عدّت

ویکی شیعہ سے

عدّت ایک فقہی اصطلاح ہے جو اس معینہ مدت کو کہا جاتا ہے جس میں شادی شدہ عورت طلاق یا کسی اور وجہ سے اپنے شوہر یا اس شخص سے جس نے اس کے ساتھ غلطی سے ہمبستری کی ہے، سے جدا ہونے کے بعد دوسری شادی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ عدّت کے کئی اقسام ہیں جن کی مدت بھی متفاوت ہے۔ عدّت وفات کے علاوہ باقی تمام اقسام میں عدّت کی شرط یہ ہے کہ ہمبستری واقع ہوئی ہو۔

عدّت طلاق خون حیض سے پاک ہونے کے تین دورے کے برابر ہے، البتہ اگر عورت حاملہ ہو تو یہ مدت وضع حمل تک ہے۔ وہ عوت جو حیض آنے کی عمر میں ہے لیکن اسے حیض نہ آتا ہو تو عدّت طلاق تین قمری مہینے تک ہے۔ عدّت وفات شوہر چار ماہ دس دن ہے۔ لیکن اگر عورت حاملہ ہو تو عدّت وفات چار ماہ دس دن اور وضع حمل میں سے جو بھی طولانی ہو گا اس کے برابر ہے۔ متعہ کی عدّت دو دفعہ حیض دیکھنے کی مدت ہے اور اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو 45 دن ہے۔

من جملہ عدّت سے متعلق فقہی احکام میں سے ایک عدّت کے دوران اس عورت سے شادی کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی عورت سے شادی کرے جو عدّت میں ہو تو یہ عورت اس شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے؛ یعنی ان دونوں کی شادی باطل ہو جاتی ہے اور آخر عمر تک یہ دونوں آپس میں شادی نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح طلاق رجعی کی عدت میں موجود عورت سے منگنی کرنا بھی حرام ہے۔ وہ عورت جو عدّت وفات میں ہو اس پر میک اپ کرنا بھی حرام ہے۔

فقہی تعریف

عدّت اس معینہ مدت کو کہا جاتا ہے جس میں شادی شدہ عورت طلاق یا کسی اور وجہ سے اپنے شوہر یا اس شخص سے جس نے اس کے ساتھ غلطی سے ہمبستری کی ہے، سے جدا ہونے کے بعد دوسری شادی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔[1]

اقسام

عدت کے کئی اقسام ہیں من جملہ ان میں عدہ طلاق، عدہ وفات، متعہ کی عدّت، اجنبی عورت سے غلطی سے ہمبستری ہونے کی عدّت اور مفقودالاثر کی عدّت جن میں سے اکثر کی مدت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ فقہاء کے مطابق عدّت وفات کے علاوہ باقی تمام اقسام میں عدّت کی شرط یہ ہے کہ ہمبستری واقع ہوئی ہو۔[2]

عدّت طلاق

طلاق یا نکاح کے فسخ ہونے کی وجہ سے شوہر سے جدا ہونے والی عورت کی عدّت تین طُہرْ (خون حیض سے پاک ہونے کا تین دورانیہ) ہے۔[3] اس حکم کو سورہ بقرہ کی آیہ 228: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛  (ترجمہ: اور جن عورتوں کو طلاق دی جائے تو وہ اپنے آپ کو (عقد ثانی) سے روکیں۔ تین مرتبہ ایام ماہواری سے پاک ہونے تک۔)[؟؟]"[4] سے استناد کرتے ہیں۔

البتہ مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق جو عورت حاملہ ہو اس کا عدہ وضع حمل تک ہے۔[5] یہ حکم سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 میں بیان ہوا ہے: "وَ أُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُن (ترجمہ: اور حاملہ عورتوں کی میعاد وضعِ حمل ہے)[؟؟]۔

عورتیں جو حیض نہیں دیکھتیں لیکن حیض دیکھنے کی عمر میں ہوتی ہیں، ان کی عدّت تین قمری مہینے ہیں۔[6] یہ فتوا بھی سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 سے مستند ہے جہاں ارشاد ہو رہا ہے: "وَالَِّى يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائكمُ‏ْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتهُُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَ الَِّى لَمْ يحَِضْن (ترجمہ: اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں (باوجود حیض کے سن و سال میں ہو نے کے کسی وجہ سے) حیض نہ آتا ہو۔)[؟؟]"[7]

عدّہ وفات

شوہر کی وفات کی صورت میں عدہ وفات چار مہینے دس دن ہے۔[8] یہ حکم آیت تَرَبُّص میں آیا ہے؛[9] ہمبستری واقع ہوئی ہو یا نہ اسی طرح دائمی شادی ہو یا متعہ کوئی فرق نہیں ہے۔[10]

البتہ اگر عورت حاملہ ہو تو چار مہینے دس دن اور وضع حمل میں سے جو مدت طولانی ہو عدہ گزارنا واجب ہے۔[11]

عدّت متعہ (نکاح موقت)

اکثر فقہا کے فتوے کے مطابق عدّت متعہ عقد کی مدت کے ختم ہونے یا شوہر کی طرف سے بخش دینے[12] کے بعد سے دو دفعہ حیض دیکھنے تک ہے۔[13] اس بارے میں دیگر اقوال 45 دن، دو پاکی کے ایام اور ایک حیض دیکھنے کی مدت بھی ہیں۔[14]

لیکن جو عورتیں حیض دیکھنے کی عمر میں ہونے کے باوجود حیض نہیں دیکھتیں ان کو متعہ میں 45 دن تک عدہ گزارنا واجب ہے۔[15]

غلطی سے ہمبستر ہونے کی عدّت

فقہاء کے فتوے کے مطابق اگر کوی شخص اس خیال سے کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہمبستری کرے کہ یہ اس کی بیوی ہے، تو اس عورت کو طلاق کی عدت کے برابر عدّت گزارنی چاہئے، فرق نہیں عورت جانتی تھی کہ یہ اس کا شوہر نہیں ہے یا نہیں جانتی ہو، لیکن اگر کو معلوم تھا کہ یہ اس کی بیوی نہیں لیکن عورت نہیں جانتی تھی تو اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں عورت کو عدّت گزارنی چاہئے جبکہ بعض فقہاء کا فتوا اس سلسلے میں یہ ہے کہ عورت کو عدّت گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[16]

عدّہ مفقودالاثر

جس عورت کا شوہر مفقود الاثر ہوا ہو اور اس نے حاکم شرع کی طرف سے طلاق لیا ہو تو اسے عدہ وفات کے برابر عدّت گزارنی پڑے گی۔[17]

زناکار عورت کی عدّت

فقہاء فرماتے ہیں کہ جو عورت زنا کے ذریعے حاملہ ہوئی ہو اس کے لئے کوئی عدّت نہیں ہے؛ لیکن وہ عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ نہ ہوئی ہو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ اکثر فقہاء کا فتوا یہ ہے کہ ایسی عورت کی کوئی عدّت نہیں ہے؛ لیکن بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ احتیاط کی بنا پر ایسی عورت کو ایک دفعہ خون حیض دیکھنے تک عدت گزارنی چاہئے۔[18]

شوہر کے مرتد ہونے کی عدّت

تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میاں اور بیوی میں سے جو بھی مرتد ہو جائے تو ان کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔[19] اگر مرد مرتد فطری ہو جائے تو میاں بیوی کی جدائی یقینی ہو جاتی ہے اور اس صورت میں بیوی کو عدّت وفات گزارنی پڑے گی؛ لیکن اگر مرتد ملی ہو جائے تو عورت کو عدّت طلاق گزارنی پڑے گی اور اگر عدت کے دوران مرد دوبارہ مسسلمان ہو جائے تو ان کا نکاح دوبارہ جاری ہو گا۔[20]

لیکن اگر عورت مرتد ہو جائے چاہے مرتد ملی ہو یا فطری، اسے عدت طلاق گزارنی پڑے گی۔[21]

عدّت کے احکام

مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق عدّت کے بعض احکام درج ذیل ہیں:

  • عدّت گزارنے والی عورت کے ساتھ شادی حرام اور باطل ہے چاہے دائمی ہو یا موقتی؛ طلاق کی عدّت گزار رہی ہو یا وفات کی یا کسی اور سبب سے کوئی فرق نہیں ہے۔[22]
  • اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو طلاق رِجعی کی عدّت میں ہو نکاح اور ہمبستری کرے تو یہ عورت اس مرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے؛ چاہے عدے کے دوران نکاح کرنے کے حکم سے ناواقف ہو یا یہ نہ جانتا ہو کہ عورت عدے میں ہے۔[23]
  • اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عدے میں موجود عورت سے نکاح کرنا حرام ہے اور یہ کہ عورت عدے میں ہے، اس عورت سے نکاح کرے تو یہ عورت اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے؛ اگرچہ اس شخص نے اس عورت کے ساتھ ہمبستری نہ بھی کی ہو۔[24]
  • طلاق رِجعی کے عدے میں موجود عورت سے منگنی کرنا جائز نہیں ہے۔[25]
  • عدّہ طلاق رجعی میں موجود عورت کا نفقہ شوہر پر واجب ہے؛ لیکن عدہ طلاق بائن میں صرف اس صورت میں نفقہ شوہر پر واجب ہے کہ عورت حاملہ ہو۔[26]
  • شوہر کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکال دے جو عدّہ طلاق رجعی میں ہو۔ اسی طرح اس عورت کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے۔[27]
  • عدّہ وفات کے دوران زینت محسوب ہونے والے امور جیسے سرمہ لگانا اور زینتی لباس پہننا عورت پر حرام ہے۔[28]
  • جو عورت عدّہ طلاق رجعی میں ہو اگر اس کے ساتھ زنا کی جائے تو یہ چیز ان دونوں کے درمیان حرمت ابدی کا سبب بنے گا۔[29]

وہ عورتیں جن کیلیے عدّت نہیں ہوتی

فقہی اعتبار سے بعض عورتوں کے لئے شوہر سے جدا ہونے کے بعد عدّت نہیں ہوتی۔ من جملہ ان میں نابالغ لڑکی اور یائسہ عورت ہے۔[30] اسی طرح وہ عورت جس کے ساتھ شادی کے بعد ہمبستری نہیں ہوئی ہے، اس کے لئے بھی عدہ نہیں ہے، مگر یہ کہ ان کی ازدواجی زندگی کے خاتمہ کی علت شوہر کی وفات ہو۔[31] زناکار عورت بھی اگر حاملہ ہو تو اس کے لئے بھی کوئی عدّت نہیں لیکن اسی طرح حاملہ نہ ہو تو بھی اکثر فقہاء کے فتوے کے مطابق اس کے لئے عدّت گزارنا واجب نہیں ہے۔[32]

فلسفہ

بعض حدیثی، تفسیری اور فقہی کتابوں میں اسلام میں عدّت کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔ تفسیر نمونہ میں عدہ وفات کا فلسفہ شوہر کا احترام قرار دیا ہے؛ استدلال یہ پیش کی گئی ہے کہ شوہر کی وفات کے فورا بعد دوسری شادی شوہر کے احترام کے ساتھ سازگار نہیں اس کے علاوہ یہ کام شوہر کے رشتہ دراوں کے جزبات کو ٹھیس پہنچنے کا باعث بھی ہے۔[33] اسی طرح عدہ طلاق میں اس کا فلسفہ شوہر کو اپنے فیصلے میں تجدید نظر کے لئے مہلت دینا بیان ہوا ہے۔[34]

کتاب علل‌الشرایع میں موجود ایک حدیث عدہ وافات کا چار ماہ دس دن ہونے کی علت، عورت کی جنسی ضرورت کی حد اکثر مقدار بیان کی گئی ہے؛ جس کی دلیل اس حکم کو قرار دیا ہے جس میں شوہر پر حد اکثر ہر چار مہینے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنا واجب ہے۔[35]

اسی طرح رحم کا پاک ہونا[36] اور نسبوں کا آپس میں مخلوط ہونے سے بچانا بھی عدہ کی علتوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[37]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱۔
  2. نمونے کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃالبہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۵۷؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸، ج۳، ص۲۲؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱و۲۱۲۔
  3. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۹؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۳۔
  4. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ مفید احکام‌النساء، ۱۴۱۳ق، ص۴۳؛‌ شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۶؛ شہید ثانی، مسالک‌الاَفہام، ۱۴۱۳ق، ج۹، ص۲۱۳۔
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۵۲؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۶۔
  6. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۳۰؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۴۔
  7. رجوع کریں: مسالک‌الاَفہام، ۱۴۱۳ق، ج۹، ص۲۲۹؛‌ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۳۰۔
  8. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۷۴؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷۔
  9. سورہ بقرہ، آیت۲۳۴۔
  10. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۲۰۰ و ج۳۲، ص۲۷۵؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷ و ج۲، ص۲۵۱۔
  11. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۲۰۰، ج۳۲، ص۲۷۵؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷۔
  12. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۶۔
  13. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۵۱؛‌ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۶۔
  14. مختلف الشیعۃ، ج۷، ص۲۳۱ -۲۳۲؛ التنقیح الرائع، ج۳، ص۱۳۲-۱۳۳؛ جواہر الکلام، ج۳۰، ص۱۹۶
  15. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۵۱؛‌ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۹۔
  16. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۳۷۸و۳۷۹۔
  17. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۹۳۔
  18. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۵، ص۵۳۲و۵۳۳۔
  19. جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۷۵۔
  20. جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۷۹۔
  21. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۲۲۸۔
  22. امام خمینی، نجاۃالعباد، ۱۴۲۲ق، ص۳۷۰۔
  23. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۷۱۔
  24. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۷۰۔
  25. گلپایگانی، مجمع‌المسائل، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۵۶؛ فیاض، رسالہ توضیح‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۵۵۲۔
  26. فیاض، رسالہ توضیح‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۵۶۵؛ بہجت، جامع‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ج۴، ص۱۰۸و۱۰۹
  27. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۵۳۰۔
  28. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۵۲۷۔
  29. امام خمینی، استفتائات، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۲۹۹و۳۰۰؛ بہجت، رسالہ توضیح‌المسائل، ۱۴۲۸ق، ص۳۸۲۔
  30. رجوع کریں: نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۴۱۔
  31. رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃالبہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۵۷؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸، ج۳، ص۲۲؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱و۲۱۲۔
  32. رجوع کریں: یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۵، ص۵۳۲و۵۳۳۔
  33. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۹۳۔
  34. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۲۲۲۔
  35. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۵۰۸۔
  36. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۵۰۸۔
  37. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۴۷۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۲۲ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، نجاۃالعباد، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیح‌المسائل مراجع مطابق با فتاوای سیزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۴ھ۔
  • بہجت فومنی، محمدتقی، جامع‌المسائل، قم، دفتر آیت‌اللہ بہجت، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • بہجت فومنی، محمدتقی، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، شفق، چاپ نود و دوم، ۱۴۲۸ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی طبقاً لمذہب اہل‌البیت علیہم‌السلام، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت علیہم‌السلام، ۱۴۱۳ھ۔
  • رستمی تبریزی، لمیاء، «تطبیق قوانین عدہ در ایران و سایر کشورہا»، مجلہ مطالعات راہبردی زنان، ش۴۳، ۱۳۸۸ش۔
  • شمس، عبداللہ، قانون مدنی ایران و قانون مسؤلیت مدنی، تہران، دراک، چاپ دہم، ۱۳۹۴ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، عللالشرایع، قم، کتابفروشی داوری، ۱۳۸۵ش/۱۹۶۶م۔
  • صفایی و امامی، سید حسین و اسداللہ، مختصر حقوق خانوادہ، بنیاد حقوقی میزان، چاپ بیست و پنجم، ۱۳۸۹ش۔
  • فیاض کابلی، محمداسحاق، قم، مجلسی، رسالہ توضیح‌المسائل، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
  • گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع‌المسائل، قم، دارالقرآن الکریم، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
  • موسوی اردبیلى، سيد عبد الکريم، فقہ الحدود و التعزیرات، قم،‌ مؤسسہ انتشارات دانشگاہ مفید، چاپ دوم،‌ ۱۴۲۷ھ۔‌
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع‌الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
  • یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی فی ما تعلم بہ البلوی، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔