تعطیل صفات

ویکی شیعہ سے

تعطیل صفات [تَعْطِيْلُ الصِّفاتِ الإِلٰهِيَّةِ] اللہ کی صفات کی شناخت کے باب میں ایک نظریئے کا نام ہے۔ اس نظریئے کے مطابق انسان کی عقل خدا کے اوصاف کے ادراک سے عاجز ہے۔ اس نظریئے کے مقابلے میں نظریۂ تشبیہ صفات اور نظریۂ اثبات بدون تشبیہ یا نظریۂ تنزیہ صفات ہیں۔

توضیح نظریہ

اس رائے کے مطابق انسان کی عقل اللہ کے اوصاف کے ادراک اور شناخت تک رسائی نہیں رکھتا اور واحد ممکن کام یہ ہے کہ ہم اعتراف کریں کہ مذکورہ صفات قرآن اور روایات میں اللہ کے لئے ثابت ہیں اور ان پر ایمان لائیں؛ حالانکہ ان صفات کے معانی کی حقیقت سے عاجز ہیں۔ اس نظریئے یقین رکھنے والے لوگ چونکہ انسان کی عقل و ادراک کو اللہ کی صفات جاننے کی راہ میں معطل ہونے کے قائل ہیں اسی لئے ان کی روش "روشِ تعطیل" کہلاتی ہے اور اس روش کے قائلین اور پیروکار "مُعَطِّلِہ" کہلاتے ہیں۔

یہ جماعت اپنی روش کے اثبات کے لئے دلیل لاتے ہیں کہ انسان کو جن مفاہیم کا سامنا ہے انہیں اپنے اطراف میں موجود مخلوقات و موجودات سے سیکھتا ہے جو خود محدود اور محسوس ہیں اور جائز نہیں ہے کہ ان مفاہیم کو خدا سے نسبت دے، کیونکہ خداوند متعال کسی بھی صورت میں اپنی مخلوقات سے شباہت نہیں رکھتا، اور چونکہ ان مفاہیم کے سوا دوسرے مفاہیم ہماری دسترس میں نہیں ہے اسی لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اللہ کے اوصاف کے بارے میں خاموشی اختیار کریں اور اجمالی طور پر قرآن اور روایات میں واردہ اوصاف کی تصدیق کریں اور اسی اجمالی تصدیق پر اکتفا کریں۔ جیسا کہ سُفیان بن عُیَینہ سے مروی ہے کہ "قرآن میں جن صفات سے خداوند متعال جن صفات سے اپنی توصیف کی ہے ان کی تفسیر یہ ہے کہ ہم ان کی تلاوت کریں اور ان پر خاموشی اختیار کریں"۔[1]

اس جماعت کے بقول، اللہ کی توصیف میں عقل صرف یہی کچھ کرسکتی ہے کہ ان مفاہیم اور اوصاف کو اللہ کی ذات سے سلب کریں جو نقص اور محدودیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس اساس پر جب ہم کہتے ہیں کہ "خدا عالم ہے" یا "خدا قادر ہے" تو اس کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کہ "خدا جاہل نہیں ہے" اور "خدا عاجز نہیں ہے"۔ بالفاظ دیگر جو کچھ بھی "صفات ثبوتیہ" کے سانچے میں بیان ہوتا ہے ان کا مفہوم بعض ایسے عدمی اوصاف کی نفی سے کچھ زیادہ نہیں ہے جو ذات الہی کے ضعف و نقص پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ ہماری عقل خدا کے لئے کوئی صفت ثابت نہیں کرسکتی اور اس روش سے ذات خداوندی سے متعلق حقائق کا ادراک نہیں کرسکتا، بلکہ محض حکم دیتا ہے کہ اللہ کی ذات ہر نقص اور محدودیت سے منزہ ہے۔[2]

تنقیدی جائزہ

اس نظریئے کی تنقید میں ذیل کے نکات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:

  1. جب وجود، علم، قدرت، حیات وغیرہ کو اللہ کی ذات سے نسبت دیتا ہے، بدیہی طور پر ان کے بارے میں ایک فہم و ادراک بھی رکھتا ہے اور ان کو ایک دوسرے سے تمیز دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی کہہ دے کہ "ہم ان صفات سے کسی بھی معنی کا ادراک نہیں کرتے" اس نے بداہتِ عقل کے خلاف بولنے کا ارتکاب کیا ہے (اور اس نے مسلمات کی مخالفت کی ہے)۔[3]
  2. خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو بھی صفت مخلوق پر پوری اترے وہ خدا پر صادق نہیں آتی بلکہ ان خالق اور مخلوق کا فرق "وجوب و امکان" [4]، "ذاتی قِدَم و حُدوث" [5] اور "بالذات وبالغیر" [6] ہونے کے لحاظ سے ہے۔ اس لحاظ سے خدا اور انسان دونوں عالم ہیں اور علم بھی آگہی کے سوا کچـھ نہیں ہے تاہم خداوند متعال عالم بالوجوب ہے اور انسان عالم بالامکان ہے؛ خدا کا علم قدیم ہے لیکن انسان کا علم حادث ہے؛ خدا کا علم مطلق (اور لامحدود) ہے جبکہ انسان کا علم محدود ہے۔[7]
  3. نظریۂ تعطیل کے اصولوں کے مطابق جب ہم کہتے ہیں کہ "خدا موجود ہے" تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ "خدا معدوم نہیں ہیں" اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعی "خدا موجود ہے"؛ "خدا واحد ہے" کے معنی یہ ہیں کہ "خداوند متعال متعدد نہیں ہے" لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "خدا واقعی یگانہ و یکتا ہے" کیونکہ ایسا کہہ کر ہم مخلوقات سے خدا کی تشبیہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ظاہر و مسلّم ہے کہ متذکرہ بالا جملوں کی یہ تفسیر در حقیقت خدا اور اس کی وحدانیت کا انکار ہے۔[8]
  4. قرآن کریم ایک طرف سے انسان کو اپنی آیات اور نشانیوں میں غور و تدبر کا حکم دیتا ہے اور دوسری طرف سے قرآن کی بہت سے آیات اللہ کے اسماء اور اوصاف بیان کرتی ہیں۔ اگر نظریۂ تعطیل کی بنیاد پر انسان اللہ کے ان اوصاف سے کوئی معنی و مفہوم نہ سمجھے تو اس قسم کی آیات میں غور و تدبر کا الہی حکم بلاوجہ ہوگا! کیونکہ غور و تدبر ایسی اشیاء میں بےمعنی اور مہمل ہے جو انسان کے لئے مجہول اور ناشناختہ ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غور و تدبر کے سلسلے میں قرآن کی روش نظریۂ تعطیل سے ناسازگار اور متصادم ہے اور قرآن اس نظریئے کے بطلان کا گواہ ہے۔[9]

حوالہ جات

  1. ابن تیمیه، الرسائل الكبری، ج1، ص32 بحوالہ از الالٰهیات، ج1، ص87۔
  2. سعيدي مهر، محمد، آموزش كلام اسلامی، ج1 ص202-203۔محمدرضايي، محمد،‌ ‌‌اندیشه اسلامی، ج1، ص85-86‌۔مصباح يزدي، محمد تقي، آموزش فلسفه، ج 2، ص 368۔
  3. ‌اندیشه اسلامی، ‌ص86۔
  4. برهان وجوب و امكان۔
  5. حدوث و قِدَم۔
  6. واجب بالذات۔
  7. مطهری، ‌مرتضی، مجموعه آثار، ج6، صی1033-1034۔
  8. مطہری، مرتضی، وہی ماخذ،‌ص1035۔
  9. آموزش كلام اسلامی،صص 205-206۔

مآخذ

  • سعیدی مہر، محمد، آموزش كلام اسلامی، قم، طہ، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • محمدرضایی، محمد،‌ اندیشہ اسلامی، قم،‌ معارف، چاپ ہیجدہم، 1386 ہجری شمسی۔‌
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش فلسفہ، سازمان تبلیغات اسلامی، تہران، 1365اہجری شمسی۔