کن فیکون
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
سورہ | بقره، آیت 117 • آل عمران، آیت 47 و 59 • انعام، آیت 73 • نحل، آیت 40 • مریم، آیت 35 • یس، آیت 82 • غافر، آیت 68 |
پارہ | 1، 3، 7، 14، 16، 23، 24 |
موضوع | ارادہ خداوند |
مضمون | حضرت عیسیؑ کی غیرمعمولی ولادت، خلقت، وقوع قیامت |
"کُنْ فَیَکونُ" "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)
اہل سنت اکثر مفسرین کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن شیعہ مفسرین اس عبارت کی تفسیر میں ائمہ معصومین سے منقول احادیث کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ خدا موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل بہشت اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔
قرآن میں تذکرہ
"کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے حضرت عیسیؑ کی پیدائش، قیامت کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔[1] مثلا سورہ بقرہ آیت نمبر 117، سورہ مریم آیت نمبر 35 اور سورہ آل عمران آیت نمبر 37 میں حضرت عیسیؑ کی ولادت سے متعلق آیا ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)[2]
سورہ غافر کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔)[3] سورہ نحل آیت نمبر 40 إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔)[4] اور سورہ یس آیت نمبر 82:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔)[5] میں بھی یہ عبارت آئی ہے۔
مختلف تفسیریں
تفسیر مجمع البیان میں اس عبارت کی تفیسر سے متعلق مفسرین کے تین نظریات بیان ہوئے ہیں:
- پہلا نظریہ: اس عبارت کو ایک قسم کی تمثیل قرار دیتے ہیں کیونکہ جو چیز ابھی موجود ہی نہیں اسے مخاطب قرار دے کر امر کرنا معقول نہیں ہے۔
- دوسرا نظریہ: خدا حقیقتا کسی چیز کے موجود ہونے کا امر کرتا ہے اور یہ کام خدا اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ فرشتے جان لیں کہ کوئی نئی موجود خلق ہوئی ہے۔
- تیسرا نظریہ: اس نظریے میں بھی امر خداوندی کو حقیقی قرار دیتے ہیں کیونکہ ہر موجود خلق ہونے سے پہلے بھی خدا کو معلوم ہے اس بنا پر خدا اسے مخاطب قرار دے کر امر کر سکتا ہے۔[6]
آٹھویں صدی کے شیعہ مفسر طَبرسی ان تین نظریات میں سے پہلے نظریے کو قبول کرتے ہوئے باقی دو تفسیر کو بعض اہل سنت علماء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[7] تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر آلوسی کہتے ہیں کہ اکثر اہل سنت مفسرین اس بات کے خدا حقیقتا لفظ "کُنْ" کہتا ہے کیونکہ آیت کا لفظی معنا یہی کہتا ہے۔[8] ان کے مقابلے میں شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں اس طرح کے بیانات کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔[9]
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اس عبارت کے تمثیل ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: خداوند عالم موجودات کی خلقت میں حقیقتا لفظ "کن" استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے تَسَلسُل لازم آتا ہے اور دوسری طرف سے یہ ایک بے فائدہ کام ہے۔ تسلسل اس طرح لازم آتا ہے کہ اسی "کن" کو کہنے کیلئے بھی "کن" کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی لفظ کا ایجاد ہے پھر اس آخری "کن" کیلئے ایک اور "کن" کہنے کی ضرورت ہے اسی طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور یہ باطل ہے۔ اس کا بے فائدہ ہونا اس طرح ہے کہ شروع میں کوئی موجود ہی نہیں ہے تاکہ اسے مخاطب قرار دے اور اسے کہیں "کن" لیکن اگر وہ چیز موجود ہے تو پھر "کن" کہنے کی ضرورت نی نہیں ہے کیونکہ اس سے "کن" کہنے سے پہلے سے ہو موجود ہو چکا ہے۔[10]
یعنی معنا بعض شیعہ احادیث میں بھی آیا ہے۔ مثلا بحار الانوار میں امام علیؑ سے نقل ہوئی ہے کہ خداوند عالم جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتے ہیں: "ہو جاؤ" تو وہ چیز بغیر کسی فاصلے کی ہو جاتا ہے؛ اس کا معنا یہ نہیں ہے ہے کہ خدا سے کوئی آواز آتی ہو، بلکہ خدا کا یہ "کن" کہنا حقیقت میں ان چیزوں کی ایجاد اور انہیں صورت بخشنا ہے جن کا خدا نے ارادہ کیا تھا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔[11]
اشیاء کا وجود ہی خدا کا تکلم ہے
بعض عرفاء "کُنْ فَیکونُ" کو ایک وجودی امر اور اشیاء کا خارج میں ظہور قرار دیتے ہیں۔ عرفاء کے نظریے کے مطابق اشیاء کا وجود ہی خدا کا کلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں تمام اشیاء خدا کا وجودی کلام ہے۔[12]
اہل بہشت کا مقام "کن فیکون" سے برخوردار ہونا
صدرالمُتَألّہین اور فیض کاشانی وغیرہ کے مطابق اہل بہشت اور عرفاء مقام "کُنْ فَیکونُ" سے برخوردار ہوتے ہیں؛ یعنی یہ لوگ خدا کی اذن سے جو بھی ارادہ کرتے ہیں بلافاصلہ وہ چیز موجود ہو جاتی ہے۔[13] اس حوالے سے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کیلئے یہ لوگ بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں؛ من جملہ یہ کہ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ خدا بہشت میں بہشتیوں سے مطاطب ہو کر فرماتے ہیں: میں جس چیز سے موجود ہوجاؤ ("کُن") کہتا ہوں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے؛ اب میں یہ مقام تہمیں دے دیتا ہوں تاکہ تم جس چیز کو موجود ہونے کا امر کرے اور کہے "کن" تو وہ چیز وجود میں آجائے گی۔[14]
حوالہ جات
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۱۱۷؛ سورہ آل عمران، آیات ۴۷و۵۹؛ سورہ انعام، آیہ ۷۳؛ سورہ نحل، آیہ ۴۰؛ سورہ مریم، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۸۲؛ سورہ غافر، آیہ۶۸۔
- ↑ ترجمہ: محمد حسین نجفی
- ↑ ترجمہ: محمد حسین نجفی
- ↑ ترجمہ: محمد حسین نجفی
- ↑ ترجمہ: محمد حسین نجفی
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔
- ↑ صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیتا، ص۵۲۔
- ↑ صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیتا، صص۵۲-۵۵؛ صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ، ۱۹۸۱ م، ج۶، صص۹-۱۰۔
- ↑ صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ، ۱۹۸۱م، ج۶، ص۹-۱۰؛ فیض کاشانی، علم الیقین، ۱۴۱۸ ق، ج۲، ص۱۲۹۲؛ صدرالمتالہین، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۵، ص۱۹۷؛ آشتیانی، شرح بر زادالمسافر، ۱۳۸۱ ش، ج۱، ص۲۱۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند۔
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق۔
- آشتیانی، جلال الدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
- سعدی، مواعظ، غزل ۲۵۔
- صدر المتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م۔
- صدر المتالہین، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش۔
- صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیجا، ناشر چاپی: نبوغ؛ ناشر دیجیتالی: مرکز تحقیقات رایانہای قائمیہ اصفہان، بیتا۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیدہ ۵۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، علم الیقین، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۱۸ق۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، انتشارات موسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔
- مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴۔
- نظامی، خمسہ، لیلی و مجنون، بخش ۱۔