جحیم
معاد | |
---|---|
احتضار(جان کنی) . قبض روح . سکرات موت . عزرائیل . غسل میت . کفن . نماز میت . دفن | |
برزخ | |
قبر کی پہلی رات . نکیر و منکر . حیات برزخی . نفخہ صور . بدن برزخی | |
قیامت | |
اسرافیل . معاد جسمانی . نفخ صور . نامہ اعمال . صراط . میدان حشر . اصحاب یمین . اصحاب شمال | |
بہشت | |
بہشت کے دروازے. حور العین. غلمان. رضوان. بہشتی نعمتیں | |
جہنم | |
جہنم کے دروازے . جہنم کے طبقے . زقوم . اسفل سافلین . ہاویہ . جحیم | |
مرتبط مضامین | |
شفاعت . تجسم اعمال . تناسخ . رجعت . روح . باقیات صالحات | |
جَحیم، دوزخ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو شدید آتش کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دوزخ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ایک جگہ پہ بھڑکتی ہوئی کثیر آگ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بعض روایتوں میں جحیم کو جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقہ بتایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات کی روشنی میں کافرین، مشرکین اور ظالمین اہل جحیم ہیں۔
معنی
"جحیم" لغت میں حرارت اور آتش شدید کے معنی میں ہے[1] اسی طرح سے جحیم اس مکان یا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کافی آگ بھڑک رہی ہو۔[1] اسی وجہ سے جحیم کو جہنّم کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی اسی معنی میں ایک عام تعبیر ہے۔[2]
جہنم
جحیم جہنّم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔[3] بعض آیات میں، جحیم جنّت بہشت کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ [4] قرآن کریم میں یہ لفظ ۲۷ بار استعمال ہوا ہے جسمیں ۲۶ جگہ پر یہ لفظ دوزخ کے معنی میں ہے۔ [5] صرف ایک جگہ پر جحیم دوزخ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے۔[6] اور وہ جگہ وہ آگ ہے جس کو نمرود نے خلیل خدا حضرت ابراہیم کو جلانے کے لئے بھڑکائی تھی۔[7]
اردو فارسی اشعار میں بھی جحیم کو جہنّم کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔
امام باقرؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں جحیم کو جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقہ شمار کیا گیا ہے۔[8] ابن عباس سے بھی منقول ہے کہ جحیم جہنم کی آگ کو کہتے ہیں ۔[9]
جحیم والے
قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مختلف گروہ اہل جحیم شمار کئے گئے ہیں۔ ان میں سے: کافرین اور قرآن مجید کی آیتوں کو جھٹلانے والے لوگ شامل ہیں۔[10] مشرکان،[11]، ظالمان،[12] فاجران[13] طغیان کنندہہا۔[14]
روایتوں میں بھی اہل بیت کے دشمنوں کو اہل جحیم بتایا گیا ہے۔[15]
حوالہ جات
- ↑ 1.0 1.1 مصطفوی، التحقیق، ۱۳۶۰ش، ج۲، ص۵۸۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۶، ص۲۳۳۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۳۲۔
- ↑ سورہ طور، آیات ۱۷-۱۸۔
- ↑ میر محمدی، «جحیم»، دایرۃ المعارف قرآن، ج۹، ص۵۱۷۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۲۷۴۔
- ↑ سورہ صافات، آیہ ۹۷۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۷۶۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۴۰۸۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ ۸۶۔
- ↑ سورہ توبہ، آیہ۱۱۳
- ↑ سورہ صافات، آیات ۲۲- ۲۳۔
- ↑ سورہ انفطار، آیہ ۱۴۔
- ↑ سورہ نازعات، آیات ۳۷-۳۹۔
- ↑ کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۷۴۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
- فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تحقیق: حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سید طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۶۰ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
- میر محمدی، کمال الدین، «جحیم»، دایرہ المعارف قرآن، ج۹، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔