دعائے حزین

ویکی شیعہ سے
دعائے حزین
کوائف
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجادؑ
شیعہ منابع:مصباح المتہجد، مکارم‌الاخلاق، مفتاح‌الفلاح
مخصوص وقت:نماز شب کے بعد
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دُعائے حَزین امام سجادؑ سے منسوب ایک مناجات ہے جسے نماز شب کے بعد پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[1] اس مناجات میں اللہ کی عفو اور بخشش کے سامنے گناہ اور برے کاموں سے ندامت، موت کے بعد تنہائی کا خوف اور اللہ سے عفو و بخشش جیسے مضامین درج ہیں۔[2]کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس دعا کے موضوعات شیعوں کے کائنات کے بارے میں بنیادی تصورات کی عکاسی کرتے ہیں، جیسے انسانی حُزن و الم، تنہائی اور دوسرے لوگوں سے نا امید ہونا اور اللہ سے پناہ مانگنا۔[3]

چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث حسن بن فضل طَبْرِسی نے اپنی کتاب مکارم‌الاخلاق میں نقل کیا ہے کہ امام سجادؑ اس دعا کو نماز شب کے بعد پڑھتے تھے[4] لیکن شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) اپنی کتاب مِصباحُ المُتَہَجِّد میں اس دعا کا امام سجادؑ سے منسوب ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے۔[5] یہ دعا امام سجاد کی دعاؤں پر مشتمل کتاب صحیفۀ سجادیہ میں بھی ذکر نہیں ہوئی ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لکھی جانے والی صحیفہ سجادیہ کی مستدرکات میں سے کسی میں بھی ذکر نہیں ہوئی ہے۔[6]

شیخ بہایی نے مِفتاح الفَلاح میں نماز وَتْر کے آداب بیان کرتے ہوئے اس دعا کے بعض جملوں کی تشریح کی ہے۔[7] برصغیر کے فقیہ سید عباس شوشتری لکھنوئی (متوفی: 1306ھ) نے بھی اپنے اشعار میں اس دعا کے مضمون پر مشتمل ایک مناجات ذکر کیا ہے۔[8]

دعائے حزین
متن ترجمہ
اُناجیکَ یا مَوْجُوداً فی کُلِّ مَکانٍ لَعَلَّکَ تَسْمَعُ نِدائی اے وہ اللہ جو ہر جگہ موجود ہے میں تجھ سے مناجات کررہاہوں. شاید کہ تو میری فریاد سن لے
فَقَدْ عَظُمَ جُرْمی وَ قَلَّ حَیآئی کیونکہ میرے جرائم زیادہ ہیں اور حیا گھٹ گئی ہے،
مَوْلایَ یا مَوْلایَ اَیَّ الاَهْوالِ اَتَذَکَّرُ وَ اَیَّها اَنْسی میرے مولا اے میرے مولا! میں کس کس خوف کو یاد کروں اور کس کس کو فراموش کروں،
وَ لَوْلَمْ یَکُنْ اِلا الْمَوْتُ لَکَفی اگر موت کے سوا کوئی خوف نہ ہوتا تو یہی کافی تھا
کَیْفَ وَ ما بَعْدَ الْمَوْتِ اَعْظَمُ وَ اَدْهی اور موت کے بعد کے حالات تو زیادہ پر خطر ہیں
مَوْلایَ یا مَوْلایَ حَتّی مَتی وَ اِلی مَتی اَقُولُ لَکَ الْعُتْبی میرے مولا اے میرے مولا! کب تک اور کہاں تک تجھ سے کہتا رہوں (گناہگار ہوں)
مَرَّةً بَعْدَ اُخْری ثُمَّ لا تَجِدُ عِنْدی صِدْقاً وَ لا وَفاءً ایک کے بعد دوسری بار عذر لاؤں پھر بھی تو میری طرف سے اس میں سچائی اور پابندی نہیں پاتا
فَیاغَوْثاهُ ثُمَّ واغَوْثاهُ بِکَ یا اَللَّهُ ہائے فریاد، پھر ہائے فریاد ہے، تجھ سے اے اللہ
مِنْ هَویً قَدْ غَلَبَنی وَ مِنْ عَدُوٍّ قَدِ اسْتَکْلَبَ عَلَیَّ خواہش نفس سے جو مجھ پر حاوی ہے اور اس دشمن سے فریاد جو مجھ پر جھپٹ پڑا ہے،
وَ مِنْ دُنْیا قَدْ تَزَیَّنَتْ لی اس دنیا پر فریاد جو میرے لیے سنور کر آگئی
وَ مِنْ نَفْسٍ اَمّارَةٍ بِالسُّوءِ اِلاّ ما رَحِمَ رَبّی اور اس نفس پر جو برائی کا حکم دیتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے
مَوْلایَ یا مَوْلایَ اِنْ کُنْتَ رَحِمْتَ مِثْلی فَارْحَمْنی میرے مولا! اے میرے مولا! اگر تو نے کسی مجھ جیسے پر رحم کیا ہے تو مجھ پر بھی رحم کر،
وَ اِنْ کُنْتَ قَبِلْتَ مِثْلی فَاقْبَلْنی اگر کسی مجھ جیسے کا عمل قبول کیا ہے تو میرا بھی عمل قبول کر،
یا قابِلَ السَحَّرَةِ اقْبَلْنی یا مَنْ لَمْ اَزَلْ اَتَعَّرَفُ مِنْهُ الْحُسْنی اے ساحران مصر کو قبول کرنے والے مجھے بھی قبول کر، اے وہ جس سے میں نے ہمیشہ اچھائی ہی کو پہچانا،
یا مَنْ یُغَذّینی باِلنِّعَمِ صَباحاً وَ مَسآءً اے وہ جو مجھے صبح و شام نعمتیں عطا فرماتا ہے،
اِرْحَمْنی یَوْمَ اتیکَ فَرْدَا شاخِصا اِلَیْکَ بَصَری مجھ پر اس دن رحم فرمانا، جب تنہا ہوں گا اورتیری طرف آنکھ لگائے ہوں گا
مُقَلِّداً عَمَلی قَدْ تَبَرَّءَ جَمیعُ الْخَلْقِ مِنّی اپنے اعمال گلے میں لٹکائے جب ساری مخلوق مجھ سے دوری اختیار کرے گی،
نَعَمْ وَ اَبی وَ اُمّی وَ مَنْ کانَ لَهُ کَدّی وَ سَعْیی ہاں میرے باپ بھی اور وہ بھی جن کیلئے میں دکھ جھیلتا رہا،
فَاِنْ لَمْ تَرْحَمْنی فَمَنْ یَرْحَمُنی پس اگر تو مجھ پر رحم نہ کرے تو کون کرے گا.
وَ مَنْ یُونِسُ فِی الْقَبْرِ وَحْشَتی وَ مَنْ یُنْطِقُ لِسانی قبر کی تنہائی میں کون میرا ہمدم ہوگا، کون میری زبان کو گویا کرے گا،
اِذا خَلَوْتُ بِعَمَلی وَ سآئَلْتَنی عَمّا اَنْتَ اَعْلَمُ بِهِ مِنّی جب تو عمل کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا، جب کہ تو اسے مجھ سے زیادہ جانتا ہے
فَاِنْ قُلْتُ نَعَمْ فَاَیْنَ الْمَهْرَبُ مِنْ عَدْلِکَ تو اگر میں ہاں کہوں پھر تیرے عدل سے کدھر بھاگوں گا
وَ اِنْ قُلْتُ لَمْ اَفْعَلْ قُلْتَ اَلَمْ اَکُنِ الشّاهِدَعَلَیْکَ فَعَفوَکَ عَفْوَکَ یا مَوْلایَ اور اگر کہوں، میں نے نہیں کیا تو تو کہے گا، کیا میں اس پر گواہ نہیں تھا. پس بخش دے، بخش دے اے میرے مولا
قَبْلَ سَرابیلِ الْقَطِرانِ اس سے پہلے کہ تارکول کا جامہ پہنوں
عَفْوَکَ عَفْوَکَ یا مَوْلایَ قَبْلَ جَهَنَّمَ وَ النّیران بخش دے، بخش دے. اے میرے مولا! اس سے پہلے کہ جہنم کے شعلوں میں پڑوں
عَفْوَکَ عَفْوَکَ یا مَوْلایَ قَبْلَ اَنْ تُغَلَّ الاَیْدی اِلَی الاَعْناقِ بخش دے بخش دے اے میرے مولا، اس سے پہلے کہ میرے ہاتھ گردن میں باندھ دیئے جائیں
یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ وَ خَیْرَ الْغافِرینَ.[9] اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے اور اے بہت بخشنے والے


حوالہ جات

  1. قمی، مفاتیح‌الجنان، بخش ملحقات، در ذکر نمازہای مستحبی، ص873۔
  2. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص160۔
  3. مہروش، «حزین، دعا»، ص442۔
  4. طبرسی، مکارم‌الاخلاق، 1379شمسی، ص295۔
  5. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص160۔
  6. مہروش، «حزن، دعا»، ص442۔
  7. شیخ بہایی، مفتاح الفلاح، 1415شمسی، ص701۔
  8. نوشاہی، کتابشناسی آثار شبہ قارہ، 1391شمسی، ج3، ص1965۔
  9. شیخ طوسی، مصباح المتهجد، 1411ھ، ص160۔

مآخذ

  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، مفتاح الفلاح فی عمل الیوم و اللیلة، قم، جامعہ مدرسین، 1415ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، طوسی، بیروت، مؤسسہ فقہ‌الشیعہ، 1411ھ۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، قم، الشریف الرضی، 1370ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح‌الجنان، چاپ مرکز تحقیقات حج.
  • مہروش، فرہنگ، «حزین، دعا» در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج21، تہران، مرکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
  • نوشا‌ہی‌، عا‌رف‌، کتاب شناسی آثار فارسی چاپ شدہ در شبہ قارہ (ہند، پاکستان، بنگلادش)،تہران، 1391ہجری شمسی۔