی، وفاء الوفا، وہی ماخذ۔
  7. السمهودی، وہی ماخذ۔
  8. جعفریان، سیره رسول خداؐ، ‌ص529۔
  9. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص421۔
  10. فؤاد حمزة، قلب جزيرة العرب، ص202۔
  11. بتنوني، لرحلة الحجازية، ص52۔
  12. نعوم شقير، تاريخ سينا، ص664۔
  13. نهاية الارب للقلقشندي مخطوط 165 – 1۔
  14. الواقدی، المغازی، فهرست قبائل۔
  15. ابن هشام، السیرة النبویة، فهرست قبائل۔
  16. رجوع کریں: کحاله، معجم قبائل العرب القديمة والحديثة، ج3، ص1010۔
  17. الواقدی، المغازی، ج1، ص355۔
  18. ۔القلقشندی، نهاﻳﺔ ﺍﻷرب فی ﻣﻌﺮﻓﺔ ﺃﻧﺴﺎﺏ ﺍﻟﻌﺮﺏ، (إبراهيم الإبياري) ج25۔
  19. ابن اثیر، الکامل في التاریخ، ج2 ص59۔
  20. جعفریان، سیره رسول خداؐ، ‌ص529۔
  21. الواقدی، المغازی، ج1، ص355۔
  22. الواقدی، وہی ماخذ۔
  23. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص421۔
  24. جعفریان، سيره رسول خداؐ، ص533۔
  25. الواقدی، المغازي، ج1، ص354۔
  26. الواقدی، المغازی، ج2، ص535۔
  27. تفصیل کے لئے رجوع کریں: غزوہ رجیع۔
  28. جعفریان، سیره رسول خداؐ، ‌ص529۔
  29. امیر فجر، میثاق، پیامبرؐ (ج)16 اسطورہ حُسن، ص48-49۔

مآخذ

  • ابن اثیر الجزری، علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد الشیبانی، الكامل في التاريخ، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان ۔ 1407 / 1987 عیسوی۔
  • ابن خلدون حَضرَمی، ابوزید عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دارالفكر، چاپ دوم، 1408 ہجری قمری۔
  • ابن هشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • اميرفجر، ميثاق، پیامبر اعظم رستاخیز جانها، مشخصات كتاب، ناشر: دفتر نشر فرہنگ اسلامی - تہران 1388 ہجری شمسی۔
  • بتنوني، محمد لبيب، الرحلة الحجازيہ، مصر: مطبعہ الجماليہ 1329 ہجری قمری۔
  • جعفریان، رسول، سیره رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم، ناشر: دلیل ما، قم، سال نشر، 1387 ہجری شمسی۔
  • سمہودی، علی بن عبدالله، وفاءالوفاء باخبار دارالمصطفی، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت 1404 ہجری قمری / 1984 عیسوی۔
  • شقير، نعوم، تاريخ سينا القديم والحديث وجغرافيتها، مصر: مطبعہ المعارف 1916 عیسوی.
  • فؤاد حمزة، قلب جزيرة العرب، القاهرہ: المطبعہ السلفيہ 1352 ہجری قمری / 1933 عیسوی۔
  • قلقشندي، شہاب الدين ابو العباس أحمد بن عبدالله، نہاية الارب في معرفہ قبائل العرب (مخطوط).
  • قلقشندي، أبو العباس أحمد بن علي (المتوفى: 821هجری)، نہاية الأرب في معرفہ أنساب العرب، المحقق: إبراہيم الإبياري الناشر: دار الكتاب اللبنانين، بيروت الطبعہ: الثانيہ، 1400 ہجری قمری / 1980 عیسوی۔
  • كحاله، عمر رضا، معجم قبائل العرب القديمہ والحديثہ، دار العلم للملايين، بيروت ـ لبنان، الطبعہ الثانيہ 1388 ہجری / 1968 عیسوی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، محقق: Marsden Jones مطبعہ: Oxford University Press سنۃ الطبع: 1966 عیسوی۔
پچھلا غزوہ:
بنی قریظہ
رسول اللہؐ کے غزوات
غزوہ بنی لحیان
اگلا غزوہ:
غزوہ ذی قرد