انتظار فرج

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(انتظار سے رجوع مکرر)
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


انتظار فَرَج، (= وُسع اور فراخی کا انتظار) شیعہ اصطلاح میں امام زمانہ(عج) کے ظہور کا انتظار ہے جو خارق عادت اور معجزانہ انداز سے ہوگا اور امام غائب(عج) ظہور کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے مالامال کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے مالامال ہوچکی ہوگی۔ شیعہ تعلیمات کے مطابق معنوی اور اخلاقی آمادگی کا موجب ہے۔

انتظار ہے کیا؟

انتظار کیا ہے؟ کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دو عناصر کا مجموعہ ہے: 1۔ نفی کا عنصر 2۔ اثبات کا عنصر۔

نفی کا عنصر یعنی موجودہ صورت حال سے بیگانگی اور موجودہ حالات سے ناخوشی اور ناخوشنودی اور اثبات کا عنصر یعنی روشن مستقبل اور مطلوبہ حالات کی امید اور ایسے حالات کے لئے تمہیدی اقدامات بجا لانا۔[1]۔[2] کلامی (= اعتقادی) اصطلاح میں انتظار کا مفہوم روایات و احادیث سے ماخوذ ہے جس کے معنی وعدہ الہی کے چشم براہ ہونے کے ہیں اس کوشش کے ساتھ کہ اپنی روح اور جسم نیز اپنے معاشرے کو بھی اس دن کے لئے تیار کیا جائے جب حضرت مہدی علیہ السلام کا خورشید عالمتاب طلوع ہوگا اور اس طلوع عظیم کے ساتھ بنی نوع انسان کی حیات کے تمام پہلؤوں میں فراخی نمایاں ہوگی۔[3]

انتظار لغت اور نفسیات میں

لغت میں انت‍ظار کے معنی چشم براہ ہونے اور فکرمند ہونے کے ہیں۔[4]۔[5]

انتظآرنفسیاتی لحاظ سے روح کی وہ کیفیت ہے جو آمادگی کا سبب بنتی ہے ایسی چیز کے خیر مقدم کے لئے جس کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اس کیفیت کے برعکس مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ہے، پس جس قدر کہ انتظار شدید ہوگا تیاری اور آمادگی بھی اتنی ہی مؤکّد (= پرزور) ہوگی۔[6]

اصطلاح میں

انتظار فَرَج یعنی چشم براہ ہونا، اس امید کے ساتھ کہ باطل پر پیروزی کی آخری فتح کے لئے حالات سازگار ہوں، عدل و انصاف اور اسلامی ایمان پورے کرہ ارض پر پھیل جائے اور پوری دنیا میں حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں حکومت حقہ قائم و مستقر ہوجائے۔[7]۔[8] یعنی اصطلاحی معنی میں انتظار اس عقیدے کا نام ہے جس کا تعلق تاریخ کے انجام سے ہے جب عالمی سطح پر عدل و سعادت کا قیام و نفاذ ہوگا۔ اس لحاظ سے انتظار اس مطلوبہ معاشرے کا انتظآر ہے جب مطلق حکومت الہیہ مستقر ہوگی اور اس لحاظ سے اس دور کا انسان بھی الہی حکمرانی کے ساتھ مکمل طور پر سازگار ہوگا۔ آیات کریمہ کے مطابق، ایسے زمانے کا ظہور اللہ کے ارادے کے مطابق ہوگا، آسمانی پیغام عام ہوگا اور انسان آسمانی پیغام کو بصد شوق گلے لگائے گا۔ اسلامی فکر میں بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومت مطلق طور پر اللہ کی ہوگی۔[9]۔[10]۔[11]۔[12]۔[13]

موضوعِ انتظار

انتظار موعود کا موضوع اور نجات شناسی کا مبحث دوسرے ادیان ـ بالخصوص توحیدی ادیان ـ میں زیر بحث ہے اور وہ سب بشارت دیتے ہیں کہ ایک عظیم عالمی مصلی آخر الزمان میں ظہور کرے گا اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب ظلم و ناانصافی پوری دنیا پر چھا گئی ہوگی۔ وہ آئے گا اور عالمی عدل کا نفاذ کرے گا اور ظلم کی جڑیں اکھاڑ دے گا۔

انتظار کا پس منظر

انتظار کی بحث کا تعلق اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے سے ہے۔ آنحضرت(ص) سے ظہور کی نشانیوں، موعود کی خصوصیات اور ظہور کے بعد آپ(عج) کے کارہائے نمایاں کے سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔[14]


دوسرے ادیان میں نجات دہندہ کا انتظار

انسانیت کے نجات دہندہ کے ظہور پر ایمان اور عدل و انصاف کے قیام کا انتظار، ایک فطری انسانی امر ہے چنانچہ یہ عقیدہ تمام ملتوں اور مذاہب و ادیان میں موجود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور اس کو موجودہ صورت حال سے نجات دلانے کا عقیدہ ابتداء ہی سے انسانی ذہن میں موجود تھا اور یہ عقیدہ دین اسلام کے لئے مختص نہیں ہے، کیونکہ ظہور اسلام سے قبل کے آسمانی ادیان کے درمیان بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سب نے اس حقیقت کے واقع ہونے کی خبر دی ہے اور حتی کہ مصلح کی خصوصیات اور ان کی اصلاحی روشیں بھی بیان کی ہیں۔ گوکہ انھوں نے مصلح کو مہدی کا نام نہیں دیا ہے اور ان کی اصلاحی روشوں کا تذکرہ مہدویت کے عنوان سے نہیں کیا ہے۔ یہ عقیدہ حتی کہ زردشتی اور برہمنی مذاہب تک بھی سرایت کرگیا ہے۔ چینیوں کی قدیم کتب میں، قدیم ہندیوں کے عقائد میں، اسکینڈینویا کی اقوام میں یہاں تک کہ قدیم [مصر|مصریوں]] اور امریکہ کے مقامی باشندوں اور میکسیکو کے عوام میں اس قسم کے عقائد پائے جاتے ہیں۔

لہذا کہا جاسکتا ہے کہ روش مستقبل، فلاح و رستگاری اور آخری نجات پر یقین و اعتقاد تمام الہی اور غیر الہی ادیان و مذاہب و مکاتب کا مشترکہ عقیدہ ہے اور یہی فطری پیاس اور سوز و گداز جو پوری دنیا میں جاری و ساری ہے عقیدہ انتظار کی صحت و درستی کا ثبوت ہے۔

انتظار منجی کا عقیدہ رکھنے والے آسمانی ادیان نیز دین نما مکاتب کے درمیان ذیل کے مذاہب کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے:

یہودی عزیر یا منحاس بن عازر بن ہارون کی رجعت پر یقین رکھتے ہیں۔

یہودیت کی نشیب و فراز سے بھری تاریخ میں موعود آخر الزمان کے انتظار کا شوق ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ کتاب مقدس کے عہد عتیق میں مزامیر داؤد کے سفر ـ مزمور نمبر 37 ـ میں مرقوم ہے:

"شرپسندوں اور ظالموں کی موجودگی سے نا امید مت ہو، کیونکہ ظالمین کی نسل روئے زمین سے اکھاڑ دی جائے گی اور عدل خداوندی کے منتظرین زمین کے وارث ہوکر رہیں گے اور جن افراد پر اللہ کا لعن ہوگا ان کے درمیان انتشار پھیل جائے گا، اور صالح اور نیک انسان زمین کے وارث ہونگے اور تاریخ کی انتہا تک زمین کے اوپر جئیں گے۔[15]

یہودیوں کے مقدس متون میں موعود کی بشارت مسلسل دی گئی ہے۔[16] ان کا عقیدہ ہے کہ موعود آئے گا تو تمام موجودات ان کے وجود سے بہرہ ور ہونگے اور موعود کے منتظرین وارث زمین ہونگے... کیونکہ شر پسند قوت توڑ دی جائے گی اور صالحین کو خدا کی تائید حاصل ہوگی۔[17]

عیسائیوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پلٹ کر آئیں گے۔ عیسائیت میں انتظار اور نجات دہندہ کے ظہور پر وافر تاکید ہوئی ہے اور موعود آخر الزمان کے بارے میں واضح بشارتیں دی گئی ہیں: اناجیل اربعہ (= متی، لوقا، مرقس، برنابا) میں ایسی بشارتیں بوفور پائی جاتی ہیں جیسے: "گھروں کے دروازے بند رکھو اور چراغ ہمیشہ جلائے رکھو ان لوگوں کی مانند جو اپنے آقا کا انتظار کررہے ہیں، جب آئے گا اور دروازے پر دستگ دے گا تو فوری طور پر دروازہ اس کے لئے کھول دو"۔[18]۔[19]

زردشتیوں کا عقیدہ ہے کہ بہرام شاہ واپس آئے گا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آہورا مزدا (= خیر کی روح) ہر وقت اہریمن (= شر کی بڑی روح) کے خلاف برسر پیکار ہے حتی کہ آخر الزمان میں سوشیانس ظہور کرے اور خوبی بدی پر اور نیکی شر اور پلیدی پر غلبہ پائے اور صلح و آشتی اور پاکی و پاکیزگی اور آہورا مزدا کی سربلندی کا دور دورہ ہو۔[20]۔[21]

ہند‎ؤوں کا ایمان ہے کہ وشنو واپس آئے گا۔

مجوسیوں کا ایمان ہے کہ اوشیدر پلٹ کر آئے گا۔

بدھ مت کے ماننے والے بدھ کے واپس آنے کے منتظر ہیں۔


انتظار اور اسلام

انتظار قرآن کی روشنی میں

قرآن کریم جو اہم ترین اسلامی منبع و ماخذ ہے، مسئلے کی تفصیلات بیان کئے بغیر کئی آیات میں اس کی طرف اشارہ کرتا ہے:

"فَانتَظِرُواْ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
ترجمہ: اچھا تو پھر انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔[22]۔[23]
"وَارْتَقِبُواْ إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ
ترجمہ: اور انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔[24]
"فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
ترجمہ: تو تم انتظار رکھو، یقین سمجھو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار میں شریک ہیں۔[25]

ان آیات کو بہت سی احادیث میں مسئلۂ انتظار سے تاویل کیا گیا ہے۔[26]۔[27]۔[28]

انتظار احادیث کی روشنی میں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے ایک حدیث میں ـ فریقین کے مآخذ میں منقول ہے ـ اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: "اگر دنیا کی زندگی میں سے صرف ایک دن بھی باقی ہو تو خداوند متعال اس کو اس قدر طویل کردے گا کہ میرے فرزند مہدی(عج) ـ جن کا نام میرا نام اور کنیت میری کنیت ہے ـ ظہور کریں اور عدل کو فروغ دیں، اس کے بعد جب ظلم و ستم اس دنیا پر چھا چکی ہو"۔[29]۔[30]

انتظار اہل سنت کی نظر میں

امام مہدی علیہ السلام کا انتظار تشیع کے لئے مختص نہیں ہے؛ مہدی(عج) کے بارے میں بہت سی متواتر احادیث اہل سنت کے منابع و مآخذ سے صحیح اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں جن میں شک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ شیعہ امامیہ کے منابع میں ایسی ہی احادیث نقل ہوئی ہیں۔

عالم اسلام میں بھی تمام مذاہب اور فرقوں اور مکاتب نے اصولی طور پر اس مسئلے کو قبول کیا ہے اور اس عقیدے کے دفاع اور تشریح کے لئے متعدد کتب لکھی ہیں۔[31]۔[32]

اہل سنت کے ہاں یہ ایک مسلمہ اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قریش میں سے ایک شخص ـ جو اسلام کے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل سے ہوگا ـ ظہور کرے گا اور حضرت عیسی(ع) ان کی اقتدا میں نماز بجا لائیں گے۔[33]۔[34]۔[35] اس کے باوجود ان کی اکثریت کا خیال ہے کہ مہدی موعود ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ان میں سے کئی کا خیال ہے کہ آپ(عج) امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہونگے۔[36]۔[37]۔[38]

نویں صدی ہجری کے مشہور سنی عالم عبدالرحمن بن خلدون نے العبر نامی کتاب پر مشہور مقدمہ لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:

"جان لو کہ بدان کہ اعصار و قرون کے دوران، اہل اسلام کے مشاہیر کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ ہمیں یہ امر ناگزیر ہے کہ آخر الزمان میں اہل بیت میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جو دین کی تائید و حمایت کرے گا اور عدل کو ظاہر کریں گے، اور مسلمان ان کی پیروی کریں گے۔ وہ اسلامی ممالک پر چھا جائیں گے اور ان کا نام مقدس مہدی ہے۔ ان کے ظہور کے علائم میں سے سے دجال کا خروج اور اس کے بعد کے واقعات ہیں اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے آئیں گے اور دجال کو ہلاک کریں گے یا ان کے ساتھ آئیں گے اور دجال کے ہلاک کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ اور اپنی نماز میں ان کی اقتدا کریں گے و...۔ [39] گوکہ ـ جیسا کہ اشارہ ہوا اہل سنت کی اکثریت کو یقین ہے کہ امام مہدی علیہ السلام آئیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں، تاہم شیعہ اور بعض غیر شیعہ مکاتب اور مذاہب کے پیروکار نیز بعض غیر اسلامی مذاہب نجات دہندہ کے عنوان سے ایک مرد کا انتظار کررہے ہیں اور وہ معتقد ہیں کہ وہ مرد موجود ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اعمال اور رویوں نیز ان کو درپیش مصائب و مسائل کا ناظر و شاہد ہے۔

شیعہ عقیدہ

انتظار ایک ایسا امر ہے کہ شیعیان اہل بیت کو بارہویں امام کے زمانۂ غیبت میں[40]، اس کی پابند رہنا ہے؛ بایں معنی کہ انہیں مہدی منتظر(عج) کا منتظر رہنا چاہئے اور اس امر کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت اپنے امام(عج) کو یاد رکھنا چاہئے؛ یہاں تک کہ اعمال کی قبولیت کی ایک شرط امام غائب(عج) کا انتظارِ فَرَج ہے۔[41]۔[42]

بعض شیعہ کتب میں انتظار کو ایک قلبی اور روحانی کیفیت قرار دیا گیا ہے:

"انتظار ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جو اس شیئے کے لئے تیاری کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے جس کا انتظار ہورہا ہے ... پس انتظار جس قدر شدید ہوگا تیاری اسی انداز سے زیادہ ہوگی۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ جب تمہارا کوئی [عزیز] سفر پر ہو جس کے آنے کے منتظر ہو، جس قدر کہ اس کے آنے کا وقت قریب سے قریب تر آتا ہے تمہاری تیاری میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے"۔[43]

علاوہ ازیں کہ انتظار ایک امر واجب ہے، منتظرین کے لئے انتظار کے عوض ثواب اور مراتب و مقامات بھی مد نظر ہیں۔ امیرالمؤمنین(ع) فرماتے ہیں:

"ہمارے امر [ظہور] کا منتظر اس شخص کی مانند ہے جو خدا کی راہ میں اپنے خون میں تڑپتا ہے"۔[44]

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: "جو لوگ امام زمانہ(عج) کی پیشوائی اور امامت کا امر پہچان لیں یہی در حقیقت ان کا انتظارِ فَرَج ہے"۔[45] یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچان لے اور جان لے کہ امام اپنے پیروکاروں سے کیا توقع رکھتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں، وہ بہرحال اٹھے گا اور امام کی نسبت اپنے فرائض پر عمل کرے گا اور جس دن امام کے عملی حکم کی تعمیل ہو وہ دن یوم الفَرَج ہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) فرماتے ہیں: "کیا تم نہیں جانتے کہ انتظارِ فَرَجِ فَرَج کا جزء ہے؟"۔[46]

ائمۂ معصومین علیہم السلام کے گرانقدر اقوال کا جائزہ لینے سے شیعیان اہل بیت کے یہ فرائض سامنے آتے ہیں کہ وہ امام کی معرفت حاصل کریں، اپنے فرائض پہچان لیں اور ان پر عملدرآمد کی کوشش کریں؛ اور جب اپنی ذات اور دوسروں کی اصلاح کے سلسلے میں ہماری کوششیں بارآور ثابت ہوتی ہیں، وہی یوم الفَرَج ہے۔ پس فَرَج کا [ایک] سرا ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو سرانجام دینا چاہئے۔

امام مُنتَظَر کے اوصاف

معتبر شیعہ منابع میں منقولہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی موعود(عج) کے کوائف اور اوصاف حسب ذیل ہیں:

آپ(عج) خاندان رسالت اور فرزندان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذریت سے ہیں؛ بارہویں امام معصوم اور رسول اللہ(ص) کے بعد اللہ کے بارہویں خلیفہ اور حجت ہیں؛ حسن بن علی العسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں جو 15 شعبان سنہ 255ہجری قمری کو دنیا میں تشریف فرما ہوئے ہیں اور اس وقت زندہ ہیں اور اللہ کی خاص مصلحت کی بنا پر حالت غیبت میں جی رہے ہیں [اور آنکھوں سے اوجھل ہیں] اور وہ دن ضرور آئے گا جب آپ(عج) اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے اور ایسے حال میں کہ زمین پر ظلم و ستم چھا گیا ہوگا آپ(عج) عالمی عدل قائم کریں گے؛ اور مؤمنین پر واجب ہے کہ تیاری کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں"۔[47]۔[48]۔[49]

انتظار کیوں اور کیسے؟

ضرورت انتظار

بہت سی روایات میں انتظار کی ضرورت اور لزوم پر تاکید ہوئی ہے؛ منجملہ: امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں:

"ہر مسلمان پر واجب ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانے مین آپ(عج) کا انتظار کرے"۔[50]

انتظار کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کو دین کے ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا گیا ہے،[51]۔[52] یا اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔[53]

انتظار کی فضیلت اور منتظر کی منزلت

انتظارِ فَرَجِ خدا کے نزدیک محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔[54]
انتظار کا جوہر صبر اور صعوبتیں جھیلنے کا آمیزہ ہے۔[55]۔[56]
بعض روایات میں ہے کہ انتظارِ فَرَجِ عظیم ترین فراخیوں میں سے ہے۔[57]
انتظارِ فَرَجِ افضل اعمال اور اعلی ترین جہاد ہے اور جب نجات دہندہ آئیں گے شیعیان اہل بیت کا حزن و ملال ختم ہوجائے گا۔۔۔[58]۔[59]
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو حکومت حقہ کا انتظار کررہا ہے اور اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملتا ہے تو آپ(ع) نے فرمایا: "وہ اس شخص کی مانند ہے جو اس انقلاب کے ہمراہ اور ان کے خیمے میں حاضر ہو، پھر امام(ع) کچھ لمحے خاموش رہے اور پھر فرمایا: اس شخص کی مانند ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہو"۔[60]۔</ref>۔[61]
منتظرین کے بارے میں دوسری تعبیرات بھی وارد ہوئی ہیں؛ منجملہ یہ :"ایسا شخص اس مجاہد کی مانند ہے جو اللہ کی راہ میں تلوار اٹھا کر جہاد کرتا ہے۔ یا اس شخص کی مانند ہے جو رسول اللہ(ص) کی خدمت میں اپنی تلوار سے دشمن کے مغز پر وار کرتا ہے، یا اس شخص کی مانند ہے جو قائم(عج) کے پرچم تلے کھڑا ہو؛ یا اس مجاہد کی طرح ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے جہاد کرے، یا اس مجاہد کی مانند جو رسول اللہ(ص) کے رکاب میں جام شہادت نوش کرے۔۔۔۔[62]۔[63]
بعض روایات میں ہے کہ انتظار کا ثواب اس روزہ دار کی مانند ہے جو راتوں کو حالت نماز میں بسر کرتا ہے۔[64]۔[65]۔[66]
منتظر شہدائے بدر اور احد کا ہم گام و ہم قدم ہے اور خداوند متعال اس کو شہدائے بدر و احد کا ثواب عطا کرتا ہے۔[67]۔[68]
منتظر ہلاکت سے نجات پانے والا ہے اور انتظار نجات کا واحد راستہ ہے۔[69]۔[70]
تمام اعصار و قرون کے لوگوں میں بہترین افراد وہی ہیں وہی جو غیبت کے زمانے میں جیتے ہیں اپنے امام(عج) کی امامت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ(عج) کے ظہور کے منتظر ہیں۔[71]
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری
  • منتخب الانوار،
  • نباطی بیاضی، علی بن یونس، الصراط المستقیم

التماس دعا - صلوات

فضیلت انتظار کا فلسفہ

اس باب کی روایات سے انتظار کی قدر و قیمت اور منتظرین کی منزلت ظاہر ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اتنی فضیلت قرار دی گئی ہے:

بعض روایات کچھ یوں ہیں:

  1. یہ ایک حقیقت ہے کہ آخر الزمان میں دینداری بہت دشورا ہے یہاں تک کہ بعض روایات میں منتظر کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے ہاتھ میں آگ ہے یا وہ اپنے ہاتھ سے کانٹے دار پودا زمین سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے۔[72]
  2. احادیث کے مطابق اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ چنانچہ جس قدر کہ نیت خالص تر اور عظیم تر ہوگی عمل کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ انتظار کی قدر و قیمت منتظر کے عمل کے تناسب سے وجود میں آتی ہے۔ اگر کوئی تعلیمی سند کا منتظر ہو اس کے انتظار کی قیمت تعلیمی سند جتنی ہوگی اور اگر کوئی خانۂ خدا کی زیارت کا منتظر ہو اس کے انتظار کی معنوی قدر و قیمت زیارت خانۂ خدا جتنی ہوگی۔ امام مہدی علیہ السلام کا منتظر دنیا کی تمام مخلوقات کی تمام خوبیوں کو اپنے وجود میں پروان چڑھاتا ہے۔ منتظر انتظار کے زیر اثر اعلی منزلت کا حامل بن جاتا ہے؛ اور یہ منزلت اتنی اونچی ہے کہ انسان کو اولیاء اللہ، خاتم الانبیاء(ص) اور خاتم الاصیاء(عج) کی صف میں کھڑا کردیتی ہے اور بدر اور احد کے شہداء کے زمرے میں قرار دیتی ہے اور وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے اپنی پوری زندگی روزہ داری اور تہجد کی حالت میں گذاری ہو۔
  3. پیغمبر اکرم(ص) نے امیرالمؤمنین(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لوگوں کے درمیان حیرت انگیز ترین ایمان اور عظیم ترین یقین آخر الزمان کے ان لوگوں کا ایمان و یقین ہے جنہوں نے پیغمبر کو نہیں دیکھا ہے اور امام بھی ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے اور سفیدی کے اوپر سیاہی (کاغذ کے اوپر تحریر) پر ایمان لائے ہیں۔[73]

منتظرین کے فرائض

انتظار و منتظرین کے فضائل کے ضمن میں بھی بعض فرائض کی طرف اشارہ ہوا اور بعض دیگر فرائض یہاں بیان کئے جاتے ہیں:

امام کی معرفت

جادۂ انتظار کو طے کرنا، امام منتظَر کی معرفت و شناخت کے بغیر، ممکن نہیں ہے۔ انتظار کی وادی میں استقامت اور پامردی پیشوائے موعود(عج) کے صحیح ادراک پر منحصر ہے؛ چنانچہ امام کی نام و نسب کی شناخت کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام کے اصل مقام و مرتبے سے آگہی حاصل کی جائے۔

امام عسکری(ع) کے خادم ابو نصر کہتے ہیں: "میں امام مہدی(عج) کی غیبت سے قبل آپ(عج) کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام(عج) نے مجھ سے پوچھا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا آپ میرے مولا اور میرے مولا کے فرزند ہیں۔ امام(عج) نے فرمایا: میرا مقصود اس قسم کی معرفت نہیں تھی۔ میں نے عرض کیا تو آپ خود ہی فرمائیں؛ اور امام(عج) نے فرمایا: میں رسول اللہ(ص) کا آخری جانشین ہوں، خداوند متعال میرے واسطے سے بلاؤں کو میرے خاندان اور شیعوں سے ٹال دیتا ہے"۔[74] امام کی معرفت کے دیگر پہلؤوں میں سے ایک، امام کی سیرت اور صفات سے آگہی حاصل کرنا ہے۔ یہ معرفت منتظر کی عادات و اطوار اور رویوں پر اثر انداز ہوجاتی ہے۔ واضح و آشکار ہے کہ امام کے مقام و مرتبے اور سیرت و حیات کی نسبت شناخت و معرفت جس قدر گہری ہوگی منتظر و معتقد کی زندگی پر اس کے نقوش بھی اتنے ہی گہرے ہونگے۔

نمونۂ عمل لینا اور اقتدا کرنا

صرف وہ معرفت کافی و شافی ہے جو نمونۂ عمل لینے اور اقتدا کرنے پر منتج ہو؛ جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "خوش بختی اور نیک نصیبی ہے اس شخص کے لئے جو ہمارے خاندان کے قائم کا ادراک کرلے؛ جبکہ قائم سے پہلے کے ادوار میں ان پر اور ان سے پہلے کے ائمہ کی اقتدا کرچکا ہو اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار و اعلان کرچکا ہو۔ وہ میرے دوست اور ہمراہ ہیں اور میرے نزدیک میری امت کے گرامی ترین افراد ہیں"۔[75] دعوی کافی نہیں ہے تشیع اور انتظار کا۔ بلکہ اقتدا ضروری ہے۔ اقتدا کا راستہ تزکیۂ نفس ہے اور عمل میں اخلاص کا کردار بہت اہم ہے۔

اگر منتظر کا ثواب بدر کے ہزار شہیدوں جتنا ہے تو اس کو بدر کے شہداء کے مثل و مانند ہونا چاہئے چنانچہ اصلاح نفس اور عمل میں اخلاص منتظرین کے اہم ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ چھٹے امام(ع) نے فرمایا: "جو شخص قائم(عج) کے اصحاب کے زمرے میں شمار ہونا چاہتا ہے لازم ہے کہ اعمال صالح بجا لائے اور پرہیزگاری کو اپنا پیشہ بنائے"۔[76] بےشک مصلح منتظرین سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ امام(عج) کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنائے اور خود بھی صالحین میں سے ہو۔ بصورت دیگر جب ان دو کے درمیان کوئی مطابقت اور مسانخت نہ ہو ـ خواہ ظہور سے پہلے خواہ ظہور کے بعد ـ شیعہ اور امام(عج) کے درمیان کوئی نسبت برقرار نہیں ہوپائے گی۔

ياد و ذکر امام

امام کو یاد کرنے کی ایک راہ یہ ہے کہ ہر روز آپ(عج) کے ساتھ تجدید عہد کا اہتمام کیا جائے اور اس عہد پر اپنی استواری کا اعلان کیا جائے۔ جو شخص مسلسل دعائے عہد پڑھے اور تہہ دل سے اس کے مضامین کا پابند ہو کبھی بھی سستی کا شکار نہیں ہوگا اور امام(عج) کے اہداف کے حصول اور آنجناب کے ظہور کے لئے مقدمات و تمہیدات فراہم کرنے میں مسلسل کوشاں رہتا ہے۔ جو کچھ انتظار اور منتظرین آپ(عج) کی معرفت اور پیروی میں پامردی اور استقامت کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ اس طبیب جاں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے۔ دعائے عہد، دعائے ندبہ، امام(عج) کی سلامتی کے لئے دعا کرنا اور صدقہ دینا بھی اس ربط و تعلق اور ذکر و یاد میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اور یہی شخص اس ذخیرہ الہیہ کی مدد کے میدان میں حاضری کے قابل ہوتا ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ "اگر کوئی چالیس دن صبح کے وقت دعائے عہد پڑھے وہ ہمارے قائم کے انصار و اصحاب کے زمرے میں شمار ہوگا اور اگر ظہور سے قبل دنیا سے اٹھ جائے تو خداوند متعال اس کو اس کی قبر سے باہر لائے گا [تا کہ قائم(عج) کی مدد کرے"۔[77]۔[78]

انتظار کے آثار و فوائد

انتظار دکھوں کی تسکین اور مصائب کے آسان ہونے کا سبب بنتا ہے کیونکہ منتظر روشن مستقبل کا منتظر ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ حضرت مہدی(عج) کی مصاحبت کی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے اصلاح نفس اور اخلاقی تہذیب و تزکیے کے لئے کوشاں ہونا چاہئے اور دشمنوں پر امام غائب(عج) کے غلبے کے لئے وسائل اور مقدمات فراہم کرنے چاہئے، علم حاصل کرنا چاہئے اور معارف میں ارتقائی مراحل طے کرنے چاہئے؛[79] جس کی ظہور کے لئے ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں، چھپی ہوئی قوتیں اور خفیہ سرمائے انتظار کے سخت ایام کے نتیجے میں فعال ہوجاتے ہیں اور معارف کے تحرک کی روشنی میں زندگی نئے معانی پاتی ہے اور ہدف کے تقدس اور عظمت کے لحاظ سے ناخوشگوار حالات میں صبر و استقامت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان ایک عام انسان کی حدود سے گذرجاتا ہے اور کمال و تعالِی کے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے؛ وہ حقیر مادی دکھوں کے مرحلے سے گذر کر عظیم معنوی دکھوں کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے اور وہ اپنی نظریں ظہور کے روشن درازوں پر جما لیتا ہے۔[80]

حقیقی منتظر کا تعارف

مذکورہ بالا سطور میں حقیقی منتظرین کا کافی شافی تعارف کرایا گیا ہے وہ یوں کہ جو افراد انتظار کے دعویدار ہیں انہیں مختلف قسم کی صفات سے متصف ہونا چاہئے۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: "جو شخص حضرت قائم(عج) کے اصحاب کے زمرے میں شمار ہونا چاہتا ہے ضروری ہے کہ آپ(عج) کا چشم براہ ہو؛ پارسائی اور نیکی کے ساتھ عمل کرے؛ ایسا شخص حقیقی منتظر ہے؛ پس کوشش کرو اور منتظر رہو، مبارک ہو تمہیں اے بخشے ہوئے لوگوں کی جماعت"۔۔۔[81]۔[82]۔[83] حقیقی منتظر کے دیگر اوصاف میں دین کا تحفظ اور پرہیزگاری شامل ہیں۔

انتظار اس قدر دشوار ہے کہ بعض روایات میں اس کو کانٹے دار پودے پر ہاتھ کھینچنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔[84] مسئلۂ ظہور میں شک و تردد میں نہ پڑنا، انکار نہ کرنا اور عجلت و جلدبازی سے پرہیز کرنا، حقیقی منتظرین کے دیگر اوصاف اور معیار ہیں۔[85]

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مسئلۂ غیبت میں بعض لوگ شک و تردید کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ ثابت قدم رہتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو آزار و اذیت اور تکذیب کے مقابلے میں صبر کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے رکاب میں جہاد کرنے والوں کی مانند ہیں"۔[86]۔[87]

امام موسی بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں:

"حقیقی منتظرین کی خصوصیات میں سے ایک اہل بیت(ع) کی ولایت تسلیم کرنے میں ثابت قدمی سے کام لینا اور ان کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کا اظہار ہے۔ [88]

انتظار کو درپیش آفتیں

انتظار کی دو قسمیں ہیں: 1۔ تعمیری، ذمہ داریوں کو جنم دینے والا اور متحرک کر دینے والا انتظار؛ اس قسم کا انتظار ـ جیسا کہ کہا گیا افضل ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے۔ 2۔ اس انتظار کے مقابلے میں تباہ کن، مفلوج کردینے والا، روک دینے والا انتظار ہے۔ انتظار کی ان دو قسموں کا اصل سبب ظہور موعود کے عظیم واقعے کے سلسلے میں مختلف تصورات ہیں۔

تباہ کن انتظار

تباہ کن انتظار میں تصور یہ ہے کہ حضرت قائم(عج) کے ظہور اور قیام کی حقیقت محض ایک دھماکے کی مانند ہے، جس کا سرچشمہ ظلم و ستم کا رواج، گھٹن اور حق کشی ہے۔ اور یہ دھماکہ اس وقت رونما ہوگا جب اصلاح کی سطح صفر (= 0) تک گر جائے اور حق و حقیقت کا کوئی حامی نہ ہو؛ چنانچہ غیبت کے زمانے میں ہر قسم کا اصلاحی اقدام مذموم ہے کیونکہ ہر اصلاحی اقدام ایک روشن نقطہ ہے اور جب تک ایک روشن نقطہ باقی ہوگا غیب ظاہر نہیں ہوگا؛ چنانچہ ظہور کی تسریع و تعجیل میں بہترین مدد اور انتظار کی بہترین شکل یہ ہے کہ فساد اور برائی کو پھیلا دیا جائے۔ اس قسم کے انتظار کا مفہوم یہ ہے کہ انفعالی رویہ اپنایا جائے اور غیر جانبدار رہا جائے۔ اس سے بالاتر یہ کہ اس انتظار کے قائل افراد کا خیال ہے کہ ظلم اور فحاشی کی ترویج کے لئے کوشاں ہونا چاہئے۔[89]

تعمیری انتظار

تعمیری انتظار میں انتظار کے بارے میں تصور یہ ہے کہ [[امام مہدی علیہ السلام|مہدی(عج) کا ظہور اہل باطل کے خلاف اہل حق کی جدوجہد کی ایک کڑی ہے اور یہ جدوجہد آخر کار اہل حق کی آخری فتح پر منتج ہوگی۔ اس عظیم سعادت میں حصہ دار بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان عملی طور پر اہل حق کی صف میں کھڑا ہو، چنانچہ حق کے حامیوں کی موجودگی ضروری ہے نہ یہ کہ ظہور صرف اسی وقت ہوگا جب سب اہل باطل ہوں۔[90]

اسی بنا پر، احادیث میں ہے کہ امر ظہور اس وقت حقیقت کا جامہ پہنے گا جب شقی اور سعید اپنے کام کے انجام کو پہنچ جائیں۔[91]

متعلقہ مآخذ

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج7، ص382۔
  2. صافی گلپایگانی، منتخب الأثر، ج1، ص419۔
  3. رسالت جهانی حضرت مهدی (عج)، ص241۔
  4. زبیدی، تاج العروس، ج7، ص539۔
  5. معین، فرهنگ فارسی، ج1، ص364۔
  6. موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص218۔
  7. صدر، تاریخ الغیبة الکبری، ج1، ص291۔
  8. مطهری، قیام وانقلاب مهدی، ج1، ص14۔
  9. سوره یوسف، آیه 67۔
  10. سوره یوسف، آیه 40۔
  11. سوره انعام، آیه 62۔
  12. سوره نساء، آیه 105۔
  13. سوره انعام، آیه 82۔
  14. رجوع کریں: صدوق، کمال الدین وتمام النعمة۔
  15. کتاب مقدس سفر مزامیر داؤد۔
  16. مزمور10ـ13، کتاب مقدس۔
  17. مزمور37، کتاب مقدس۔
  18. انجیل لوقا، فصل 12۔
  19. انجیل متی، فصل 24 ۔
  20. تاریخ جامع ادیان، جان ناس، ج1، ص318۔
  21. تاریخ جامع ادیان، جان ناس، ج1، ص476۔
  22. سوره اعراف، آیه، 71۔
  23. سوره یونس، آیه، 20 و 102۔
  24. سوره هود، آیه، 93۔
  25. سوره توبه، آیه، 52۔
  26. مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص110۔
  27. مجلسی، وہی ماخذ، ص127۔
  28. مجلسی، وہی ماخذ، ج13، ص279۔
  29. مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص74۔
  30. اربلی، کشف الغمه، ج2، ص446۔
  31. الإمام المهدی عند أهل السنة، فقیه ایمانی، ج1، ص397۔
  32. موسوعة الإمام المهدی، فقیه ایمانی، ج1، ص12۔
  33. البستوی، المهدی المنتظر، ج1، ص9۔
  34. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص555۔
  35. ابن عربی، الفتوحات المکیة، ج3، ص327۔
  36. الحرانی، منهاج السنة، ج4، ص211۔
  37. البستوی، المهدی المنتظر، ج1، ص60۔
  38. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص281۔
  39. ابن خلدون، مقدمه ابن خلدون، ص133
  40. شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص377، باب 36، حدیث 1۔
  41. کلینی، اصول کافی، کتاب الایمان والکفر، باب دعائم الاسلام، حدیث 13۔
  42. نعمانی، الغیبه، ب11، ح16۔
  43. موسوى اصفهانى، مکیال المکارم، ج2، ص152، ب8۔
  44. صدوق، خصال، ح400، ص625۔
  45. مجلسی؛بحارالانوار، ج52ص139
  46. مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص130۔
  47. صدر، تاریخ الغیبة الکبری، ج1، ص8۔
  48. صدر، محمد، الیوم الموعود بین الفکر المادی والدین، ص636۔
  49. سبحانی، الهیات، ج2، ص632۔
  50. صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج1، ص377۔
  51. کافی، کلینی، ج2، ص21۔
  52. مستدرک الوسائل، طبرسی، حسین۔
  53. موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص217۔
  54. من لا یحضره الفقیه، صدوق، ج4، ص381۔
  55. حر عاملی، وسایل الشیعه، ج19، ص75۔
  56. مجلسی، بحار الانوار، ج10، ص352۔
  57. مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص386۔
  58. مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص371۔
  59. مجلسی، وہی ماخذ، ج74، ص143۔
  60. مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص126۔
  61. برقی، المحاسن، ج1، ص173، ح146۔
  62. مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص126۔
  63. صدوق، کمال الدین، ج1، ص644 645۔
  64. موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص213۔
  65. کلینی، الکافی، ج2، ص222، ح4۔
  66. بحارالانوار، ج 72، ص 73۔
  67. مجلسی، بحارالانوار، ج 52، ص 125۔
  68. صدوق، كمال الدّين، ج1، ص323، ح7۔
  69. مجلسی، بحار الانوار، ج 51 ص72۔
  70. الطوسی، الغیبة، 176۔
  71. الطبرسی، احمد بن علي ، الاحتجاج، ج2، ص50۔
  72. مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص135۔
  73. صدوق، كمال الدّين، ج2، ب25، ح8۔
  74. صدوق، وہی ماخذ، ب93، ح12، ص171۔
  75. صدوق، وہی ماخذ، ج1، ب25، ح3، ص535۔
  76. غيبت نعماني، محمد بن ابراهيم نعماني، باب 11، ح 16، ص 207۔
  77. مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص95۔
  78. فرهنگ انتظار، آيت الله ناصري دولت آبادي۔
  79. البستوی، المهدی المنتظر، ج1، ص310۔
  80. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج7، ص283۔
  81. نعمانی، کتاب الغیبة، ج1، ص27۔
  82. مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص140۔
  83. صافی گلپایگانی، منتخب الأثر، ج1، ص498۔
  84. مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص135۔
  85. موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص209۔
  86. صدر، تاریخ الغیبة الکبری، ج1، ص12۔
  87. صدوق، کمال الدین، ج1، ص317۔
  88. صدوق، کمال الدین، ج1، ص361۔
  89. مطهری، قیام وانقلاب مهدی، ص54۔
  90. قیام وانقلاب مهدی، مطهری، ص55-56۔
  91. صدوق، کمال الدین، ج1، ص346۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن ابی الحديد، عزالدين، عبدالحميد، شرح نهج البلاغه، نشر داراحياء التراث العربى، لبنان، 1383هجری قمری۔
  • ابن تيميّه، احمد بن عبدالحليم،منهاج السنة، الحرانى، نشر دار الكتب، لبنان، 1420هجری قمری۔
  • ابن خلدون، عبد الرحمن محمد، تاريخ ابن خلدون، نشر دارالفكر، لبنان، 1417هجری قمری۔
  • ابن خلدون،، عبد الرحمن محمد، مقدمه ابن خلدون۔
  • ابن عربى، محى الدين، الفتوحات المكية، نشر المكتبة العربية، مصر، 1405هجری قمری۔
  • اربلى، على بن عيسى، كشف الغمه، نشر دار الكتب، بى تا، لبنان۔
  • البرقی، احمد بن محمدتصحيح و تعليق: جلال الدین الحسینی محدث، ناشر: دار الکتب الاسلامیه ۔ قم - ایران ۔ 1371هجری شمسی۔
  • البستوى، عبدالعليم، المهدى المنتظر، نشر دار ابن حزم، عربستان، 1420هجری قمری۔
  • جان ناس، مترجم على اصغر حكمت، تاريخ جامع اديان، نشر انتشارات و آموزش انقلاب اسلامى، تهران،1370هجری شمسی۔
  • حر عاملى، محمّد، وسائل الشيعة، نشر مكتبة الإسلامية، تهران، 1389هجری قمری۔
  • زبيدى، محب الدين، تاج العروس، نشر دارالفكر، لبنان، 1414هجری قمری۔
  • سبحانى، جعفر، الهيات، نشر المركز العالمي للدراسات الإسلامية، قم، 1411هجری قمری۔
  • صافى گلپايگانى، لطف اللّه، منتخب الأثر، نشر مكتبة الصدر، بى تا، تهران۔
  • صدر، محمد، تاريخ الغيبة الكبرى، نشر دار التعارف للمطبوعات، لبنان، 1402هجری قمری۔
  • صدر، محمد، اليوم الموعود بين الفكر المادى والدين، نشر دار التعارف للمطبوعات، لبنان، 1403هجری قمری۔
  • الصدوق، الشيخ محمد بن علي، كتاب الخصال، جماعة المدرسين في الحوزة العلمية قم المقدسة ۔ 1403هجری قمری / 1362هجری شمسی۔
  • الصدوق، الشيخ محمد بن علي، كمال الدين وتمام النعمة، نشر انتشارات نشر اسلامى، قم، 1363هجری شمسی۔
  • الصدوق، الشيخ محمد بن علي، من لا يحضره الفقيه، نشر دارالأضواء، لبنان، 1405هجری قمری۔
  • الطبرسي، ابو منصور احمد بن علی، الاحتجاج، تعليقات: محمد باقر الخرسان، مطابع النعمان النجف الاشرف ۔1386هجری قمری / 1966 عیسوی۔
  • فقيه ايمانى، مهدى، موسوعة الإمام المهدى، مكتبة امير المؤمنين، اصفهان، 1401هجری قمری۔
  • فقيه ايمانى، مهدى، الإمام المهدى عند أهل السنة، نشر مكتبة أمير المؤمنين(عليه السلام)، اصفهان، 1402هجری قمری۔
  • كتاب مقدس، انتشارات اساطير، تهران، 1380هجری شمسی۔
  • كلينى، محمد بن یعقوب، كافى، نشر دفتر نشر فرهنگ اهل بيت(عليهم السلام)، بى تا، تهران۔
  • گل محمدی آرمان، فریده، رسالت جهانی حضرت مهدی(عج)، كتابخانه تخصصی علوم و معارف قرآن (دفتر تبليغات اسلامی حوزه علمیه قم)، قم ۔ دارالنشر الاسلام۔ 1382هجری شمسی۔
  • مجلسى، محمد باقر بحارالأنوار، ، نشر دار احياء التراث العربى، لبنان، 1403هجری قمری۔
  • مطهرى، مرتضى، قيام وانقلاب مهدى، انتشارات صدرا، تهران، 1373هجری شمسی۔
  • معين، محمد، فرهنگ فارسى، انتشارات اميركبير، تهران، 1371هجری قمری۔
  • مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، نشر دارالكتب اسلامى، تهران، 1370هجری شمسی۔
  • موسوى اصفهانى، محمدتقى، مكيال المكارم، مترجم، حائرى قزوينى، انتشارات بدر، تهران، 1374هجری شمسی۔
  • نعمانى، محمد، كتاب الغيبة، نشر مكتبة الصدوق، بى تا، تهران۔
  • نوری طبرسى، حسين، مستدرك الوسائل، نشر مؤسسة آل البيت(عليهم السلام)، قم، 1407هجری قمری۔