لڑکیوں کی بلوغت
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
لڑکیوں کا بالغ ہونا، لڑکیوں کی نشو و نما کے اس مرحلے کو کہا جاتا ہے جس میں وہ دینی فرائض کی انجام دہی کے پابند ہو جاتی ہیں۔ فقہا کے فتوؤں کے مطابق بالغ ہونے کی عمر تک پہنچنا، حیض آنا، احتلام ہونا، زیرِ ناف سخت بالوں کا اگنا اور حمل ٹھہرنا، یہ پانچ نشانیاں لڑکیوں کے بالغ ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک بھی واقع ہو جائے تو لڑکی بالغ شمار ہوتی ہے۔
بالغ ہونے کی عمر کے حوالے سے فقہا کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے: اکثر شیعہ فقہا کا کہنا ہے کہ لڑکیاں قمری کیلنڈر کے مطابق نو سال مکمل ہونے پر بالغ ہو جاتی ہیں۔ اس کے برخلاف بعض فقہا تیرہ سال کی عمر کو لڑکیوں کے لیے سنِ بلوغ قرار دیتے ہیں۔ بعض علما شرعی فرائض میں تفکیک کے قائل ہیں اس بنا پر بعض دینی فرائض کے لیے دس سال اور بعض کے لیے تیرہ سال کو بلوغ کا معیار مانتے ہیں۔
تعریف اور اہمیت
"بلوغ" یعنی بالغ ہونا ، ایک فقہی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ایسی عمر اور مرحلے میں داخل ہونا ہے جس میں شریعت کی جانب سے متعلقہ فرد کو بعض شرعی وظائف پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔[1]
اکثر فقہا کے مطابق لڑکیاں نو سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں، اسی وجہ سے اس عمر میں لڑکیوں کی شادی بیاہ، مسئولیت پذیری اور دینی فرائض کی ادائیگی کو مختلف حلقوں کی جانب سے تحقیق اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔[2] یہی امر عصرِ حاضر کے فقہا کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو دوبارہ احادیث اور قدیم فقہی آرا کی روشنی میں مورد بحث و بررسی قرار دیں۔[3]
بالغ ہونے کی فطری نشانیاں
بالغ ہونے کی فطری اور طبیعی نشانیوں سے مراد وہ جسمانی تبدیلیاں ہیں جو لڑکیوں کے جسم میں ظاہر ہوتی ہیں اور اہل بیتؑ کی احادیث میں انہیں بالغ ہونے کی نشانیاں قرار دی گئی ہیں۔[4] وہ نشانیاں درج ذیل ہیں:
حیض (ماہواری)
شیعہ فقہا نے احادیث کی بنیاد پر حیض کو لڑکیوں کے بالغ ہونے کی نشانی قرار دیا ہے۔[5] بعض فقہا کا ماننا ہے کہ حیض نو سال کی عمر میں آتا ہے،[6] لہٰذا اس سے پہلے اگر کسی لڑکی کو خون آئے جس میں حیض کے اوصاف موجود ہوں تو بھی وہ حیض نہیں کہلائے گا۔ صرف نو سال کے بعد آنے والا خون کہا حیض کہلائے گا اور اس پر حیض کے احکام صادق آئیں گے۔ فقہاء کا یہ گروہ خون حیض کو صرف اس صورت میں بالغ ہونے کی نشانی قرار دیتے ہیں جس لڑکی کی عمر معلوم نہ ہو۔[7]
حمل
بعض فقہا نے حمل کو بالغ ہونے کی نشانی اس لیے قرار دیا ہے کہ یہ حیض اور منی کے نکلنے کا نتیجہ ہے۔[8] شیخ طوسی کے مطابق عورت قدرتی طور پر حیض کے بغیر حاملہ نہیں ہو سکتی، اور چونکہ حمل میاں بیوی کے منی کے اختلاط کا نتیجہ ہے، لہذا چونکہ حمل حیض و منی کے نکلنے کا لازمہ ہے اس لیے اسے بالغ ہونے کی نشانی مانا گیا ہے۔[9]
احتلام اور زیر ناف بالوں کا اگنا
احتلام اور منی کا نکلنا لڑکے اور لڑکیاں دونوں کے بالغ ہونے کی مشترکہ نشانی ہے۔[10] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ خواتین مردوں کی طرح محتلم نہیں ہوتیں، اس بنا پر احتلام اور منی خارج ہونا صرف لڑکوں کے بالغ ہونے کی نشانی ہے۔[11] اس کے مقابلے میں بعض فقہا جیسے صاحب عروہ معتقد ہیں کہ خواتین بھی محتلم ہوتی ہیں اور ان کے محتلم نہ ہونے کے نظریہ کو کمزور سمجھتے ہیں ۔[12] اسی طرح زیر ناف بالوں کا اگنا بھی لڑکے اور لڑکیوں کے بالغ ہونے کی مشترک علامت ہے۔[13]
لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر
بعض فقہا نے عمر کو بالغ ہونے کی اصل اور بنیادی علامت قرار دیا ہے،[14] لیکن اس بارے میں لڑکیاں کس عمر میں بالغ ہوتی ہیں اختلاف پایا جاتا ہے:
نو سال کی عمر
مشہور شیعہ فقہا کے مطابق قمری سال کے حساب سے نو سال مکمل ہونے پر لڑکیاں بالغ ہو جاتی ہیں (جو عیسوی سال کے حساب سے تقریباً آٹھ سال، آٹھ ماہ اور بیس دن بنتے ہیں)۔[15] اس نظریے کی بنیاد ائمہ معصومینؑ سے منقول[16] مستفیض احادیث ہیں۔[17] یوسف بن احمد بَحرانی (1107-1186ق)، المعروف صاحب حدائق کہتے ہیں کہ ایسی احادیث جو نو سال کی عمر میں لڑکیوں کے بالغ ہونے کو بیان کرتی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔[18] اور سید احمد خوانساری نے بھی کثرت روایات کی بنیاد پر اس نظریے کو کسی بھی اشکال اور خدشے سے مبرا قرار دیا ہے۔[19]
البتہ بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ احادیث مخصوص حالات سے متعلق ہیں، جن میں نو سال کی عمر میں لڑکیوں کی بالغ ہونا ممکن تھا۔[20] مثال کے طور پر محمد ابراہیم جناتی کا کہنا ہے کہ ان احادیث میں بالغ کی عمر کے لئے کوئی عمومی اصول بیان نہیں کیا گیا ہے اور روایات میں مختلف عمر کے تذکرہ کی بنیاد، جسمانی ساخت، اور علاقائی ماحول اور غذائی حالات ہیں۔[21]
یوسف صانعی کے مطابق ان احادیث سے حاصل ہونے والا نتیجہ دین میں آسانی کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں کم عمری میں کمزور اور ناپختہ لڑکیوں پر مکمل شرعی فرائض عائد ہو جاتے ہیں ، جبکہ لڑکیاں اس عمر میں کمزور ، ناتوان ، جسمانی نشوونما اور شادی کی صلاحیوں سے خالی ہیں ۔[22]
دس سال کی عمر میں
شیعہ فقہاء میں سے شیخ طوسی نے اپنی کتاب مبسوط[23] اور چھٹی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ ابن حمزہ نے اپنی کتاب الوسیلۃ میں دس سال کی عمر کو لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر قرار دیا ہے۔[24] اس نظریے کے قائلین کی بنیاد ایسی احادیث ہیں جن میں دس سال کی عمر کو بالغ ہونے کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔[25] لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور حدیثی اصطلاح میں انہیں شاذ احادیث کہتے ہیں۔[26]
صاحب جواہر، شیخ طوسی اور ابن حمزہ اپنی دیگر کتابوں میں اپنے اس نظریہ سے عدول کر کے (بدل کر) مشہور کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔[27] بعض فقہا نے ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں بیان کردہ دس سال سے مراد در اصل نو سال قمری کی تکمیل ہے، لہٰذا وہ مشہور رائے سے متصادم نہیں ہے۔[28]
تیرہ سال کی عمر میں
چودہویں صدی ہجری کے معاصر فقہا جیسے محمد اسحاق فیاض[29] اور یوسف صانعی[30] نے تیرہ سال کی عمر کو بالغ ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال امام صادقؑ سے منقول عمار ساباطی کی حدیث ہے،[31] جس میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے تیرہ سال کو سنِ تکلیف قرار دیا گیا ہے۔[32]
شرعی وظائف میں تفکیک
حوزہ علیمہ قم کے مدرس سید مجتبی نور مفیدی کے مطابق، بعض فقہا اس سلسلے میں موجود تمام احادیث میں ہماہنگی پیدا کرنے کی خاطر شرعی وظائف میں تفکیک کے قائل ہیں۔[33] مثلاً فیض کاشانی (متوفی:1091ھ) نماز اور روزہ جیسے انفرادی فرائض کی انجام دہی میں بالغ ہونے کے لئے 13 سال، اور حدود شرعی (شرعی سزائیں) کے اجراء کے لئے 9 سال اور عتق (غلامی سے آزادی) اور وصیت جیسے معاملات کے لئے 10 سال کی عمر بالغ ہونے کے لئے فرض کرتے ہیں۔[34]
اسی طرح شیعہ فقیہ اور مفسر صادقی تہرانی کا ماننا ہے کہ نماز اور دیگر عقلائی وظائف کے لیے بالغ ہونے کی عمر لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے 10 سال ہے، جبکہ روزہ جیسے وظائف جن میں جسمانی طاقت اور توانائی کو ذمہ داری اور مسئولیت پذیری کا اصل معیار قرار دیتے ہیں، میں سن تکلیف 13 سال مناسب ہے۔[35]
مربوطہ کتب و مقالات
بالغ ہونے کے سلسلہ میں خاص طور پر لڑکیوں کے بالغ ہونے کے سلسلہ میں کئی کتابیں و مقالات لکھے گئے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- کتاب: بلوغ دختران، مصنف: یوسف صانعی؛ اس کتاب میں نو سال کو عمومی طور پر لڑکیوں کے لئے سن تکلیف قرار دینے والے مشھور کے نظریے کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے[36] اور اپنے نظریہ یعنی تیرہ سال کو بالغ ہونے کی عمر کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے[37]۔
- کتاب: بررسی فقہی بلوغ دختران، مصنف: سید مجتبی نورمفیدی؛ یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے جس میں احادیث اور فقہاء کے نظریات کے ائینہ میں تفصیل سے بالغ ہونے کی علامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔[38]
- مقالات: "بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی" مقالہ نگار: محمد ابراہیم جناتی، اور "بلوغ دختران" مقالہ نگار: محمد ہادی معرفت — ان مقالات کے لکھنے والوں نے بھی لڑکیوں کے بالغ ہونے کے سلسلہ میں مشہور کے نظریہ اور ان کے دلائل کا جائزہ لیا ہے۔[39]
حوالہ جات
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ش، ج2، ص135۔
- ↑ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395ش، ص20۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مہریزی، بلوغ دختران، 1376ش، ص10-18۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص149-158 و 175-182؛ سبحانی، البلوغت : حقیقتہ، علاماتہ و احکامہ، 1439ھ، ص15-18 و 72-78۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص282؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص191۔
- ↑ علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج14، ص198؛ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص163۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص57 و ج4، ص146؛ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص175۔
- ↑ کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج1، ص254؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ش، ج26، ص45۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص283۔
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص84؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص144؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص185؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج2، ص14۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص154۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص505۔
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص84؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص144؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص185؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج2، ص14۔
- ↑ موسسۃ دایرۃ معارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 2011م، ج21، ص210۔
- ↑ ملاحظہ کریں: بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363ش، ج 20، ص348۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج20، ص101۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص159۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج13، ص182۔
- ↑ خوانساری، جامع المدارک، 1405ھ، ج3، ص365۔
- ↑ ملاحظہ کریں: جناتی، «بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی»، ص42؛ معرفت، «بلوغ دختران»، ص172-173۔
- ↑ جناتی، «بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی»، ص42۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386ش، ص35۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص266
- ↑ ابنحمزہ طوسی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ، 1408ھ، ص137۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج20، ص101-102۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363ش، ج13، ص182۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج26، ص38۔
- ↑ شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، 1406ھ، ج4، ص411؛ سبحانی، البلوغ: حقیقتہ، علاماتہ و احکامہ، 1439ھ، ص39۔
- ↑ «تغییر فتوای یکی از مراجع تقلید دربارہ سن تکلیف دختران»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386ش، ص35-36۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص168۔
- ↑ بروجردی، جامع احادیث الشیعۃ، 1415ھ، ج1، ص353۔
- ↑ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395ش، ص252-253۔
- ↑ فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، ج1، ص14۔
- ↑ صادقی تہرانی، رسالہ توضیح المسائل نوین، 1384ش، ص36۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386ش، ص9۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386ش، ص33۔
- ↑ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395ش، ص5-17۔
- ↑ جناتی، «بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی»، ص35؛ معرفت، «بلوغ دختران»، ص170۔
مآخذ
- ابنحمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ، محقق و مصحح، محمد حسون، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1408ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بیتا.
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
- بروجردی، سیدحسین، جامع احادیث الشیعۃ، قم، نشر مہر، 1415ھ۔
- «تغییر فتوای یکی از مراجع تقلید دربارہ سن تکلیف دختران»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ درج مطلب: 30 اردیبہشت 1400ہجری شمی، تاریخ مشاہدہ: 27 اسفند 1403ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، قم، دایرۃ المعارف فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی۔
- جناتی، محمد ابراہیم، «بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی»، مجلہ کیہان اندیشہ، شمارہ 61، مرداد و شہریور1374ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، مؤسسہ آل البیت، 1416ھ۔
- خوانساری، سیداحمد، جامع المدارک، تہران، مکتبۃ الصدوق، چاپ دوم، 1405ھ۔
- رجایی، سیدمحمد، المسائل الفقہیۃ، قم، انتشارات علمیۃ، چاپ اول، 1421ھ۔
- سبحانی، جعفر، البلوغ: حقیقتہ، علاماتہ وأحکامہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1439ھ۔
- شوشتری، محمد تقی، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، تہران، کتابفروشی صدوق، 1406ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تصحیح و تعلیقہ سیدمحمد کلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الافہام، قم، بنیاد معارف اسلامی، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، محقق و مصحح: سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، 1387ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، رسالہ توضیح المسائل نوین، تہران، امید فردا، 1384ہجری شمسی۔
- صانعی، یوسف، بلوغ دختران، قم، میثم تمار، 1386ہجری شمسی۔
- طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417ھ۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آلالبیت، 1414ھ۔
- فیض کاشانی، محمد محسن، مفاتیح الشرائع، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، بیتا.
- کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، كشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغرّاء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ج1، ص254.
- محقق اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بیتا.
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، انتشارات اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- معرفت، محمد ہادی، «بلوغ دختران»، مجلہ کتاب نقد، شمارہ12، 1378ہجری شمسی۔
- مہریزی، مہدی، بلوغ دختران، قم، دفتر تبلیغات حوزہ علمیہ قم، 1376ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: عباس قوچانی، علی آخوندی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
- نورمفیدی، سیدمجتبی، بررسی فقہی بلوغ دختران، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1395ہجری شمسی۔