میت کا ترکہ
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
میّت کا تَرَکہ یا ماتَرَک[1] سے مراد وہ تمام منقولہ و غیر منقولہ اموال اور مالی حقوق ہیں جو کوئی شخص انتقال کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔[2] میت کے ترکہ میں متوفی کے دوسروں پر واجب الادا قرضے (مطالبات)،[3] حق خیار، ٹیلی فون لائن،[4] اور اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز[5] وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔
شیعہ فقہ میں ان اموال کو میت کے ورثہ میں تقسیم کرنے سے پہلے متوفی کے ذمہ واجب الادا قرضے اور دیگر مالی حقوق کی ادائیگی نیز اگر میت کی کوئی وصیت ہو تو اسے بھی شرعی دائرے میں رہتے ہوئے نافذ کرنا ضروری ہے۔[6] فقہائے شیعہ کے اجماع[7] کے مطابق اگر میّت پر کوئی قرضہ یا دوسروں کا حق باقی نہ ہو، تو اس کا ترکہ اس کے ا نتقال کے فوراً بعد ورثہ کی ملکیت میں منتقل ہو جاتا ہے۔[8]
البتہ، قرضوں کی ادائیگی سے پہلے ترکہ کی ملکیت کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: بعض فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ جب تک میّت کے قرضے اور مالی حقوق ادا نہ ہو، ورثہ ترکہ کے مالک نہیں بن سکتے۔[9] ان کے مقابلے میں بعض شیعہ علما کا نظریہ ہے کہ اگر میّت کے قرضے اور دیگر مالی واجب الادا حقوق اس کے تمام اموال سے کم ہوں تو ان کی ادائیگی سے پہلے بھی ورثہ ترکہ کے مالک سمجھے جائیں گے۔[10] اسی طرح ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ورثہ میّت کے مرنے کے فوراً بعد، حتیٰ کہ قرضوں کی ادائیگی سے پہلے ہی، ترکہ کے مالک بن جاتے ہیں۔[11]
فقہی مباحث میں ترکہ کا ذکر مختلف ابواب جیسے: بابِ حَجر (مالی تصرف پر پابندی)،[12] زکات فطرہ،[13] وصیت[14] اور ارث[15] وغیرہ میں آیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ش، ج6، ص397۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی مذاہب الخمسہ، 1374ش، ص493۔
- ↑ امام خمینی، حاشیہ بر رسالہ ارث ملا ہاشم خراسانی، 1385ش، ص24۔
- ↑ «انتقال سیم کارت متوفی»، سایت دادسو۔
- ↑ «با سہام افراد فوت شدہ چہ کنیم؟»، سایت خبری عصر ایران۔
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ش، ج2، ص453؛ قبلہای خویی، ارث، 1381ش، ص22۔
- ↑ حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، بیتا، ج8، ص89۔
- ↑ حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، بیتا، ج8، ص89؛ آشتیانی، کتاب القضاء، 1420ھ، ج1، ص574۔
- ↑ محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، بیتا، ص649۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ج4، ص816؛ میرزای قمی، جامع الشتات، بیتا، ج2، ص595۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1409، ج2، ص144؛ نجفی، جواہرالکلام، 1394ھ، ج26، ص84-85۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1394ھ، ج26، ص85؛ میرزای قمی، جامع الشتات، بیتا، ج2، ص 595۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1409ھ، ج2، ص144۔
- ↑ شیخ انصاری، الوصایا و المواریث، 1415ھ، ص201۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج4، ص816؛ مغنیہ، الفقہ علی مذاہب الخمسہ، 1374ش، ص496۔
مآخذ
- آشتیانی، محمدحسن بن جعفر، کتاب القضاء، تہران، انتشارات زہیر کنگرہ علامہ آشتیانی، 1425ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلہ ، نجف، دارالکتب العلمیہ، 1390ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، حاشیہ بر رسالہ ارث ملاہاشم خراسانی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1385ہجری شمسی۔
- «انتقال سیم کارت متوفی»، سایت دادسو. تاریخ درج: 26 شہریور1404ش، تاریخ اخذ: 4 آبان 1404ہجری شمسی۔
- «با سہام افراد فوت شدہ چہ کنیم؟»، سایت خبری عصر ایران.تاریخ درج: 19 شہریور 1400ش، تاریخ اخذ: 4 آبان 1404ہجری شمسی۔
- حسینی عاملی، سید محمدجواد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، بیروت، موسس آل البیت، بیتا۔
- شیخ انصاری مرتضی، الوصایا و المواریث، قم، الموتمر العالمی بمناسبہ الذکری المئویہ الثانیہ، لمیلاد الشیخ الانصاری، 1415ھ۔
- شیخ طوسی، محمدبن حسن، الخلاف، قم، موسسہ النشر الاسلامی، 1409ھ۔
- « قانون مدنی»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ اخذ: 21 مہر 1404ہجری شمسی۔
- قبلہای خویی، خلیل، ارث، تہران، انتسارات سمت، 1381ہجری شمسی۔
- محقق اردبیلی، احمد، زبدہ البیان فی احکام القرآن، تہران، المکتبہ المرتضویہ لإحیاء الآثار الجعفریہ، بیتا۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحرام و الحلال، تہران، انتشارات استقلال، 1409ھ۔
- مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی مذاہب الخمسہ، تہران، موسسہ الصادھ، 1374ہجری شمسی۔
- مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، تحت اشراف سید محمود ہاشمی شاہرودی، تہران، مؤسسہ دائرۃالمعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- میرزای قمی، ابوالقاسم بن حسن، جامع الشتات، تہران، منشورات شرکہ الرضوان، بیتا۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تہران، دارالکتب العلمیہ، 1394ھ۔