نبش قبر
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
نبشِ قبر کا مطلب ہے کسی قبر کو اس حد تک کھولنا یا خراب کرنا کہ اس میں مدفون مُردے کا جسم ظاہر ہو جائے۔ شیعہ اور سنی فقہا کے فتوے کے مطابق، جب تک میت کا جسم مکمل طور پر مٹی میں تحلیل نہ ہو جائے، نبش قبر حرام ہے، مگر یہ کہ شرعی لحاظ سے ضرورت کا تقاضا ہو۔ جیسے؛ میت ایسی جگہ دفن کی گئی ہو جہاں اس کی توہین ہو رہی ہو، یا قبر کی خرابی کا کوئی خطرہ لاحق ہو یا اگر کسی کی حق تلفی ہورہی ہو، جیسے کہ میت کو غصب شدہ زمین میں دفن کیا گیا ہو، تو ان صورتوں میں نبش قبر جائز ہے۔
شیعہ فقہا کے نزدیک اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اسے ائمہ اطہار کے حرم میں دفن کیا جائے، مگر اسے کہیں اور دفن کر دیا گیا ہو، تو اگر اس سے میت کی توہین کا سبب نہ ہو اور کوئی اور مفسدہ یا نقصان نہ ہو، تو اس کی قبر کو کھول کر اُسے وصیت کردہ جگہ منتقل کرنا واجب ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں، جیسے مرزا تقی خان امیرکبیر، جنہیں پہلے کاشان میں دفن کیا گیا تھا، مگر بعد میں ان کے جسد خاکی کو کربلا منتقل کر دیا گیا۔
اسلامی تاریخ میں نبش قبر کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں؛ صاحب قبر کی اہانت اور ان سے دشمنی کی خاطر نبش قبر کی کوششیں کی گئیں جن میں سے نمایاں مثالیں یہ ہیں؛ عباسی خلفاء کی طرف سے امام حسینؑ اور امام موسی کاظمؑ کی قبور کو نبش کیا گیا۔ اسی طرح پندرہویں صدی ہجری میں شام میں خانہ جنگی کے دوران حجر بن عدی کی قبر کی بےحرمتی کی گئی۔
تعریف
نبشِ قبر کا مطلب ہے قبر کو اس طرح کھولنا کہ اس میں مدفون میت کا جسم ظاہر ہوجائے۔[1] لفظ "نبش" کے دو مشترک معنی ہیں: کسی چھپی ہوئی چیز کو ظاہر کرنا اور کسی چیز کو نکالنا۔[2] تاہم فقہی اصطلاح میں نبشِ قبر صرف اسی حالت کو کہتے ہیں جب میت کا جسم نمایاں ہوجائے، اس اصطلاح کے مطابق جونہی قبر کو کھولا جائے اور میت کا جسم ظاہر ہوجائے(اگرچہ اس کے جسم کو قبر سے باہر نہ نکالا جائے) تو وہ نبشِ قبر کہلائے گا۔ [3]
فقہی حکم

شیعہ فقہا کے مطابق، مسلمان کی قبر کھولنا حرام ہے؛ البتہ اگر میت کا جسم مکمل طور پر مٹی میں تبدیل ہوچکا ہو اور قبر کا کھولنا ہتک حرمت کا باعث نہ ہوتو نبش قبر جائز ہے۔ لیکن امام زادوں، شہداء اور علما کی قبریں کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی کھولنا حرام ہے۔[4]
نبش قبر کی حرمت کا حکم ان روایات کی بنیاد پر ہے جس میں مومن کے مردہ جسم کو زندہ انسان کے برابر محترم قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے فقہا کہتے ہیں کہ نبشِ قبر کی حرمت کی اصل وجہ ہتکِ حرمت (توہین) ہے۔[5] علامہ حلی کی رائے میں نبش قبر اس لیے حرام ہے کہ یہ مثلہ کے زمرے میں آتا ہے،[6] لیکن شہید اول اور محقق کرکی نے اس رائے کو قبول نہیں کیا ہے۔[7]
اہل سنت فقہا بھی نبشِ قبر کو حرام قرار دیتے ہیں، مگر یہ کہ جب شرعی ضرورت (حق الناس کا معاملہ ہو) ہو تو جائز سمجھتے ہیں،[8] مثلا اگر کسی کا مال میت کے ساتھ دفن کیا گیا ہو تو اسے نکالنے کے لیے نبش قبر کیا جاسکتا ہے۔[9]
نبشِ قبر کی جائز صورتیں
شیعہ فقہاء کی رائے کے مطابق چند صورتوں میں نبش قبر جائزہے:
- میت کو ایک ایسی جگہ دفن کیا گیا ہے جہاں اس کی بے حرمتی کا خدشہ ہو یا وہ ایسی جگہ دفن ہو جہاں قبر کے کھودے جانے یا خراب ہونے کا خطرہ ہو[10] یا میت کا کوئی عضو دفن نہ ہوا ہو اور بعد میں اس کو دفن کرنا مقصود ہو۔[11]
- میت کو غصب شدہ زمین میں، غصب شدہ سامان کے ساتھ یا ورثاء سے متعلق اموال کے ساتھ اسے دفن کیا گیا ہو۔[12]
- کوئی شرعی حق ثابت کرنے کے لیے میت کا جسم دیکھنا ضروری ہو یا کوئی ایسا شرعی معاملہ ہو جو نبش قبر سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو،[13] مثلا حاملہ خاتون کی لاش میں زندہ بچہ ہو، جسے نکالنے کےلیے نبش قبر کیا جائے۔[14]
- بعض فقہاء کی رائے کے مطابق میت نے وصیت کی ہو کہ اُسے ائمہ معصومینؑ کے حرم میں دفن کیا جائے، لیکن اسے کسی اور جگہ دفن کر دیا گیا ہو؛ تو اگر اس کی میت کو وصیت شدہ مقام پر منتقل کرنا توہین کا سبب نہ ہو اور کوئی اور نقصان نہ ہو تو قبر کھول کر منتقل کرنا واجب ہوگا۔[15]
فقہائے شیعہ نبش قبر کے جائز موارد کے سلسلے میں جزوی اختلاف رکھتے ہیں، لیکن عمومی اصول میں وہ سب متفق القول ہیں۔[16]
نبشِ قبر کے کچھ تاریخی واقعات
تاریخی منابع میں نبشِ قبر (قبر کھولنے) کے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے، جن میں سے بعض کا مقصد توہین اور بےحرمتی تھا، جب کہ بعض مواقع پر جسد کو مقدس مقامات میں منتقل کرنے کی غرض سے قبر کھولی گئی۔ کبھی کبھار قبر کی بےحرمتی سے بچنے کے لیے، اسے خفیہ رکھا جاتا تھا؛ مثلاً امام علیؑ کی قبر کو اس لیے مخفی رکھا گیا تھا کہ بنی امیہ اور خوارج کی جانب سے ممکنہ نبشِ قبر اور بےحرمتی سے بچا جاسکے۔[17] چند معروف واقعات درج ذیل ہیں:
- سنہ 122 ہجری میں زید بن علی کی قبر کھود دی گئی۔[18]
- سنہ 236 ہجری میں متوکل عباسی کے حکم پر، ابراہیم دیزج نے امام حسینؑ کی قبر کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔[19]
- سنہ 433 ہجری میں امام موسی کاظمؑ کی قبر کو نبش کیا گیا۔[20]
مورخین کے مطابق دمشق کے حاکم عبد اللہ بن علی عباسی نے سنہ 132 ہجری میں حکم دیا کہ معاویہ بن ابی سفیان، یزید بن معاویہ، عبد الملک بن مروان اور ہشام بن عبد الملک کی قبریں کھودی جائیں اور ان کے باقیات کو جلا دیا گیا۔[21]
پندرہویں صدی ہجری میں جبہۃ النصرہ نامی تنظیم نے حجر بن عدی کی قبر کو کھول دیا۔[22] مرزا تقی خان امیرکبیر کی لاش، جو پہلے کاشان میں دفن کی گئی تھی، بعد میں کربلا منتقل کر دی گئی۔ یہ منتقلی مقدس مقامات میں دفن کے لیے نبشِ قبر کی مثال ہے۔[23] سید ہادی خسرو شاہی کی میت، عارضی طور پر قم کے بہشت معصومہ قبرستان میں دفن کی گئی تھی۔ تین سال بعد ان کی لاش کو ان کی ذاتی لائبریری (پردیسان، قم) منتقل کیا گیا۔[24] علی شریعتی کو سوریہ (شام) کے ایک قبرستان میں عارضی طور پر دفن کیا گیا ہے، تاکہ بعد میں ان کا جسد ایران منتقل کیا جاسکے۔[25]
حوالہ جات
- ↑ خمینی، ترجمہ تحریر الوسیلہ، 1385شمسی، ج1، ص105۔
- ↑ ابن منظور، لسانالعرب، ذیل واژہ «نبش»۔
- ↑ منافی، «نبش قبر»، ص130-131۔
- ↑ سیستانی، احکام دفن، مسئلہ 630 و 631؛ نوری ہمدانی، احکام نبش قبر، مسئلہ 642 و 643؛ شبیری زنجانی، احکام نبش قبر، مسئلہ 733 و 734۔
- ↑ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج2، ص102، بہ نقل از: منافی، «نبش قبر»، ص137۔
- ↑ تذکرۃ الفقہا، 1414ھ، ج2، ص102، بہ نقل از: منافی، «نبش قبر»، ص133۔
- ↑ البیان، ص80، بہ نقل از: منافی، «نبش قبر»، ص135۔
- ↑ «حکم نبش قبر از دیدگاہ مذاہب اربعہ اہل سنت»، خبرگزاری رسا۔
- ↑ «بررسی حرمت نبش قبر در نگاہ فقہای بزرگ مذاہب اسلامی»، پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی۔
- ↑ منتظری، رسالہ توضیحالمسائل، مسئلہ 676۔
- ↑ سیستانی، رسالہ توضیحالمسائل، نبش قبر، مسئلہ 853۔
- ↑ منتظری، رسالہ توضیحالمسائل، مسئلہ 676۔
- ↑ منتظری، رسالہ توضیحالمسائل، مسئلہ 676.
- ↑ مکارم شیرازی، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، مسئلہ 599۔
- ↑ سیستانی، توضیحالمسائل، نبش قبر، مسئلہ 853۔
- ↑ نگاہ کنید بہ مکارم شیرازی، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، مسئلہ 599؛ سیستانی، رسالہ توضیحالمسائل، نبش قبر، مسئلہ 853؛ وحید خراسانی، رسالہ توضیحالمسائل، موارد نبش قبر، مسئلہ 649؛ نوری ہمدانی، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، مسئلہ 642 و 643؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، مسئلہ 733 و 734۔
- ↑ مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان(ع)، 1391شمسی، ص239۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1967ء، ج7، ص187۔
- ↑ طوسی، امالی، 1414ھ، ص326۔
- ↑ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، 1965ء، ج9، ص577۔
- ↑ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، 1965ء، ج5، ص430؛ ابوالفداء، تاریخ أبیالفداء، 1997ء، ج1، ص294۔
- ↑ «نبش قبر صحابی امیرالمومنین توسط تروریستہا درسوریہ»، سایت ہمشہری؛ «نبش قبر «حجر بن عدی» در سوریہ» سایت تابناک۔
- ↑ خورموجی، حقایق الاخبار ناصری، 1344شمسی، ج1، ص105۔
- ↑ پیکر آیت اللہ خسروشاہی پس از سہ سال بہ محل وصیت منتقل شد، خبرگزاری ایکنا۔
- ↑ «احسان شریعتی: پیکر پدرم، مومیایی و برای زمان موقت در سوریہ دفن شد»، سایت خبرآنلاین۔
مآخذ
- «احسان شریعتی: پیکر پدرم، مومیایی و برای زمان موقت در سوریہ دفن شد»، سایت خبرآنلاین، تاریخ درج مطلب: 30 خرداد 1397شمسی، تاریخ بازدید: 20 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- «بررسی حرمت نبش قبر در نگاہ فقہای بزرگ مذاہب اسلامی»، پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی. تاریخ درج مطلب: ا شہریور 1393شمسی، تاریخ بازدید: 20 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- پیکر آیت اللہ خسروشاہی پس از سہ سال بہ محل وصیت منتقل شد، خبرگزاری ایکنا، تاریخ انتشار: 09 اسفند 1401ہجری شمسی۔
- ابوالفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ أبی الفداء، ج1، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1997ء / 1417ھ۔
- ابنأثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج5، بیروت، دارالصاد، 1385ق/ 1965ء۔
- ابنمنظور، محمد جمالالدین، لسان العرب، ج6، بیروت، دارالصادر، چاپ سوم، 1994ء۔
- حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، آلالبیت، 1414ھ۔
- «حکم نبش قبر از دیدگاہ مذاہب اربعہ اہل سنت»، خبرگزاری رسا. تاریخ درج مطلب: 15 شہریور 1396شمسی، تاریخ بازدید: 17 اردیبہشت1402ہجری شمسی۔
- خمینی، سید روحاللہ، ترجمہ تحریر الوسیلہ، با ترجمہ موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
- خورموجی، محمد جعفر، حقایق الاخبار ناصری، تہران، انتشارات کتاب زوار، 1344ہجری شمسی۔
- سیستانی، سیدعلی، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، سایت دفتر آیت اللہ سیستانی، تاریخ بازدید: 20 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، رسالہ توضیحالمسائل آیت اللہ شبیری زنجانی، سایت دفتر آیت اللہ شبیری زنجانی، تاریخ بازدید: 19 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج7، بیروت، روائع التراث العربی، 1387ھ/ 1967ء۔
- طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافۃ، 1414ھ۔
- مقدسی، ید اللہ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان(ع)، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: 20 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- منافی، سید حسین، «نبش قبر»، پژوہہہای فقہی تا اجتہاد، پیش شمارہ 10، بہار 1393ہجری شمسی۔
- منتظری، حسینعلی، رسالہ توضیحالمسائل، تہران، انتشارات سرایی، 1381ہجری شمسی۔
- «نبش قبر «حجر بن عدی» در سوریہ» سایت تابناک، تاریخ درج مطلب: 12 اردیبہشت 1392شمسی، تاریخ بازدید: 19 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- «نبش قبر صحابی امیرالمومنین توسط تروریستہا درسوریہ»، سایت ہمشہری، تاریخ درج مطلب: 12 اردیبہشت 1392شمسی، تاریخ بازدید: 19 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- نوری ہمدانی، حسین، رسالہ توضیحالمسائل، احکام نبش قبر، سایت دفتر آیت اللہ نوری ہمدانی، تاریخ درج مطلب: 30 مرداد 1398شمسی، تاریخ بازدید: 19 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- وحید خراسانی، حسین، رسالہ توضیحالمسائل، موارد نبش قبر، سایت دفتر آیت اللہ وحید خراسانی، تاریخ بازدید: 20 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔