مستجاب الدعوۃ

ویکی شیعہ سے

مُسْتَجَابُ الدَّعْوَہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی دعائیں اپنے اور دوسروں کے حق میں مستجاب ہوتی ہیں۔ احادیث کے مطابق انبیاءؑ، ائمہ معصومینؑ اور عادل پیشوا، مستجاب الدعوہ اشخاص میں سے ہیں۔ اسی طرح بیمار اور والدین جیسے بعض افراد بھی بعض شرائط کے ساتھ مستجاب الدعوہ ہو سکتے ہیں۔

تعریف

مستجاب الدعوۃ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی دعائیں اپنے اور دوسروں کے حق میں مستجاب ہوتی ہیں۔[1]

مصادیق؛ انبیاء اور ائمہ

حضرت محمدؐ سے مروی ایک حدیث کے مطابق انبیاء مستجاب الدعوہ ہیں۔[2] امام حسنؑ نے لوگوں کو اپنا حسب و نسب بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ سے نسبت دیتے ہوئے اپنے آپ کو "فرزند مستجاب الدعوہ" قرار دیا ہے۔[3]

امام رضاؑ امام حق کی نشانیوں میں سے ایک مستجاب الدعوہ ہونا قرار دیتے ہوئے فرمایا اگر امام کسی پتھر کے دو ٹکڑے ہونے کی دعا کریں تو ایسا ہو کر رہے گا"۔[4]

شرائط

احادیث کے مطابق چہ بسا بعض لوگ مختلف شرائط کے تحت مستجاب الدعوہ قرار پاتے ہیں؛ مثلا: بیمار کی دعا،[5] اولاد کے حق میں والدین کی دعا، جب وہ والدین کے ساتھ نیکی کرے والدین کی دعا اولاد کے خلاف جب وہ ان کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آئے اور ان کی نافرمانی کرے،[6] مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،[7] مظلوم کی دعا اس شخص کے حق میں نے مظلوم کی حمایت کی ہے،[8] روزہ‌ دار کی دعا،[9] خاص کر افطار کے وقت،[10] عمرہ‌ گزار کی دعا عمرہ سے واپس آنے تک،[11] عادل امام اور پیشوا کی دعا،[12] مومن کی دعا اس مومن کے حق میں جس نے مجبوری کی حالت میں اس کی مدد کی ہے[13] یا مؤمن کی دعا اس مؤمن کے خلاف جس نے قدرت رکھتے ہوئے اس کی مدد نہیں کی ہے۔[14]

امام حسنؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی اپنے دل کی حفاظت کرے تاکہ خدا کو ناپسند امور اس میں داخل نہ ہوں تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ شخص مستجاب‌ الدعوہ ہوگا۔[15]

امام رضاؑ سے مروی ہے کہ بلعم باعورا نیز اسم اعظم کا حامل ہونے کی وجہ سے مستجاب الدعوہ تھا[16] یہاں تک کہ فرعون کی پیروی اور حضرت موسیؑ سے دشمنی کی بنا پر یہ مقام اس سے چھین لیا گیا۔[17]

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ ایک شخص پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں آیا اور آپؑ سے تقاضا کیا کہ ان کے حق میں مستجاب الدعوہ ہونے کی دعا کریں؛ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "اپنے آپ کو پاک کروں تاکہ مستجاب الدعوہ بن جاؤ۔ اس ذات کی قسم جس کی قدرت میں محمدؐ کی جان ہے، وہ شخص جو لقمہ حرام سے اپنا پیٹ بھرتا ہے، چالیس دن تک اس کا کوئی عمل مورد قبول واقع نہیں ہو گا۔»[18]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت‌نامہ، 1377ش، ذیل واژہ مستجاب۔
  2. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج72، ص116۔
  3. طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج1، ص281۔
  4. طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص437۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص510؛ راوندی، الدعوات، 1366ش، ج1، ص224۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص510؛ محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص510؛ محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883 و ص1781۔
  8. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص510؛ محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص1686؛ راوندی، الدعوات، 1366ش، ج1، ص27۔
  10. راوندی، الدعوات، 1366ش، ج1، ص27۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص510۔
  12. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883۔
  13. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883۔
  14. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1416ق، ج2، ص883۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص62۔
  16. عیاشی،‌ التفسیر، 1380ق، ج2، ص42۔
  17. بحرانی، البرہان، 1416ق، ج2، ص615؛ قمی،‌ تفسیر القمی، 1404ق، ج1،‌ ص248۔
  18. محمدی ری‌شہری، نہج الدعاء، 1385ش، ج1، ص443۔

مآخذ

  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، 1416ھ۔
  • دہخدا، لغت‌نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377شمسی ہجری۔
  • راوندی، قطب‌الدین، الدعوات، قم، مدرسۃ الامام المہدی(عج)، 1366شمسی ہجری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، الاحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، 1403ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح سید طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، قم، دارالحدیث، 1416ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، نہج الدعا، قم، دارالحدیث، 1385شمسی ہجری۔