عالم امر

ویکی شیعہ سے
کتاب العوالم الغیبیۃ فی القرآن الکریم، تالیف آیت اللہ سبحانی

عالَم اَمْر علم عرفان کی ایک اصطلاحی ہے جسے بعض عرفاء نے اپنے کلام میں استعمال کیا ہے اور اس سے مراد وہ عالم ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک نہیں ہے۔ عالم امر عالَم خَلق کے مقابلے میں ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک ہے۔ عالم امر پر اعتقاد کا اصل سرچشمہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 54: "أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ"[؟؟] کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی مذکورہ آیت میں خلق اور امر سے دو مستقل عالم مراد نہیں لیتے بلکہ اس سے تخلیق اور حکم کرنے میں خدا کی قدرت مراد لیتے ہیں۔

معانی

عالَم امر اس عالم کو کہا جاتا ہے جو عالم خلق کے برخلاف محسوسات میں سے نہیں ہے لہذا یہ عالم خواس خمسہ کے ذریعے قابل درک نہیں ہے۔[1] گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ فلسفی ملاصدرا کے مطابق خدا نے متعدد عالموں کو خلق فرمایا ہے اور یہ تمام دو عالموں میں خلاصہ ہوتا ہے جو کہ عالم خلق اور عالم امر ہے۔ آپ عالم خلق سے موجودہ دنیا جبکہ عالم امر سے عالم مُجرَّدات مراد لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عالم مجردات صرف باطنی حواس کے ذریعے قابل درک ہے حواس ظاہری کے ذریعے قابل درک نہیں ہے۔[2]

ملاہادی سبزواری کے مطابق عرفاء نے عالم امر کی اصطلاح کو سورہ اعراف کی آیت نمبر 54[3] سے لیئے ہیں۔[4] کتاب "حجت التفاسیر" میں سورہ اِسراء کی آیت نمبر 85 کے ذیل میں عالم خلق اور عالم امر سے بحث کی ہیں جس کے مطابق انسان کا بدن عالم خلق کا جبکہ انسان کی روح عالم امر کا نمونہ ہے۔[5]

خصوصیات

معاصر شیعہ مفسر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق عالم خلق کے برخلاف جس میں موجودات تدریجی طور پر وقوع پذیر ہوتے ہیں، عالم امر میں موجودات آن واحد میں ایک ہی دفعہ وجود میں آتے ہیں۔[6] آیت اللہ مکارم شیرازی اس نظریے کو سورہ یس کی آیت نمبر 82 کی طرف نسبت دیتے ہیں جس کے مطابق خدا جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو جیسے ہی حکم کرے وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔[7]

عالم امر میں موجودات صرف ارادہ الہی اور حکم الہی کے ذریعے وجود میں آتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے وجود میں آنے کے لئے مادی چیزوں جیسے زمان و مکان وغیرہ کی ضرورت ہو؛ اس کے بر خلاف عالم خلق میں کسی موجود کے تحقق پانے کے لئے خاص مادی شرائط کی ضرورت ہوتی ہے۔[8]

موافقین اور مخالفین

بعض مسلمان فلاسفہ عالم خلق کے ساتھ عالم امر کے موجود ہونے کے قائل ہیں۔[9] فیض کاشانی نے بھی اپنی کتاب الصافی میں "لَہُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ"[؟؟]،[10] کی تفسیر میں عالم خلق اور عالم امر میں موجود اختلاف کو بیان کیا ہے۔[11]

لیکن جیسا کہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے قرآن کریم میں لفظ امر کو عالم مادہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے؛ مثلا خود سورہ اعراف کی آیت نمبر 54 جو ان دو عالموں کا اصلی سرچشمہ قرار دیا جاتا ہے، میں سورج، چاند اور ستاروں کو بھی خدا کے امر کے ماتحت قرار دیا گیا ہے۔[12] تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی مذکور‌ہ آیت کی تفسیر میں ایسے کسی عالم کے وجود کے بارے میں کوئی بات کئے بغیر صرف خلق اور امر کے درمیان موجود تفاوت اور اختلاف کو بیان کرتے ہیں۔[13]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. بلاغی، حجۃ التفاسیر، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۸۴.
  2. کلانتری، «چیستی عالم امر در آیات قرآن کریم»، ص۱۵۰.
  3. أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ؛
  4. انصاری شیرازی، دروس شرح منظومہ، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۳۳۵.
  5. بلاغی، حجۃ التفاسیر، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۸۴.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۲۰۷۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۲۰۷۔
  8. بہشتی، «تأملی بر عالم خلق و عالم امر»، ص۱۷۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۲۰۷۔
  10. سورہ اعراف، آیہ ۵۴۔
  11. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۰۵۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۲۰۷۔
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۵۰-۱۵۳۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔
  • انصاری شیرازی، یحیی، دروس شرح منظومہ حکیم متألہ حاج ملاہادی سبزواری، ج۲، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • بلاغی، سیدعبدالحجت، حجۃ التفاسیر و بلاغ الإکسیر، قم، انتشارات حکمت، ۱۳۸۶ھ۔
  • بہشتی، سید محمد، «تأملی بر عالم خلق و عالم امر»، در مجلہ گلستان قرآن، ش۸۸، آبان ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تہران، انتشارات الصدر، ۱۴۱۵ھ۔
  • کلانتری، ابراہیم و حمرا علوی، «چیستی عالم امر در آیات قرآن کریم»، در مجلہ پژوہش‌ہای قرآن و حدیث، ش۱، بہار و تابستان ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔