عامر بن واثلہ

ویکی شیعہ سے
عامر بن واثلہ
کوائف
مکمل نامعامر بن واثلہ کنانی
کنیتابو طفیل
تاریخ پیدائش٣ ہجری قمری
محل زندگیمدینہ، کوفہ، مداین، مکہ
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجمل، صفین، نہروان
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ و امام علیؑ کے صحابی


اَبو طُفَیل عامر بن واثِلَہ کِنانی، (ولادت 3 ہجری) پیغمبر اکرم (ص) کے صحابی اور جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں امام علی (ع) کی فوج کے سپاہیوں میں سے تھے۔

ابو طفیل خون امام حسین (ع) کے انتقام کے لئے کئے مختار ثقفی کے قیام میں سپاہ کے سرداروں میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ عبد الرحمن بن محمد بن اسعث کے خلاف قیام میں بھی شرکت کی تھی۔

انہوں نے پیغمبر اسلام (ص)، امام علی (ع)، امام حسن مجتبی (ع) اور امام سجاد (ع) سے روایات نقل کی ہیں۔ وہ سخنور اور شاعر بھی تھے۔ ان کے اشعار شائع ہو چکے ہیں۔

حضرت علی کے دور میں

ابو طفیل جنگ احد والے سال سنہ 3 ہجری میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی عمر کے آخری آٹھ برسوں کو درک کیا۔[1]

حذیفہ بن یمان کے زمانہ میں وہ کوفہ اور اس کے بعد مدائن گئے۔ انہوں نے مدتوں حضرت علی (ع) کی مصاحبت میں زندگی بسر کی اور ان کا شمار آپ کے باوفا اصحاب اور ان لوگوں میں ہوتا تھا جو آپ سے کسب علم کرتے تھے اور انہوں نے حضرت علی (ع) کی تمام جنگوں میں ان کی ہمراہی کی۔[2]

امام علی (ع) کی شہادت کے بعد وہ مکہ لوٹ گئے اور آخر عمر تک وہیں مقیم رہے۔[3]

قیام مختار

سنہ 65 ھ میں عبد اللہ بن زبیر نے محمد حنفیہ سے بیعت طلب کی۔ جب انہوں نے انکار کر دیا تو اس نے انہیں ان کے بعض اصحاب جن میں ابو طفیل بھی شامل تھے، کے ساتھ شعب بنی ہاشم میں قید کر دیا۔

ابو طفیل مختار بن ابی عبید ثقفی کے قیام تک قید میں تھے۔[4] انہوں نے مختار کے انتقام خون حسینی کے قیام میں ان کا ساتھ دیا اور ان کے فوج کے سرداروں میں سے تھے۔[5]

انہیں قیام مختار میں شرکت کے سبب کیسانیہ مذہب خیال کرتے ہیں۔[6] البتہ ان کا اس قیام میں شرکت کرنا ان کے کیسانی مذہب ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔[7]

ابو طفیل نے جیسا کہ خود معاویہ کی محفل میں کہا کہ وہ قتل عثمان کے واقعہ میں حاضر ضرور تھے لیکن اس میں شرکت نہیں کی تھی۔[8] البتہ وہ حضرت علی (ع) سے اپنی خلل نا پذیر محبت پر تاکید کرتے ہیں۔[9]

انہوں نے اور ان کے بیٹے حجاج کے خلاف ہونے والے عبد الرحمن بن محمد بن اشعث کے قیام میں شرکت کی تھی اور اس جنگ میں جو ان کے درمیان سنہ 82 ھ میں واقع ہوئی اس میں ان کا بیٹا قتل کر دیا گیا اور ابو طفیل نے بیٹے کی موت پر مرثیہ نظم کیا۔[10]

نقل احادیث

انہوں نے پیغمبر اکرم (ص)[11] سے بعض احادیث نقل کی ہیں جبکہ حضرت خدیجہ، معاذ بن جبل و عبد اللہ بن مسعود[12] جیسے صحابہ سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ نیز حضرت علی (ع)، امام حسن مجتبی (ع) و امام سجاد (ع) سے بھی احادیث نقل کی ہیں۔

اسی طرح سے اس روایت کے مطابق جو الکافی میں ذکر ہوئی ہے انہوں نے امام باقر (ع) اور اس حدیث کے مطابق جو علل الشرائع میں نقل ہوئی ہے انہوں نے امام جعفر صادق (ع) سے بھی روایت نقل کی ہے جو بدیہی ہے کہ امام صادق (ع) سے منقول روایت ان کی امامت سے پہلے اور امام محمد باقر (ع) کے دور امامت سے تعلق رکھتی ہے۔[13]

ادبی شخصیت

ابو طفیل سخنور اور فصیح انسان تھے۔ ان کی سخنوری کا ایک نمونہ جو انہوں نے معاویہ کی بزم میں پیش کیا تھا،[14] کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان کے اشعار عرب کے عہد جاہلیت کے دور کی طرح منسجم و حماسی اور غالبا فخر و مباہات اور رثائی ادب پر مشتمل ہیں۔ ان کے اشعار کے نمونے ادبی کتابوں میں متفرق و پراکندہ شکل میں ذکر ہوئے ہیں۔[15]

ان کا دیوان جو مختصر ہے اسے ایک جرمن محقق نے طرماح بن حکیم طائی کے دیوان کے ساتھ طبع کیا ہے اور کرنکو نامی شخص نے ان دونوں کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہے۔[16]

عبد العزیز بن یحیی جلودی (متوفی 302 ھ) نے ایک کتاب اخبار ابی الطفیل کے نام سے ان کی سر گذشت کے سلسلہ میں تالیف کی ہے۔[17] طیب عشاش تونسی نے اس کتاب اور ان کے اشعار کو 37 صفحات میں حولیات الجامعۃ النونسیۃ کے نام سے سنہ 1973ء میں طبع کیا ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. التاریخ الکبیر، ج۳ (۲)، ص۴۴۶؛ النجوم، ج۱، ص۲۴۳؛ المعارف، ص۳۴۱؛ کتاب الثقات، ج۳، ص۲۹۱؛ طبقات الفقہا، ص۵۳؛ تہذیب التهذیب، ج۳، ص۸۲
  2. یعقوبی، ج۲، ص۲۱۳-۲۱۴؛ المعارف، ص۳۴۱؛ الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۴، ص۱۶۹۶؛ تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۹۸
  3. تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۹۸، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۴، ص۱۶۹۶
  4. تاریخ، ج۱، ص۳۳۰
  5. المعارف، ص۳۴۱؛ نیز نک: البدایة، ج۹، ص۱۹۹
  6. اختیار معرفہ الرجل، ۹۵
  7. برای تفصیل، نک: الکیسانیه فی التاریخ و الأدب، ۳۰۹ ۳۱۱
  8. انساب الاشراف، ج۴، ص۹۲
  9. الاغانی، ج۱۳، ص۱۶۷
  10. الکامل، ج۴، ص۴۶ ۴۶۲، ص۴۶۷ ۴۶۸
  11. الکامل فی ضعفاء الرجل، ج۵، ص۱۷۴۱؛ الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۲، ص۷۹۹
  12. تہذیب التہذیب، ج۳، ص۸۲
  13. تکملہ الرجال، ج۲، ص۴
  14. نک‌: المعارف، ص۳۴۱؛ قاموس الرجال، ج۵، ص۲۰۱ ۲۰۲
  15. اخبار شعراء الشیعہ، ص۲۵ ۲۷؛ الاغانی، ج۱۳، ص۱۶۷ ۱۶۹؛ اعیان الشیعہ، ج۷، ص۴۰۸
  16. الذریعہ، ج۹ (۱)، ص۴۳؛ بنگرید، زرکلی، الاعلام، ج۵، ص۱۴۴
  17. الذریعہ، ج۱، ص۳۱۷
  18. زرکلی، اعلام، ج۳، ص۲۵۶

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ
  • ابن اثیر، الکامل.
  • ابن تعزی بردی، النجوم
  • ابن حبان، محمد، کتاب الثقات، حیدر آباد دکن، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷ ع
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التهذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۶ ق
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۰ع
  • ابن عدی جرجانی، عبد الله، الکامل فی ضعفاء الرجل، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ع
  • ابن قتیبہ، عبد الله بن مسلم، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشه، قاهره، ۱۹۶۰ع
  • ابن کثیر، البدایہ
  • ابو اسحاق شیرازی، طبقات الفقها، بہ کوشش احسان عباس، بیرون، ۱۴۰۰ ق/۱۹۷۹ع
  • ابو الفرج اصفهانی، الاغانی، بولاق، ۱۲۸۵ ق
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ع
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰ ع
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بہ کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ ق/۱۹۷۹ع
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تہران، ۱۳۸۲ ق/ ۱۹۶۲ ع
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، قاہره، ۱۳۴۹ ق
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۷ع
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۹ع
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفت الرجل، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشهد، ۱۳۴۸ش
  • قاضی، وداد، الکیسانیہ فی التاریخ و الأدب، بیروت، ۱۹۷۴ع
  • کاظمی، عبد النبی، تکملة الرجال، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، مطبعہ الآداب
  • مرزبانی، محمد بن عمران، اخبار شعراء الشیعہ، تلخیص محسن امین، بہ کوشش محمد ہادی امینی، نجف، ۱۳۸۸ق/۱۹۶۸ع
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ، بیروت، ‌دار صادر