اسما و صفات

ویکی شیعہ سے

اَسْماء وَ صِفات، علم کلام کی دو اصطلاح ہیں جو اللہ تعالی کے نام اور صفات کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ اسم اس ذات پر دلالت کرتا ہے جو کسی صفت سے متصف ہوا ہے جیسے «عالم» اور صفت اس معنی پر دلالتی کرتی ہے جس سے ذات متصف ہوئی ہے جیسے «علم»۔ یہ دونوں اصطلاح فلسفہ اور عرفان میں زیادہ کارآمد ہیں۔ روایات میں اللہ تعالی کے 99 نام ذکر ہوئے ہیں۔ اللہ کی صفات میں بھی صفات سلبیہ اور ثبوتیہ قابل ذکر ہیں۔

اللہ تعالے کے «نام» اور «صفات» میں فرق

بعض محققین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کے نام اور صفت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں لفظ ہیں جو اللہ تعالی کی کسی ایک حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور اسم و صفت کی حقیقت وہی اللہ کی ذات ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ صفت اللہ کی ذات کو کسی اچھائی اور خصوصیت سے متصف ہونے ہونے کو بیان کرتی ہے۔ جیسے حی اور علم، لیکن اللہ کا نام صرف ان ذات پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اللہ کا حی(زندہ) اور عالم ہونا اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ حیات اور علم کی صفت سے مزین ہے۔[1]

نمبرشمار عربی اردو ترجمہ
۱ الله خداوند
۲ الرحمان بڑی رحمت والا(رحمت عام)
۳ الرحیم نہائت مہربان
۴ المَلِک بادشاہ
۵ القُدّوس نہائت مقدس اور پاک
۶ السلام بے عیب
۷ المُؤمن امن دینے والا
۸ المُهَیمِن محافظ
۹ العَزیز غالب
۱۰ الجَبّار زبردست
۱۱ المُتَکَبِّر بڑائی والا
۱۲ الخالق پیدا کرنے والا
۱۳ البارِئ جان ڈالنے والا
۱۴ المُصَوِّر صورت دینے والا
۱۵ غَفّار درگزر فرمانے والا
۱۶ قَهّار سب کو قابو میں رکھنے والا
۱۷ وَهّاب بہت عطا فرمانے والا
۱۸ رَزّاق بہت روزی دینے والا
۱۹ فَتّاح سب سے بڑا مشکل کشا
۲۰ عَلیم بہت جاننے والا
۲۱ قابِض روزی تنگ کرنے والا
۲۲ باسِط پھیلانے والا اور روزی میں وسعت دینے والا
۲۳ خافِض پست اور خوار کرنے والا
۲۴ رافِع (اپنی طرف) اوپر لے جانے والا
۲۵ مُعِزّ عزت دینے والا
۲۶ مُذِلّ ذلت دینے والا
۲۷ سَمیع سننے والا
۲۸ بَصیر بینا
۲۹ حَکَم حاکم
۳۰ عَدل سراپا انصاف
۳۱ لَطیف لطف وکرم والا
۳۲ خَبیر باخبر
۳۳ حَلیم بردبار
۳۴ عَظیم بڑا بزرگ
۳۵ غَفور بخشنے والا
۳۶ شَکور بہت بڑا قدردان
۳۷ عالی بلند مرتبہ والا
۳۸ کبیر بزرگ‌
۳۹ حَفیظ محافظ
۴۰ مُقیت کفایت کرنے والا
۴۱ حَسیب حساب کرنے والا
۴۲ جَلیل گرانقدر
۴۳ کریم بہت کرم والا
۴۴ رقیب بڑا نگہبان
۴۵ مُجیب دعائیں قبول کرنے والا
۴۶ واسع وسعت والا
۴۷ حکیم حکمتوں والا
۴۸ وَدود محبت کرنے والا
۴۹ مجید بڑا بزرگ
۵۰ باعِث مردوں کو زندہ کرنے والا
۵۱ شهید حاضر وناظر
۵۲ حق برحق کار ساز
۵۳ وکیل عهده‌دار همه امور بندگان و موجودات
۵۴ قوی بہت بڑی قوت والا
۵۵ مَتین شدید قوت والا
۵۶ وَلی سرپرست، دوست، مددگار
۵۷ حَمید لائق تعریف
۵۸ مُحصِی شمار میں رکھنے والا
۵۹ مُبدِئ پہلی بار پیدا کرنے والا
۶۰ مُعید دوبارہ پیدا کرنے والا
۶۱ مُحیی حیات دینے والا
۶۲ مُمیت موت دینے والا
۶۳ حَی زندہ
۶۴ قَیوم قائم رکھنے والا
۶۵ واجِد پانے والا
۶۶ الماجد بزرگی والا
۶۷ واحد یکتا، تنہا
۶۸ صَمَد بے نیاز
۶۹ قادر توانا
۷۰ مُقتَدِر پوری طاقت والا، معین کرنے والا
۷۱ مُقَدِّم آگے کرنے والا
۷۲ مُؤخِّر پیچھے رکھنے والا
۷۳ الأول سب سے پہلا
۷۴ الأخِر سب کے بعد
۷۵ ظاهر ظاہر
۷۶ باطن پوشیدہ
۷۷ والی متصرف
۷۸ مُتَعالی بلند و برتر
۷۹ البَرّ اچھے سلوک والا
۸۰ تَوّاب زیادہ توبہ قبول کرنے والا
۸۱ مُنتَقِم بدلہ لینے والا
۸۲ عَفُوّ معاف کرنے والا
۸۳ رَؤوف دلسوز اور مہربان
۸۴ مالک، مَلِک ملکوں کا مالک
۸۵ ذوالجلال و الاکرام جلال واکرام والا
۸۶ مُقسِط عدل کرنے والا
۸۷ جامع جمع کرنے والا
۸۸ غَنی بے نیاز
۸۹ مُغنِی غنی بنانے والا
۹۰ مانع روکنے والا
۹۱ ضارّ ضرر پہنچانے والا
۹۲ نافع نفع بخش
۹۳ نور روشنی
۹۴ هادی ہدایت دینے والا
۹۵ بَدیع بے مثال ایجاد کرنے والا
۹۶ باقی باقی رہنے والا
۹۷ وارث نیکی کو پسند کرنے والا
۹۸ رشید راهنما، آموزگار و دانای بی‌خطا
۹۹ صَبور صبر وتحمل والا

اسم و صفت علم کلام میں

علم کلام میں اسم وہ لفظ ہے جو صرف اللہ کی ذات پر دلالت کرتا ہے جیسے: «اللّه»، «رجل» اور «انسان»۔ یا ایسی ذات پر دلالت کرتا ہے جو کسی صفت سے آراستہ ہے جیسے: «عالِم» اور «قادر» یا کسی فعل کے منشاء پر دلالت کرتا ہے جیسے: «رازق» اور «خالق» لیکن صفت صرف اور صرف منشاء اور مبدا پر دلالت کرتی ہے جو کسی بھی طرح سے ذات پر دلالت نہیں کرتی ہے جیسے: علم، قدرت، رزق اور خلقت، اسی لئے صفت کی نسبت اسم کی طرف دے کر اللہ کو «عالم» یا «خالق» یا «رحمان» یا «رحیم» کہا جاتا ہے۔[2]

اسم و صفت فلسفہ اور عرفان میں

اسما اور صفات فلسفہ اور عرفان میں ایک جیسے معنی رکھتے ہیں۔ صرف فرق اتنا ہے اسم اللہ کی ذات کو بعض حالات، اعتبارات اور حیثیتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے۔[3]

صفت، ایک ایسا مفہوم ہے جو ذات پر طاری ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اسم اور صفت مرکب اور بسیط کی طرح ہیں۔[4]

ایک اور تعریف کے مطابق، ذات کسی خاص صفت سے آراستہ ہوجائے تو اس تجلی کو اسم کہا جاتا ہے۔[5]

بسا اوقات صفت کو اسم کہا جاتا ہے، کیونکہ ذات تمام اسامی کے مابین مشترک ہے اسم میں کثرت صفات کی وجہ سے آتا ہے۔[6]

صفات کی تقسیم

اللہ تعالی کے اسامی اور صفات کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  1. صفات جمال (صفات ثبوتیہ) اور جلال (صفات سلبیہ)
  2. صفات ذات و صفات فعل
  3. صفات نفسی و اضافی
  4. صفات خبری (تشبیہی) اور تنزیہی
  5. اسم و اسم الاسم
  6. اسماء ظاہر اور اسامی مستأثرہ

انسان کو اللہ کے اسامی اور صفات کی شناخت کے امکان کے بارے میں تین نظریات بیان ہوئے ہیں: 1-تعطیل 2-تشبیہ 3-اثبات بدون تشبیہ

شیعہ اللہ تعالی کے اسماء اور صفات ذاتی کو قدیم اور اسماء و صفات فعلی کو حادث قرار دیتے ہیں اور اللہ کے اسما اور صفات کو عین ذات قرار دیتے ہیں۔

تعریف میں عرفا اور متکلمین میں فرق

عرفان میں اسم ایک عینی اور خارجی حقیقت ہے لیکن کلام میں ایک لفظی اور کتبی وجود ہے اور لفظ و کتابت کے علاوہ کوئی اور حقیقت متصور نہیں ہے، عرفان میں کلامی اسم وہ اسم کا اسم ہے اسم خود نہیں۔[7]

اسم اور صفت روایات میں

اسلامی احادث اللہ تعالی کے نام اور صفات ایک ہی معنی میں ہیں۔ مثلا «سمیع» اور «بصیر» بعض احادیث میں صفت کے طور[8] اور بعض روایات میں اسم طور کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔[9]

بعض احادیث میں اسم اور صفات میں کوئی فرق نہیں ہے، امام باقرؑ سے منقول ہے کہ: إنَّ الأَسماءَ صِفاتٌ وَصَفَ بِها نَفسَهُ؛ اللہ کے نام ایسی صفات ہیں جو اللہ تعالی کی توصیف کرتے ہیں۔ امام رضاؑ نے محمد بن سنان نے جب «اسم» کا پوچھا تو فرمایا: صِفَةٌ لِمَوصوفٍ: موصوف کے لئے ایک صفت ہے۔[حوالہ درکار]


اللہ کے ناموں کی تعداد

اللہ تعالی کے ناموں کی مختلف تعداد ذکر ہوئی ہے ان میں سب سے زیادہ مشہور 99 نام ہیں جو «اِن لِلّه تسعةً و تِسعینَ اِسماً...» والی حدیث سے مشہور ہوئے ہیں جبکہ 1001 نام کی تعداد بھی ذکر ہوئی ہے۔[10] بعض روایات میں 360 اور بعض روایات میں 3000 نام کا ذکر آیا ہے۔[11]

البتہ یہ ممکن ہے کہ مختلف اسامی کو انہی 99 ناموں میں جمع کیا جاسکے۔ جس طرح سے اکثر عرفا ان ناموں کو سات بنیادی ناموں میں شامل کرتے ہیں۔[12]

قرآن میں اللہ کے نام

قرآن میں لفظ اللہ جو کہ اللہ کی ذات کا مشہور مخصوص نام ہے[13] اس کے علاوہ 143 نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ البتہ وہ صفت کے معنی میں ہیں جو اللہ کی کسی صفت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان ناموں میں 10 نام ایسے بھی ہیں جو غیر صریح طور پر ذکر ہوئے ہیں۔

اسماء الحسنی

قرآن مجید کی چار آیتوں میں اللہ کے نیک ناموں کا ذکر آیا ہے: (للّه الأسماء الحسنی).[14] یہی تعبیر روایات میں بھی آئی ہے۔ اکثر مفسروں کے مطابق اسماء الحسنی وہ نام ہیں جو کمال پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور پر دلالت نہیں کرتے اور ان میں حسن کی صفت مدنظر رکھا گیا ہے اور ان میں دو خصوصیات پائی جاتی ہیں: 1۔ اللہ کی ذات کا ان صفات میں دوسروں سے بےنیاز ہونا۔ 2۔ دوسروں کا ان صفات میں اللہ کا محتاج ہونا۔[15]

صفات کی تقسیم بندی

اللہ کی صفات کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

1۔ صفات جمال (ثبوتیہ) و جلال (سلبیہ)===

«صفات جمال یا صفات ثبوتیہ» وہ صفات ہیں جو اللہ تعالی میں کوئی کمال کا ہونے پر دلالت کرتی ہیں: جیسے عالِم و علم، قدرت و قادر، خلق و خالق، رزق و رازق و غیرہ۔ اور «صفات جلال یا صفات سلبیہ» وہ صفات ہیں جو اللہ سے نقص کا سلب کرنے پر دلالت کرتی ہیں جیسے غنی اور جسم کا نہ ہونا۔

2- صفات ذات و صفات فعل===

اگر کسی صفت کے انتزاع کے لئے ذات کا تصور کافی ہو اور اللہ تعالی کی فاعلیت لازم نہ ہو تو اس صفت کو صفت ذات یا ذاتی کہتے ہیں جیسے: حیات اور حی؛ اور اگر اللہ کی فاعلیت کا تصور لازم ہو تو اس کو صفت فعل کہا جاتا ہے جیسے خلق اور خالق

3۔ صفات نفسی و اضافی «صفات نفسی» ان صفات کو کہا جاتا ہے جو کسی غیر خدا سے منسوب نہیں جیسے حیات۔ لیکن صفات اضافی وہ صفات ہیں جو مفہوم اور معنی کے اعتبار سے غیر خدا کی طرف بھی منسوب ہوسکتی ہیں جیسے: «علم»، «قدرت» اور «ارادہ» کیونکہ علم کا مفہوم کسی اور چیز (یعنی «معلوم») کی طرف اور «قدرت» و «ارادہ» کا مفہوم «مقدور» اور «مراد» کی طرف منسوب ہے۔[16]

4۔ صفات خبری(تشبیہی) و تنزیہی===

یہ اہل حدیث کی ایک تقسیم ہے صفات خبری ان صفات کو کہا جاتا ہے جو قرآن و سنت میں ذکر ہوئی ہیں اور اگر قرآن و سنت میں مذکور نہ ہوں تو پھر عقل سے ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ اور صفات تنزیہی ان صفات کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کو پاک و منزہ قرار دیتی ہیں جیسے: لَیسَ کَمِثْلِهِ شَیءٌ

اللہ کی صفات کی پہچان کا امکان

اللہ تعالی کی صفات کی پہچان ممکن ہے یا نہیں اس بارے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں

1- تعطیل: یعنی اللہ کی صفات کی حقیقت کو انسان کی عقل نہیں سمجھ سکتی ہے 2۔ اہل تشبیہ کا نظریہ: انسان اور اللہ کی صفات میں کوئی فرق نہیں ہے اور جو صفات اللہ اور مخلوقات دونوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں دونوں کا ایک جیسا معنی ہے۔ 3۔ اثبات بدون تشبیہ: یعنی صفات کو اللہ کے لئے ثابت کرتے تو ہیں لیکن تشبیہ نہیں اس نظر کے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان صفات کی تحلیل کریں اور اللہ کو نقص اور محدودیت سے منزہ جانیں۔


حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: علامہ طباطبایی، ترجمہ تفسير الميزان، ۱۳۷۴ش، ج‏۸، ص ۴۶۱- ۴۶۲؛ نقدالنصوص، ص۸۴؛ تحریر تمهید القواعد، ص۴۰۴ ـ ۴۰۵.
  2. مفاهیم القرآن، ج ۶، ص۳۳
  3. تفسیر صدرالمتالهین، ج۴، ص۴۲؛ شرح فصوص الحکم، ص۴۴
  4. تفسیر صدرالمتالهین، ج ۴، ص۴۲.
  5. شرح دعای سحر، ص۸۱ ؛ تسنیم، ج ۱، ص۳۰۶.
  6. شرح فصوص الحکم، ص۴۴.
  7. تفسیر صدرالمتالهین، ج ۴، ص۴۲؛ تسنیم، ج ۱، ص۳۰۶
  8. التوحید: ص۱۴۶ ح ۱۴
  9. التوحید: ص۱۸۷
  10. (عین القضات، نامه ها، ۱/۱۹۰؛ عزالدین،۲۳؛ ابوالفتوح،۲/۴۹۳؛ سنایی،۳۵؛ میبدی، ۵/۶۳۲
  11. (محمدبن منور، ۱/۲۴۱)
  12. (ماتریدی، ۶۵ -۶۶؛ جوینی، ۱۴۴؛ ابن قیم، مدارج...، ۱/۳۲-۳۳؛ نیز ت هانوی، ۱/۷۰۹؛ طباطبایی، ۸/۳۵۴)
  13. مفاهیم القرآن، ج ۶، ص۱۰۵
  14. اعراف:۱۸۰ ; اسراء:۱۱۵ ;طه:۸، حشر:۲۴
  15. (المیزان، ج۸، ص۲۴۲; تفسیر کبیر، ج۱۵، ص۶۶)
  16. آموزش کلام اسلامی، ص۱۹۹-۲۰۰.

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغۃ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۹ھ /۱۹۵۹ء
  • ابن ابی زید، عبداللہ، الجامع، بہ کوشش عبدالمجید ترکی، بیروت، ۱۹۹۰ء
  • ابن ابی یعلی، محمد، طبقات الحنابلۃ، بہ کوشش محمد حامد فقی، قاہرہ، ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۲ء
  • ابن بابویہ، محمد، التوحید، بہ کوشش ہاشم حسینی تہرانی، تہران، ۱۳۸۷ھ /۱۹۶۷ء
  • ابن تیمیہ، احمد، الفتوی الحمویۃ الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیہ
  • ابن تیمیہ، مجموعۃالرسائل الکبری، بیروت،۱۳۹۲ھ /۱۹۷۲ء
  • ابن شاذان، فضل، العلل، بہ کوشش احمد پاکتچی، منتشر نشدہ
  • ابن عساکر، علی، تبیین کذب المفتری، بیروت، ۱۴۰۴ق / ۱۹۸۴ء
  • ابن ندیم، الفہرست
  • اشعری، ابوالحسن، اللمع، بہ کوشش ریچارد مکارتی، بیروت، ۱۹۵۳ء
  • اشعری، مقالات الاسلامیین، بہ کوشش ریتر، ویسبادن، ۱۹۸۰ء
  • الصحیفۃ السجادیۃ
  • بخاری، محمد، صحیح، استانبول، ۱۳۱۵ھ
  • بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق، بہ کوشش محمد زاہد کوثری، قاہرہ، ۱۳۶۷ھ / ۱۹۴۸ء
  • بیہقی، احمد، الاسماء و الصفات، بیروت، داراحیاء التراث العربی
  • حسینی، محمد رضا، «مقولۃ جسم لا کالاجسام، بین موقف ہشام بن الحکم و مواقف سائر اہل الکلام»، تراثنا، ۱۴۱۰ق،
  • ذہبی، العلو للعلی الغفار، بہ کوشش عبدالرحمان محمد عثمان، بیروت، ۱۳۸۸ھ / ۱۹۶۸ء
  • ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء
  • ذہبی، میزان الاعتدال، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۲ھ /۱۹۶۳ء
  • رودانی، محمد، صلۃ الخلف، بہ کوشش محمد حجی، بیروت، ۱۴۰۸ھ /۱۹۸۸ء
  • سبکی، عبدالو ہاب، طبقات الشافعیۃ الکبری، بہ کوشش محمود محمد طناحی و عبدالفتاح محمدحلو، قاہرہ، ۱۳۸۳ھ / ۱۹۶۴ء
  • سعدبن عبدالل ہاشعری، المقالات و الفرق، بہ کوشش محمد جواد مشکور، تہران، ۱۳۶۱ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد، الملل و النحل، بہ کوشش محمد بدران، قاہرہ، ۱۳۷۵ھ /۱۹۵۶ء
  • طوسی، محمد، الفہرست، نجف، کتابخانۃ مرتضویہ
  • عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب السنۃ، دہلی، ۱۴۰۴ھ / ۱۹۸۴ء
  • کشی، محمد، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۹۱ھ
  • مسلم بن حجاج، صحیح، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ، ۱۹۵۵ء
  • مفید، محمد، اوائل المقالات، بہ کوشش زنجانی و واعظ چرندابی، تبریز، ۱۳۷۱ھ
  • نجاشی، احمد، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ھ
  • نسایی، احمد، سنن، قاہرہ، ۱۳۴۸ھ
  • ابن بابویہ، محمد، التوحید، بہ کوشش ہاشم حسینی، قم، ۱۳۹۸ھ
  • ابن تیمیہ، احمد، الایمان، بیروت، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۳ء
  • ابن خزیمہ، محمد، التوحید، بہ کوشش محمد خلیل ہراس، قاہرہ، ۱۴۰۸ھ /۱۹۸۸ء
  • ابن سلوم، محمد، مختصر لوامع الانوار البہیۃ، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۳ء
  • ابن عربی، «القسم الالہی»، رسائل، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۷ھ /۱۹۴۸ء
  • ابن عربی، ابوبکر، احکام القرآن، بہ کوشش محمد عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۰۸ھ / ۱۹۸۸ء
  • ابن عربی، الطریق الی اللہ تعالی، دمشق، ۱۴۱۱ھ /۱۹۹۱ء
  • ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، بولاق، ۱۲۹۳ھ
  • ابن عربی، الفقہ، بہ کوشش محمود محمود غراب، دمشق، ۱۴۰۱ھ / ۱۹۸۱ء
  • ابن عربی، تفسیر القرآن الکریم، بہ کوشش مصطفی غالب، تہران، ۱۹۷۸ء
  • ابن عربی، شرح فصوص الحکم، بہ کوشش محمود محمود غراب، دمشق، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء
  • ابن عربی، فصوص الحکم، بہ کوشش ابوالعلاء عفیفی، بیروت، ۱۴۰۰ھ / ۱۹۸۰ء
  • ابن عربی، محیی الدین، انشاء الدوائر، بہ کوشش نیبرگ، لیدن، ۱۳۳۶ھ
  • ابن عربی، ہمان، بہ کوشش عثمان یحیی، قاہرہ، ۱۳۹۲- ۱۴۱۰ھ
  • ابن قیم جوزیہ، محمد، الصواعق المرسلۃ، تلخیص محمد بن موصلی، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء
  • ابن قیم جوزیہ، مدارج السالکین، بہ کوشش محمد حامد فقی، بیروت، ۱۳۹۲ھ /۱۹۷۲ء
  • ابوالفتوح رازی، حسین، روح الجنان و روح الجنان، بہ کوشش مرتضی مدرسی، قم، ۱۴۰۴ھ
  • ابوحاتم رازی، احمد، الزینۃ، بہ کوشش حسین بن فیض اللہ ہمدانی، قاہرہ، ۱۹۵۷ء
  • ابویعلی، محمد، المعتمد فی اصول الدین، بہ کوشش ودیع زیدان حداد، بیروت، دارالمشرق
  • اعجوبہ، رایض الدین، شمس الحقیقۃ، تہران، ۱۳۸۲ھ
  • آملی، حیدر، المقدمات من کتاب نص النصوص، بہ کوشش ہمان دو، تہران، ۱۳۵۲ہجری شمسی /۱۹۷۴ء
  • آملی، حیدر، جامع الاسرار، بہ کوشش ہانری کربن و عثمان اسماعیل یحیی، تہران، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • بابارکنا، مسعود، نصوص الخصوص فی ترجمۃ الفصوص، بہ کوشش رجبعلی مظلومی، تہران، ۱۳۵۹ہجری شمسی۔
  • بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق، بہ کوشش محمدزاہد کوثری، قاہرہ، ۱۳۶۷ھ /۱۹۴۸ء
  • بیہقی، احمد، الاسماء و الصفات، بیروت، دارالکتب العلمیہ
  • بیہقی، الاعتقاد و الہدایۃ، بہ کوشش کمال یوسف حوت، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء
  • پارسا، شرح فصوص الحکم، بہ کوشش جلیل مسگرنژاد، تہران، ۱۳۴۶ہجری شمسی۔
  • پارسا، محمد، تحقیقات، دہلی، افغانی دارالکتب
  • تورپشتی، فضل اللہ، المعتمد فی المعتقد، استانبول، ۱۴۰۰ھ / ۱۹۹۰ء
  • ہانوی، محمد اعلی، کشاف اصطلاحات الفنون، کلکتہ، ۱۸۶۲ء
  • جامی، عبدالرحمان، نقد النصوص، بہ کوشش ویلیام چیتیک، تہران، ۱۳۷۰ ہجری شمسی۔
  • جندی، مؤیدالدین، شرح فصوص الحکم، بہ کوشش جلال الدین آشتیانی و غلامحسین ابراہیمی دینانی، مشہد، ۱۳۶۱ ہجری شمسی۔
  • جندی، نفحۃ الروح و تحفۃ الفتوح، بہ کوشش نجیب مایل ہروی، تہران، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
  • جوینی، عبدالملک، الارشاد، بہ کوشش محمد یوسف موسی و علی عبدالمنعم عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۶۹ھ /۱۹۵۰ء
  • جیلی، عبدالکریم، الانسان الکامل، قاہرہ، ۱۳۰۴ھ
  • خوارزمی، حسین، جواہر الاسرار، بہ کوشش محمدجواد شریعت، اصفہان، مشعل
  • خوارزمی، شرح فصوص الحکم، بہ کوشش نجیب مایل ہروی، تہران، ۱۳۶۴ہجری شمسی
  • دارمی، عثمان، الرد علی بشر المریسی، بہ کوشش محمد حامد فقی، بیروت، ۱۳۵۸ھ
  • سبزواری، ملا ہادی، شرح الاسماء، بہ کوشش نجفقلی حبیبی، تہران، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • سراج طوسی، عبداللہ، اللمع فی التصوف، بہ کوشش نیکلسن، لیدن، ۱۹۱۴ء
  • سلامت علی خان، حقایق و معارف القدر، حیدرآباد، مطبعۃ خبیر اورنگ آباد
  • سلمان، عبدالعزیز محمد، الکواشف الجلیۃ، ریاض، ۱۳۹۸ھ /۱۹۷۸ء
  • سنایی، کلیات اشعار، چ تصویری، کابل، ۱۳۵۶ ہجری شمسی
  • سہروردی، عمر، رشف النصائح الایمانیۃ، ترجمۃ معلم یزدی، بہ کوشش نجیب مایل ہروی، تہران، ۱۳۶۵ہجری شمسی۔
  • شاہ نعمت اللہ ولی، «بیان الاصطلاحات»، ضمن ج ۴ رسالہ ہا، بہ کوشش جواد نوربخش، تہران، ۱۳۵۷ہجری شمسی۔
  • شعرانی، عبدالو ہاب، الیواقیت و الجواہر، قاہرہ، ۱۳۵۱ھ
  • شہرستانی، محمد، مفاتیح الاسرار، چ تصویری، تہران، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • صدرالدین شیرازی، محمد، اسرار الا¸یات، بہ کوشش محمد خواجوی، تہران، ۱۳۶۰ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۰ھ /۱۹۷۱ء
  • علامہ طباطبایی، محمد حسین، ترجمہ تفسیر المیزان، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۴ہجری شمسی
  • عبدالرزاق کاشی، اصطلاحات الصوفیہ، لاہور، ۱۹۸۱ء
  • عزالدین کاشانی، محمود، مصباح الہدایہ، بہ کوشش جلال الدین ہمایی، تہران، ۱۳۶۷ہجری شمسی
  • علاءالدولۃ سمنانی، احمد، مصنفات فارسی، بہ کوشش نجیب مایل ہروی، تہران، ۱۳۶۹ہجری شمسی۔
  • عین القضات ہمدانی، عبداللہ، تمہیدات، بہ کوشش عفیف عسیران، تہران، ۱۳۴۱ہجری شمسی۔
  • عین القضات ہمدانی، نامہ ہا، بہ کوشش علینقی منزوی و عفیف عسیران، تہران، ۱۳۶۲ ہجری شمسی
  • غزالی، المقصد الا´سنی، بہ کوشش فضلہ شحادہ، بیروت، ۱۹۸۶ء
  • غزالی، روضۃ الطالبین، بہ کوشش محمد بخیت، بیروت، دارالنہضۃ الحدیثہ
  • غزالی، محمد، احیاء علوم الدین، ترجمۃ مؤیدالدین خوارزمی، بہ کوشش حسین خدیوجم، تہران، ۱۳۶۴ ہجری شمسی
  • فخرالدین رازی، لوامع البینات، بہ کوشش طہ عبدالرئوف سعد، بیروت، ۱۴۰۴ھ /۱۹۸۴ء
  • فخرالدین رازی، محمد، التفسیر الکبیر، قاہرہ، المطبعۃ البہیہ
  • فرغانی، سعید، مشارق الدراری، بہ کوشش جلال الدین آشتیانی، مشہد، ۱۳۹۸ھ
  • فیض کاشانی، قرۃ العیون، بہ کوشش ابراہیم میانجی، تہران، ۱۳۷۸ھ
  • فیض کاشانی، محسن، علم الیقین، قم، ۱۳۵۱ہجری شمسی
  • قشیری، ترجمۃ رسالۃ قشیریہ، بہ کوشش بدیع الزمان فروزانفر، تہران، ۱۳۶۱ہجری شمسی
  • قشیری، عبدالکریم، التحبیر فی التذکیر، بہ کوشش ابراہیم بسیونی، قاہرہ، ۱۹۶۸ء
  • قیصری، داوود، شرح فصوص الحکم، چ سنگی، تہران
  • کاشانی، فتح اللہ، منہج الصادقین، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۵ھ
  • کفعمی، ابراہیم، البلدالامین، چ سنگی، تہران
  • کلاباذی، محمد، التعرف لمذہب اہل التصوف، بہ کوشش عبدالحلیم محمود و طہ عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۰ ھ/۱۹۸۰ء
  • کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۸ھ
  • لاہیجی، محمد، مفاتیح الاعجاز فی شرح گلشن راز، بہ کوشش محمد رضا برزگر خالقی و عفت کرباسی، تہران، ۱۳۷۱ہجری شمسی
  • ماتریدی، محمد، التوحید، بہ کوشش فتح اللہ خلیف، بیروت، ۱۹۸۶ء
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۳ء
  • مجموعۃ رسائل حروفیہ، بہ کوشش کلمان ہوار، لیدن، ۱۳۲۷ھ /۱۹۰۹ء
  • محمد بن منور، اسرار التوحید، بہ کوشش محمدرضا شفیعی کدکنی، تہران، ۱۳۶۶ہجری شمسی
  • مسعود بیگ، احمد، ام الصحایف، نسخۃ خطی موزۃ ملی کراچی، شم ۶ -۱۹۷۰ء
  • مفید، محمد، اوائل المقالات، بہ کوشش زنجانی و واعظ چرندابی، تبریز، ۱۳۷۱ھ
  • ملکی تبریزی، جواد، لقاءاللہ یا کتاب دیدار، تہران، آفتاب
  • مہربان اورنگ آبادی، عبدالقادر، اصل الاصول، مدرس، ۱۹۵۹ء
  • میبدی، ابوالفضل، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ کوشش علی اصغر حکمت، تہران، ۱۳۵۷ہجری شمسی
  • نبویان، محمدمہدی، جستارہایی در فلسفہ اسلامی، قم، انتشارات حکمت اسلامی، ۱۳۹۷ہجری شمسی
  • نجم الدین رازی، عبداللہ، مرصاد العباد، بہ کوشش محمدامین ریاحی، تہران، ۱۳۵۲ہجری شمسی
  • نشار، علی سامی و عمّار جمعی طالبی، عقائد السلف، اسکندریہ، ۱۹۷۱ء
  • یمانی، محمد، ایثار الحق علی الخلق، بیروت، ۱۳۱۸ھ