محمد بن یعقوب کلینی

ویکی شیعہ سے
ثقۃ الاسلام کلینی
مقبرہ شیخ کلینی بغداد
کوائف
مکمل ناممحمد بن یعقوب کلینی
لقب/کنیتثقۃ الاسلام
تاریخ ولادتتقریبا 255 ھ
آبائی شہرکلین ری، ایران
تاریخ وفات329 ھ
مدفنبغداد
علمی معلومات
اساتذہاحمد بن ادریس قمی، حسن بن فضل بن یزید یمانی، احمد بن مہران، ابن بابویہ، صفار قمی
شاگردابن ابی رافع صیمری، ابن قولویہ، ہارون بن موسی تلعبکری، ابو غالب زراری
تالیفاتالکافی، الرد علی القرامطہ، رسائل الائمہ (ع)، تعبیر الرؤیا، کتاب الرجال
خدمات
سماجیشیخ و مرجع شیعہ شہر ری


محمد بن یعقوب کلینی (متوفی 329 ھ)، ثقۃ الاسلام کلینی کے نام سے مشہور اکابرین فقہ و حدیث میں سے ہیں۔ وہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد دنیا میں آئے اور امام زمانہ(عج) کے ایام ظہور میں موجود تھے۔ ان بزرگ محدثین اور اصحاب سے ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جنہوں نے براہ راست امام علی نقی (ع) اور امام عسکری (ع) سے حدیثیں سنی تھیں۔ انھوں نے محمد بن یحیی اشعری، عبد اللہ بن جعفر حمیری، علی بن حسین بن بابویہ قمی، محمد بن یحیی عطار سمیت متعدد بزرگ اساتذہ سے فیض حاصل کیا ہے جبکہ ابن قولویہ، محمد بن علی ماجیلویہ قمی اور احمد بن محمد زراری ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔

ولادت کب اور کہاں؟

اس سوال کا صحیح و دقیق جواب میسر نہیں ہے تاہم سوانح نگاروں نے مسلم جانا ہے کہ ان کی ولادت شہر رے کے نواحی گاؤں کُلَین میں ہوئی ہے۔ ان کے وقت ولادت کے بارے میں موجودہ قرائن اور علائم سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ امام زمانہ(عج) کی ولادت سے کچھ عرصہ قبل یا بعد ـ یعنی سنہ 255 ہجری کے لگ بھگ ـ پیدا ہوئے ہیں اور غیبت صغری کے زمانے میں رہے ہیں۔ بحر العلوم نے احتمال دیا ہے کہ ثقۃ الاسلام کلینی نے امام حسن عسکری(ع) کی زندگی کا حصہ پالیا ہے۔[1]

اسماء و القاب

رجال کی کتب اور سوانح نگاروں نے، کلینی کے حالات زندگی لکھتے ہوئے انہیں جن عناوین اور القاب و کنیات سے یاد کیا ہے، ان میں ابوجعفر، محمد بن یعقوب، ابن اسحٰق، ثقۃ الاسلام، رازی، سِلسِلی اور بغدادی۔[2] وہ پہلے اسلامی عالم دین ہیں جنہیں "ثقۃ الاسلام" کے لقب سے نوازا گیا ہے؛ جس کی وجہ یہ ہے کہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے، علم و فضیلت کے لحاظ سے اعلی شان و منزلت کے مالک تھے، لوگوں کے دینی مسائل حل کرتے تھے اور عوام اپنے مسائل اور فتاویٰ کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔[3] انہیں سلسلی اس وجہ سے کہا گیا کہ بغداد جاکر وہ باب کوفہ میں واقع درب السلسلہ میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔[4]

کلینی کا خاندان

کلینی کا خاندان علم و فضیلت کا خاندان ہے۔ ان کے والد یعقوب بن اسحق اپنے زمانے کے علماء میں شمار ہوتے تھے اور ان کا دور غیبت صغری کا دور ہے۔[5] ابوالحسن علی بن محمد المعروف بہ علان رازی کلینی کے ماموں ہیں۔ محمد بن عقیل کلینی، احمد بن محمد، محمد بن احمد سب کلینی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعہ اکابرین اور علماء اور بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔[6]

حدیث آموزی اور ہجرت بسوئے قم

رے، کلینی کے زمانے میں اسماعیلی، حنفی، شافعی اور شیعہ کے درمیان آراء و افکار کے معرکے کا مرکز سمجھا جاتا تھا چنانچہ انھوں نے حصول علم اور مختلف مذاہب کی آراء و افکار سے واقفیت کے ساتھ ساتھ حدیث نگاری کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے رے میں بزرگ عالم دین ابوالحسن محمد بن اسدی کوفی سے علم حدیث سیکھا[7] اور علم حدیث کی تکمیل کے لئے شہر قم مشرف ہوئے اور اس شہر میں ایسے ملاقات کے ساتھ ملاقاتیں کیں جنہوں نے براہ راست امام علی نقی علیہ السلام اور امام عسکری (ع) سے حدیثیں سنی تھیں اور بزرگ اساتذہ سے حصول فیض کیا۔

ذاتی اور علمی شخصیت

یادگار ڈاک ٹکٹ

تراجم اور سوانح و تاریخ کی کتب میں ان کے تعارف اور حالات زندگی کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے حامی اور مخالفین نے کلینی کے علم و فضل اور عظمت و منزلت کی تصدیق کی ہے۔[8]

شیعہ اکابرین کی نظر میں

شیخ طوسی اپنی کتاب رجال میں میں لکھتے ہیں: محمد بن یعقوب کلینی المُکَنّٰی ابو جعفر اعور جلیل القدر عالم دین تھے اور روایت [و حدیث] پر عبور رکھتے تھے، ان کی بعض تصانیف ہیں جن کا ذکر الکافی میں آیا ہے۔[9] انھوں نے اپنی ایک کتاب میں کلینی کو ثقہ اور اخبار و روایات کے عالم کے طور پر یاد کیا ہے۔[10]

شیعہ عالم رجال نجاشی کہتے ہیں: وہ [کلینی] اپنے زمانے میں شیعیانِ رے کے شیخ اور پیشوا اور اور علماء کے درمیان علم حدیث اور ضبط و کتابت حدیث کے حوالے سے موثق ترین تھے۔ انھوں نے اپنی عظیم کتاب الکافی کو 20 سال کے عرصے میں تصنیف کیا ہے۔[11]

عالمان شیعی دیگر نظیر [ ابن شہرآشوب،[12] علامہ حلی،[13] ابن داود حلی، [14] تفرشی، [15] اردبیلی، [16] اور سید ابوالقاسم خوئی[17] سمیت دیگر شیعہ علماء نے کلینی کے سلسلے میں شیخ طوسی اور نجاشی کی عبارتوں کی تائید و تصدیق کی ہے۔ سید بن طاووس کا کہنا ہے کہ کلینی کی وثاقت اور امانت پر سب کا اتفاق ہے۔[18]

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں

مشہور سنی مؤرخ ابن اثیر: کلینی علمائے امامیہ کے علماء اور اکابرین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔[19]
ذہبی: کلینی شیخِ شیعہ، عالمِ امامیہ اور صاحب تالیفات ہیں۔[20]
ابن حجر عسقلانی اور ابن ماکولا: وہ مذہب شیعہ کے فقہاء اور مصنفین و مؤلفین میں سے ہیں۔[21]۔[22]
ابن عساکر نے بھی اپنی کتاب میں ان کو تعظیم و تکریم کے ساتھ یاد کیا ہے۔[23]

تصنیفات و تالیفات

کتاب الکافی

محمد بن یعقوب کلینی الکافی کے علاوہ دوسری کتابیں بھی لکھیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی علمی مقام و منزلت کے حامل تھے۔ ان کی بعض تالیفات درج ذیل ہیں:

  • الرد علی القرامطہ: یہ کتاب قرمطیوں کے متضاد اور ناقابل قبول و گمراہ کن عقائد کی تردید کی غرض سے تالیف ہوئی ہے۔
  • رسائل الائمہ(ع)
  • تعبیرالرؤیا
  • کتاب الرجال
  • ما قیل فی الائمہ(ع) من الشعر [جو کچھ ائمہ علیہم السلام کے بارے میں، شاعری کے حوالے سے کہا گیا ہے
  • الزی و التجمل
  • الدواجن و الرواجن
  • الوسائل
  • فضل القرآن۔[24]۔[25]۔[26]

اساتذہ

کہا جاتا ہے کہ کلینی نے 50 اساتذہ سے حصول فیض کیا ہے جنہوں نے حدیث املاء کرنے (یا تحدیث) کے ساتھ ساتھ ان کے استاد کے عنوان سے بھی کردار ادا کیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ صاحب تفسیر قمی جناب علی بن ابراہیم قمی سے متاثر تھے جن کا نام انھوں نے الکافی کی 7068 اسناد حدیث میں نقل کیا ہے۔[27] ان کے دوسرے اہم اساتذہ میں کے نام درج ذیل ہے:

شاگرد اور راوی

ان کے شاگردوں اور ان سے نقل حدیث کرنے والوں میں بھی بعض اکابرین شیعہ شامل ہیں:

بغداد کی طرف عزیمت

تاریخی شواہد کے مطابق الکافی کی تالیف کے اختتام اور تاریخ وفات سے دو سال قبل سنہ 327 ہجری میں انھوں نے بغداد کا سفر اختیار کیا ہے؛ یوں وہ اپنی عمر کے آخری دو سال بغداد میں بسر کرچکے ہیں؛ بغداد ان ایام میں بڑا علمی مرکز تھا۔ سفر بغداد سے قبل الکافی کی تالیف کے اختتام کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ چاروں نائبین خاص (نواب اربعہ) کے معاصر تھے مگر انھوں نے ان سے کوئی بھی حدیث بلاواسطہ نقل نہیں کی ہے۔ چونکہ کلینی شیعہ اور سنی حلقوں میں یکسان طور پر مشہور ومعروف تھے چنانچہ شیعہ اور سنی عوام نے فتوی کے لئے ان کی طرف رجوع کیا اور انہیں "ثقۃ الاسلام" کا لقب دیا۔[30]

وفات اور مدفن

کلینی شعبان المعظم سنہ 328 ہجری (سال تَناثُر نجوم کو (غیبت صغری کے خاتمے سے ایک سال قبل اور) غیبت کبری کے آغاز کے موقع پر (یا اس سے ایک سال قبل، 70 سال کی عمر میں شہر بغداد میں دار الفناء سے کوچ کرکے دارالبقاء کی طرف رحلت کرگئے۔[31] نجاشی اور شیخ طوسی نے روایت کی ہے کہ این گونہ محمد بن جعفر حسنی المعروف بہ ابو قیراط نے کلینی کی میت پر نماز ادا کی۔ ان کی تدفین باب کوفہ کے مقام پر ہوئی۔ بایں ہمہ ابن عبدون نامی شخص کا کہنا ہے کہ اس نے کلینی کے مقبرے کو شارع طائی پر دیکھا ہے جس کے اوپر ایک کتبہ نصب تھا جس پر کلینی اور ان کے والد کے نام درج تھے۔[32]۔[33]

محمد باقر خوانساری لکھتے ہیں: جو کچھ کلینی کے مرقد کے بارے میں مشہور ہے وہ یہ ہے کہ وہ بغداد اور دجلہ کی مشرقی جانب تکیہ مولویہ میں واقع ہے اور عامہ اور خاصہ ان کی زیارت کو آتے ہیں۔[34]

حوالہ جات

  1. معجم رجال الحدیث، ج 19، ص 58۔
  2. الکلینی و الکافی، ص 124 و 125۔
  3. ریحانة الادب، ج 5، ص 79۔
  4. تاج العروس، ج 18، ص 482۔
  5. سفینة البحار، ج 2، ص 495۔
  6. روضات الجنات، ج 6، ص 108۔
  7. الکلینی و الکافی، ص 179۔
  8. الفوائد الرجالیہ، ج 3، ص 325۔
  9. رجال طوسی، ص 429۔
  10. الفہرست، ص 210۔
  11. رجال نجاشی، ص 377۔
  12. معالم العلماء، ص 134۔
  13. خلاصہ الاقوال، ص 245۔
  14. رجال ابن داوود، ص 187۔
  15. نقد الرجال، ج 4، ص 352۔
  16. جامع الرواہ، ج 2، ص 218۔
  17. معجم الرجال الحدیث، ج 19، ص 54۔
  18. کشف المحجة، ص 159۔
  19. الکامل فی التاریخ، ج 8، ص 364۔
  20. سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 280۔
  21. لسان المیزان،ج 5، ص 433۔
  22. اکمال الکمال، ج 7، ص 186۔
  23. تاریخ مدینہ دمشق، ج 56، ص 297۔
  24. رجال نجاشی، ص 377۔
  25. رجال طوسی، ص 429۔
  26. معالم العلماء، ص 134۔
  27. معجم رجال الحدیث، ج 19، ص 59۔
  28. الکلینی و الکافی، ص 166 اور بعض کے صفحات۔
  29. الکلینی و الکافی، ص 182 اور بعد کے صفحات۔
  30. الکلینی و الکافی، ص 264 - 267۔
  31. ریحانة الادب، ج 8، ص 80۔
  32. رجال نجاشی، ص 378۔۔
  33. الفہرست، ص 210 و 211۔
  34. روضات الجنات، ج6، ص 108۔

مآخذ

  • بحر العلوم، سید محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تحقیق محمد صادق بحر العلوم، تہران، مکتبہ الصادق، 1363 ہجری شمسی۔
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی جا، بی نا، 1413 ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، بی جا، نشر الفقاہہ، 1417 ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1416 ھ۔
  • غفار، عبداللہ الرسول، الکلینی و الکافی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1416 ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، 1413 ھ۔
  • زبیدی، محب الدین، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، 1414 ھ۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1415 ھ۔
  • ابن شہر آشوب، محمد علی، معالم العلماء، قم، بی نا، بی تا.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق جواد قیومی، بی جا، نشر الفقاہہ، 1417 ھ۔
  • ابن داود حلی، حسن بن علی، رجال ابن داود، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1392 ھ۔
  • تفرشی، محمد بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، 1418 ھ۔
  • اردبیلی، محمد علی، جامع الرواہ، بی جا، مکتبہ المحمدی، بی تا.
  • سید بن طاوس، علی بن موسی، کشف المحجہ لثمرہ المہجہ، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1370 ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1386 ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1390 ھ۔
  • ابن ماکولا، اکمال الکمال، بی جا، دار احیاء التراث العربی، بی تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415 ھ۔
  • مدرس، محمد علی، ریحانہ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، خیام، 1369 ہجری شمسی۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، بی تا.
  • قمی، شیخ عباس، سفینہ البحار، قم، اسوہ، بی تا.