سجدہ
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
سجدہ ایک عبادی عمل ہے جس میں خشوع و خضوع اور تعظیم کی خاطر خدا کے سامنے اپنی پیشانی زمین پر رکھی جاتی ہے ۔اسلامی تعلیمات میں اسے خاضع ترین عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ ہر مسلمان پر واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں دو سجدے انجام دینا ضروری ہے۔
مذہب تشیّع کے مطابق نماز کے سجدے میں پیشانی فقط اور فقط زمین سے اگنے والی ایسی چیزوں پر رکھنا صحیح ہے جو کھانے، پینے یا پہننے میں استعمال نہ کی جاتی ہو۔ لیکن اہل سنت قالین اور اس طرح کی دوسری چیزوں پر بھی سجدہ جائز سمجھتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سجدہ غیر خدا کے لئے حرام ہے۔
تعریف اور اہمیت
لغوی اعتبار سے سجدہ خضوع، خم ہونا[2] اور پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔[3] شرعی اصطلاح میں انسان کا اپنے چھ اعضا کے ہمراہ اپنی پیشنی کو زمین پر لگانا ہے ۔[4][5]
سجدہ کا لفظ قرآن میں 60 مرتبہ آیا ہے[6] اور قران کی ایک سورت کا نام بھی سجدہ ہے جس کی آخری آیت میں سجدے کو قُرب خدا کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔[7]
احادیث میں سجدے کو قرب خداوندی کے حصول کے لئے بہترین حالت قرار دیا گیا ہے۔[نوٹ 1] سجدہ صرف انسانوں سے مختص نہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں تمام موجودات سجدہ کے ذریعے عبادت کرتی ہیں۔[نوٹ 2]
نماز کے سجدے کے علاوہ سجدے کی مختلف اقسام بھی ہیں:
- سجدہ شکر: واجب اور مستحب نمازوں کے اختتام پر، کوئی نئی نعمت کے حصول پر، کسی مصیبت یا بلا کے ٹل جانے پر، کسی نیک کام کی انجام دہی یا کسی گناہ کو ترک کرنے کی توفیق حاصل ہونے پر خدا کے لئے سجدہ شکر بجا لانا مستحب ہے۔[8]
- سجدہ سہو: بھولے سے واجب نمازوں کے بعض اجزاء کی کمی بیشی یا نماز کی حالت میں بعض امور کی انجام دہی جیسے بھولے سے کوئی بات کہنا وغیرہ، پر نماز کے اختتام پر پر دو سجدے واجب ہوتے ہیس جسے سجدہ سہو کہا جاتا ہے۔[9]
- قرآن کے واجب سجدے: قرآن کی آیات سجدہ واجب: سورہ سجدہ آیت نمبر 15، فصلت آیت نمبر 37، نجم آیت نمبر 62 اور علق کی آیت نمبر 19 کو پڑھنے یا سنے پر واجب ہو جاتا ہے۔[10]
احکام
تمام واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے ضروری ہیں۔ یہ دونوں سجدے مل کر نماز کے ارکان میں شامل ہیں جس کی بنا پر واجب نمازوں میں عمدا یا بھولے سے ان کو ترک کرنا نماز کے بطلان کا سبب ہے۔ لیکن مستحب نمازوں میں اگر بھولے سے دونوں سجدے ترک جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی۔[11]
کیفیت
نمازی کو رکوع بعد بیٹھ کر اپنے جسم کے سات اعضاء یعنی پیشانی، دونوں ہتھیلی، دونوں گٹھنے اور پاؤں کے دونوں انگوٹھوں کو زمین پر رکھنے کے بعد بدن کے سکون کی حالت میں سجدے کے ذکر کو پڑھنا واجب ہے۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھا کر دوبارہ مذکورہ طریقے پر سجدے میں جائے۔ اس کے بعد دوبارہ بیٹھ کر نماز کے دیگر اعمال انجام دئے جاتے ہیں۔[12]
معذور افراد کے سجدے کی کیفیت
جو شخص اپنی پیشانی زمین پر نہیں رکھ سکتا اس پر واجب ہے جتنا جھک سکتا ہے جھکے اس کے بعد سجدہ گاہ یا کوئی ایسی چیز جس پر سجدہ صحیح ہے، بلند کر کے اس پر اس طرح اپنی پیشانی رکھے کہ دیکھنے والے یہ کہے کہ اس نے سجدہ کیا ہے۔ اور باقی اعضائے سجدہ کو بطور متعارف زمین پر رکھنا واجب ہے۔[13]
اسی طرح وہ شخص جو بالکل جھک ہی نہیں سکتا اسے چاہئے بیٹھ کر سجدے کی نیت سے سر کا اشارہ کرے اگر یہ بھی انجام نہیں دے سکتا تو آنکھوں کے ذریعے اشارہ کرے۔ ان افراد کو بھی چاہئے اگر انجام دے سکتا ہو و سجدہ گاہ وغیرہ کو بلند کر کے اس پر پیشانی رکھے اگر انجام نہ دے سکے تو کوئی اور شخص سجدہ گاہ وغرہ کو بلند کر کے اس کی پیشانی پر رکھے۔ اگر سر اور آنکھوں کے ذریعے اشارہ بھی نہیں کر سکتا ہو دل میں سجدے کی نیت کرے اور ہاتھ یا کسی اور عضو کے ذریعے اشارہ کرے۔[14]
واجبات سجدہ
- سجدے میں تمام سات اعضائے سجدہ کا زمین پر رکھنا واجب ہے۔[15]
- ذکر سجدہ سجدے میں پہنچ کر جسم کے سکون کے بعد پڑھنا واجب ہے۔[16]
- پہلے سے سر اٹھانے کے بعد دوسرے سجدے میں جانے سے پہلے بدن کو سکون حاصل ہونا ضروری ہے عمدا اسے ترک کرنے کی صورت میں نماز باطل ہوگی۔[17]
- ایک سجدے کو عمدا کم یا زیادہ کرنے سے نماز باطل ہوگی لیکن اگر ایک سجدہ بھول جائے اور دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے باد آ جائے تو بیٹھ کر بھولے ہوئے سجدے کو انجام دے اس کے بعد نماز کو کامل کرے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو بھی واجب ہے؛ لیکن اگر دوسری رکعت کے رکوع کے بعد یاد آ جائے تو نماز کو اسی حالت میں جاری رکھ کر مکمل کرے اور نماز کے بعد مذکورہ سجدے کی قضا کے ساتھ ساتھ دو سجدہ سہو بھی انجام دے۔[18]
مستحبات سجدہ
فقہی کتابوں میں سجدے کے لئے کجھ مستحبات کا ذکر آیا ہے جو درج ذیل ہیں:[19]
- رکوع سے سجدے میں جانے پہلے، سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اور دوسرے سجدے میں جانے سے پہلے اللہ اکبر کہنا۔
- رکوع کے بعد سجدے میں جانے کے لئے مرد حضرات پہلے ہاتھوں کو اور خواتین پہلے گٹھنوں کو زمین پر رکھے۔
- ناک کو کسی ایسی چیز پر رکھنا جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو۔
- سجدہ کرتے وقت نظروں کا دونوں نتھنوں کی طرف ہونا [20]
- ہاتھ کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف رکھنا اور انگوٹھے کے علاوہ باقی انگلیوں کو آپس میں ملا کر رکھنا۔
- ذکر سجدہ کو تکرار کرنا اور اسے طاق عدد پر ختم کرنا اسی طرح سجدے میں صلوات پڑھنا اور سجدے کو طول دینا۔
- سجدے کے بعد تورّک(بائیں ران پر بیٹھنا اور دائیں پاؤوں کو بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھنا) کی طرز پر بیٹھنا۔
- دو سجدوں کے درمیان بیٹھ کر بدن کے سکون کے بعد استغفار پڑھنا۔
- سجدے کے وقت مرد حضرات بازوں کو پروں کی طرح کھول کر رکھیں اور خواتین بازوں کو بدن کے ساتھ ملا کر رکھیں۔
- سجدے سے سر اٹھا نے بعد ہاتوں کو رانوں پر رکھنا۔
- سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت ہاتھوں سے پہلے گٹھنوں کو زمین سے بلند کرنا۔
- سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت "بِحَولِ اللہِ وَ قُوَّتِہِ أقُومُ وَ أقْعُدُ" کہنا۔
ذکر
سجدہ کا مخصوص ذکر: "سُبْحانَ رَبِّی الاَعْلیٰ وَ بِحَمْدِہِ" ہے۔ البتہ اس کی جگہ 3 دفعہ "سُبْحانَ اللہِ" یا اسی مقدار میں کسی اور ذکر کا پڑھنا بھی جائز ہے۔[21]
قال الصادقؑ: |
إنّ قَوما أتَوا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم فقالوا: یا رسولَ اللہ، اضمَن لَنا علی رَبِّک الجَنَّۃَ، فقالَ: علی أن تُعِینُونِی بِطُولِ السُّجودِ۔ |
امام صادقؑ نے فرمایا: ایگ گروہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں شرفیاب ہو کر عرض کیا: اے رسول خدا، اپنے پروردگار سے ہمارے لئے بہشت کی ضمانت دیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: اس شرط کے ساتھ کہ تم بھی سجدوں کو طول دینے کے ذریعے میری مدد کرو۔ |
شیخ طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۴۔ |
محل سجدہ
سجدہ کی جگہ پاک[22] اور زمین یا زمین سے اگنے والی ایسی چیزوں کا ہونا ضروری ہے جو کھانے پینے اور پہنے میں استعمال نہ کی جاتی ہو،[23] اس بنا پر لکڑی یا گھاس پھوس سے بنے ہوئے کاغذ اور ٹیشو پیپر پر سجدہ صحیح ہے۔[24] احادیث کے مطابق سجدہ گاہ کے لئے سب سے زیادہ بافضیلت چیز تربت امام حسینؑ ہے۔[25]
معدنیات جیسے سونا، چاندی اور تارکول صحیح نہیں ہے اور اکثر مجتہدین معدنی پتھروں جیسے عقیق اور فیروزہ پر بھی سجدہ صحیح نہیں سمجھتے۔[26] لیکن مجبوری کے موقع پر پر گپاس اور روئی سے بنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ہر قسم کے کپڑے پر اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ہاتھ کے پشت یا معدنی پتھروں جیسے عقیق و فیروزہ پر سجدہ جائز ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[27]
اہل سنت فرش، زیلو اور ہر وہ چیز جو نجس نہ ہو اس پر سجدہ جائز سمجھتے ہیں۔[28] وہابی شیعوں کی طرف سے تربت امام حسینؑ کے بنے ہوئے سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کو شرک، قبر کی پرستش، تبرک یا بدعت کہہ کر اعتراض کرتے ہوئے مسجد الحرام اور مسجد النبی وغیرہ میں ان کے ساتھ شدت سے پیش آتے ہیں۔[نوٹ 3]
نمازی کی پیشانی رکھنے کی جگہ کھڑے ہونے کی جگہ سے چار ملے ہوئے انگلیوں سے زیاده بلند یا نیچے نہ ہو۔ سجدہ کرنے کی جگہ متحرک نہ ہو؛ یعنی جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو ثابت باقی رہے۔ اسی بنا پر گھاڑے پر سجدہ صحیح نہیں ہے۔[29]
معصومین کے لئے سجدہ کرنے کا حکم
غیر خدا کے لئے سجدہ کرنا حرام ہے؛ خواہ وہ معصومین ہوں یا غیر معصوم۔ البتہ معصومین کے قبور کے نزدیک خدا کے لئے اس نیک کام یعنی زیارت کی توفیق پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز ہے۔[30]
مفسرین کے مطابق حضرت یوسف کے بھائیوں کی طرف سے ان کو سجدہ کرنا یا فرشتوں کی طرف سے حضرت آدم کو سجدہ کرنا ایک قسم کا احترام ہے نہ کہ پرستش اور عبادت۔[31]
حوالہ جات
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، جامعه مدرسین، ج۱، ص۲۰۹.
- ↑ المفردات (راغب)، واژه «سجد» ص۳۹۶. لسان العرب، واژه «سجد» ج۳، ص۲۰۴
- ↑ علامہ حلی، تحریر الأحکام، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۵۳۔
- ↑ تحریر الأحکام، ج۱، ص۲۵۳.
- ↑ ذکری الشیعۃ، ج۳، ص۴۶۵.
- ↑ نوفل، الإعجاز العددی، ۱۹۸۷م، ص۱۴۱-۱۴۳۔
- ↑ سورہ سجدہ، آیہ ۱۵۔
- ↑ یزدی، العرو الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۷۴۔
- ↑ سرور، المعجم الشامل للمصطلحات، ۲۰۰۸م، ج۱، ص۱۵۱۔
- ↑ سرور، المعجم الشامل للمصطلحات، ۲۰۰۸م، ج۱، ص۱۵۱۔
- ↑ سیستانی، منہاج الصالحین، ۲۰۰۹م، ج۱، ص۲۰۳۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۹۸۵م، ج۸، ص۲۹۰؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۱۰، ص۱۶۸-۱۶۹۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۶۴، ۱۶۵۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۶۴، ۱۶۵۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۵۹۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۵۹۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ۱۹۸۵م، ج۸، ص۲۹۰؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۱۰، ص۱۶۸-۱۶۹۔
- ↑ اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۷۸۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۱۰، ص۱۶۹-۱۸۹؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۶۷-۱۶۹۔
- ↑ العروۃ الوثقى، الطباطبائي اليزدي، السيد محمد كاظم، ج۲، ص۵۷۳
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۷۲۸۔
- ↑ اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۳۵۔
- ↑ اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۳۰-۴۳۲۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۱۲۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵۔
- ↑ زحیلی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ، دار الفکر، ج۱، ص۷۳۱۔
- ↑ بروجردی، مستند العروۃ، مدرسۃ دار العلم، ج۲، ص۱۹۱۔
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۵۸۷۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۱ش، ج۱۰، ص۸۳۔
مآخذ
- قرآن کریء۔
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۴ھ۔
- اصفہانی، ابوالحسن، وسیلۃ النجاۃ، قم، انتشارات مہر استوار، ۱۹۹۳ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، توضیح المسائل (محشی)، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، بیروت، دار الأضواء، ۱۹۸۵ء۔
- بروجردی، مرتضی، مستند العروۃ الوثقی (تقریرات آیۃ اللہ خوئی)، قم، مدرسۃ دار العلم، [بے تا]۔
- پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، بہ اہتمام غلامحسین مجیدی خوانساری، قم، مؤسسہ انصاریان، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۹ق
- خویی، سید أبوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار الزہراء، بے تا۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بہ کوشش صفوان عدنان داوودی، دمشق، دار القلم، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- زُحَیلی، وہبۃ بن مصطفی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ، دمشق، دار الفکر، بے تا۔
- سُرُور، ابراہیم حسین، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیۃ والدینیۃ، بیروت، دار الہادی، ۲۰۰۸ء۔
- سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، بغداد، دار البذرۃ، ۲۰۰۹ء۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، بے تا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیہ، بہ کوشش ابراہیم بہادری، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(علیہالسلام)، چاپ اول، ۱۴۲۰ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، بے تا۔
- نوفل، عبد الرزاق، الإعجاز العددی للقرآن الکریم، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۹۸۷ء۔
- یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، با تعلیقہ سید علی سیستانی، قم، مکتب آیۃ اللہ السید السیستانی، ۱۴۲۵ھ۔
خطا در حوالہ: "نوٹ" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref>
ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="نوٹ"/>
نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref>
ناموجود ہے