شام غریباں

ویکی شیعہ سے
شام غریباں
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


شام غریبان، فارسی زبان و ادب میں عاشورا کی شام اور اس رات کی سوگواری کو کہتے ہیں۔ اس مجلس میں جو نوحے پڑھے جاتے ہیں وہ امام حسینؑ کے اہل بیت کی مصیبت اور واقعہ کربلا کے بعد بچوں اور اسیروں پر جو گزری اس کے بارے میں ہیں کہ اہل بیتؑ نے اندھیری رات کربلاکے بیابان میں کیسے گزاری۔اس رات اورمحرم کی دوسری راتوں کے درمیان بعض اور رسومات میں فرق یہ ہے کہ اس رات کو موم بتی جلا کر اندھیرے میں بیٹھتے ہیں۔

لفظی اور اصطلاحی معنی

لفظ غریب کا ایک معنی، وطن سے دور ہونا ہے اور بعض اوقات جو بے یارو مددگار اور اکیلا رہ گیا ہو اس کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔[1] شام غریباں بھی جو لوگ اپنے وطن سے دور اکیلے اور بے یارومددگار رہ گئے تھے ان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ [2]

اصطلاح اور فارسی زبان کے مرثیے میں، روز عاشور کے سورج غروب ہونے اور اس رات کی سوگواری کو کہا گیا ہے۔ [3]

واقعات

دشمن کی فوج نے عاشورا کا سورج غروب ہوتے ہی عورتوں کو خیموں سے باہر نکال دیا اور خیموں کو آگ لگا دی۔[4] اور اس وقت مستورات فریاد کرتی رہیں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھ کر اپنے منہ پر پیٹتی رہیں۔ [5] عمر بن سعد نے شام عاشورا کو امام حسینؑ اورکربلا کے دوسرے شہداء کے سروں کو (سروں کی تعداد ٧٢ تھی) شمر، قیس بن اشعث اور عمروبن حجاج اور عزرۃ بن قیس کے ہاتھوں ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ [6] عمر سعد اپنے لشکر کے ہمراہ اس رات کربلا میں ہی رکا اور دوسرے دن ظہر کے قریب اپنے سپاہیوں کے لاشوں کو دفن کرنے کے بعد اہل بیتؑ اور دوسرے بچے ہوئے افراد کو لے کر کوفہ کی جانب حرکت کی۔ [7] قول کے مطابق محرم کی گیارہویں رات جسے شام غریباں کہتے ہیں حضرت زینبؑ نے نماز شب ترک نہ کی لیکن اس مصیبت اور صدمے کے باعث اس رات نماز شب بیٹھ کر ادا کی۔ [8]

موم بتی جلانا

شام غریباں کے سوگ کی تاریخ

مظفر الدین شاہ کی حکومت سے سوگ کی یہ رات تہران میں مرسوم نہ تھی اور شام غریباں کا نوحہ ترکی زبان میں ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ عزاداری کی رسم مظفر الدین کے زمانے میں ترک قوم کی وجہ سے تہران میں شروع ہوئی۔ اور شام غریباں کی بہت بڑی مجلس اہل ترک کی مسجد شیخ عبدالحسین میں ہوتی تھی۔ [9] اور زیارات کی کتاب میں عاشور کی عصر کے بارے میں زیارت موجود ہے جس میں حضرت پیغمبرؐ، امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور امام حسن، یعنی جوعزادار تھے ان کی خدمت میں تسلیت عرض کرتے ہیں۔ شاید شام غریباں منانے کی رسم بھی اسی زیارت کی وجہ سے شروع ہوئی ہو۔ [10]

آداب ورسوم

شام غریباں تقریباً ایک مجلس کی طرح ہے، اس فرق کے ساتھ کے اس مجلس میں چراغ روشن نہیں کئے جاتے اور فقط کچھ موم بتی جلا کر روشنی کی جاتی ہے۔ اور عزادار اس رات کو جلوس یا علم برآمد نہیں کرتے اور نہ ہی زنجیر یا ماتم کرتے ہیں بلکہ پریشانی اور غم کی حالت میں مجلس برپا کرتے ہیں جس مجلس کا موضوع سنہ ٦١ ہجری ق میں گزری گیارہ محرم کی رات ہے کہ اس رات امام حسینؑ کے خاندان پر کیا گزری تھی۔ [11] اور بتایا جاتا ہے کہ اہل بیتؑ کی عورتوں اور بچوں نے یہ تاریک اور بے پناہ رات کس طرح کربلا کے بیابان میں گزاری ہے۔[12]

شام غریباں میں آرام اور آہستہ آواز میں نوحہ پڑھا جاتا ہے۔ کبھی سب اکٹھے مل کر بیٹھتے ہیں اور لکھا ہوا ایک شعر سب مل کر پڑھتے ہیں اور شعر کا دوسرا بند اپنی جگہ سے اٹھ کر اور چلتے ہوئے پڑھتے ہیں اور اس حالت میں مجلس میں جاتے اور واپس آتے ہیں۔ [13]

کربلا میں اس رات کو (لیله الوحشه) یعنی وحشت کی رات بھی کہتے ہیں. اور اس رات کو بچوں اور اسیروں کی یاد میں موم بتی جلاتے ہیں۔ [14]

پاکستان میں بھی یہ مجلس سورج غروب ہونے کے بعد منعقد ہوتی ہے اور اس مجلس میں اہل عزا اندھیرے میں اور زمین پر بیٹھتے ہیں۔ [15]

تصاویر

حوالہ جات

  1. فرہنگ لغت عمید، ذیل لغت «غریب»؛ فرہنگ واژگان مترادف و متضاد تألیف فرج‌اللہخداپرستی
  2. دہخدا، ذیل شام غریبان. نمونہ ۔در شعر حافظ: بیا بشام غریبان و آب دیدۂ من بین // بسان بادۂ صافی در آبگینۂ شامی
  3. مراجعہ کریں: محدثی، فرہنگ عاشورا، ص۲۴۱؛ مراجعہ کریں: جمعی از نویسندگان، پژوہشی در مقتل‌ ہای فارسی، ص۱۲۳۔
  4. مراجعہ کریں: الوان ساز خویی، وقایع الأیام، ج۲، ص۱۳۵و۱۵۱۔
  5. مراجعہ کریں: رسولی، زینب عقیلہ بنی‌ہاشم، ج۱، ص۵۵۔
  6. مراجعہ کریں: قمی، در کربلا چہ گذشت؟ (ترجمہ نفس المہموم)، ص۴۸۶۔
  7. مراجعہ کریں: رسولی، زینب عقیلہ بنی‌ہاشم، ج۱، ص۶۱و۶۲۔
  8. محسن زادہ، سر نینوا زینب کبریؑ، ص۱۵۸۔
  9. مراجعہ کریں: مستوفی، شرح زندگانی من، ص۴۶۰-۴۶۳۔
  10. مراجعہ کریں: مستوفی، شرح زندگانی من، ص۴۶۰و۴۶۱۔
  11. مراجعہ کریں: رضایی، بیرجندنامہ، ص۴۷۶و۴۷۷۔
  12. محدثی، فرہنگ عاشورا، ص۲۴۰و۲۴۱۔
  13. مستوفی، شرح زندگانی من، ۳ص۴۶۰و۴۶۱
  14. كربلاء تفترش ارصفتہا بالشموع مواساہً لعيال الحسين (عليہالسلام) في ليلہ الوحشہ
  15. عبد الحلیم شرر، مشرقی تمدن کا آخری نمونہ ص484۔