دعا

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(دعاؤں سے رجوع مکرر)
دعا و مناجات

دُعا، بندے کا اپنی خواہشوں کے حصول کے لئےخدا یا جسے وہ معبود سمجھتے ہیں، سے کی جانے والی درخواست کو کہا جاتا ہے۔تک پہنچنے یا اپنے اثاثے کی بقاء یا مشکلات اور مصائب کے حل کے لئے کے لئے، خواہ یہ مسائل مادی ہوں، خواہ معنوی ہوں، خواہ ان کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہو، خواہ اخروی مسائل سے، خواہ حالات معمول کے مطابق ہوں خواہ ہنگامی ہوں۔

دعا کی جڑیں انسان کے ذاتی فقر اور ضرورتمندی میں پیوست ہے اور اس کا عبادت اور بندگی سے اس کا تعلق بہت گہرا ہے اور رسمِ دعا عبادی اعمال و مناسک کے سانچے میں بجا لائی جاتی ہے۔ دعا پوری تاریخ اور تمام انسانی معاشروں اور مختلف ادیان کے پیروکاروں کے درمیان مختلف انفرادی اور اجتماعی اشکال میں رائج رہی ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنی

دعا ایک عربی لفظ ہے جس کی جڑ "د ع و" ہے اور اس کے معنی صدا اور کلام کے ذریعے کسی چیز کو اپنی جانب مائل کرنے کے ہیں،[1] تاہم ابوہلال عسکری[2] کا کہنا ہے کہ دعا در اصل کسی کام کی انجام دہی کی درخواست ہے۔ اس کی جمع "ادعیہ" ہے۔[3]

دعا اصطلاح میں "مدعو" سے کسی کے انجام دینے کی درخواست ہے جو جملۂ امر یا نہی اور کبھی خبری جملے کی صورت ميں صادر ہوتی ہے، جیسے: غَفَر اللهُ لَک۔ دعا اور امر میں فرق یہ ہے کہ دعا میں مخاطَب کا رتبہ داعی سے اعلی ہے اور امر میں اس کا رتبہ ادنی ہے۔ دعا کے مقابلے میں اجابت آتی ہے اور امر کے مقابلے میں اطاعت۔[4]

صلاۃ،[5] قنوت،[6] اور سؤال بمعنی درخواست،[7] ندا بمعنی درخواست بآواز بلند،[8] اوّاه بہت زيادہ دعائے خیر اور بہت زيادہ تسبیح کرنے والا اور حمد و ثناء کرنے والا؛[9] لعن و نفرین بمعنی دعا کسی کے خلاف،[10] بَہل بمعنی نفرین اور مباہلہ کے معنی فریقین کی ایک دوسرے پر لعنت کرنا،[11] قرآن کی دیگر اصطلاحات ہیں جن کا دعا کے اصطلاحی معنی سے تعلق ہے۔[12]

دعا قرآن میں

دعا کی اصطلاح اور اس کے مشتقات قرآن میں 215 مرتبہ کسی کو کسی عمل کی طرف دعوتے دینے، پرستش اور عبادت، خدا سے کسی چیز کی التجا، کلام اور دعوی،[13] اور منہ بولے بیٹے[14] کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔[15]

اگر اس کے معنی "کسی کام کی طرف دعوت دینے کو ہوں اور خدا داعی ہو" تو اس کی دو قسمیں ہیں:

  1. تکوینی: اس شیئے کی فراہم سازی جس کا اللہ نے ارادہ فرمایا ہے؛ جیسے "قیامت" انسانوں کے لئے۔[16] تکوینی دعوت قبول کرنا، حتمی ہے اور وہ انسان کے دائرۂ اختیار سے خارج ہے۔[17]
  2. تشریعی: انسانوں کو "وحی" کے ذریعے دین کی طرف دعوت دینا[18] اور اس چیز کی دعوت دینا جو انسانوں کو حقیقی حیات بخشتی ہے[19] اس قسم کی دعوت میں انبیاء اور مؤمنین بھی داعی، کے طور پر، انسان کو پروردگار،[20] ہدایت،[21] صراط مستقیم،[22] اور نجات[23] کی طرف بلاتے ہیں۔ انسان تشریعی دعوت کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں مختار ہے، اگر اس نے قبول کیا تو اس کا انجام نیک ہوگا[24] اور بصورت دیگر نہایت برا انجام اس کا منتظر رہے گا۔[25]

اس کے متضاد معنی میں داعی عام طور پر شیطان یا کوئی مشرک ہے جو انسان کو شرک و کفر اور دوزخ کی دعوت دیتا ہے۔[26]

بہت سی آیات میں، دعا سے مراد پرستش، بندگی اور عبادت ہے اور اس بات کا اہم ترین ثبوت آیات یہ ہے کہ لفظ عبادت کو لفظ دعا کی جگہ استعمال کیا گیا ہے:

" …اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ... (ترجمہ: مجھ سے دعا کرو، تا کہ میں (تمہاری دعا) قبول کروں، بلاشبہ جو میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ ذلت وحقارت کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے)"۔

اور

"وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔﴿48﴾ فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔﴿49﴾  (ترجمہ: اور میں خود آپ لوگوں سے اور جس کی آپ لوگ اللہ کے سوا دہائی دیتے ہیں علیحدگی اختیار کر لوں گا اور بس اپنے پروردگار سے دعا کرتا رہوں گا ﴿48﴾ تو جب وہ ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر چکے، اور اس سے کہ جن کی وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے تھے ﴿49﴾)"۔

اس معنی میں آنے والی آیات کی دو قسمیں ہیں:

  1. بعض آیات میں یہ پروردگار کے بارے میں ہے[27] اور مفسرین نے اس کو "عبادت اور خدا کی یکتائی پر اقرار، کے معنی میں لیا ہے۔[28]
  2. بعض دیگر مفسرین نے دعائے پروردگار کو عبادت کے بعض مصادیق قرار دیا ہے جیسے مطلق نماز ـ جس میں فرائض اور نوافل یا نماز پنجگانہ یا نماز صبح و شام، شامل ہیں ـ نیز[29] اللہ کا ذکر اور تہلیل و تسبیح و تمجید،[30] تلاوت قرآن یا سجود۔[31]

دعا کے حالات

نماز کے برعکس ـ جو معینہ وقت و مقام، طہارت، رو بہ قبلہ ہونے وغیرہ جیسی شرائط سے مشروط ہے ـ، دعا کسی خاص وقت اور خاص زبان سے محدود و مشروط نہیں ہے۔ دعا کے لئے کوئی ثابت و متعین ذکر نہیں ہے اور انسان اپنے بیرونی اور اندرونی، نیز روحانی اور جسمانی حالات اور تقاضوں کے مطابق ہر قسم کی دعا منتخب کرسکتا ہے، زبان پر جاری کرسکتا ہے یا حتی اپنے قلب سے گذار سکتا ہے۔

بہت سی آیات میں دعا کے معنی کسی کو کسی چیز کے لئے بلانے کے ہیں جو درحقیقت دعا کے اصطلاحی معنی یہی ہیں۔ ان آیات کا اہم حصہ توحید کے اثبات اور شرک کی نفی کے تناظر میں آیا ہے۔ یہ آیات ایک طرف سے یادآوری کراتی ہیں کہ انسان کو مصائب میں فطری طور پر خدا یاد آتا ہے اور دوسری طرف سے تاکید کرتی ہیں کہ خداوند متعال انسان کی حاجت برآری پر قادر ہے اور مشرکین کے معبود بندوں کی دعا کی استجابت سے عاجز ہیں۔ یہ برہان، یعنی سختیوں اور مشکلات میں غیراللہ کو بھول جانا اور صرف اللہ کی درگاہ میں گڑگڑانا اور زاری کرنا، پروردگار کی یکتائی پر صریح ترین برہان ہے۔[32]

قرآن انسانی ذیل کی عام اور کلی عبارات سے انسانی حالات کی تصویر کشی کرتا ہے کہ وہ صعوبتوں میں مبتلا ہوکر اپنی فطرت کے ذریعے ادراک کرلیتا ہے کہ خدائے سبحان اس کے مصائب رفع کرنے اور اس کے غم و اندوہ کو التیام بخشنے پر قدرت کاملہ رکھتا ہے:

"وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَآئِماً۔۔۔ (ترجمہ: اور آدمی پر جب مصیبت پڑتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے کروٹ کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے۔۔۔ ﴿12﴾)"؛

"وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ۔۔۔﴿33﴾ (ترجمہ: اور جب لوگوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے پروردگار سے لو لگاتے ہوئے اس سے دعا کرتے ہیں)"؛

"وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيباً إِلَيْهِ۔۔۔﴿8﴾ (ترجمہ: اور جب آدمی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے اس سے لو لگاتے ہوئے۔۔۔)"؛

"۔۔۔وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاء عَرِيضٍ۔۔۔﴿51﴾ (ترجمہ: اور جب اسے برائی درپیش ہوتی ہے تو لمبی چوڑی دعا کرتا ہے۔۔۔)"۔

درگاہ ربانی میں دعا کی اہمیت اور حقیقت

قرآن میں دعا کی اہمیت پر تاکید نیز اس کے آداب اور استجابت کی شروط کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ دعا کی اہمیت بیان کرنے کے سلسلے میں اہم ترین آیات کریمہ کچھ یوں ہیں:

مخلوقات سے انقطاع کی فضیلت[33] کی رو سے ہی قرآن لوگوں کو دعا کا حکم اور انہیں استجابت کی نوید دیتا ہے اور دعا کو عبادت گردانتا ہے اور جو لوگ تکبر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بنا پر، خدا کی عبادت ترک کردیں، دوزخ کے عذاب سے خبردار کرتا ہے۔

علامہ طباطبائی اور ابن عاشور نے[34] احادیث سے استناد کرتے ہوئے دعا کو عبادت کے زمرے میں قرار دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ہر عبادت بھی دعا ہے؛[35] کیونکہ بندوں کی دعا کی حقیقت اللہ کی رحمت کا حصول ہے اور عبادت بھی درحقیقت دعا ہے اور بندہ خضوع و خشوع کے اظہار کے طور پر اس کو مالک اور اپنے آپ کو مملوک قرار دیتا ہے تا کہ اس طرح اللہ کی عنایت کو اپنے لئے حاصل کرسکے۔

"قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ۔۔۔﴿77﴾ (ترجمہ: کہئے کہ میرا پروردگار تمہاری پرواہ نہیں کرتا اگر تم دعا نہ مانگو۔۔۔)۔"

بعض مفسرین کی تفسیر کے مطابق اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، خداوند متعال تم پر عنایت نہ فرماتا،[36] علامہ طباطبائی کے خیال میں یہ تفسیر مذکورہ آيت کے تسلسل سے سازگار نہیں ہے۔[37] سابقہ انبیاء اور انسانوں کے مختلف گروہوں اور معاشروں سے سے متعدد دعائیں نقل کرنا نیز مختلف آیات میں اللہ کی طرف سے رسول اللہ(ص) کو دعا کی تعلیم دیا جانا، دعا کی اہمیت کے دیگر شواہد میں سے ہے۔

قرآن میں استجابتِ دعا کے شرائط

استجابت کی جڑ لفظ "جوب" ہے جو لغت کے بیشتر قدیم مآخذ و منابع میں "پھاڑنے اور کاٹنے" کے معنی میں آیا ہے۔[38] اجابت اور استجابت دونوں کے معنی جواب دینے اور دعا اور درخواست کو قبول کرنے کے ہیں۔[39] اور "‌مجیب‌"[40] اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے جس کے معنی قبول اور عطا ہے جو دعا اور سؤال کے جواب میں آتی ہے۔[41]

بعض آیات میں استجابت دعا کو صرف "دعا پڑھنے" سے مشروط کیا گیا ہے،[42] جبکہ بعض دوسری آیات میں اس کے لئے "مشیت الہی" یا [43] یا "‌اضطرار"[44] کی شرط کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں اہم ترین آیت سورہ بقرہ کی آیت 186 ہے جس میں سات مرتبہ ضمیر "متکلم وحدہ" (متکلم واحد) بروئے کار آیا ہے۔ اللہ کی مطلق مالکیت، قوت و قدرت، اور غنا و بےنیازی اور بندوں سے اس کی قربت اور دوسری طرف سے بندوں کی اس سے وابستگی اور ذاتی فقر و حاجتمندی، ایجابِ دعا یا استجابتِ دعا کے متقاضی ہے۔ اجابت کی واحد شرط یہ ہے کہ بندہ حقیقتاً اللہ سے طلب کرے۔ طلب و التجا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دل اس کی زبان کے ساتھ ہمراہ ہوجائے، کیونکہ دل حقیقی التجا کرتا ہے اور زبان فطرت کو بول دیتی ہے اور یہ حالت اضطرار کی صورت میں حاصل ہوجاتی ہے۔

خدا سے حقیقی التجا، بھی اللہ کی منزلت و سلطنت کی معرفت کے بغیر ـ جو کہ ہر مادی سبب سے ناامید اور منقطع ہونے کا موجب ہے ـ ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس بات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ علت و معلول (یا سبب اور مسبَّب = Cause and Effect) کا نظام باطل سمجھا جائے یا اسباب کی وساطت کا قاعدہ منسوخ قرار دیا جائے، بلکہ اس کا مطلب اس بات کی طرف توجہ دینا ہے کہ اسباب بذات خود مستقل سبب نہیں ہیں اور فیض وجود دینے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ فیضِ وجود کا ذریعہ ہیں اور مستقل طور پر مؤثر نہیں ہیں اور حقیقتِ امر اور تاثیر صرف اور صرف اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اگرچہ عقل، قرآن اور روایات اسباب کی وساطت کے قانون کو ثابت کردیتی ہیں لیکن مادی اسباب میں ان کے منحصر ہونے کے تصور کو باطل سمجھتی ہیں۔

شناخت و معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان معتقد ہو کہ ـ دعا ہر اس شیئے میں جو، عقلاً اور فی نفسہ محال ہو، اگرچہ وہ معمولی حالات میں محال ہی نظر کیوں نہ آئے ـ مستجاب ہے۔ جیسا کہ انبیاء کے زیادہ تر معجزات بھی اسی طرح ہیں۔ دوسری جانب سے، علت و معلوم کے نظام کے تناظر میں، ایک شیئے (معلول = Effect) کے معرض وجود میں آنے کے لئے علت (Cause) کا معرض وجود میں آنا ضروری ہے، اور جو شخص دعا کرتا ہے اور اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس نے درحقیقت علت یا سبب کے اجزاء میں سے ایک جزء کو مہیا کرچکا ہے۔[45]

دعا کی عدم استجابت

دُعا، خداوند متعال ـ یا اس وجود سے جس کو وہ معبود سمجھتے ہیں ـ سے بندوں کی طلب اور درخواست ہے، اپنی خواہشوں تک پہنچنے یا اپنے اثاثے کی بقاء یا مشکلات اور مصائب کے حل کے لئے کے لئے، خواہ یہ مسائل مادی ہوں، خواہ معنوی ہوں، خواہ ان کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہو، خواہ اخروی مسائل سے، خواہ حالات معمول کے مطابق ہوں خواہ ہنگامی ہوں۔

دعا کی جڑیں انسان کے ذاتی فقر اور ضرورتمندی میں پیوست ہے اور اس کا عبادت اور بندگی سے اس کا تعلق بہت گہرا ہے اور رسمِ دعا عبادی اعمال و مناسک کے سانچے میں بجا لائی جاتی ہے۔ دعا پوری تاریخ اور تمام انسانی معاشروں اور مختلف ادیان کے پیروکاروں کے درمیان مختلف انفرادی اور اجتماعی اشکال میں رائج رہی ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنی

دعا ایک عربی لفظ ہے جس کی جڑ "د ع و" ہے اور اس کے معنی صدا اور کلام کے ذریعے کسی چیز کو اپنی جانب مائل کرنے کے ہیں،[46] تاہم ابوہلال عسکری[47] کا کہنا ہے کہ دعا در اصل کسی کام کی انجام دہی کی درخواست ہے۔ اس کی جمع "ادعیہ" ہے۔[48]

دعا اصطلاح میں "مدعو" سے کسی کے انجام دینے کی درخواست ہے جو جملۂ امر یا نہی اور کبھی خبری جملے کی صورت ميں صادر ہوتی ہے، جیسے: غَفَر اللهُ لَک۔ دعا اور امر میں فرق یہ ہے کہ دعا میں مخاطَب کا رتبہ داعی سے اعلی ہے اور امر میں اس کا رتبہ ادنی ہے۔ دعا کے مقابلے میں اجابت آتی ہے اور امر کے مقابلے میں اطاعت۔[49]

صلاۃ،[50] قنوت،[51] اور سؤال بمعنی درخواست،[52] ندا بمعنی درخواست بآواز بلند،[53] اوّاه بہت زيادہ دعائے خیر اور بہت زيادہ تسبیح کرنے والا اور حمد و ثناء کرنے والا؛[54] لعن و نفرین بمعنی دعا کسی کے خلاف،[55] بَہل بمعنی نفرین اور مباہلہ کے معنی فریقین کی ایک دوسرے پر لعنت کرنا،[56] قرآن کی دیگر اصطلاحات ہیں جن کا دعا کے اصطلاحی معنی سے تعلق ہے۔[57]

دعا قرآن میں

دعا کی اصطلاح اور اس کے مشتقات قرآن میں 215 مرتبہ کسی کو کسی عمل کی طرف دعوتے دینے، پرستش اور عبادت، خدا سے کسی چیز کی التجا، کلام اور دعوی،[58] اور منہ بولے بیٹے[59] کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔[60]

اگر اس کے معنی "کسی کام کی طرف دعوت دینے کو ہوں اور خدا داعی ہو" تو اس کی دو قسمیں ہیں:

  1. تکوینی: اس شیئے کی فراہم سازی جس کا اللہ نے ارادہ فرمایا ہے؛ جیسے "قیامت" انسانوں کے لئے۔[61] تکوینی دعوت قبول کرنا، حتمی ہے اور وہ انسان کے دائرۂ اختیار سے خارج ہے۔[62]
  2. تشریعی: انسانوں کو "وحی" کے ذریعے دین کی طرف دعوت دینا[63] اور اس چیز کی دعوت دینا جو انسانوں کو حقیقی حیات بخشتی ہے[64] اس قسم کی دعوت میں انبیاء اور مؤمنین بھی داعی، کے طور پر، انسان کو پروردگار،[65] ہدایت،[66] صراط مستقیم،[67] اور نجات[68] کی طرف بلاتے ہیں۔ انسان تشریعی دعوت کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں مختار ہے، اگر اس نے قبول کیا تو اس کا انجام نیک ہوگا[69] اور بصورت دیگر نہایت برا انجام اس کا منتظر رہے گا۔[70]

اس کے متضاد معنی میں داعی عام طور پر شیطان یا کوئی مشرک ہے جو انسان کو شرک و کفر اور دوزخ کی دعوت دیتا ہے۔[71]

بہت سی آیات میں، دعا سے مراد پرستش، بندگی اور عبادت ہے اور اس بات کا اہم ترین ثبوت آیات یہ ہے کہ لفظ عبادت کو لفظ دعا کی جگہ استعمال کیا گیا ہے:

" …اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ... (ترجمہ: مجھ سے دعا کرو، تا کہ میں (تمہاری دعا) قبول کروں، بلاشبہ جو میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ ذلت وحقارت کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے)"۔

اور

"وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔﴿48﴾ فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔﴿49﴾  (ترجمہ: اور میں خود آپ لوگوں سے اور جس کی آپ لوگ اللہ کے سوا دہائی دیتے ہیں علیحدگی اختیار کر لوں گا اور بس اپنے پروردگار سے دعا کرتا رہوں گا ﴿48﴾ تو جب وہ ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر چکے، اور اس سے کہ جن کی وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے تھے ﴿49﴾)"۔

اس معنی میں آنے والی آیات کی دو قسمیں ہیں:

  1. بعض آیات میں یہ پروردگار کے بارے میں ہے[72] اور مفسرین نے اس کو "عبادت اور خدا کی یکتائی پر اقرار، کے معنی میں لیا ہے۔[73]
  2. بعض دیگر مفسرین نے دعائے پروردگار کو عبادت کے بعض مصادیق قرار دیا ہے جیسے مطلق نماز ـ جس میں فرائض اور نوافل یا نماز پنجگانہ یا نماز صبح و شام، شامل ہیں ـ نیز[74] اللہ کا ذکر اور تہلیل و تسبیح و تمجید،[75] تلاوت قرآن یا سجود۔[76]

دعا کے حالات

نماز کے برعکس ـ جو معینہ وقت و مقام، طہارت، رو بہ قبلہ ہونے وغیرہ جیسی شرائط سے مشروط ہے ـ، دعا کسی خاص وقت اور خاص زبان سے محدود و مشروط نہیں ہے۔ دعا کے لئے کوئی ثابت و متعین ذکر نہیں ہے اور انسان اپنے بیرونی اور اندرونی، نیز روحانی اور جسمانی حالات اور تقاضوں کے مطابق ہر قسم کی دعا منتخب کرسکتا ہے، زبان پر جاری کرسکتا ہے یا حتی اپنے قلب سے گذار سکتا ہے۔

بہت سی آیات میں دعا کے معنی کسی کو کسی چیز کے لئے بلانے کے ہیں جو درحقیقت دعا کے اصطلاحی معنی یہی ہیں۔ ان آیات کا اہم حصہ توحید کے اثبات اور شرک کی نفی کے تناظر میں آیا ہے۔ یہ آیات ایک طرف سے یادآوری کراتی ہیں کہ انسان کو مصائب میں فطری طور پر خدا یاد آتا ہے اور دوسری طرف سے تاکید کرتی ہیں کہ خداوند متعال انسان کی حاجت برآری پر قادر ہے اور مشرکین کے معبود بندوں کی دعا کی استجابت سے عاجز ہیں۔ یہ برہان، یعنی سختیوں اور مشکلات میں غیراللہ کو بھول جانا اور صرف اللہ کی درگاہ میں گڑگڑانا اور زاری کرنا، پروردگار کی یکتائی پر صریح ترین برہان ہے۔[77]

قرآن انسانی ذیل کی عام اور کلی عبارات سے انسانی حالات کی تصویر کشی کرتا ہے کہ وہ صعوبتوں میں مبتلا ہوکر اپنی فطرت کے ذریعے ادراک کرلیتا ہے کہ خدائے سبحان اس کے مصائب رفع کرنے اور اس کے غم و اندوہ کو التیام بخشنے پر قدرت کاملہ رکھتا ہے:

"وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَآئِماً۔۔۔ (ترجمہ: اور آدمی پر جب مصیبت پڑتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے کروٹ کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے۔۔۔ ﴿12﴾)"؛

"وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ۔۔۔﴿33﴾ (ترجمہ: اور جب لوگوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے پروردگار سے لو لگاتے ہوئے اس سے دعا کرتے ہیں)"؛

"وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيباً إِلَيْهِ۔۔۔﴿8﴾ (ترجمہ: اور جب آدمی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے اس سے لو لگاتے ہوئے۔۔۔)"؛

"۔۔۔وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاء عَرِيضٍ۔۔۔﴿51﴾ (ترجمہ: اور جب اسے برائی درپیش ہوتی ہے تو لمبی چوڑی دعا کرتا ہے۔۔۔)"۔

درگاہ ربانی میں دعا کی اہمیت اور حقیقت

قرآن میں دعا کی اہمیت پر تاکید نیز اس کے آداب اور استجابت کی شروط کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ دعا کی اہمیت بیان کرنے کے سلسلے میں اہم ترین آیات کریمہ کچھ یوں ہیں:

مخلوقات سے انقطاع کی فضیلت[78] کی رو سے ہی قرآن لوگوں کو دعا کا حکم اور انہیں استجابت کی نوید دیتا ہے اور دعا کو عبادت گردانتا ہے اور جو لوگ تکبر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بنا پر، خدا کی عبادت ترک کردیں، دوزخ کے عذاب سے خبردار کرتا ہے۔

علامہ طباطبائی اور ابن عاشور نے[79] احادیث سے استناد کرتے ہوئے دعا کو عبادت کے زمرے میں قرار دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ہر عبادت بھی دعا ہے؛[80] کیونکہ بندوں کی دعا کی حقیقت اللہ کی رحمت کا حصول ہے اور عبادت بھی درحقیقت دعا ہے اور بندہ خضوع و خشوع کے اظہار کے طور پر اس کو مالک اور اپنے آپ کو مملوک قرار دیتا ہے تا کہ اس طرح اللہ کی عنایت کو اپنے لئے حاصل کرسکے۔

"قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ۔۔۔﴿77﴾ (ترجمہ: کہئے کہ میرا پروردگار تمہاری پرواہ نہیں کرتا اگر تم دعا نہ مانگو۔۔۔)۔"

بعض مفسرین کی تفسیر کے مطابق اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، خداوند متعال تم پر عنایت نہ فرماتا،[81] علامہ طباطبائی کے خیال میں یہ تفسیر مذکورہ آيت کے تسلسل سے سازگار نہیں ہے۔[82] سابقہ انبیاء اور انسانوں کے مختلف گروہوں اور معاشروں سے سے متعدد دعائیں نقل کرنا نیز مختلف آیات میں اللہ کی طرف سے رسول اللہ(ص) کو دعا کی تعلیم دیا جانا، دعا کی اہمیت کے دیگر شواہد میں سے ہے۔

قرآن میں استجابتِ دعا کے شرائط

استجابت کی جڑ لفظ "جوب" ہے جو لغت کے بیشتر قدیم مآخذ و منابع میں "پھاڑنے اور کاٹنے" کے معنی میں آیا ہے۔[83] اجابت اور استجابت دونوں کے معنی جواب دینے اور دعا اور درخواست کو قبول کرنے کے ہیں۔[84] اور "‌مجیب‌"[85] اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے جس کے معنی قبول اور عطا ہے جو دعا اور سؤال کے جواب میں آتی ہے۔[86]

بعض آیات میں استجابت دعا کو صرف "دعا پڑھنے" سے مشروط کیا گیا ہے،[87] جبکہ بعض دوسری آیات میں اس کے لئے "مشیت الہی" یا [88] یا "‌اضطرار"[89] کی شرط کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں اہم ترین آیت سورہ بقرہ کی آیت 186 ہے جس میں سات مرتبہ ضمیر "متکلم وحدہ" (متکلم واحد) بروئے کار آیا ہے۔ اللہ کی مطلق مالکیت، قوت و قدرت، اور غنا و بےنیازی اور بندوں سے اس کی قربت اور دوسری طرف سے بندوں کی اس سے وابستگی اور ذاتی فقر و حاجتمندی، ایجابِ دعا یا استجابتِ دعا کے متقاضی ہے۔ اجابت کی واحد شرط یہ ہے کہ بندہ حقیقتاً اللہ سے طلب کرے۔ طلب و التجا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دل اس کی زبان کے ساتھ ہمراہ ہوجائے، کیونکہ دل حقیقی التجا کرتا ہے اور زبان فطرت کو بول دیتی ہے اور یہ حالت اضطرار کی صورت میں حاصل ہوجاتی ہے۔

خدا سے حقیقی التجا، بھی اللہ کی منزلت و سلطنت کی معرفت کے بغیر ـ جو کہ ہر مادی سبب سے ناامید اور منقطع ہونے کا موجب ہے ـ ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس بات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ علت و معلول (یا سبب اور مسبَّب = Cause and Effect) کا نظام باطل سمجھا جائے یا اسباب کی وساطت کا قاعدہ منسوخ قرار دیا جائے، بلکہ اس کا مطلب اس بات کی طرف توجہ دینا ہے کہ اسباب بذات خود مستقل سبب نہیں ہیں اور فیض وجود دینے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ فیضِ وجود کا ذریعہ ہیں اور مستقل طور پر مؤثر نہیں ہیں اور حقیقتِ امر اور تاثیر صرف اور صرف اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اگرچہ عقل، قرآن اور روایات اسباب کی وساطت کے قانون کو ثابت کردیتی ہیں لیکن مادی اسباب میں ان کے منحصر ہونے کے تصور کو باطل سمجھتی ہیں۔

شناخت و معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان معتقد ہو کہ ـ دعا ہر اس شیئے میں جو، عقلاً اور فی نفسہ محال ہو، اگرچہ وہ معمولی حالات میں محال ہی نظر کیوں نہ آئے ـ مستجاب ہے۔ جیسا کہ انبیاء کے زیادہ تر معجزات بھی اسی طرح ہیں۔ دوسری جانب سے، علت و معلوم کے نظام کے تناظر میں، ایک شیئے (معلول = Effect) کے معرض وجود میں آنے کے لئے علت (Cause) کا معرض وجود میں آنا ضروری ہے، اور جو شخص دعا کرتا ہے اور اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس نے درحقیقت علت یا سبب کے اجزاء میں سے ایک جزء کو مہیا کرچکا ہے۔[90]

دعا کی عدم استجابت

بعض مفسرین نے بعض آیات میں خدا کے قطعی اور مطلق وعدے اور استجابت دعا کے درمیان تنافی اور باہمی عدم تطابق، کو بعض دعاؤں کی عدم استجابت سے تفسیر کیا ہے۔ اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے رائے دی ہے:

  • یا تو دعا کی استجابت مصلحت کے خلاف تھی اور حکمت سے مطابقت نہیں رکھتی تھی؛
  • یا پھر وہ اس عمومیت و اطلاق کے دوسری آیات کے ذریعے مقید ہونے کے قائل ہوئے ہیں۔[91]

انھوں نے " وَآتَاکم مِّن کلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ...﴿34﴾۔" کی عبارت میں لفظ "من" کو مِنِ بعضیہ (یا مِنِ تبعیض)" قرار دیا ہے جو ان کے بقول اس بات کی علامت ہے کہ خدا ہر وہ چیز جو بندہ طلب کرتا ہے، اس کو عطا نہیں کرتا۔[92]

علامہ طباطبائی[93] "‌مِن" کو ابتدائیہ گردانتے ہیں اور اس قرینے سے کہ "عطا اس آیت میں مطلق ہے"، قائل ہیں کہ آیت کا خطاب بنی نوع انسان سے ہے اور انسانی نسل خدائے سبحان کے سوا کسی کو بھی اپنا پروردگار نہیں مانتی اور اس کی تمام درخواستیں اور التجائیں حقیقی ہیں اور آخر کار مستجاب ہونگی۔

خداوند سبحان ارشاد فرماتا ہے: "بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاء۔۔۔﴿41﴾۔"

بعض مفسرین شرطِ "إِنْ شَاء" کو اس بات کی دلیل سمجھتے ہیں کہ خداوند متعال بندوں کی مصلحت یا اپنی مشیت، کی بنا پر، کبھی ان کی دعائیں مستجاب کرتا ہے اور کبھی مستجاب نہیں کرتا۔</ref>طوسی، التیبان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیت مذکورہ۔</ref> یا پھر اس کو لفظ "مضطر"[94] کی عمومیت کی نفی کے لئے کہا ہے کہ یہ لفظ "جنس" کو بیان کرتا ہے اور اس صورت میں یہ سب یا بعض پر، صادق آئے،[95] یا پھر کہا ہے کہ یہ ماہیت کو بیان کرتا ہے، اور اس صورت میں اگر یہ ایک فرد پر بھی صادق آئے، کافی ہے،[96] یا پھر اس کو خاص مصادیق پر تطبیق کیا گیا ہے جیسے ایک گنہگار جو توبہ کرے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag علامہ طباطبائی کی رائے کے مطابق، ممکن ہے کہ خداوند متعال سے طلب کی دو قسمیں ہوں:

  1. حقیقی
  2. غیر حقیقی

اگر مشرکین کی دعا یہ ہو کہ قیامت واقع نہ ہو، تو یہ امر محال ہے، کیونکہ قیامت اللہ کی قضائے حتمیہ ہے اور اگر ان کی دعا رفعِ عذاب ہو اور اگر چاہیں کہ یہ دعا اس کے حقیقی راستے یعنی توبہ سے، مستجاب ہوگی، جیسے قومِ یونس(ع)؛ لیکن اگر یہ دعا فریب کاری پر مبنی ہو، تو چونکہ طلب حقیقی نہیں ہے لہذا مستجاب نہیں ہوگی؛ جیسے فرعون کی توبہ۔

استجابت دعا میں ایمان کا کردار

بعض آیات کریمہ نے استجابت دعا میں ایمان اور عمل کے کردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔

حضرت یونس(ع) کی طرح، خدا کی توحید و تنزیہ کا اقرار اور اپنے ظلم کا اعتراف،"لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (ترجمہ: کوئی خدا نہیں سوا تیرے، پاک ہے تیری ذات بلاشبہ میں ظالموں میں سے تھا)"۔[97]

2۔ کار خیر میں تیزی کرنا، ثواب و انعام کی امید یا طاعت کے اشتیاق کی رو سے نماز ادا کرنا اور پروردگار کی عبادت کرنا، عِقاب و سزا کا خوف یا نافرمانی سے پرہیز، خدا کے حضور تواضع و انکسار، اللہ کی عبادت سے استکبار نہ برتنا اور دل کے اندر خوف راسخ؛ جیسے ایوب،[98] یونس(ع)،[99] زکریا(ع)[100] اور ان کی زوجہ کی دعائیں۔[101]

3۔ متضرعانہ، عاجزانہ اور رازدارانہ انداز سے دعا کا امر کرنے کے بعد وعید اور تہدید،
"۔۔۔إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿55﴾۔
زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد پھیلانے سے نہی کرنا،[102] بشارت اور خوشخبری کے ساتھ "۔۔۔إِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿56﴾،" بعدازاں کہ خوف و امید کی رو سے دعا کا حکم جاری کرتا ہے، ساری آیات کریمہ استجابت دعا میں نیک عمل اور دعا کے آداب کی رعایت کے کردار کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔[103]

ایمان اور عمل صالح "۔۔۔وَیسْتَجِیبُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَیزِیدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ وَالْکافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ﴿26﴾ (ترجمہ: اور قبول کرتا ہے دعا کو ان کی جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں اور انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے اپنے فضل وکرم سے اور کافر لوگ، ان کے لیے سخت عذاب ہے)۔"[104]

5۔ دعا پڑھنے میں اخلاص۔[105]

آداب دعا

مختلف آیات میں کبھی تو صراحتاً دعا کے آداب کو اوامر الہی کے سانچے میں اور کبھی تلمیح کے ساتھ (اشارتاً) پیغمبروں اور عظیم اور شائستہ انسانوں سے منقولہ دعاؤں کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔ 1۔ اسماء الحسنی سے اللہ کی درگاہ میں التجا کرنا۔[106] انسان اپنی طلب اور حاجت کے تناسب سے خداوند متعال سے مناسب اسماء سے التجا کرے۔[107] جب داعی (دعا کنندہ) اللہ کی خوشنود یاور رحمت حاصل کرنے کا خواہاں ہو تو وہ اللہ کو "رضا"، "رحمت" اور ان جیسی صفات سے پکارتا ہے۔ اللہ کا ایک عام ترین نام ـ جو اللہ کی صفت رحمت کو تحریک دیتا ہے ـ اسم "ربّ" ہے،[108] اسی بنا پر پیغمبروں اور شائستہ انسانوں نے ـ قرآن کی گواہی کے مطابق ـ خدا کو ان ہی اسماء و صفات سے پکارا ہے۔

2۔ خداوند متعال کو چپکے چپکے سے تضرع اور گریہ و زاری کرکے پکارنا:[109] دعا در اصل اس وقت صحیح معنوں میں ممکن ہوجاتی ہے کہ بندہ اپنی مسکنت، بےبسی اور عاجزی کو پہچان لے اور پروردگار کی عزت اور صفات کمالیہ کی معرفت بھی حاصل کرلے، تا کہ اس کی دعا ریا کے شبہے سے محفوظ ہوجائے۔[110]

3۔ اللہ کو خوف اور امید کی رو سے پکارنا: "۔۔۔وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً (ترجمہ: اور اس سے دعا کرو خوف سے بھی اور امید سے بھی؛)" قرآن میں اسی سبب سے تہجد پڑھنے والوں کی مدح ہوئی ہے: "۔۔۔يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً۔۔۔ (ترجمہ: پکارتے رہتے ہیں اپنے پروردگار کو ڈر اور امید میں)"۔ خوف اور امید سے مراد، اللہ کی طرف کی سزا اور اعمال میں قصور و کوتاہی اور نااہلی کے بموجب دعا کی عدم استجابت کا خوف ہے اور آیت میں لفظ "طمع" کے معنی امید کے ہیں: پروردگار کے انعام و اکرام اور فضل و کرم کی امید وغیرہ۔[111]

4۔ اللہ کے فضل کو سامنے رکھ کر دعا اور درخواست و التجا کو بہت تفصیل نہ دینا یا حد سے تجاوز نہ کرنا؛[112] بعض مفسرین نے آیت "۔۔۔إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (ترجمہ: یقینا وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا،)" میں "معتدین" کو ان لوگوں کی طرف اشارہ، سمجھا ہے جو دعا میں زیادہ روی کرتے ہیں۔[113] تاہم تفسیر مجمع البیان میں فضل بن حسن طبرسی لکھتے ہیں کہ معتدین اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ـ جنہیں خدا دوست نہیں رکھتا ـ وہ لوگ ہیں کہ انبیاء کی منزلت طلب کریں۔[114]

5۔ اخلاص، زبان اور دل کا ایک ہونا، تمام دنیاوی اسباب سے انقطاع اور دل کو صرف اور صرف اللہ کے سپرد کرنا، جس پر کلام اللہ میں تاکید ہوئی ہے: "وَتَبَتَّلْ إِلَیهِ تَبْتِیلًا (ترجمہ: اور اس کی طرف پوری طرح لو لگائیے)"۔[115]

قرآنی دعائیں

انبیاء اور صالحین کی دعاؤں سے موضوعِ دعا کی عظمت و اہمیت نمایاں ہوجاتی ہے اور یہ دعائیں انسان کو سکھاتی ہیں کہ انہیں کس قسم کی امیدیں اور آرزوئیں رکھنا چاہئیں نیز یہ دعا کے آداب کی تعلیم دیتی ہیں۔[116]

قرآن کریم میں انبیائے الہی، مختلف برگزیدہ بندوں اور بعض جماعتوں یا گروہوں سے مختلف دعائیں نقل ہوئی ہیں:

انبیاء کی دعائیں

آدم و حوا کی دعا،[117] نوح، کی دعائیں،[118] ابراہیم(ع) کی دعائیں،[119] ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام کی دعا،[120] یونس(ع) کی دعا،[121] لوط(ع) کی دعائیں،[122] یوسف(ع) کی دعائیں[123] موسی(ع) کی دعائیں،[124] موسی اور ہارون علیہما السلام کی دعائیں،[125] ایوب(ع) کی دعا[126] سلیمان، کی دعائیں،[127] زکریا(ع) کی دعائیں[128] علاوہ ازیں انبیاء کو اللہ تعالی نے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں۔

برگزیدہ افراد اور گروہوں کی دعائیں

حضرت مریم(س) کی والدہ، اصحاب کہف، فرعون کے ساحروں، حواریون عیسی وغیرہ کی دعائیں:[129]

خاص اوصاف کے حامل افراد کی دعائیں

اولوا الالباب، مستضعفین، عبادالرحمن، متقین، راسخون فی العلم وغیرہ کی دعائیں:[130]

یہ دعائیں مختلف درخواستوں اور التجاؤں پر مشتمل ہیں جو درحقیقت دنیا اور آخرت کے حسنات کو سمیٹے ہوئی ہیں؛ جیسے: اپنے لئے اور والدین اور مؤمنین کے لئے عفو و بخشش، خدا کی رحمت و مغفرت کی درخواست؛ گناہوں کو نہاں رکھے جانے کی التجا؛ نسیان اور خطا کے نتیجے میں مؤاخذہ نہ ہونے کے لئے گڑگڑانا؛ ایمان، صبر اور ثابت قدمی میں استوار رہنے، کفار پر فتح یابی اور غلبہ پانے وغیرہ کی التجا کرنا۔[131]

دعا میں انبیاء اور صالحین کے آداب

قرآن میں انبیاء اور صالحین سے منقولہ دعاؤں سے ایسے آداب نمایاں ہوجاتے ہیں جن کو اگر حالتِ دعا اور بارگاہ ربوبی میں التجا کے دوران ملحوظ رکھا جائے، تو یہ بہتر ہے:

1۔ صفت ربوبیت سے استفادہ کرنا: ان تمام بزرگوں کا مشترکہ ادب خداوند متعال کی صفتِ ربوبیت سے توسل ہے اور وہ دعا کو لفظ "ربّ" سے شروع کرتے ہیں اور اس لفظ کی دہرائی کو اللہ کی رحمت متحرک کرنے کے لئے مد نظر رکھتے ہیں۔[132]

2۔ حاجت سے متناسب صف سے دعا کو ختم کردیا: نیز انبیاء اپنی دعاؤں کا اختتام اپنی حاجات سے متناسب اسمائے حسنی سے کرتے ہیں، جیسے فرزند کی عطائیگی کے لئے بارگاہ الہی میں زکریا(ع) کی دعا کے آخر میں "خیر الوارثین"،[133] شعیب(ع) کی دعا کے آخر میں "خیر الفاتحین"، جس کا آغاز "‌ربّنا افتَح‌" سے ہوتا ہے،[134] نوح(ع) کی دعا کے آخر میں "‌خیر المُنزِلین"، جس کا آغاز "‌رَبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلاً مُّبَارَكاً" سے ہوتا ہے۔

3۔ مغفرت الہی اور بخشش کو دوسری حاجتوں پر مقدم رکھنا: جیسے ملک و سلطنت کی التجا سے قبل سلیمان(ع) کی طلب مغفرت۔[135] نیز انبیاء کی دعاؤں کا تذکرہ، جس میں طلب مغفرت کو مقدم رکھا گیا ہے۔[136] ان آداب کی رعایت کا راز یہ ہے کہ بندوں کی طرف کی دعائے مغفرت بہترین حاجت ہے جس کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے اور رحمت کے دروازوں کے کھل جانے کا سبب بنتی ہے۔[137]

4۔ دعا کے آغاز میں پروردگار کی ثنا اور تسبیح اور اس کی عظمت اور مقام کبریائی کا تذکرہ اور اس کی نعمتیں گِنوانا: دعا کنندہ اس ذریعے سے اپنے آپ کو معرفت اور محبت میں ڈوبا ہوا دیکھتا ہے؛ جس طرح کہ ابراہیم(ع) اللہ کی تمام نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جس روز سے وہ خلق ہوئے ہیں لامتناہی حدود و سطوح تک، خدا کی طرف سے اسمعیل(ع) اور اسحاق(ع) کے عطا ہونے وغیرہ بھی ان ہی نعمتوں میں شامل ہیں۔[138]

5۔ دعا کی وجہ اور محرکات نیز حاجت کا ہدف بیان کرنا: جس طرح کہ زکریا(ع) نے اللہ سے فرزند کی درخواست کی اور اپنی التجا کی وجہ اور علت بتاتے ہوئے کہا: تاکہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو تاکہ نابکار افراد میرے مقام پر قبضہ نہ کرلیں۔[139]

6۔ حاجات اور درخواستوں کی ترتیب اور ہر ایک کے دوسرے کے حصول نیز انسانی سعادت میں کردار کو مد نظر رکھنا: مثلا تین حاجتوں یعنی "شکر نعمت، عمل صالح کی انجام دہی اور نسل کی اصلاح" کی ترتیب، انسانی سعادت کے مراتب "انسانی سعادت"، "جسمانی سعادت" اور "بیرونی سعادت" کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[140]

یا یہ دعا:

"رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْراً كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔۔۔ ﴿286﴾ (ترجمہ: پروردگار! ہماری گرفت نہ کرنا اگر بھول جائیں ہم یا چوک جائیں ہم۔ پروردگارا! اور ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا ان پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے تھے اور پروردگارا! ہم پر ایسا بار نہ رکھنا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، تو ہی ہمارا مالک ہے، تو کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما)"۔

اس دعا کے ذریعے مؤمنین کو اصول سے فروع ـ اور بالفاظ دیگر فوائد خاصہ سے فوائد عامہ ـ کی جانب تدریجی حرکت دلائی جاتی ہے؛ کیونکہ عفو گناہوں کے اثرات کو مٹا دیتی ہے جیسے: سزا و عِقاب کا ختم ہوجانا؛ مغفرت گناہ کے اثرات کو قلب سے مٹا دیتی ہے، اور رحمت عطیۂ ربانی ہے جو گناہ اور اس کے آثار کو چھپا دیتی ہے۔[141]

7۔ دعا میں دوسروں کو شریک کرنا: مثال کے طور پر خداوند متعال رسول اکرم(ص) کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والد اور والدہ کے لئے دعا کریں؛[142] اور علاوہ ازیں مؤمنین کے لئے بھی طلبِ مغفرت کریں۔[143]

قرآن کی سوال انگیز دعائیں

انبیاء(ع) اور صالحین کی بعض دعائیں سوال انگیز ہیں جیسے غفران و بخشش کی مطلق التجا، گناہوں کی مغفرت، پیغمبروں کی جانب سے ظلم کا اقرار، رسول اللہ(ص) کو استغفار کا الہی فرمان،[144] جو اس وہم کا باعث بنتا ہے کہ گویا یہ سب ان کی عصمت کے متضاد اور تحصیلِ حاصل ہے۔

  • بعض مفسرین کی رائے ہے کہ اس استغفار کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء مخلوقات سے منقطع ہوکر صرف اور صرف اللہ کی قربت کو پیش نظر رکھیں اور صرف اسی کی طرف رخ کریں۔[145]
  • بعض دیگر کی رائے ہے کہ یہ انبیاء کے تواضع اور انکسار مزاج کی علامت اور امتوں کے لئے ان کا امتوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہونے کی نشانی ہے تاکہ وہ ان انبیاء کی پیروی کرکر گناہوں سے پرہیز اور اپنے قصور و تقصیر سے طلب مغفرت کریں۔[146]
  • بعض دیگر گناہ اور خطا کو ـ عبودیت میں بندوں کے مقام و منزلت کے تناسب سے ـ ذو مراتب اور ذو مدارج سمجھتے ہیں؛ بقول مشہور "‌حَسَناتُ الاَبرارِ سَيئاتُ المُقَرَّبين (ترجمہ: نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لئے گناہ شمار ہوتی ہیں)"۔ مقربین منجملہ انبیاء، کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے اور سونے تک میں، خدا سے ہر قسم کی غفلت کو گناہ سمجھتے ہیں۔[147]

علم کلام میں قرآنی دعاؤں سے استناد

مفسرین نے کلامی مباحث میں قرآنی دعاؤں سے استناد کیا ہے۔ کلامی مباحث میں سب سے زیادہ بحث انگیز آیات وہ ہیں جن میں اپنی ذریت کی امامت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ضمنی دعا کی استجابت کو مقید و مشروط کیا گیا ہے۔

پروردگار متعال ارشاد فرماتا ہے: "۔۔۔ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿124﴾ (ترجمہ: اور وہ وقت جب ابرہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا اور انہوں نے ان باتوں کو پورا کر دیا تو ارشاد ہوا کہ میں تمہیں خلق خدا کا امام بناتا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد میں سے؟ارشاد ہوا کہ میری طرف کا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا

اہل سنت کے زیادہ تر مفسرین نے اس آیت کو فاسق شخص کی امامت کے بطلان، اس کی اطاعت کے عدم وجوب اور اس کے اوامر و فرامین کے نافذ العمل نہ ہونے کی دلیل جانا ہے؛ نیز وہ قاضی، شاہد (گواہ) اور امامت جماعت کی شرطوں میں عدل و صلاح کے لازمی ہونے کے اثبات کے لئے اسی آیت سے استدلال و استناد کرتے ہیں اور اس کو انبیاء کی عصمت کا ثبوت سمجھتے ہیں۔[148]

شیعہ مفسرین نے اس آیت کو عصمت امام کی عصمت کے وجوب اور روز قیامت تک، ہر ظالم کی امامت کے بطلان کے لئے شاہد و دلیل سمجھتے ہیں نیز اس آیت سے نبوت اور امامت کے رتبے، منزلت اور اختیارات میں تفاوت اور فرق کے اثبات کے لئے استدلال کرتے ہیں۔[149]

علامہ طباطبائی[150] اس آیت کو دوسری آیات کے ساتھ ملا کر امامت کے اہم ترین مسائل میں استفادہ کرتے ہیں: وہ آیات کے اس مجموعے سے استفادہ کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ امام کے حکم سے منصوب و متعین ہوتا ہے، امام کے لئے عصمت واجب ہے، جب تک زمین پر ایک انسان بھی سکونت پذیر ہے، زمین امام حقّ سے خالی نہیں رہتی؛ واجب ہے کہ امام کو اللہ کی طرف کی تائید حاصل ہو، بندوں کے اعمال امام سے چھپے نہیں رہتے اور امام ان تمام امور سے آگاہ ہوتا ہے جن کی دنیاوی اور اخروی امور میں انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو بارہا حکم دیا گیا ہے کہ مؤمنین کے لئے استغفار کریں،[151] نیز اللہ نے مؤمنین کو فرمان دیا ہے کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ(ص) سے درخواست کریں کہ ان کے لئے استغفار کریں،[152] اور دیگر آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شفاعت پر دلالت کرتی ہیں۔[153] ان آیات کریمہ کے مندرجات نیز یعقوب(ع) سے بیٹوں کی التجائے استغفار اور یعقوب(ع) کا وعدۂ استغفار،[154] معصومین اور اولیاء سے توسل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

حدیث میں

معصومین علیہم السلام سے منقولہ کثیر دعاؤں کے سے علاوہ، دعا کی حقیقت اور آداب و شرائط نیز استجابتِ دعا کے عوامل اور موانع وغیرہ کے سلسلے میں بہت ساری حدیثیں مسلمانوں کے مآخذ حدیث میں موجود ہیں اور حدیث کے زیادہ تر منابع و مآخذ میں ایک باب "دعا" کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

دعا کی حقیقت و اہمیت

احادیث میں دعا کی توصیف:

  1. دعا مؤمن کا اسلحہ؛[155]
  2. دعا مؤمن کی ڈھال؛[156]
  3. دعا عبادت کا مغز؛[157]
  4. دعا آسمانوں اور زمین کا نور؛[158]
  5. دعا رحمت کی کنجی؛[159]
  6. دعا کامیابی کی کنجی اور فلاح کا راز؛[160]
  7. دعا ہر دکھ امور مرض کی دوا؛[161]
  8. دعا دشمن سے نجات اور وسعت رزق کا وسیلہ؛[162]
  9. دعا اللہ کی قربت کا وسیلہ دعا؛[163]
  10. دعا نازل ہونے اور نہ ہونے والی بلاؤں کو دفع کرتی ہے؛[164]
  11. دعا دکھوں کو ختم اور قضائے حتمیہ کو ٹال دیتی ہے۔[165]

نیز احادیث نبویہ اور روایات ائمہ(ع) میں سورہ مؤمن کی آیت 60 کے استناد سے فرمایا گیا ہے کہ عبادت کی حقیقت "دعا" ہے اور دعا بہترین عبادات میں سے ہے۔[166]

معصومین علیہم السلام نے بھی مختلف بیانات کے ضمن میں لوگوں کو درگاہ ربوبی میں دعا اور تضرع کی رغبت دلائی ہے۔ کبھی وہ سب سے مخاطب ہوتے تھے اور کبھی خاص افراد کو دعا و تضرع کی ہدایت کرتے تھے۔[167]

دعا سے متعلق ایک موضوع، مسئلۂ بداء اور دعا کے ذریعے اس کا اثبات ہے۔ بداء کا عقیدہ در حقیقت اس اس بات کا اعتراف ہے کہ عالم اپنے حدوث و خلقت اور بقاء و دوام میں اللہ کی قدرت کے زیر تسلط ہے اور خدا کا ارادہ ازل سے ابد تک تمام اشیاء میں نافذ العمل ہے۔ یہ عقیدہ موجب بنتا ہے کہ بندہ پوری طرح پروردگار کی طرف متوجہ ہو، دعا کی استجابت اور مشکلات کے حل اور طاعت نیز معصیت و نافرمانی سے دوری کی توفیق کی التجا کرتا رہے، اور اس کے برعکس اگر انسان بداء کا عقیدہ نہ رکھے اور اس کا اٹل عقیدہ یہ ہو کہ جو کچھ مقدر ہوا ہے، وہی قطعی طور پر ہوکر رہے گا، تو وہ استجابت دعا سے ناامید ہوگا اور آخرکار درگاہ حق تعالی میں دعا، تضرع اور گریہ و زاری کو ترک کردے گا۔[168] دوسری جانب سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

"اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ …﴿60﴾ (ترجمہ: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا)".

امام رضا(ع) نے ایک مناظرے میں عقیدۂ بداء کے اثبات کے لئے اسی آیت کریمہ سے استشہاد کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو دعا کرنے کا حکم اور استجابت کا وعدہ، بذات خود عقیدۂ بداء کے اثبات کی دلیل ہے۔[169]

آدابِ دعا

دعا کے مختلف آداب کو کبھی معصومین علیہم السلام کے اوامر اور وصایا کے ضمن میں، یا ان کی سیرت اور روش سے متعلق روایات میں اور کبھی مأثورہ دعاؤں کے ضمن میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

وضو کرنا، رو بہ قبلہ ہونا اور دو رکعت نماز بجا لانا دعا سے قبل کی قابل قدر تمہیدات ہیں۔[170]

دعا ذیل کے کلامی آداب سے شروع ہوتی ہے:

  1. بسملہ؛
  2. حمد؛
  3. خدا کی مدح و ثناء؛
  4. خدا کی نعمتوں کا تذکرہ؛
  5. شکر و سپاس؛
  6. محمد و آل محمد صلی الله علیهم اجمعین پر سلام و صلوات؛
  7. خدا کے فضل اور اس کی رحمت کی درخواست؛
  8. دھیمی آواز سے پروردگار کو پکارنا؛
  9. دوسرے لوگوں کو بھی دعا میں شامل کرنا؛
  10. فقر و حاجتمندی کا اظہار؛
  11. گناہ کا اعتراف اور خدا کی پناہ کی طلب:[171] تاہم غیراللہ کے سامنے گناہ کا اعتراف جائز نہیں ہے، جیسا کہ امام رضا(ع) نے فرمایا: گناہ کو افشاء کرنا والا بےیار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا اور چھپانے والا بخشا جائے گا،[172] یا ایک شخص نے امیرالمؤمنین(ع) کے سامنے اپنے ایک قبیح عمل کا اقرار کیا تو آپ(ع) نے اس کو بٹھایا اور پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اس قسم کے عمل کا ارتکاب کرے تو کیا وہ اس کو چھپا نہیں سکتا جس طرح کہ اللہ نے اس کو چھپا کر رکھا ہے؟[173]
  12. پڑوسیوں کو اپنے اوپر مقدم رکھنا؛ جیسا کہ حضرت زہرا(س) نے فرمایا: " الجارُ ثُمَّ الدّارُ[174]
  13. آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر[175] عاجزی اور خضوع اور التجا و تضرع،[176] یا تَبَتُل اور پوری طرح خدا کی طرف لو لگانے کی حالت،[177]
  14. خشوع قلب اور دلی خوف و خضوع کی کیفیت اور سجدے کی حالت میں اشک ریزی؛[178]
  15. قرآن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت علیہم السلام سے توسل؛
  16. رازداری سے اور چپکے چپکے دعا کرنا؛
  17. حاجت طلبی پر اصرار کرنا اور استجابت دعا پر یقین رکھنا؛[179]
  18. دعا کے آخر میں "آمین" (یعنی اے پروردگار میری حاجت برآری فرما) کہنا؛[180]
  19. دعا کو "‌ماشاءالله لاحول ولاقوة إلا بالله" پر ختم کرنا۔[181]

احادیث میں ایسے امور کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جو دعا کنندہ کے لئے غیر شائستہ ہیں:

  1. ایسی چیز کی درخواست، جو معلوم نہیں ہے کہ اس کی مصلحت میں ہے یا نہیں، اور نظام تکوین کے برعکس دعا کرنا: جیسے "موت کا سرے سے حذف کیا جانا؛[182]
  2. کسی پر نفرین کرنے اور بد دعا دینے میں زیادہ روی کرنا، یہاں تک مظلوم خود ظالم کا جاگزیں ہوجائے۔[183] البتہ یہ بات دشمنان خدا اور ظالمین پر لعن و نفرین سے متصادم نہیں ہے؛ کیونکہ خداوند متعال نے قرآن میں بعض لوگوں پر لعنت بھیجی ہے اور مؤمنین کو بھی ان پر لعن و نفرین کرنے کا فرمان دیا ہے۔[184]
  3. نیک التجاؤں کو تفصیل دینا، کہ ایسا لگے کہ انسان سعادت تک پہنچنے کا طریقہ خدا کو سکھا رہا ہے!!، نیز اللہ کی نافرمانی کررہا ہے: "۔۔۔وَاسْأَلُوا اللهَ مِن فَضْلِهِ ۗ۔۔۔﴿32﴾
  4. دعا کا جواب پانے میں عجلت سے کام لینا؛
  5. متکلفانہ سجع پردازی یا قافیہ بندی کرکے خود کو مشقت میں ڈالنا:[185] متکلفانہ سجع بندی خضوع و خشوع اور اخلاص کی کیفیت کے ختم ہونے کا سبب ہوجاتی ہے اور یہ عمل انسان کی نیازمندی اور فقر و حاجتمندی اور غیر اللہ سے اپنے قلب کو خالی کرنے کی کیفیت سے مغایرت رکھتی ہے؛ لیکن اگر سجع بندی تکلف کے بغیر ہو، جس کی مثالیں معصومین علیہم السلام کی دعاؤں میں ملتی ہیں، تو ممدوح ہے۔[186] بایں حال، احادیث میں ان دعائیہ الفاظ کی پابندی پر زور دیا گیا ہے جنہیں معصوم نے انشاء فرمایا ہے اور ماثورہ دعاؤں کے الفاظ میں رد و بدل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔[187]

دعا کے اوقات

دعا کے سلسلے میں معصومین کی تعلیمات میں سے ایک دعا کے لئے بہترین اوقات اور مقامات کا متعارف کرایا جانا ہے۔ سال کے کچھ خاص ایام دعا کے بہترین اوقات ہیں:

  1. ایام خاص:
  2. لیلۃ القدر
  3. نصف شعبان
  4. 27 رجب
  5. عید الفطر
  6. یوم عرفہ
  7. عید الضحی
  8. یکم محرم
  9. خاص مہینے:
    1. ماہ رجب
    2. ماہ شعبان
    3. ماہ رمضان
  10. ہفتے کے خاص ایام:
    1. شب جمعہ اور روز جمعہ؛
    2. روز جمعہ زوالِ آفتاب کے وقت، جب تک کہ اذان کی صدا سنائی نہیں دیتی؛
    3. نماز جمعہ میں امام جمعہ کے خطبات کے فورا بعد، جب تک کہ نمازی نماز کے لئے صفوں میں کھڑے نہیں ہوتے؛
    4. جمعہ کے روز آخر ظہر سے غروب آفتاب تک۔
  11. شب و روز کے خاص اوقات نیز خاص مواقع:
    1. وہ وقت جب رات کا ایک تہائی حصہ گذر چکا ہو؛
    2. آدھی رات؛
    3. رات کا آخری پہر؛
    4. وقت فجر؛
    5. طلوع آفتاب سے قبل،
    6. غروب آفتاب سے قبل؛
    7. نیم روز: وہ وقت جب سورج دائرۂ نصف النہار میں داخل ہوجائے؛
    8. وقتِ اذان؛
    9. واجب یومیہ نمازوں کے بعد؛
    10. بارش کے دوران؛
    11. کعبہ کو دیکھنے کے لمحات؛ وغیرہ۔[188]

دعاؤں کے مقامات

ہم جہاں بھی ہوں خدائے قادر متعال ہماری دعا اور مناجات کی صدا‎ؤں کو سن لیتا ہے تاہم بعض مقامات کا تقدس دعا کی استجابت میں مُمِدّ ثابت ہوتے ہیں:

  1. شہر مکہ
  2. مسجد الحرام
  3. کعبہ اور اس کے خاص مقامات:
    1. حجر الاسود کے کنارے؛
    2. رکن یمانی؛
    3. حِجر اسماعیل؛
    4. مُلتزَم[189]
    5. مستجار؛[190]
    6. دروازۂ کعبہ؛
  4. صحرائے عرفات، عرفہ کے روز؛
  5. قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے اطراف
  6. روضہ نبوی(ص)
  7. ائمہ علیہم السلام کا حرم؛
  8. مسجد سہلہ اور مسجد کوفہ۔[191]

دعا کی استجابت

روایات میں استجابتِ دعا کے لئے کچھ شرطیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے اہم ترین شرط غیر اللہ سے منقطع ہونا اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی طرف لو لگانا، ہے؛ اور اگر بندہ مکمل طور پر مخلوقات سے الگ ہوجائے اور یہ کیفیت حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے، تو وہ جو چاہے اللہ تعالی اسے عطا کردیتا ہے۔[192] چنانچہ مناجات شعبانیہ میں "غیر اللہ سے انقطاع کی دعا یعنی إِلَهِي هَبْ لِي كَمَالَ الانْقِطَاعِ إِلَيْكَ۔[193]، ـ جس کو امام علی علیہ السلام سمیت دوسرے ائمہ علیہم السلام، پابندی سے پڑھتے تھے،[194] اہم ترین دعاؤں میں سے ہے۔


احادیث کے بموجب، استجابت دعا میں اللہ کے بعض اسمائے حسنی کی تاثیر اور "ربّ، ارحم الراحمین، ذوالجلال والاکرام" سمیت بعض اسماء پر تاکید ہوئی ہے۔[195]

بعض احادیث کی رو سے معصومین علیہم السلام کو اللہ کے اسمائے حسنی کے مصادیق ہیں اور ان کے واسطے سے دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔[196]

نیز احادیث میں ہے کہ جب اللہ کو اسم اعظم سے پکارا جائے تو وہ جواب دیتا ہے اور بندہ جو چاہے وہی عطا فرماتا ہے۔[197]

کن کی دعا مستجاب ہوتی ہے

حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں، نبی اکرم اور دوسرے معصومین علیہم السلام کی دعاؤں کے مستجاب ہونے کے سلسلے میں بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں۔ روایات کے مطابق، امام کی ایک خصوصیت اور علامت یہ ہے کہ اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔[198] پیغمبروں اور ائمہ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہیں جن کی دعاؤں کی استجابت کی امید زیادہ ہے؛ جیسے:

  1. اولیاء اللہ؛
  2. مؤمن؛
  3. عالم؛
  4. مجاہد؛
  5. مؤذن؛
  6. روزہ دار؛
  7. وہ جو کسی کو روزے کا افطار کرائے؛
  8. مظلوم
  9. مضطر و مجبور
  10. بیمار اور اس کی عیادت کرنے والا؛
  11. بچہ
  12. والد
  13. وہ جو راتوں کے اندھیروں میں خدا کو پکارتا ہے؛
  14. وہ جو [[قضاء و قدر|قضائے الہی پر راضی ہو؛
  15. وہ جس نے اپنی امید تمام مخلوقات سے منقطع کرلی ہے اور صرف اللہ کی جانب لو لگائے ہوئے ہے اور صرف اسی سے امید رکھتا ہے؛[199]
  16. علاوہ ازیں ہدایت ہوئی ہے کہ دوسروں سے بہت زیادہ دعا کرنے کی درخواست کرو اور اپنے حق میں کسی کی دعا کو بھی ناچيز مت سمجھو خواہ وہ دوسرے ادیان کا پیروکار ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کی درخواست کس کی زبان سے مستجاب ہوتی ہے اور کس کی دعا سے اس پر رحمت نازل ہوتی ہے۔[200]

دوسروں کے لئے دعا

مناسب ہے کہ انسان دوسرے انسانوں ـ بالخصوص والدین، اہل خانہ، فرزندوں، مؤمنین اور مصائب و مشکلات میں گھرے انسانوں ـ کے لئے دعا کرے، کیونکہ دوسروں کے حق میں دعا استجابت سے قریب تر ہے اور دعا کنندہ کی حاجت برآری کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ روایات کے مطابق، والدین کے لئے نیک فرزند کی دعا مستجاب ہے۔ نیز دوسروں کے لئے خیر و صلاح کی دعا، فرشتوں اور گذرے ہوئے اور آنے والے مؤمنین کی طرف سے دعا کنندہ کی طرف پلٹ آتی ہے، دل سے حقد و کینہ مٹا دیتی ہے، رزق کے نزول اور زندگی میں برکت کا سبب بنتی ہے، آنے والے ناگوار واقعات کو ٹال دیتی ہے، گناہوں کو پاک کردیتی ہے اور انسان کے درجات کی بلندی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔[201]

اگرچہ دعا کو عمومیت دینا اور دوسروں کے لئے دعائے خیر سنت حسنہ ہے، لیکن آیات کریمہ[202] اور روایات میں ظالموں، کفار اور مشرکین کے لئے طلب مغفرت سے منع کیا گیا ہے۔[203]

رسول اللہ(ص) نے ابوطالب کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور شیعہ شیعہ متکلمین ایمان ابوطالب کے اثبات کے لئے آپ(ص) کی دعا سے استناد و استدلال کرتے ہیں۔[204]

استجابت دعا کی رکاوٹیں

  • بعض مواقع پر گناہ کو کلی طور پر دعا کی استجابت میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔[205] دعائے کمیل میں "‌اللهُمَّ اغفِر لِيَ الذُّنُوبَ الَّتي تَحبِسُ الدُّعاءَ‌" اور "‌فَأَسئَلُكَ بِعِزَّتِكَ أن لا يَحجُبَ عَنكَ دُعائي سُوءُ عَمَلِي وَفِعالِي‌" جیسے فقرے[206] اسی حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔
  • بعض خاص قسم کے گناہ:
  1. ظلم و ستم کرنا؛
  2. والدین کی نافرمانی؛
  3. عزيزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلق کرنا؛
  4. زنا؛
  5. شراب نوشی؛
  6. نماز سے بےاعتنائی برتنے والا؛
  7. حرام خواری؛
  8. خون ناحق بہانا؛
  9. چغل خوری؛
  10. ساز و آواز سننے اور بجانے والا؛
  11. عہد خداوندی کی وفا نہ کرنا؛
  12. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غفلت برتنا؛[207]
  13. اللہ کے اوامر اور نواہی کی عدم پابندی۔[208] ان ہی گناہوں میں سے ہیں جو دعا کی استجابت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
  • بعض خطائیں، جیسے:
  1. جو شخص گھر بیٹھ کر کہہ دے کہ "خدایا مجھے روزی دے"۔[209]
  2. وہ مرد جو اپنے مال کو ضائع کرے اور کہہ دے کہ "اے اللہ مجھے روزی دے"۔
  3. وہ مرد جو گواہ کی غیر موجودگی میں کسی کو قرض دیتا ہے۔[210]
  4. وہ شخص جس نے اپنا مال سفیہ اور بےوقوف شخص کے سپرد کرے۔[211]
  • عین ممکن ہے کہ دعا کی عدم استجابت، اللہ کی حکمت اور اس کے علم میں بندے کی مصلحت میں نہ ہو۔ امیرالمؤمنین(ع) سے مروی ہے کہ خداوند سبحان کا کرم اس کی حکمت میں خلل نہیں ڈالتا، چنانچہ تمام دعائیں مستجاب نہیں ہؤا کرتیں۔[212] متعدد روایات میں ہے کہ اگر بندے کی دعا قبول نہ ہوئی تو یا تو اسی دنیا میں اس کو اس کی مانگی ہوئی چیز سے بہتر شیئے ملے گی یا پھر یہ دعا اس کی آخرت کے لئے بطور ذخیرہ محفوظ کی جائے گی؛ اسی تناسب سے بلائیں اور مصیبتیں اس سے ٹال دی جائیں گی؛ یا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے؛ یا پھر اس کے لئے حسنات ثبت کئے جائیں گے۔[213]
  • مختلف روایات مؤمن کی دعا کی استجابت میں تاخیر کی حکمت کچھ یوں بیان ہوئی ہے کہ خداوند متعال بندۂ مؤمن کی آہ و فریاد کو دوست رکھتا ہے؛ اور چونکہ کافر کی صدا سننا پسند نہیں فرماتا لہذا اس کی دعا کو جلدی مستجاب کرتا ہے؛ چنانچہ بندے کو اجابت میں تاخیر کو باعث نہیں ہونا چاہئے کہ بندہ ناامید ہوجائے اور دعا کو ترک کردے۔[214]

دعا متکلمین کی نظر میں

اگرچہ زیادہ تر متکلمین قائل ہیں کہ دعا بندوں کی بعض حاجات کی برآوردگی میں مؤثر ہے، لیکن ان میں بعض دلیلیں دے کر کہتے ہیں کہ دعا ایک بےفائدہ فعل ہے اور بعض اخلاقی فضائل کے منافی ہے۔ ان افراد کی دلیلیں اخلاقی اور اخلاقی ہیں:

  1. اخلاق کے لحاظ سے:
    1. دعا غافل شخص کو ایک قسم کا انتباہ اور نادان شخص کو اگاہ کرنے کا نام ہے، جو بندگی کے آداب کے منافی ہے۔
    2. دعا، دعا کنندہ کی چاہت کو خدا کی مشیت پر ترجیح دینے اور مقدم رکھنے، اور یہ درحقیقت خدا کے بجائے مطلوب کی طرف لو لگانے کے مترادف ہے اور قضائے الہی پر راضی ہونے کے مقام کے منافی ہے۔[215]
  2. کلامی لحاظ سے:

جود و کرم، حکمت اور علم الہی جیسی صفات سے استناد کرتے ہوئے، استدلال ہوا ہے کہ خداوند متعال خود بندوں کی تمام مصلحتوں اور ضروریات و احتیاجات کو جانتا ہے اور انہیں اپنے حال پر نہیں چھوڑتا؛ چنانچہ وہ ان کی مصلحت کو عملی جامہ پہناتا ہے؛ دوسری طرف سے ایسی کسی چیز کی درخواست جائز نہیں ہے جو بندوں کی مصلحت سے مطابقت نہ رکھتی ہو؛ دونوں صورتوں میں دعا پر کسی قسم کا کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوتا۔[216]

نظام خلقت میں اللہ کی سابقہ قضا کے مطابق، بعض مسائل کا وقوع معلوم ہے؛ اور جن اشیاء کا وقوع ممتنع ہے وہ معرض وجود میں نہیں اتیں؛ چنانچہ دونوں حالتوں میں، دعا ان کے وقوع یا عدم وقوع میں کردار ادا نہیں کرتی۔[217]

متکلمین نے ان دلیلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے: دعا کی پیشگی شرط یہ ہے کہ داعی جان لے کہ اس کی مطلوبہ شیئے اللہ کے لئے ممکن ہے؛ اس کی قدرت اور حکمت والی صفات کو پہچان لے، اور جو کچھ وہ طلب کرتا ہے وہ ایک نیک امر ہے۔[218] نیز دعا سے مقصود عبودیت اور بندگی، فقر اور احتیاج، دنیا سے منقطع ہونا اور پوری طرح اللہ کی طرف رجوع کرنا، ہے، چنانچہ دعا ـ خواہ وہ مستجاب ہو خواہ مستجاب نہ ہو ـ عبادت کے زمرے میں آتی ہے چنانچہ دعا کی نفی کے لئے کسی قسم کی اخلاقی یا کلامی و اعتقادی دلیل پیش کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔[219]

غزالی کا خیال ہے کہ جس طرح کہ خداوند متعال نے شرّ کو مقدر کیا ہے، اسی نے دفعِ شرّ کو بھی دعا سمیت مختلف اسباب کے ذریعے مقدّر فرمایا ہے۔[220]

اس اعتراض کے جواب میں ـ کہ دعا کو ان امور سے تعلق نہیں ہونا چاہئے جن کے عملی ہونے کا ہمیں علم نہیں ہے ـ کہنا چاہیں گے کہ بعض قرآنی دعاؤں کا تعلق امکانی اور معلوم الوقوع امور سے ہے اور دعا صرف طلبِ فعل ہی نہیں ہے بلکہ دعا کی حقیقت اللہ تعالی کا تقرب اور اس کی درگاہ میں خضوع و انکسار ہے۔[221]

دعا فلسفے کی روشنی میں

ابن سینا کی تالیفات، بالخصوص تعلیقات، اسلامی فلسفے میں دعا کی فلسفی تشریح کا سرآغاز سمجھی جاتی ہیں اور سہروردی، میر داماد، صدرالدین شیرازی اور حتی فخر رازی جیسے اشعری متکلمین نے ابن سینا کی تشریحات سے فائدہ اٹھایا ہے۔[222]

ابن سینا دعا کی فلسفی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دعا کے وقت ایک قوت اللہ کی جانب سے انسان کے اوپر فیض افشانی کرتی ہے جس کے نتیجے میں دعا کنندہ عناصر کے اوپر اثر انداز ہوجاتا ہے اور عناصر اس کے ارادے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔[223]

حقیقت یہ ہے کہ فلاسفہ دعا کو ایک فلسفی اصول کے ساتھ سازگار کرنے کی تشریح کرنا چاہتے ہیں؛ اور وہ فلسفی اصول وہ ہے جو بیان کرتا ہے کہ عالی (اعلی)، سافل (ادنی] سے متاثر اور منفعل نہیں ہوتا اور عالی سافل کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ ابن سینا نے مذکورہ تاویل سے قطع نظر، دعا کو اس کے منافی قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے برعکس، ان کی رائے ہے کہ عالی، خود سافل کو دعا پر اکسا دیتا ہے اور بالفاظ دیگر اعلی خود ادنی کی دعا کا سبب ہے۔[224]

ادھر ملا صدرا نے اس اصول کی ایک خاص تشریح پیش کی ہے جو دعا کے ساتھ سازگار ہے۔ وہ عالی کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: "وہ عالی جو تجدد، تغیر اور تأثر سے منزّہ ہے[225] جیسے "خدا اور عالم امر[226] کے ملکوتی موجودات" اور "وہ عالی جو تبدل و منفعل اور اثرپذیر ہے، وہ ان ملکوتیوں کی مانند ہے جو مرتبۂ نفوس میں واقع ہوا ہے" اور دعا ملکوت کے نفسانی جوہر میں مؤثر ہے جو خود اس [دعا] کی اجابت کا انتظام کرتا ہے۔۔[227]

فلاسفہ کی رائے ہے کہ حصولِ مطلوب کی نسبت عالمِ عین سے عالم عقل و ذہن سے فکر اور تامل کی نسبت کی سی ہے؛ اسی وجہ سے انھوں نے دعا کو مبادیات کی تحریک کا سبب اور ذکر حکیم سمجھا ہے۔[228]

فلاسفہ قضا و قدر سے دعا کی نسبت کے بارے میں قائل ہیں کہ دعا قضا و قدر کی حدود میں امور کے انجام پانے کے اسباب میں سے ایک ہے۔ چنانچہ دعا ایک بیرونی عامل اور اسباب و علل کے نظام سے خارج نہیں ہے۔ ابن سینا کا کہنا ہے کہ جس طرح کہ خداوند متعال نے دوا کو علاج کا ذریعہ قرار دیا ہے، اسی نے دعا کو بھی امور کے تعین کا وسیلہ قرار دیا ہے۔[229]

بعض فلاسفہ کی نگاہ میں دعا کی اہمیت اس قدر زیادہ رہی ہے کہ کچھ نے تو معصومین علیہم السلام کی دعاؤں پر حاشیہ نگاری کی ہے؛ جیسے صحیفہ سجادیہ پر شیخ بہائی اور فیض کاشانی کے حواشی، اور جوشن کبیر اور دعائے صباح پر ملا ہادی سبزواری کی شرحیں۔ کبھی فلاسفہ نے ادعیہ کی فلسفی اصطلاحات تصنیف کی ہیں؛ جیسے فارابی کی دعائے عظیم،[230] ابن سینا کی کتاب "خطبۃ التمجید"۔[231] سہروردی نے بھی حکمۃ الاشراق اور [232] و ہیاکل النور کے آخر میں دعاؤں کی اصطلاحات کو تصنیف کیا ہے۔[233]

دعا تصوف اور عرفان میں

صوفیا دعا کو "گنہکاروں کا زینہ"، "اشتیاقِ محبوب کی زبان"، "دوست کے ساتھ خط و کتابت"، "حضرت حق کے سامنے شرم کی زبان سے بات کرنا"، جیسی عبادت سے توصیف کیا ہے۔[234] اور بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا نے بندوں کو دعا کرنے کا امر کیا ہے لہذا "دعا اللہ کے فرمان کی تعمیل ہے"۔[235]

ابوالقاسم قشیری نے پانچویں صدی ہجری میں اپنے رسالے میں "دعا" کو "مقامات" (مراتب) کے زمرے میں درج کیا ہے اور دعا کے بارے میں صوفیہ کے نظریات و آراء کی تقریبا جامع تصویر کشی کی ہے اور یہ تصویر کشی ان کے بعد کے بیانات و تالیفات میں بھی کم و بیش دہرائی گئی ہے اور اس کو مزید وسعت اور گہرانی دی گئی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں کہ "کیا دعا کرنا بہتر ہے یا خاموشی اختیار کرنا" صوفیوں کی آراء کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

  1. دعا، ـ مستجاب ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے سے قطع نظر ـ ایک قسم کی عبادت ہے جس کو بجا لانا اس کو ترک کرنے سے بہتر ہے۔[236]
  2. خاموشی اختیار کرنا اور خود کو قضائے الہیہ کے سپرد کرنا، دعا کرنے سے بہتر ہے۔[237] بعض صوفیوں نے آداب بندگی اور حیاء کو ترک دعا کا محرک قرار دیا ہے۔[238]
  3. بعض دوسروں نے ان دو آراء کو جمع کرکے کہا ہے کہ دعا کرنا، اللہ کے مقدرات پر قلبی رضامندی کے منافی ہے۔[239]
  4. صوفیوں کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ دعا "وقت" کے عرفانی مفہوم سے تعلق رکھتی ہے اور دعا کرنے یا خاموشی اختیار کرنے کے عمل کو دعا کنندہ کے وقت کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور ان کا خیال ہے کہ وقت (یعنی انسان پر غالب کیفیت) کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا ممکن ہوگا کہ بندہ دعا کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے۔[240] قشیری[241] ایک سادہ سی زمرہ بندی میں دعا کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے، تاہم بعد میں ابن عربی نے ان اقسام کو وسعت دی ہے۔
  • عام لوگوں کی دعا، جو زبانی کلامی ہے۔
  • زاہدین کی دعا، جو کردار پر مبنی ہے۔
  • عرفاء کی دعا جس کا تعلق عرفا سے ہے۔

ابن عربی نے استجابتِ دعا کے مفہوم اور طریقۂ کار کے بارے میں کہا ہے کہ دعا کی استجابت اور بندوں کی التجا، در حقیقت ان پر خدا کا احسان جتانا ہے اور چونکہ بندوں سے اللہ کی قربت انسان کی اپنے آپ سے قربت کے مترادف ہے، دعا کے دوران دعا اور استجابت کے درمیان کوئی وقفہ حائل نہیں ہے[242] اور چونکہ سورہ بقرہ کی آیت 186 میں خداوند متعال نے بندوں کی دعا کی اجابت کی ضمانت دی ہے، بندوں کے لئے بہتر ہے کہ اپنی درخواست کی نوعیت کے تعین میں احتیاط برتیں اور ترجیح یہ ہے کہ اس کی نوعیت کا تعین نہ کریں اور اگر پھر معین کریں تو اس چیز کی التجا کرے جس میں اس کی خیر و سلامتی ہے۔[243]

صوفیہ کے نزدیک دعا کے عناصر چھ ہیں:

  1. محرک (جِبِلّی فقر و احتیاج)،
  2. غرض اور مقصد (وہ جس کا بندہ محتاج ہے)،
  3. وہ شیئے جو اس کے احتیاج کی بنیاد ہے،
  4. وہ توجہ جو جس کی مدد سے التجا اور دعا معرض وجود میں آتی ہے،
  5. وہ زبان جس کے ذریعے دعا کا اظہار ہوتا ہے،
  6. اللہ کی اجابت، جو مطلوب کے حصول پر منتج ہوتی ہے۔[244]

صوفیہ کی نظر میں آداب دعا

  1. زبانی ادب کو ملحوظ رکھنا اور فقر و خاکساری کی زبان سے کام لینا اور تحکمانہ لہجے سے پرہیز کرنا۔[245]
  2. زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ حضورِ قلب۔[246]
  3. دعا پر ڈٹے رہنا اور اصرار کرنا۔[247]
  4. گناہ کا اعتراف۔[248]
  5. دعا کے خاص اوقات کو توجہ دینا۔[249]

استجابت دعا کے شرائط

  • لقمۂ حلال کھانا۔[250]
  • مدعوّ (یعنی وہ جس سے دعا کی جاتی ہے) کی معرفت اور داعی کا مدعو کے سلسلے میں عالمانہ اور بصیرانہ تصور۔[251]
  • دل شکستہ ہونا اور اندوہ و اضطرار کی رو سے دعا کرنا۔[252]

حسن بصری، منصور حلاج، بایزید بسطامی، جُنید بغدادی، ذوالنون مصری و ابن عطاء اللہ اسکندری سمیت صوفیہ کے متعدد بزرگوں کی دعائیں اس قدر اہم سمجھی گئی ہیں کہ تصوف کی بعض اصلی کتب کو ان سے مختص کیا گیا ہے۔[253]

مأثورہ دعائیں

شیعہ اور سنی کتب میں دن بھر کی مختلف گھڑیوں، قمری مہینوں اور بعض خاص مواقع اور مقامات نیز بعض خاص حالات کیفیات، بعض عوارض و حوادث ـ جو انسان کو پیش آتے ہیں ـ بہت ساری قرآنی اور غیر قرآنی ادعیہ و اذکار بھی منقول ہیں اور اگر نسائی کی کتاب "السنن میں "عمل الیوم واللیلہ"، طبرانی کی "کتاب الدعاء"، ابن طاؤس کی "اقبال الاعمال"، یحیی بن شرف نووی کی "کتاب الاذکار" کا مختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا مقام اور کوئی بھی ایسی گھڑی نہیں ہے جس کے لئے دعا نقل نہ ہوئی ہو۔

اہل سنت کے مآخذ و منابع میں مذکورہ روایات کے مطابق، دعائیں زیادہ تر مختصر ہیں اور بہت کم دعائيں ذوعنوان ہیں؛ سوا کچھ متأخرہ دعاؤں کے جو اپنے ناقلین اور تصنیف کنندگان کے ناموں سے مشہور ہیں جیسے: دعائے خضر اور دعائے معروف کرخی۔[254]

بایں حال، شیعہ مآخذ میں مآثورہ دعائیں تفصیل سے نقل ہوئی ہیں۔ متقدمہ شیعہ مآخذ میں اکثر دعاؤں کا کوئی خاص نام اومر عنوان نہیں ہے اور لگتا ہے کہ متأخرتر ادوار میں ان دعاؤں کو خاص نام دیئے گئے ہیں۔ بعض ماثورہ دعائیں جو تفصیل کے ساتھ شیعہ کتب میں منقول ہیں، کچھ یوں ہیں:

حوالہ جات

  1. ابن فارس، معجم مقائیس اللغة، ذیل "‌دعو"۔
  2. ابوهلال عسکری، معجم الفروق اللغویة، ص534۔
  3. رجوع کریں: جوهری، اسماعیل بن حماد، تاج اللغة، ذیل لفظ "‌دعو"۔
  4. رجوع کریں: طوسی، تفسیر التبیان، ذیل سوره اعراف، آیت 55۔
  5. رجوع کریں: سوره توبه، آیت 103؛ سوره احزاب، آیت 56۔
  6. سوره زمر، آیت 9۔
  7. برای نمونه رجوع کریں: سوره ابراهیم، آیت 34؛ سوره هود، آیت 47۔
  8. رجوع کریں: سوره هود، آیت 45؛ سوره انبیاء، آیت 76۔
  9. رجوع کریں: سوره هود، آیت 75۔
  10. رجوع کریں: سوره اعراف، آیت 38؛ سوره مؤمن، آیت 52۔
  11. سوره آل عمران، آیت 61۔
  12. رجوع کریں: فراهیدی، خلیل بن احمد، ذیل «‌بهل‌» و «‌اوه»۔،ابوعبید، غریب الحدیث، ج4، ص231۔،ابن قتیبه، غریب الحدیث، ذیل لفظ "‌صلاۃ"۔،جوهری، معجم الفروق اللغویة، ابوهلال عسکری، ذیل لفظ "‌بهل"۔،ابن منظور، لسان العرب، ذیل لفظ "‌اوه" و لفظ "‌قنت"۔
  13. رجوع کریں: سوره اعراف، آیت 5؛ سوره انبیاء، آیت 15؛ سوره مریم، 91۔
  14. سوره احزاب، آیت 4، 37۔
  15. رجوع کریں:محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس، ذیل لفظ "‌دعو"۔
  16. رجوع کریں: سوره اسراء، آیت 52؛ سوره روم، آیت 25۔
  17. رجوع کریں: سوره اسراء، آیت 52۔
  18. طباطبایی، ذیل سوره یونس، آیت 25۔
  19. سوره انفال، آیت 24۔
  20. رجوع کریں: سوره یوسف، آیت 108؛ سوره رعد، آیت 36؛ سوره فصلت، آیت 33۔
  21. سوره کهف، آیت 57۔
  22. سوره مؤمنون، آیت 73۔
  23. سوره مؤمن، آیت 41۔
  24. رجوع کریں: سوره آل عمران، آیت 172؛ سوره رعد، آیت 18۔
  25. رجوع کریں: سوره رعد، آیت 18؛ سوره احقاف، آیت 32۔
  26. رجوع کریں: سوره بقره، آیت 221؛ سوره ابراهیم، آیت 22؛ سوره قصص، آیت 41؛ سوره لقمان، آیت 21؛ سوره فاطر، آیت 6۔
  27. بطور نمونہ رجوع کریں: سوره مریم، آیت 48؛ سوره مؤمن، آیت 12؛ سوره جن، آیات 18-20۔
  28. رجوع کریں: طبری؛ جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی؛ مجمع البیان؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سوره مریم، آیت48؛ سوره مؤمن، آیت 12؛ سورہ جن، آیات 18-20۔
  29. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ عیاشی؛ طوسی، التبیان؛ فضل بن طبرسی، مجمع البیان؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سوره انعام، آیت 52۔
  30. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان، ذیل مذکورہ آیات۔
  31. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سوره جن، آیات 18-19۔
  32. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، طباطبائی، ذیل سوره انعام، آیات 40-41؛ سوره اسراء، آیت 67۔
  33. رجوع کریں: فضل بن حسن طبرسی، ذیل آیت 60 سوره مؤمن۔
  34. طباطبائی، المیزان؛ ابن عاشور، تفسير التّحرير و التّنوير؛ ذیل سوره مؤمن، 60۔
  35. نیز رجوع کریں: حسن بن فضل طبرسی، مکارم الاخلاق؛ قرطبی، تفسیر قُرطُبی؛ ذیل سوره بقرہ، آیت 186۔
  36. رجوع کریں: فضل بن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ ذیل آیت مذکورہ۔
  37. طباطبائی، المیزان، ذیل آیت مذکورہ۔
  38. فراهیدی، خلیل بن احمد؛ العین؛ جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاج اللغة و صحاح العربیة؛ ابن فارس، معجم مقائیس اللغة، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  39. جوهری؛ ابن منظور، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  40. رجوع کریں: سوره هود، آیت 61۔
  41. رجوع کریں: ابن اثیر، النهایة فی غریب الحدیث و الاثر، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  42. رجوع کریں: سوره بقره، آیت 186؛ سوره مؤمن، آیت 60۔
  43. سوره انعام، آیت 41۔
  44. سوره نمل، آیت 62۔
  45. طباطبائی، المیزان، ذیل سوره بقره، آیت 186۔
  46. ابن فارس، معجم مقائیس اللغة، ذیل "‌دعو"۔
  47. ابوهلال عسکری، معجم الفروق اللغویة، ص534۔
  48. رجوع کریں: جوهری، اسماعیل بن حماد، تاج اللغة، ذیل لفظ "‌دعو"۔
  49. رجوع کریں: طوسی، تفسیر التبیان، ذیل سورہ اعراف، آیت 55۔
  50. رجوع کریں: سورہ توبہ، آیت 103۔،سورہ احزاب، آیت 56۔
  51. سورہ زمر، آیت 9۔
  52. برای نمونه رجوع کریں: سورہ ابراہیم، آیت 34۔،سورہ ہود، آیت 47۔
  53. رجوع کریں: سورہ ہود، آیت 45۔،سورہ انبیاء، آیت 76۔
  54. رجوع کریں: سورہ ہود، آیت 75۔
  55. رجوع کریں: سورہ اعراف، آیت 38۔،سورہ مؤمن، آیت 52۔
  56. سورہ آل عمران، آیت 61۔
  57. رجوع کریں: فراهیدی، خلیل بن احمد، ذیل «‌بہل‌» و «‌اوہ»۔،ابوعبید، غریب الحدیث، ج4، ص231۔،ابن قتیبه، غریب الحدیث، ذیل لفظ "‌صلاۃ"۔،جوهری، معجم الفروق اللغویة، ابوهلال عسکری، ذیل لفظ "‌بهل"۔،ابن منظور، لسان العرب، ذیل لفظ "‌اوه" و لفظ "‌قنت"۔
  58. رجوع کریں: سورہ اعراف، آیت 5۔،سورہ انبیاء، آیت 15۔،سورہ مریم، 91۔
  59. سورہ احزاب، آیت 4، 37۔
  60. رجوع کریں:محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس، ذیل لفظ "‌دعو"۔
  61. رجوع کریں: سورہ اسراء، آیت 52۔،سورہ روم، آیت 25۔
  62. رجوع کریں: سورہ اسراء، آیت 52۔
  63. طباطبائی، ذیل سورہ یونس، آیت 25۔
  64. سورہ انفال، آیت 24۔
  65. رجوع کریں: سورہ یوسف، آیت 108۔،سورہ رعد، آیت 36۔،سورہ فصلت، آیت 33۔
  66. سورہ کہف، آیت 57۔
  67. سورہ مؤمنون، آیت 73۔
  68. سورہ مؤمن، آیت 41۔
  69. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیت 172۔،سورہ رعد، آیت 18۔
  70. رجوع کریں: سورہ رعد، آیت 18۔،سورہ احقاف، آیت 32۔
  71. رجوع کریں: سورہ بقرہ، آیت 221۔،سورہ ابراہیم، آیت 22۔،سورہ قصص، آیت 41۔،سورہ لقمان، آیت 21۔،سورہ فاطر، آیت 6۔
  72. بطور نمونہ رجوع کریں: سورہ مریم، آیت 48۔،سورہ مؤمن، آیت 12۔،سورہ جن، آیات 18-20۔
  73. رجوع کریں: طبری، جامع البیان۔،طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ مریم، آیت48۔،سورہ مؤمن، آیت 12۔،سورہ جن، آیات 18-20۔
  74. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ عیاشی؛ طوسی، التبیان؛ فضل بن طبرسی، مجمع البیان؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ انعام، آیت 52۔
  75. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان، ذیل مذکورہ آیات۔
  76. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ جن، آیات 18-19۔
  77. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، طباطبائی، ذیل سورہ انعام، آیات 40-41۔،سورہ اسراء، آیت 67۔
  78. رجوع کریں: فضل بن حسن طبرسی، ذیل آیت 60 سورہ مؤمن۔
  79. طباطبائی، المیزان؛ ابن عاشور، تفسير التّحرير و التّنوير؛ ذیل سورہ مؤمن، 60۔
  80. نیز رجوع کریں: حسن بن فضل طبرسی، مکارم الاخلاق؛ قرطبی، تفسیر قُرطُبی؛ ذیل سورہ بقرہ، آیت 186۔
  81. رجوع کریں: فضل بن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ ذیل آیت مذکورہ۔
  82. طباطبائی، المیزان، ذیل آیت مذکورہ۔
  83. فراهیدی، خلیل بن احمد، العین؛ جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ؛ ابن فارس، معجم مقائیس اللغۃ، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  84. جوهری؛ ابن منظور، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  85. رجوع کریں: سورہ ہود، آیت 61۔
  86. رجوع کریں: ابن اثیر، النهایة فی غریب الحدیث و الاثر، ذیل لفظ "‌جوب"۔
  87. رجوع کریں: سورہ بقرہ، آیت 186۔،سورہ مؤمن، آیت 60۔
  88. سورہ انعام، آیت 41۔
  89. سورہ نمل، آیت 62۔
  90. طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ بقرہ، آیت 186۔
  91. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ ذیل سورہ ابراہیم، آیت 34، سورہ انعام، آیت 41، سورہ مؤمن، آیت 60۔،زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان، ذیل سورہ ابراہیم، آیت 34۔
  92. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، تفسیر الکبیر، ذیل آیت 34، سورہ ابراہیم۔
  93. ذیل سورہ ابراہیم، آیت 34۔
  94. رجوع کریں: سورہ نمل، آیت 62۔
  95. زمخشری، الکشاف، ذیل آیت مذکورہ۔
  96. فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیت مذکورہ۔
  97. طبری، جامع البیان؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ انبیاء، آیات 87-88۔
  98. سورہ انبیاء، آیت 83۔
  99. سورہ اعراف، آیت 87۔
  100. سورہ آل عمران، آیت 38۔
  101. رجوع کریں: مقاتل بن سلیمان، تفسير مقاتل بن سليمان؛ طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ انبیاء، آیت 90۔
  102. رجوع کریں: سورہ اعراف، آیت 56۔
  103. رجوع کریں: مقاتل بن سلیمان؛ طبری،جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ طباطبائی، المیزان، ذیل آیت مذکورہ۔
  104. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل آیت مذکورہ۔،طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ بقرہ، آیت 186۔
  105. رجوع کریں: قرطبی، تفسیر قرطبی؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ مؤمن، آیت 14۔
  106. سورہ اعراف، آیت 180۔
  107. طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ اعراف، آیت 180۔
  108. رجوع کریں: طباطبائی، ذیل سورہ اعراف، آیات 155 و 180۔، سورہ بقرہ، آیات 285-286۔، سورہ مریم، آیت 3۔
  109. رجوع کریں: سورہ اعراف، آیت 55۔
  110. فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ اعراف، آیت 55۔
  111. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فیض کاشانی، تفسیر صافی، ذیل سورہ اعراف، ذیل آیات 55-56۔،سورہ مریم، آیات 2-3۔،سورہ سجده، آیت 16۔
  112. سورہ نساء، آیت 32۔
  113. رجوع کریں: ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم؛ زمخشری، الکشاف؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التاویل، ذیل سورہ اعراف، آیت 55۔
  114. فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان، ج9، ص133۔
  115. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ مزمل، آیت 8۔،سورہ بقرہ، آیت 186۔،سورہ مؤمن، آیت 14۔
  116. رجوع کریں: طوسی، التبیان، ذیل سورہ شعراء، آیت83۔، فخررازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ آل عمران، آیت 147۔
  117. سورہ اعراف، آیت 23۔
  118. سورہ نوح، آیات26، 27، 28، سورہ ہود، آیات 47، سورہ اعراف، آیت 26۔
  119. سورہ بقرہ، آیت 26۔، سورہ ابراہیم آیات 37 تا 41۔، سورہ شعراء، آیات 83-89۔، سورہ ممتحنہ، آیات 4-5۔
  120. سورہ بقرہ، آیت127-129۔
  121. سورہ انبیاء، آیت 87۔
  122. سورہ عنکبوت، آیت 30، سورہ شعراء، آیت 169۔
  123. سورہ یوسف، آیات 33 و 101۔
  124. سورہ قصص، آیات 16-17 و 21-22، سورہ طہ، 25 تا 32۔
  125. سورہ طہ، آیت 45۔، سورہ یونس، آیت 88۔
  126. سورہ انبیاء، آیت 83۔
  127. سورہ نمل، آیت 19۔، سورہ ص، آیت 35۔
  128. سورہ آل عمران، آیت 38۔، سورہ مریم، آیت 5-6۔، سورہ انبیاء، 89۔، اور عیسی کی دعا۔،سورہ مائدہ، آیت 114۔
  129. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیات 35-36۔،سورہ تحریم، آیت 11۔،سورہ کہف، آیت 10۔، سورہ اعراف، آیت 12۔، سورہ آل عمران، آیت 53۔
  130. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیات 16، 147، 193-194۔، سورہ نساء، آیت 75۔،سورہ فرقان، آیت 65۔، سورہ تحریم، آیت 8۔
  131. رجوع کریں: سورہ اسراء، آیات24 و 80۔، سورہ طہ، آیت 114۔، سورہ مؤمنون، آیت 118۔،قرآنی دعاؤں کی تفصیل کے لئے رجوع کریں:طباطبائی، المیزان، ج13، صص527-548۔
  132. رجوع کریں: سورہ ابراہیم، آیت 35-41۔، سورہ مریم، آیات 4-10۔، سورہ شعراء، آیت 83۔
  133. رجوع کریں: سورہ انبیاء، آیت 89۔
  134. سورہ اعراف، آیت 89۔
  135. رجوع کریں: سورہ ص، آیت 35؛ زمخشری، الکشاف؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیت مذکورہ۔
  136. سورہ آل عمران، آیت 147؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر؛ طباطبائی، المیزان، ذیل آیت مذکورہ۔
  137. فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ ص، آیت 35۔، طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ اعراف، آیت 155۔
  138. فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ شعراء، آیات 78-87۔، سورہ مؤمن، آیت 7۔، طباطبائی المیزان، ذیل سورہ ابراہیم، آیت 39۔،ج6، صص268-274۔
  139. سورہ مریم، آیات 4-6۔
  140. فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ احقاف، آیت 15۔
  141. طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ بقرہ، آیت 286۔
  142. سورہ اسراء، آیت 24۔
  143. سورہ محمد، آیت 19۔
  144. رجوع کریں: سورہ اعراف، آیت 151۔،سورہ ابراہیم، آیت 41۔،سورہ نوح، آیت 28۔،سورہ شعراء، آیت 82۔،سورہ انبیاء، آیت 87۔،سورہ مؤمن، آیت 55۔،سورہ محمد، آیت 19۔،سورہ نصر، آیت 3۔
  145. رجوع کریں: طوسی، تبیان۔،فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان۔،ذیل سورہ اعراف، آیت 151۔،سورہ شعراء، آیت 82۔،سورہ محمد، آیت 19۔،سورہ نصر، آیت 3۔
  146. رجوع کریں: زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان، ذیل سورہ شعراء، آیت 82۔
  147. رجوع کریں: فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ شعراء، آیت87۔،طباطبائی، المیزان، ج6، صص366-36؛ ذیل سورہ شعراء، آیت 82۔
  148. رجوع کریں: طبری، جامع البیان؛ جَصاص، احکام القرآن؛ زمخشری، الکشاف؛ فخررازی، التفسیر الکبیر؛ بیضاوی، انوار التنزیل واسرار التاویل، ذیل سورہ بقرہ، آیت 124۔
  149. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی؛ طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ بقرہ، آیت 124۔
  150. طباطبائی، المیزان، ذیل سورہ بقرہ، آیت 124۔
  151. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیت 159۔،سورہ نور، آیت 62۔،سورہ ممتحنہ، آیت 12۔
  152. سورہ نساء، آیت 64۔
  153. رجوع کریں: طوسی، التبیان؛ زمخشری، الکشاف؛ فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، ذیل سورہ نساء، آیت 64۔،سورہ آل عمران، آیات 193-195۔
  154. رجوع کریں: سورہ یوسف، آیات 97-98۔
  155. الکلینی، الکافی، ج2 ص468۔،حر عاملی، وسائل‌الشیعة، ج7، صص38-39۔،مجلسی، بحارالانوار، ج90، صص288 و 294۔
  156. کلینی، اصول کافی، باب دعاء، سلاح مؤمن، حدیث 4
  157. مجلسی، بحار الأنوار، ج93، ص300۔
  158. الکلینی، الکافی، ج 2، ص 468۔
  159. انصاری شوشتری، نهج الفصاحه ص 485 ، ح1588۔
  160. الکلینی، الکافى، ج 2، ص468۔470۔
  161. حر عاملی، وسائل الشيعة، ج7، ص45، باب 11، حديث 8677۔،الکلینی، الكافى، ج2، ص470۔
  162. کلینی، الکافی، ج2، صص468-470۔،ابن بابویه، ثواب الاعمال، ص26۔،حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص490۔
  163. فیض کاشانی، المحجة البیضاء، ج 2، ص 283۔
  164. الکلینی، الکافى، ج 6، ص 25۔
  165. مجلسی، بحارالأنوار، ج 93، ص 137، ح71
  166. رجوع کریں: بخاری، الصحیح، 1406، ص154۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص466-467۔،حاکم نیشابوری، المستدرک، ج1، ص491۔
  167. الکلینی، ج2، صص466-470۔
  168. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، صص391-393۔
  169. ابن بابویه، عیون اخبار رضا، ص127۔
  170. رجوع کریں: برقی، المحاسن، ج1، ص52۔،نسائی، السنن، ج5، ص213۔،الکلینی، الکافی، ج3، ص478۔،طوسی، تهذیب الاحکام، ج3، ص313۔
  171. رجوع کریں: بخاری، الصحیح، 1401، ج4، ص16۔،ترمذی، السنن، ج5، ص225۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص476، 486-487، 491، 504، ج8، صص407-408۔،ابن بابویه، من لایحضره الفقیه، ج1، ص432۔،خزاز رازی، کفایة الاثر، ص39۔
  172. الکلینی، الکافی، ج2، ص428۔
  173. ابن بابویه، من لايحضره الفقيه، ج4، ص31، ح5017۔
  174. ابن بابویه، علل الشرایع، ج1، ص182۔،حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص113۔
  175. رجوع کریں: قمی، تفسیر القمی، ج2، ص392۔،ابوداوود، السنن، ج1، ص254۔،الکلینی، الکافی، ج2، ص479-480۔،حاکم نیشابوری، المستدرک، ج2، ص538۔،حسن بن فضل طبرسی، مجمع البیان، ص317۔
  176. سورہ مؤمنون، آیت 76۔
  177. سورہ مزمل، آیت 8۔
  178. الکلینی، الکافی، ج2، ص476-478۔،مجلسی، بحارالانوار، ج90، صص343-352۔
  179. رجوع کریں: امیرالمؤمنین(ع)، نهج البلاغه، خطبه 176۔،احمد بن حنبل، المسند، ج4، ص138۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص474-476، ج3، ص309۔،طبرانی، کتاب الدعاء، ص28۔،غزالی، احیاء علوم الدین (1412ھ‍)، ج1، ص406-497۔
  180. رجوع کریں: ابن بابویه، معانی الاخبار، ص349۔،الصحیفة السجادیة، دعا نمبر 34، 36، 44۔،طبرانی، المعجم الاوسط، ص89۔،طوسی، الامالی، ص371۔،مجلسی، بحارالانوار، ج83، ص249، ج91، ص87۔
  181. ابوداوود، السنن، ج1، ص254۔،الکلینی، الکافی، ج2، ص471، 521۔،طوسی، مصباح المجتهد، ص46، 68، 82۔
  182. الکلینی، الکافی، ج3، ص260۔،ابن بابویه، الامالی، صص600-601۔،ابن فهد حلی، عدّة الداعی، ص30۔
  183. رجوع کریں: الکلینی، الکافی، ج2، ص333-334۔،حسن بن فضل طبرسی، مجمع البیان، ص332۔
  184. رجوع کریں: سورہ بقرہ، آیت 88، 159۔،سورہ نساء، آیت 93۔،سورہ مسد، آیت 1۔
  185. رجوع کریں: مسلم بن حجاج، الصحیح، ج8، ص18۔،فیض کاشانی، المحجّة البیضاء، ج2، ص293۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص472، 490۔،ابن بابویه، الامالی، ص398۔
  186. رجوع کریں: غزالی، احیاء علوم الدین (1412ھ‍)، ج1، صص405-406۔،ابن طاؤس، الامان من اخطار الاسفار، ص19۔، نووی، شرح صحیح مسلم، ج17، ص41۔
  187. رجوع کریں: الکلینی، الکافی، ج2، ص527۔،رامهرمزی، المحدث الفاصل، ص531۔،ابن بابویه، کمال الدین، ج2، ص351۔
  188. رجوع کریں: احمد بن حنبل، المسند، ج2، ص383، ج3، ص94۔،مسلم بن حجاج، الصحیح، ج2، ص176۔،ترمذی، السنن، ج5، ص223۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص477-478، 522-525، ج3، صص414، 416، ج4، صص67، 155۔،ابن بابویه، الامالی، صص671، 354، 701۔،طبرانی، المعجم الکبیر، ج8، ص169، غزالی، کیمیای سعادت، ج1، صص260-261۔
  189. وہ دیوار اور اس کا نچلا حصہ جس کی ایک سمت حجر الاسود اور دوسری طرف باب کعبہ واقع ہے؛ دوسرا قول یہ ہے کہ کسی وقت کعبہ کے دو دروازے تھے، دوسرا دروازہ موجودہ دروازے کے بالکل روبرو دیوار میں لگا ہوا تھا جو بعد میں بند کیا گیا؛ بعض لوگوں نے اسی کو ملتزم جانا ہے۔
  190. مستجار کعبہ کی پشتی دیوار میں رکن یمانی کے ساتھ والے حصے کو کہا جاتا ہے، جہاں سے دیوار کھل گئی اور فاطمہ بنت اسد داخل ہوئیں اور پھر بند ہوئی اور کعبہ کے اندر امیرالمؤمنین کی ولادت ہوئی اور دیوار کا یہی حصہ دوبارہ کھل گیا اور فاطمہ اپنے فرزند کو لے کر باہر آئیں۔ مستجار مقام پناہ کو کہا جاتا ہے۔
  191. اشعری قمی، النوادر، ص140۔،الکلینی، الکافی، ج4، صص409-411، 530-532، 551۔،قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج1، ص293۔،ابن بابویه، الامالی، ص684۔،طوسی، تهذیب الاحکام، ج6، صص35، 108۔،متقی هندی، کنزالعمال، ج12، صص194-222۔
  192. رجوع کریں: کلینی، الکافی، ج2، صص66، 148۔،متقی هندی، کنزالعمال، ج3، ص703۔
  193. ترجمہ: اے میرے معبود! مجھے مخلوقات سے منقطع ہوکر اپنی ذات سے اتصال میں کمال عطا فرما۔
  194. ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ج3، صص295، 299۔
  195. رجوع کریں: برقی، المحاسن، ج1، ص35۔،ترمذی، السنن، ج5، صص190-194۔،ابن بابویه، التوحید، ص195۔
  196. رجوع کریں: الکلینی، الکافی، ج3، ص309۔،ابن بابویه، الامامة، ص54۔
  197. رجوع کریں: الصحیفة السجادیة، دعا نمبر 43۔،احمد بن حنبل، المسند، ج3، ص245۔،ابوداوود، السنن، ج1، ص254۔،ابن بابویه، فضائل، ص35۔
  198. رجوع کریں: ابن بابویه، کتاب الخصال، ج2، ص528۔،وہی مؤلف، معانی الاخبار، ص102۔
  199. رجوع کریں: احمد بن حنبل، المسند، ج2، ص477۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص62، 148، 178، 352، 509-510، ج3، ص117، ج8، ص48۔،طبرانی، کتاب الدعاء، ص33۔،متقی هندی، کنزالعمال، ج4، ص314۔،مجلسی، بحارالانوار، ج90، ص357۔
  200. رجوع کریں: الکلینی، الکافی، ج4، ص17۔،ابن فهد حلی، عدّة الداعی، ص120۔
  201. رجوع کریں: امام سجاد(ع)، الصحیفة السجادیة، دعا نمبر 63 و 64۔،ابن بابویه، علل الشرائع، ج1، ص182۔،کفعمی، جنة الامان الواقیة، صص617-618۔،صنعانی، المصنف، ج2، ص217۔،احمد بن حنبل، المسند، ج6، ص452۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص507-508، 510۔،ابن بابویه، ثواب الاعمال، ص145۔،مفید، الارشاد، ج1، ص304۔،نووی، شرح صحیح مسلم، ج5، صص246-249۔
  202. سورہ توبہ، آیت 113-114۔
  203. رجوع کریں: احمد بن حنبل، المسند، ج1، ص99۔،عیاشی، التفسیر، ج2، ص114۔
  204. رجوع کریں: مفید، 1413، ص27۔،ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، صص65-84۔،امینی، الغدیر، ج8، صص3-29۔
  205. رجوع کریں: الکلینی، الکافی، ج2، صص271، 296۔
  206. رجوع کریں: طوسی، مصباح المجتهد، صص844-845۔
  207. رجوع کریں: برقی، المحاسن، ج1، ص107۔،ترمذی، السنن، ج3، ص317۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص334، 448، ج6، ص433۔،طبرانی، المعجم الکبیر، ج19، ص374۔،طبرانی، المعجم الاوسط، ج2، ص99۔،غزالی، کیمیای سعادت، ج1، ص262۔
  208. رجوع کریں: ابن ابی شیبه، المصنف، ج8، ص609۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص510-511، ج5، صص77-79۔،حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص302۔
  209. سورہ جمعه، آیت 10۔
  210. سورہ بقرہ، آیت 282۔
  211. سورہ نساء، آیت 5۔
  212. لیثی واسطی، عیون الحکم والمواعظ، ص151۔
  213. رجوع کریں: ابن ابی شيبه، ج7، ص24۔،احمد بن حنبل، المسند، ج3، ص18، ترمذی، ج5، ص240۔،الکلینی، الکافی، ج2، ص253۔،حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص494۔
  214. رجوع کریں: حمیری، قرب الاسناد، ص386۔،الکلینی، الکافی، ج2، صص488-490۔،طبرانی، المعجم الاوسط، ج8، ص216۔
  215. فخررازی، شرح اسماء الحسنی، ص84۔،وہی مؤلف، المطالب العالیة، صص270-271۔
  216. فخررازی، شرح اسماء الحسنی، ص83۔،ابن فهد حلی، عدّة الداعی، ص22۔
  217. فخررازی، شرح اسماء الحسنی، ص83۔،وہی ماخذ، المطالب العالیة، ج7، ص269۔
  218. علم الهدی، الذخِیرة في علم الکلام، ص605۔
  219. فخررازی، شرح اسماء الحسنی، ص87۔،ابن فهد حلی، عدّة الداعی، ص22۔
  220. غزالی، احیاء علوم الدین (1406ھ‍)، ج4، صص370-373۔
  221. علم الهدی، الذخیرة في علم الکلام، صص605-606۔،طوسی، التبیان، ذیل سورہ حمد، آیت 6۔
  222. رجوع کریں: میرداماد، قبسات، صص452-454۔،صدرالدین شیرازی، حکمت متعالیه، سفر3، ج1، صص403-406۔
  223. ابن سینا، التعلیقات، ص48۔
  224. ابن سینا، التعلیقات، صص47-48۔
  225. Regeneration, Alteration and Affectability۔
  226. موجودات کی زمرہ بندیوں میں سے ایک یہ ہے کہ موجود یا مجرّد (یا Abstracted) ہے یا مادّی؛ مادی موجود حرکت، تغیر اور تحول پاتا ہے اور مجرد موجود ـ جو مادے سے مستغنی ہے ـ حرکت، تبدیلی اور تحول قبول نہیں کرتا۔ مادی موجود زمان و مکان کا قیدی ہے اور مجرد موجود محدود کر دینے والی ان دو قیدوں سے آزاد ہے۔ مجرد موجودات کے مجموعے کو "عالَمِ امر کہا جاتا ہے؛ اس عالم میں ہر موجود صرف اللہ کے ارادے اور امر سے وجود کی ردا زیب تن کرتا ہے اور اس کے لئے مادی پس منظر تیار ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  227. صدرالدین شیرازی، الحکمة المتعالیة، سفر3، ج1، صص302-303۔
  228. بطور نمونہ رجوع کریں: سهروردی، مجموعه مصنفات شیخ اشراق، ج1، ص119۔،بابا افضل کاشانی، مصنّفات بابا افضل، ص656۔،صدرالدین شیرازی، الحکمة المتعالیة، سفر3، ج1، ص404۔
  229. رجوع کریں: ابن سینا، التعلیقات، ص48۔،صدرالدین شیرازی، الحکمة المتعالیة، سفر3، ج1، صص403-404۔
  230. فارابی، دعای عظیم، صص89-91۔
  231. آقابزرگ طهرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، ج7، ص202۔،منزوی، فهرست، ج1، صص225-226۔
  232. رجوع کریں: سہروردی، مجموعه مصنفات، ج2، ص260۔
  233. وہی مصنف، مجموعه مصنفات، ج3، ص108۔
  234. رجوع کریں: قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص385-386۔
  235. ابونصر سراج، اللمع في التصوف، صص262-263۔
  236. رجوع کریں: قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص380۔،ابن عطاءالله اسکندری، الحکم العطائیہ، ص120۔
  237. قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص380۔
  238. ابن عطاءالله اسکندری، الحکم العطائیة، صص123، 131۔
  239. رجوع کریں: قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص380۔
  240. قشیری، وہی ماخذ، ص380۔،عزالدین کاشانی، مصباح الهدایة ومفتاح الکفایة، صص326-327۔
  241. قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص385۔
  242. ابن عربی، الفتوحات المکیة، ج4، ص255، ص177۔،صدرالدین قونیوی، مفتاح الغیب، ص80۔
  243. ابن عربی، الفتوحات المکیة، ج4، ص177۔،صدرالدین قونیوی، وہی ماخذ، ص80۔
  244. مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں: فناری، مصباح الانس، صص561-573۔
  245. رجوع کریں: مولوی، ج1، دفتر2، بیت2506-2507، ج3، دفتر5، بیت773-779۔،سلمی، تفسير السلمي، ص51۔
  246. قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص382،عطار، تذکرة الاولیاء، ص610۔
  247. مولوی، مثنوی معنوی، ج3، دفتر6، بیت2344۔
  248. مولوی، وہی ماخذ، ج2، دفتر4، بیت1387-1389۔
  249. ابن عربی، الفتوحات المکیة، ج4، ص477۔
  250. قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص382۔
  251. صدرالدین قونیوی، اعجاز البیان فی تفسیر امّ القرآن، صص280-281۔
  252. خرگوشی، تهذیب الاسرار، ص404،قشیری، الرسالۃ القشیریۃ، ص385،مولوی، مثنوی معنوی، ج3، دفتر5، بیت493۔
  253. رجوع کریں: ابونصر سراج، کتاب اللُمَع فی التصوف، صص257-263،خرگوشی، تهذیب الاسرار، صص404-409،ابن عطاء الله اسکندری، الحکم العطائیة، صص195-213۔
  254. رجوع کریں: ابوطالب مکی، قوة القلوب في معاملة المحبوب، ج1، صص21-31۔

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • آقابزرگ طهرانی، الذریعة إلی تصانیف الشیعة.
  • ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره، 1385-1387ھ ق/1965-1967ع‍، چاپ افست بیروت [بی تا].
  • ابن ابی حاتم، تفسیر قرآن العظیم، چاپ اسعد محمد طیب، صیدا، 1419ھ ق/1999ع‍
  • ابن ابي شيبة، عبد الله بن محمد العبسي، المصنف، المحقق: أسامة بن إبراهيم بن محمد، الفاروق الحديثة، الطبعة الأولی، القاهرة 1429 ه‍ / 2008 ع‍
  • ابن اثیر، ابوالسعادات مبارک بن ابی الکرم محمد الجزری، النهایة فی غریب الحدیث و الاثر.
  • ابن بابویه، علی بن حسین، الامامة و التبصرة من الحیرة، قم، 1363ھ ش
  • ابن بابویه، محمد بن علی، الامالی، قم، 1417ھ ق
  • وہی مصنف، التوحید، چاپ هاشم حسینی طهرانی، قم، 1398ھ ق
  • وہی مصنف، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، 1368ھ ش
  • وہی مصنف، علل الشرایع، نجف، 1385-1386ق، چاپ افست قم [بی تا]
  • وہی مصنف، عیون اخبار رضا علیه‌السلام، قم، 1384ھ ش
  • وہی مصنف، فضائل الاشهر الثلاثة، چاپ غلامرضا عرفانیان، بیروت، 1412ھ ق/1992ع‍
  • وہی مصنف، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، تهران، 1362ھ ش
  • وہی مصنف، کتاب من لایحضره الفقیه، چاپ علی اکبر غفاری، تهران، 1392ھ ش
  • وہی مصنف، کمال الدین و تمام النعمة، چاپ علی اکبر غفاری، تهران، 1363ھ ش
  • وہی مصنف، معانی الاخبار، چاپ علی اکبر غفاری، تهران، 1361ھ ش
  • ابن سینا، التعلیقات، چاپ عبدالرحمان بدوی، قم 1404ھ ق
  • ابن طاؤس، الامان من اخطار الاسفار و الازمان، قم، 1409ھ ق
  • ابن طاؤس، اقبال الاعمال، 1414-1415ھ ق
  • ابن عربی، الفتوحات المکیة، بیروت: دارصادر، [بی تا].
  • ابن عطاءالله اسکندری، الحکم العطائیة، ضمن شرح الحکم العطائیة، از عبدالمجید شرنوبی، دمشق 1417ھ ق/1997ع‍
  • ابن فارس، معجم مقائیس اللغة۔
  • ابن فهد حلی، عدّة الداعی و نجاح الساعی، چاپ احمد موحدی قمی، قم: مکتبة الوجدانی، [بی تا].
  • ابن قتیبه، غریب الحدیث، بیروت، 1408ھ ق/1988ع‍
  • ابن منظور، محمد بن مكرم الافريقى المصرى، لسان العرب۔
  • ابونصر سراج، کتاب اللُمَع فی التصوف، چاپ رینولد الین نیکلسون، لیدن 1914ع‍
  • ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابی داوود، قاهره، 1421ھ ق/2000ع‍
  • ابوطالب مکی، محمد بن علی، قوة القلوب في معاملة المحبوب‌، ناشر: دارالکتب العلمیة، منشورات محمد علی بیضون، بیروت ـ لبنان، 1417ھ ق / 1997ع‍
  • ابوعبید، غریب الحدیث، حیدرآباد دکن، 1384-1387ھ ق/1964-1967ع‍
  • ابوهلال عسکری، معجم الفروق اللغویة، الحاوی لکتاب ابی هلال العسکری و جزءاً من کتاب السید نورالدین الجزائری، قم 1412ھ ق
  • ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبیل، بیروت، دارصادر، [بی تا].
  • اشعری قمی، احمد بن محمد، کتاب النوادر، قم، 1408ھ ق
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج8، بیروت، 1387ھ ق/1967ع‍
  • بخاری، ادب المفرد، بیروت، 1406ھ ق/1986ع‍
  • باباافضل کاشانی، محمد بن حسین، مصنّفات، چاپ مجتبی مینوی و یحیی مهدوی، تهران 1366ھ ش
  • برقی، احمد بن محمد، کتاب المحاسن، چاپ جلال الدین محدث ارموی، تهران، 1330ھ ش
  • بیضاوی، عبدالله بن عمر، انوارالتنزیل واسرار التأویل (تفسیر البیضاوی)، مصر 1388ھ ق/1968ع‍/ چاپ افست تهران، 1363ھ ش
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی و هو الجامع الصحیح، ج3 و5، چاپ عبد الرحمن محمد عثمانف بیروت، 1403ھ ق/1983ع‍
  • جَصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، چاپ عبدالسلام محمد علی شاهین، بیروتف 1415ھ ق/1994ع‍
  • جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاج اللغة و صحاح العربیة، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاهرهف 1376ھ ق، چاپ افست، بیروت 1407ھ ق
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت 1406ھ ق
  • حر عاملی، وسائل الشیعه.
  • حمیری، عبدالله بن جعفر، قرب الاسناد، قم 1413ھ ق
  • خرگوشی، عبدالملک بن محمد، کتاب تهذیب الاسرار، چاپ بسام محمد بارود، ابوظبی 1999ع‍
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الاثر فی النقص علی الائمة الاثنی عشر، چاپ عبداللطیف حسینی کوه کمری خویی، قم 1401ھ ق
  • خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مهدی مخزومی و ابراهیم سامرائی، قم 1409ھ ق
  • خویی، ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، بیروت 1395ھ ق/1975ع‍
  • رامهرمزی، حسن بن عبدالرحمان، المحدث الفاصل بین الروای و الراعی، چاپ محمد عجاج خطیب، بیروت 1420ھ ق/2000ع‍
  • زمخشری، تفسیر الکشاف.
  • السلمي، أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسى الأزدي، تفسير السلمي و هو حقائق التفسير، دار الكتب العلمية، بیروت ـ لبنان 1421ھ ق / 2001ع‍۔
  • سهروردی، یحیی بن حبش، مجموعه مصنفات شیخ اشراق، ج1-2، چاپ هانری کوربن، ج3، چاپ سید حسین نصر، تهران 1380ھ ش
  • شوشتري انصاري، امين الواعظين اسدالله بن ابي القاسم، نهج الفصاحة.
  • الصحیفه السجادیه، علی بن حسین(ع)، امام چهارم، چاپ محمدباقر موحدی ابطحی، قم 1411ھ ق
  • صدرالدین شیرازی، (ملاصدرا)، الحکمة المتعالیة فی الاسفار العقلیة الاربعة، بیروت 1981ع‍
  • صنعانی، عبدالرزاق بن همام، المصنف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت 1403ھ ق/1983ع‍
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان.
  • طبرانی، احمد، کتاب الدعاء، چاپ مصطفی عبدالقادر عطاء، بیروت 1413ھ ق
  • وہی مصنف، المعجم الاوسط، چاپ ابومعاذ طارق بن عوض الله، [قاهره] 1415-1416ھ ق
  • وہی مصنف، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404ھ ق
  • طبرسی، رضی الدین، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، چاپ محمد حسین اعلمیف بیروت 1392ھ ق/1972ع‍
  • طبرسی، فضل بن حسن.
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید، جامع البیان عن تاویل آی القرآن یا تفسیر طبری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم 1414ھ ق
  • وہی مصنف، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت [بی تا].
  • وہی مصنف، تهذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، بیروت 1401ھ ق/1981ع‍
  • وہی مصنف، مصباح المجتهد، بیروت 1411ھ ق/1991ع‍
  • عبدالباقی، محمدفؤاد، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، قاهره 1364ق، چاپ افست تهران [1397ھ].
  • عطار، محمد بن ابراهیم، تذکرة الاولیاء، چاگ محمد استعلامی، تهران 1374ھ ش
  • علم الهدی، علي بن الحسين الموسوي البغدادي المعروف به الشريف المرتضى، الذخيرة في علم الكلام، تحقيق: السيد احمد الحسيني الاشكوري، الناشر: مؤسسة النشر الاسلامي. قم، الطبعة الاولى 1411هـ
  • عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم 1380-1381ھ ش
  • غزالی، محمد بن محمد، احیاء علوم الدین، بیروت ط 1412ھ ق/1992ع‍ و طبع 1406ھ ق/1986ع‍
  • وہی مصنف، کیمیای سعادت، چاپ حسین خدیوجم، تهران 1361ھ ش
  • فارابی، محمد بن محمد، کتاب الملة و نصوص اخری، چاپ محمسن مهدوی، بیروت 1991ع‍
  • فخررازی، محمد بن عمر، شرح اسماء الحسنی للرازی و هو الکتاب المسمی لوامع البینات شرح اسماأ الله تعالی و الصفات، چاپ طه عبدالرؤوف سعد، قاهره 1396ھ ق/1976ع‍/ چاپ افست تهران 1364ھ ش
  • وہی مصنف، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، قاهره [بی تا]، چاپ افست تهران [بی تا].
  • وہی مصنف، المطالب العالیة من العلم الالهی، چاپ احمد حجازی سقا، بیروت 1407ھ ق/1987ع‍
  • فراهیدی، خلیل بن احمد؛ العین۔
  • فناری، محمد بن حمزه، مصباح الانس، در محمد بن اسحاق صدرالدین قونیوی، مفتاح الغیب، چاپ محمد خواجوی، تهران 1374

ھ ش

  • فیض کاشانی، محمد بن شاه مرتضی، تفسیر الصافی، چاپ حسین اعلمی، اهران 1416ھ ق
  • قشیری، عبدالکریم بن هوازن، الرسالة القشیریة، چاپ عبدالحلیم محمود و محمود بن شریف، قاهره [بی تا]، چاپ افست قم 1374ھ ش
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، چاپ آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره [1963-1965]، چاپ افست [قم، بی‌تا].
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت 1405ھ ق/1985ع‍
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، چاپ افست قم [بی تا].
  • کاشانی، عزالدین محمود، مصباح الهدایه و مفتاح الکفایه، مصحح: جلال‌الدین همایی، ناشر : هما، تهران، 1376ھ ق
  • کفعمی، ابراهیم بن علی، جنة الامان الواقیة و جنة الایمان الباقیة، المشتهر بالمصباح، بیروت 1403ھ ق/1983ع‍
  • الکلینی، الکافی.
  • قونیوی، صدرالدین محمد بن اسحاق، اعجاز البیان فی تفسیر امّ القرآن، چاپ جلال الدین آشتیانی، قم 1381ھ ش
  • وہی مصنف، مفتاح الغیب، چاپ محمد خواجوی، تهران 1374ھ ش
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم والمواعظ، چاپ حسین حسنی بیرجندی، قم1376ھ ش
  • متقی هندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت 1409ھ ق/1989ع‍
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار.
  • مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت: دارالفکر، [بی تا].
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، بیروت 1414ھ ق/1993ع‍
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، چاپ احمد فرید، بیروت 1424ھ ق/2003ع‍
  • منزوی، علینقی، فهرست کتابخانه اهدایی آقای سید محمد مشکوة به کتابخانه دانشگاه تهران، ج1-2، تهران 1330-1332ھ ش
  • مولوی، جلال‌الدین محمد بلخی (معروف به مولوی و مولانا و رومی)، مثنوی مولوی۔
  • میرداماد، محمدباقر بن محمد، کتاب القبسات، چاپ مهدی محقق و دیگران، تهران 1367ھ ش
  • نسائی، احمد بن علی، کتاب السنن الکبری، چاپ عبدالغفار سلیمان بنداری و سید کسروی حسن، بیروت 1411ھ ق/1991ع‍
  • نووی، یحیی بن شرف، صحیح مسلم بشرح النووی، بیروت 1407ھ ق/1987ع‍
  • نهج البلاغه، علی بن ابی طالب(ع)، امام اول، چاپ محمد عبده، بیروت [بی تا].