فرشتہ

ویکی شیعہ سے

فرشتہ یا مَلَک ایسی ما ورائے طبیعیات اور نا مرئی مخلوق ہے جو دنیا و آخرت میں خدا کے اوامر کو نافذ کرنے پر مامور ہیں۔ ملائکہ پر ایمان مسلمانوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ مسلمان علما کا فرشتوں کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہے؛ متکلمین انہیں جسمانی موجودات سمجھتے ہیں جو مختلف صورتیں اختیار کر سکتے ہیں، مگر فلاسفہ انہیں غیر جسمانی قرار دیتے ہیں۔

شیعہ علما کا عقیدہ ہے کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے خدا کے احکام کی نافرمانی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔ اسی طرح فرشتے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ان کی ذمہ داریاں یہ ہیں: عبادت، تسبیح خدا، نامہ اعمال لکھنا، پیغمبروں پر وحی نازل کرنا، انسانوں کی حفاظت، مومنین کی امداد، مادی و معونی رزق پہنچانا، روحیں قبض کرنا، دلوں کو ہدایت دینا اور اللہ کے عذاب کا اجرا۔

فرشتے مختلف گروہوں اور مراتب کے حامل ہیں؛ جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل دیگر فرشتوں کی نسبت بلند مقام رکھتے ہیں۔ فرشتوں کی انسانوں پر برتری، فرشتوں کی عصمت، ان کا جسمانی یا غیر جسمانی ہونا؛ ایسی مباحث ہیں جن کے بارے میں تفسیری و کلامی کتب میں تفصیلات موجود ہیں اور اس حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں۔

فرشتوں کی ماہیت

سولہویں صدی عیسوی سے متعلق ایک فرشے کا نقش

فرشتے خدا اور انسانوں کے مابین واسطہ ہیں اور خدا نے انہیں کائنات پر موکل قرار دیا ہے۔[1] ملائکہ، ملک کی جمع ہے۔[2]

فرشتوں کی ماہیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے؛ متکلمین انہیں لطیف اور نورانی اجسام قرار دیتے ہیں جو مختلف صورتوں اور شکلوں میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔[3] علامہ مجلسی نے یہ نظریہ کچھ فلاسفہ کے سوا تمام مسلمانوں سے منسوب کیا ہے اور مزید کہا ہے کہ انبیا و اوصیا انہیں دیکھتے تھے۔[4] البتہ کچھ فلاسفہ ملائکہ کو جسم و جسمانیات سے ما ورا قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فرشتے ایسے اوصاف کے حامل ہیں جو جسم میں نہیں سما سکتے۔[5] علامہ طباطبائی کے بقول روایات میں ملائکہ کو جسمانی صورتوں اور شکلوں میں مشاہدہ کیے جانے کے بارے میں جو کچھ منقول ہوا ہے، وہ ’’تَمثُّل‘‘ ہے۔(یعنی کوئی چیز کسی کیلئے خاص صورت میں ظاہر ہو) [6] اسی طرح ان کے نزدیک اس مشہور قول کہ فرشتے اور جن لطیف اجسام کے حامل ہوتے ہیں اور مختلف صورتیں اور شکلیں اختیار کرتے ہیں؛ پر کوئی معتبر دلیل نہیں ہے ۔[7] امام صادقؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق ملائکہ نور سے خلق ہوئے ہیں۔[8]

اہمیت و مقام

فرشتوں پر ایمان مسلمانوں کے عقائد میں سے ہے [9] اور ان پر ایمان نماز و روزہ پر ایمان کی مثل نبوت کے لوازم پر ایمان شمار ہوتا ہے۔[10]

لفظ ملک 88 مرتبہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔[11] امام علیؑ خطبہ اشباح میں فرشتوں کی تخلیق، اقسام، خصوصیات اور ذمہ داریوں کی وضاحت فرماتے ہیں۔[12] بحار الانوار میں ایک سو سے زائد روایات ملائکہ کی حقیقت، ذمہ داریوں، عصمت اور مقرب فرشتوں کے اوصاف کے بارے میں مذکور ہیں۔[13] صحیفہ سجادیہ کی تیسری دعا مقرب فرشتوں کے بارے میں مخصوص ہے؛ اس دعا میں خدا کی جانب سے نزولِ صلوات و درود کو ان کی طہارت میں اضافے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔[14]

روایات کی بنا پر ملائکہ کی تعداد دیگر مخلوقات کی نسبت سب سے زیادہ ہے اور بہت سی روایات میں ان کی کثرت کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔[15] احادیث میں منقول ہے کہ ملائکہ کی تخلیق پیغمبرؐ و آئمہؑ کی تخلیق کے بعد ہوئی ہے۔[16] مشرکین کا ایک گروہ فرشتوں کی پرستش کرتا تھا اور انہیں خدا کی مخلوق سمجھتا تھا، مگر اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ وہ عمل میں مستقل ہیں اور اپنے سے نچلی مخلوقات کے رب ہیں۔[17] بعض مشرکین انہیں خدا کی دختران سمجھتے تھے۔[18]

ملائکہ، دیگر ادیان میں

دیگر ادیان میں بھی ملائکہ پر کلام کیا گیا ہے؛ زرتشت کے دین میں فرشتے اہورا مزدا کی مخلوق ہیں اور ہر امشاسپند (زرتشتی دین کے بلند مرتبہ فرشتوں کا لقب) اس کی ایک صفت کا مظہر ہے۔ یہودی دین میں فرشتے خدا کے بندوں کی منزلت پر ہیں اور زمین پر اس کے احکام کا اجرا کرتے ہیں اور انسانوں تک وحی پہنچاتے ہیں۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب کے مطابق فرشتوں کو انسان سے پہلے خلق کیا گیا ہے اور وہ انسانوں کے محافظ ہیں۔ میکائیل جیسے بعض فرشتوں پر درود اور ان کی پرستش مسیحی کلیساؤں میں رائج ہے۔[19]

ذمہ داریاں

قرآن میں فرشتوں کی ذمہ داریاں ذکر ہوئی ہیں: وحی کے نزول میں واسطہ (خدا کا پیغام پیغمبروں تک پہنچانا،[20] تدبیر امور عالم، رساندن فیض الہی بہ مخلوقات،[21] استغفار[22] مومنین کی شفاعت [23] اور امداد،[24] لعن کافران،[25] بندوں کے اعمال ثبت کرنا[26] اور قبضِ روح۔[27] کچھ فرشتے ہمیشہ خدا کی عبادت و تسبیح میں مشغول رہتے ہیں اور کوئی دوسرا کام نہیں کرتے۔[28]

فرشتے عالم برزخ[29] اور آخرت میں بھی حاضر ہوتے ہیں؛ ان میں سے کچھ بہشت میں مامور ہیں۔[30] اور کچھ دوزخ اور دوزخیوں پر نگہبان ہیں۔[31]

مراتب و اقسام

علامہ طباطبائی کے بقول فرشتوں کے مختلف مراتب و مقامات ہیں۔ ان میں سے بعض کا مقام دوسروں سے بالا تر یا پائین تر ہے۔[32] قرآنی آیات کے مطابق ان میں سے ایک گروہ فرشتہ وحی (جبرئیل) کے معاونین[33] اور ایک گروہ ملک الموت (عزرائیل) کا معاون شمار ہوتا ہے۔[34]

ملا صدرا فرشتوں کو مقرب، ارواح مُہَیمِہ، آسمانی اجسام پر موکل، عقلی اور زمینی فرشتوں میں تقسیم کرتے ہیں[35] اور امام خمینی انہیں اجسام میں غیر متصرف (مہیمہ اور عالم جبروت کے فرشتوں) اور جسمانی موجودات پر موکل فرشتوں[36] میں تقسیم کرتے ہیں۔

خصوصیات

فرشتوں کی بعض خصوصیات یہ ہیں:

عصمت

علامہ مجلسی کے بقول شیعہ فرشتوں کو ہر قسم کے گناہِ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ تر اہل‌ سنت بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔[37] اس کے باوجود بعض اہل سنت فرشتوں کی عصمت کو قبول نہیں کرتے اور بعض ان کی خاص اقسام جیسے حامل وحی اور مقرب فرشتوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔[38]

آیت «لَا یسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِ‌ہِ یعْمَلُونَ: سخن میں اس پر سبقت نہیں کرتے اور اس کے حکم سے کام کرتے ہیں»[39] اور «لایعصون اللہ ما امرہم»[40] کی بنا پر ملائکہ معصوم ہیں اور خدا کی نافرمانی نہیں کرتے۔[41] البتہ بعض نے ہاروت و ماروت کی داستان اور ابلیس کے آدم کو سجدہ نہ کرنے [42] نیز فطرس کی نافرمانی کے پیش نظر ان کی عصمت میں تشکیک کی ہے۔[43] شیعہ علما نے اس قسم کے اعتراضات کا جواب دیا ہے؛ منجملہ یہ کہ ھاروت و ماروت کی نافرمانی افسانوی ہے اور قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے،[44] اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابلیس فرشتہ نہیں تھا،[45] نیز مرتضی مطہری کے بقول خدا کے احکام کی نافرمانی کا احتمال کچھ فرشتوں کیلئے موجود رہتا ہے نہ سب کی نسبت۔[46] ناصر مکارم شیرازی کے بقول اوامر الہٰی کی انجام دہی میں سستی کے نتیجے میں بعض فرشتوں کی تنبیہ جو روایات میں مذکور ہوئی ہے ترک اولیٰ ہے نہ گناہ؛ جیسا کہ بعض پیغمبروں کی نسبت بھی یہی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔[47]

علامہ طباطبائی سمجھتے ہیں کہ فرشتے وہی ارادہ کرتے ہیں، جو خدا کرتا ہے اور جو خدا امر کرے وہ اس پر عمل کرتے ہیں، اس اعتبار سے وہ گناہ نہیں کرتے ۔[48]

بنی آدم پر برتری

بعض علما نے آیت «وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ... وَ فَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا؛ قطعا ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا …اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی»[49] کے ذیل میں اس آیت کی رو سے فرشتوں کو انسان سے برتر سمجھا ہے۔ بعض دیگر علما نے فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنے اور حضرت آدم کے توسط سے انہیں تعلیم دینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انسان کو فرشتوں سے برتر سمجھا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ انسان اپنی استعداد کو بروئے کار لائے۔[50]

حسن زادہ آملی کے بقول ابن ‌عربی عالین (مہیمین) فرشتوں کو بنی آدم سے برتر سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان پر حضرت آدم کو سجدہ کرنا واجب نہیں تھا۔[51] اور محمد داؤد قیصری، خلیفۃ ‌اللّہی مقام پر پہنچنے والے انسانوں کو عالین فرشتوں سے سے برتر سمجھتے ہیں۔[52] ملا صدرا، سورہ بقرۃ کی آیت 31 کہ جو ملائکہ کی تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ سے استدلال کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آیت آدم کی زمین و آسمان پر ساکن فرشتوں پر برتری بیان کر رہی ہے نہ کہ مہیمین فرشتوں پر برتری کو۔[53]

پیغمبروں کی ملائکہ پر برتری

بہت سے مسلمان پیغمبروں کو ملائکہ سے برتر سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل بھی پیغمبروں میں قوت غضبیہ و شھویہ کا موجود ہونا ہے جبکہ فرشتوں میں یہ نہیں ہوتیں۔[54] اسی طرح ان پر پیغمبروں کی برتری کو بیان کرنے کیلئے قرآن کی ان آیات سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جن میں آدم کے سامنے فرشتوں کے سجدے اور آدم کی جانب سے انہیں تعلیم دینے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[55] اسی طرح شیعہ آئمہؑ کو ملائکہ سے برتر سمجھتے ہیں۔[56]

بشر کی شکل میں

قرآنی آیات[57] کے مطابق روح‌ الامین انسانی شکل میں مریم کے سامنے جلوہ گر ہوئے۔[58] اسی طرح روایات کی بنا پر جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر دحیہ کلبی کی شکل میں نازل ہوتے تھے۔[59] روایات میں منقول ہے کہ فرشتے قبضِ روح کے وقت مرنے والے کے مومن یا فاسق ہونے کی مناسبت سے مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔[60] فرشتوں کا اپنی اصلی صورت کے علاوہ کسی اور شکل میں ظاہر ہونے کو تمثل کہا جاتا ہے۔[61] پیغمبرؐ کے سوا کسی نے ملائکہ کو اپنی اصل شکل میں نہیں دیکھا ہے۔[62]

تجرد

فلاسفہ کے نزدیک ملائکہ مجرد ہیں۔[63] خواص مادہ از قبیل شہوت و غضب ،[64] تغییر، تحول، تکامل[65] اور حواس کے ساتھ ادراک کی صلاحیت نہ رکھنا [66] ان کے تجرد کی ادلہ ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے مفسرین کے برخلاف ملا صدرا فرشتوں کو ایک ثابت و غیر متزلزل مقام کا حامل سمجھتے ہیں،[67] ان میں سے ایک گروہ کے علم و کمال کو قابل افزائش سمجھتے ہیں۔[68] امام علیؑ فرشتوں کے ایک گروہ کو دانا ترین اور خدا کی مقرب ترین مخلوق قرار دیتے ہیں کہ جن کی آنکھوں پر نہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے، نہ سہو ان کی عقل پر اور نہ ان کا بدن تھکن کا شکار ہوتا ہے۔[69]

پروں کا حامل ہونا

قرآن و روایات کے ظاہر کی بنا پر فرشتوں کے پر ہوتے ہیں ۔[70] فرشتوں کے پر ہونے سے مقصود کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں:

  • علامہ طباطبائی کا خیال ہے کہ فرشتوں کے پر ہونے سے مقصود یہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان تک آمد و رفت رکھتے ہیں، نہ یہ کہ پرندوں کی طرح پر رکھتے ہوں۔[71]
  • امام خمینیؒ سمجھتے ہیں کہ عالم ملکوت کے فرشتے غیر جسمانی اور مجرد ہیں اور ان کے پر نہیں ہوتے، تاہم عالم مثال کے فرشتے ممکن ہے کہ بال و پر رکھتے ہوں۔[72]
  • ابن‌ عربی کے نزدیک فرشتوں کے پروں کی تعداد سے مقصود آسمان و زمین کے ملکوت میں ان کی تاثیر کا میزان ہے۔[73]

اسی طرح فرشتوں کے پروں کی تعداد احکام الہٰی کی انجام دہی میں ان کی سرعت کی علامت ہے،[74] قدرتِ انتقال اور انجام فعل کی علامت،[75] اور فرشتوں کے مراتب میں تفاوت کی علامت [76] سمجھا جاتا ہے۔

مونوگراف

ملائکہ کے بارے میں فارسی، عربی اور انگریزی میں متعدد آثار تالیف کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • «سیری در اسرار فرشتگان»، قرآنی و عرفانی زاویے سے؛ مؤلف محمد زمان رستمی اور طاہر آل‌ بویہ، یہ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ فرشتوں کی ماہیت، صفات، اقسام، فرشتوں کے کام اور فرشتوں کی انسانوں پر خلافت اس کتاب کی فصول کے عناوین ہیں۔[77] پژوھشگر علوم و فرھنگ اسلامی نے یہ کتاب سنہ 1393ش کو 552 صفحات پر شائع کی ہے۔[78]
  • «المخلوقا‌ت‌ الخفیة فی‌ القرآن‌: الملائکہ، الجن‌، ابلیس‌»، عربی، تالیف: سید محمد حسین طباطبائی۔

اسی طرح الایمان بالملائکہ، تالیف عبد اللہ سراج ‌الدین، الملائکہ، تالیف بیلی گرام، سیمای فرشتگان در قرآن و نہج البلاغہ، تالیف لیلا حمد اللہی، فرشتگان، علی رضا رجالی تہرانی اور ملائکہ، تالیف محمد شجاعی، دیگر آثار ہیں جو اس حوالے سے لکھے گئے ہیں۔[79]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص6۔
  2. طریحی، مجمع‌البحرین، 1416ھ، ج5، ص292۔
  3. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین، 1387ش، ج1، ص161۔
  4. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج56، ص202-203۔
  5. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین، 1387ش، ج1، ص161۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص13۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص13۔
  8. مجلسی، بحارالانوار، ج58، ص306، ح15۔
  9. سورہ بقرہ، آیہ 285۔
  10. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص442۔
  11. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، 1393ش، ص47۔
  12. نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، 1374، ص128-131۔
  13. ملاحظہ کیجئے: علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج56، ص144-326۔
  14. الصحیفة السجادیة، 1376ش، ص36-40۔
  15. بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج4، ص535۔
  16. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص8 و ج18، ص345 و ج24، ص88۔
  17. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص38۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج19، ص171۔
  19. The Encyclopedia of Religion, volume1, p:2830, Oxford, New York, (1986 بحوالہ مطہری‌ نیا، بازنمایی فرشتگان الہی در رسانہ(1) جبرائیل و میکائیل، 1390ش، ص59۔
  20. سورہ نحل، آیہ 2 و 102؛ سورہ عبس، آيہ 16۔
  21. سورہ نازعات، آيہ 5؛ سورہ معارج، آيہ 4۔
  22. سورہ مؤمن، آيہ 7۔
  23. سورہ انبیاء، آيہ 28۔
  24. سورہ آل‌ عمران، آیہ 124 و 125۔
  25. سورہ بقرہ، آیہ 141؛ سورہ آل‌ عمران، آيہ 87۔
  26. سورہ یونس، آيہ 21؛ سورہ زخرف، آيہ 80؛ سورہ انفطار، آیہ 11۔
  27. سورہ انعام، آیہ 62؛ سورہ نساء، آیہ 97۔
  28. سورہ انبیاء، آيہ 19-20۔
  29. سورہ نحل، آیہ 28 و32۔
  30. سورہ زمر، آیہ 72؛ سورہ انبیاء، آیہ 103۔
  31. سورہ مدثر، آيہ 20۔
  32. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص12۔
  33. سورہ تکویر، آیہ 21۔
  34. سورہ سجدہ، آیہ 12؛ سورہ انعام، آیہ 62۔
  35. نگاہ کنید بہ ملا صدرا، مفاتیح الغیب، 1363ش، ص350-351۔
  36. امام خمینی، آداب الصلاة، 1378ش، ص339-342۔
  37. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج11، ص124۔
  38. زرکشی، البحر المحیط، 1414ھ، ج6، ص21۔
  39. سورہ انبیاء، آيہ 27۔
  40. سورہ تحریم، آیہ 6۔
  41. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص12۔
  42. ملاحظہ کیجئے: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383ش، ص426۔
  43. راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص127 و128۔
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج1، ص375۔
  45. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383ش، ص426۔
  46. مطہری، مجموعہ آثار، ج4، ص280۔
  47. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1387ش، ج1، ص168۔
  48. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص12۔
  49. سورہ اسرا، آیہ 70۔
  50. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج12، ص199-200۔
  51. ملاحظہ کیجئے: حسن‌زادہ آملی، ممد الہمم، 1378ش، ص367-369۔
  52. حسن‌زادہ آملی، ممد الہمم، 1378ش، ص367-369۔
  53. ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، 1366ش، ج2، ص370۔
  54. علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص360؛ ایجی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص285۔
  55. ایجی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص283-285۔
  56. اشقر، عالم الملائکة الابرار، 1421ھ، ص92۔
  57. سورہ مریم، آیہ 17۔
  58. امام خمینی، آداب الصلاة، 1378ش، ص342۔
  59. ملاحظہ ہو: علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج20، ص210۔
  60. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج12، ص74۔
  61. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص13۔
  62. اشقر، عالم الملائکة الابرار، 1421ھ، ص11۔
  63. ملاحظہ کیجئے: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383ش، ص427۔
  64. علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص360۔
  65. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص13۔
  66. اشقر، عالم الملائکة الابرار، 1421ھ، ص5۔
  67. بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص176؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج26، ص362۔
  68. ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، 1366ش، ج2، ص371۔
  69. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص207۔
  70. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص625۔
  71. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص7۔
  72. امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ش، ص414۔
  73. ابن‌ عربی، تفسیر ابن‌ عربی، 1422ھ، ج2، ص167۔
  74. سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص440۔
  75. مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج14، ص13۔
  76. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ص259۔
  77. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، 1393ش، ص5-29۔
  78. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، 1393ش، ص4۔
  79. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، 1393ش، ص46۔

مآخذ

  • ابن‌ عربی، محیی‌ الدین محمد، تفسیر ابن عربی، تحقیق سمیر مصطفی رباب، بیروت، دار احیاء التراث، 1422ہجری۔
  • اشقر، عمر سلیمان، عالم الملائکة الابرار، اردن، دارالنفائس، 1421ق-2000 ء۔
  • الصحیفة السجادیة، قم، دفتر نشر الہادی، 1376شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، آداب الصلاة، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، تہران، 1378شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، شرح چہل حدیث، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1380شمسی۔
  • ایجی، میر سید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدر الدین نعسانی، الشریف الرضی، افست قم، 1325ہجری۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، 1416ہجری۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تحریر تمہید القواعد ابن ترکہ، تہران، انتشارات الزہراء، 1372شمسی۔
  • حسن‌ زادہ آملی، حسن، ممد الہمم در شرح فصوص الحکم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد، 1378شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، سید محمد حسین، انوار درخشان، تحقیق محمد باقر بہبودی، تہران، کتاب فروشی لطفی، 1404ہجری۔
  • رستمی و آل‌ بویہ، محمد زمان و طاہرہ، سیری در اسرار فرشتگان، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1393شمسی۔
  • زرکشی، محمد بن عبداللہ، البحر المحیط فی اصول الفقہ، درا الکتبی، 1414ق1994ء۔
  • سبزواری نجفی، محمد بن حبیب‌اللہ، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1419ہجری۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، افست، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ہجری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ مجمد جواد بلاغی، انتشارات ناصر خسرو، تہران، چاپ سوم، 1372شمسی۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تصحیح احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضی، 1416ہجری۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1413ہجری۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ہجری۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1420ہجری۔
  • فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، مقدمہ زین العابدین قربانی، تہران، سایہ، 1388شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت،‌ داراحیاء التراث العربی، 1403ہجری۔
  • مطہری‌ نیا، محمود، فرشتگان الہی در رسانہ (1) (جبرئیل و میکائیل)، قم، مرکز پژوہش‌ہای اسلامی صداوسیمای جمہوری اسلامی ایران، 1390شمسی۔
  • مکارم شیرازی و دیگران، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب‌ اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌ طالب، 1421ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین علیہ السلام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1387شمسی۔
  • ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، تحقیق محمد خواجوی، قم، بیدار، 1366شمسی۔
  • ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، مفاتیح الغیب، تہران، وزارت فرہنگ و آموزش عالی، انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران و مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرنگی، 1363شمسی۔
  • نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1374 افست از روی بیروت 1387ہجری۔