اقبال الاعمال (کتاب)

ویکی شیعہ سے
اقبال الاعمال
الإقبالُ بالأعمالِ الحَسَنَۃِ فيما يُعمَلُ مَرَّۃٍ فی السَّنَۃِ
مؤلفسید رضی الدین، علی بن موسی بن طاؤس حلی (متوفٰی 664 ھ)
تاریخ تالیفسنہ 650 ھ
مقام اشاعتقم
زبانعربی
مجموعہ3 جلدیں
موضوعادعیہ و زیارات
اسلوبحدیثی
ناشربوستان کتاب
تاریخ اشاعت1373 ھ ش


الإقبالُ بالأعمالِ الحَسَنَۃِ فيما يُعمَلُ مَرَّۃٍ فی السَّنَۃِ (سال میں ایک دفعہ انجام دیئے جانے والے نیک اعمال کی طرف رغبت) المعروف بہ اقبال الاعمال عربی میں ادعیہ، سال بھر کے اعمال اور زیاراتِ معصومین (ع) پر مشتمل کتاب ہے جو نامور شیعہ فقیہ اور عالم على بن موسى بن طاؤس حلى (متوفٰی 664 ھ) نے تالیف کی ہے۔

مؤلف کا مختصر تعارف‏

سید رضی الدین، علی بن موسی بن طاؤس حلی (589-664 ھ)، امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہیں جو عراق کے شہر حِلّہ میں پیدا ہوئے۔

سید بن طاؤس اپنے زمانے کے علماء اور عام لوگوں کے درمیان بہت صاحب احترام تھے۔ وہ نہ صرف نامی گرامی فقیہ تھے، بلکہ زبردست ادیب اور صاحب طرز شاعر بھی تھے گوکہ ان کی وجۂ شہرت ان کا زہد، تقوی اور عرفان ہے اور ان کی اکثر کاوشوں کا موضوع دعائیں اور زیارت ہیں۔[1]

سید کا اپنا عظیم اور بے مثل کتب خانہ تھا جو انہیں اپنے جد امجد سے ورثے میں ملا تھا اور انھوں نے ـ ان ہی کے بقول ـ ان تمام کتب کا مطالعہ کیا تھا یا انہیں اساتذہ سے پڑھا تھا۔ کتاب اقبال الاعمال ان کی اہم تالیفات کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔

تاریخ تألیف

سید ابن طاؤس نے کتاب اقبال الاعمال کو سنہ 650 ہجری میں مکمل کیا جبکہ وہ اپنی عمر کے ساٹھویں برس میں داخل ہو چکے تھے۔ انھوں نے یہ کتاب اپنی کئی دیگر کتب کے ہمراہ، مصباح المتہجد کی تکمیل اور تتمے کے طور پر لکھی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب فلاح المسائل ـ جو درحقیقت تتمۂ مصباح المتہجد کی پہلی جلد ہے ـ کے دیباچے میں ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔

سنہ 655 اور 656 ہجری قمری میں بھی مؤلف نے، اقبال الاعمال میں کئی ابواب کا اضافہ کیا ہے۔ سید ابن طاؤس نے یہ کتاب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں تحریر و تالیف کی ہے۔

مندرجاتِ کتاب‏

اس وقت دستیاب کتاب گیارہ مہینوں کے اعمال پر مشتمل ہے اور ماہ رمضان کے اعمال ـ اپنی خصوصی اہمیت کی بنا پر ـ ایک مستقل کتاب بعنوان المضمار میں بیان ہوئے ہیں جس کو سید نے اقبال الاعمال کے ساتھ ایک ہی مجموعے میں پیش کیا ہے۔[2]

یہ کتاب 12 حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصے کا تعلق قمری سال کے ایک مہینے کے لئے مختص ہے۔ ہر مہینے کو بھی متعدد ابواب اور فصول میں تقسیم کیا گیا ہے تا کہ ہر مہینے کے ہر روز کے اعمال تک رسائی زیادہ سہولت کے ساتھ، ممکن ہوسکے۔ سید نے اپنے کتاب کو سال کے مہینوں کی ترتیب سے مرتب کیا ہے، لیکن معمول کی روش کے برعکس، رمضان المبارک کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا ہے۔ ان کے اس اقدام کی دلیلوں میں سے ایک، وہ اہمیت ہے جو شریعت مقدسہ نے ماہ رمضان کو دی ہے، اور یہ کہ اہل معرفت ماہ رمضان کو ہی سال نیز اپنے سیر و سلوک کا آغاز سمجھتے ہیں۔

کتاب المضمار درحقیقت، رمضان المبارک سے متعلق حصہ ہے جو کتاب کے آغاز میں آئی ہے اور بقیہ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا حصہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ پر مشتمل ہے دوسرا حصہ باقی آٹھ مہینوں کے لئے مختص ہے۔

مؤلف نے ادعیہ اکٹھی کرنے کے علاوہ، اولیاء اللہ کے مدارج و مراتب، عبادات میں حصولِ اخلاص کی کیفیت، دعا اور نماز اور دوسرے اعمال کے معنوی آداب اور اسرار و رموز کے بارے میں اپنے ذاتی مشاہدات، بھی بیان کئے ہیں۔ انھوں نے بہت سے تاریخی واقعات بیان کئے ہیں اور مباہلہ، نماز میں امیرالمؤمنین (ع) کے سائل کو انگشتری بطور زکوۃ دینے کے واقعے اور واقعۂ غدیر وغیرہ کی تاریخوں کا بھی تعین کیا ہے۔

مختلف دیگر مباحث و موضوعات ـ جن کا کسی طرح سے دعا اور زیارت سے تعلق بنتا ہے ـ، جیسے امیرالمؤمنین (ع) کے مقام قبر کا تعین، یا دحو الارض کی وجۂ تسمیہ اور زمین و کعبہ کی خلقت کی کیفیت ـ کو بھی اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے۔

اسلوب تحریر

سید ابن طاؤس، متون کو عام طور پر بغیر کسی تصرف کے، نقل کرتے ہیں، اور اگر کوئی دعا غیر ماثورہ ہو تو یادآوری کراتے ہیں۔ اس کتاب میں دعاؤں کے علاوہ، سال کے ہر مہینے کے خاص اعمال اور مستحب نمازوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

انھوں نے زیادہ تر دعاؤں میں روایت یا دعا کی مکمل سند بیان کی ہے، لیکن بعض مقامات پر انھوں نے صرف اس کتاب کا حوالہ دیا ہے جس سے انھوں نے دعا کو نقل کیا ہے اور متذکرہ کتاب کے مؤلف کی سند کو اسی کتاب کی طرف پلٹا دیا ہے۔

اس کتاب میں، ایسے اہم امور بطور تمہید بیان ہوئے ہیں جن کی قارئین کو ضرورت ہے؛ بطور مثال رمضان کی دعاؤں اور اعمال کے بیان سے قبل، ماہ رمضان کی عظمت، وجوب روزہ کے فلسفے، ماہ رمضان کے آغاز سال پر دلالت کرنے والی احادیث، مختلف قسم کے نظریات اور آراء، روزہ داروں کی اقسام وغیرہ کو بیان کیا گيا ہے۔

کتاب کی منزلت‏

کتاب اقبال الاعمال سید ابن طاؤس کی دوسری کتب کی مانند، شیعہ علماء کے نزدیک اعلی اعتبار اور خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کتاب شیعہ علماء کے لئے اہم ماخذ کا کردار کرتی آئی ہے؛ یہاں تک کہ سید کے بعد کے تقریبا تمام تر مصنفین و مؤلفین نے ادعیہ اور زیارات کے موضوع میں اس کتاب سے رجوع کیا ہے؛ بطور مثال شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں بہت سے متون اقبال الاعمال سے نقل کرکے درج کئے ہیں۔

آقا بزرگ طہرانی نے بھی الذریعہ میں کہا ہے کہ اس تالیف کے بدولت، جناب ابن طاؤس کا شیعیان اہل بیت نیز علماء کے اوپر بڑا حق ہے؛ کہ انھوں نے دعا اور مناجات کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے اور وہ سب در حقیقت اس عظیم عالم کے دسترخوانِ علم و دانش سے فیضیاب ہوئے ہیں۔[3]

نسخہ جات

ترجمۂ اقبال الاعمال
  1. اس کتاب کا ایک نسخہ کتب خانہ آستان قدس رضوی میں محفوظ ہے جس کا تعلق سنہ 957ھ ق سے ہے۔
  2. مذکورہ بالا کتب خانے میں ایک نسخہ اور بھی محفوظ کیا گیا ہے جس کا تعلق سنہ 1074ھ ق سے ہے۔

کتاب کا ترجمہ

اس کتاب کا فارسی ترجمہ جناب محمد روحی کے قلم سے انجام پاکر دو مجلدات میں نشر سماء قلم کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔[4]

حوالہ جات

  1. کمونہ حسینی، الاتحاف فی نقباء الاشراف، ج1، 107و108۔
  2. سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ج1، ص20۔
  3. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص265۔
  4. ابن طاؤس، علی بن موسی‏؛ الإقبال بالأعمال الحسنۃ، ت‍رج‍مہ: م‍ح‍م‍د روح‍ی؛ ق‍م، س‍م‍اءِ ق‍ل‍م ‏، چاپ نخست 1383ھ ش‏، در دو جلد۔

مآخذ

  • ابن طاؤس، علی بن موسی‏؛ الإقبال بالأعمال الحسنة، (ط-الحدیثة) محقق و مصحح، جواد قیومی اصفهانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ‏1376 ھ ش‏۔
  • تهرانی، آقا بزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ ق۔
  • کمونہ حسینی، عبد الرزاق؛ مواردالإتحاف فی نقباء الأشراف، نجف اشرف، نشر الآداب، 1388ھ ق، ج1، ص107و108۔