زیارت جامعہ کبیرہ

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(زیارت جامعہ سے رجوع مکرر)
زیارت جامعہ کبیرہ
کوائف
موضوع:شیعہ ائمہ معصومینؑ کی زیارت اور امامت اور ائمہ اطہارؑ کے مقام و منصب سے متعلق شیعہ اعتقادات
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام ہادیؑ
راوی:موسی بن عبداللہ نخعی(بعض انہیں موسی بن عمران نخعی بھی کہتے ہیں)
شیعہ منابع:من لایحضرہ الفقیہعیون اخبار الرضا
اہل سنت منابع:فرائد السمطین
مونوگرافی:الأنوار الساطعۃ فی شرح زیارۃ الجامعۃ • حقائق الأسرار • الشموس الطالعۃ فی شرح الزیارۃ الجامعہ • ادب فنای مقرّبان (آیت اللہ جوادی آملی) • اسرار الزیارۃ و برہان الإنابۃ فی شرح زیارۃ الجامعۃ (آقا نجفی اصفہانی)، فی رحاب الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ (محمد سند)
مخصوص وقت:ہر زمان و مکان میں
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دعا و مناجات

زیارت جامعۂ کبیرہ ائمہ معصومینؑ کی اہم ترین اور کامل ترین زیارت ہے جس کے ذریعے دور یا نزدیک سے تمام ائمہ کی زیارت کی جا سکتی ہے۔

یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادیؑ کی طرف سے صادر ہوا ہے۔ اس زیارت نامہ کے مضامین درحقیقت ائمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمہؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔

وجہ تسمیہ

جو زیارت نامہ کسی خاص امام کے لئے مختص نہ ہو اسے زيارت جامعہ کہا جاتا ہے اور چونکہ اس کا متن زیادہ مفصل ہے اس بنا پر یہ زیارت جامعہ کبیرہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔

زیارت جامعۂ کبیرہ ایک ایسی زیارت ہے جسے آپ کسی بھی امام کی دور یا نزدیک سے زیارت کرنے کیلئے پڑھ سکتے ہیں۔

زیارت جامعہ کی سند

اس زیارت نامے کو شیخ طوسی نے کتاب تہذیب [1] اور شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ[2] میں نقل کیا ہے۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں: یہ دور اور نزدیک سے پڑھی جانے والی کامل ترین زیارت ہے۔[3]

علامہ محمد باقر مجلسی کے والد علامہ محمد تقی مجلسی بھی من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح میں لکھتے ہیں: یہ بہترین اور کامل ترین زیارت ہے اور میں ہمیشہ اسی کی روشنی میں مقامات مقدسہ میں ائمۂ اطہارؑ کی زیارت کا فیض حاصل کرتا تھا۔

اس زیارت کا متن امام ہادی علیہ السلام سے منقول ہے۔ جسے ابن بابویہ نے محمد بن اسمعیل برمکی کے واسطے سے موسی بن عبداللہ نخعی سے اور انھوں نے امام ہادیؑ سے نقل کیا ہے۔[4]

جوینی خراسانی نے اس کو فَرائِدُ السِّمْطَین میں[5] حاکم نیشابوری سے ابن بابویہ کے واسطے سے نقل کیا ہے۔

اس کے باوجود یہ زیارت نامہ سند کے اعتبار سے تقسیم حدیث کی بنیاد پر [حدیث] صحیح کے زمرے میں نہیں آتی کیونکہ اس کے سلسلۂ سند موسی بن عبداللہ نخعی ہے جو مہمل اور غیر معروف گردانا گیا ہے۔[6]

البتہ ابتدائی ہجری صدیوں کے دوران ـ جب قرائن کی مدد سے حدیث کو حدیث صحیح اور غیر صحیح میں تقسیم کیا جاتا تھا،[7] یہ زیارت نامہ صحیح سمجھا جاتا تھا۔ ابن بابویہ نے اس زیارت نامے پر اعتماد کیا ہے اور یہ بجائے خود مرجِّحات سند میں سے اور اس کی سند کو تقویت پہنچانے والے قرائن میں سے ایک ہے۔[8] علاوہ ازیں شیعہ امامیہ نے اس طرح سے اس کو مقبول سمجھا ہے کہ اگر کوئی بصیر اور نقاد شخص چاہے تو اس پر ایسے اجماع کا دعوی کر سکتا ہے جو قول معصومؑ کا کاشف ہے۔

شبر[9] نے اس زیارت نامے کو نہج البلاغہ اور صحیفۂ سجادیہ کے مترادف قرار دیا ہے جس کی فصاحت و بلاغت اس رتبے پر ہے کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ یہ زیارت نامہ غیر معصوم سے نقل ہو چکا ہوگا۔ شیخ احمد احسائی[10] نے بھی زیارت جامعہ کبیرہ کی سند کا جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے: یہ زیارت لفظ اور معنی کے لحاظ سے اس رتبے پر ہے کہ ایک آگاہ انسان بخوبی ادراک کرتا ہے کہ یہ کلام معصومؑ ہے چنانچہ اس کی سند کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

محدث نوری کی رائے ہے[11] کہ ابن بابویہ نے اپنی روایت میں متن کو ملخص کیا ہے اور ان حصوں کو حذف کیا ہے جو ان کے عقائد پر منطبق نہ تھے۔

جامعۂ کبیرہ کے مضامین

زیارت جامعہ در حقیقت عقیدہ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی و بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے۔ چونکہ اس زیارت کے مضامین و محتویات، ائمۂؑ کے مقامات و مراتب کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔[12]

اس زیارت میں اہل بیت کی توصیف رسول اللہ(ص) کے برحق جانشینوں کے عنوان سے ہوئی ہے اور نہایت فصیح زبان میں تمام شیعہ عقائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز ائمہؑ کے رسول اللہ(ص) کے ساتھ ارتباط و اتصال، ائمۂؑ کی علمی، اخلاقی اور سیاسی منزلتوں اور مقامات، ان کے اسوہ اور نمونۂ عمل ہونے، امامت اور توحید کے درمیان تعلق اور امام شناسی کے ساتھ خدا شناسی کے ربط کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ زیارت جامعہ کے دوسرے موضوعات و مباحث میں اہل بیت علیہم السلام کی عصمت، ان کی خلقت کے تسلسل، تولی اور تبری نیز رجعت و تسلیم شامل ہیں۔ اس زیارت میں ائمۂؑ کے فضائل فصیح زبان میں قرآن اور سنت سے پیوند کی روشنی میں بہترین انداز سے بیان ہوئے ہیں۔

زیارت جامعہ کبیرہ سے اقتباسات

زیارت کے ابتدائی حصے میں السَّلامُ عَلَیکُمْ یا أَهْلَ بَیتِ النُّبُوَّةِ وَمَوْضِعَ الرِّسَالَةِ۔ کی وضاحت کرتے ہوئے امام ہادیؑ نے فرمایا ہے:

  • خداوند متعال نے اہل بیتؑ کو اپنی کرامت سے مخصوص کردیا ہے اور انہیں رسالت کا مقام و موضع، فرشتوں کی رفت و آمد کا مقام اور نزول وحی کی منزل قرار دیا ہے۔
  • اللہ کے اس کام کا سرچشمہ اس کی صفات کمالیہ ہیں جو اس نے اہل بیتؑ کو عطا کی ہیں اور ان کے واسطے سے انھوں نے وہ چوٹیاں سر کی کہ جن کی بلندیوں پر انھوں نے علم و حلم و کرامت اور رحمت کو اپنی ذات میں اکٹھا کرلیا ہے۔
  • اہل بیتؑ رسالت الہیہ کی بنیاد ہیں کیونکہ خداوند متعال نے ماضی بعید سے انہیں نہ صرف مسلمانوں کی رہبری کے علاوہ، بلکہ بنی نوع انسان کی امامت کا عہدہ سنبھالنے کے لئے منتخب کیا ہے۔

امام ہادیؑ السلام علی ائمة الهدی ومصابیح الدجی۔والے فقرے میں ذیل کے نکات پر تاکید فرماتے ہیں:

  • اہل بیتؑ ہدایت کے پیشوا ہیں اور دوسرے لوگ ـ جو اہل بیتؑ سے نہیں ہیں اور اس کے باوجود امامت کا عہدہ سنبھالتے ہیں ـ مکتب ہدایت کے مخالف ہیں ضلالت کے ائمہ اور گمراہی کے پیشوا ہیں۔ اسی بنا پر دین کے معارف و تعلیمات کو خاندان پیغمبر(ص) کے پیشواؤں کے سوا دوسروں سے نہیں لینا چاہئے اور ان کے راستے کے سوا کسی دوسرے راستے پر گامزن نہیں ہونا چاہئے۔
  • ائمۂؑ عقل کام کے مالک ہیں، دنیا میں لوگوں کی پناہگاہ اور انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور وہ انسانیت کی مَثَلِ اعلی ہیں اور دوسروں کو ان کی اقتدا کرنی چاہئے اور وہ بہترین کمالات کی طرف دی جانے والی دعوت کے حامل ہیں اور دوسروں کو ان کا پیرو ہونا چاہئے۔
  • اہل بیتؑ خدا کی معرفت کا مقام و محلّ اور اللہ کی برکتوں کا مسکن ہیں۔ وہ اللہ کی حکمتوں کا معدن، سرّ حق (اسرار خداوندی) کے حافظ و نگہبان، علم کتاب کے حامل اور پیغمبر(ص) کے جانشین ہیں۔
  • حق کی طرف کے یہ داعی بعض ممتاز خصوصیات کے حامل و مالک ہیں جو راہ خدا مین ان کی منزلت کو واضح و آشکار کردیتی ہیں:
  1. وہ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں اور حضرت احدیت کی رضا و خوشنودی کی طرف جانے والے راستوں کے راہبر و راہنما ہیں۔
  2. ائمہؑ خداوند متعال کے اوامر کی تعمیل کے راستے میں ثابت قدم ہیں۔
  3. وہ خداوند متعال سے تام و کامل محبت کرتے ہیں۔
  4. وہ اللہ کی توحید میں مخلص ہیں۔
  5. امر و نہی سمیت اللہ کے شعائر ان ہی کے ذریعے آشکار ہوتے ہیں۔
  6. وہ کبھی بھی اپنے کلام و گفتار اور عمل و کردار میں اللہ سے سبقت نہیں لیتے اور قدم آگے نہیں بڑھاتے۔

زيارت کے تسلسل میں تشیع کے اہم ترین فکری عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

زیارت کے بعض فقروں میں ائمۂ اطہارؑ کی روش کے عملی پہلؤوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:

  1. عہد و میثاقِ الہی کو برقرار و استوار رکھنا اور اس ذات اقدس کی طاعت و بندگی کے پیمان کو مستحکم رکھنا۔
  2. لوگوں کو نصیحت کرنا اور صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر ان کے خیرخواہی کرنا۔
  3. لوگوں کو برہان و حکمت اور بہترین وعظ و نصیحت کے ذریعے راہ حق پر گامزن ہونے کی دعوت دینا۔
  4. راہ خدا میں مسلسل اور دائمی ایثار کرنا اور اس راہ میں جان سے گذرجانا اور ناہمواریوں میں صبرو استقامت کرنا۔
  5. نماز قائم کرنا، زکٰوۃ ادا کرنا اور عبادات اور دین اسلام کی حدود پر عملدرآمد کرنا۔
  6. اسلامی شریعت کو تحریف سے محفوظ رکھنا۔
  7. اللہ کی قضا و قدر کے سامنے سرتسلیم خم رکھنا۔
  8. راہ انبیا کی وحدت پر تاکید کرنا اور انبیائے سلف کی تصدیق کرنا۔

زیارت کے ایک فقرے میں کہا گیا ہے: فالراغب عنكم مارق واللازم لكم لاحق والمقصر في حقكم زاهق۔ ترجمہ: پس جو آپ سے منحرف ہوجائے وہ سرکش اور خودسر ہے اور آپ کا دوست اور پیروکار آپ کے ساتھ ملحق ہونے والا اور اور اہل سعادت ہے اور آپ کے حق میں تقصیر کرنا والا شقی اور بدبخت اور مٹنے والا ہے۔ ‌اس فقرے میں اہل بیتؑ کے دوستداروں اور اور ان کے دشمنوں کا انجام واضح کیا گیا ہے، ان کے دوستوں کو اہل سعادت اور ان کے دشمنوں کو اہل شقاوت قرار دیا گیا ہے۔

اور فبلغ اللّه‏ بكم أشرف محل المكرمین وأعلی منازل المقربین وأرفع درجات المرسلین میں یہ نکات بیان کئے گئے ہیں:

  1. ائمہؑ کی رجعت پر اور ان کی عالمی حکومت کے قیام پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔
  2. قبور ائمہؑ کی زیارت کی اہمیت.
  3. ائمہؑ کی رجعت پر ایمان رکھنے کی ضرورت۔
  4. ان کی حکومت کو مدد پہنچانے کے لئے مسلسل تیاری حتی کہ ان کی حاکمیت روئے زمان پر بپا ہوکر مستحکم ہوجائے۔
  5. ان کے دشمنون سے بیزاری و برائت (تبری) کی ضرورت۔
  6. مؤمنین کا اس بات پر خوش اور شادماں ہوجانا ان نعمتوں کی خاطر جو اللہ تعالی نے اہل بیتؑ کے واسطے سے انہیں عطا فرمائی ہیں۔
  7. مسلمانوں کی صحیح وحدت قائم نہ ہوگی سوا اس کے وہ اہل بیتؑ کے پرچم تلے اکٹھے ہوجائیں۔
  8. اہل بیتؑ پر ایمان ایک جذباتی مسئلہ نہیں بلکہ بیداری، بصیرت، ادراک اور تحقیق کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔

زیارت جامعہ کی شرحیں

اس زیارت پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں محمد تقی مجلسی (متوفی 1070 ھ) ان پر دو بار شرح لکھی ہے:

زیارت جامعہ کی مشہور ترین شرح شیخ احمد بن زین الدین احسائی (متوفٰی 1241 یا 1243) کی شرح ہے جو چار مجلدات میں شائع ہوئی ہے۔ یہ زیارت جامعہ کی مفصل ترین اور علمی ترین شرح ہے جو شیخیہ کے مکتب سے مطابقت رکھتی ہے اور حدیث و کلام اور ادب و فلسفہ کے مباحث سے بھرپور ہے۔

الانوار اللّامعہ، زیارت جامعہ کی متاخر شرحوں میں سے ایک ہے جو سید عبداللّہ شُبّر، نے لکھی ہے اور مختصر و مفید ہے۔

دوسری شرحیں:

عربی شرحیں

  • الأنوار الساطعة فی شرح زیارة الجامعة، جواد کربلائی[14]
  • الأنوار اللامعة فی شرح الزیارة الجامعۃ، سیّد عبد اللّه بن محمّد رضا شبّر کاظمی (1188 ـ 1242 ھ) تحقیق: فاضل فراتی و علاء کاظمی[15]
  • حقائق الأسرار، محمّدتقی آقا نجفی اصفہانی(م 1332 ھ)، تألیف: 1296ق[16]
  • سند الزیارۃ الجامعۃ، سیّد یاسین موسوی[17]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، شیخ احمد احسائی (1166 ـ م 1243 ھ)۔[18] یہ کتاب مکرر در مکرر ایران اور عراق میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور مؤلف کے خاص نظریات اور آراء پر مشتمل ہے؛ فرقۂ شیخیہ اسی سے منسوب ہے اور یہ فرقہ شیعہ علماء کے ہاں مقبول نہيں ہے۔
  • احادیث شرح الزیارۃ الجامعۃ، حسین المطوع[19]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ(تلویح الإشارة فی تلخیص شرح الزیارة) احمد احسائی (م 1243 ھ) تلخیص: سیّد محمد حسین مرعشی شہرستانی (1255ـ1315 ہ)[20] مؤلف نے اس کتاب میں مفاہیم کا خلاصہ بیان کیا ہے اور مکرر عبارات کو حذف کیا ہے اور حاشیے میں کتاب کے مشابہت و اشتباہات کی تصحیح کی ہے اور اپنا تعارف رمزی نام "عبد الصمد حائری مازندرانی" سے کرایا ہے۔
  • الشموس الطالعۃ فی شرح الزیارۃ الجامعۃ، آقا ریحان اللہ بن سیّد جعفر کشفی بروجردی (1267ـ1328 ھ)[21]
  • الشموس الطالعۃ في شرح الزیارۃ الجامعۃ، سید حسین ہمدانی درودآبادی (متوفٰی 1344 ھ)[22] یہ کتاب زیارت جامعہ کی بہترین شرحوں میں سے ہے اور عمدہ تحقیق اور پر فائدہ مفاہیم و مضامین پر مشتمل ہے۔
  • الصوارم القاطعۃ والحجج اللاّمعۃ فی إثباۃ صحّۃ الزیارۃ الجامعۃ، عبد الکریم عقیلی[23]
  • فی رحاب الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، سید علی حسینی صدر[24]

فارسی شرحیں

  • ادب فنای مقرّبان، آیت اللہ جوادی آملی[25] یہ مجموعہ انتشارات اسراء نے اب تک آٹھ مرتبہ شائع کیا ہے۔
  • شرح زیارت جامعہ کبیره، فخر المحققین شیرازی
  • اسرار الزیارۃ و برہان الإنابۃ فی شرح زیارۃ الجامعۃ، محمّد تقی آقا نجفی اصفہانی (م 1332 ھ)، مطبوعہ 1296ہ؛ این کتاب ان ہی عربی شرح حقائق الأسرار کا ترجمہ ہے جو اسی کتاب کے حاشیے پر شائع کیا گیا ہے۔[26]
  • أنوار الولایة الساطعة فی شرح زیارة الجامعة سیّد محمّد بن رضی الدین حسینی وحیدی شبستری (1335 ـ 1421 ھ) ترجمہ و تحقیق: شیخ ہاشم صالحی[27]
  • الانوار التالعة فی شرح الزیارة الجامعة شیخ علی اصغر منوری تبریزی(م 1424 ھ)[28]
  • با اختران تابناک ولایت سیّد عبد اللّه شبّر (1188 ـ 1242 ھ) ترجمہ: عباس علی سلطانی گلشیخی[29]
  • خزان العلم و اهل بیت الوحی سیّد حسین آیت اللہی جہرمی جہرم،[30]
  • سیمای ائمه: شرح زیارت جامعہ، علی نظامی همدانی، تقریر: خانم حصاری ہمدانی[31]
  • شرح زیارت جامعۂ کبیرہ علامہ محمّد تقی مجلسی اصفہانی (1003 ـ 1070ہ) مقدّمہ و حالات زندگی از: مہدی فقیہ ایمانی اصفہانی[32] یہ کتاب اللوامع صاحبقرانی سے مآخوذ ہے جو درحقیقت من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح ہے۔ انھوں نے (من لا یحضرہ الفقیہ]] کی عربی شرح) روضۃ المتقین میں بھی اس زیارت پر شرح لکھی ہے۔
  • شرح زیارت جامعۂ کبیرہ سیّد ضیاءالدین استر آبادی[33]
  • شرح زیارت جامعۂ کبیرہ سیّد محمّد تقی نقوی قایینی[34]
  • شرح زیارت جامعۂ کبیرہ محمّد ہادی فخر المحقّقین شیرازی (1340 ـ 1420ہ)مقدّمہ و تحقیق: سیّد محمّد جواد طبسی حائری[35][36]
  • شرح زیارت جامعۂ کبیرہ (پرتو ولایت) سیّد محمد وحیدی شبستری (1335 ـ 1421ہ) تحقیق: هاشم صالحی[37] اس کتاب کا عربی میں ترجمہ ہوا ہے۔
  • شرح و تفسیر زیارت جامعۂ کبیرہ، رحیم توکل[38]
  • شمس طالعہ در شرح زیارت جامعہ، محمّد طبیب زاده احمد آبادی اصفہانی[39]
  • علی علیہ السلام و زیارت جامعۂ کبیرہ، عبد العلی گویا(1340 ـ 1415 ھ)[40]
  • فوائد نافعۂ شریفہ در شرح زیارت جامعہ، محمّد توتونچی تبریزی (م 1395 ھ)[41]
  • مقامات اولیا: شرحی بر زیارت جامعہ کبیرہ، سیّد مجتبی حسینی[42]
  • نجوم لامعہ در شرح زیارت جامعہ، ابو تراب ہدایی (1274 ـ 1373 ہجری شمسی)[43]

عربی قلمی نسخے

  • الأعلام اللامعۃ فی شرح الزیارۃ الجامعۃ، سیّد محمد طباطبایی بروجردی (متوفٰی 1160 ھ) سید بحر العلوم کے دادا)۔ اس کا قلمی نسخہ نمبر 194 شہر خوانسار کے "کتب خانہ فاضل خوانساری" میں موجود ہے۔ اس کی کتابت "شیخ موسی خوانساری" نے کی ہے۔[44]۔[45]
  • الانوار الساطعۃ فی شرح الزیارۃ الجامعۃ، علامہ شیخ محمد رضا غراوی نجفی (1304 ـ 1385 ھ)[46]
  • أنیس الطلاّ ب، محمّد جعفر بن آقا محمّد علی بن وحید بہبہانی پایان تألیف: 1245 ھ۔ اس کتاب کا ایک حصہ زیارت جامعہ کی شرح پر مشتمل ہے۔[47]
  • الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، کی بعض عبارات کی شرح، معین الدین بن محمّد صادق خادم الحسینی؛ اس کا قلمی نسخہ نمبر 749د جامعۂ تہران کے شعبۂ الٰہیات کے کتب خانے میں موجود ہے۔[48]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، بہاءالدین سیّد محمد نایینی مختاری (متوفی 1130 یا 1140 ھ) (شیخ حر عاملی کے ہم عصر)۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ نمبر 3918 قم کے کتب خانہ آیت اللہ گلپایگانی میں موجود ہے۔[49]۔[50]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ محمّد قاسم بن محمد کاظم رازی پایان تألیف: 19 جمادی الثانی سنہ 1133 بنام شاہ سلطان حسین صفوی؛ اس کتاب کا قلمی نسخہ نمبر 3943 جامعۂ تہران (تہران یونیورسٹی) کے کتب خانے میں موجود ہے۔[51]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ علی نقی حائری طباطبایی (آل صاحب ریاض) ٰ 1289ہ)؛ بہت وسیع شرح تھی لیکن نامکمل رہ گئی ہے۔[52]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، حاج میرزا علی غروی علیاری تبریزی (1319 ـ 1417 ھ)[53]۔[54]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، سیّد محمد علی موحد ابطحی اصفہانی (1347 ـ 1423 ھ)[55]۔[56]
  • شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ، مؤلف: نامعلوم۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ نمبر 4373 مجلس شورائے اسلامی کے کتب خانے میں ہے اور اس کے اوراق 46 ہیں۔[57]
  • کاشف الأسرار، میرزا ہدایۃ الہ گلپایگانی۔

فارسی کے قلمی نسخے

  • الإلہامات الرضویۃ، سیّد محمد بن محمود حسینی لواسانی تہرانی (متوفٰی 1355 ھ)[58]
  • القاطعۃ فی شرح [الـ] زیارۃ الجامعۃ، سیّد حسن رضوی قمی (متوفٰی 1358 ھ)، جس کا قلمی نسخہ ـ بقلم مؤلف، 146 اوراق اور 292 بشمارہ 240/39 قم کے کتب خانہ آیت اللہ گلپایگانی میں موجود ہے۔
  • شرح زیارت جامعہ کبیرہ علاّ مہ میرزا محمّد علی چہاردہی رشتی نجفی متوفٰی 1334ہ)[59]
  • شرح زیارت جامعہ کبیرہ، شیخ عباس حائری تہرانی (1298 ـ 1360ہ)[60]
  • شمس طالعہ در شرح زیارت جامعہ، علامہ سیّد عبداللّہ موسوی بلادی بوشہری(1290 ـ 1372ہ)[61]

متعلقہ صفحات

متن اور ترجمہ

زیارت جامعہ کبیرہ
متن ترجمه
اَشهَدُاَن لا اِلهَ اِلَّا اللّه وَحدَهُ لا شَریک لهُ، وَ اَشهَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُهُ وَ رَسُولُهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے کوئی اس کاشریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں۔
السَّلامُ عَلَیکمْ یا أَهْلَ بَیتِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعَ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِکةِ وَ مَهْبِطَ الْوَحْی وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَ خُزَّانَ الْعِلْمِ وَ مُنْتَهَی الْحِلْمِ وَ أُصُولَ الْکرَمِ وَ قَادَةَ الْأُمَمِ وَ أَوْلِیاءَ النِّعَمِ وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ وَ دَعَائِمَ الْأَخْیارِ وَ سَاسَةَ الْعِبَادِ وَ أَرْکانَ الْبِلادِ وَ أَبْوَابَ الْإِیمَانِ وَ أُمَنَاءَ الرَّحْمَنِ وَ سُلالَةَ النَّبِیینَ وَ صَفْوَةَ الْمُرْسَلِینَ وَ عِتْرَةَ خِیرَةِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ آپ پر سلام ہو اے خاندان نبوت اے پیغام الہی کے آنے کی جگہ اور ملائکہ کے آنے جانے کے مقام، وحی نازل ہونے کی جگہ، نزول رحمت کے مرکز، علوم کے خزینہ دار، حد درجہ کے بردبار اور بزرگواری کے حامل ہیں آپ قوموں کے پیشوا، نعمتوں کے بانٹنے والے، سرمایۂ نیکو کاران، پارساؤں کے ستون، بندوں کے لیے تدبیر کار، آبادیوں کے سردار، ایمان و اسلام کے دروازے اور خدا کے امانتدار ہیں اور آپ نبیوں کی نسل و اولاد انبیاء کے پسندیدہ اور جہانوں کے رب کے پسند شدہ گان کی اولاد ہیں آپ پر خدا کی رحمت اور برکت ہو
السَّلامُ عَلَی أَئِمَّةِ الْهُدَی وَ مَصَابِیحِ الدُّجَی وَ أَعْلامِ التُّقَی وَ ذَوِی النُّهَی وَ أُولِی الْحِجَی وَ کهْفِ الْوَرَی وَ وَرَثَةِ الْأَنْبِیاءِ وَ الْمَثَلِ الْأَعْلَی وَ الدَّعْوَةِ الْحُسْنَی وَ حُجَجِ اللَّهِ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ وَ الْأُولَی وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ السَّلامُ عَلَی مَحَالِّ مَعْرِفَةِ اللَّهِ وَ مَسَاکنِ بَرَکةِ اللَّهِ وَ مَعَادِنِ حِکمَةِ اللَّهِ وَ حَفَظَةِ سِرِّ اللَّهِ وَ حَمَلَةِ کتَابِ اللَّهِ وَ أَوْصِیاءِ نَبِی اللَّهِ وَ ذُرِّیةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ سلام ہو ہدایت دینے والے ائمہ پر تاریکیوں کے چراغ ہیں پرہیز گاری کے نشان صاحبان عقل و خرد اور مالکان دانش ہیں آپ، لوگوں کی پناہ گاہ نبیوں کے وارث بلندترین نمونہ عمل اور بہترین دعوت دینے والے ہیں آپ دنیا والوں پر خدا کی حجتیں ہیں آغاز و انجام میں آپؑ پر سلام خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں سلام ہو خد اکی معرفت کے ذریعوں پر جو خدا کی برکت کے مقام اور خدا کی حکمت کی کانیں ہیں خدا کے رازوں کے نگہبان خدا کی کتاب کے حامل خدا کے آخری نبی (ص) کے جانشین اور خدا کے رسول(ص) کی اولاد ہیں خدا ان پر اور ان کی آلؑ پر درود بھیجے اور خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں
السَّلامُ عَلَی الدُّعَاةِ إِلَی اللَّهِ وَ الْأَدِلاءِ عَلَی مَرْضَاةِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَقِرِّینَ [وَ الْمُسْتَوْفِرِینَ ] فِی أَمْرِ اللَّهِ وَ التَّامِّینَ فِی مَحَبَّةِ اللَّهِ وَ الْمُخْلِصِینَ فِی تَوْحِیدِ اللَّهِ وَ الْمُظْهِرِینَ لِأَمْرِ اللَّهِ وَ نَهْیهِ وَ عِبَادِهِ الْمُکرَمِینَ الَّذِینَ لا یسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِأَمْرِهِ یعْمَلُونَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ السَّلامُ عَلَی الْأَئِمَّةِ الدُّعَاةِ وَ الْقَادَةِ الْهُدَاةِ وَ السَّادَةِ الْوُلاةِ وَ الذَّادَةِ الْحُمَاةِ وَ أَهْلِ الذِّکرِ وَ أُولِی الْأَمْرِ وَ بَقِیةِ اللَّهِ وَ خِیرَتِهِ وَ حِزْبِهِ وَ عَیبَةِ عِلْمِهِ سلام ہو خدا کی طرف بلانے والوں پر اور خدا کی رضاؤں سے آگاہ کرنے والوں پر جو خدا کے معاملے میں ایستادہ خدا کی محبت میں سب سے کامل اور خدا کی توحید کے عقیدے میں کھرے ہیں وہ خدا کے امرونہی کو بیان کرنے والے اور اس کے گرامی قدر بندے ہیں کہ جو اسکے آگے بولنے میں پہل نہیں کرتے اور اسکے حکم پر عمل کرتے ہیں ان پر خدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں سلام ہو ان پر جو دعوت دینے والے امام ہیں ہدایت دینے والے راہنما صاحب ولایت سردار حمایت کرنے والے نگہدار ذکر الہی کرنے والے اور والیانِ امر ہیں وہ خدا کا سرمایہ اس کے پسندیدہ اس کی جماعت اور اس کے علوم کا خزانہ ہیں
وَ حُجَّتِهِ وَ صِرَاطِهِ وَ نُورِهِ [وَ بُرْهَانِهِ ] وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِیک لَهُ کمَا شَهِدَ اللَّهُ لِنَفْسِهِ وَ شَهِدَتْ لَهُ مَلائِکتُهُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ مِنْ خَلْقِهِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکیمُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ الْمُنْتَجَبُ وَ رَسُولُهُ الْمُرْتَضَی أَرْسَلَهُ بِالْهُدَی وَ دِینِ الْحَقِّ لِیظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کلِّهِ وَ لَوْ کرِهَ الْمُشْرِکونَ وَ أَشْهَدُ أَنَّکمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِیونَ الْمَعْصُومُونَ الْمُکرَّمُونَ الْمُقَرَّبُونَ الْمُتَّقُونَ الصَّادِقُونَ الْمُصْطَفَوْنَ الْمُطِیعُونَ لِلَّهِ الْقَوَّامُونَ بِأَمْرِهِ الْعَامِلُونَ بِإِرَادَتِهِ، الْفَائِزُونَ بِکرَامَتِهِ وہ خدا کی حجت اس کا راستہ اس کا نور اور اسکی نشانی ہیں خداکی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے کوئی اسکا شریک نہیں جیسا کہ خدا نے اپنے لیے گواہی دی اسکے ساتھ اسکے فرشتے اور اسکی مخلوق میں سے صاحبان علم بھی گواہ ہیں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہی جو زبردست ہے حکمت والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ص)اسکے برگزیدہ بندے اور اسکے پسند کردہ رسول(ص) ہیں جن کو اس نے ہدایت اور سچے دین کیساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دیں اگر چہ مشرک پسند نہ بھی کریں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام ہیں ہدایت والے سنورے ہوئے گناہ سے بچائے ہوئے بزرگیوں والے اس سے نزدیک تر پرہیز گار صدق والے چنے ہوئے خدا کے اطاعت گزار اس کے حکم پر کمر بستہ اس کے ارادے پر عمل کرنیوالے اور اس کی مہربانی سے کامیاب ہیں
اصْطَفَاکمْ بِعِلْمِهِ وَ ارْتَضَاکمْ لِغَیبِهِ وَ اخْتَارَکمْ لِسِرِّهِ وَ اجْتَبَاکمْ بِقُدْرَتِهِ وَ أَعَزَّکمْ بِهُدَاهُ وَ خَصَّکمْ بِبُرْهَانِهِ وَ انْتَجَبَکمْ لِنُورِهِ [بِنُورِهِ ] وَ أَیدَکمْ بِرُوحِهِ وَ رَضِیکمْ خُلَفَاءَ فِی أَرْضِهِ وَ حُجَجا عَلَی بَرِیتِهِ وَ أَنْصَارا لِدِینِهِ وَ حَفَظَةً لِسِرِّهِ وَ خَزَنَةً لِعِلْمِهِ وَ مُسْتَوْدَعا لِحِکمَتِهِ وَ تَرَاجِمَةً لِوَحْیهِ وَ أَرْکانا لِتَوْحِیدِهِ وَ شُهَدَاءَ عَلَی خَلْقِهِ وَ أَعْلاما لِعِبَادِهِ وَ مَنَارا فِی بِلادِهِ وَ أَدِلاءَ عَلَی صِرَاطِهِ عَصَمَکمُ اللَّهُ مِنَ الزَّلَلِ وَ آمَنَکمْ مِنَ الْفِتَنِ وَ طَهَّرَکمْ مِنَ الدَّنَسِ کہ اس نے اپنے علم کیلئے آپ ؑکو چنا اپنے غیب کیلئے آپکو پسند کیا اپنے راز کیلئے آپکو منتخب کیا اپنی قدرت سے آپکو اپنا بنایا اپنی ہدایت سے عزت دی اور اپنی دلیل کیلئے خاص کیااس نے آپکو اپنے نور کیلئے چنا روح القدس سے آپکو قوت دی اپنی زمین میں آپ کو اپنا نائب قرار دیا اپنی مخلوق پر اپنی حجتیں بنایا اپنے دین کے ناصر اور اپنے راز کے نگہدار اور اپنے علم کے خزینہ دار بنایا اپنی حکمت انکے سپرد کی آپ ؑکو اپنی وحی کے ترجمان اور اپنی توحید کا مبلغ بنایا اس نے آپکو اپنی مخلوق پر گواہ قرار دیا اپنے بندوں کیلئے نشان منزل اپنے شہروں کی روشنی اور اپنے راستے کے رہبر قرار دیا خدا نے آپکو خطاؤں سے بچایا فتنوں سے محفوظ کیا اور ہر آلودگی سے صاف رکھا آلائش آپ سے دور کر دی
وَ أَذْهَبَ عَنْکمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَکمْ تَطْهِیرا فَعَظَّمْتُمْ جَلالَهُ وَ أَکبَرْتُمْ شَأْنَهُ وَ مَجَّدْتُمْ کرَمَهُ وَ أَدَمْتُمْ [أَدْمَنْتُمْ ] ذِکرَهُ وَ وَکدْتُمْ [ذَکرْتُمْ ] مِیثَاقَهُ وَ أَحْکمْتُمْ عَقْدَ طَاعَتِهِ وَ نَصَحْتُمْ لَهُ فِی السِّرِّ وَ الْعَلانِیةِ وَ دَعَوْتُمْ إِلَی سَبِیلِهِ بِالْحِکمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ بَذَلْتُمْ أَنْفُسَکمْ فِی مَرْضَاتِهِ وَ صَبَرْتُمْ عَلَی مَا أَصَابَکمْ فِی جَنْبِهِ [حُبِّهِ ] وَ أَقَمْتُمُ الصَّلاةَ وَ آتَیتُمُ الزَّکاةَ وَ أَمَرْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَیتُمْ عَنِ الْمُنْکرِ وَ جَاهَدْتُمْ فِی اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ حَتَّی أَعْلَنْتُمْ دَعْوَتَهُ وَ بَینْتُمْ فَرَائِضَهُ وَ أَقَمْتُمْ حُدُودَهُ وَ نَشَرْتُمْ [وَ فَسَّرْتُمْ ] شَرَائِعَ أَحْکامِهِ وَ سَنَنْتُمْ سُنَّتَهُ وَ صِرْتُمْ فِی ذَلِک مِنْهُ إِلَی الرِّضَا وَ سَلَّمْتُمْ لَهُ الْقَضَاءَ اور آپکو پاک رکھا جیسے پاک رکھنے کا حق ہے پس آپ نے اسکے جلال کی بڑائی کی اسکے مقام کو بلند جانااسکی بزرگی کی توصیف کی اس کے ذکر کو جاری رکھا اسکے عہد کوپختہ کیا اسکی فرمانبرداری کے عقیدے کو محکم بنایا آپ نے پوشیدہ و ظاہر اسکا ساتھ دیا اور اس کے سیدھے راستے کی طرف لوگوں کو دانشمندی اور بہترین نصیحت کے ذریعے بلایا آپ نے اس کی رضا کیلئے اپنی جانیں قربان کیں اور اسکی راہ میں آپکو جو دکھ پہنچے انکو صبر سے جھیلا آپ نے نماز قائم کی اور زکوۃ دیتے رہے آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا برے کاموں سے منع فرمایا اور خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا چنانچہ آپ نے اسکاپیغام عام کیا اسکے عائد کردہ فرائض بتائے اور اسکی مقررہ حدیں جاری کیں آپؑ نے اسکے احکام بیان کیے اسکے طریقے رائج کیے اور اس میں آپ اسکی رضا کے طالب ہوئے آپؑ نے اسکے ہر فیصلے کو تسلیم کیا
وَ صَدَّقْتُمْ مِنْ رُسُلِهِ مَنْ مَضَی فَالرَّاغِبُ عَنْکمْ مَارِقٌ وَ اللازِمُ لَکمْ لاحِقٌ وَ الْمُقَصِّرُ فِی حَقِّکمْ زَاهِقٌ وَ الْحَقُّ مَعَکمْ وَ فِیکمْ وَ مِنْکمْ وَ إِلَیکمْ وَ أَنْتُمْ أَهْلُهُ وَ مَعْدِنُهُ وَ مِیرَاثُ النُّبُوَّةِ عِنْدَکمْ وَ إِیابُ الْخَلْقِ إِلَیکمْ وَ حِسَابُهُمْ عَلَیکمْ وَ فَصْلُ الْخِطَابِ عِنْدَکمْ وَ آیاتُ اللَّهِ لَدَیکمْ وَ عَزَائِمُهُ فِیکمْ وَ نُورُهُ وَ بُرْهَانُهُ عِنْدَکمْ وَ أَمْرُهُ إِلَیکمْ مَنْ وَالاکمْ فَقَدْ وَالَی اللَّهَ وَ مَنْ عَادَاکمْ فَقَدْ عَادَی اللَّهَ وَ مَنْ أَحَبَّکمْ فَقَدْ أَحَبَّ اللَّهَ [وَ مَنْ أَبْغَضَکمْ فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ ] وَ مَنِ اعْتَصَمَ بِکمْ فَقَدِ اعْتَصَمَ بِاللَّهِ، اور آپ نے اسکے گذشتہ پیغمبروں کی تصدیق کی پس آپ سے ہٹنے والا دین سے نکل گیا آپکا ہمراہی دیندار رہا اور آپکے حق کو کم سمجھنے والا نابود ہواحق آپؑ کیساتھ ہے آپؑ میں ہے آپؑ کیطرف سے ہے آپؑ کیطرف آیا ہے آپ حق والے ہیں اور مرکز حق ہیں نبوت کا ترکہ آپؑ کے پاس ہے لوگوں کی واپسی آپؑ کی طرف اور ان کا حساب آپ کو لینا ہے آپ حق و باطل کا فیصلہ کرنے والے ہیں خدا کی آیتیں اور اسکے ارادے آپکے دلوں میں ہیں اسکا نور اور محکم دلیل آپکے پاس ہے اور اسکا حکم آپکی طرف آیا ہے آپکا دوست خدا کا دوست اور جو آپکا دشمن ہے وہ خدا کا دشمن ہے جس نے آپ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپؑ سے نفرت کی اس نے خدا سے نفرت کی اور جو آپ سے وابستہ ہوا وہ خدا سے وابستہ ہوا
أَنْتُمُ الصِّرَاطُ الْأَقْوَمُ [السَّبِیلُ الْأَعْظَمُ ] وَ شُهَدَاءُ‌دار الْفَنَاءِ وَ شُفَعَاءُ‌دار الْبَقَاءِ وَ الرَّحْمَةُ الْمَوْصُولَةُ وَ الْآیةُ الْمَخْزُونَةُ وَ الْأَمَانَةُ الْمَحْفُوظَةُ وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَی بِهِ النَّاسُ مَنْ أَتَاکمْ نَجَا وَ مَنْ لَمْ یأْتِکمْ هَلَک إِلَی اللَّهِ تَدْعُونَ وَ عَلَیهِ تَدُلُّونَ وَ بِهِ تُؤْمِنُونَ وَ لَهُ تُسَلِّمُونَ وَ بِأَمْرِهِ تَعْمَلُونَ وَ إِلَی سَبِیلِهِ تُرْشِدُونَ وَ بِقَوْلِهِ تَحْکمُونَ سَعِدَ مَنْ وَالاکمْ وَ هَلَک مَنْ عَادَاکمْ وَ خَابَ مَنْ جَحَدَکمْ وَ ضَلَّ مَنْ فَارَقَکمْ وَ فَازَ مَنْ تَمَسَّک بِکمْ وَ أَمِنَ مَنْ لَجَأَ إِلَیکمْ وَ سَلِمَ مَنْ صَدَّقَکمْ وَ هُدِی مَنِ اعْتَصَمَ بِکمْ مَنِ اتَّبَعَکمْ فَالْجَنَّةُ مَأْوَاهُ وَ مَنْ خَالَفَکمْ فَالنَّارُ مَثْوَاهُ وَ مَنْ جَحَدَکمْ کافِرٌ وَ مَنْ حَارَبَکمْ مُشْرِک، کیونکہ آپ سیدھا راستہ دنیا میں لوگوں پر شاہد و گواہ اور آخرت میں شفاعت کرنے والے ہیں آپ ختم نہ ہونے والی رحمت محفوظ شدہ آیت سنبھالی ہوئی امانت اور وہ راستہ ہیں جس سے لوگ آزمائے جاتے ہیں جو آپکے پاس آیا نجات پاگیا اور جو ہٹا رہا وہ تباہ ہو گیا آپ خدا کیطرف بلانے والے اور اسکی طرف رہبری کرنے والے ہیں آپ اس پر ایمان رکھتے اور اسکے فرمانبردار ہیں آپ اسکا حکم ماننے والے اسکے راستے کی طرف لے جانے والے اور اسکے حکم سے فیصلہ دینے والے ہیں کامیاب ہوا وہ جو آپکا دوست ہے ہلاک ہوا وہ جو آپکا دشمن ہے اور خوار ہواوہ جس نے آپکا انکار کیا گمراہ ہوا وہ جو آپؑ سے جدا ہوا اور بامراد ہوا وہ جو آپکے ہمراہ رہا اور اسے امن ملا جس نے آپکی پناہ لی سلامت رہا وہ جس نے آپکی تصدیق کی اور ہدایت پاگیا وہ جس نے آپکا دامن پکڑاجس نے آپکی اتباع کی اسکا مقام جنت ہے اور جس نے آپکی نافرمانی کی اسکا ٹھکانا جہنم ہے جس نے آپکا انکار کیا وہ کافر ہے جس نے آپؑ سے جنگ کی وہ مشرک ہے
وَ مَنْ رَدَّ عَلَیکمْ فِی أَسْفَلِ دَرْک مِنَ الْجَحِیمِ أَشْهَدُ أَنَّ هَذَا سَابِقٌ لَکمْ فِیمَا مَضَی وَ جَارٍ لَکمْ فِیمَا بَقِی وَ أَنَّ أَرْوَاحَکمْ وَ نُورَکمْ وَ طِینَتَکمْ وَاحِدَةٌ طَابَتْ وَ طَهُرَتْ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ خَلَقَکمُ اللَّهُ أَنْوَارا فَجَعَلَکمْ بِعَرْشِهِ مُحْدِقِینَ حَتَّی مَنَّ عَلَینَا بِکمْ فَجَعَلَکمْ فِی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یذْکرَ فِیهَا اسْمُهُ وَ جَعَلَ صَلاتَنَا [صَلَوَاتِنَا] عَلَیکمْ وَ مَا خَصَّنَا بِهِ مِنْ وِلایتِکمْ طِیبا لِخَلْقِنَا [لِخُلُقِنَا] وَ طَهَارَةً لِأَنْفُسِنَا وَ تَزْکیةً [بَرَکةً] لَنَا وَ کفَّارَةً لِذُنُوبِنَا فَکنَّا عِنْدَهُ مُسَلِّمِینَ بِفَضْلِکمْ وَ مَعْرُوفِینَ بِتَصْدِیقِنَا إِیاکمْ اور جس نے آپکو غلط قرار دیا وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ مقام آپکو گذشتہ زمانے میں حاصل تھااورآیندہ زمانے میں بھی حاصل رہے گا بے شک آپؑ سب کی روحیں آپکے نور اور آپکی اصل ایک ہے جو خوش آیند اور پاکیزہ ہے کہ آپؑ میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں خدا نے آپکو نور کی شکل میں پیدا کیا پھر آپؑ سب کو اپنے عرش کے اردگرد رکھا حتیٰ کہ ہم پر احسان کیا اور آپکو بھیجا پس آپکو ان گھروں میں رکھا جنکو خدا نے بلند کیااور ان میں اسکا نام لیا جاتا ہے اس نے آپؑ پر ہمارے درود وسلام قرار دیئے اس سے ہمیں آپکی ولایت میں خصوصیت دی اسے ہماری پاکیزہ پیدائش ہمارے نفسوں کی صفائی ہمارے باطن کی درستی کا ذریعہ اور گناہوں کا کفارہ بنایا پس ہم اسکے حضور آپکی فضیلت کو ماننے والے اور آپکی تصدیق کرنے والے قرار پاگئے ہیں
فَبَلَغَ اللَّهُ بِکمْ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُکرَّمِینَ وَ أَعْلَی مَنَازِلِ الْمُقَرَّبِینَ وَ أَرْفَعَ دَرَجَاتِ الْمُرْسَلِینَ حَیثُ لا یلْحَقُهُ لاحِقٌ وَ لا یفُوقُهُ فَائِقٌ وَ لا یسْبِقُهُ سَابِقٌ وَ لا یطْمَعُ فِی إِدْرَاکهِ طَامِعٌ حَتَّی لا یبْقَی مَلَک مُقَرَّبٌ وَ لا نَبِی مُرْسَلٌ وَ لا صِدِّیقٌ وَ لا شَهِیدٌ وَ لا عَالِمٌ وَ لا جَاهِلٌ وَ لا دَنِی وَ لا فَاضِلٌ وَ لا مُؤْمِنٌ صَالِحٌ وَ لا فَاجِرٌ طَالِحٌ وَ لا جَبَّارٌ عَنِیدٌ وَ لا شَیطَانٌ مَرِیدٌ وَ لا خَلْقٌ فِیمَا بَینَ ذَلِک شَهِیدٌ ہاں خدا آپکو صاحبان عظمت کے بلند مقام پر پہنچائے اور اپنے مقربین کی بلند منزلوںتک لے جائے اور اپنے پیغمبروں کے اونچے مراتب عطا کرے اسطرح کہ پیچھے والا وہاں نہ پہنچے کوئی اوپر والا اس مقام سے بلند نہ ہوا اور کوئی آگے والا آگے نہ بڑھے اور کوئی طمع کرنے والا اس مقام کی طمع نہ کرے یہاں تک کہ باقی نہ رہے کوئی مقرب فرشتہ نہ کوئی نبی مرسل نہ کوئی صدیق اور نہ شہید نہ کوئی عالم اور نہ جاہل نہ کوئی پست اور نہ کوئی بلند نہ کوئی نیک مومن اور نہ کوئی فاسق و فاجر اور گناہ گار نہ کوئی ضدی سرکش اور نہ کوئی مغرور شیطان اور نہ ہی کوئی اور مخلوق گواہی دے
إِلا عَرَّفَهُمْ جَلالَةَ أَمْرِکمْ وَ عِظَمَ خَطَرِکمْ وَ کبَرَ شَأْنِکمْ وَ تَمَامَ نُورِکمْ وَ صِدْقَ مَقَاعِدِکمْ وَ ثَبَاتَ مَقَامِکمْ، وَ شَرَفَ مَحَلِّکمْ وَ مَنْزِلَتِکمْ عِنْدَهُ وَ کرَامَتَکمْ عَلَیهِ وَ خَاصَّتَکمْ لَدَیهِ وَ قُرْبَ مَنْزِلَتِکمْ مِنْهُ بِأَبِی أَنْتُمْ وَ أُمِّی وَ أَهْلِی وَ مَالِی وَ أُسْرَتِی أُشْهِدُ اللَّهَ وَ أُشْهِدُکمْ أَنِّی مُؤْمِنٌ بِکمْ وَ بِمَا آمَنْتُمْ بِهِ کافِرٌ بِعَدُوِّکمْ وَ بِمَا کفَرْتُمْ بِهِ مُسْتَبْصِرٌ بِشَأْنِکمْ وَ بِضَلالَةِ مَنْ خَالَفَکمْ مُوَالٍ لَکمْ وَ لِأَوْلِیائِکمْ مُبْغِضٌ لِأَعْدَائِکمْ وَ مُعَادٍ لَهُمْ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکمْ مُحَقِّقٌ لِمَا حَقَّقْتُمْ مُبْطِلٌ لِمَا أَبْطَلْتُمْ مُطِیعٌ لَکمْ عَارِفٌ بِحَقِّکمْ، سوائے اسکے کہ وہ انکو آپکی شان سے آگاہ کرے آپکے مقام کی بلندی آپکی شان کی بڑائی آپکے نور کی کاملیت آپکے درست درجات آپ کے مراتب کی ہمیشگی آپکے خاندان کی بزرگی اسکے ہاں آپکے مقام اس کے سامنے آپؑ کی بزرگواری اس کے ساتھ آپؑ کی خصوصیت اور اس سے آپکے مقام کے قرب کی گواہی دے میرے ماں باپ میرا گھر میرا مال اور میرا خاندان آپؑ پر قربان میں گواہ بناتا ہوں خدا کو اور آپکو کہ اس پر میں ایمان رکھتا ہوں جس پر آپؑ ایمان رکھتے ہیں منکر ہوں آپکے دشمن کا اور جس چیز کا آپ انکار کرتے ہیں آپکی شان کو جانتا ہوں اور آپکے مخالف کی گمراہی کو سمجھتا ہوں محبت رکھتا ہوں آپؑ سے اور آپکے دوستوں سے نفرت کرتا ہوں آپکے دشمنوں سے اور انکا دشمن ہوں میری صلح ہے اس سے جو آپؑ سے صلح رکھے اورجنگ ہے اس سے جو آپؑ سے جنگ کرے حق کہتا ہوں اسے جسکو آپؑ حق کہیں باطل کہتا ہوں اسے جسکو آپؑ باطل کہیں آپکا فرمانبردار ہوں آپکے حق کو پہچانتا ہوں
مُقِرٌّ بِفَضْلِکمْ مُحْتَمِلٌ لِعِلْمِکمْ مُحْتَجِبٌ بِذِمَّتِکمْ مُعْتَرِفٌ بِکمْ مُؤْمِنٌ بِإِیابِکمْ مُصَدِّقٌ بِرَجْعَتِکمْ مُنْتَظِرٌ لِأَمْرِکمْ مُرْتَقِبٌ لِدَوْلَتِکمْ آخِذٌ بِقَوْلِکمْ عَامِلٌ بِأَمْرِکمْ مُسْتَجِیرٌ بِکمْ زَائِرٌ لَکمْ لائِذٌ عَائِذٌ بِقُبُورِکمْ مُسْتَشْفِعٌ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِکمْ وَ مُتَقَرِّبٌ بِکمْ إِلَیهِ وَ مُقَدِّمُکمْ أَمَامَ طَلِبَتِی وَ حَوَائِجِی وَ إِرَادَتِی فِی کلِّ أَحْوَالِی وَ أُمُورِی مُؤْمِنٌ بِسِرِّکمْ وَ عَلانِیتِکمْ وَ شَاهِدِکمْ وَ غَائِبِکمْ وَ أَوَّلِکمْ وَ آخِرِکمْ وَ مُفَوِّضٌ فِی ذَلِک کلِّهِ إِلَیکمْ وَ مُسَلِّمٌ فِیهِ مَعَکمْ، آپکی بڑائی کو مانتا ہوں آپکے علم کا معتقد ہوں آپکی ولایت میں پناہ گزین ہوں آپکی ذات کا اقرار کرتا ہوں آپکے بزرگان کا معتقد ہوں آپکی رجعت کی تصدیق کرتا ہوں آپکے دور کا منتظر ہوں آپکی حکومت کا انتظار کرتا ہوں آپؑ کے قول کو قبول کرتا ہوں آپؑ کے حکم پر عمل کرتا ہوں آپکی پناہ میں ہوں آپکی زیارت کو آیا ہوں آپکے مقبرے میں پوشیدہ ہو کر پناہ لی ہے خدا کے حضور آپکو اپنا سفارشی بناتا ہوں آپکے ذریعے اسکا قرب چاہتا ہوں آپکو اپنی ضرورتوں حاجتوں اور ارادوں کا وسیلہ بناتا ہوں اپنے ہر حال اور ہر کام میں اور ایمان رکھتا ہوں آپؑ میں سے نہاں اور عیاں پر آپؑ میں سے ظاہر اور پوشیدہ پر آپؑ میں سے اول اور آخر پر ان تمام امور کیساتھ خود کو آپکے سپرد کرتا ہوں اوران میں آپکے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں
وَ قَلْبِی لَکمْ مُسَلِّمٌ وَ رَأْیی لَکمْ تَبَعٌ وَ نُصْرَتِی لَکمْ مُعَدَّةٌ حَتَّی یحْیی اللَّهُ تَعَالَی دِینَهُ بِکمْ وَ یرُدَّکمْ فِی أَیامِهِ وَ یظْهِرَکمْ لِعَدْلِهِ وَ یمَکنَکمْ فِی أَرْضِهِ فَمَعَکمْ مَعَکمْ لا مَعَ غَیرِکمْ [عَدُوِّکمْ ] آمَنْتُ بِکمْ وَ تَوَلَّیتُ آخِرَکمْ بِمَا تَوَلَّیتُ بِهِ أَوَّلَکمْ وَ بَرِئْتُ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ أَعْدَائِکمْ وَ مِنَ الْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ الشَّیاطِینِ وَ حِزْبِهِمُ الظَّالِمِینَ لَکمْ [وَ] الْجَاحِدِینَ لِحَقِّکمْ وَ الْمَارِقِینَ مِنْ وِلایتِکمْ وَ الْغَاصِبِینَ لِإِرْثِکمْ [وَ] الشَّاکینَ فِیکمْ [وَ] الْمُنْحَرِفِینَ عَنْکمْ وَ مِنْ کلِّ وَلِیجَةٍ دُونَکمْ وَ کلِّ مُطَاعٍ سِوَاکمْ وَ مِنَ الْأَئِمَّةِ الَّذِینَ یدْعُونَ إِلَی النَّارِ فَثَبَّتَنِی اللَّهُ أَبَدا مَا حَییتُ عَلَی مُوَالاتِکمْ وَ مَحَبَّتِکمْ وَ دِینِکمْ وَ وَفَّقَنِی لِطَاعَتِکمْ وَ رَزَقَنِی شَفَاعَتَکمْ، میرا دل آپکا معتقد ہے میرا ارادہ آپکے تابع ہے میری مدد و نصرت آپ کیلئے حاضر ہے یہاں تک کہ خدا آپکے ہاتھوں اپنے دین کو زندہ کرے آپکو اس زمانے میں لے جائے قیام عدل میں آپکی مدد کرے اور آپکو اپنی زمین میں اقتدار دے پس میں صرف آپکے ساتھ ہوں آپکے غیر کیساتھ نہیں آپکا معتقد ہوں اور آپؑ میں سے آخری کا محب ہوں جیسے آپؑ میں سے اول کا محب ہوں میں خدائے عزو جل کیسامنے آپکے دشمنوں سے بیزاری کرتا ہوں اور بیزار ہوں بتوں سے سرکشوں سے شیطانوں سے اور انکے گروہ سے جو آپؑ پر ظلم کرنے والے آپؑ کے حق کا انکار کرنے والے آپؑ کی ولایت سے نکل جانے والے آپکی وراثت غصب کرنے والے آپ پر شک لانے والے آپؑ سے پھر جانے والے ہیں اور بیزار ہوںمیں آپکے سوا ہر جماعت سے آپکے سوا ہر اطاعت کئے والے سے اور ان پیشواؤں سے بیزار ہوں جو جہنم میں لے جانے والے ہیں پس جب تک زندہ ہوں خدا مجھے قائم رکھے آپکی دوستی پر آپکی محبت پر آپکے دین پر اور توفیق دے آپکی پیروی کرنے کی اور آپؑ کی شفاعت نصیب کرے
وَ جَعَلَنِی مِنْ خِیارِ مَوَالِیکمْ التَّابِعِینَ لِمَا دَعَوْتُمْ إِلَیهِ وَ جَعَلَنِی مِمَّنْ یقْتَصُّ آثَارَکمْ وَ یسْلُک سَبِیلَکمْ وَ یهْتَدِی بِهُدَاکمْ وَ یحْشَرُ فِی زُمْرَتِکمْ وَ یکرُّ فِی رَجْعَتِکمْ وَ یمَلَّک فِی دَوْلَتِکمْ وَ یشَرَّفُ فِی عَافِیتِکمْ وَ یمَکنُ فِی أَیامِکمْ وَ تَقَرُّ عَینُهُ غَدا بِرُؤْیتِکمْ بِأَبِی أَنْتُمْ وَ أُمِّی وَ نَفْسِی وَ أَهْلِی وَ مَالِی مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِکمْ وَ مَنْ وَحَّدَهُ قَبِلَ عَنْکمْ وَ مَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِکمْ مَوَالِی لا أُحْصِی ثَنَاءَکمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ کنْهَکمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَکمْ وَ أَنْتُمْ نُورُ الْأَخْیارِ وَ هُدَاةُ الْأَبْرَارِ وَ حُجَجُ الْجَبَّارِ بِکمْ فَتَحَ اللَّهُ وَ بِکمْ یخْتِمُ [اللَّهُ ] وَ بِکمْ ینَزِّلُ الْغَیثَ، خدا مجھ کو آپکے بہترین دوستوں میں رکھے جو اسکی پیروی کرنے والے ہوں جنکی طرف آپ نے دعوت دی اورمجھے ان میں سے قرار دے جو آپکے اقوال نقل کرتے ہیں مجھے آپکی راہ پر چلائے آپکی ہدایت سے بہرہ ور کرے آپکے گروہ میں اٹھائے آپکی رجعت میں مجھے بھی لوٹائے آپکی حکومت میں آپکی ریاعا بنائے آپکے دامن میں عزت دے آپکے عہد میں اعلیٰ مقام دے اور ان میں رکھے جو کل آپکے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کریں گے میرے ماں باپ میری جان میرا خاندان اور مال آپؑ پر قربان جو خدا کو چاہے وہ آپؑ سے ملتا ہے جو اسے یکتا سمجھے وہ آپکی بات مانتا ہے جو اسکی طرف بڑھے وہ آپکا رخ کرتا ہے میرے سردارمیں آپکی تعریف کا اندازہ نہیں کر سکتا نہ آپکی مدح کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہوں اور نہ آپکی شان کا تصور کرسکتا ہوں آپ شرفا کا نور نیکو ں کے رہبر خدائے قادر کی حجتیں ہیں خدا نے آپؑ سے آغاز وانجام کیا ہے وہ آپؑ کے ذریعے بارش برساتا ہے
وَ بِکمْ یمْسِک السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلا بِإِذْنِهِ وَ بِکمْ ینَفِّسُ الْهَمَّ وَ یکشِفُ الضُّرَّ وَ عِنْدَکمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلائِکتُهُ وَ إِلَی جَدِّکمْ آپ کے ذریعے آسمان کو روکے ہوئے ہے تاکہ زمین پرنہ آ گرے مگر اسکے حکم سے وہ آپؑ کے ذریعے غم دور کرتا اور سختی ہٹاتا ہے وہ پیغام آپؑ کے پاس ہے جو اس کے رسول لائے اور فرشتے جس کو لے کر اترے اور آپؑ کے نانا کی طرف
(اور اگر امیر مؤمنان حضرت علی علیہ السلام کی زیارت ہو تو "و إِلَی جدّکم" کی بجائے "وَ إِلَی أَخِیک" کہیں) اور آپؑ کے بھائی کے پاس
بُعِثَ الرُّوحُ الْأَمِینُ آتَاکمُ اللَّهُ مَا لَمْ یؤْتِ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِینَ طَأْطَأَ کلُّ شَرِیفٍ لِشَرَفِکمْ وَ بَخَعَ کلُّ مُتَکبِّرٍ لِطَاعَتِکمْ وَ خَضَعَ کلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِکمْ وَ ذَلَّ کلُّ شَی ءٍ لَکمْ وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِکمْ وَ فَازَ الْفَائِزُونَ بِوِلایتِکمْ بِکمْ یسْلَک إِلَی الرِّضْوَانِ وَ عَلَی مَنْ جَحَدَ وِلایتَکمْ غَضَبُ الرَّحْمَنِ، بِأَبِی أَنْتُمْ وَ أُمِّی وَ نَفْسِی وَ أَهْلِی وَ مَالِی ذِکرُکمْ فِی الذَّاکرِینَ وَ أَسْمَاؤُکمْ فِی الْأَسْمَاءِ وَ أَجْسَادُکمْ فِی الْأَجْسَادِ وَ أَرْوَاحُکمْ فِی الْأَرْوَاحِ وَ أَنْفُسُکمْ فِی النُّفُوسِ وَ آثَارُکمْ فِی الْآثَارِ وَ قُبُورُکمْ فِی الْقُبُورِ فَمَا أَحْلَی أَسْمَاءَکمْ وَ أَکرَمَ أَنْفُسَکمْ وَ أَعْظَمَ شَأْنَکمْ وَ أَجَلَّ خَطَرَکمْ وَ أَوْفَی عَهْدَکمْ [وَ أَصْدَقَ وَعْدَکمْ ]، کلامُکمْ نُورٌ وَ أَمْرُکمْ رُشْدٌ وَ وَصِیتُکمُ التَّقْوَی وَ فِعْلُکمُ الْخَیرُ وَ عَادَتُکمُ الْإِحْسَانُ، روح الامین آیا خدا نے آپ کو وہ نعمت دی جو جہانوں میں کسی کو نہ دی ہر بڑائی والا آپؑ کی بڑائی کے آگے جھکتا ہے ہر مغرور آپؑ کا حکم مانتا ہے ہر زبردست آپؑ کی فضلیت کے سامنے خم ہوتا ہے ہر چیز آپکے آگے پست ہے زمین آپؑ کے نور سے چمکتی ہے کامیابی پانے والے آپؑ کی ولایت سے کامیابی پاتے ہیں کہ آپؑ کے ذریعے رضائے الہی حاصل کرتے ہیں اور جو آپؑ کی ولایت کے منکر ہیں ان پر خدا کا غضب آتا ہے میرے ماں باپ میری جان میرا خاندان اور مال آپؑ پر قربان آپکا ذکر ہے ذکر کرنے والوں میں ہے آپکے نام ناموں میں خاص ہیں آپکے جسم اعلیٰ ہیں جسموں میں آپکی روحیں بہترین ہیں روحوں میں آپکے دل پاکیزہ ہیں دلوں میں آپؑ کے نشان عمدہ ہیں نشانوں میں اور آپؑ کی قبریں پاک ہیں قبروں میں پس کتنے پیارے ہیں آپکے نام کتنے گرامی ہیں آپکے نفوس آپکی شان بلند ہے آپکا مقام عظیم ہے آپکا پیمان پورا ہونے والا اور آپؑ کا وعدہ سچا ہے آپؑ کا کلام روشن آپؑ کے حکم میں ہدایت آپؑ کی وصیت پرہیز گاری آپؑ کا فعل عمدہ آپؑ کی عادت پسندیدہ
وَ سَجِیتُکمُ الْکرَمُ وَ شَأْنُکمُ الْحَقُّ وَ الصِّدْقُ وَ الرِّفْقُ وَ قَوْلُکمْ حُکمٌ وَ حَتْمٌ وَ رَأْیکمْ عِلْمٌ وَ حِلْمٌ وَ حَزْمٌ إِنْ ذُکرَ الْخَیرُ کنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاهُ بِأَبِی أَنْتُمْ وَ أُمِّی وَ نَفْسِی کیفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِکمْ وَ أُحْصِی جَمِیلَ بَلائِکمْ وَ بِکمْ أَخْرَجَنَا اللَّهُ مِنَ الذُّلِّ وَ فَرَّجَ عَنَّا غَمَرَاتِ الْکرُوبِ وَ أَنْقَذَنَا مِنْ شَفَا جُرُفِ الْهَلَکاتِ وَ مِنَ النَّارِ بِأَبِی أَنْتُمْ وَ أُمِّی وَ نَفْسِی بِمُوَالاتِکمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِینِنَا وَ أَصْلَحَ مَا کانَ فَسَدَ مِنْ دُنْیانَا وَ بِمُوَالاتِکمْ تَمَّتِ الْکلِمَةُ وَ عَظُمَتِ النِّعْمَةُ، آپؑ کے اطوار میں بزرگواری آپؑ کی شان سچائی راستی اور ملائمت ہے آپؑ کا قول مضبوط و یقینی ہے آپکی رائے میں نرمی اور پختگی ہے اگر نیکی کا ذکر ہو تو آپؑ اس میں اول اسکی جڑ اسکی شاخ اس کا مرکز اس کا ٹھکانہ اور اس کی انتہا ہیں قربان آپؑ پر میرے ماں باپ اور میری جان کسطرح میں آپکی زیبا تعریف و توصیف کروں اور آپکی بہترین آزمائشوں کا تصور کروں کہ خدا نے آپکے ذریعے ہمیں خواری سے بچایا ہمارے رنج و غم کو دور فرمایا اور ہمیں تباہی کی وادی سے نکالا اور جہنم کی آگ سے آزاد کیا میرے ماں باپ اور میری جان آپؑ پر قربان آپؑ کی دوستی کے وسیلے سے خدا نے ہمیں دینی تعلیمات عطا کی اور ہماری دنیا کے بگڑے کام سنوار دیے آپؑ کی ولایت کی بدولت کلمہ مکمل ہوا نعمتیں بڑھ گئیں
وَ ائْتَلَفَتِ الْفُرْقَةُ وَ بِمُوَالاتِکمْ تُقْبَلُ الطَّاعَةُ الْمُفْتَرَضَةُ وَ لَکمُ الْمَوَدَّةُ الْوَاجِبَةُ وَ الدَّرَجَاتُ الرَّفِیعَةُ وَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ وَ الْمَکانُ [وَ الْمَقَامُ ] الْمَعْلُومُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْجَاهُ الْعَظِیمُ وَ الشَّأْنُ الْکبِیرُ وَ الشَّفَاعَةُ الْمَقْبُولَةُ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاکتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَیتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْک رَحْمَةً إِنَّک أَنْتَ الْوَهَّابُ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ کانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً، اور آپس کی دوریاں مٹ گئیں آپؑ کی دوستی کے باعث اطاعت واجبہ قبول ہوتی ہے آپؑ سے محبت رکھنا واجب ہے خدائے عزو جل کے ہاں آپ کیلئے بلند درجے پسندیدہ مقام اور اونچا مرتبہ ہے نیز اس کے حضور آپؑ کی بڑی عزت ہے بہت اونچی شان ہے اور آپؑ کی شفاعت قبول شدہ ہے اے ہمارے رب ہم ایمان لائے اس پر جو تو نے نازل کیا اور ہم نے رسول کی پیروی کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ لے اے ہمارے رب ہمارے دل ٹیڑھے نہ ہونے دے جب کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطاکر بے شک تو بہت عطا کرنے والا ہے پاک تر ہے ہمارا رب یقینا ہمارے رب کاوعدہ پورا ہو گا
یا وَلِی اللَّهِ إِنَّ بَینِی وَ بَینَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ذُنُوباً لا یأْتِی عَلَیهَا إِلا رِضَاکمْ فَبِحَقِّ مَنِ ائْتَمَنَکمْ عَلَی سِرِّهِ وَ اسْتَرْعَاکمْ أَمْرَ خَلْقِهِ وَ قَرَنَ طَاعَتَکمْ بِطَاعَتِهِ لَمَّا اسْتَوْهَبْتُمْ ذُنُوبِی وَ کنْتُمْ شُفَعَائِی فَإِنِّی لَکمْ مُطِیعٌ مَنْ أَطَاعَکمْ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَ مَنْ عَصَاکمْ فَقَدْ عَصَی اللَّهَ وَ مَنْ أَحَبَّکمْ فَقَدْ أَحَبَّ اللَّهَ وَ مَنْ أَبْغَضَکمْ فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ اللَّهُمَّ إِنِّی لَوْ وَجَدْتُ شُفَعَاءَ أَقْرَبَ إِلَیک مِنْ مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَیتِهِ الْأَخْیارِ الْأَئِمَّةِ الْأَبْرَارِ لَجَعَلْتُهُمْ شُفَعَائِی فَبِحَقِّهِمُ الَّذِی أَوْجَبْتَ لَهُمْ عَلَیک أَسْأَلُک أَنْ تُدْخِلَنِی فِی جُمْلَةِ الْعَارِفِینَ بِهِمْ وَ بِحَقِّهِمْ وَ فِی زُمْرَةِ الْمَرْحُومِینَ بِشَفَاعَتِهِمْ إِنَّک أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ وَ صَلَّی اللَّهُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ وَ سَلَّمَ [تَسْلِیما] کثِیراً وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ اے ولی خدا بے شک میرے اور خدائے عز و جل کے درمیان گناہ حائل ہیں جو آپؑ چاہیں تومعاف ہو سکتے ہیں پس واسطہ اس کا جس نے آپ کو اپنا راز داں بنایا اپنی مخلوق کا معاملہ آپکو سونپا آپکی اطاعت اپنی اطاعت کیساتھ واجب قرار دی آپ میرے گناہ معاف کروائیں اور میرے سفارشی بن جائیں کہ یقیناً میں آپکا پیرو کارہوں جس نے آپکی پیروی کی تو اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور جس نے آپکی نافرمانی کی خدا کی نافرمانی کی جس نے آپؑ سے محبت کی تو اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپؑ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی اے معبود یقیناً جب میں نے ایسے سفارشی پا لیے ہیں جو تیرے مقرب ہیں یعنی حضرت محمد(ص) اور انکے اہلبیتؑ جو نیک اور خوش کردار امامؑ ہیں ضرور میں نے انہیں اپنے سفارشی بنایا ہے پس انکے حق کے واسطے سے جو تو نے خود پر لازم کرر کھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے ان لوگوں میں داخل فرما جو انکی اور انکے حق کی معرفت رکھتے ہیں اور مجھے اس گروہ میں رکھ جس پر انکی سفارش سے رحم کیا گیا ہے بے شک تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور خدا محمد(ص) پر اور انکی پاکیزہ آلؑ پر درود بھیجے اور بہت بہت سلام بھیجے سلام اور کافی ہے ہمارے لیے خدا جو بہترین کارساز ہے۔


حوالہ جات

  1. طوسی، تهذیب، جلد 6، ص 102 ـ 96۔
  2. من لا یحضره الفقیہ: ج2، ص610۔
  3. مجلسی، زاد المعاد، ص 301۔
  4. ابن بابویہ، ج2، ص 610۔
  5. فرائد السمطین، ج2، ص179ـ186۔
  6. رجوع کریں احسائی، ج1، ص30۔
  7. رجوع کریں: مدیر شانہ چی، ص146۔
  8. رجوع کریں: احسائی، ج1، ص31۔
  9. شُبَّر، ص 33۔
  10. احسائی، ج1، ص30۔
  11. مستدرک الوسائل، ج11، ص170ـ171۔
  12. محمد تقی مجلسی، 1377 ہجری شمسی، ج8، ص666۔
  13. بحار الانوار، ج99، ص134ـ 144۔
  14. قم، مؤسسہ دارالحدیث، 1377 ہجری شمسی، 5 ج، دوم، وزیری۔
  15. قم، مکتبة الأمین، 1422 ھ، 208 صفحات، وزیری۔
  16. اصفہان، 1296ہ۔ 35۔
  17. دمشق، حوزة أهل البیتؑ، 1419ہ، 60 صفحات، رقعی۔
  18. بیروت، دار المفید، 1420 ھ، 4 ج، وزیری۔
  19. کویت، 4 ج (قطور)۔
  20. بیروت، مؤسسة البلاغ، 1424 ھ، 170 صفحات، وزیری۔
  21. تہران، 1354ہ ھ۔ ر ک الذریعہ، ج 14، ص 222۔
  22. تہران، مرکز نشر کتاب، 1378 ھ، 544 صفحات، رقعی۔
  23. قم، مؤسسة بضعة المصطفی، 1421 ھ، 180 صفحات، وزیری۔
  24. قم، دار الغدیر، 1382 ہجری شمسی، وزیری، صفحات 700۔
  25. ادب فنای مقرّبان، هشت جلد۔
  26. رجوع کریں: الذریعہ، ج2، ص35 و ج7، ص29۔
  27. قم، وفایی، 1376 ہجری شمسی، 300 صفحات، وزیری۔
  28. قم، مؤمنین، 1380 ہجری شمسی، وزیری، 521 ص۔
  29. مشہد: بنیاد پژوهش‌ های اسلامی، 1372 ہجری شمسی، 244صفحات، وزیری۔
  30. مجتمع شہید مصلی نژاد، 1377 ہجری شمسی، 108 صفحات، رقعی۔
  31. قم: فرایض، 1378 ہجری شمسی، 3 جلد، 536+368+368صفحات، وزیری۔
  32. اصفہان: حسینیہ عماد زاده، 1373 ہجری شمسی، 190 صفحات (40 صفحات، حالات زندگی اور مقدمہ + 150 صفحات) وزیری۔
  33. تہران: مکتب قرآن، 1372 ش / 1413 ہ، 341 صفحات، وزیری۔
  34. تہران: نشر صادقؑ، 1378 ہجری شمسی، 530 صفحات، وزیری۔
  35. مشہد، فدک، 1368 ش / 1410ہ، 2 ج (552 + 550ص )، وزیری۔
  36. یہ زیارت جامعہ پر لکھی جانی والی فارسی شرحوں میں سے ایک بہترین شرح ہے اور تاریخ و حدیث اور تفسیر و لغت اور ادب کے حوالے سے متعدد فوائد پر مشتمل ہے۔
  37. قم: وفایی، 1378 ہجری شمسی، 302صفحات، وزیری۔
  38. تہران، کلینی، 1372ش / 1414ہ، 158 صفحات، رقعی۔
  39. تہران، 1376ہ، 2 ج، سوم۔
  40. تہران، زراره، 1378 ہجری شمسی، 310 صفحات، وزیری۔
  41. تبریز، 1341 ہجری شمسی۔
  42. تہران، نیستان، 1379 ہجری شمسی، 333 صفحات، وزیری۔
  43. مشہد، چاپ خانہ خراسان، 1366 ہجری شمسی، 324 صفحات، رقعی۔
  44. الذریعہ، ج2، ص239۔
  45. فہرست کتاب خانہ، ج1، ص142۔
  46. المنتخب من اعلام الفکر والادب/496۔
  47. الذریعہ، ج2، ص459۔
  48. فہرست کتاب خانہ الهیات، ج1، ص308۔
  49. الذریعہ، ج13، ص306۔
  50. فہرست کتاب خانہ، ج1، ص139۔
  51. فہرست کتاب خانہ، ج12، ص2933۔
  52. الذریعہ، ج13، ص306۔
  53. رجوع کریں: السلسلات فی الإجازات، ج2، ص578۔
  54. مجلّہ آینہ پژوهش، ش43، ص111۔
  55. المسلسلات فی الإجازات، ج2، ص583۔
  56. مجلّہ آینہ پژوهش، ش76، ص132۔
  57. فہرست کتاب خانہ مجلس، ج12، ص83۔
  58. رجوع کریں: الذریعہ، ج2، ص302۔
  59. رجوع کریں: الذریعه، ج13، ص306۔
  60. رجوع کریں: نقباء البشر، ج4، ص990؛ گنجینه دانشمندان، ج4، ص426۔
  61. رجوع کریں: الذریعة، ج14، ص223۔

مآخذ

  • ابن بابویہ، محمد علی، من لا یحضرہ الفقیہ، مصحح: غفاری، علی اکبر، جامعہ مدرسین، قم، 1413 ھ
  • طوسی، محمد بن حسین، تہذیب الاحکام، مصحح: خرسان، حسن الموسوی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407 ھ
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار احیاء تراث عربی، بیروت، 1403 ھ
  • جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، محقق: محمودی، محمد باقر، موسسہ المحمودی، بیروت
  • مجلسی، محمد باقر، زاد المعاد، بیروت، چاپ علاء الدین اعلمی، 1423 ھ، 2003 ع
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، موسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، بیروت، 1411 ھ، 1991 عیسوی

بیرونی روابط

زیارت جامعہ کبیرہ کا متن اور ترجمہ