برهان عِلّیّت کَونیات یا علم الکائنات(cosmology) کی برہان شمار ہوتی ہے اسی طرح اثبات خدا کے سلسلے میں بھی سب سے قدیمی اور مشہور براہین میں سے ایک اہم برہان ہے۔ اس برہان کے مطابق کائنات خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ کسی علت کا معلول ہے لہذا اس کو وجود میں لانے والے ایک سبب کی ضرورت ہے؛ اور چونکہ علتوں اور اسباب میں تسلسل ناممکن ہے، اس لیے علل و اسباب کے مجموعہ میں سب سے اوپر ایک علت العلل یا علت اُولیٰ ہونا چاہیے جو خود کسی علت کا معلول نہ ہو بلکہ خود بغیر کسی علت کے وجود رکھتی ہو۔ یہ برہان اور استدلال "اصل علیت" کے اصول پر مبنی ہے اور اس کی مختلف تفسیریں پیش کی گئی ہیں۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے سورہ طور کی آیات 35 اور 36 اور حدیث "من عرف نفسہ" کو برہان علیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ شیعہ فلسفی عبداللہ جوادی آملی اثبات خدا کے سلسلے میں برہان علیت کو دیگر براہین سے مستقل اور الگ کوئی برہان نہیں سمجھتے۔ ان کے نقطہ نظر سے اس برہان کو اگرچہ مستقل تسلیم کیا جائے تب بھی واجب الوجود اور اس کے اسماء و صفات کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے براہین کی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے۔

اس برہان پر بعض اعتراضات اور اشکالات بھی کیے گئے ہیں، جیسے؛ تسلسل کا باطل نہ ہونا، اصل علیت کا انکار اور اس کا ناقص ہونا وغیرہ۔ البتہ برہان علیت کے قائلین نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔

اہمیت اور مقام

برہان علیت (The Causal Argument) علم الکائنات کے ان براہین [1] میں سے ہے جنہیں اثبات خدا کے استدلال میں بروئے کار لایے جاتے ہیں۔[2] یہ برہان اللہ تعالیٰ کے اثبات کے سلسلے میں سب سے قدیم اور مشہور براہین میں سے ہے[3] اسے سب سے پہلے ارسطو[4] نے پیش کیا ہے اور اب تک خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔[5]

بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ تمام براہین جن میں خدا کے وجود کے اثبات کے سلسلے میں اصل علیت سے مدد لی جاتی ہے وہ برہان علیت کہلاتے ہیں۔[6] بنابرایں، وہ تمام براہین جو تسلسل کے محال ہونے کو ثابت کرتے ہیں جیسے برہان اسد اخصر، برہان وسط و طرف، برہان ترتب و برہان تضایف؛ وہ اثبات وجود خدا میں کام آتے ہیں اور ان کا شمار براہین علیت میں ہوتا ہے؛ اگرچہ اکثر فلسفیوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ان براہین سے استدلال نہیں کیا ہے۔[7]

برہان کے اجزاء

جن اجزاء سے برہان علیت تشکیل پاتی ہے، وہ درج ذیل ہیں:

  • عالَم کائنات کسی علت کا معلول ہے.
  • ہر معلول ہمیشہ ایک علت کا محتاج ہوا کرتا ہے۔
  • علتوں میں تسلسل (سلسلہ علت و معلول کا بے نہایت درجہ تک جاری رہنا) ناممکن اور محال ہے۔
  • پس کائنات کسی ایسی علت (علت العلل یا علت اُولیٰ) کا معلول ہے جو خود کسی کا معلول نہیں.[8]

کہا جاتا ہے کہ برہان علت و معلول کا بنیادی کام علت فاعلی کا اثبات ہے۔[9]

اصل علیت: برہان کی بنیاد

برہان علیت کی بنیاد اور اساس اصل علیت ہے[10] اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر معلول ہمیشہ ایک علت کا محتاج ہوتا ہے اور اس کا حتمی لازمہ یہ ہے کہ کوئی بھی معلول بغیر کسی علت کے وجود میں نہیں آسکتا۔[11] اس اصل اور قاعدے کا موضوع موجود معلول ہے نہ کہ بطور مطلق کوئی بھی موجود۔[12]

برہان کی تفسیریں

اسلامی اور غربی فلسفہ میں برہان علیت کی مختلف تشریحات اور تفسیریں بیان کی گئی ہیں[13] یہاں ان دونوں کا ایک ایک نمونہ بیان کیا جاتا ہے۔

علامہ طباطبائی کی تفسیر

علامہ طباطبائی نے تسلسل کے بطلان پر ایک برہان پیش کیا ہے[14] جسے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل تفسیر کے ساتھ ذکر کیا ہے:

  1. ہر معلول کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ علت پر منحصر ہوتا ہے اور اس کا تعلق علت سے برقرار رہتا ہے، جبکہ علت خود مستقل اور معلول کو وجود بخشنے والی ہوتی ہے۔
  2. اگر علت خود بھی کسی چیز کا معلول ہو اور وہ بھی کسی کا معلول ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی علت پر منحصر اور ان کا تعلق اس علت سےہوگا۔
  3. جو چیز کسی اور چیز پر منحصر ہوتی ہے ایک مستقل وجود کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔
  4. پس اگر علل کا سلسلہ بے نہایت حد تک جاری رہے اور کسی مستقل علت پر اختتام پذیر نہ ہو تو اس مجموعے کا کوئی بھی جزء وجود میں آہی نہیں سکتا۔
  5. بنابرایں، سلسلہ علل میں ایک مستقل علت کا ہونا ضروری ہے جو کسی اور علت کا محتاج نہ ہو۔[15]

علامہ طباطبائی نے اس مطلب کی دوسری تفسیر یوں بیان کی ہے:

  • کوئی بھی موجود ان تین حالتوں سے خارج نہیں ہے:

الف: وہ موجود علت ہوگا معلول نہیں؛ ب: یا معلول ہوگا، علت نہیں؛ ج: کسی چیز کا معلول ہوگا اور کسی دوسری چیز کے لیے علت کی حیثیت رکھتا ہوگا۔

  • سلسلہ علل میں عقلی طور پر ضروری ہے کہ ایک ایسی علت پر یہ سلسلہ رک جانا چاہیے جو خود کسی کا معلول نہ ہو۔
  • ایسی علت جو کسی اور کا معلول ہرگز نہیں وہ خدائے متعال کی ذات ہے۔[16]

توماس ایکویناس کی تفسیر

دنیائے غرب میں برہان علیت کی مشہور تفسیر توماس ایکویناس کی تفسیر ہے[17] جسے وہ اثبات خدا کے پانچ راستوں میں سے دوسرا راستہ قرار دیتا ہے۔[18] ایکویناس کی جانب سے برہان علیت کے سلسلے میں پیش کردہ تفسیر کچھ اس طرح سے ہے: ہر معلول کی ایک علت ہوا کرتی ہے۔ اس علت کی بھی ایک علت ہوتی ہے۔ اس طرح پورا ایک سلسلہ علل ہوتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ یہ سلسلہ کہیں جاکر رک جائے یا علت اُولیٰ(ایسی علت جو کسی دوسری چیز کا معلول نہ ہو) پر منتہی ہو۔ توماس ایکویناس لامتناہی سلسلہ علل کو عقلی طور پر محال اور ناممکن سمجھتا ہے اسی وجہ سے سلسلہ علل کے لیے ضروری سمجھتا ہےکہ وہ "علت اولیٰ" پر رک جانا چاہیے؛ ہم اسی علت اُولیٰ کو خدا کا نام دیتے ہیں۔[19]

توماس ایکویناس کے کچھ معاصر پیروکاروں نے اس برہان کی ایک نئی تفسیر پیش کی ہے جس کے مطابق اس عالم مادہ(دنیا) کی معقول تبیین اور وضاحت "علت اُولیٰ" کے وجود پر مبنی ہے اور اس طرح کے وجود کے بغیر دنیا غیر معقول اور بے معنی ہوگی۔[20]

آیات و روایات اور برہان علیت

بعض علما نے برہان علیت کو قرآن کی کچھ آیات اور معصومینؑ کی بعض روایات کے ساتھ موافق جانا ہے۔

آیات

معاصر شیعہ مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کی نظر میں سورہ طور کی آیات 35 اور :36 أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ‌ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ*أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ[؟؟]۔

برہان علیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[21] مکارم شیرازی کی نظر میں اس سورے کی آیت نمبر 35 انسان کی علت فاعلی[22] جبکہ آیت نمبر36 تخلیق عالم کائنات کی علت فاعلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[23]

روایات

آیت الله مکارم شیرازی کے مطابق حدیث «مَنْ‏ عَرَفَ‏ نَفْسَهُ‏ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ»(ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا) کے ایک معنی اور تفسیر برہان علیت ہے؛ اس کی وضاحت یہ کہ جب انسان اپنی روح اور جسم کے بارے میں غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی علت کے معلول ہیں۔ ظاہری طور پر ماں باپ کو اس کی علت شمار کرتے ہیں لیکن وہ خود بھی کسی اور چیز کے معلول ہیں۔ علتوں کا یہ لامتناہی سلسلہ بے نہایت حد تک جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ عقلی لحاظ سے ایسا تسلسل باطل ہے۔ پس یہ تمام علتیں ایک علت العلل پر منتہی ہونا چاہیے اور وہ واجب الوجود ہے جو کسی علت کا معلول نہیں۔[24]

امام علیؑ کا یہ فرمان: «وَ کُلُّ قَائِمٍ فِی سِوَاهُ مَعْلُولٌ؛ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر موجود کسی اور چیز کا معلول ہے»[25] بھی برہان علیت پر منطبق آتا ہے۔[26]

کیا برہان علیت خود ایک مستقل برہان ہے؟

شیعہ فلاسفر عبد اللہ جوادی آملی کی نظر میں امکان، حدوث اور حرکت جیسے امور کو مد نظر رکھے بغیر صرف برہان علیت کو الگ سے ایک مستقل فلسفی برہان قرار نہیں دیا جاسکتا؛[27]کیونکہ قانون علیت دوسرے قوانین اور برہانوں سے الگ کوئی قانون نہیں بلکہ اثبات خدا کے سلسلے میں پیش کیے جانے والے تمام دلائل کی بنیاد ہے اور ہر دلیل اور استدلال اسی برہان پر مبنی ہے۔[28]جوادی آملی کے مطابق اثبات خدا کے سارے استدلالات کی تکمیل قانون علیت کے ایک سلبی حکم یعنی "بطلان دَور" اور "بطلان تسلسل" پر موقوف ہے۔[29] ان کے مقابلے میں بعض لوگ برہان علیت کو اثبات خدا کے دیگر براہین میں سے ایک الگ برہان کے طور پر شمار کرتے ہیں؛[30] کیونکہ برہان علیت کے مقدمات (صغریٰ و کبریٰ) دیگر براہین کے مقدمات سے الگ تھلگ ہیں۔ برہان علیت میں امکان، وجوب اور اس جیسے مفاہیم سے استفادہ نہیں کیا جاتا ہے لہذا یہ ایک مستقل برہان کی حیثیت رکھتا ہے۔[31]

آیت الله جوادی آملی کا کہنا ہے کہ اگر ہم برہان علیت کو ایک الگ سے برہان فرض کرلیں تو اس سے صرف عالَم کائنات کے مبدأ اول کا اثبات ممکن ہے؛ جبکہ واجب الوجود اور اس کے اسماء و صفات کے اثبات کے لیے دوسرے براہین کے محتاج ہونگے۔[32]

نقد و تبصرہ

بعض علما کی جانب سے برہان علت و معلول پر اس طرح سے نقد کیا گیا ہے:

  • عدم بطلان تسلسل: اسکاٹ لینڈ کے مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم اور جرمنی فلاسفی امانوئل کانٹ نے علل کے لامتناہی تسلسل کے باطل ہونے پر اعتراض کیا ہے۔[33] بعض دیگر فلسفیوں نے برہان علیت کے بطلان تسلسل پر مبنی ہونے کو اس برہان کا نقص شمار کرتے ہوئے اس کی کمزوری سے تعبیر کی ہے۔[34]

جواب: تسلسل کے محال اور ناممکن ہونے کے بارے میں متعدد براہین پیش کیے جاتے ہیں۔[35] بعض علما جیسے محمد تقی مصباح یزدی نے سلسلہ علل کے باطل ہونے کو بدیہیات میں سے شمار کیا ہے جس کے بارے میں معمولی سا غور کرنے سے اس کا باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے۔[36]

  • قانون علیت کا انکار: ہیوم اور کانٹ قانون علیت کا بھی انکار کرتے ہیں۔[37] بعض دیگر فلسفیوں نے اصل علیت کو سرے سے ہی مشکوک اور متنازعہ قانون قرار دیا ہے۔[38] اصل علیت پر سوالیہ نشان لگنے کی صورت میں اس سے استدلال کرنا کارآمد نہیں ہوسکتا۔[39]

جواب: اصل علیت ایسا قانون ہے جو کا شمار بدیہیات میں سے ہوتا ہے اور ہر قسم کی دلیل اور برہان کے محتاج ہوئے بغیر اس کا اثبات ہوجاتا ہے۔[40]آیت اللہ مصباح یزدی کے نقطہ نظر سے، اصل علیت ایک تجزیاتی قضیہ ہے جس کے محمول کا تصور (کسی علت کا محتاج ہونا) اس کے موضوع(معلول) کے تصور سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا، موضوع کا تصور ہی بتاتا ہے کہ یہ کسی علت کا محتاج ہے۔ اس لیے یہ بدیہیات اولیہ میں سے ہے، اور اس کی تصدیق کے لیے صرف موضوع اور محمول کا تصور کافی ہے۔[41]

  • اصل علیت کا تناقض:

جان ہوسپرس کا خیال ہے کہ علت العلل کا وجود ہی اصل علیت کے منافی ہے اور اس اصول کو توڑ دیتا ہے؛ کیونکہ یہ جملہ «خدا کسی علت کا معلول نہیں» اور یہ قانون «ہر چیز کی ایک علت ہوا کرتی ہے» آپس میں متصادم اور متناقض ہیں۔[42]

جواب: اصل علیت کے قانون کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہر موجود کو علت کی ضرورت ہے تاکہ کہا جائے کہ خدا پر بھی چونکہ لفظ "موجود" صدق آتا ہے لہذا خدا کے لیے بھی علت کی ضرورت ہے، یا خدا کے حوالے سے یہ قانون ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اصل علیت کا موضوع مطلقِ موجود نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے: موجودِ معلول کو ہمیشہ ایک علت کی ضرورت ہوتی ہے؛ نہ کہ مطلقِ موجود کو۔[43]

  • علت اولیٰ کا متناہی ہونا:

کچھ کا خیال ہے کہ اگر معلول متناہی ہو تو علت کا متناہی اور محدود ہونا سمجھ میں آتا ہے؛ لہذا علت اولیٰ بھی متناہی ہوگی لامتناہی نہیں ہوگی[44]

جواب: چونکہ تمام متناہی موجودات معلول ہیں(اور انہیں علت کی ضرورت ہے) لہذا علت اُولیٰ ہرگز متناہی نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ علت اُولیٰ کے متناہی ہونے سے خود اس کے لیے علت کی ضرورت پڑے گی جس سے سلسلہ علل میں محالیت والا اشکال پیش آتا ہے۔[45]

بعض فلسفہ دانوں نے اصل علیت پر کیے جانے والے اعتراضات اور اشکالات کا سبب اس کے درست اور صحیح ادراک نہ کرنا قرار دیا ہے جبکہ درست انداز میں اس کے بارے میں غور و فکر کیا جائے تو سارے اشکالات اور اعتراضات دور ہوسکتے ہیں۔[46]

حوالہ جات

  1. برہان علیت سے مراد علم الکائنات (Cosmological Arguments)کے وہ دلائل ہیں جو اس کائنات سے متعلق حقائق جیسے امکان، وقوع اور حرکت کے ذریعے خدا کو ثابت کرتے ہیں۔(ادواردز، خدا در فلسفه، ترجمه خرمشاهی، 1384ہجری شمسی، ص57.
  2. ادواردز، خدا در فلسفه، ترجمه خرمشاهی، 1384ہجری شمسی، ص57.
  3. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76.
  4. ملاحظہ کریں: فیروزجائی، «براهین اثبات خدا نزد ارسطو»، ص61و61.
  5. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76.
  6. حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366.
  7. حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366و369، 370، 378، 390، 396، 420 و425؛ شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص181.
  8. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص68؛ محمدرضایی، «برهان علیت از دیدگاه امام علی(ع)»، ص85.
  9. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص80.
  10. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص76؛ حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص367.
  11. مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45.
  12. مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص46.
  13. ملاحظہ کریں: حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص370-430؛‌ هیک،‌ فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54 و55.
  14. طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص648 و649.
  15. فاطمه شاکرین و حمیدرضا شاکرین، «برهان علیت و شبهات فلسفه غرب»، ص10و11.
  16. طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص677و678.
  17. دیویس، در آمدی بر فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص128.
  18. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص53؛ دیویس، در آمدی بر فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص129.
  19. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54.
  20. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54و55.
  21. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص69-75.
  22. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص72.
  23. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص73.
  24. مکارم شیرازی، گفتار معصومین، 1388ہجری شمسی، ج2، ص102.
  25. نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبه 186، ص272.
  26. محمدرضایی، «برهان علیت از دیدگاه امام علی(ع)»، ص84و92.
  27. جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص46 و170و171.
  28. جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص47 و 50 و170.
  29. جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص171.
  30. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76؛ حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366-369؛ شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص145.
  31. حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص367.
  32. جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص50.
  33. گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.
  34. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54.
  35. ملاحظہ کریں: ملاصدرا،‌ الحكمة المتعالية، 1981ء، ج2، ص141-169؛ طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص648-651.
  36. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1398ہجری شمسی، ص82و83.
  37. گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.
  38. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص55.
  39. هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص56.
  40. مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45و46.
  41. مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45.
  42. شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص191.
  43. مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص46.
  44. گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.
  45. گیسلر، فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص292.
  46. حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص369.


مآخذ

  • ادواردز، پل، خدا در فلسفه، ترجمه بهاء‌الدین خرمشاهی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی.
  • جوادی آملی، عبدالله، تبیین براهین اثبات خدا، تنظیم و ویرایش حمید پارسانیا، قم، نشر اسرا، چاپ سوم، 1378ہجری شمسی.
  • حسین‌زاده، محمد، فلسفه دین، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1380ہجری شمسی.
  • دیویس، برایان، در آمدی بر فلسفه دین(ویراست دوم)، ترجمه ملیحه صابری نجف آبادی، تهران، سمت، چاپ پنجم، 1391ہجری شمسی.
  • شاکرین، حمیدرضا، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، تهران، مؤسسه فرهنگی دانش و اندیشه معاصر، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی.
  • شاکرین، فاطمه و حمیدرضا شاکرین، «برهان علیت و شبهات فلسفه غرب»، فصلنامه قبسات، شماره 55، بهار 1389ہجری شمسی.
  • طباطبایی، سیدمحمد حسین، نهایة الحکمة، تعلیقات غلامرضا فیاضی، قم،‌ مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ چهارم، 1386ہجری شمسی.
  • کردفیروزجائی، یارعلی، «براهین اثبات خدا نزد ارسطو»، فصلنامه معرفت، شماره 63، اسفند 1381ہجری شمسی.
  • گیسلر، نورمن، فلسفه دین، ترجمه حمیدرضا آیت‌اللهی، تهران، انتشارات حکمت، چاپ اول(ویرایش جدید)، 1391ہجری شمسی.
  • محمدرضایی، محمد، «برهان علیت از دیدگاه امام علی(ع)»، فصلنامه کلام اسلامی، شماره 43، پاییز 1381ہجری شمسی.
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ یازدهم، 1398ہجری شمسی.
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش فلسفه، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، گفتار معصومین، تدوین محمد عبدالله زاده، قم، مدرسه امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1388ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ نهم، 1386ہجری شمسی.
  • نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، هجرت، چاپ اول، 1414ھ.
  • هیک، جان، فلسفه دین،‌ ترجمه بهزاد سالکی، تهران، الهدی، چاپ سوم، 1381ہجری شمسی.
  • ملاصدرا، صدرالدین محمد بن ابراهیم‌، الحکمة المتعالیة فی الأسفار العقلیة الأربعة، حاشیه علامه طباطبایی‌، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1981ء.