علامہ طباطبائی

ویکی شیعہ سے
علامہ طباطبائی
علامہ طباطبائی
کوائف
مکمل نامسید محمد حسین قاضی طباطبائی
لقب/کنیتآیت اللہ، علامہ
تاریخ ولادتآخر ذی الحجہ 1321 ھ، 24 ستمبر 1924 ء
آبائی شہرتبریز۔ ایران
تاریخ وفات18 محرم 1402 ھ، 5 نومبر 1981 ء
مدفنحرم حضرت معصومہ (ع)، قم
اولادسید عبد الباقی، نجمہ السادات
علمی معلومات
اساتذہمحمد حسین نایینی، محمد حسین غروی اصفہانی، سید علی قاضی طباطبایی۔
شاگردمرتضی مطہری، سید عز الدین حسینی زنجانی، سید محمد حسینی بہشتی، محمد صادقی تہرانی، ابراہیم امینی، محمد تقی مصباح یزدی، حسن حسن زاده آملی، عبد اللہ جوادی آملی، جعفر سبحانی، سید موسی صدر، حسین نوری ہمدانی، ناصر مکارم شیرازی، غلام حسین ابراہیمی دینانی، سید محمد حسین لالہ زاری تہرانی۔
تالیفاتتفسیر المیزان، شیعہ در اسلام، بدایہ الحکمہ، نہایہ الحکمہ، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، رسالہ الولایہ، تعلیقہ بر بحار الانوار، حاشیہ بر اسفار و ...
خدمات


سید محمد حسین طباطبائی، (1904۔1981 ء) علامہ طباطبائی کے نام سے معروف، چودہویں صدی ہجری کے نامور مفسر، فلسفی، اصولی، فقیہ، عارف، اسلام شناس و فکری اور مذہبی لحاظ سے ایران کے بااثر علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تفسیر المیزان اور بدایۃ الحکمۃ و نہایۃ الحکمۃ، اصول فلسفہ و روش رئالیسم جیسی فلسفی کتابوں کے مصنف ہیں۔

علامہ طباطبائی نے حوزہ علمیہ قم میں فقہ و اصول کے روایتی دروس کے بجائے تفسیر قرآن و فلسفہ کا درس شروع کیا۔ ان کا یہ کام حوزہ میں تفسیر کے دروس میں رونق پیدا ہونے کا سبب بنا۔ ان کی تفسیری روش، قرآن کی قرآن کے ذریعے تفسیر تھی۔ فلسفہ کے دروس کی چھٹیوں کے دوران خصوصی کلاسیں ترتیب دے کر اپنے خاص شاگردوں کو ملا صدرا و حکمت متعالیہ کے فلسفیانہ نظریات تدریس کرتے تھے۔ ان کے بعد حوزہ میں فلسفہ کی تدریس کرنے والوں میں بہت سے ان کے شاگرد تھے۔

ان کے شاگردوں میں شہید مرتضی مطہری، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ مصباح یزدی اور شہید بہشتی کو ایران میں چودویں صدی ہجری کے بااثر اور مشہور شیعہ علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ فرانسسی فلسفی و شیعہ شناس ہنری کربن کے ساتھ فلسفہ اور جدید مسائل پر علامہ کی نشست و برخاست یورپ میں مکتب تشیع کے تعارف کا سبب بنی۔

علامہ کی شخصیت کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے روشناس کرانے کے لئے کئی کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں۔ ان کی شخصیت سے متعارف کرانے کے سلسلہ میں ایک ڈاکومینٹری بھی حدیث سرو کے عنوان سے بنائی گئی ہے۔ تہران میں ایک یونیورسٹی کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ شہید علی قدوسی ان کے داماد ہیں۔

سوانح حیات

ولادت و نسب

سید محمد حسین طباطبائی کی ولادت ذی الحجہ کے آخری روز سن 1321 ہجری[1] میں تبریز کے علاقہ شاد آباد میں ہوئی۔ ان کے پدری اجداد کا سلسلہ نسب امام حسن مجتبی (ع) اور ابراہیم بن اسماعیل دیباج (ع)[2] سے ملتا ہے 14 پشتوں تک ان کے سلسلہ نسب میں علماء و دانشور رہے ہیں۔[3] اور مادری اجداد کا سلسلہ حسینی سادات سے ملتا ہے۔[حوالہ درکار] 5 سال کی عمر میں وہ والدہ اور 9 سال کی عمر میں والد کے سایہ سے محروم ہو گئے۔[4] ان کے چھوٹے بھائی سید محمد حسن، سید محمد حسن الہی کے نام سے معروف[5] اور تبریز میں فلسفہ کے استاد تھے۔[6]

ازدواجی زندگی

آپ کی زوجہ کا نام قمر السادات، مہدوی طباطبائی سادات کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں[7] اور علامہ طباطبائی کی ترقی، معنوی ارتقاء اور سیر و سلوک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان سے 3 فرزند متولد ہوئے لیکن تینوں بچپن میں ہی نجف اشرف میں فوت ہوگئے۔ چوتھے بیٹے کا نام انہوں نے اپنے استاد سید علی قاضی طباطبائی کی فرمائش پر عبد الباقی رکھا۔[8] سید عبد الباقی طباطبائی فنی علوم کے حامل تھے۔ انہوں نے ریاضیات و ہندسہ جیسے علوم اپنے والد سے کسب کئے۔[9]

علامہ اور قمر السادات کی ایک بیٹی نجمہ سادات طباطبائی بھی تھیں۔ ان کے شوہر شہید علی قدوسی علامہ کے شاگردوں میں سے تھے۔[10] علامہ کے دوسرے داماد جواد مناقبی ہیں۔[حوالہ درکار]

تحصیل و تدریس

علامہ طباطبائی نے (1290۔1296 ش) 6 سال تک قرآن کریم کی تعلیم اور اس کے بعد اس زمانہ کے رایج نصاب کے مطابق گلستان و بوستان وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔[11] اس کے بعد تبریز کے مدرسہ طالبیہ میں داخلہ لیا اور ادبیات عرب، علوم نقلی، فقہ و اصول میں مشغول ہو گئے اور (1918 ء سے 1925 ء) تک دوسرے اسلامی علوم حاصل کئے۔[12] اس کے بعد میرزا علی نقی خطاط کے یہاں خوش نویسی کے فنون سیکھے اور استاد فن کی منزل تک پہچے۔[13]

علامہ مدرسہ طالبیہ میں تحصیل کے بعد اپنے بھائی کے ہمراہ نجف اشرف مشرف ہوئے اور پورے دس سال (1925ء سے 1935ء) تک نجف میں علوم دینی و معنوی کمالات کے حصول میں مشغول رہے۔[14] 1935 میں وطن واپس آئے اور (1935ء سے 1946ء) تک تبریز میں مقیم رہے اور کاشت کاری میں مشغول ہو گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تالیف و تحقیق بھی انجام دیتے رہے۔[15] 1946 ء سے قم المقدسہ میں ساکن ہوئے اور آخری عمر تک وہیں تدریس، تحقیق اور تالیف میں سرگرم رہے۔[16]

وفات

علامہ طباطبائی 15 نومبر 1981 ء بروز اتوار صبح 9 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اگلے دن مسجد امام حسن عسکری سے حرم حضرت معصومہ (ع) قم تک ان کی تشییع ہوئی۔ ان کی نماز جنازہ آیت اللہ العظمی سید محمد رضا موسوی گلپائگانی نے پڑھائی جس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے حرم میں مسجد بالا سر میں دفن ہوئے۔[17]

زندگی علمی

نجف اشرف میں

اپنے وطن تبریز میں پہلا علمی مرحلہ کامل کرنے کے بعد 1925 ء میں نجف روانہ ہوئے[18] اور 10 سال تک حوزہ علمیہ نجف میں جو اس وقت عالم تشیع کا علمی مرکز تھا، مختلف اسلامی علوم میں اپنی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہوگئے۔ فقہ و اصول فقہ آیت اللہ نائینی، محمد حسین غروی اصفہانی کمپانی و سید ابو الحسن اصفہانی جیسے اساتید، فلسفہ سید حسین بادکوبہ ای جو خود ابو الحسن جلوہ و آقا علی مدرس کے شاگرد تھے، سے حاصل کیا۔ ریاضی سید ابو القاسم خوانساری اور اخلاق و عرفان سید علی قاضی طباطبائی جو حکمت و عرفان میں بلند علمی درجے پر فائز تھے، سے کسب کیا۔[19]

تبریز میں

علامہ طباطبائی نجف اشرف میں تحصیل کے دوران معیشت کی تنگی اور تبریز سے اپنی زمینوں کے اجارے جو مقرر کئے ہوئے تھے کے نہ پہنچنے کی وجہ سے ایران لوٹنے پر مجبور ہوگئے اور 10 سال تک تبریز اپنے آبائی گاوں شاد آباد میں زراعت میں مشغول رہے۔[20] اس دوران کوئی علمی فعالیت، تحصیل یا تدریس کے حوالے سے قابل ذکر نظر نہیں آتی لیکن بعض کتابیں اور رسالے علامہ طباطبائی کے اس دور کے فکری ثمرات ہیں۔[حوالہ درکار]


قم میں

فائل:علامه سید محمد حسین طباطبائی.jpg
علامہ طباطبائی قیام قم کے دوران

تبریز سے باہر ایران کے دوسرے شہروں کے حوزات میں علامہ طباطبائی کی شہرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے سیاسی حوادث کی وجہ سے تبریز سے قم کی طرف ہجرت کی۔ علامہ طباطبائی (1946 ء) کو قم میں مقیم ہوئے اور انہوں نے تفسیر اور فلسفے کے دروس کا آغاز کیا۔[21] حوزہ علمیہ قم میں علامہ طباطبائی کا بڑا علمی کارنامہ علوم عقلی کا احیاء اور تفسیر قرآن کریم تھا۔ انہوں نے بتدریج حکمت کے اعلی دروس جیسے کتاب شفا اور اسفار کو رواج دیا۔[22] ان دروس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اخلاق و عرفان اسلامی میں شاگردوں کی تربیت کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول رکھی۔ حسن حسن زادہ آملی، عبد اللہ جوادی آملی، عزیر اللہ خوش وقت و علی سعاوت پرور کا شمار ان ہی شاگردوں میں ہوتا ہے۔[حوالہ درکار]


تہران میں علمی جلسات

قم میں سکونت کے دوران علامہ طباطبائی کی فعالیتوں میں سے ایک تہران میں علمی و فلسفی نشستوں میں شرکت تھی۔ یہ جلسات ہنری کربن، سید حسین نصر اور داریوش شایگان وغیرہ کے ساتھ علامہ طباطبائی کی زیر صدارت فلسفہ، عرفان، ادیان اور اسلام شناسی کے بارے میں انجام پاتے تھے۔ تہران میں پے در پے سفر کے دوران انہوں نے فلسفہ اور معارف اسلامی کے شائقین سے ملاقات کی اور بعض اوقات دین اور حکمت کے مخالفین کے ساتھ بھی نشست و برخاست رکھتے تھے۔ ان میں کی بعض نشستیں مشرقی عرفان کی تبیین و تفسیر جیسے موضوع پر ہوئیں، جس کا محور اپنشاد اور گتھائیں تھیں۔ ان کتابوں کے مطالب کو داریوش شایگان فارسی میں ترجمہ کرتے تھے اور علامہ طباطبائی ان کی تبیین و تشریح کرتے تھے۔[حوالہ درکار]


ہنری کربن کے ساتھ علامہ طباطبائی کے جلسات 20 سال تک (1958ء سے 1978ء) ہر سال موسم خزاں میں[23] فلسفہ کے کئی افاضل اور دانشمند حضرات کے ہمراہ انجام پاتے تھے جن میں دین اور فلسفہ کے بنیادی اور حیاتی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔ سید حسین نصر کے بقول: اس قدر بلند و بالا درجے اور وسیع و عریض افق کے ساتھ ایسے جلسات کی تشکیل کی اس سے پہلے جہان اسلام میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے، یہاں تک کہ یہ دعوا کر سکتے ہیں کہ قرون وسطی جہاں سے عیسائیت اور دین مبین اسلام کا فکری اور معنوی رابطہ منقطع ہوا تھا، کبھی مشرق زمین اور دنیائے غرب کے ساتھ ایسا رابطہ برقرار نہیں ہوا تھا۔[24]

علامہ کے اساتید

علامہ نے اپنے تحصیل کے دوران درج ذیل اساتید سے کسب فیض کیا ہے:

  1. آیت اللہ سید علی قاضی طباطبائی
  2. آیت اللہ سید ابو القاسم خوانساری
  3. آیت اللہ مرتضی طالقانی
  4. آیت اللہ محمد حسین غروی اصفہانی (کمپانی)
  5. آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی
  6. آیت اللہ میرزا حسین نائینی
  7. آیت اللہ سید حسین بادکوبہ‌ ای
  8. آیت اللہ سید حجت کوہ کمرہ ای [حوالہ درکار]

علامہ کے شاگرد

ان کے جنازہ پر ان کے شاگرد۔ بائیں سے دائیں محمد صادقی تہرانی، حسن زادہ آملی، پانچویں نمبر پر عبد اللہ جوادی آملی۔

جنہوں نے علامہ سے کسب فیض کئے ان میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں:

  1. سید عز الدین حسینی زنجانی
  2. مرتضی مطہری
  3. آیت اللہ جوادی آملی
  4. آیت اللہ فاضل لنکرانی
  5. آیت اللہ منتظری
  6. آیت اللہ شبیری زنجانی
  7. آیت اللہ مصباح یزدی
  8. آیت اللہ جعفر سبحانی
  9. غلام حسین ابراہیمی دینانی
  10. آیت اللہ حسن زادہ آملی
  11. سید محمد حسین لالہ‌ زاری طہرانی
  12. آیت اللہ ابراہیم امینی
  13. آیت اللہ آشتیانی
  14. آیت اللہ مکارم شیرازی
  15. احمد احمدی
  16. آیت اللہ طاہری خرم آبادی
  17. آیت اللہ قدوسی
  18. محمد محمدی گیلانی
  19. یحیی انصاری شیرازی
  20. شہید بہشتی
  21. شہید مفتح
  22. شہید باہنر
  23. آیت اللہ موسوی اردبیلی
  24. آیت اللہ نوری ہمدانی
  25. ابو طالب تجلیل
  26. امام موسی صدر
  27. سید محمد باقر موحد ابطحی
  28. سید محمد علی موحد ابطحی
  29. سید مہدی روحانی
  30. علی احمدی میانجی
  31. عباس ایزدی
  32. محمد صادقی تہرانی
  33. آیت اللہ خوش وقت
  34. علی سعادت‌ پرور۔[حوالہ درکار]

علامہ کے علمی آثار

علامہ نے بہت سارے علمی آثار چھوڑے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. تفسیر المیزان
  2. اصول فلسفہ و روش رئالیسم
  3. شیعہ در اسلام
  4. سنن النبی (ص)
  5. حاشیہ بر اسفار صدر الدین شیرازی
  6. بدایة الحکمة
  7. نهایة الحکمة
  8. شیعہ: مجموعہ مذاكرات با پروفسور كربن (بخش اول مذاکرات در سال 1338ش)
  9. رسالت تشيع در دنياى امروز (بخش دوم مذاكرات با پروفسور كربن در سال 1340ش)
  10. حاشیہ بر کفایۃ الاصول
  11. رسالہ در حکومت اسلام
  12. رسالہ در قوه و فعل
  13. رسالہ در اثبات ذات
  14. رسالہ در صفات
  15. رسالہ در افعال
  16. رسالہ در وسائط
  17. الانسان قبل الدنیا
  18. الانسان فی الدنیا
  19. الانسان بعد الدنیا
  20. رسالہ در نبوت
  21. رسالہ در ولایت
  22. رسالہ در مشتقات
  23. رسالہ در برهان
  24. رسالہ در مغالطہ
  25. رسالہ در تحلیل
  26. رسالہ در ترکیب
  27. رسالہ در اعتباریات
  28. رسالہ در نبوت و منامات
  29. منظومہ در رسم خط نستعلیق
  30. علی و الفلسفة الالهیہ
  31. قرآن در اسلام
  32. متعدد مقالات جو مختلف مجلات جیسے مکتب تشیع و درس‌ هایی از مکتب اسلام و راهنمای کتاب و ... میں شائع ہوئے ہیں۔[25]

تفسیر المیزان

تفسیر المیزان

علامہ طباطبائی نے 1374 ھ (1954ء) میں تفسیر المیزان عربی زبان میں لکھنا شروع کی اور 1392 ھ (1972ء) میں اسے 20 جلدوں میں مکمل کیا۔ اس تفسیر میں قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر کی روش سے استفادہ کیا ہے۔ اس میں علامہ نے آیات کی تفسیر اور لغوی بحث کے علاوہ مختلف جگہوں پر مختلف مناسبتوں سے تاریخی، روائی، کلامی، فلسفی، سائنسی اور سماجی حوالے سے بھی بحث کی ہے۔[26] سید محمد باقر موسوی ہمدانی نے اس کا فارسی میں دو طرح سے ترجمہ کیا ہے، ابتداء میں 40 جلدوں میں اس کے بعد 20 جلدوں میں۔

تفسیر روایی البیان

علامہ نے تفسیر المیزان سے پہلے تبریز میں ایک تفسیر روایی کی تالیف شروع کی تھی۔ اس نامکمل تفسیر کا نام تفسیر البیان فی الموافقة بین الحدیث و القرآن تھا۔ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کی تالیف کا کام 1364 سے 1369 ھ کے درمیان انجام دیا ہے اور احتمالا روسی فوج کے تبریز میں داخل ہو جانے کے سبب اور اس کے بعد پیش آنے والے بحران کی بناء پر یہ کتاب نا مکمل رہ گئی۔[27] یہ تفسیر علامہ کی وفات کے چند سال بعد شائع ہوئی ہے اور یہ سورہ حمد سے سورہ یونس کی تفسیر پر مشتمل ہے۔

بحار الانوار پر تعلیقہ

علامہ طباطبائی کا ماننا تھا کہ بحار الانوار احادیث کے سلسلہ میں ایک بہترین شیعہ دائرۃ المعارف ہے کہ جس کی فصل بندی معقول اور احادیث کے ذیل میں توضیح و تشریح مناسب ہے۔ لیکن چونکہ علامہ مجلسی فلسفہ کے مباحث پر مسلط نہیں تھے لہذا بعض مقام پر وہ احادیث کی توضیح میں اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ اسی بناء پر علامہ نے طے کیا کہ بحار الانوار کی نئی اشاعت میں اس کے حاشیہ میں بعض نکات کا اضافہ کریں۔ یہ سلسلہ بحار کی ساتویں جلد کے اوایل تک جاری رہا اور اس کا نیا ایڈیشن علامہ کی تشریح کے ساتھ شائع ہوا۔ البتہ بعض لوگوں کو علامہ مجلسی پر کی جانے والی ان کی تنقید پسند نہیں آئی اور علامہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ لہذا یہ تعلیقہ نا مکمل رہ گیا۔[28] موسسہ الوفاء بیروت نے اس تعلیقہ کو بحار الانوار کے ہمراہ طبع کیا ہے۔[29]

ذوق شعری

علامہ ذوق شعری بھی رکھتے تھے اور اشعار بھی کہتے تھے۔ انہوں نے جو اشعار کہے تھے بعد میں انہیں محو کر دیا۔ ان کے بعض اشعار جو باقی رہ گئے ہیں وہ ز مہر افروختہ نامی کتاب میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کے بعض اشعار میں کوئی بھی غیر فارسی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ان کی سب سے مشہور غزل کا عنوان کیش مہر ہے۔ جسے 1986 ء میں شہرام ناظری نے اپنی آواز میں ریکارڈ کیا ہے۔[حوالہ درکار]

غزل کیش مہر ملاحظہ فرمائیں:

همی گویم و گفته‌ام بارها بود کیش من مهر دلدارها
پرستش به مستی است در کیش مهر برون‌اند زین جرگه هشیارها
به شادی و آسایش و خواب و خور ندارند کاری دل افگارها
به جز اشک چشم و به جز داغ دل نباشد به دست گرفتارها
کشیدند در کوی دلدادگان میان دل و کام، دیوارها
چه فرهادها مرده در کوهها چه حلاجها رفته بر دارها
چه دارد جهان جز دل و مهر یار مگر توده هایی ز پندارها
ولی رادمردان و وارستگان نبازند هرگز به مردارها
مهین مهر ورزان که آزاده‌اند بریزند از دام جان تارها
به خون خود آغشته و رفته‌اند چه گلهای رنگین به جوبارها
بهاران که شاباش ریزد سپهر به دامان گلشن ز رگبارها
کشد رخت، سبزه به هامون و دشت زند بارگه، گل به گلزارها
نگارش دهد گلبن جویبارها در آیینۀ آب، رخسارها
رود شاخ گل در برنیلفر برقصد به صد ناز گلنارها
درد پردۀ غنچه را باد بام هزار آورد نغز گفتارها
به آوای نای و به آهنگ چنگ خروشد ز سرو و سمن، تارها
به یاد خم ابروی گل رخان بکش جام در بزم می‌خوارها
گره را ز راز جهان باز کن که آسان کند باده، دشوارها
جز افسون و افسانه نبود جهان که بستند چشم خشایارها
به‌اندوه آینده خود را مباز که آینده خوابی است چون پارها
فریب جهان را مخور زینهار که در پای این گل بود خارها
پیاپی بکش جام و سرگرم باش بهل گر بگیرند بیکارها

علامہ طباطبائی سے مربوط آثار

کانفرنس

علامہ طباطبائی کی وفات کے بعد متعدد کانفرنس و سیمینار آپ کی زندگی اور افکار کے مطالعے کے حوالے سے منعقد کئے جا چکے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین سیمینار میزان حکمت کے عنوان سے (2004 ء) میں منعقد ہوا۔ جس کا اہتمام جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری ٹی وی کے ادارے نے کیا تھا۔

ڈاکومینٹری

شیعہ علماء کی شخصیت پر مشتمل حدیث سرو کے نام سے ٹی وی پر ایک مستند ڈاکومنٹری کئی حصوں میں ریلیز ہوئی۔ جس کے بعض حصے علامہ طباطبائی کی زندگی سے مختص تھے۔[30]

کتابیں

آپ کی زندگی پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض صرف یاد نامہ ہیں اور علمی مقالات پر مشتمل ہیں جبکہ بعض علامہ کے حالات زندگی پر لکھی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  1. یادها و یادگارها، مولف علی تاجدینی
  2. مهر تابان، مولف سید محمد حسین طهرانی
  3. ز مهر افروخته
  4. شناخت نامہ علامہ طباطبایی
  5. جرعہ‌ های جان بخش، مولف غلام رضا گلی زواره
  6. شمس الوحی تبری‍زی، مولف آیت اللہ جوادی آملی
  7. علامہ طباطبایی، فیلسوف علوم انسانی۔اسلامی (2 جلد)
  8. آرای اخلاقی علامہ طباطبایی، مولف رضا رمضانی

اس کے علاوہ ایران میں بہت سارے علمی مراکز علامہ سید محمد حسین طباطبائی کے نام سے منسوب ہیں جن میں سے اہم ترین تہران میں علامہ طباطبائی یونیورسٹی ہے۔

حوالہ جات

  1. طباطبائی، بررسی های اسلامی، ج۱، ص۱۹.
  2. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۳۲.
  3. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۳۵.
  4. طباطبائی، بررسی های اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۹.
  5. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۳۷.
  6. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۴۰.
  7. حسینی طہرانی، مہر تابان، ص۴۱
  8. ن ک: تاج دینی، علی، یادہا و یادگارہا، ص۲۸
  9. «عبد الباقی طباطبایی فرزند ارشد علامہ طباطبایی(ره) بہ دیار باقی شتافت»، خبرگزاری مهر، ۳ آذر ۱۳۸۹
  10. رجایی نژاد، «یارقدوسیان و بانی نظم نوین حوزه»، هفتہ نامہ حریم امام، ۱۳۹۴.
  11. طباطبائی، بررسی های اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۹.
  12. غیاثی کرمانی، «اقیانوس حکمت: زندگی نامہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی»، ۱۳۸۱ش، ص۸۰و۸۱.
  13. تاجدینی، یادها و یادگارها، ۱۳۷۴ش، ص۱۰و۱۱.
  14. غیاثی کرمانی، «اقیانوس حکمت: زندگی نامہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی»، ۱۳۸۱ش، ص۸۱ و۸۲.
  15. غیاثی کرمانی، «اقیانوس حکمت: زندگی نامہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی»، ۱۳۸۱ش، ص۸۲.
  16. تاجدینی، یادها و یادگارها، ۱۳۷۴ش، ص۱۱.
  17. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۱۳۱.
  18. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۲۵.
  19. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۲۱.
  20. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۳۹.
  21. طباطبايى، شيعہ در اسلام (طبع قديم)، پیشگفتار، ص ۱۳
  22. طباطبايى، شيعہ در اسلام (طبع قديم)، پیشگفتار، ص ۱۴
  23. حسینی طهرانی، مهر تابان، ۱۴۲۶ق، ص۷۶.
  24. طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۸ش، پیشگفتار سید حسین نصر.
  25. حسن ‌زاده آملی، «آثار قلمی جناب علامہ طباطبایی از نظم و نثر»، ۱۳۸۷ش، ص۱۸و۱۹
  26. حسینی طهرانی، مهرتابان، ۱۴۲۶ق، ص۶۳-۶۵.
  27. رک: طباطبائی، تفسیر البیان فی الموافقة بین الحدیث و القرآن، ج۱، ص۲۴-۲۷.
  28. حسینی طهرانی، مهرتابان، ۱۴۲۶ق، ص۵۵-۵۷.
  29. بحار الانوار، جلد صفر (مقدمہ)، ص۱۱.
  30. خبر گزاری مهر

مآخذ

  • رجایی نژاد، محمد، «یار قدوسیان و بانی نظم نوین حوزه»، هفتہ نامہ حریم امام، شماره ۱۸۳، ۱۳۹۴ش.
  • تاجدینی، علی، یادها و یاگارها، کانون انتشارات پیام نور، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش.
  • حسن ‌زاده آملی، حسن، «آثار قلمی جناب علامہ طباطبایی از نظم و نثر»، کتاب ماه فلسفہ، اسفند ۱۳۸۷، ش۱۸
  • حسینی طهرانی، سید محمدحسین، مهر تابان، مشهد، نور ملكوت قرآن، چاپ هشتم، ۱۴۲۶ھ
  • خبرگزای مہر
  • طباطبائی، سید محمد حسین، بررسی های اسلامی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۸ش.
  • طباطبائی، سید محمد حسين، تفسیر البیان فی الموافقہ بین الحدیث و القرآن.
  • طباطبايى، سید محمد حسين، شيعہ در اسلام (طبع قديم)، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ۱۳، ۱۳۷۸ش.
  • «عبدالباقی طباطبایی فرزند ارشد علامہ طباطبایی(ره) بہ دیار باقی شتافت»، خبرگزاری مهر، تاریخ درج مطلب: ۳ آذر ۱۳۸۹، تاریخ بازدید ۱۶ آذر ۱۳۹۹ش.
  • غیاثی کرمانی، سيد محمد رضا، «اقیانوس حکمت: زندگی نامه علامه سید محمد حسین طباطبائی»، در مرزبان وحی و خرد: یادنامہ علامہ طباطبائی ره، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش.