مندرجات کا رخ کریں

تکلیف شرعی

ویکی شیعہ سے

تکلیفِ شرعی، ان فرائض اور احکام کو کہا جاتا ہے جنہیں دینِ اسلام، نے اللہ کے بندوں کے ذمے لگایا ہے۔ فقہا کے نزدیک کسی بھی فرد پر تکلیفِ شرعی کے واجب ہونے کے لیے چند بنیادی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، جن میں عقل، بلوغت اور قدرت شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک شرط سے محروم ہو تو اس پر شرعی احکام لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ شریعت میں تکالیف کو پانچ اقسام؛ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بعض فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ تکلیف شرعی واجب ہونے کے لئے مسلمان اور علم ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ غیر مسلم اور تکلیف شرعی کی نسبت جاہل شخص پر بھی یہ احکام واجب ہیں۔ البتہ جاہل قاصر اگر اپنے وظیفے پر عمل نہ کرے تو معذور ہے اور اس پر عذاب نہیں ہوگا۔ اسی طرح نو مسلم شخص پر بھی مسلمان ہونے سے پہلے انجام نہ دینے والی عبادات کا ازالہ واجب نہیں ہے۔

متکلمین کے مطابق بندوں پر شرعی وظائف خدا کی طرف سے ہیں، جس کا مقصد ان مصلحتوں اور فوائد حصول ہے جنہیں خدا نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہے۔

ایران اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں کچھ والدین اپنے بچوں کے سن تکلیف کو پہنچنے پر ایک تقریب منعقد کرتے ہیں جسے "جشنِ تکلیف" کہا جاتا ہے۔ یہ تقریب عوامی مقامات جیسے کہ اسکولوں، مساجد اور مقدس مزارات میں منعقد کی جاتی ہے۔

بعض تکالیف کے لیے چند اضافی شرائط بھی ضروری ہیں، جو ہر حکم پر لاگو نہیں ہوتیں۔ مثلاً حج کے وجوب کے لیے عام شرائط (عقل، بلوغت اور قدرت) کے علاوہ استطاعتِ زمانی یعنی وقت کی دستیابی بھی شرط ہے، تاکہ مکلف کے پاس سفر اور مناسکِ حج کی ادائیگی کے لیے مناسب وقت میسر ہو۔

مفہوم اور اہمیت

تکلیفِ شرعی کا مطلب شرعی فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ شرعی تکلیف ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو اس کے شرائط جیسے بلوغ، عقل اور اس کے انجام دینے یا ترک کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔[1] اس شخص کو جس پر شرعی تکالیف یا شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں، "مُکَلَّف" کہا جاتا ہے۔[2] شرعی تکالیف یا احکامِ تکلیفی کو پانچ اقسام میں واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح میں تقسیم کیا گیا ہے۔[3]

تکلیف شرعی کا مسئلہ فقہ، اصولِ فقہ اور علمِ کلام میں زیرِ بحث آتا ہے: فقہا نے فقہ کے مختلف ابواب میں، موقع کی مناسبت سے، عبادات اور معاملات میں شرائطِ تکلیف پر گفتگو کی ہے۔[4] تکلیف شرعی کا موضوع اس کی اقسام یعنی حکمِ تکلیفی اور حکمِ وضعی سے بھی جُڑا ہوا ہے، اسی لیے اسے اصول فقہ میں بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔[5] علم کلام میں تکلیف شرعی کو خدا کے افعال میں سے ایک فعل ہونے کے اعتبار سے بحث کی جاتی ہے۔ [6]

شرائط تکلیف شرعی

فقہا کے نزدیک عقل، بلوغ اور قدرت یا استطاعت ان شرائط میں سے ہیں جو تمام تکالیف کے لیے لازمی ہیں، اور انہیں "شرائطِ عام تکلیف" کہا جاتا ہے۔[7] ہر شخص جو ان تین شرائط کو پورا کرتا ہو، شرعی احکام پر عمل کا پابند ہوتا ہے۔[8] لہٰذا شرعی تکلیف اور ذمہ داری ان بچوں پر لاگو نہیں ہوتی جو سن بلوغ کو نہیں پہنچے، اسی طرح دیوانہ افراد اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے تکلیف ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان پر بھی شرعی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔[9]

کچھ علماء نے التفات (یعنی توجہ یا شعور) کو بھی شرائطِ عام تکلیف میں شمار کیا ہے۔[10] اس بنیاد پر وہ شخص جو التفات نہ رکھتا ہو، جیسے بےہوش یا سویا ہوا فرد، جب تک وہ اس حالت میں رہے، اس پر کوئی شرعی تکلیف نہیں ہوگی۔[11]

اسی طرح فقہا کے نزدیک کچھ شرائط بعض تکالیف کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔[12] مثلاً وجوب حج کے بارے میں فقہا کا کہنا ہے کہ عام شرائط جیسے بلوغ، عقل اور قدرت کے علاوہ، اس کے لیے ایک اور شرط بھی ضروری ہے، اور وہ یہ کہ مکلف کے پاس اتنا وقت ہو کہ وہ حج کے سفر کو مکمل کر سکے اور اس کے مناسک ادا کر سکے۔ اس شرط کو فقہا "استطاعتِ زمانی" (وقت کی استطاعت) کا نام دیتے ہیں۔[13]

کیا جاہل پر تکلیف شرعی لاگو ہوتی ہے؟

شیعہ متکلم محمد رضا مظفر کے مطابق شیعہ علما اس بات پر متفق ہیں کہ شرعی احکام کا نفاذ عالم اور جاہل دونوں پر یکساں ہوتا ہے، اور ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ دینی فرائض ادا کرے،[14] خواہ وہ ان احکام سے پہلے سے واقف ہو یا نہ ہو۔[15] تاہم، اگر کوئی شخص جاہلِ قاصر ہو، یعنی جسے کسی بھی وجہ سے علم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا ہو، تو وہ تکلیف پر عمل نہ کرنے کے باوجود معذور شمار کیا جاتا ہے اور اسے کوئی شرعی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔[16]

کیا غیر مسلم پر بھی تکلیفِ شرعی عائد ہوتی ہے؟

شیعہ فقہا کے درمیان اس امر پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا تکلیفِ شرعی صرف مسلمانوں کے لیے ہے یا غیر مسلموں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ مشہور شیعہ فقہا کا نظریہ ہے کہ تمام شرعی احکام مسلم و غیر مسلم دونوں پر یکساں واجب ہیں۔[17] تاہم، قاعدۂ جَب (اسلام قبول کرنے کے بعد پچھلے گناہوں کی معافی) کی بنا پر، ایک نو مسلم سے یہ تقاضا نہیں کیا جائے گا کہ وہ زمانۂ کفر میں ترک شدہ عبادات کی قضا کرے۔[18] اس کے برخلاف، بعض فقہا جیسے صاحبِ حدائق اور سید ابوالقاسم خوئی کا موقف ہے کہ شریعت کے احکام سرے سے ہی غیر مسلموں پر لاگو نہیں ہوتے۔[19]

سنِ تکلیف

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: بلوغ اور لڑکیوں کی بلوغت

فقہا کے نزدیک، سنِ بلوغ یا سنِ تکلیف وہ عمر ہے جب ایک شخص شرعی ذمہ داریوں کا مکلف ہو جاتا ہے۔ شیعہ فقہا کے مشہور نظریے کے مطابق:

  • لڑکوں کے لیے سنِ تکلیف: پندرہ سالِ قمری (تقریباً 14 سال، 6 ماہ اور 12 دن شمسی)
  • لڑکیوں کے لیے سنِ تکلیف: نو سالِ قمری (تقریباً 8 سال، 8 ماہ اور 20 دن شمسی)[20]

فلسفۂ تکلیف

متکلمین کے نزدیک، بلا مقصد کسی کو تکلیف دینا عبث (بے فائدہ) ہے، اور اللہ تعالیٰ جو کہ حکیم و دانا ہے، اس سے عبث کام صادر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ، احکامِ شرعیہ کا اصل مقصد بندگانِ خدا کے لیے وہ مصالح و منافع ہیں جو ان کی روحانی اور دنیوی فلاح کے ضامن ہیں۔[21] اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ تکلیف اصطلاحاً «حَسَن» یا نیک ہے۔[22]

بعض علما نے تکلیفِ شرعی کا بنیادی مقصد اجر و ثواب کا حصول قرار دیا ہے،[23] جبکہ دیگر علما کے مطابھ، تکلیف کے مقاصد میں مکلفین کا امتحان، نعمتوں پر شکرگزاری اور اخلاقی تزکیہ بھی شامل ہیں۔[24]

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم علامہ حلی (متوفی 726ھ) نے کشفُ المَراد میں تکلیف کے تین بنیادی فوائد بیان کیے ہیں:

  1. نفس کی تربیت اور اسے خواہشات و شہوات سے باز رکھنا۔
  2. الٰہی امور پر غور و فکر کی عادت ڈالنا، جیسے خالق و معاد پر تدبر۔
  3. آخرت کے خیر و شر کی یاددہانی، تاکہ انسان اپنے انجام سے غافل نہ ہو۔[25]

جشنِ تکلیف

تاریخی روایات کے مطابھ، سید ابن طاووس وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے "جشنِ تکلیف" کی بنیاد رکھی اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ انہوں نے اپنی کتاب کَشفُ المَحَجّۃ لِثَمَرۃِ المُہْجَۃ میں اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ روزِ تکلیف کو یاد رکھے، اسے خوشی کے دنوں میں شمار کرے، صدقہ دے اور اس موقع پر خدا کی حمد و ثنا بجا لائے۔

مشہور محدث محمد محمدی ری‌شہری نے "جشنِ تکلیف" کو یومُ اللہ یعنی خدا کا دن قرار دیا اور اس کے انعقاد کو شعائرِ الٰہی کی تعظیم سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابھ، یہ جشن بچوں کے ذہن میں ایک خوشگوار دینی یاد بناتا ہے، جو انہیں آئندہ زندگی میں عبادات کی طرف مائل کرتا ہے۔

ایران میں، دین دار گھرانے اپنے بچوں کے سنِ تکلیف پر جشنِ تکلیف مناتے ہیں، اور شرکاء نَو مکلف بچے یا بچی کو تحائف دیتے ہیں۔ یہ تقریبات مدارس، مساجد اور مزارات میں بھی منعقد کی جاتی ہیں، جہاں بچے اجتماعی طور پر اپنے دینی فرائض سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

تکلیفِ مالایطاق

انسان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف؟ فقہ میں تکلیفِ مالایطاق (یعنی ایسی ذمہ داری جو انسانی طاقت سے باہر ہو) ایک اہم مسئلہ ہے۔

معتزلہ اور امامیہ کے نزدیک، کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف کرنا قبیح (نامناسب) ہے، اور اللہ تعالیٰ، جو کہ حکمت والا ہے، ایسا کام نہیں کرتا۔ اشاعرہ کے نزدیک، اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، اور وہ کسی کو ایسی ذمہ داری بھی دے سکتا ہے جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔

حوالہ جات

  1. بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج1، ص571؛ عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص488۔
  2. برای نمونہ نگاہ کنید بہ ، قدسی، انوار الاصول (تقریرات درس اصول فقہ آیت‌اللہ مکارم شیرازی)، 1428ھ، ج2، ص229۔
  3. حکیم، اصول العامۃ للفقہ المقارن، 1418ھ، ص57۔
  4. جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج1، ص774۔
  5. برای نمونہ نگاہ کنید بہ صدر، دروس فی علم الاصول، 1406ھ، ج1، ص52-53۔
  6. برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص437۔
  7. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص472؛ منتظری، نہایۃ الاصول، 1415ھ، ص174۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص472؛ منتظری، نہایۃ الاصول، 1415ھ، ص174۔
  9. خوانساری، جامع المدارک، 1405ھ، ج2، ص256۔
  10. مشکینی، اصطلاحات الاصول، 1370شمسی، ص12۔
  11. برای نمونہ نگاہ کنید بہ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، مؤسسۃ آل البیت(ع)، ج5، ص16۔
  12. برای نمونہ نگاہ کنید بہ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج5، ص178-179؛ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، ص610۔
  13. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج4، ص416۔
  14. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص29۔
  15. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص29۔
  16. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص31۔
  17. حسینی، العناوین، 1417ھ، ج2، ص714۔
  18. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج13، ص6۔
  19. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363شمسی، ج3، ص39-40؛ خویی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418ھ، ج23، ص119-121۔
  20. برای نمونہ نگاہ کنید بہ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363شمسی، ج 20، ص348۔
  21. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص438۔
  22. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص437-438۔
  23. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص438۔
  24. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج4، ص305۔
  25. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص440-441۔

مآخذ

  • بحرانی، محمد علی صنقور، المعجم الاصولی، قم، انتشارات نقشمسی، 1426ھ۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363شمسی۔
  • تفتازانی، عمر بن مسعود، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1409ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، دارالسلاسل، 1404-1427ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، قم، دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1387شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، 1389شمسی۔
  • حسینی، سید میر عبدالفتاح، العناوین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • حکیم، سید محمدتقی، اصول العامۃ للفقہ المقارن، قم، مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، 1418ھ۔
  • خوانساری، سیداحمد، جامع المدارک فی شرح مختصر النافع، تہران، بی‌نا، 1405ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام خوئی، قم، مؤسسۃ إحياء آثار الامام الخوئی، 1418ھ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجۃ فی ثمرۃ المہجۃ، نجف، منشورات المطبعۃ الحیدریۃ، 1370ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، دروس فی علم الاصول، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، 1406ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • عبدالمنعم، محمود عبدالرحمن، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، قاہرہ، دار الفضیلۃ، 1419ھ۔
  • علامہ حلی، یوسف بن مطہر، کشف المراد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1430ھ۔
  • قدسی، احمد، انوار الاصول (تقریرات درس اصول فقہ آیت‌اللہ مکارم شیرازی)، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1428ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، جشن تکلیف ویژہ پسران، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحديث، 1385شمسی۔
  • مشکینی، علی‌، اصطلاحات الاصول، قم، نشر الہادی، 1371شمسی۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، نشر دانش اسلامی، 1405ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، نہایۃ الاصول (تقریرات درس اصول آیت‌اللہ بروجردی)، تہران، انتشارات تفکر، 1415ھ۔
  • موسوی عاملی، سیدمحمد، مدارک الاحکام، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، بی‌تا۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362شمسی۔
  • نراقی، ملااحمد، مستند الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1415ھ۔