عورتوں کی جسمانی سزا

ویکی شیعہ سے

عورتوں کی جسمانی سزا ایک معاشرتی مسئلہ ہے جس کی اسلام میں ممانعت ہوئی ہے، اور ناشزہ عورتوں (وہ خواتین جو ازدواجی فرائض ادا کرنے سے انکار کرتی ہیں) کے بارے میں اصل حکم اور اس کی تفصیلات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

مشہور مسلمان علماء نے عورتوں کی جسمانی سزا کو سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں لفظ "وَاضْرِ‌بُوہُنَّ" سے مستند کیا ہے؛ تاہم، اس کی نوعیت میں اختلاف پایا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے مسواک کی لکڑی سے مارنے تک محدود کر دیا ہے۔ اس حکم کے بعض مخالفین بھی ہیں۔ محمد ہادی معرفت سمیت دیگر محققین کا خیال ہے کہ یہ حکم غلامی کے مسئلے کی طرح ہے اور اسلام اسے قدم بقدم ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں لفظ ضرب کا مطلب بیوی کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرنا یا شوہر کی طرف سے گھر چھوڑنا ہے۔ اس حکم کو جنگ احد کے نازک حالات سے مختص کرنا اور ان شرائط کے ختم ہونے پر حکم منسوخ ہونے یا اسے معاشروں کے ثقافتی حالات سے جوڑنا اس مسئلہ میں دوسری آراء ہیں۔

بعض مذہبی کتابوں میں خواتین کی جسمانی سزا بیان کرنے کو خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کا سبب سمجھا گیا ہے۔ دوسری طرف، یہ سزا صرف ان خواتین پر لاگو ہو سکتی ہے جو اپنے ازدواجی فرائض میں کوتاہی کرتی ہیں؛ دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں سزا کی حد بھی سختی سے محدود کی گئی ہے، یہاں تک کہ عورت کے جسم میں سوجن یا سرخی بھی نہ ہو، اور اگر اس حد سے بڑھ جائے تو مرد کے لیے قانونی اور مجرمانہ نتائج ہوں گے۔ البتہ ایسے حکم کو لازمی نہیں سمجھتے ہیں؛ بلکہ اس کے نفاذ کو احادیث میں امت کے برے مردوں کے کام سمجھا گیا ہے۔

مفہوم شناسی


«... وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُ‌وہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوہُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَکمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیہِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّہَ کانَ عَلِیا کبِیرً‌ا»

«اور وہ عورتیں جن کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو انہیں (نرمی سے) سمجھاؤ (بعد ازاں) انہیں ان کی خواب گاہوں میں چھوڑ دو اور (آخرکار)۔ انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اور اقدام کرنے کے راستے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ (اپنی کبریائی میں) سب سے بالا اور بڑا ہے۔»[1]

عورتوں کی جسمانی سزا کا حکم سورہ نساء کی آیت نمبر 34 سے لیا گیا ہے، جو ناشزہ عورتوں (وہ خواتین جو ازدواجی فرائض ادا کرنے سے انکاری ہیں)(زنانی کہ وظایف ہمسری خود را بجا نمی‌آورند) لاہو ہوتا ہے۔[2] اس آیت کے مطابق نافرمان عورت کو پہلے نصیحت کرنا ہے اور اگر ان پر اثر نہ کرے تو ان سے بستر الگ کرنا ہوگا اور اگر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو مارنے کی باری آئے گی۔[3]

خواتین کی جسمانی سزا کے مسئلے کو اسلام سے مخصوص نہیں سمجھا گیا ہے؛ بلکہ اسے ایک ایسا سماجی مسئلہ قرار دیا گیا ہے جو مختلف معاشروں میں زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ابتدا سے لے کر ترقی یافتہ دور تک کے کسی زمانے سے محدود نہیں۔[4]

نظریات

سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں لفظ "وَ اضْرِ‌بُوہُنَّ" کے بارے میں زمان و مکان کے حالات اور تقاضوں کی بنا پر متعدد آراء پیش کی گئی ہیں۔ بعض نے اس حکم کو دائمی قرار دیا ہے اور بعض نے اسے معاشروں کے ثقافتی حالات یا جنگ احد کے خاص حالات سے متعلق قرار دیا ہے جسے اس کے بعد منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس حکم کو دائمی قرار دینے والوں میں سے بعض نے اس کو مار پیٹ کے معنی میں لیا ہے جبکہ بعض نے نرمی اور مہربانی سے اور بعض نے شوہر کو اپنا گھر چھوڑنے کے معنی میں لیا ہے۔[5]

عورتوں کو مارنا

مشہور شیعہ اور اہل سنت مفسرین اور فقہاء کے مطابق سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں "ضرب" کا مطلب مارنا ہے اور وہ اسے ایک دائمی؛ حکم سمجھتے ہیں؛[6] البتہ جو لوگ اس نظرئے کے حامی ہیں او بعض روایات سے استناد کرتے ہوئے[7] وہ "ضرب" کے لیے بعض شرائط کی رعایت کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ عورت کی طرف سے خلاف ورزی (نشوز) کا ارتکاب، نصیحت، غصہ ہونا اور مارنے کے درمیان ترتیب کا خیال رکھنا اور مارنا اصلاح کی نیت سے ہو انتقام کے غرض سے نہیں،[8] کم سے کم پر اکتفاء کرے[9] اور اس طرح مارنے سے گریز کرنا جو دیت (خون بہنے، زخمی ہونے یا ٹوٹا جانے) کا باعث ہو،[10] یہ وہ شرائط ہیں جن کی رعایت کرنا عورتوں کو مارتے ہوئے ضروری ہے۔[11]

بعض مفسرین نے، اس آیت میں عورتوں کی جسمانی سزا کے مسئلے کے بارے میں نئی ​​دنیا کے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے، مشہور قول کو درست ثابت کرنے کے لیے خاندانی مصلحت اور ماہرین نفسیات کے نظریات کی طرف رجوع کیا ہے۔ اہل سنت عالم دین محمد عبدہ، عورتوں کو مارنے کی قانونی حیثیت کو عقل اور فطرت کے نقطہ نظر سے قابلِ اعتراض نہیں سمجھتے، جب اس کی نافرمانی کی وجہ سے خاندان تباہ ہورہا ہو؛ البتہ اگر نافرمانی سے واپسی کو مارنے سے درست کیا جا سکتا ہے۔[12] شیعہ مفسر مکارم شیرازی بھی اس اعتراض کے جواب میں کہ اسلام نے مردوں کو عورتوں پر مارنے کی اجازت کیسے دی ہے، کے بارے میں کہتا ہے: یہ سزا صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے جو ذمہ داری نہیں نبھاتے ہیں؛ جیسا کہ دنیا کے تمام قوانین میں مجرموں کو سزا دی جاتی ہے۔[13] سید محمد حسین حسینی تہرانی عورت کی جسمانی سزا کو عدل قائم کرنے اور فطرت پر واپس لانے کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ قرآن کی آیات کے مطابق نیک عورت وہ عورت ہے جو اپنی زندگی کو حق اور انصاف پر استوار کرتی ہے اور نظام فطرت اور شریعت کی پیروی کرتی ہے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے، اور شوہر کی موجودگی میں یہ اطاعت ہمیشہ کرتی ہے اور اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے آپ کی اور اس کی جائیداد کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن جو عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے اور اسے اختیار نہیں دیتی ہے اور بیوی کے حقوق کو پورا کرنے میں نافرمانی (نافرمانی اور انکار) کرتی ہے، وہ عورت فطری زندگی سے منحرف ہوچکی ہے لہذا اسے فطری زندگی اور اعتدال کے راستے پر واپس لانے کے لئے اسے سزا دینا ضروری ہے۔[14]

مار پیٹ زمان اور مکان کی ثقافت اور رواج پر منحصر

اہل سنت مفسر ابن عاشور کا خیال ہے کہ سورہ نساء کی آیت 34 میں عورت کو مارنے کی اجازت کا انحصار اس ثقافت پر ہے جو عورت کو مارنے کو ظلم نہیں سمجھتا ہے؛ ورنہ عورتوں کو سزا دینا جائز نہیں ہوگا۔ وہ اس آیت کی بنیاد پر جو روایات عورتوں کو مارنے کی اجازت دیتی ہیں انہیں اس قبائل پر حاکم عرف اور رسم رواج سے متاثر سمجھتے ہیں؛ کیونکہ بدو قبائل میں عورتوں کو مارنا ظلم نہیں سمجھا جاتا تھا۔[15]

مہربانی یا گھر چھوڑنا

مشہور نظرئے کے برخلاف بعض مصنفین کے مطابق عربی زبان میں ضرب کے لفظ کے معانی مثلاً منہ پھیرنا اور چھوڑنا، رکنا، بدلنا، اوور ہمبستر ہونا وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا خیال ہے کہ اس کا استعمال قرآن میں دوسرے الفاظ کے قرینے سے معین ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق سورہ نساء کی آیت 34 میں لفظ "واضربوہن" کا مطلب صرف مارنا ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس سے مراد بیوی کے ساتھ شوہر کی نرمی اور مہربانی ہے۔ اس بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہے؛ نافرمان (ناشزہ) عورتوں کی تین قسمیں ہیں: بعض کو وعظ و نصیحت سے تنبیہ کیا جاسکتا ہے، اور بعض کو غصہ اور بستر سے الگ ہونے کے ذریعے، اور آخری گروہ شوہر کے پیار اور مہربانی سے رام ہوتی ہیں۔ اس قول کے مطابق مفسرین کی اس آیت میں ضرب کے لفظ کا ترجمہ مارنے کی کرنے کی غلطی ان روایات کی وجہ سے ہوئی ہے جن میں عورتوں کو مارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔[16] یعنی شوہر کا گھر سے نکلنا بیوی کو ہم آہنگ کرنے کا آخری حل ہے۔ ایک اور رائے جسے سید کمال حیدری اور عبد الحمید احمد ابو جیسے بعض علما نے پیش کیا ہے کہ «واضربوہن» سے مراد شوہر کی طرف سے بیوی کو راہ پر رانے کے لئے آخری حربہ گھر چھوڑنا ہے۔ اس نظرئے میں مشہور قول کو اس وقت کے مردانہ ماحول کی وجہ سمجھتے ہیں جب آیت نازل ہوئی یا روایتیں صادر ہوئیں تو اس وقت مردوں کا ماحول حاکم تھا۔ اور ان کا کہنا ہے کہ طلاق جیسے راہ حل کے ہوتے ہوئے ناشزہ عورت کو مارنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔[17]

تمہیدی نَسْخ

محمد ہادی معرفت اور مہدی مہریزی سمیت بعض محققین کا خیال ہے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں موجود احکام، خاص طور پر خواتین کو مارنے کا مسئلہ، ایسے ابتدائی احکام ہیں جو معاشرے کو ایک اور حقیقی مقصد کے لیے تیار کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔[18] اس رائے کے مطابق، غلامی اور عورتوں کے ساتھ سخت سلوک جیسے کچھ جاہلانہ طریقوں کو ختم کرنے کے لیے اسلام میں طویل المدت یا قلیل المدت حل موجود ہیں، جنہیں تمہیدی نَسخ کہا جاتا ہے۔ جس میں ایک حکم کو ابتدائی طور پر ہی کسی مخصوص ٹائم تک کے لئے بنایا گیا ہے جن کے لئے عصر پیغمبر اکرمؐ میں ہی زمینہ فراہم کیا گیا ہے۔[19] ہادی معرفت نے بعض قرائن، جیسے عورت کو مسواک کی لکڑی سے مارنا، اور احادیث میں عورت کے احترام کی تاکید سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 کا اطلاق منسوخ ہوچکا ہے۔[20]

مہدی مہریزی نے آیت اللہ معرفت کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے: اس آیت کے بارے میں جو روایتیں صادر ہوئی ہیں ان کا مجموعہ اس طرح ہے کہ مارنا واقع نہ ہو اور حتیٰ کہ وہ روایت جو مارنے کا حکم دیتی ہے، اسے امت کے برے لوگوں کی طرف منسوب کرتی ہے نہ کہ نیک لوگوں کی طرف۔[21]

جنگ احد کے نازک حالات

عرب دنیا کے محقق محمد الطالبی اپنی کتاب امۃ الوسط میں سورہ نساء کی آیت نمبر 34 کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: اس آیت کے نزول سے پہلے عورتوں کو مارنا ممنوع تھا اور مردوں کو خواتین پر مارنے پر قصاص کیا جاتا تھا، جو کچھ مہاجر مردوں کے لیے ایک بھاری حکم تھا۔ ان کے بقول جنگ احد کے حالات میں مردوں میں جنگ سے اجتناب کرنے کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور حبیبہ کی اپنے شوہر کے خلاف شکایت اور نبی اکرمؐ کی طرف سے قصاص کے حکم سے معاشرہ دھماکے کی حد کو چھو رہا تھا اور اسلام کی نابودی کا امکان بھی تھا، اسی لیے یہ آیت نازل ہوئی اور ناشزہ (نافرمان) عورتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا۔ اس قول کے مطابق رسول اللہؐ کے ارشاد کے مطابق عورتوں کو مارنے کا جواز مکروہ پر حمل کیا جاتا ہے اور یہ حکم انہی تاریخی شرائط کے ساتھ مشروط تھا اور جب وہ شرائط ختم ہوئے تو عورتوں کو مارنے کے جواز کا حکم بھی ختم ہوا۔[22]

گھریلو تشدد کا پھیلاؤ

سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں نافرمان عورتوں کے ساتھ نمٹنے کے لئے پائے جانے والے راہ حل کی بنیاد پر، اگر مشہور نظرئے کے مطابق "و اضربوہن" کا مطلب مارنا سمجھا جائے تو یہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس نظرئے کے مطابق سورہ نساء کی آیت 34 کو قرآن کے پرتشدد قوانین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اسے "تشدد کی تاکید" سے جانا جاتا ہے۔[23]

اس شبہ کے جواب میں اسلامی صاحب نظروں نے کئی نکات پر زور دیا ہے:

  1. شوہر اور بیوی کے تعلقات کے بارے میں اسلامی آیات اور روایات کا عمومی ماحول مکمل طور پر پرامن اور محبت بھرے تعلقات کی ایک تصویر ہے؛ اس طرح سے کہ آیات میں ان دونوں کا تعارف ایک دوسرے کی تسکین اور تکمیل کے طور پر کیا گیا ہے اور مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ احادیث میں بھی باہمی احترام، فریقین خصوصاً خواتین کی عزت و وقار کو برقرار رکھنے، عورتوں کے ساتھ سختی کرنے سے منع اور عورتوں کے ساتھ مردوں کے پرتشدد رویے کی مذمت جیسے بہت سے مسائل ملتے ہیں۔[24]
  2. اس حکم کے جواز کو خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے (اہم مصلحت) اور بے لگام تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ آیات اور روایات میں عورتوں کے ساتھ برتاؤ کی حدود متعین کرنے سے یہ عورتوں پر مردوں کے لامحدود تشدد اور سختیوں کو روکتی ہے۔[25]
  3. ناشزہ کی طرف سے اپنے شوہر کے حقوق کی پامالی کو منکر اور برائی کے مصداق میں سے قرار دیا ہے اور سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں مذکور تینوں راہ حل نہی از منکر اور اس کے مراحل میں سے ہیں۔[26] اور معاشرے میں نہی از منکر کا جسمانی سزا کا مرحلہ اسلامی حکومت کے توسط نافذ ہوتا ہے اور خاندان کے اندر اس کی اجازت اللہ تعالی کی طرف سے شوہر کو دی گئی ہے تاکہ کسی غیر کا خاندان کی رازداری میں داخل نہ ہو۔[27]
  4. آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان عورتوں پر سزا کا اطلاق کیا جا سکتا ہے جو اپنے شور کے مخصوص فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرتی ہیں؛[28] دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں سزا کی حد سختی سے محدود ہے، یہاں تک کہ سوجن یا سرخ نہ ہو اور اگر اس حد سے بڑھ جائے تو مرد کے لیے قانونی اور مجرمانہ نتائج ہوں گے؛[29] نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس حکم پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ مرد کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس کو اجرا نہ کرے اور احادیث کی رو سے اس کا نفاذ امت کے بدکار مردوں کا کام قرار دیا گیا ہے۔[30]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سورہ نساء، آیہ 34۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،1371ش، ج3، ص373- 374۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج4، ص345۔
  4. طالبی، «مسألہ تنبیہ بدنی زنان»، ص475۔
  5. مہریزی، «تطور دیدگاہ‌ہا در تفسیر آیہ 34 سورہ نساء»، ص32-33۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص69؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ق، ج5، ص350؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج4، ص345؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص372؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر،‌1420ق، ج10، ص72؛ صدوق، من لا یحضر، 1413ق، ج3، ص521؛ شہید ثانی، مسالک، 1413ق، ج8، ص356۔
  7. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج101، ص58۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، 1417ق، ج31، ص306؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ،‌ 1379ش، ج2، ص305۔
  9. فخر رازی، تفسیر الکبیر،‌1420ق، ج10، ص72۔
  10. مفید، المقنعہ، 1413ق، ص518۔
  11. مہریزی، «تطور دیدگاہ‌ہا در تفسیر آیہ 34 سورہ نساء»، ص11۔
  12. رشید رضا، المنار، 1414ق، ج5، ص75۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، 373-374۔
  14. رسالہ بدیعہ، حسینی طہرانی، سید محمد حسین، ص81
  15. ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ق، ج4، ص118-119۔
  16. مہریزی، «تطور دیدگاہ‌ہا در تفسیر آیہ 34 سورہ نساء»، ص22-23۔
  17. دیدگاہ سید کمال حیدری؛ مہریزی، «تطور دیدگاہ‌ہا در تفسیر آیہ 34 سورہ نساء»، ص22-23۔
  18. معرفت، شبہات وردود حول القران الكريم، 1388ش، ص157-158۔
  19. معرفت، «زن در نگاہ قرآن و در فرہنگ زمان نزول»
  20. معرفت، شبہات وردود حول القران الكريم، 1388ش، ص158۔
  21. مہریزی، شخصیت و حقوق زن در اسلام، 1382ش، ص275-276۔
  22. الطالبی، امة الوسط، 1996م، ص133۔
  23. مدبر، «نقد شبہہ تاکید بر خشونت خانگی در آیہ 34 سورہ نساء»، بہ نقل از افشاری، خشونت زنان و اسلام، ص42۔
  24. معرفت، شبہات و ردود حول قرآن الکریم، 1388ش، ص149-158۔
  25. مدبر، «نقد شبہہ تاکید بر خشونت خانگی در آیہ 34 سورہ نساء»، ص43۔
  26. نجفی، جواہر الکلام، 1403ق، ج31، ص203-206۔
  27. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1387ش، ج21، ص548۔
  28. نجفی، جواہر الکلام، 1403ق، ج31، ص202؛ اردبیلی، زیدة البیان، مکتبہ المرتضویہ، ج1، ص537۔
  29. حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج2، ص282؛ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج2، ص212-213۔
  30. امین، مخزن العرفان، 1361ش، ج4، ص63-64؛ سیوطی، درالمنثور، 1404ق، ج2، ص155۔

مآخذ

  • ابن عاشور، محمدطاہر، تفسیر التحریر و التنویر، بیروت، موسسہ التاریخ العربی، 1420ھ۔
  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدة البیان، تہران، المکتبہ المرتضویہ، بی‌تا.
  • الطالبی، محمد، «مسالہ تنبیہ بدنی زنان»، مترجم مہدی مہریزی، در مجلہ بازتاب اندیشہ، شمارہ 64، 1384ہجری شمسی۔
  • الطالبی، محمد، امة الوسط، بی‌جا، 1996م.
  • امام خمینی، روح اللہ، تحریر الوسیلہ، قم،‌ دار العلم، 1379ہجری شمسی۔
  • امین اصفہانی، سیدہ نصرت، مخزن العرفان، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1361ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، موسسہ اسراء، 1378ہجری شمسی۔
  • حلی، نجم الدین جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، موسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • رشید رضا، تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، بیروت، دارالمعرفہ، 1414ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الدرر المنثور، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، موسسہ المعارف الاسلامیہ، 1413ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان، تہران، نشر مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1420ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1403ھ۔
  • مدبر، علی، نقد شبہہ تاکید بر خشونت خانگی در آیہ 34 سورہ نساء»، در فصلنامہ مطالعات تفسیری، شمارہ 32، 1396ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، «زن در نگاہ قرآن و در فرہنگ زمان نزول»، در فصلنامہ پژوہش‌ہای قرآنی، شمارہ 26-25 و 27-28، 1380ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، شبہات و ردود حول القرآن الکریم، قم، موسسہ التمہید، 1388ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
  • مہریزی، مہدی، تطور دیدگاہ‌ہا در تفسیر آیہ 34 سورہ نساء، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن، شمارہ1، 1384.
  • مہریزی، مہدی، شخصیت و حقوق زن در اسلامی، تہران، انتشارات علمی فرہنگی، 1390ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1417ھ۔