سدانت کعبہ

ویکی شیعہ سے

سِدانَت کعبہ، خانہ کعبہ سے متعلق مختلف امور کی انجام دہی کو کہا جاتا ہے جس میں خانہ‌کعبہ‌ کی کلید برداری، دروازہ کھولنا اور بند کرنا، پردوں کی تبدیلی اور ان کی صفائی نیز زائرین کا استقبال جیسے امور شامل ہیں۔

اسلام سے پہلے کعبے کی کلید برداری کا منصب بنی شیبہ کے پاس تھا۔ حضرت محمدؐ نے فتح مکہ کے بعد یہ منصب عثمان بن طلحہ کے پاس باقی رکھا اور رسول خداؐ کے فرمان کے مطابق کلید برداری کی یہ ذمہ داری بعد میں بھی اس خاندان کے پاس ہی رہی۔

تاریخی منابع کے مطابق عباس بن عبد المطلب نے حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری نبھانے کی خاطر خود کو دوسروں سے برتر سمجھا۔ شیبہ نے بھی خانہ کعبہ کی کلید برداری کا منصب اپنے پاس دیکھ کر خود کو برتر سمجھا۔ لیکن امام علیؑ نے ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت، مدینہ کی جانب ہجرت اور راہ خدا میں جہاد جیسے اعمال کو سامنے رکھ کر اپنی برتری کا اعلان کیا۔ اسی دوران سورہ توبہ کی آیت 19 نازل ہوئی اور ایمان و راہ خدا میں جہاد کرنے کو خانہ کعبہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے زیادہ برتر قرار دیا گیا۔

تعارف

سدانت کعبہ کے معنی خانہ کعبہ کی خدمت[1] کرنا اور اس کے مختلف امور جیسے کعبہ کے دروازے کو کھولنا اور بند کرنا،[2] زائرین خانہ خدا کا استقبال کرنا، اس کی صفائی کرنا اور کعبے کے پردے کو تبدیل کرنا وغیرہ انجام دینا ہے۔[3]

کعبے کا تالا اور چابی

کعبہ کی کلید برداری کا منصب بھی اسی شخص کے پاس ہوتا ہے جس کے پاس اس کی خدمت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔[4] کعبے کی نسبت یہ منصب قدیم زمانوں سے چلتا آرہا ہے یہاں تک کہ بعض اس کے تاریخی پس منظر کو حضرت اسماعیل کے دوران سے ملاتے ہیں۔[5] فتح مکہ کے بعد حضرت رسول خداؐ نے صرف دو قسم کے مناصب کو پرانے زمانے کے تحت باقی رکھا؛ ایک کعبے کی کلید برداری اور خدمت کا منصب اور دوسرا سقایۃ الحاج کا منصب۔[6]

خاندان بنی شیبہ اور کلید برداری کعبہ کی ذمہ داری

اسلام سے پہلے کعبے کی کلید برداری کا منصب بنی‌ شَيْبَہ کے پاس تھا۔[7] پیغمبر اسلامؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے زمانے کے کلید برادار کعبہ عثمان بن طلحہ سے چابی لی اور کعبے کے اندر گئے، پھر چابی اسے واپس کردی اور فرمایا: کعبے کی چابی اسی خاندان میں باقی رہی چاہیے اور سوائے ظالم شخص کے کوئی اور کعبے کی چابی ان سے نہیں لے گا۔[8] اس کے بعد بھی رواج یہی رہا کہ کعبے کی کلید برداری کا منصب ہمیشہ کے لیے اسی خاندان کے افراد کے پاس ہی رہا۔[9]

بعض تاریخی نقل کے مطابق پیغمبر خداؐ نے عثمان بن طلحہ سے کعبے کی چابی لینے کے بعد اسے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کو دینا چاہا؛ لیکن فورا آیت: «بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کردو[10]» نازل ہوئی اور پیغمبرؐ نے چابی عثمان بن طلحہ کو واپس کردی۔[11]

سنہ 2013ء میں بنی شیبہ کے لوگوں نے سعودی حکومت پر اعتراض کرتے ہوئے اعلان کیا کہ خاندان بنی شیبہ پوری تاریخ میں کعبہ کی کلید برداری اور اس کی پردہ داری کے بدولت ملنے والے بہت سے فوائد سے محروم ہیں۔[12]

خدمتِ کعبہ پر ایمان اور جہاد کی برتری

مفسر اہل سنت طبری کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کعبے کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے منصب ملنے پر فخر کرنے والوں کی سرزنش کی ہے اور ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو ان پر برتر قرار دیا ہے۔[13]

تاریخی نقل کے مطابق ایک دن رسول خداؐ کے چچا عباس نے سقایۃ الحاج کی وجہ سے خود کو دوسروں سے برتر سمجھا۔ شیبۃ جو کہ حجابت کعبہ یعنی (سدانت کعبہ[14]) کا عہدہ اپنے پاس پا کر خود کو دوسروں سے برتر سمجھا اور حضرت حمزہ نے خود کو عمارت کعبہ کی ذمہ داری اپنے پاس ہونے کی وجہ سے برتر محسوس کیا۔ لیکن حضرت علیؑ نے ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت اور راہ خدا میں جہاد جیسے عمل کی وجہ سے خود کو برتر اعلان کیا۔ آیت سقایۃ الحاج نازل ہوئی: «کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آباد کاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جس نے اللہ اور روز قیامت پر ایمان لایا اور راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا![15]» نازل شد[16] اور ایمان اور راہ خدا میں جہاد کعبہ سے متعلق ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے زیادہ برتر ہے۔[17]

بعض تاریخی نقل کے مطابق علیؑ، حمزہ اور جعفر بن ابی‌ طالب ان افراد میں سے ہیں جن کے ایمان اور راہ خدا میں جہاد کو کعبہ سے متعلق امور کی انجام دہی سے زیادہ برتر قرار دیا گیا ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج13، ص207.
  2. واسطی زبیدی، تاج العروس، 1414ھ، ج18، ص276.
  3. شوابکہ، «ما ہی سدانة الکعبة»، سایت موضوع.
  4. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج1، ص298.
  5. شوابکہ، «ما ہی سدانة الکعبة»، سایت موضوع.
  6. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، بیروت، ج2، ص412.
  7. ابن‌اثیر، أسد الغابة، 1409ھ، ج2، ص383.
  8. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص394.
  9. شوابکہ، «ما ہی سدانة الکعبة»، سایت موضوع.
  10. سورہ نساء، آیہ58.
  11. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص97.
  12. اعتراض قبیلہ پردہ‌دار کعبہ بہ ظلم رژیم آل‌سعود خبرگزاری بین‌المللی قرآن.
  13. طبری، جامع البيان، 1412ھ، ج10، ص67.
  14. بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج3، ص580.
  15. سورہ توبہ، آیہ 19.
  16. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص284.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج7، ص323.
  18. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص204.

مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابة،‌ دار الفکر، بیروت، 1409ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، محقق و مصحح: میر دامادی، جمال الدین، دار الفکر للطباعة و النشر و التوزیع، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرة النبویة، تحقیق: مصطفی السقا، ابراہیم الأبیاری، عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفة، چاپ اول، بی‌تا.
  • «اعتراض قبیلہ پردہ‌دار کعبہ بہ ظلم رژیم آل‌سعود»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن، تاریخ درج مطلب: 29 آبان 1392ش، تاریخ بازدید: 7 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، 1416ھ۔
  • شوابکہ، مراد، «ما ہی سدانة الکعبة»، سایت موضوع، تاریخ درج مطلب: 17 نوامبر 2019ء، تاریخ بازدید: 7 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البيان فى تفسير القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سید طیب، موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مقریزی، تقی الدین، امتاع الأسماع، تحقیق: محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، 1420ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • ‌واسطی زبیدی، سید محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، محقق و مصحح: علی شیری، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، 1414ھ۔