واجب الوجود

ویکی شیعہ سے

واجِبُ الوجود سے مراد ایسا موجود ہے جو اپنے وجود میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہ ہو۔ واجب الوجود کا مصداق صرف خداوند کی ذات ہے۔ مسلمان فلاسفہ مختلف دلائل من جملہ برہان صدیقین اور برہان امکان و وجوب کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ واجب الوجود وجود رکھتا ہے۔ ماہیت نہ رکھنا، بسیط ہونا(مرکب نہ ہونا)، توحید ذاتی، توحید ربوبی، زندہ ہونا، عالِم ہونا، قادر ہونا اور خالقیت وغیرہ واجب الوجود کی خصوصیات میں سے ہیں۔

تمام موجودات کی واجب الوجود اور ممکن الوجود میں تقسیم

مسلمان فلاسفہ کے نظریے کے مطابق ہر موجود دو حالتوں میں سے ایک حالت کا حامل ہوگا؛ وہ موجود یا واجب الوجود ہوگا یا ممکن الوجود ہوگا۔ ایسا موجود جس کا وجود اس کے لیے واجب اور لازم ہو واجب الوجود کہلاتا ہے اور جس موجود کے لیے اس کا وجود وجاب اور ضروری نہ ہو اسے ممکن الوجود کہتے ہیں۔[1]

شیعہ معاصر مجتہد اور فلسفی محمد تقی مصباح یزدی کے نقطہ نظر سے واجب الوجود ایسا موجود ہے جو خود بخود اپنا وجود رکھتا ہے اور اس کے وجود میں آنے میں کسی دوسرے وجود کا محتاج نہیں۔ اس کے مقابلے ممکن الوجود ہے جو خود بخود وجود میں نہیں آتا بلکہ اس کے وجود میں آنے کے لیے کسی دوسرے وجود کا محتاج ہے۔[2] تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فلسفی اور عارف اور چودہویں صدی ہجری شمسی کے شیعہ متکلم اور فلسفی مرتضی مطہری نے واجب الوجود اور ممکن الوجود کو ایسے مفاہیم قرار دیتے ہیں جنہیں بدیہی ہونے کی وجہ سے تعریف سے بے نیاز سمجھتے ہیں۔ [3]

واجب الوجود کے دلائل

اسلامی فلسفہ میں واجب الوجود کے اثبات کے بہت سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔[4] بعض فلاسفہ ان دلائل میں سے بعض منجملہ برہان صدیقین کو واجب الوجود کے اثبات میں سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم دلیل قرار دیتے ہیں؛[5] البتہ اس برہان کو مختلف صورتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔[6] ابن سینا، ملا صدرا، ملا ہادی سبزواری اور علامہ طباطبائی کا بیان کردہ استدلال بھی من جملہ انہی دلائل میں سے ہے۔[7][یادداشت 1]

برہان "امکان و وجوب" کے مطابق ہر موجود عقلی طور پر یا ممکن الوجود ہے یا واجب الوجود؛ اور ان دو حالتوں کے علاوہ کوئی تیسری حالت قابل تصور نہیں ہے۔ کائنات میں موجود تمام موجودات کو "ممکن الوجود" قرار نہیں دیا جا سکتا؛ کیونکہ ممکن الوجود وجود میں آنے کے لئے علت کا محتاج ہوتا ہے، اگر اس کی علت خود ممکن الوجود ہو تو وہ خود بھی کسی علت کا محتاج ہے، اس طرح اگر تمام علتیں ممکن الوجود اور علت کا محتاج ہو تو کائنات میں کوئی موجود وجود میں نہیں آ سکے گا۔ پس کم از کم ایک ایسا موجود ہو جو اپنے وجود میں آنے کے حوالے سے کسی دوسرے وجود کا محتاج نہ ہو اور وہ "واجب الوجود" ہے۔[8]

واجب الوجود کی خصوصیات

فلسفی کتابوں میں "واجب الوجود" کی متعدد خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • ماہیت نہ رکھنا: واجب الوجود ماہیت نہیں رکھتا.[یادداشت 2]
    • دلیل: ماہیت یہ ہے کہ نہ وجود اس کےلیے ضروری اور لازم ہے اور نہ ہی عدم وجود، یہ معنی ممکن الوجود کا لازمہ ہے۔ پس جو چیز ماہیت رکھتا ہے وہ ممکن الوجود ہے اور جو چیز ممکن الوجود نہیں وہ ماہیت نہیں رکھتی۔ بنابر ایں، واجب الوجود ماہیت نہیں رکھتا۔[9]

معاصر شیعہ فلسفی مرتضی مطہری کے عقیدے کے مطابق حضرت علیؑ کا یہ جملہ: «لیس لذاته حدّ» اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اللہ کی ذات میں کوئی محدودیت نہیں پائی جاتی؛ نتیجتا اس کے لیے ماہیت فرض نہیں کی جاسکتی، پس چونکہ اللہ کی ذات ایک بے نہایت و نامحدود ذات ہے لہذا اس میں ماہیت بھی نہیں پائی جاتی۔ بالفاظ دیگر وجود نامحدود برابر ہے عدم ماہیت کے[10]

  • عدم محدودیت: واجب الوجود میں کسی قسم کی محدودیت نہیں پائی جاتی اور سارے کمال وجودی اس میں بطور اتم پائے جاتے ہیں۔
    • دلیل: چونکہ واجب الوجود ماہیت نہیں رکھتا اس لیے اس میں کوئی محدودیت بھی نہیں پائی جاتی؛ کیونکہ کسی چیز کے ماہیت رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز محدود ہے اور اس کا مرتبہ وجودی متعین ہے۔[11] مرتضی مطہری نے عدم محدودیت کی تفسیر مطلق کی ہے یعنی واجب الوجود مطلق ہے۔[12]
  • بساطت: واجب الوجود مرکب نہیں؛ یعنی واجب الوجود نہ بالفعل اور نہ بالقوہ کسی خارجی اور ذہنی اجزاء پر مشتمل نہیں ہے۔
    • دلیل: چونکہ واجب الوجود ماہیت نہیں رکھتا اس لئے اس کا کوئی حد و حدود متعین نہیں کیا جا سکتا؛ اس بنا پر واجب الوجود کا کوئی جنس و فصل نہیں ہے؛ جب جنس و فصل پر مشتمل نہیں ہوگا تو اس کا کوئی جزء بھی نہیں ہوگا۔[13]
    • دلیل دوم: ہر مرکب وجود میں آنے کے لیے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور یہ بات بہت واضح ہے کہ محتاج ہونا واجب الوجود کے ساتھ سازگار نہیں۔ بنابرایں؛ ہر وہ موجود جو مرکب ہے ممکن الوجود ہے، پس واجب الوجود مرکب نہیں۔[14]
  • توحید ذاتی: واجب الوجود فقط ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
    • دلیل: واجب الوجود ماہیت رکھتا؛ اس بنا پر کسی عدم سے مرکب نہیں ہوگا؛ جب ایسا ہوگا تو یہ عین وجود ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں واجب الوجود وجود محض ہے۔ کسی چیز کا شریک‌ رکھنا اس وقت صحیح ہے کہ ان شرکاء میں سے کوئی ایک شریک کسی چیز پر مشتمل ہو اور دوسرے اس سے عاری ہوں؛ کیونکہ اگر دو شریک تمام چیزوں میں مشترک ہوں تو گویا یہ دو، دو موجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ہوگا۔ پس "واجب الوجود" کے شریک رکھنے کا لازمہ یہ ہوگا کہ دو واجب الوجود میں سے ایک کسی چیز کا حامل اور دوسرا اس سے عاری ہو، اور یہ بات عین الوجود کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ عین الوجود میں کسی عدمی پہلو کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔[15]
  • توحید رُبوبیت: تمام موجودات کی ترقی و کمال اور ان کی تدبیر کرنے والی ہستی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔
    • دلیل: کائنات کی ہر چیز ایک دوسرے سے مرتبط ہے اور پوری کائنات منظم مجموعے کا نام ہے؛ یعنی اس کے اجزاء کے درمیان علّت و معلول کا رابطہ ہے؛ اس بنا پر موجودات میں سے ہر ایک کی ترقی اور تکامل کسی نہ کسی علت کی وجہ سے ہے؛ یہ علت اپنی ذات میں خود کسی علت کا معلول ہے یہاں تک کہ واجب الوجود تک جا پہنچے جو تمام علتوں کی علت ہے۔ چونکہ کسی چیز کی علت کی علت بھی اس چیز کی علت شمار ہوتی ہے، واجب الوجود کو تمام موجودات کی ترقی اور تکامل کی اصلی اور حقیقی علت نیز ان سب کا تدبیر کنندہ قرار دیا جاتا ہے۔[16]

حی‌ اور زندہ ہونا، عالم‌ ہونا، قادر ہونا، خالقیّت اور رازقیّت بھی واجب الوجود کی صفات میں سے ہیں۔[17] کہا جاتا ہے کہ اس قاعدے «واجب الوجود بالذات تمام جہتوں سے واجب الوجود ہے» سے تمام صفات الٰہیہ اخذ کی جاسکتی ہے۔[18] علامہ حلی نے کشف المراد میں خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتاب تجرید الاعتقاد کے متن کی پیروی کرتے ہوئے بہت سی صفات الہی کو اللہ کے واجب الوجود ہونے کے اعتبار سے استنباط کیا ہے۔[19]

نوٹ

  1. ان دلائل میں سے کونسی دلیل سب سے زیادہ مستحکم ہے اس بارے میں مسلمان فلاسفہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فلاسفہ کے مطابق واجب الوجود کے اثبات میں سب سے زیادہ آسان اور مستحکم‌ دلیل، برہان "امکان و وجوب" ہے جسے ابن سینا نے بیان کیا ہے جو کسی محسوساتی اور تجربیاتی مقدمے سے وابستہ نہیں ہے؛ (مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص58۔) بعض فلاسفہ برہان صدیقین میں علامہ طباطبائی کے بیان کو زیادہ مستحکم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: یہ استدلال محسوساتی اور تجربیاتی مقدمات نہ رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسفہ کے اصول سے بھی بے نیاز ہے۔(جوادی آملی، تبیین براہین اثبات خدا، 1375ہجری شمسی، ص216۔)
  2. فلسفیوں کے ہاں ماہیت کی دو اصطلاحات مستعمل ہیں۔1- ایک عام اصطلاح کے مطابق کسی چیز کی حقیقت کو ماہیت کہتے ہیں۔ ماہیت کی اس اصطلاح کو عربی زبان میں «مابه الشئ هو هو» کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے. بنابر ایں، اصطلاح واجب کی ماہیت یعنی وہ چیز جو اس کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے۔ چنانچہ ملا ہادی سبزواری نے بھی شرح المنظومہ میں کہا ہے: «الحق ماهیته اِنّیته» ملاهادی سبزواری، منظومه، ج2، ص96 2- ماہیت کی دوسری اصطلاح ایک خاص معنی میں مستعمل ہے۔ اس اصطلاح کے مطابق ماہیت سے مراد کسی چیز کی مکمل تعریف مد نظر ہے۔ اس لحاظ سے کسی موجود کی تعریف اس کے جنس و فصل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ماہیت کی یہ اصطلاح عربی زبان میں «مایقال فی جواب ماهو» ہے. حقیقت وجود خداوند وہی واجب الوجود ہونا ہے اور واجب الوجود کی خصوصیات کی بنا پر دوسرے موجودات سے متمایز ہوتا ہے۔ یہ واجب الوجود کی یہ حقیقت وہی ماہیت ہے۔ ماہیت کی مذکورہ دو اصطلاحات کی وضاحت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت سے مراد وہی اول الذکر ماہیت ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں کسی قسم کی محدودیت نہیں پائی جاتی لہذا ماہیت کی دوسری اصطلاح کا اطلاق خداوند کی ذات پر نہیں آتا۔طباطبایی، نهایة الحکمه، ج4، ص1103 و مطهری، مرتضی، مجموعه آثار،1390ہجری شمسی، ج8، ص147.

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: ابن سینا، الشفاء (الهیات)، 1404ھ، ص37؛ جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص143.
  2. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص58
  3. مطهری، شرح منظومه، 1394ہجری شمسی، ج1، ص232-234؛ مطهری، توحید، انتشارات صدرا، ص182.
  4. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1041۔
  5. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص58؛ طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1041۔
  6. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1042۔
  7. ر۔ک: طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1042-1054۔
  8. مصباح یزدی، آموزش عقاید،1384ہجری شمسی، ص57و58۔
  9. طباطبایی، نهایة الحکمه، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1165؛ سبحانی، مدخل مسائل جدید کلامی، 1375ش، ج1، ص60و61.
  10. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، 1390ہجری شمسی، ج 8، ص136.
  11. سبحانی، مدخل مسائل جدید کلامی، 1375ہجری شمسی، ج1، ص61.
  12. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج8، ص138.
  13. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، 1073-1075۔
  14. سبحانی، مدخل مسائل جدید کلامی، 1375ہجری شمسی، ج1، ص62؛ مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1391ہجری شمسی، ج2، ص439
  15. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1085۔
  16. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1091-1094۔
  17. طباطبایی، نہایۃ الحکمہ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص1108، 1109۔
  18. ربانی گلپایگانی، «برهان امکان در اندیشه فیلسوفان و متکلمان»، ص36.
  19. ملاحظہ کریں: علامه حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص290-301؛ علامه حلی، کشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد، 1404ھ، ص61.

مآخذ

  • جوادی آملی، عبداللہ، تبیین براہین اثبات خدا، قم، انتشارات اسراء، 1375ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، نہایۃالحکمہ، تصحیح و تعلیق غلامرضا فیاضی، قم، مرکز انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ چہارم، 1386ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، شركت چاپ و نشر بين الملل سازمان تبليغات اسلامى، چاپ ہفدہم، 1384ہجری شمسی۔