مندرجات کا رخ کریں

"حدیث من مات" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 58: سطر 58:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن ابی‌عاصم، أبوبکر بن أبی عاصم، السنہ، المحقق: محمد ناصر الدين الألباني، بیروت، المكتب الإسلامي، چاپ اول، ۱۴۰۰ق.
* ابن‌تیمِیہ، تقی‌الدین، مختصر منہاج السنۃ، تلخیص عبداللہ بن محمد الغنیمان، صنعاء،‌ دارالصدیھ، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
* ابن تيمِيَّہ، تقي الدين، مختصر منہاج السنہ، خلاصہ:عبد الله بن محمد الغنيمان، صنعاء، دار الصديق، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق.
* ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق دکتر محمد جعفر یاحقی و دکتر محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق
* ابن شہرآشوب‏، المناقب، قم‏، علامہ‏، ۱۳۷۹ق.
* شیخ بہایی، الاربعون حدیثاً، قم، نشر جامعہ مدرسین، چاپ سوم، ۱۴۳۱ھ۔
* ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق: دکتر یاحقی، محمد جعفر، دکتر ناصح، محمد مہدی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق.
* تفتازانی، سعدالدین، تحقیق عبدالرحمن عمیرہ، نشر الشريف الرضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
* أبوالقاسم طبرانی، سلیمان بن أحمد، مسند الشامیین، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، چاپ اول، ۱۴۰۵ق.
* طبرانی، سلیمان بن احمد، مُسندالشامیین، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
* ابونعیم اصفہانی، أحمد بن عبد اللہ، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، السعادة، بجوار محافظہ مصر، ۱۳۹۴ق.
* أحمد بن حنبل، أبو عبداللہ، مُسند احمد، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ھ۔
* أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبداللہ، مسند احمد، تحقیق: الأرنؤوط، شعیب، مرشد، عادل و دیگران، اشراف: ترکی، عبد الله بن عبد المحسن، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۲۱ق.
* برقی، ابوجعفر احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، تحقیق و تصحیح جلال‌الدین محدث، قم،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، ۱۳۷۱ھ۔
* برقی، ابو جعفر احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، محقق و مصحح: محدث، جلال الدین،‏ قم، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۷۱ق.
*خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، نشر بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
* حلیمی، ابو عبدالله، منہاج فی شعب الایمان، المحقق: حلمي محمد فودة، دار الفکر،‌ ۱۳۹۹ق.
* سید بن طاووس، رضی‌الدین علی، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، ‌انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
* دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
* شیخ صدوھ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ھ۔
* سید ابن طاووس، رضی الدین علی، الاقبال بالاعمال الحسنہ، محقق و مصحح: قیومی اصفہانی، جواد، ‌انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
* ابوداود طیالسی، سلیمان بن داود، مسند ابی‌داود الطیالسی، تحقیق محمد بن عبدالمحسن ترکی، مصر،‌ دار ہجر، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
* شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق.
* مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری، صحیح مسلم المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
* صہیب عبدالجبار،‌ الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، پاورقی ج ۴، ص ۲۳۴، بی‌جا، ۲۰۱۴م.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
* طیالسی بصری، أبوداود سلیمان بن داود، مسند ابی داود الطیالسی، محقق:‌ ترکی، محمد بن عبدالمحسن،  مصر، دار ہجر، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
* علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* قشیری نیشابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ(ص)(صحیح مسلم)، محقق:‌ عبدالباقی، محمد فؤاد، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا.
* علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح: سیدہاشم رسولی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق.
* قندوزی، ینابیع المودہ لذوی القربی، نشر اسوہ، ۱۴۱۳ھ،
* مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* محمد بن حبان بن احمد، صحیح ابن‌حبان، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
* مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: رسولی، سید ہاشم، ‌دار الکتب الإسلامیہ، تہران، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* ملاصدرا، صدرالدین شیرازی محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
* محمد بن حبان أبو حاتم، صحیح ابن حبان، محقق، شعیب الأرنؤوط، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
* ملاصدرا، صدرالدین، شرح أصول الکافی، محقق و مصحح: خواجوی، محمد، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، تہران، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{مشہور احادیث}}
{{پیغمبر اسلام}}
{{پیغمبر اسلام}}
{{امامت}}
{{امامت}}
سطر 85: سطر 84:
  | لنک = <!--مفقود، نامکمل، مکمل-->مکمل
  | لنک = <!--مفقود، نامکمل، مکمل-->مکمل
  | زمرہ = <!--مفقود، نامکمل ، مکمل-->مکمل
  | زمرہ = <!--مفقود، نامکمل ، مکمل-->مکمل
  | خانہ معلومات = <!--ضرورت نہیں، مفقود، موجود-->مفقود
  | خانہ معلومات = <!--ضرورت نہیں، مفقود، موجود-->موجود
  | تصویر = <!--ضرورت نہیں، مفقود، موجود-->ضرورت نہیں
  | تصویر = <!--ضرورت نہیں، مفقود، موجود-->ضرورت نہیں
  | سانچہ = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | سانچہ = <!--مفقود، موجود-->موجود
سطر 92: سطر 91:
  | مناسب مآخذ سے استناد= <!--مفقود، نامکمل ، مکمل -->مکمل
  | مناسب مآخذ سے استناد= <!--مفقود، نامکمل ، مکمل -->مکمل
  | جانبداری= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | جانبداری= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | علاقائی تقاضوں سے مماثلت = <!-- نامکمل، مکمل-->نامکمل
  | علاقائی تقاضوں سے مماثلت = <!-- نامکمل، مکمل-->مکمل
  | سلاست = <!--موجود، مفقود-->موجود
  | سلاست = <!--موجود، مفقود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->مفقود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!--{{subst:#time:xij xiF xiY}}--> 17 دسمبر 2019
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!--{{subst:#time:xij xiF xiY}}--> 23 اکتوبر 2024
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!--{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!--{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | وضاحت = }}</onlyinclude>
  | وضاحت = }}</onlyinclude>

نسخہ بمطابق 13:03، 23 اکتوبر 2024ء

حدیث من مات
حدیث من مات
حدیث کے کوائف
موضوعامام کی شناخت اور معرفت
صادر ازپیغمبر اسلامؐ
اعتبارِ سندشیعہ اور اہل سنت منابع میں تواتر کا ادعا کیا گیا ہے
شیعہ مآخذکافی، کمال الدین و تمام النعمۃ، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر
اہل سنت مآخذصحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل، مسند ابوداود طیالسی، مسند الشامیین
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


پیغمبر اسلامؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ فَقَدْ مَاتَ مِيتَۃً جَاہِلِيَّۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔

مناقب ابن شہرآشوب، ۱۳۷۹ھ،ج۱، ص۲۴۶؛

حدیث مَنْ ماتَ، رسول اللہ کی ایک معروف حدیث ہے، جس کے مطابق اپنے زمانے کے امام کی شناخت اور معرفت کے بغیر مرنے والا گویا جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا گیا ہے ۔یہ حدیث مختلف الفاط کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اسی بنا پر اسے شیعہ اور اہل سنت کا مورد اتفاق حدیث قرار دی جاتی ہے۔

البتہ شیعہ اور اہل سنت اس حدیث سے مختلف مفہوم اور مطلب اخذ کرتے ہیں: شیعہ اس حدیث کو امامت کے مسئلے سے مختص قرار دیتے ہوئے اس حدیث سے امام کی شناخت اور اطاعت کا واجب اور ضروری ہونا استنباط کرتے ہیں ۔ لیکن اہل سنت اس حدیث کو عام مسلم حکمرانوں سے مربوط قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر ان حکمرانوں کی اطاعت اور پیروی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔

اہمیت

اسلامی منابع میں «من ماتَ» کی تعبیر کے ساتھ مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں؛[1] لیکن معروف "حدیث من مات" سے مراد پیغمبر اکرمؐ کا یہ کلام ہے: «مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔[2]

یہ حدیث مختلف تعابیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کافی میں یہ حدیث امام صادقؑ سے یوں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: «مَنْ مَاتَ وَ لَیسَ لَہُ إِمَامٌ فَمِیتَتُہُ مِیتَۃٌ جَاہِلِیۃٌ؛ جو بھی دنیا سے اس حالت میں چلا جائے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[3] اسی طرح اہل‌ سنت کے بعض منابع میں یہ حدیث پیغمبر اسلامؐ سے یوں نقل ہوئی ہے: «مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[4]

علامہ مجلسی اس حدیث کو شیعہ اور اہل‌ سنت کے یہاں متواتر قرار دیتے ہیں۔[5] شیخ بہایی بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیعہ اور اہل‌ سنت کے یہاں مورد اتفاق ہے۔[6]

جاہلیت کی موت سے مراد

پیغمبر اسلامؐ:
مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸

کلینی نے حدیث «من مات» کو امام صادقؑ نقل کی ہے جس میں «جاہلیت کی موت» کی تعریف کی گئی ہے اس حدیث کا متن کتاب کافی میں یوں ہے:

ابن‌ ابی‌ یعفور نقل کرتے ہیں کہ: امام صادقؑ سے پیغمبر اکرمؐ کے اس حدیث: «جو شخص اس حالت میں مر جائے کی اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے» کے بارے میں سوال کیا: «آیا اس حدیث سے مراد کفر کی حالت میں مرنا ہے؟» امام صادقؑ نے جواب دیا: «اس سے مراد گمراہی کی حالت میں مرنا ہے۔ میں نے کہا جو شخص اس وقت ہمارے دور میں بھی مرے لیکن اس کا کوئی امام یا پیشوا نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے؟» امامؑ نے فرمایا: «ہاں»۔[7]

حدیث کے منابع

شیعہ اور اہل‌ سنت کے بعض وہ منابع جن میں حدیث «من مات» نقل ہوئی ہے، درج ذیل ہیں:

شیعہ مآخذ

اہل سنت مآخذ

شیعہ اور اہل سنت علماء کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم

شیعہ اور اہل سنت علما نے اپنے اپنے کلامی اعتقادات کے مطابق اس حدیث سے مختلف معانی اور مفہوم اخذ کئے ہیں:

شیعہ

شیعہ امامت کے مسئلے میں حدیث «من مات» سے استناد کرتے ہوئے اس حدیث کو ہر زمانے میں امام کے موجود ہونے کی ضرورت[14]امام کی شناخت و معرفت نیز اس کی پیروی اور اطاعت کے واجب ہونے پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[15] شیعہ اعتقادات کے مطابق اس روایت میں امام سے مراد اہل بیتؑ اور ائمہ معصومین ہیں اور موجودہ دور میں امام مہدی پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔[16]

اہل سنت

اہل سنت حضرات اس حدیث سے کوئی اور مفہوم اور تفسیر پیش کرتے ہیں: اہل سنت اس روایت میں امام سے عام اسلامی حکمران مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاشرے کی بقا اور وحدت کی خاطر ان کی پیروی اور اتباع ضروری ہے۔[17] ان کے مطابق اطاعت واجب ہونے میں تمام اسلامی حکمران شامل ہیں اور حکمرانوں کا ظالم اور گناہگار ہونا ان کی پیروی کے واجب ہونے میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں یزید کی پیروی اور اطاعت کو تمام صحابہ اور تابعین پر واجب ہونا استنباط کی ہے۔[18]

البتہ بعض اہل سنت منابع میں اس حدیث میں امام سے پیغمبر اکرمؐ مراد لیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ آپؐ اس دنیا میں تمام اہل زمین کے امام اور پیشوا ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۸۸۔
  2. سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۲۵۲؛ شیخ صدوھ، کمال الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۱۰؛ تفتازانی، شرح مقاصد، ۱۴۰۹ھ، ج۵، ص۲۳۹، قندوزی، ينابيع المودۃ، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۴۵۶۔
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶
  4. احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸؛ ابو داوود، مسند ابوداود، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۲۵؛ طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۴۳۷۔
  5. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸، ص۳۶۸۔
  6. شیخ بہائی، الأربعون حديثا، ۱۴۳۱ھ، ج۱، ص۴۳۱۔
  7. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶۔
  9. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ھ،‌ ج۲، ص۴۰۹
  10. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، ۱۴۰۱ھ، ص۲۹۶۔
  11. ابن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸۔
  12. ابو داوود، مسند ابوداوود، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۲۵۔
  13. طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۴۳۷۔
  14. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ج۴، ص۱۷۳
  15. ملاصدرا، شرح أصول الكافي، ۱۳۸۳ش، ج‏ ۲، ص ۴۷۴.
  16. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۲۷، شیخ بہایی، الاربعون حدیثا، ۱۴۳۱ھ، ج۱، ص۴۳۱۔
  17. صہیب عبدالجبار،‌ الجامع الصحیح، ۲۰۱۴م، ج۴، ص۲۳۴، پاورقی۔
  18. ابن تیمیہ، مختصر منہاج السنہ، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۴۹۔
  19. ابن‌حبان،‌ صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ھ، ج۱۰، ص۴۳۴۔

مآخذ

  • ابن‌تیمِیہ، تقی‌الدین، مختصر منہاج السنۃ، تلخیص عبداللہ بن محمد الغنیمان، صنعاء،‌ دارالصدیھ، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق دکتر محمد جعفر یاحقی و دکتر محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق
  • شیخ بہایی، الاربعون حدیثاً، قم، نشر جامعہ مدرسین، چاپ سوم، ۱۴۳۱ھ۔
  • تفتازانی، سعدالدین، تحقیق عبدالرحمن عمیرہ، نشر الشريف الرضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، مُسندالشامیین، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
  • أحمد بن حنبل، أبو عبداللہ، مُسند احمد، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ھ۔
  • برقی، ابوجعفر احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، تحقیق و تصحیح جلال‌الدین محدث، قم،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، ۱۳۷۱ھ۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، نشر بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
  • سید بن طاووس، رضی‌الدین علی، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، ‌انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ صدوھ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ھ۔
  • ابوداود طیالسی، سلیمان بن داود، مسند ابی‌داود الطیالسی، تحقیق محمد بن عبدالمحسن ترکی، مصر،‌ دار ہجر، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری، صحیح مسلم المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح: سیدہاشم رسولی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • قندوزی، ینابیع المودہ لذوی القربی، نشر اسوہ، ۱۴۱۳ھ،
  • محمد بن حبان بن احمد، صحیح ابن‌حبان، تحقیق شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • ملاصدرا، صدرالدین شیرازی محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔