مندرجات کا رخ کریں

مقبرہ شہدائے احد

ویکی شیعہ سے
مقبرہ شہدائے احد
مقبرہ شہدائے احد، انہدام سے پہلے
مقبرہ شہدائے احد، انہدام سے پہلے
ابتدائی معلومات
تاسیسدوسری صدی ہجری
استعمالزیارت گاہ
محل وقوعمدینہ کے منطقہ احد
دیگر اسامیقبرستان شہدائے احد
مربوط واقعاتمقبرے کا انہدام
مشخصات
موجودہ حالتمنہدم شدہ
معماری


مقبرہ شہدائے اُحد وہ قبرستان ہے جہاں رسولِ خداؐ کے چچا حضرت حمزہ اور جنگ اُحد کے دیگر شہداء مدفون ہیں۔ یہ قبرستان مدینہ کے شمالی علاقے اُحد میں واقع ہے۔ تاریخی مآخذ کے مطابق، رسول اکرمؐ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا باقاعدگی سے ان شہداء کی قبور کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا بھی ہمیشہ سے یہ عمل رہا ہے کہ وہ ان قبروں کی زیارت کرتے رہے ہیں۔

پہلی عمارت جو ان قبروں پر تعمیر کی گئی، دوسری صدی ہجری سے متعلق ہے؛ لیکن جب آلِ سعود سعودی عرب میں برسراقتدار آئے تو وہابیوں نے سنہ 1344ھ میں بدعت کے خلاف جنگ کے دعوے کے تحت اس عمارت کو مکمل طور پر مسمار کر دیا۔

اہمیت اور محل وقوع

مقبرہ شہدائے احد حضرت حمزہ اور دیگر شہدائے اُحد کی آرام گاہ ہے۔ یہ مدینہ کے شمال میں[1] اُحد اور رُمات کی پہاڑی کے درمیان واقع ہے اور مسجد نبوی سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2]

تاریخی ذرائع کے مطابق، رسول اکرمؐ ہر سال ان قبور کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے[3] اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔[4] آپؐ کی رحلت کے بعد، خلفائے ثلاثہ بھی اس سنت پر عمل کرتے رہے۔[5]

ائمۂ معصومینؑ نے بھی ان شہداء کی قبور کی زیارت کی ترغیب دی۔[6] حضرت فاطمہ زہرا (س) خود حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت پر جاتی تھیں[7] اور شیخ مفید کے بقول، حضرت زہرا(س) نے وہاں کی مٹی سے تسبیح بھی بنائی تھی۔[8] نیز حجاز کے عوام میں یہ رواج تھا کہ وہ لوگ 12 رجب کی شب کو حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کے لیے جاتے تھے۔[9] اہل سنت کے نزدیک، جمعرات کا دن ان قبور کی زیارت کے لیے مستحب سمجھا جاتا ہے۔[10]

یہ مقام ہمیشہ سے مسلمانوں، بالاخص شیعوں کی زیارت گاہ رہا ہے۔[11]

اُحد کے علاقے کی ایک ہوائی تصویرجسے سنہ 2015ء میں اس کے تعمیر نو کے دوران لی گئی ہے۔[12]

مقبرے کا تاریخی پس منظر

نامور مورخ ابن شَبّہ (متوفی: 262ھ) کے مطابق، حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ‌ علیہا وہ پہلی شخصیت تھیں جنہوں نے قبرِ حضرت حمزہ پر مقبرہ بنایا۔[13] تاریخی ذرائع کے مطابق، دوسری صدی ہجری سے ہی حضرت حمزہ کی قبر پر ایک مسجد موجود تھی۔[14] سنہ590ھ میں، عباسی خلیفہ ناصر لدین‌ اللہ کی والدہ کے حکم سے اس قبر پر باقاعدہ ایک گنبد والا مقبرہ تعمیر کیا گیا[15] جو بعد ازاں سنہ 893ھ میں وسیع کر دیا گیا۔[16] کچھ تاریخی مصادر میں اس مقام کو مسجد شہدائے اُحد کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[17]

مقبرے کی مسماری

مقبرہ شہدائے اُحد سنہ1220ھ میں پہلی بار آل سعود کے ہاتھوں منہدم کیا گیا، سنہ 1222ھ میں ابراہیم پاشا نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا مگر سنہ 1344ھ میں وہابیوں نے اسے مکمل طور پر مسمار کردیا۔[18] وہابی نظریے کے مطابق قبور کی تعمیر اور ان کی زیارت بدعت اور شرک کے زمرے میں آتی ہے لہذا اسے مسمار کردیا۔[19] ان کی نظر میں قبور پر مقبرے بنانا[20] اور قبور کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا[21] بدعت عمل شمار ہوتا ہے۔

اہل‌سنت مورخ ابن کثیر (متوفی: 774ھ) کے مطابق معاویہ بن ابی‌ سفیان نے سنہ 49ھ میں ایک نہر کھودنے کا حکم دیا جس کا راستہ شہدائے اُحد کی قبور سے ہو کر گزرتا تھا، جب شہداء کے لواحقین نے قبروں میں موجود اجساد کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے قبور کو نبش کیا تو شہداء کے اجسام تروتازہ اور سالم حالت میں پائے گئے جس پر ان قبور کو مزید انہدام کرنے سے روک دیا گیا۔[22] شیعہ محقق محمد صادق نجمی کے مطابق، معاویہ کا یہ اقدام دانستہ طور پر تھا تاکہ جنگ اُحد میں قریش کے جارحانہ اقدامات کے نشانات مٹائے جاسکیں۔[23] اس سلسلے میں مزید تاریخی واقعات بھی موجود ہیں، جیسا کہ سنہ 49ھ میں سیلاب سے قبریں متاثرہونے کا تذکرہ میں ملتا ہے لیکن شہداء کے اجساد صحیح و سالم پائے گئے[24] نیز 1400سال بعد بھی شہدا کے اجسام سلامت پائے جانے کی خبریں ملتی ہیں۔[25]

مزار احد کی پہاڑی کے کنارے پر شہدائے احد کے مقبرے کا منظر

مدفون شہداء

غزوہ اُحد میں تقریباً 70 مسلمان شہید ہوئے[26] ان میں چار افراد مہاجرین اور باقی انصار میں سے تھے۔[27] ان میں سے چند افراد کے سوا جنہیں مدینہ منتقل کیا گیا؛ اکثر شہداء اسی مقام احد میں دفن کیے گئے۔ حمزہ بن عبد المطلب، عبد اللہ بن جَحش، شماس بن عثمان قرشی، مصعب بن عُمَیر، حنظلہ ابن ابی عامر، سعد بن ربیع، مالک بن سنان اور سہل بن قیس وہ معروف شہداء ہیں جنہیں اسی جگہ دفن کیے گئے۔[28]

شہداء کی تعداد زیادہ ہونے اور لواحقین کی جسمانی تھکن کے باعث، نبی اکرمؐ کے حکم سے شہداء کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔[29] ایک ہی قبر میں دفن کیے جانے والے افراد میں جنہوں نے قرآن زیادہ حفظ کررکھا تھا، اسے آگے رکھا جاتا تھا۔[30] اسی طرح عمرو بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کے مابین دوستی کی بنیاد پرانہیں ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔[31] شہداء میں سے صرف حضرت حمزہ کی قبر کا مقام آج بھی واضح اور معلوم ہے۔[32]

قرب و جوار کی عمارتیں

مقبره شہدائے احد اور مسجد حمزه کی تصویر

تاریخی روایات کے مطابق مقبرہ شہدائے احد کے آس پاس میں چند مساجد موجود رہی ہیں: مسجد حمزہ؛ یہ مسجد مقبرے کے مشرق میں واقع ہے۔[33] کہا جاتا ہے کہ مقبرے کے شمال میں تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر مسجد ثنایا واقع تھی۔[34] اسی طرح بعض روایات کے مطابق قبر حضرت حمزہ کے سامنے امیر المومنین کے نام سے بھی ایک مسجد تھی،[35] مگر اب اس کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔[36]

رُمات پہاڑی کے قریب بھی دو مساجد کی نشاندہی کی گئی ہے: پہلی مسجد مسجد رُکنُ الجبل کے نام سے تھی جو کہ رمات پہاڑی کے مشرق میں واقع تھی، اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت حمزہ زخمی ہوئے تھے۔ دوسری مسجد مسجد الوادی کے نام سے جانی جاتی ہے جو رمات پہاڑی کے شمال میں واقع ہے اور یہ شہادت حمزہ کا مقام بتایا گیا ہے۔[37]

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. ابن‌ضیاء، تاریخ مکہ المشرفہ والمسجدالحرام والمدینہ الشریفہ والقبر الشریف، 1424ھ، ص252۔
  2. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1379شمسی، ص415-418۔
  3. ابن‌شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1399ھ، ج1، ص132۔
  4. شیخ‌مفید، الفصول المختارہ، 1413، ص131؛ محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج10، ص198؛ العلوی العقیقی، مرویات کتاب اخبار المدینہ، 1440ھ، ص291؛ ابوطیب فاسی، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، 1421ھ، ج2، ص412۔
  5. ابن‌شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1399ھ، ج1، ص132۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص560۔
  7. سمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، 1419ھ، ج3، ص111؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص561۔
  8. شیخ‌ مفید، کتاب المزار، 1413ھ، ص150۔
  9. رفعت پاشا، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، ج3، ص60۔
  10. ابن‌عساکر، اتحاف الزائر واطراف المقیم، دار ارقم بن‌ابی‌الارقم، ص92۔
  11. بغدادی، «زيارۃ القبور عند السنۃ والشيعۃ»، وبگاہ تقریب نیوز۔
  12. «منطقة «سيد الشهداء» بالمدينة»، المدینه۔
  13. ابن‌ شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1399ھ، ج1، ص132۔
  14. سمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، 1419ھ، ج3، ص104۔
  15. المطری، التعریف بما انست الہجرۃ من معالم دار الہجرہ، 1426ھ، ص126۔
  16. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1379شمسی، ص441۔
  17. ملاحظہ کیجیے: نجفی، مدینہ شناسی، 1386شمسی، ج2، ص269۔
  18. «تاريخ الوہابيۃ في ہدم قبور أہل البيت عليہم السلام»، وبگاہ دار الولایہ۔
  19. پورامینی، بقیع الغرقد، 1428ھ، ص50۔
  20. ابن‌تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم، 1407ھ، ج2، ص108۔
  21. ملاحظہ کیجیے: ابن‌ تیمیہ، منہاج السنۃ، 1406ھ، ج2، ص440؛ ابن‌ باز، فتاوى نور على الدرب، مؤسسۃ الشیخ بن باز الخیریۃ، ص 243۔
  22. ابن‌کثیر، البدایہ والنہایہ، 1408ھ، ج4، ص49۔
  23. نجمی، «حرم حضرت حمزہ(ع) در بستر تاریخ»، ص64-65۔
  24. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج3، ص563۔
  25. عامری، محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الکتب المقدسہ، 1426ھ، ص266۔
  26. مقدسی، البدء والتاریخ، از 1899 تا 1919ء، ج4، ص205؛ ابن‌خلدون، تاریخ، 1401ھ، ج2، ص437۔
  27. ابن‌ قتیبہ، المعارف، 1992ء، ج1، ص160۔
  28. ابن‌ ضیاء، تاریخ مکہ المشرفہ والمسجدالحرام والمدینہ الشریفہ والقبر الشریف، 1424ھ، ص252-255؛‌ صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص749-750
  29. ابن‌کثیر، البدایہ والنہایہ، 1408ھ، ج4، ص48۔
  30. ابن‌کثیر، البدایہ والنہایہ، 1408ھ، ج4، ص48۔
  31. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، بہ نقل از: سبحانی، فروغ ابدیت، ج1، ص566۔
  32. سمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، 1419ھ، ج3، ص117۔
  33. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1379شمسی، ص439۔
  34. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1379شمسی، ص415۔
  35. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج97، ص225
  36. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1379شمسی، ص444۔
  37. ابن‌ضیاء، تاریخ مکہ المشرفہ والمسجدالحرام والمدینہ الشریفہ والقبر الشریف، 1424ق، ص257؛‌ صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص700۔

مآخذ

  • ابن‌ تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، ‌اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم، تحقیق: محمد حامد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1407ق/|1987ء۔
  • ابن‌ تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ، عربستان، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، 1406ھ۔
  • ابن‌ باز، عبدالعزیز، فتاوی نور علی الدرب، بی‌جا، مؤسسۃ الشیخ بن باز الخیریۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌ خلدون، تاریخ، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1401ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، چاپ اول، 1968ء۔
  • ابن‌ شبہ، عمر، تاریخ المدینہ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، جدہ، بی‌نا، 1399ھ۔
  • ابن‌ ضیاء، محمد بن احمد، تاریخ مکہ المشرفہ والمسجد الحرام والمدینہ الشریفہ والقبر الشریف، تحقیق علاء ابراہیم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • ابن‌عساکر، عبدالصمد بن عبدالوہاب، اتحاف الزائر واطراف المقیم، بیروت، دار الارقم بن‌ابی‌الارقم، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن‌ قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامہ للکتب، چاپ دوم، 1992ء۔
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ والنہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1408ھ۔
  • ابن‌ ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، قاہرہ، شرکۃ مکتبہ ومطبعہ مصطفی البابی الحلبی واولادہ، چاپ دوم، 1375ھ۔
  • ابوطیب فاسی، محمد بن احمد، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1421ھ۔
  • پورامینی، محمدامین، بقیع الغرقد، تہران، مشعر، 1428ھ۔
  • العلوی العقیقی، یحیی بن الحسن، مرویات کتاب اخبار المدینہ، جمع آوری عبدالعزیز العوض سلمان الجہنی، مدینہ، مرکز بحوث ودراسات المدینہ المنورہ، چاپ اول، 1440ھ۔
  • المطری، محمد بن احمد، التعریف بما انست الہجرۃ من معالم دار الہجرہ، تحقیق سلیمان الرحیلی، ریاض، دارۃ ملک عبدالعزیز، 1426ھ۔
  • «تاريخ الوہابيۃ في ہدم قبور أہل البيت عليہم السلام»، وبگاہ دار الولایہ، تاریخ بازدید: 24 مرداد 1402ہجری قمری۔
  • «تطوير منطقۃ «سيد الشہداء» بالمدينۃ»، المدینہ، تاریخ درج مطلب: 9 سپتامبر 2015ء، تاریخ بازدید: 3 اردیبہشت 1404ہجری قمری۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ اول، 1379ہجری قمری۔
  • رفعت پاشا، ابراہیم، مرآۃ الحرمین، قم، انتشارات مشعر، 1377ہجری قمری۔
  • بغدادی، حسن، «زيارۃ القبور عند السنۃ والشيعۃ»، وبگاہ تقریب نیوز، تاریخ درج مطلب: 12 دی 1399شمسی، تاریخ بازدید: 24 مرداد 1402ہجری قمری۔
  • سمہودی، علی بن‌عبداللہ، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1419ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، کتاب المزار، تحقیق محمدباقر ابطحی، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صبری پاشا، ایوب، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، ترجمہ ماجدہ مخلوف و دیگران، قاہرہ، دار الآفاق العربیہ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • عامری، سامی، محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الکتب المقدسہ، قاہرہ، مرکز التنویر الاسلامی للخدمات المعرفیہ، چاپ اول، 1426ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محدث نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌ السلام، چاپ اول، 1408ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء والتاریخ، پاریس، ارنست لرو الصحاف، از 1899ء تا 1919ء۔
  • نجفی، محمد باقر، مدینہ شناسی، تہران، مشعر، 1386ہجری قمری۔
  • نجمی، محمد صادق، «حرم حضرت حمزہ(ع) در بستر تاریخ»، فصلنامہ میقات، شمارہ33، مہر 1379ہجری قمری۔