مثانی سورے
مثانی سورے مشہور نظریے کے مطابق مئین سوروں کے بعد آنے والے سورے ہیں۔[1] ان کا موضوع معمولا اخلاقی مسائل اور اعتقادی موضوعات (حقانیت قرآن، وحی و نبوت اور معاد) ہے۔[2] ان سوروں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ سیوطی نے مصحف عبداللہ بن مسعود، کے مطابق ان سوروں کی فہرست پیش کی ہے وہ اس طرح ہے:[3]
- سورہ احزاب
- سورہ حج
- سورہ قصص
- سورہ نمل
- سورہ نور
- سورہ انفال
- سورہ مریم
- سورہ عنکبوت
- سورہ روم
- سورہ یس
- سورہ فرقان
- سورہ حجر
- سورہ رعد
- سورہ سبأ
- سورہ فاطر
- سورہ ابراہیم
- سورہ ص
- سورہ بینہ
- سورہ لقمان
- سورہ زمر
- سورہ غافر
- سورہ زخرف
- سورہ سجدہ
- سورہ شوری
- سورہ احقاف
- سورہ جاثیہ
- سورہ دخان
- سورہ فتح
- سورہ حشر
- سورہ سجدہ
- سورہ طلاق
- سورہ قلم
- سورہ حجرات
- سورہ ملک
- سورہ تغابن
- سورہ منافقون
- سورہ جمعہ
- سورہ صف
- سورہ جن
- سورہ نوح
- سورہ مجادلہ
- سورہ ممتحنہ
- سورہ تحریم
ان سوروں کو مثانی کیوں کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ محمد ری شہری کے مطابق کلمہ مثانی «مثنی» کی جمع ہے جس کا مطلب دوسرا ہے۔ کیوں کہ یہ سورے طوال سوروں کے بعد آئے ہیں اور قرآن کے پہلے سوروں یعنی طوال سوروں کے بعد آئے ہیں اور مثانی سورے ان کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، اس لئے انہیں مثانی کہتے ہیں۔[4] محمد ہادی معرفت نے سو سے کم آیتوں والے سوروں کو مثانی کی فہرست میں قرار دیا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق ان کو اس لئے مثانی کہا جاتا ہے کہ یہ قابل تکرار ہیں اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے ایک سے زیادہ بار پڑھی جاتی ہیں اور تکرار ہوتی ہیں۔[5] رسول اللہ کی روایت کے مطابق مثانی سورے، زبور کی جگہ انہیں عطا کئے گئے ہیں۔[6]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
مآخذ
- احمدی، بتول، «ارزیابی روایات تقسیمات چہارگانہ قرآن»، مجلہ پژوہشہای قرآنی، سال بیست و یکم، شمارہ 2، تابستان 1395ہجری شمسی۔
- ری شہری، محمد، شناخت قرآن بر پایہ قرآن و حدیث، ترجمہ حمید رضا شیخی، قم، دار الحدیث، 1391ہجری شمسی۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق فؤاز احمد، بیروت، دار الکتب العربی، 1421ھ۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، نشر کتابخانہ عمومی آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، چاپ سنگی، 1404ھ۔
- معرفت، محمد ہادی، آموزش علوم قرآنی، قم، موسسہ فرہنگی انتشاراتی التہمید، 1387ہجری شمسی۔