ابو العاص بن ربیع

ویکی شیعہ سے
ابو العاص بن ربیع
کوائف
مکمل ناملقیط بن رَبیع بن عَبْدُالعُزّی بن عَبد شَمْس
کنیتابو العاص
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسب/قبیلہقریش - بنو ہاشم
اقاربرسول اللہ، امامہ بنت ابو العاص
وفاتسنہ 12 ہجری
دینی معلومات
اسلام لاناہجرت کے چھٹے سال
جنگوں میں شرکتجنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک
ہجرتمدینہ
وجہ شہرتداماد رسول اللہ


لقیط بن رَبیع (متوفی سنہ 12 ھ) اَبوالْعاص بن رَبیع کے نام سے مشہور داماد پیغمبر (ص)، حضرت خدیجہ کا بھانجا اور رسول اللہ کی بیٹی زینب کا شوہر تھا۔

ابوالعاص نے بعثت سے پہلے زینب بنت رسول اللہ سے شادی کی اور رسول خدا مبعوث ہوئے تو مشرکین قریش نے اس سے زینب کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا لیکن اس نے قبول نہیں کیا اور اس نے زینب کو مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ ہجرت کی اجازت نہ دی۔ یہاں تک کہ جنگ بدر کے سال وہ اسیر ہوا اور اس نے پیغمبر سے اپنے کئے ہوئے وعدے کے مطابق زینب کو مدینہ روانہ کیا۔

اس نے سنہ 6 ہجری میں اسلام قبول کیا اور مدینہ ہجرت کی اور اسی پہلے والے عقد کے ساتھ زینب کے ساتھ زندگی بسر کی۔ حضرت علی کی زوجہ امامہ زینب سے ابو العاص کی بیٹی ہے۔

تعارف

لَقیط بن رَبیع بن عَبْدُ العُزّی بن عَبد شَمْس بن عبد مناف کا تعلق قبیلۂ قریش سے تھا۔ یہ حضرت خدیجہ کا بھانجا اور زینب بنت رسول اللہ کا شوہر تھا۔[1] ابو العاص اس کی کنیت ہے۔ ابن عبد البر کے مطابق پانچویں صدی ہجری کے صحابہ نے اسے زیادہ تر لقیط کے نام سے یاد کیا ہے۔[2] نیز اس کا نام قاسم[3] یا مقسّم،[4] و ہشیم یا مُہشِّم بھی بیان ہوا ہے۔[5]

ابوالعاص، ایک تاجر، ثروتمند، امانتدار اور مکہ کی مشہور شخصیات میں سے تھا۔[6] رسول خدا کے مبعوث ہونے کے موقع پر مشرکین قریش رسول اللہ کو آزار دینے کے در پے ہوئے تو انہوں نے عتبہ بن ابی‌ لہب اور ابو العاص سے اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جو کہ رسول خدا کی بیٹیاں تھیں۔ ابوالعاص نے عتبہ کے بر خلاف طلاق دینے سے انکار کیا۔[7] پیغمبر بھی اسے اچھے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔[8]

اسیری

ابوالعاص نے بعثت سے پہلے زینب بنت رسول اللہ سے شادی کی۔ بعثت کے بعد حضرت خدیجہ اور ان کی بیٹیاں ایمان لے آئیں لیکن ابوالعاص نے اسلام قبول نہیں کیا۔[9] مؤرخ مقدسی کے مطابق پیامبر اکرمؐ نے مدینہ ہجرت کے بعد بیٹیوں کو واپس لانے کیلئے ابو رافعا ور زید بن حارثہ کو مکہ روانہ کیا لیکن ابو العاص نے زینب کو مدینہ آنے کی اجازت نہیں دی۔[10]

ابو العاص غزوہ بدر میں مشرکین کی صف میں موجود تھا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوا۔[11] جب مکہ کے لوگ اپنے اسیروں کی آزادی کیلئے فدیہ ادا کر رہے تھے تو زینب نے فدیہ مدینہ بھجوایا جس میں حضرت خدیجہ کا گردن بند بھی شامل تھا۔ کہتے ہیں جب رسول اللہ کی نظر گردن بند پر پڑی آپ بہت متاثر ہوئے اور مسلمانوں کی موافقت حاصل کرنے کے بعد ابوالعاص کو آزاد کر دیا اور زینب کا مال واپس لوٹا دیا نیز ابو العاص سے عہد لیا کہ وہ زینب کو آزاد کر دے گا۔[12] پس اس نے مکہ لوٹنے کے بعد زینب کو آپؐ کے صحابہ کے ہمراہ رسول اللہ کی خدمت میں روانہ کیا[13] لیکن ایک اور روایت کے مطابق زینب نے رسول اللہ کے ساتھ ہی مدینہ ہجرت کی۔

اسلام قبول کرنا

ابو العاص نے ہجرت کے چھٹے سال اپنی بیوی زینب کے پاس پناہ حاصل کرنے کے بعد اسلام قبول کیا۔[14] وہ ہجرت کے چھٹے سال جمادی الاول میں قریش کے ایک کارواں کے ساتھ تجارت کی غرض سے راہئ شام ہوا تھا۔[15] واپسی کے دوران ان کے اور مسلمانوں کے درمیان سریہ ہوا جس کی سپہ سالاری زید بن حارثہ کے ہاتھ میں تھی۔ جس کے نتیجے میں کاروان کے کچھ لوگوں نے فرار کیا اور کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ ابو العاص نے فرار کیا تھا اور اس نے اپنے آپ کو رات کے اندھیرے میں مدینہ پہنچایا اور اسکی بیوی زینب نے اسے پناہ دی لیکن ساتھ ہی اس کی اطلاع رسول اللہ کو مسجد میں مسلمانوں کی موجودگی میں دی۔ رسول اکرمؐ نے اس کے پناہ دینے کے عمل کو قبول کیا اور دستور دیا کہ کارواں کا سارا مال و متاع لوٹا دیا جائے۔ نیز زینب سے فرمایا کہ جب تک ابو العاص مشرک ہے وہ اس پر حرام ہے۔ ابو العاص مال و متاع کے ساتھ مکہ واپس لوٹ گیا لیکن اموال کی واپسی کے دوران اس نے شہادتین اپنی زبان پر جاری کیا اور خبر دی کہ اس نے مدینہ میں اسلام قبول کیا ہے۔[16]

ابوالعاص کچھ مدت کے بعد مدینہ واپس لوٹ آیا رسول خدا نے ہجرت کے ساتویں سال محرم میں پہلے عقد پر ہی زینب کو ازدواجی زندگی گزارنے کیلئے اس کے پاس بھیج دیا۔[17] اگرچہ بعض نے کہا ہے کہ زینب ایک نئے نکاح کے ساتھ اس کے حبالۂ زوجیت میں داخل ہوئی۔[18]

زینب کے ہاں ابو العاص سے ایک بیٹا علی اور ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام امامہ بنت ابو العاص تھا۔[19] حضرت زہرا،[20] کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کی بنا پر حضرت علی نے امامہ سے عقد کیا۔[21] اس عقد کے نتیجے میں محمد اوسط حضرت علی کے یہاں پیدا ہوئے۔[22]

ابو العاص کا ہجرت کے 12ویں سال انتقال ہوا۔[23]

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۳۸۵ق، ج۴، ص۲۲۲.
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۷۰۱.
  3. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۳۸۵ق، ج۴، ص۲۲۲
  4. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۶۹م، ص۱۴۱.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۷۰۱.
  6. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۱.
  7. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۲.
  8. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۲.
  9. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۵.
  10. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۵، ص۱۸.
  11. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۲-۶۵۳.
  12. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۳؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۶.
  13. نگاہ کریں: ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۳.
  14. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳ و ۵۵۴.
  15. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۷۷، ۳۹۸.
  16. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳ و ۵۵۴.
  17. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۴؛ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۷.
  18. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۳۸۵ق، ج۴، ص۲۲۲.
  19. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۳۸۵ق، ج۶، ص۱۳۰؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۵.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۵.
  21. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۲.
  22. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۳۹۷.
  23. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۳۸۵ق، ج۴، ص۲۲۲.

مآخذ

  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد بجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، کوشش: ثروت عکاشہ، قاہرہ، بی‌نا، ۱۹۶۹م.
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، کوشش: مصطفی سقا و دیگران، بیروت، دار المعرفہ، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، کوشش: محمد حمید اللہ، قاہرہ، بی‌نا، ۱۹۵۹م.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بی‌تا
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، کوشش: مارسدن جونز، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.