دعائے عدیلہ

ویکی شیعہ سے
دعا و مناجات

دعائے عَدیلَہ ایسی دعا ہے جس میں صحیح شیعہ عقائد کا ایک دورہ بیان ہوا ہے۔ اس دعا کے مضامین کے مطابق مومن اپنے اعتقادات کو جس طرح وہ زبان پر جاری کر رہا ہے اسی طرح خدا کے یہاں بطور امانت محفوظ رکھتا ہے اور خدا سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ موت کے وقت اسے اسی انداز میں پلٹایا جائے تاکہ وہ صحیح عقیدے کے ساتھ اس دنیا سے چلا جائے۔ اس دعا کو محتضر (وہ شخص جو جانکنی کی حالت میں ہو) کے سرہانے پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حاجی نوری کے مطابق یہ معصومین سے نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ علماء متقدم کی لکھی ہوئ ہے لیکن ثواب کی امید اور اعتقادات کی تثبیت کیلئے پڑهنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عدیلہ کے معنی

"عدیلہ" مادہ "ع ـ د ـ ل" سے عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی حق سے باطل کی طرف پلٹنے کے ہیں اور اس سے یہاں مراد یہ ہے کہ موت کے وقت شیطان، محتضر کے پاس آکر شیطانی وسوسوں کے ذریعے اس کے ایمان کو اس سے چھیننا چاہتا ہے تاکہ وہ کفر کی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے۔ دعائے عدیلہ موت کے وقت ایمان کو محفوظ رکھنے کی دعا ہے۔ اس مقصد کیلئے اسلامی منابع میں اور بھی دعائیں ذکر ہوئی ہیں۔

اس دعا کے پڑھنے کے اوقات

اس دعا کو انسان کو اپنی پوری زندگی میں پڑھتے رہنا چاہئے تاکہ اس کے اعتقادات پختہ ہو جائیں۔ اس دعا کو محتضر کے سرہانے پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے خصوصا یہ کہ اگر خود محتضر بھی اسے پڑھ سکے تو ساتھ تکرار کرنا بہتر ہے۔

یہ دعا مفاتیح الجنان میں دعائے جوشن کبیر سے پہلے آئی ہے۔ حاجی نوری معتقد ہیں کہ یہ دعا معصومین نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ شیعہ علماء کی لکھی ہوئی ہے اور حدیث کی کتابوں میں یہ دعا موجود نہیں ہے۔ البتہ ثواب کی امید اور اعتقادات کی تثبیت کیلئے پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ [1]

دعا کے مضامین

دعائے عدیلہ سے اقتباس

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قَائِما بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ وَ أَنَا الْعَبْدُ الضَّعِيفُ الْمُذْنِبُ الْعَاصِي الْمُحْتَاجُ الْحَقِيرُ أَشْهَدُ لِمُنْعِمِي وَ خَالِقِي وَ رَازِقِي وَ مُكْرِمِي كَمَا شَهِدَ لِذَاتِهِ وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ مِنْ عِبَادِهِ بِأَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ ذُو النِّعَمِ وَ الْإِحْسَانِ وَ الْكَرَمِ وَ الامْتِنَانِ قَادِرٌ أَزَلِيٌّ عَالِمٌ أَبَدِيٌّ حَيٌّ أَحَدِيٌّ مَوْجُودٌ سَرْمَدِيٌّ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ، ... سُبْحَانَهُ مَا أَجَلَّ نَيْلَهُ وَ أَعْظَمَ إِحْسَانَهُ بَعَثَ الْأَنْبِيَاءَ لِيُبَيِّنَ عَدْلَهُ وَ نَصَبَ الْأَوْصِيَاءَ لَيُظْهِرَ طَوْلَهُ وَ فَضْلَهُ وَ جَعَلَنَا مِنْ أُمَّةِ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ خَيْرِ الْأَوْلِيَاءِ وَ أَفْضَلِ الْأَصْفِيَاءِ وَ أَعْلَى الْأَزْكِيَاءِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ، آمَنَّا بِهِ وَ بِمَا دَعَانَا إِلَيْهِ وَ بِالْقُرْآنِ الَّذِي أَنْزَلَهُ عَلَيْهِ وَ بِوَصِيِّهِ الَّذِي نَصَبَهُ يَوْمَ الْغَدِيرِ وَ أَشَارَ بِقَوْلِهِ هَذَا عَلِيٌّ إِلَيْهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ الْأَبْرَارَ وَ الْخُلَفَاءَ الْأَخْيَارَ بَعْدَ الرَّسُولِ الْمُخْتَارِ عَلِيٌّ قَامِعُ الْكُفَّارِ وَ مِنْ بَعْدِهِ سَيِّدُ أَوْلادِهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ أَخُوهُ السِّبْطُ التَّابِعُ لِمَرْضَاةِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ ثُمَّ الْعَابِدُ عَلِيٌّ ثُمَّ الْبَاقِرُ مُحَمَّدٌ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرٌ...

یہ دعا خدا کی وحدانیت کی گواہی سے شروع ہوتی ہے اور یہ کہ خدا کے نزدیک قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَ الْمَلائِکةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قَائِما بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکیمُ، إنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللّهِ الْاِسْلامُ، (ترجمہ: خدا گواہ ہے کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں نیز ملائکہ اور با انصاف صاحبان علم بھی اس پر گواہی دے رہے ہیں کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں جو صاحب عزت حکمت والا ہے یقینا خدا کا پسندیدہ دین اسلام ہی ہے)۔.... خدایا میں اقرار کرتا ہوں کہ تیرے بے کراں لطف و کرم کے مقابلے میں میں نے کوتاہی کی ہے۔ وہ خدا جس نے انسان کو مکلف بنایا تاکہ سب خدا کے واجبات کو انجام دے سکیں اور حرام کے ترک کرنے کا راستہ بھی آسان کر دیا تاکہ سب اسے ترک کر سکیں۔

اس بات کا اقرار کہ خدا نے انبیاء بھیجے تاکہ عدل و انصاف کو قائم کر سکیں اور خدا کی نعمتوں کو بندوں پر واضح کر سکیں۔ پیغمبر خاتم(ص)، ان پر نازل ہونے والی کتاب قرآن اور ان کے وصی حضرت علی(ع) کہ جن کا اعلان غدیر کے دن کیا گیا، پر ایمان لانے کا اقرار۔ تمام ائمہ معصومین یہاں تک کہ امام زمانہ جس کے ہم سب منتظر ہیں، پر ایمان لانے کا اقرار۔ ان کے وجود کی بدولت دنیا قائم ہے اور آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے ان کے طفیل رزق کھا رہے ہیں، ان کے ہی ذریعے زمین پر عدل قائم ہو گا ان کا کلام میرے اوپر حجت ہے اور ان کی اطاعت میرے اوپر واجب ہے۔ ان کی مودت ضروری ہے اور ان کی اطاعت نجات دہندہ اور ان کی مخالفت ہلاکت میں ڈال دینے والی ہے۔ قبر میں ہونے والے سوال و جواب اور قبر سے دوبارہ اٹھایا جانا حق اور حقیقت پر مبنی ہے۔

آخر میں یہ اظہار کیا جاتا ہے کہ ان اعتقادات کو خدا کے یہاں بطور امانت رکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ بہترین امانت دار ہے اور خدا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ موت کے وقت ان اعتقادات کو صحیح انداز میں ہمیں واپس کرے تاکہ اس مشکل وقت میں صحیح ایمان اور اعتقادات کے ساتھ اس دنیا سے جائے اور شیطان ہم سے ہمارا ایمان چھین نہ سکے: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِک مِنَ الْعَدِیلَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ۔

دعائے عدیلہ صغیر

کتاب زاد المعاد میں«دعائے عدیلہ صغیر» کے نام سے ایک دعا ہے جو مختصر ہے اور انہی مندرجات پر مشتمل ہے: [2]
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ رَضِیتُ بِاللَّهِ رَبّاً وَ بِالْإِسْلَامِ دِیناً وَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نَبِیاً وَ بِالْقُرْآنِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ کتَاباً وَ بِالْکعْبَةِ قِبْلَةً وَ بِالصَّلَاةِ فَرِیضَةً وَ بِعَلِی علیه‌السلام إِمَاماً وَ بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ وَ عَلِی بْنِ الْحُسَینِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِی بْنِ مُوسَی وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی وَ عَلِی بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی وَ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ الْعَصْرِ وَ الزَّمَانِ وَ خَلِیفَةِ الرَّحْمَنِ وَ مَظْهَرِ الْإِیمَانِ سَیدِ الْإِنْسِ وَ الْجَانِّ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَ سَلَامُهُ عَلَیهِ‏ وَ عَلَیهِمْ أَجْمَعِینَ، أَئِمَّةً وَ سَادَةً. یا اللَّهُ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ إِنِّی أَوْدَعْتُک یقِینِی هَذَا الْإِقْرَارَ بِک وَ بِالنَّبِی وَ الْأَئِمَّةِ عَلَیهِمُ السَّلَامُ وَ أَنْتَ خَیرُ مُسْتَوْدَعٍ فَرُدَّهُ عَلَی وَقْتَ سُؤَالِ مُنْکرٍ وَ نَکیرٍ بِرَحْمَتِک یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ وَ صَلَّی اللَّهُ عَلَی سَیدِنَا وَ نَبِینَا مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّیبِینَ الطَّاهِرِینَ. ترجمہ: میں راضی ہوں اس پر کہ ﷲ میرا رب اور حضرت محمدؐ میرے نبی ہیں اسلام میرا دین ہے قرآن میری کتاب ہے کعبہ میرا قبلہ ہے اور راضی ہوں اس پر کہ علی علیہ السلام میرے مولا اور امام ہیں نیز حسنؑ و حسینؑ، علیؑ ابن حسینؑ ، محمدؑ ابن علیؑ، جعفرؑ ابن محمدؑ ، موسیٰؑ ابن جعفرؑ ، علیؑ ابن موسیٰؑ، محمدؑ ابن علیؑ ، علیؑ ابن محمدؑ حسنؑ ابن علیؑ، اور حجتؑ بن حسنؑ کہ ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں میرے امام ہیں اے معبود میں راضی ہوں کہ وہ میرے امامؑ ہیں پس انہیں مجھ سے راضی فرمادے بے شک توہر چیز پرقادر ہے

مربوط کتابیں

  • شرح حکمی و عرفانی دعائے عدیلہ، بقلم محمد ابراهیم سبزواری، ناشر: انصاری–قم، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.

دعائے عدیلہ کا متن اور ترجمہ

دعائے عدیلہ
متن ترجمه
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
شَھِدَ اللّهُ ٲَنَّہُ لاَ إلہَ إلاَّ ھُوَ وَالْمَلائِکَۃُ وَ ٲُولُوا الْعِلْمِ قَائِماً بِالْقِسْطِ لاَ إلہَ إلاَّ
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
خدا گواہ ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں نیز ملائکہ اور با انصاف صاحبان علم بھی اس پر گواہی دے رہے ہیں کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں
ھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ، إنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللّهِ الْاِسْلامُ، وَٲَ نَا الْعَبْدُ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ الْعاصِی جو صاحب عزت حکمت والا ہے یقینا خدا کاپسندیدہ دین اسلام ہی ہے اور میں جو ایک ناتواں گنہگار خطاکار
الْمُحْتاجُ الْحَقِیرُ، ٲَشْھَدُ لِمُنْعِمِی وَخالِقِی وَرازِقِی وَمُکْرِمِی کَما شَھِدَ لِذاتِہِ، حاجت مند اور بے مایہ بندہ ہوں میں اپنے منعم ، خالق ، رازق اور اپنے کرم فرما خدا کی گواہی دیتا ہوں، جیسے اس نے اپنی ذات کی گواہی دی ہے
وَشَھِدَتْ لَہُ الْمَلائِکَۃُ وَٲُولُوا الْعِلْمِ مِنْ عِبادِھِ، بِٲَنَّہُ لاَ إلہَ إلاَّ ھُوَ ذُو النِّعَمِ وَالْاِحْسانِ، نیز ملائکہ اور صاحب علم بندوں نے بھی اسکی گواہی دی ہے کہ سوائے اسکے کوئی معبود نہیں جو نعمت، احسان
وَالْکَرَمِ وَالْاِمْتِنانِ، قادِرٌ ٲَزَلِیٌّ، عالِمٌ ٲَبَدِیٌّ، حَیٌّ ٲَحَدِیٌّ، مَوْجُودٌ سَرْمَدِیٌّ، سَمِیعٌ بَصِیرٌ و کرم اور عطا کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ سے صاحب قدرت اور دائمی صاحب علم ،زندہ ،یکتا اور ہمیشگی والاموجود ہے سننے والا دیکھنے والا
مُرِیدٌ کارِہٌ، مُدْرِکٌ صَمَدِیٌّ، یَسْتَحِقُّ ھَذِھِ الصِّفاتِ وَھُوَ عَلَی ما ھُوَ عَلَیْہِ فِی عِزِّ ارادے والا ناپسند کرنے والا پا لینے والا بے نیاز ہے وہ ان صفات کا صحیح حقدار ہے اور وہ دیگر صفات کا بھی
صِفاتِہِ، کَانَ قَوِیّاً قَبْلَ وُجُودِ الْقُدْرَۃِ وَالْقُوَّۃِ، وَکانَ عَلِیماً قَبْلَ إیجادِ الْعِلْمِ وَالْعِلَّۃِ، لَمْ مالک ہے جو بہت بڑی صفات ہیں کہ قدرت اور قوت کے وجود میں آنے سے قبل وہ صاحب قوت تھا اور وہ صاحب علم تھا علم اور
یَزَلْ سُلْطاناً إذْ لاَ مَمْلَکَۃَ وَلاَ مالَ، وَلَمْ یَزَلْ سُبْحَاناً عَلی جَمِیعِ الْاَحْوالِ، وُجُودُھُ قَبْلَ دلیل کی ایجاد سے پہلے وہ مستقل سلطان تھا جب نہ کوئی ملک تھا اور نہ مال ، وہ لا زوال پاکیزہ تھا ہر ہر حال میں کہ اس کا وجود قبل سے
الْقَبْلِ فِی ٲَزَلِ الاَْزالِ، وَبَقاؤُھُ بَعْدَ الْبَعْدِ مِنْ غَیْرِ انْتِقالٍ وَلاَ زَوالٍ، غَنِیٌّ فِی الْاَوَّلِ قبل اور ازلوں کے ازل سے ہے اور اس کی بقا بعد سے بعد ہے کہ جسمیں نہ تبدیلی ہے نہ زوال وہ اول و آخر سے
وَالاَْخِرِ، مُسْتَغْنٍ فِی الْباطِنِ وَالظَّاھِرِ، لاَ جَوْرَ فِی قَضِیَّتِہِ، ولاَ مَیْلَ فِی مَشِیئَتِہِ، وَلاَ ظُلْمَ بے نیاز اور ظاہر و باطن میں بے پرواہ ہے اسکے فیصلے میں ظلم نہیں اور اسکی مرضی میں طرفداری نہیں ہے اسکی تقدیر میں
فِی تَقْدِیرِھِ وَلاَ مَھْرَبَ مِنْ حُکُومَتِہِ وَلاَ مَلْجَٲَ مِنْ سَطَواتِہِ وَلاَ مَنْجیً مِنْ نَقِماتِہِ، سَبَقَتْ ستم نہیں اور اسکی حکومت سے فرار ممکن نہیں اسکا قہر آئے تو کوئی پناہ نہیں اور وہ عذاب کرے تو نجات نہیں اسکی
رَحْمَتُہُ غَضَبَہُ وَلاَ یَفُوتُہُ ٲَحَدٌ إذا طَلَبَہُ، ٲَزاحَ الْعِلَلَ فِی التَّکْلِیفِ، وَسَوَّی التَّوْفِیقَ بَیْنَ رحمت ،غضب سے پہلے ہے جسے وہ طلب کرے وہ فرار نہیں کرسکتا اس نے فریضوں میں اضداد دور کر دیں اور توفیق دینے میں
الضَّعِیفِ وَالشَّرِیفِ، مَکَّنَ ٲَدائَ الْمَٲْمُورِ، وَسَہَّلَ سَبِیلَ اجْتِنابِ الْمَحْظُورِ، لَمْ یُکَلِّفِ ادنیٰ و اعلیٰ میں برابری رکھی ہے حکم کردہ باتوں پر عمل کو ممکن اور گناہ سے بچنے کا راستہ آسان کردیا ہے اس نے وسعت
الطَّاعَۃَ إلاَّ دُونَ الْوُسْعِ وَالطَّاقَۃِ سُبْحانَہُ مَا ٲَبْیَنَ کَرَمَہُ وَٲَعْلَی شَٲْنَہُ سُبْحانَہُ مَا ٲَجَلَّ نَیْلَہُ و طاقت سے کمتر فریضے عائد کیئے ہیں پاک ہے وہ جسکا کرم کتنا واضح اور شان کتنی بلند ہے پاک ہے وہ کہ جسکا نام کتنا عمدہ
وَٲَعْظَمَ إحْسانَہُ بَعَثَ الْاَنْبِیائَ لِیُبَیِّنَ عَدْلَہُ، وَنَصَبَ الْاَوْصِیائَ لِیُظْھِرَ طَوْلَہُ وَفَضْلَہُ، اور احسان کتنا بڑا ہے اس نے اپنے عدل کی تشریح کیلئے انبیائ بھیجے اور اپنے فضل و کرم کے اظہار کی خاطر اوصیائ کو مامور فرمایا
وَجَعَلَنا مِنْ ٲُمَّۃِ سَیِّدِ الْاَنْبِیائِ وَخَیْرِ الْاَوْ لِیائِ وَٲَفْضَلِ الْاَصْفِیائِ وَٲَعْلَی الْاَزْکِیائِ مُحَمَّدٍ اور ہمیں نبیوں کے سردار ولیوں میں بہتر برگزیدوں میں سب سے افضل اور پاکبازوں میں سب سے بلند حضرت محمد(ص)
صَلَّی اللّهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَسَلَّمَ، آمَنَّا بِہِ وَبِما دَعانا إلَیْہِ، وَبِالْقُرْآنِ الَّذِی ٲَنْزَلَہُ عَلَیْہِ وَبِوَصِیِّہِ کی امت میں قرار دیا ہم ان پر ایمان لائے اور انکے پیغام پر اور قرآن پر جو ان پر نازل ہوا اور انکے جانشین پر
الَّذِی نَصَبَہُ یَوْمَ الْغَدِیرِ وَٲَشارَ بِقَوْلِہِ ہذا عَلِیٌّ إلَیْہِ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ الْاَئِمَّۃَ الْاَ بْرارَ وَالْخُلَفائَ جسے انہوں نے یوم غدیر مقرر کیا اور اپنی زبان سے فرمایا کہ یہ ہے علی(ع) جو میرا وصی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت رسول(ص) کے بعد
الْاَخْیارَ بَعْدَ الرَّسُولِ الْمُخْتارِ عَلِیٌّ قامِعُ الْکُفّارِ وَمِنْ بَعْدِھِ سَیِّدُ ٲَوْلادِھِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ نیکوکار امام(ع) اور بہترین جانشین ہیں جن میں علی(ع) ہی کافروں کو ختم کرنے والے ہیں اور انکے بعد انکی اولاد کے سردار حسن(ع) بن علی(ع)
ثُمَّ ٲَخُوھُ السِّبْطُ التَّابِعُ لِمَرْضاۃِ اللّهِ الْحُسَیْنُ ثُمَّ الْعابِدُ عَلِیٌّ ثُمَّ الْباقِرُ مُحَمَّدٌ ثُمَّ الصّادِقُ پھر انکے بھائی نواسہ رسول(ص)، اللہ کی رضاؤں کے طلبگار حسین(ع) ہیں پھر علی(ع) بن الحسین(ع) پھر محمد باقر(ع)پھر جعفر
جَعْفَرٌ، ثُمَّ الْکَاظِمُ مُوسی، ثُمَّ الرِّضا عَلِیٌّ، ثُمَّ التَّقِیُّ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ النَّقِیُّ عَلِیٌّ، ثُمَّ الزَّکِیُّ صادق(ع) پھر موسیٰ کاظم(ع) پھر علی رضا(ع) پھر محمد تقی(ع) ہیں انکے بعد علی نقی(ع) ہیں پھر حسن عسکری
الْعَسْکَرِیُّ الْحَسَنُ، ثُمَّ الْحُجَّۃُ الْخَلَفُ الْقائِمُ الْمُنْتَظَرُ الْمَھْدِیُّ الْمُرْجَی الَّذِی بِبَقائِہِ زکی(ع) ہیں پھر حضرت حجت خلف قائم المنتظر مہدی(ع) امیدگاہ خلق ہیں جنکی بقائ سے
بَقِیَتِ الدُّنْیا، وَبِیُمْنِہِ رُزِقَ الْوَری، وَبِوُجُودِھِ ثَبَتَتِ الْاَرْضُ وَالسَّمائُ، وَبِہِ یَمْلاُئ دنیا قائم ہے اور انکی برکت سے مخلوق کو روزی ملتی ہے اور انکے وجود سے زمین و آسمان کھڑے ہیں اور انکے ذریعے اﷲ تعالیٰ
اللّهُ الْاَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً بَعْدَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ ٲَقْوالَھُمْ حُجَّۃٌ وَامْتِثالَھُمْ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیگا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی میں گواہی دیتا ہوں کہ ان آئمہ کے اقوال حجت، ان پر عمل کرنا
فَرِیضَۃٌ وَطاعَتَھُمْ مَفْرُوضَۃٌ وَمَوَدَّتَھُمْ لازِمَۃٌ مَقْضِیَّۃٌ وَالْاِقْتِدائَ بِھِمْ مُنْجِیَۃٌ وَمُخالَفَتَھُمْ واجب اور انکی پیروی فرض ہے اور ان سے محبت رکھنا ضروری و لازم ہے انکی اطاعت باعث نجات اور ان سے مخالفت
مُرْدِیَۃٌ، وَھُمْ سَاداتُ ٲَھْلِ الْجَنَّۃِ ٲَجْمَعِینَ، وَشُفَعائُ یَوْمِ الدِّینِ، وَٲَئِمَّۃُ ٲَھْلِ الْاَرْضِ عَلَی وجہ تباہی ہے اور وہ سب کے سب اہل جنت کے سردار ہیں قیامت میں شفاعت کرنے والے اور یقینی طور پر اہل زمین کے امام(ع)
الْیَقِینِ وَٲَ فْضَلُ الْاَوْصِیائِ الْمَرْضِیِّینَ وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَمُسائَلَۃَ الْقَبْرِ حَقٌّ وَالْبَعْثَ ہیں وہ پسندیدہ اوصیائ میں سے افضل ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ موت حق ہے قبر میں سوال و جواب حق ہیں دوبارہ اٹھنا
حَقٌّ، وَالنُّشُورَ حَقٌّ، وَالصِّراطَ حَقٌّ، وَالْمِیزانَ حَقٌّ، وَالْحِسابَ حَقٌّ، وَالْکِتابَ حَقٌّ، حق ہے قیامت میں حاضری حق ہے صراط سے گزرنا حق ہے میزان عمل حق ہے حساب حق ہے اور کتاب حق ہے
وَ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، وَٲَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لاَ رَیْبَ فِیہا، وَٲَنَّ اللّهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ ۔ اسی طرح جنت حق ہے اور جہنم حق ہے نیز قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ انہیں ضرور اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں
اَللّٰھُمَّ فَضْلُکَ رَجَائِی، وَکَرَمُکَ وَرَحْمَتُکَ ٲَمَلِی، لاَ عَمَلَ لِی ٲَسْتَحِقُّ بِہِ الْجَنَّۃَ، وَلاَ اے معبود! تیرا فضل میرا سہارا اور تیری رحمت و بخشش میری امید ہے میرا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے میں جنت کا حقدا ر بنوں اور نہ
طاعَۃَ لِی ٲَسْتَوْجِبُ بِھَا الرِّضْوانَ إلاَّ ٲَنِّی اعْتَقَدْتُ تَوْحِیدَکَ وَعَدْلَکَ، وَارْتَجَیْتُ عبادت ہے کہ جو تیری خوشنودی کا باعث ہو سوائے اسکے کہ میں تیری توحید و عدل پر اعتقاد رکھتا ہوںاور تیرے فضل و
إحْسانَکَ وَفَضْلَکَ وَتَشَفَّعْتُ إلَیْکَ بِالنَّبِیِّ وَآلِہِ مِنْ ٲَحِبَّتِکَ وَٲَنْتَ ٲَکْرَمُ الاَْکْرَمِینَ احسان کی امید رکھتا ہوں اور تیرے حضور تیرے نبی(ص) اور انکی آل(ع) کی شفاعت لایا ہوں جو تیرے محبوب ہیں اور تو سب سے زیادہ کرم کرنے والا
وَٲَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ، وَصَلَّی اللّهُ عَلی نَبِیِّنا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ ٲَجْمَعِینَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ اور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہمارے نبی محمد(ص) پر اور انکی ساری آل(ع) پر خدا کی رحمت ہو جو پاک و پاکیزہ ہیں اور ان پر سلام ہو
تَسْلِیماً کَثِیراً کَثِیراً، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاللّهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ اَللّٰھُمَّ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ سلام ِخاص زیادہ بہت زیادہ اور نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند وبرتر خدا سے ملتی ہے اے معبود اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
إنِّی ٲَوْدَعْتُکَ یَقِینِی ہذَا وَثَباتَ دِینِی وَٲَ نْتَ خَیْرُ مُسْتَوْدَعٍ، وَقَدْ ٲَمَرْتَنا بِحِفْظِ بے شک میں اپنا یہ عقیدہ اوردین میں ثابت قدمی تیرے سپرد کرتا ہوں اور تو بہترین امانتدار ہے اور تو نے ہمیں امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے
الْوَدائِعِ فَرُدَّھُ عَلَیَّ وَقْتَ حُضُورِ مَوْتِی بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔ پس اپنی رحمت سے میرا یہ عقیدہ بوقت مرگ مجھے یاد دلادینا واسطہ تجھے تیری رحمت کا اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

بیرونی رابطہ


حوالہ جات

  1. مفاتیح الجنان، ذیل دعائے عدیلہ
  2. زاد المعاد، ص۴۲۵