حدیث من مات

ویکی شیعہ سے
حدیث من مات
حدیث من مات
حدیث کے کوائف
موضوعامام کی شناخت اور معرفت
صادر ازپیغمبر اسلامؐ
اعتبارِ سندشیعہ اور اہل سنت منابع میں تواتر کا ادعا کیا گیا ہے
شیعہ مآخذکافی، کمال الدین و تمام النعمۃ، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر
اہل سنت مآخذصحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل، مسند ابوداود طیالسی، مسند الشامیین
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


پیغمبر اسلامؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ فَقَدْ مَاتَ مِيتَۃً جَاہِلِيَّۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔

مناقب ابن شہرآشوب، 1379ھ،ج1، ص246؛

حدیث مَنْ ماتَ، رسول اللہ کی ایک معروف حدیث ہے، جس کے مطابق اپنے زمانے کے امام کی شناخت اور معرفت کے بغیر مرنے والا گویا جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا گیا ہے ۔یہ حدیث مختلف الفاط کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اسی بنا پر اسے شیعہ اور اہل سنت کا مورد اتفاق حدیث قرار دی جاتی ہے۔

البتہ شیعہ اور اہل سنت اس حدیث سے مختلف مفہوم اور مطلب اخذ کرتے ہیں: شیعہ اس حدیث کو امامت کے مسئلے سے مختص قرار دیتے ہوئے اس حدیث سے امام کی شناخت اور اطاعت کا واجب اور ضروری ہونا استنباط کرتے ہیں ۔ لیکن اہل سنت اس حدیث کو عام مسلم حکمرانوں سے مربوط قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر ان حکمرانوں کی اطاعت اور پیروی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔

اہمیت

اسلامی منابع میں «من ماتَ» کی تعبیر کے ساتھ مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں؛[1] لیکن معروف "حدیث من مات" سے مراد پیغمبر اکرمؐ کا یہ کلام ہے: «مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔[2]

یہ حدیث مختلف تعابیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کافی میں یہ حدیث امام صادقؑ سے یوں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: «مَنْ مَاتَ وَ لَیسَ لَہُ إِمَامٌ فَمِیتَتُہُ مِیتَۃٌ جَاہِلِیۃٌ؛ جو بھی دنیا سے اس حالت میں چلا جائے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[3] اسی طرح اہل‌ سنت کے بعض منابع میں یہ حدیث پیغمبر اسلامؐ سے یوں نقل ہوئی ہے: «مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[4]

علامہ مجلسی اس حدیث کو شیعہ اور اہل‌ سنت کے یہاں متواتر قرار دیتے ہیں۔[5] شیخ بہایی بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیعہ اور اہل‌ سنت کے یہاں مورد اتفاق ہے۔[6]

جاہلیت کی موت سے مراد

پیغمبر اسلامؐ:
مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

احمد بن حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج28، ص88

کلینی نے حدیث «من مات» کو امام صادقؑ نقل کی ہے جس میں «جاہلیت کی موت» کی تعریف کی گئی ہے اس حدیث کا متن کتاب کافی میں یوں ہے:

ابن‌ ابی‌ یعفور نقل کرتے ہیں کہ: امام صادقؑ سے پیغمبر اکرمؐ کے اس حدیث: «جو شخص اس حالت میں مر جائے کی اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے» کے بارے میں سوال کیا: «آیا اس حدیث سے مراد کفر کی حالت میں مرنا ہے؟» امام صادقؑ نے جواب دیا: «اس سے مراد گمراہی کی حالت میں مرنا ہے۔ میں نے کہا جو شخص اس وقت ہمارے دور میں بھی مرے لیکن اس کا کوئی امام یا پیشوا نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے؟» امامؑ نے فرمایا: «ہاں»۔[7]

حدیث کے منابع

شیعہ اور اہل‌ سنت کے بعض وہ منابع جن میں حدیث «من مات» نقل ہوئی ہے، درج ذیل ہیں:

شیعہ مآخذ

اہل سنت مآخذ

شیعہ اور اہل سنت علماء کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم

شیعہ اور اہل سنت علما نے اپنے اپنے کلامی اعتقادات کے مطابق اس حدیث سے مختلف معانی اور مفہوم اخذ کئے ہیں:

شیعہ

شیعہ امامت کے مسئلے میں حدیث «من مات» سے استناد کرتے ہوئے اس حدیث کو ہر زمانے میں امام کے موجود ہونے کی ضرورت[14]امام کی شناخت و معرفت نیز اس کی پیروی اور اطاعت کے واجب ہونے پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[15] شیعہ اعتقادات کے مطابق اس روایت میں امام سے مراد اہل بیتؑ اور ائمہ معصومین ہیں اور موجودہ دور میں امام مہدی پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔[16]

اہل سنت

اہل سنت حضرات اس حدیث سے کوئی اور مفہوم اور تفسیر پیش کرتے ہیں: اہل سنت اس روایت میں امام سے عام اسلامی حکمران مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاشرے کی بقا اور وحدت کی خاطر ان کی پیروی اور اتباع ضروری ہے۔[17] ان کے مطابق اطاعت واجب ہونے میں تمام اسلامی حکمران شامل ہیں اور حکمرانوں کا ظالم اور گناہگار ہونا ان کی پیروی کے واجب ہونے میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں یزید کی پیروی اور اطاعت کو تمام صحابہ اور تابعین پر واجب ہونا استنباط کی ہے۔[18]

البتہ بعض اہل سنت منابع میں اس حدیث میں امام سے پیغمبر اکرمؐ مراد لیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ آپؐ اس دنیا میں تمام اہل زمین کے امام اور پیشوا ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص88۔
  2. سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، 1415ھ، ج2، ص252؛ شیخ صدوھ، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص410؛ تفتازانی، شرح مقاصد، 1409ھ، ج5، ص239، قندوزی، ينابيع المودۃ، 1413ھ، ج3، ص456۔
  3. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص376
  4. احمد بن حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج28، ص88؛ ابو داوود، مسند ابوداود، 1419ھ، ج3، ص425؛ طبرانی، مسند الشامیین، 1405ھ، ج2، ص437۔
  5. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج8، ص368۔
  6. شیخ بہائی، الأربعون حديثا، 1431ھ، ج1، ص431۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص376۔
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص376۔
  9. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ،‌ ج2، ص409
  10. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، 1401ھ، ص296۔
  11. ابن حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج28، ص88۔
  12. ابو داوود، مسند ابوداوود، 1419ھ، ج3، ص425۔
  13. طبرانی، مسند الشامیین، 1405ھ، ج2، ص437۔
  14. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ج4، ص173
  15. ملاصدرا، شرح أصول الكافي، 1383ش، ج‏ 2، ص 474.
  16. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج4، ص27، شیخ بہایی، الاربعون حدیثا، 1431ھ، ج1، ص431۔
  17. صہیب عبدالجبار،‌ الجامع الصحیح، 2014م، ج4، ص234، پاورقی۔
  18. ابن تیمیہ، مختصر منہاج السنہ، 1426ھ، ج1، ص49۔
  19. ابن‌حبان،‌ صحیح ابن حبان، 1414ھ، ج10، ص434۔

مآخذ

  • ابن‌تیمِیہ، تقی‌الدین، مختصر منہاج السنۃ، تلخیص عبداللہ بن محمد الغنیمان، صنعاء،‌ دارالصدیھ، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق دکتر محمد جعفر یاحقی و دکتر محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ق
  • شیخ بہایی، الاربعون حدیثاً، قم، نشر جامعہ مدرسین، چاپ سوم، 1431ھ۔
  • تفتازانی، سعدالدین، تحقیق عبدالرحمن عمیرہ، نشر الشريف الرضی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، مُسندالشامیین، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • أحمد بن حنبل، أبو عبداللہ، مُسند احمد، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • برقی، ابوجعفر احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، تحقیق و تصحیح جلال‌الدین محدث، قم،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، 1371ھ۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، نشر بیدار، 1401ھ۔
  • سید بن طاووس، رضی‌الدین علی، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، ‌انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شیخ صدوھ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • ابوداود طیالسی، سلیمان بن داود، مسند ابی‌داود الطیالسی، تحقیق محمد بن عبدالمحسن ترکی، مصر،‌ دار ہجر، چاپ اول، 1419ھ۔
  • مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری، صحیح مسلم المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح: سیدہاشم رسولی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • قندوزی، ینابیع المودہ لذوی القربی، نشر اسوہ، 1413ھ،
  • محمد بن حبان بن احمد، صحیح ابن‌حبان، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • ملاصدرا، صدرالدین شیرازی محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔