زائر سرا

زائر سرا سے مراد مذہبی شہروں میں یا مذہبی شہروں کی طرف جانے والے راستوں پر خیراتی اداروں یا عوام کی طرف سے تعمیر شدہ وہ قیام گاہیں ہیں جہاں زائرین کے قیام یا کچھ وقت کے آرام کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ عمارتیں عام طور پر زیارت کے کلچر کے فروغ اور زائرین کی تکریم و تعظیم کے مقصد سے بنائی جاتی ہیں۔
ماضی میں شہروں کے باہر اور راستوں کے کنارے زائر سرائیں بنائے جاتے تھے؛ زائر سرائیں ایسے مقامات ہوا کرتے تھے جہاں زائرین کے قافلے رُک جاتے تھے؛ لیکن آہستہ آہستہ ایسا رواج پایا کہ زائرین کے قیام اور ان کی استراحت کے لیے زیارتی شہروں کے اندر بھی زائرین کے قیام اور استراحت کے لیے قیام گاہیں بنائی گئیں۔ دنیا کے گوشہ و کنار سے اربعین حسینی کے موقع پر عراق میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین کے لیے نجف سے کربلا کے راستے پر موکب (خدماتی کیمپ) کی صورت میں زائرین کے لیے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے اور سال بہ سال مزید قیام گاہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
مشہد اور کربلا جیسے کچھ زیارتی شہروں میں زائرین کی رہائش کے لیے بڑے زائر سرائیں بنائے گئے ہیں جنہیں فارسی زبان میں "زائر شہر" اور عربی میں ''مدینۃ الزائرین'' کہا جاتا ہے۔ سنہ 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق مشہد میں روضہ امام رضاؑ کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین میں سے 50 فیصد سے زیادہ لوگوں نے اپنے قیام و طعام کے لیے زائر سراؤں کا انتخاب کیا ہے۔
زائر سراؤں کا استعمال
زائرسرائیں زائرین کے آرام اور قیام کے لیے رہائشی مقامات ہیں۔ ماضی میں زائر سرائیں شہروں کے باہر اور سڑکوں کے کنارے بنائے جاتے تھے، جنہیں مسافر قافلوں کے لیے رکنے کی جگہ کے طور پر کام میں لایا جاتا تھا۔ زیادہ تر زائر سرائیں ہوٹلوں کی صورت میں زیارتی شہروں کے اندر اور مقدس مقامات کے قریب واقع ہوتے ہیں۔ کئی زائر سرائیں ایسے ہیں جو ہوٹلوں کی طرح کام میں لائے جاتے ہیں؛ لیکن ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن میں زائرین گروہوں کی صورت میں قیام پذیر ہوتے ہیں؛ زائر سراؤں میں انفرادی کمروں کا انتظام نہیں ہوتا ہے۔ راستے کے کناروں پر تعمیرشدہ زائر سراؤں میں بھی زائرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اربعین حسینی کے موقع پر دنیا کے گوشہ و کنار سے عراق میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جانے والے زائرین کے لیے کربلا کے راستے پر کیمپس (موکب) لگائے جاتے ہیں جو ایک قسم کی زائر سراؤں کا کام انجام دیتے ہیں۔[1]
زائر سراؤں کے قیام کے مقاصد میں زیارت کی ثقافت کو فروغ دینا اور زائرین کی عزت افزائی کرنا شامل ہے جو کہ مذہبی اور معنوی سفر کے مطابق انجام پاتا ہے؛ اس لیے اس طرح کی قیام گاہیں مذہبی شہروں اور مقدس مقامات کے قریب قائم ہوتی ہیں۔[2]
سنہ 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق مشہد میں روضہ امام رضاؑ کی زیارت پر جانے والے 50 فیصد سے زیادہ زائرین نے اپنی رہائش کے لیے زائر سراؤں کا رخ کیا ہے۔[3] مقدس مقامات کی طرف جانے والے راستوں میں زائر سرائیں تعمیر کرنے کے سلسلے میں علما، تاجروں اور واقفین فعال کردار ادا کرتے ہیں۔[4]
زائر سراؤں میں عام طور پر زائرین کو مفت یا سستی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ چیز سیاحت کی صنعت میں ایک نئی قسم کا تصور ہے۔ بعض لوگوں کی تحقیقات کے مطابق مختلف شہروں میں تعمیر شدہ زائر سراؤں پر نگرانی کی کمی سیاحت اور ہوٹلینگ کی صنعت کی ترقی کو روکنے کا سبب بنتی ہے۔[5] بعض اطلاعات کے مطابق متعدد زائر سرائیں اور کاروان سرائیں صرف اور صرف زائرین کے استعمال کے لیے وقف شدہ ہوتے ہیں اور غیر زائرین کو ان کے استعمال کی ممانعت ہوتی ہے۔[6]
زائر سراؤں کی تاریخ

ماضی میں عام طور پر زائرین کو سفر کی دشواری کا سامنا ہوتا تھا اور سفر کی طوالت کی وجہ سے راستے میں زائرین کے لیے آرام کے لیے قیام گاہیں بنائی جاتی تھیں۔ اس طرح کی قیام گاہوں کے نام "کارباط" یا "کاروان سرائے" ہوا کرتے تھے نیز زائرسرا بھی کہلاتی تھیں۔[7] بعد میں، شہروں کے درمیانی راستوں میں تعمیر کی گئی قیام گاہوں کے ماڈل کی بنیاد پر شہروں میں زائرکیمپ یا زائر سرائیں جیسے مراکز بنائے گئے۔ اس طرح کے کیمپ عام طور پر مختصر آرام (ایک دن سے کم) کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔[8]
عراق میں
اطلاعات کے مطابق 14ویں صدی ہجری سے پہلے نجف-کربلا کے راستے پر کم از کم چار کاروان سرائیں بنائے گئے تھے، جو خان جُذعان، خان مُصَلّی، خان حَمّاد و خان نُخَیْلہ کے نام سے مشہور تھے۔[9] بعد میں زائرین کی رہائش کے لیے راستے میں دیگر قیام گاہیں تیار کی گئیں۔ اربعین حسینی کے موقع پر زائر سرائیں موکب (کیمپ) کی شکل اختیار کر گئے اور ان میں سال بہ سال اضافہ ہوا۔[10] اس کے علاوہ، بہت سے عراقی لوگ اربعین کے دوران زائرین کو اپنے گھروں میں بھی مفت سہولیات فراہم کرتے ہیں۔[11]
ایران میں
کہا جاتا ہے کہ 14ویں صدی ہجری سے قبل تہران سے کربلا کے راستے پر 99 سے زیادہ کاروان سراؤں کا اہتمام ہوتا تھا، جبکہ اسی وقت نجف سے کربلا کے راستے پر صرف تین کاروان سرائیں تھے۔[12]
اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کے مطابق زائرسراؤں اور زائرین کے لیے رہائش گاہوں کا قیام اور انتظام غیر سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے اور حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سرکاری فنڈز سے زائر سراؤں کی تعمیر اور اور ان کا انتظام کریں۔[13] زائر سراؤں کی نگرانی کا کام عام طور پر ایرانی محکمہ اوقاف کی ذمہ داری ہے اور ان میں سے زیادہ تر زائر سراؤں کا انتظام بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذریعے ہوتا ہے۔[14] ایران میں موجود زائر سراؤں کی درجہ بندی کے قواعد کے مطابق، وزراء کی کونسل کی طرف سے زائر سراؤں کو تین درجات میں درجہ بندی کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک مخصوص معیارات کا حامل ہوتا ہے۔[15]
مدینۃ الزائرین

14 ویں اور 15 ویں صدی ہجری میں مخیر حضرات اور واقفین کے ذریعے چلنے والے منصوبوں میں سے ایک وسیع زائر سراؤں کا قیام تھا جنہیں خیراتی مقاصد کے تحت بنائے جاتے تھے۔ ایران میں زائر سراؤں کی تعمیر کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک مشہد میں زائر شہر نامی مدینۃ الزائرین کا قیام ہے۔ یہ منصوبہ عالم تشیع کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے حکم پر انجام پایا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے کا افتتاح سنہ 2018ء میں کیا گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں اس قیام گاہ کی گنجائش یومیہ پانچ ہزار زائرین کی تھی۔[16]
ادارہ عتبۃ الحسینیہ (امام حسینؑ کا حرم) نے بھی عراق میں کئی زائر شہروں(مدینۃ الزائرین) کی تعمیر کو ایجنڈے میں شامل رکھا ہوا ہے جن میں سے اب تک دو زائر شہر قائم ہو چکے ہیں؛ ایک شلمچہ اور سَفْوان سرحدی کراسنگ پر ہے اور دوسرا جنوبی عراق کے صوبہ بصرہ میں واقع ہے۔ ان دو زائر شہروں میں عراق میں داخل ہونے والے زائرین کا استقبال کیا جاتا ہے۔[17] عراق کے سب سے بڑے زائر شہروں میں سے ایک کربلا میں واقع ہے اور دوسرا بغداد-کربلا سڑک پر ہے، جو زائرین کو طبی، صحت اور فلاحی خدمات جیسی مختلف خدمات فراہم کرتا ہے۔[18]
حوالہ جات
- ↑ اکوانی، «اصول طراحی زائر سرای بین راہی با رویکرد اربعین حسینی»، 1399شمسی، ص25–27۔
- ↑ «تعریف زائرسرا»، ادارہ کل میراث فرہنگی و گردشگری ہمدان۔
- ↑ توانگر، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب»، 1400شمسی، ص978۔
- ↑ حیدرالجد، «منزلگاهہای راه کربلا و نجف»، 1388شمسی، ص87۔
- ↑ توانگر، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب»، 1400شمسی، ص978۔
- ↑ حیدرالجد، «منزلگاہہای راہ کربلا و نجف»، 1388شمسی، ص88۔
- ↑ اکوانی، «اصول طراحی زائر سرای بین راہی با رویکرد اربعین حسینی»، 1399شمسی، ص25–27۔
- ↑ اکوانی، «اصول طراحی زائر سرای بین راہی با رویکرد اربعین حسینی»، 1399شمسی، ص25–27۔
- ↑ حیدرالجد، «منزلگاہہای راہ کربلا و نجف»، 1388شمسی، ص87 و 93۔
- ↑ حیدرالجد، «منزلگاہہای راہ کربلا و نجف»، 1388شمسی، ص88–91۔
- ↑ «خانہہای عراق زائرسرا شد»، شمال نیوز۔
- ↑ حیدرالجد، «منزلگاہہای راہ کربلا و نجف»، 1388شمسی، ص88۔
- ↑ توانگر، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب»، 1400شمسی، ص979۔
- ↑ توانگر، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب»، 1400شمسی، ص985۔
- ↑ «تعریف زائرسرا»، ادارہ کل میراث فرہنگی و گردشگری ہمدان۔
- ↑ توانگر، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب»، 1400شمسی، ص986۔
- ↑ «آستان قدس حسینی دو زائرشہر در مرز ایران و کویت میسازد»، خبرگزاری شفقنا۔
- ↑ «سہ زائر شہر آستان مطہر آمادہ استقبال از زائران محترم سیدالشہداء (علیہ السلام)»، آستان قدس حسینی۔
مآخذ
- «آستان قدس حسینی دو زائرشہر در مرز ایران و کویت میسازد»، خبرگزاری شفقنا، تاریخ درج مطلب: 15 مرداد 1402شمسی، تاریخ بازدید: 3 آبان 1403ہجری شمسی۔
- اکوانی، عباس، «اصول طراحی زائر سرای بین راہی با رویکرد اربعین حسینی» در مجلہ نخبگان علوم و مہندسی، شمارہ 27، بہمن 1399۔
- «تعریف زائرسرا»، ادارہ کل میراث فرہنگی و گردشگری ہمدان، تاریخ درج مطلب: بیتا، تاریخ بازدید: 3 آبان 1403ہجری شمسی۔
- توانگر، معصومہ، «گونہشناسی و بررسی ساختارہای مدیریت زائرسراہای ارزان قیمت در شہر مشہد، با نگاہی بر تئوری نوآوری مخرب» در مجلہ پژوہشہای جغرافیای انسانی، شمارہ 3، پاییز 1400ہجری شمسی۔
- حیدرالجد، «منزلگاہہای راہ کربلا و نجف» در فصلنامہ فرہنگ زیارت، ترجمہ محمدعلی رضایی، شمارہ 1، زمستان 1388ہجری شمسی۔
- «خانہہای عراق زائرسرا شد»، شمال نیوز، تاریخ درج مطلب: 17 آبان 1395شمسی، تاریخ بازدید: 3 آبان 1403ہجری شمسی۔
- «سہ زائر شہر آستان مطہر آمادہ استقبال از زائران محترم سیدالشہداء (علیہ السلام)»، آستان قدس حسینی، تاریخ درج مطلب: 22 اکتبر 2018ء، تاریخ بازدید: 3 آبان 1403ہجری شمسی۔