غزوہ حمراء الاسد

ویکی شیعہ سے
غزوہ حمراء الاسد
رسول خداؑ کے غزوات
تاریخبروز اتوار 8 شوال سنہ 3 ہجری
مقاممنطقۂ حمراءالاسد
علل و اسبابمشرکین کو مدینہ پر حملے سے باز رکھنا اور مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ
قلمروحجاز
نتیجہمسلمانان جنگ کے بغیر تین دن میں مدینہ واپس آئے اور مشرکین مرعوب ہوکر مکہ چلے گئے۔
فریق 1مسلمان
فریق 2سپاہ مشرکین قریش
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
سپہ سالار 2ابو سفیان


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ حَمراءُ الاَسَد، رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو کو غزوہ احد کے صرف ایک دن بعد واقع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ کو مشرکین مکہ کی طرف سے جنگ احد کے بعد مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کے ارادے کا پتہ چلا تو آپ نے دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر رات کے وقت ہر ایک نے علیحدہ چراغ جلایا تاکہ لشکر اسلام کی کثرت کو ظاہر کرنے کے ذریعے دشمن کے صفوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جا سکے۔ اس کام کی وجہ سے دشمن کے سپاہی مکہ فرار کر گئے اور پیغمبر اکرمؐ تین دن بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔

مفسرین سورہ آل عمران کی آیت نمبر 140 اور 172 سے 174 تک نیز سورہ نساء آیت نمبر 104 کو اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

جنگ کی علت

تاریخی منابع کے مطابق غزوہ حمراء الاسد ہجرت کے تیسرے سال[1] اور جنگ احد کے ایک دن بعد واقع ہوا۔[2] اس غزوہ کو حمراء الاسد نام رکھنے کی وجہ اس جنگ کا اسی نام کے علاقے میں واقع ہونا ذکر کیا گیا ہے جو مدینہ سے 20 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[3] تاریخی منابع میں آیا ہے کہ جنگ اُحُد میں مسلمانوں کی شکست کے ایک دن بعد پیغمبر اکرمؐ تک خبر پہنچی کہ مشرکین مکہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔[4] تقسیر قمی کے مطابق جبرئیل نے پیغمبر اکرمؐ کو قریش کے اس حملے کے قصد سے آگاہ کیا۔[5]اس غزوہ میں کن افراد نے شرکت کی؟ اس سلسلے میں دو اقوال موجود ہیں۔ تفسر قمی میں آیا ہے کہ جبرئیل نے پیغمبر اکرمؐ کو خبر دی کہ اس جنگ میں صرف وہی اشخاص شرکت کر سکتے ہیں جو جنگ احد میں زخمی ہوئے ہوں۔[6]کتاب اعیان الشیعہ میں آیا ہے کہ بلال نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر نماز صبح کے بعد اعلان کیا کہ جنگ احد میں شرکت کرنے والے افراد اس جنگ میں شرکت کرنے اور دشمن کا پیچھا کرنے کے لئے حرکت کریں۔[7] تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کا مشرکین مکہ کی طرف حرکت کرنے کا مقصد دشمن کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور مشرکین کو یہ باور کرنا تھا کہ مسلمانوں میں اب بھی جنگ کرنے کی ہمت اور طاقت موجود ہے۔[8]

جنگ کے واقعات

کتاب المغازی میں واقدی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے حمراء الاسد کے علاقے کی طرف حرکت کرنے کے حکم پر جنگ احد میں زخمی ہونے والے افراد بھی حرکت کے لئے تیار ہوئے۔[9] کہا جاتا ہے کہ قبیلہ بَنی‌ سَلَمہ کے چالیس آدمی جو جنگ احد میں زخمی ہوئے تھے اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے حاضر ہوئے[10] اسی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔[11]

تاریخی کتابوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے ابن‌ اُم‌ مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا[12] اور جنگ احد میں بہت زیادہ زخمی ہونے کے باوجود آپؐ نے مسلمانوں کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے حرکت کی۔[13] قطب‌ الدین راوندی کی کتاب قصص الانبیاء میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے مہاجرین کا پرچم امام علیؑ کے سپرد کیا اور انہیں لشکر سے پہلے حمراء الاسد نامی علاقے کی طرف روانہ کیا۔[14]

واقدی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس غزوہ میں طَلحہ کو تمام جنگوں میں کامیابی کا وعدہ دیا اور فرمایا کہ خدا مکہ کو بھی ہمارے ہاتھوں فتح سے ہمکنار کریں گے۔[15] نقل ہوا ہے کہ سعد بن عِبادہ نے 30 اونٹ خرما اور کوئی اونٹ اپنے ساتھ لے آیا اور روزانہ 2 سے 3 اونٹ ذبح کر کے لشکر اسلام کو کھلاتا تھا۔[16]

بعض تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے دشمن کی نقل و حرکت سے با خبر ہونے کے لئے 3 اشخاص کو بھیجا؛ لیکن ان میں سے دو افراد قریش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے[17] اور مسلمانوں نے ان دونوں شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کیا۔[18]

مشرکین کے صفوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا

بہت سارے مورخین کے مطابق جب سپاہ اسلام حمراء الاسد نامی مقام پر پہنچے تو پیغمبر اکرمؐ نے مسلمانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ جب رات چھا جائے تو ہر ایک اپنے جمع کردہ لکڑیوں کو آگ لگائے۔ رات کے وقت 500 سے زیادہ جگہوں پر آگ روشن ہونے کی وجہ سے دشمن کے دلوں میں مسلمانوں کی طاقت کے حوالے سے خوف و ہراس پیدا ہونا شروع ہوا۔[19] جب مشرکین مکہ روحاء نامی جگہے پر پہنچے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے ان کا سامنا مَعبد نامی ایک شخص سے ہوا۔[20] انہوں نے لشکر اسلام کے بارے میں معبد سے سؤال کیا تو اس نے جنگ احد کا انتقام لینے کے لئے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے عہد پیمان باندھنے کی خبر دی اور لشکر اسلام کی عظمت پر مشمل شعر کے ذریعے اس نے ابو سفیان کے دل میں خوف و ہراس ایجاد کیا یوں مشرکین مکہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے سے منصرف ہوئے۔[21] راوندی کے مطابق جب معبد نے روحاء کے مقام پر ابوسفیان سے ملاقات کی تو اس نے امام علیؑ کی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: «اے ابوسفیان یہ علی‌ ہیں جو لشکر اسلام سے آگے آگے آرہے ہیں» امام علیؑ کے انہی صفات کے بیان کے سبب ابوسفیان حملہ کرنے سے منصرف ہوا۔[22]

بعض منابع میں آیا ہے کہ مشرکین مکہ کا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے منصرف ہونے کے بعد معبد نے قبیلہ خُزاعہ کے ایک شخص کو پیغمبر اکرمؐ کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ ابوسفیان اور ان کی ساتھی مکہ کی طرف بھاگ نکلے ہیں۔[23] تفسیر قمی کے مطابق مشرکین کے فرار ہونے سے پہلے جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہو کر واپس مدینہ لوٹنے کا حکم دیتے ہوئے کہا: خدا نے قریش والوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے اور اب وہ واپس مکہ چلے گئے ہیں۔[24]

تاریخ طبری میں آیا ہے کہ ابوسفیان جنگ سے منصرف ہونے کے بعد مدینہ جانے والے ایک گروہ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے لئے پیغام بھیجا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں ہم بھی آپ کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد اس نے مکہ کی طرف حرکت کیا۔ پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں نے جب ابوسفیان کا پیغام سنا تو سب نے پکارنا شروع کیا: «حَسبُنا اللہ و نِعمَ الوکیل»[25] طبری کے مطابق یہ جنگ تین دن جاری رہی۔[26]

غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہونے والی آیات

بعض تفسیری اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 140 اور 172 سے 174 تک غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[27] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ سورہ نساء آیت نمبر 104 بھی اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[28]


حوالہ جات

  1. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص334۔
  2. ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج2، ص223؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص178۔
  3. دیار البکری، تاریخ الخمیس، بیروت‏، ج‏1، ص447۔
  4. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏4، ص48؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص178؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلامؑ، ص345۔
  5. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص124۔
  6. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص124۔
  7. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج1، ص259۔
  8. ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج2، ص223؛ مشاط، انارۃ الدجی، 1426ھ، ص318۔
  9. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص335۔
  10. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص178۔
  11. مشاط، انارۃ الدجی، 1426ھ، ص320۔
  12. ابن‌شہر آشوب‏، المناقب، 1379ھ، ج1، ص163؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏4، ص49۔
  13. ابن‌سعد، الطبقات الكبرى، 1418ھ، ج‏2، ص38۔
  14. قطب‌الدين راوندی، قصص الأنبياءؑ، 1409ھ، ص343۔
  15. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص337۔
  16. صالحی، سبل الہدی و الرشاد، 1414ھ، ج‏4، ص310؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج1، ص259۔
  17. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص178؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص337۔
  18. ابن‌سعد، الطبقات الكبرى، 1418ھ، ج‏2، ص38۔
  19. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص180؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص338؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج1، ص259۔
  20. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص338۔
  21. ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج2، ص223؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص338؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص535۔
  22. قطب‌الدين راوندی، قصص الأنبياءؑ، 1409ھ، ص343۔
  23. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص181۔
  24. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص124۔
  25. سورہ آل عمران، آیہ173۔
  26. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص536۔
  27. طبرسی، مجمع البیان، 1426ھ، ج2، ص357؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص340؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج‏3، ص317۔
  28. طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص51۔

مآخذ

  • آیتی، محمدابراہيم، تاريخ پيامبر اسلام‏ؑ، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ ششم، 1378ہجری شمسی۔
  • ابن‌شہر آشوب‏، محمد بن علی، المناقب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌کثیر، حافظ ابن‌کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • امین، سيد محسن، أعيان الشيعۃ، بیروت، دار التعارف‏، 1403ق‏۔
  • بیہقی، دلائل النبوۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • دیار بَکری‏، حسین، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت، دار الصادر، بی‌تا۔
  • ذہبی، شمس‌الدین، تاريخ الإسلام، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خبر العباد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار العلوم، 1426ھ۔
  • طبری، محمد بن جریری، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ،
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح، احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی،
  • قطب‌الدين راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الأنبياء عليہم السلام، مشہد، مرکز پژوہش ہای اسلامی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسير القمی، تصحیح، طیّب موسوى جزائرى، قم، دار الكتاب‏، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مشاط، حسن بن محمد، إنارۃ الدجى فی مغازی خير الورى، جدہ، دار المنہاج، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع، تحقیق محمد عبد الحمید، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، اعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
پچھلا غزوہ:
اُحُد
رسول اللہؐ کے غزوات
غزوہ حمراء الاسد
اگلا غزوہ:
بنی نضیر