سورہ اعراف

ویکی شیعہ سے
(سوره اعراف سے رجوع مکرر)
انعام سورۂ اعراف انفال
ترتیب کتابت: 7
پارہ : 8 و 9
نزول
ترتیب نزول: 39
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 206
الفاظ: 3346
حروف: 14437

سورہ اعراف قرآن مجید کی ساتویں سورت جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور قرآن مجید کے آٹھویں اور نویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اعراف کہا گیا ہے کیونکہ اس میں اصحاب اعراف کا تذکرہ موجود ہے۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح سورہ اعراف کا بھی زیادہ تر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں ہے۔ اس سورت کا مقصد بھی مسلمانوں میں عقیدہ اور ایمان کے مبانی کو مضبوط کرنا ہے۔ سورہ اعراف میں ان عہد و پیمان کی طرف اشارہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے ان سے لیا ہے؛ ان میں سے ایک عالم ذر کی طرف اشارہ ہے اور جو قومیں توحید کے راستے سے بھٹک گئی ہیں ان کی ناکامی اور شکست کو بیان کرنے کے لیے اقوام ماضی اور گزشتہ انبیاء جیسے حضرت نوحؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت شعیبؑ کی امتوں کے انجام اور عاقبت کو بیان کیا ہے۔

سورہ اعراف کی 46 ویں آیت اصحاب اعراف کے بارے میں، آیت سخرہ سے مشہور 54 سے 56 تک کی آیات، آیت میثاق سے مشہور 172 ویں آیت اس سورت کی مشہور آیات میں سے شمار ہوتی ہیں۔ اس سورت کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو شخص سورہ اعراف کی تلاوت کرے؛ اللہ تعالی وہ اور ابلیس کے درمیان ایک حائل قرار دے گا اور قیامت میں حضرت آدمؑ اس کا شفیع قرار دے گا۔

سورہ اعراف کی 199ویں آیت خط ثلث میں: «عفو و درگزر سے کام لو۔ اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے روگردانی کریں»

تعارف

وجہ تسمیہ

اس سورت کو اعراف کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس میں قیامت کے دن اعراف اور اصحاب اعراف کے ماجرا کا تذکرہ ہے۔[1] اعراف کا لفظ قرآن مجید میں دو مرتبہ سورہ اعراف کی 46ویں اور 48ویں آیت میں ذکر ہوا ہے۔[2]اس سورت کو سورہ «المص» (الف ۔لام ۔میم ۔صاد) بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ صرف اسی سورت کا آغاز ان حروف مُقَطَّعہ سے ہوتا ہے۔[3] یہ سورت «میقات» (مآخوذ از آیت 143) اور «میثاق» (مآخوذ از آیت 172) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[4]

ترتیب و محل نزول سورہ اعراف مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے ولی 39ویں سورت ہے اور قرآن مجید کے موجودہ مصحف میں 7ویں سورت ہے اور آٹھویں اور نویں پارے میں واقع ہے۔[5] یہ سورت، سورہ ص کے بعد اور سورہ جن سے پہلے نازل ہوئی ہے۔[6]

تعداد آیات و دوسری خصوصیات

سوره اعراف کی 206 آیات،[یادداشت 1]، 3346 الفاظ اور 14437 حروف ہیں۔[7] یہ سورت حجم کے لحاظ سے سبعہ طوال اور قرآن مجید کی طویل سورتوں میں سے ایک ہے جو ایک سپارے سے زیادہ پر محیط ہے اور مکی سورتوں میں سب سے لمبی سورت ہے۔[8]

سورہ اعراف ترتیبِ مصحف کے لحاظ سے ایک سے زیادہ حروف پر مشتمل حروف مقطعہ سے شروع ہونے والی پہلی سورت ہے؛ کیونکہ اس سے پہلے سورہ ق، سوره ص اور سوره قلم کی ابتدا ایک حرف سے ہوئی ہے۔[9] علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ سورہ اعراف کا آغاز «المص» سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت حروف مقطعہ «الم» سے شروع ہونے والی سورتوں کے مضامین کے علاوہ سورہ ص کے مضامین پر بھی مشتمل ہے۔[10]

سوره اعراف کی 206ویں آیت میں سجدہ ہے جسے امامیہ اور شافعیہ مستحب جبکہ دیگر فرقے اسے واجب سمجھتی ہیں۔[11]

مضمون

سورہ اعراف دیگر مکی سورتوں کی مانند مکہ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بیشتر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں ہے۔اس سورت کا مقصد بھی مسلمانوں میں عقیدہ اور ایمان کے مبانی کو مضبوط کرنا ہے۔[12] سورہ اعراف میں ان عہد و پیمان کی طرف اشارہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے ان سے لیا ہے؛ ان میں سے ایک عالم ذر کی طرف اشارہ ہے اور جو قومیں توحید کے راستے سے بھٹک گئی ہیں ان کی ناکامی اور شکست کو بیان کرنے کے لیے اقوام ماضی اور گزشتہ انبیاء جیسے حضرت نوحؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت شعیبؑ کی امتوں کے انجام اور عاقبت کو بیان کیا ہے۔[13] اس سورت کی ابتدائی آیات میں رسول اکرمؐ کو انذار پر مامور کرنے اور آخری آیات میں آپؐ کی باتوں کا اثر لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کے لیے سیرہ حسنہ کا حکم دینے کا مطلب اس سورت کی ابتدا اور انتہا کا معنوی رابطہ بیان کرنا ہے۔[14] سورہ اعراف کا نزول مکہ میں مسلمانوں کی اقتصادی خستہ حال حالات اور شعب ابی طالب میں اقتصادی محاصرے کے دوران ہونا اس عہد و پیمان کو یاد دلانا اور اس کی اہمیت بیان کرنا مقصود تھا جو انسانوں نے اللہ تعالی سے کیا تھا[10]

سورہ اعراف کے مضامین[15]
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
آیات اور احکام الہٰی کی مخالفت کا انجام
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا حصہ:آیات 175-206
احکام الہٰی کی مخالفت کرنے والوں کے حوالے سے پیغمبر کی ذمہ داری
 
 
 
 
 
تیسرا حصہ:آیات 59-174
آیاتِ الہٰی کی مخالفت کی دنیوی سزا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا حصہ:آیات 37-58
احکامِ الہٰی کے مخالفین کا اخروی عذاب
 
 
 
 
 
پہلا حصہ:آیات:10 -36
لوگوں کو اللہ کے احکام پر عمل درآمد سے روکنے کیلئے شیطان کی سعی
 
مقدمہ: آیات 1-9
اللہ کی آیات اور احکامِ کے حوالے سے پیغمبر اور لوگوں کی ذمہ داری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلی ذمہ داری:آیات 175-179
آیاتِ الہٰی کی مخالفت کے اثرات کا تذکرہ
 
تیسری فصل:آیات 103-174
حضرت موسیٰ کے مخالفین کو سزا
 
دوسری فصل:آیات 94-102
نافرمان قوم کی سزا کے حوالے سے اللہ کے قوانین
 
پہلی فصل:آیات 59-93
تاریخ میں کافروں کی دنیوی سزا
 
تیسری فصل:آیات 54-58
عذاب سے نجات کا راستہ صرف ایک خدا کی بندگی
 
دوسری فصل:آیات 44-53
پیغمبر کی مخالفت پر دوزخیوں کی ندامت
 
پہلی فصل:آیات 37-43
کافروں کے عذاب اور مومنوں کے اجر کا موازنہ
 
پہلا مطلب:آیات 10-15
آدم کی خلقت اور شیطان کا سجدے سے انکار
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسری ذمہ داری:آیات 180-182
مخالفین کی سزا کو اللہ پر چھوڑنا
 
پہلا گفتار:آیات 103-137
فرعون اور اس کی پیروی کرنے والوں کو سزا
 
پہلا قانون:آیات 94-96
مصیبتوں کے نزول سے انسان کی آزمائش
 
پہلا مطلب:آیات 59-64
حضرت نوحؑ کی قوم کا غرق ہونا
 
پہلا مطلب:آیات 54-56
صرف کائنات کے مدبر کو ہی پکارو
 
پہلا مطلب:آیات 44-45
اللہ کا وعدے سچ ہونے پر دوزخیوں کا اعتراف
 
پہلا گفتار: آیات 37-41
احکام الہٰی کے مخالفین کی سزا، جہنم کا عذاب
 
دوسرا مطلب:آیات 16-18
انسانوں کو گمراہ کرنے کے عزم پر مبنی ابلیس کی قسم
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسری ذمہ داری:آیات 183-186
مشرکین کو دینی تعلیمات میں غور و فکر کرنے کی مہلت‌
 
دوسرا گفتار:آیات 138-174
بنی اسرائیل کے گستاخ لوگوں کی سزا
 
دوسرا قانون:آیات 97-100
اللہ کا عذاب ہمیشہ گستاخوں کی تاک میں ہے
 
دوسرا مطلب:آیات 65-72
آندھی سے قوم عاد کی نابودی
 
دوسرا مطلب:آیات 57-58
روزی رساں خدا کا شکر کریں
 
دوسرا مطلب:آیات 46-49
جنت اور جہنم والوں کے بارے میں اصحابِ اعراف کی قضاوت
 
دوسرا گفتار:آیات 42-43
پیغمبر کے پیروکاروں کی جزا، بہشت
 
تیسرا مطلب:آیات 19-25
آدم اور حوا کو شیطان کا دھوکہ
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھی ذمہ داری:آیات 187
معاد کے بارے میں کافروں کے شبہات کا جواب
 
 
 
 
 
قانون سوم:آیات 97-100
اللہ کا عذاب گستاخوں کی تاک میں
 
تیسرا دوسرا مطلب:آیات 73-79
شدید زلزلے سے قوم ثمود کی نابودی
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب:آیات 50-52
بہشتیوں کی جانب سے دوزخیوں کی مذمت
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب:آیات 26-36
شیطان کے فریب سے بچنے کے لئے چار حکم
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچویں ذمہ داری:آیات 188-198
اللہ کے سامنے تمام موجودات کی ناتوانی کا ذکر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب:آیات 80-84
قومِ لوط پر پتھروں کی بارش
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب:آیات 53
جہنم سے نجات کے حوالے سے کافروں کی ناکامی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹی ذمہ داری:آیات 199-204
کافروں سے اچھے سلوک کی تلقین
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب:آیات 85-93
قومِ شعیب کی زلزلے سے تباہی
 
 
 
ساتویں ذمہ داری:آیات 205-206
ہمیشہ اللہ کی طرف متوجہ رہنا


واقعات اور تاریخی روایات

سورہ اعراف میں بہشت میں آدم و حوا کا واقعہ نیز حضرت نوح، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی کے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔

  • آدم کی خلقت کا قصہ، بہشت میں سکونت، بہشتی نعمتوں سے استفادہ کرنے اور شجرہ ممنوع سے کھانے کا قصہ نیز ابلیس کے انجام کا قصہ؛ (آیات ۱۱-۲۷)
  • نوح کا قصہ: رسالت، قوم سے گفتگو، طوفان؛ (آیات ۵۹-۶۴)
  • حضرت صالح کا قصہ: رسالت، قوم سے گفتگو، معجزہ اونٹنی، قوم پر زلزلے کا عذاب؛ (آیات ۷۳-۷۹)
  • حضرت لوط کا قصہ: قوم سے گفتگو، پتھروں سے ان پر عذاب کرنا؛ (آیات ۸۰-۸۴)
  • حضرت شعیب کا قصہ: رسالت، قوم سے گفتگو، قوم پر عذاب زلزلہ کے ذریعے؛ (آیات ۸۵-۹۲)
  • حضرت موسی کا قصہ: فرعون کو دعوت، عصا کا اژدھا میں بدلنے کا معجزہ، ید بیضاء، شہر کے ساحروں سے مقابلہ، فرعون کی دھمکی، بنی اسرائیل کے مصائب، فرعون کی قوم پر عذاب اور دریا میں غرق ہونا، بنی اسرائیل کا دریا پار کرنا، کوہ طور پر موسی کا میقات، حضرت موسی پر الواح کا نزول، سامری کا بچھڑا، میقات کے لئے بنی اسرائیل کے 70 لوگوں کا انتخاب، بنی اسرائیل کے بارہ گروہ اور بارہ چشمے، وحی کے کلمات میں تبدیلی، ہفتے کے دن زیادتی، بنی اسرائیل کا مسخ ہونا اور آورہ ہونا۔ (آیات ۱۰۳-۱۶۹)

بعض آیات کا شان نزول

سوره اعراف کی بعض آیات کے لئے خاص شان نزول ذکر ہوا ہے:

عبادت کے دوران بدن کی زینت

عصر جاہلیت میں عرب ننگے اور عریان حالت میں کعبہ کا طواف کرتے تھے اسی وجہ سے سورہ اعراف کی 31ویں آیت یابَنىِ ءَادَمَ خُذُواْ زِینَتَكمُ‏ْ عِندَ كلُ‏ِّ مَسْجِد (ترجمہ: اے اولادِ آدم! ہر نماز کے وقت زینت کرو)[اعراف–؟] اس عمل کی مذمت میں نازل ہوئی اور اللہ تعالی کی عبادت کے دوران کپڑے پہننے اور زینت کرنے کا کہا گیا ہے۔[16]

بلعم باعورا کا خسارہ

ابن مسعود، ابن عباس اور بعض دیگر مفسروں کا کہنا ہے کہ سورہ اعراف کی 175ویں آیت وَاتْلُ عَلَیهِمْ نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّیطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِینَ (ترجمہ: (اے رسولؐ) ان لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان کرو جس کو ہم نے اپنی بعض نشانیاں عطا کی تھیں مگر وہ ان سے عاری ہوگیا (وہ جامہ اتار دیا) پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔ اور آخرکار وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔)[؟–175] بلعم باعورا نامی بنی اسرائیل کے ایک مرد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو جباران نامی شہر میں رہتا تھا اور جب حضرت موسی اور بنی اسرائیل اس شہر میں آئے تو بلعم کی قوم نے حضرت موسی اور انکی لشکر کی تندروی کے بارے میں کہا کہ اگر یہ لوگ ان پر مسلط ہونگے توان سب کو مار دینگے، اسی لیے بلعم سے حضرت موسی کے خلاف بددعا کرنے کی درخواست کی۔ بلعم نے کہا اگر ایسی کوئی دعا کروں تو میری دینا اور آخرت برباد ہوگی۔ لیکن اس کی قوم نے اصرار کیا اور بلعم نے حضرت موسی اور اس کی فوج کے لیے بددعا کی جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے بلعم سے اپنی رحمت سلب کیا اور بلعم خسارے پانے والوں سے ہوگیا۔[17]

روز قیامت کا علم

اس سورت کی 187ویں آیت یسَْلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَیانَ مُرْسَئهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبىّ‏ِ لَا یجَُلِّیهَا لِوَقْتهَِا إِلَّا هُوَ (ترجمہ: (اے رسول) لوگ آپ سے قیامت کی گھڑی کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار کے ہی پاس ہے اسے اس کا وقت آنے پر وہی ظاہر کرے گا۔)[؟–187] کی شان نزول کے بارے کہا گیا ہے کہ یہودیوں میں سے بعض قریش کے کچھ لوگوں کے ہمراہ پیغمبر اکرمؐ کے پاس آئے اور قیامت کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت ان کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی۔[18]

اللہ تعالی علم غیب کا مالک

مکہ والوں نے پیغمبر اکرمؐ سے پوچھا: اے محمدؐ! تمہارا پروردگار قیمتیں مہنگی ہونے سے پہلے آپ کو سستی قیمتوں کے بارے میں بتاتا ہے تاکہ سستی خریدیں اور منافع کمائے؟ اور چراگاہ اور زمینیں آفت زدہ اور خشک ہونے سے پہلے تمہیں آگاہ کرتا ہے تاکہ سرسبز جگہ چلے جا سکو؟ سورہ اعراف کی 188ویں آیت قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسىِ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَ لَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَیبَ لاَسْتَكْثرَْتُ مِنَ الْخَیرِْ (ترجمہ: (اے رسول(ص)) کہہ دو۔ کہ میں اپنے نفع و نقصان پر کوئی قدرت و اختیار نہیں رکھتا۔ مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا)[؟–175] ان لوگوں کے جواب میں نازل ہوئی۔[19]

نماز جماعت میں اذکار آہستہ پڑھنا

سورہ اعراف کی 204ویں آیت وَ إِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَ أَنْصِتُوا (ترجمہ: اور (اے مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر (توجہ سے) سنو اور خاموش ہو جاؤ)[؟–204] کے نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مسلمان، نماز جماعت میں امام جماعت کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو خاموش رہنے اور امام جماعت کی تلاوت کی طرف توجہ کرنے کا حکم دیا گیا۔[20]طبرسی نے بھی کہا ہے کہ مسلمان نماز کے دوران باتیں کرتے تھے اور جب کوئی نماز کے دوران مسجد میں آتا اور کونسی رکعت ہونے کے باری میں سوال کرتا تھا تو اس کا جواب دیتے تھے تو اسی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی اور نماز میں بات کرنے سے منع کیا۔[21]

تفسیری نکات

سورہ اعراف کی بعض آیات، جیسے «یابنی آدم» اور «آیہ لن ترانی» میں بعض اعتقادی اور اخلاقی تفسیری نکات ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

آیات یا بنی آدم

اللہ تعالی نے حضرت آدم اور حوا کا قصہ اور ان کا شیطان سے روبرو ہونے کو بیان کرنے کے بعد چند آیتوں (26، 27-30، 31-34 اور 35) میں انسان کو چار چیزوں کا حکم دیتا ہے جنہیں انسانی سعادت اور ترقی کا ضامن قرار دیا ہے۔ یا آیتیں جو «یا بنی آدم» کی عبارت سے شروع ہوتی ہیں ان کو آدم و حوا کی لغزش کے عوامل سے مربوط قرار دیا ہے اور اسی لئے انسان سے یہ چاہتا ہے کہ ان نکات کی رعایت کرتے ہوئے گمراہی اور سقوط سے محفوظ رہیں۔ اور ان چار اصولوں کو اللہ کا انسان سے باہمی پیمان قرار دیا ہے تقوا کی رعایت، (آیہ 26) شیطان کی پیروی نہ کرنے، (آیہ27-30) زندگی میں درمیانی راستے کا انتخاب اور اسراف و زیادہ روی سے اجتناب (آیہ 31-34) اور انبیاء الہی کے فرامین کی پیروی کرنے (آیہ 35) کے بارے میں ہیں۔[22]

آیات الہی جھٹلانے والوں کا بہشت میں دخول محال ہونا(آیہ 40)

اللہ تعالی نے سورہ اعراف کی آیت 40 میں دو عبارتوں میں آیات الہی کی تکذیب کرنے والوں کا بہشت میں داخل ہونے کو محال قرار دیا ہے:

  • عبارت «لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ یلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیاطِ» متکبر اور لجوج افراد جو آیات الہی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کی عاقبت کے بارے میں بیان کیا ہے۔[23] علامہ طباطبایی نے آیات الہی جھٹلانے والوں پر بہشت کے دروازے بند ہونے کو ان کے اعمال کی عدم قبولیت اور ارواح کا صعود نہ کرنے اور اسی طرح سے بہشت میں داخل نہ ہونے سے تفسیر کیا ہے۔[24] اس آیت میں آسمان، مقام قرب الہی سے کنایہ قرار دیا ہے۔[25]
  • عبارت «حَتَّىٰ یلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیاطِ» کو آیات الہی جھٹلانے والوں کا بہشت میں دخول ناممکن ہونے کی طرف اشارہ قرار دیا ہے تاکہ اس چیز کو احساس کر سکیں اور اس میں کسی قسم کی شک کی گنجائش نہ رہے؛ کیونکہ اونٹ اپنے اس بڑے پیکر کے ساتھ سوئی کے چھوٹے سے سوراخ میں سے گزرنا ناممکن ہے۔[26] اس طرز تخاطب کو محال ہونے پر حمل کیا ہے؛ اور عرب میں جب کوئی کام ناممکن ہوتا تو اس طرح سے مثال دیتے تھے۔[27]

تکلیف ما لایطاق کی ممنوعیت (آیہ 42)

تکلیف مالایطاق ایک کلامی بحث ہے جس میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ امامیہ اور معتزلہ جو تکلیف مالایطاق کے مخالف ہیں، انہوں نے اس کی دلائل میں سے ایک سورہ اعراف کی 42ویں آیت قرار دیا ہے۔ اس آیت کے مطابق اللہ تعالی نے ہر شخص کو اس کی توانائی اور طاقت کے مطابق حکم دیا ہے۔[28]

خوف و رجا (آیہ 56)

قرآن مجید کی مختلف آیات میں خوف اور رجا دونوں کا ایک ساتھ حکم ہوا ہے؛ انہی آیات میں سے ایک سورہ اعراف کی 56ویں آیت ہے جس میں یہ حکم مکرر آیا ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے خوف بھی ہو اور اس کے عفو اور بخشش کی لالچ اور طمع بھی ہو۔

لن ترانی (آیہ 143)

یہ آیت بنی اسرائیل کی نمایندگی میں حضرت موسی کا اللہ کی دیدار کی درخواست اور اللہ کی طرف سے درخواست کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔[29] حضرت موسی کا اللہ کی دیدار کا تقاضیا اور «لن ترانی» کے بارے میں مفسروں نے کلامی اور تفسیر بہت بحث کی ہے۔ تفسیر نمونہ میں مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ حضرت موسی کو اس بات کا علم تھا کہ اللہ کی دیدار ناممکن ہے اور اس کے باوجود درخواست کرنے کی علت یہ ہے کہ آپ بنی اسرائیل کی نمایندگی میں یہ درخواست کر رہے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے اپنے ایمان کو اللہ کی دیدار سے مربوط کیا تھا۔ انہوں نے امام رضاؑ کی ایک روایت سے مستند کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت موسی ایسی درخواست کرنے پر اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے تاکہ لوگ اللہ کا جواب سن سکیں[30]

علامہ طباطبایی نے تفسیر المیزان میں دیدار کی درخواست کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد بصری اور آنکھ سے دیدار کرنا مراد نہیں جو حضرت موسی جیسے اولوالعزم نبی کی شان میں نہیں ہے؛ آپ حضرت موسی کی درخواست کو علم کے سب سے اعلی اور واضح اور یقینی مرحلہ سمجھتے ہیں اور رؤیت کی تعبیر بھی زیادہ واضح اور آشکار ہونے کے لیے مبالغہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ علامہ طباطبائی، انسان کے پاس موجود معلومات جن کے بارے میں سوچ بچار کی ضرورت نہیں، ان پر بھی رؤیت کا اطلاق کرتے ہیں۔[31]

مشہور آیات

اصحاب اعراف کے بارے میں 46ویں آیت، حضرت موسیؑ کا اللہ سے میقات کے بارے میں 142ویں آیت، اور آیہ میثاق 172ویں آیت سورہ اعراف کی مشہور آیات میں سے ہیں۔

آیہ ۴۳

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِی هَدَانَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِی لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّـهُ (ترجمہ: ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا)[؟–43]
اللہ تعالی نے یہ قول ان بہشتیوں کی زبانی بیان کیا ہے جن کے دل میں ایک دوسرے کے لئے کسی قسم کا بغض و کینہ نہیں ہے اور ان کے درمیان صلح و محبت قائم ہے اور پانی سے لبریز بہشتی نہروں کے کنارے رہتے ہیں۔[32] یہ بات حقیقت میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ہے اور اسی وجہ سے مشہور بھی ہے۔[33]

آیہ اصحاب اعراف (۴۶)

«وَبَینَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَ‌افِ رِ‌جَالٌ یعْرِ‌فُونَ كُلًّا بِسِیمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَیكُمْ ۚ لَمْ یدْخُلُوهَا وَهُمْ یطْمَعُونَ (ترجمہ: اور ان دونوں (بہشت و دوزخ) کے درمیان پردہ ہے (حدِ فاصل ہے) اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچان لیں گے۔ اور وہ بہشت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلام ہو اور یہ لوگ (ابھی) اس میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ حالانکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں گے۔)[؟–46]
اعراف، بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ قرار دیا ہے۔[34] اس آیت میں ان انسانوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو اعراف کے اوپر واقع ہیں اور بہشتیوں اور دوزخیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔[35]

اعراف کے مصادیق کے بارے میں اہل سنت اور شیعوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کا کہنا ہے کہ اعراف وہ لوگ ہیں جن کے گناہ اور نیک اعمال برابر ہیں؛ لیکن شیعہ اکثر علما نے قرآنی آیات اور روایات سے استناد کرتے ہوئے قائل ہیں کہ اصحاب اعراف، انبیاءؑ اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔[36] بعض نے اصحاب اعراف کو وہ فرشتے قرار دیا ہے جو اعراف کے اوپر ہر شخص پر ناظر ہیں اور ان کو شکل سے پہچانتے ہیں۔[37]

آیہ سخرہ

«إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (ترجمہ: بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش کی جانب متوجہ ہوا (اور کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض ہوا) جو رات سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے۔ کہ اسے تیزی کے ساتھ جا پکڑتی ہے۔ اور جس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ کہ وہ سب طبعی طور پر اس کے حکم کے تابع ہیں خبردار! پیدا کرنا اور حکم دینا اس سے مخصوص ہے۔ بابرکت ہے اللہ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔)[؟–54]
[38] اس آیت میں ہر چیز اللہ کے ارادے کے ماتحت مسخر ہونے کا ذکر ہے اسی لئے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔[39] احادیث میں اس آیت کی خواص میں؛ سکون قلب، وسوسہ سے دوری، ساحروں اور شیاطین سے امان ذکر ہوئی ہیں۔[40] اس آیت کو فجر کی نماز کے بعد، حاجیوں کا عرفات میں پہنچتے وقت اور مسجد میں داخل ہوتے ہوئے پڑھنا مستحب ہے۔[41]

آیہ نزول برکات (96)

<«وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَ‌ىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیهِم بَرَ‌كَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا یكْسِبُونَ (ترجمہ: اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا۔ لہٰذا ہم نے ان کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔)[؟–96][42]
سورہ اعراف کی 96ویں آیت گذشتہ آیات کا نچوڑ ہے جو بعض اقوام، جیسے؛ قوم ہود، صالح، شعیب اور قوم نوح کی تاریخ کے بارے میں تھیں۔[43] اس آیت میں واضح الفاظ میں زمین و آسمان کے برکات کا نزول اور اللہ کے غضب کی دوری کو تقوی اور پرہیزگاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[44] علامہ طباطبایی نے برکات کے نزول کو بعض لوگوں کا ایمان اور تقوی نہیں بلکہ تمام لوگوں کے ایمان و تقوی کا نتیجہ قرار دیا ہے؛ کیونکہ معاشرے کے اکثر افراد کا فسق اور کفر چند محدود لوگوں کے ایمان اور تقوی کے مقابلے میں اپنا اثر دکھائے گا۔[45]

آیہ وواعدنا موسی (142)

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِینَ لَیلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ‌ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَ‌بِّهِ أَرْ‌بَعِینَ لَیلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِیهِ هَارُ‌ونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ (ترجمہ: اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا۔ لہٰذا ہم نے ان کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔)[؟–96][46]
آیت 142 اور اس کے بعد والی آیات میں بنی اسرائیل کے زندگی کے چند واقعات اور انکا حضرت موسی سے تنازعات کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔[47] اس آیت میں حضرت موسی کا میقات پر جانا، وحی کے ذریعے تورات کے احکام حاصل کرنا، اللہ تعالی سے گفتگو،ان واقعات کو مشاہدہ کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے بعض بزرگوں لانا، نیز اللہ تعالی کو آنکھ کے ذریعے دیکھنا ناممکن ہونے کو ثابت کرنا اور اس کے نتیجے میں گوسالہ (بچھڑا) کی پرستش اور توحید سے منحرف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[48] سورہ اعراف کی 142ویں آیت کو ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں نماز مغرب اور عشا کے درمیان پڑھی جانے والی نماز کی ہر رکعت میں سوره حمد اور سوره توحید کے بعد پڑھی جاتی ہے؛[49] اسی وجہ سے یہ آیت قرآن مجید کی مشہور آیات میں سے قرار پائی ہے۔

آیہ میثاق (172)

وَإِذْ أَخَذَ رَ‌بُّكَ مِن بَنِی آدَمَ مِن ظُهُورِ‌هِمْ ذُرِّ‌یتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَ‌بِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا یوْمَ الْقِیامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِینَ (ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا (جو نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والی تھی) اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا ہاں بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے (یہ کاروائی اس لئے کی تھی کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔)[؟–96][50]
آیہ میثاق کو آیہ اخذ میثاق[51] اور آیہ ذر[52] بھی کہا گیا ہے؛ کیونکہ اس میں انسانوں سے اللہ تعالی کی ربوبیت[53] یا وحدانیت[54] کے بارے میں لی ہوئی عہد و میثاق[55] کی طرف اشارہ ہے۔ اس آیت میں حضرت محمدؐ سے تقاضا ہوا ہے کہ وہ انسانوں کو اس میثاق کی یاد دلائے کہ صرف اللہ تعالی ہی کو اپنا پروردگار جانیں اسی بنا پر قیامت کے دن ان سے کسی قسم کی عذر قبول نہیں ہوگی اور یہ میثاق اس کو لوٹ آنے کے اسباب فراہم کرسکے۔[56]اس عہد کو عہد الست یا پیمان الست اور جس عالَم میں یہ پیمان واقع ہوا ہے اسے عالم ذر کہا جاتا ہے۔[57] آیہ میثاق کا ہدف، اللہ کے بندوں پر اتمام حجت کرنا ہے۔[58] اس عہد و پیمان کے ہوتے ہوئے انسان، درونی عامل، جیسے غفلت[59] یا بیرونی عامل؛ معاشرے کا اثر اور گذشتگان کی پیروی کو [60] بہانہ بناکر اپنے پروردگار کو نہیں بھول سکتے ہیں؛ لہذا قیامت کے دن اللہ تعالی اسی ابتدائی میثاق کو استناد قرار دیتے ہوئے اس سے سوال کرے گا۔[61]

آیات الاحکام

فقہا نے فقہی احکام کے استنباط کے لئے سورہ اعراف کی بعض آیات سے استفادہ کیا ہے جن میں سے اکثر نماز کے بارے میں ہیں۔ جن آیات کو احکام کے استنباط کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے انہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔[62] ذیل میں سورہ اعراف کی بعض آیات الاحکام کی طرف اشارہ ہوا ہے:

آیت نمبر آیہ باب موضوع
۲۶ یا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیكُمْ لِبَاسًا یوَارِ‌ی سَوْآتِكُمْ وَرِ‌یشًا لباس اور حجاب ستر عورت کا وجود
۲۹ ...وَأَقِیمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ... نماز نماز کو قبلہ رُخ ہوکر پڑھنا
۳۱ یا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ نماز نماز کے دوران ستر عورت اور مسجد میں حضور
۱۹۹ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِینَ امر بالمعروف و نہی عن المنکر امر بالمعروف کا وجود
۲۰۴ وَإِذَا قُرِ‌ئَ الْقُرْ‌آنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ... نماز نماز جماعت کے دوران خاموش رہنا اور امام جماعت کی قرائت سننا۔

فضیلت

سورہ اعراف کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے: جو بھی سورہ اعراف کی تلاوفت کرے گا؛ اللہ تعالی وہ اور ابلیس کے درمیان ایک مانع قرار دے گا اور قیامت کے دن حضرت آدم اس کا شفیع قرار دے گا۔[63] امام صادقؑ سے بھی منقول ہے: جو شخص ہر مہینے سورہ اعراف کی تلاوت کرتا ہے قیامت کے دن ان لوگوں میں شمار ہوگا جن کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن۔[64]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: فضائل سور


متن اور ترجمہ

سورہ اعراف
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

المص ﴿1﴾ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿2﴾ اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿3﴾ وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَآئِلُونَ ﴿4﴾ فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا إِلاَّ أَن قَالُواْ إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿5﴾ فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ ﴿6﴾ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ ﴿7﴾ وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿8﴾ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يِظْلِمُونَ ﴿9﴾ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَ ﴿10﴾ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿11﴾ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿12﴾ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴿13﴾ قَالَ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿14﴾ قَالَ إِنَّكَ مِنَ المُنظَرِينَ ﴿15﴾ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿16﴾ ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴿17﴾ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْؤُومًا مَّدْحُورًا لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لأَمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿18﴾ وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلاَ مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿19﴾ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْءَاتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿20﴾ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿21﴾ فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَآنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿22﴾ قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿23﴾ قَالَ اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ﴿24﴾ قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ ﴿25﴾ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ﴿26﴾ يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ ﴿27﴾ وَإِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءنَا وَاللّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء أَتَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿28﴾ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿29﴾ فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿30﴾ يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿31﴾ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿32﴾ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿33﴾ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ لاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ ﴿34﴾ يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿35﴾ وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا أُوْلََئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿36﴾ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ أُوْلَئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ حَتَّى إِذَا جَاءتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُواْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قَالُواْ ضَلُّواْ عَنَّا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ ﴿37﴾ قَالَ ادْخُلُواْ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّن الْجِنِّ وَالإِنسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِن لاَّ تَعْلَمُونَ ﴿38﴾ وَقَالَتْ أُولاَهُمْ لأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ﴿39﴾ إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ ﴿40﴾ لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ﴿41﴾ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿42﴾ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللّهُ لَقَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُواْ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿43﴾ وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿44﴾ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالآخِرَةِ كَافِرُونَ ﴿45﴾ وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ ﴿46﴾ وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿47﴾ وَنَادَى أَصْحَابُ الأَعْرَافِ رِجَالاً يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُواْ مَا أَغْنَى عَنكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ ﴿48﴾ أَهَؤُلاء الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لاَ يَنَالُهُمُ اللّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ لاَ خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿49﴾ وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿50﴾ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿51﴾ وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿52﴾ هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاء فَيَشْفَعُواْ لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ ﴿53﴾ إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿54﴾ ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿55﴾ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿56﴾ وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْموْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿57﴾ وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لاَ يَخْرُجُ إِلاَّ نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ ﴿58﴾ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿59﴾ قَالَ الْمَلأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ﴿60﴾ قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلاَلَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿61﴾ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿62﴾ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُواْ وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿63﴾ فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْماً عَمِينَ ﴿64﴾ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُوداً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ﴿65﴾ قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وِإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿66﴾ قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿67﴾ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالاتِ رَبِّي وَأَنَاْ لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ﴿68﴾ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَاذكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُواْ آلاء اللّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿69﴾ قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿70﴾ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَآؤكُم مَّا نَزَّلَ اللّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ فَانتَظِرُواْ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ﴿71﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُواْ مُؤْمِنِينَ ﴿72﴾ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوَءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿73﴾ وَاذْكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُواْ آلاء اللّهِ وَلاَ تَعْثَوْا فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿74﴾ قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿75﴾ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِيَ آمَنتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ﴿76﴾ فَعَقَرُواْ النَّاقَةَ وَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُواْ يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿77﴾ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ ﴿78﴾ فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ ﴿79﴾ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّن الْعَالَمِينَ ﴿80﴾ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ﴿81﴾ وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلاَّ أَن قَالُواْ أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴿82﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلاَّ امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ﴿83﴾ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ ﴿84﴾ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿85﴾ وَلاَ تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا وَاذْكُرُواْ إِذْ كُنتُمْ قَلِيلاً فَكَثَّرَكُمْ وَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿86﴾ وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُواْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يْؤْمِنُواْ فَاصْبِرُواْ حَتَّى يَحْكُمَ اللّهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ﴿87﴾ قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ ﴿88﴾ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّهُ مِنْهَا وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلاَّ أَن يَشَاء اللّهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ ﴿89﴾ وَقَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْباً إِنَّكُمْ إِذاً لَّخَاسِرُونَ ﴿90﴾ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ ﴿91﴾ الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَانُواْ هُمُ الْخَاسِرِينَ ﴿92﴾ فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ ﴿93﴾ وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلاَّ أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ ﴿94﴾ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّى عَفَواْ وَّقَالُواْ قَدْ مَسَّ آبَاءنَا الضَّرَّاء وَالسَّرَّاء فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ ﴿95﴾ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ﴿96﴾ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتاً وَهُمْ نَآئِمُونَ ﴿97﴾ أَوَ أَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿98﴾ أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ ﴿99﴾ أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاء أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ ﴿100﴾ تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَآئِهَا وَلَقَدْ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ مِن قَبْلُ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللّهُ عَلَىَ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ ﴿101﴾ وَمَا وَجَدْنَا لأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ ﴿102﴾ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُواْ بِهَا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿103﴾ وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿104﴾ حَقِيقٌ عَلَى أَن لاَّ أَقُولَ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿105﴾ قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿106﴾ فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿107﴾ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاء لِلنَّاظِرِينَ ﴿108﴾ قَالَ الْمَلأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ ﴿109﴾ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴿110﴾ قَالُواْ أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَآئِنِ حَاشِرِينَ ﴿111﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿112﴾ وَجَاء السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالْواْ إِنَّ لَنَا لأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴿113﴾ قَالَ نَعَمْ وَإَنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿114﴾ قَالُواْ يَا مُوسَى إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿115﴾ قَالَ أَلْقُوْاْ فَلَمَّا أَلْقَوْاْ سَحَرُواْ أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴿116﴾ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿117﴾ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴿118﴾ فَغُلِبُواْ هُنَالِكَ وَانقَلَبُواْ صَاغِرِينَ ﴿119﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿120﴾ قَالُواْ آمَنَّا بِرِبِّ الْعَالَمِينَ ﴿121﴾ رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ ﴿122﴾ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَن آذَنَ لَكُمْ إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُواْ مِنْهَا أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿123﴾ لأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلاَفٍ ثُمَّ لأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿124﴾ قَالُواْ إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ﴿125﴾ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿126﴾ وَقَالَ الْمَلأُ مِن قَوْمِ فِرْعَونَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ﴿127﴾ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللّهِ وَاصْبِرُواْ إِنَّ الأَرْضَ لِلّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿128﴾ قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴿129﴾ وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَونَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّن الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ﴿130﴾ فَإِذَا جَاءتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ أَلا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللّهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿131﴾ وَقَالُواْ مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِن آيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ ﴿132﴾ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلاَتٍ فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴿133﴾ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُواْ يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَآئِيلَ ﴿134﴾ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ ﴿135﴾ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ ﴿136﴾ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَآئِيلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُواْ يَعْرِشُونَ ﴿137﴾ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَآئِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْاْ عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُواْ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿138﴾ إِنَّ هَؤُلاء مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴿139﴾ قَالَ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿140﴾ وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿141﴾ وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿142﴾ وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿143﴾ قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴿144﴾ وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ ﴿145﴾ سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ ﴿146﴾ وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَلِقَاء الآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴿147﴾ وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُ لاَ يُكَلِّمُهُمْ وَلاَ يَهْدِيهِمْ سَبِيلاً اتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَالِمِينَ ﴿148﴾ وَلَمَّا سُقِطَ فَي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿149﴾ وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِيَ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِي فَلاَ تُشْمِتْ بِيَ الأعْدَاء وَلاَ تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿150﴾ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿151﴾ إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ ﴿152﴾ وَالَّذِينَ عَمِلُواْ السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِهَا وَآمَنُواْ إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿153﴾ وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ ﴿154﴾ وَاخْتَارَ مُوسَى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلاً لِّمِيقَاتِنَا فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاء مِنَّا إِنْ هِيَ إِلاَّ فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاء وَتَهْدِي مَن تَشَاء أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴿155﴾ وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاء وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿156﴾ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿157﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿158﴾ وَمِن قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿159﴾ وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿160﴾ وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُواْ حِطَّةٌ وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ﴿161﴾ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُواْ يَظْلِمُونَ ﴿162﴾ واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿163﴾ وَإِذَ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُواْ مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿164﴾ فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ ﴿165﴾ فَلَمَّا عَتَوْاْ عَن مَّا نُهُواْ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴿166﴾ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿167﴾ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَمًا مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿168﴾ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مُّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لاَّ يِقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ وَدَرَسُواْ مَا فِيهِ وَالدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ﴿169﴾ وَالَّذِينَ يُمَسَّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ ﴿170﴾ وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُواْ مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿171﴾ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ ﴿172﴾ أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿173﴾ وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿174﴾ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿175﴾ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿176﴾ سَاء مَثَلاً الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُواْ يَظْلِمُونَ ﴿177﴾ مَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَن يُضْلِلْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿178﴾ وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ﴿179﴾ وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُواْ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَآئِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴿180﴾ وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿181﴾ وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿182﴾ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ ﴿183﴾ أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴿184﴾ أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ﴿185﴾ مَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿186﴾ يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لاَ يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿187﴾ قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿188﴾ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحاً لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿189﴾ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿190﴾ أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿191﴾ وَلاَ يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلاَ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿192﴾ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لاَ يَتَّبِعُوكُمْ سَوَاء عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ ﴿193﴾ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿194﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُواْ شُرَكَاءكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلاَ تُنظِرُونِ ﴿195﴾ إِنَّ وَلِيِّيَ اللّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ﴿196﴾ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ ﴿197﴾ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لاَ يَسْمَعُواْ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ ﴿198﴾ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿199﴾ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿200﴾ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ﴿201﴾ وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ ﴿202﴾ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿203﴾ وَإِذَا قُرِىءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿204﴾ وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ ﴿205﴾ إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ ﴿206﴾۔

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الف، لام، میم، ص۔(1) یہ ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔لہٰذا تمہارے دل میں اس کی وجہ سے کوئی تنگی نہیں ہونا چاہیے۔(یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے) تاکہ آپ اس کے ذریعہ سے (لوگوں کو خدا کے عذاب سے) ڈرائیں اور اہلِ ایمان کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہو۔(2) (اے لوگو) جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔اور اس (پروردگار) کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں (حوالی موالی) کی پیروی نہ کرو۔تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔(3) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا پس ہمارا عذاب ان پر راتوں رات آیا یا جب وہ دن میں قیلولہ کر رہے تھے (سو رہے تھے)۔(4) جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو اس کے سوا ان کی اور کوئی پکار نہ تھی کہ بے شک ہم ظالم تھے۔(5) بے شک ہم ان لوگوں سے بھی باز پرس کریں گے۔جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے۔اور خود رسولوں سے بھی پوچھ گچھ کریں گے۔(6) پھر ہم پورے علم کے ساتھ ان کے سامنے سب (حالات و واقعات) بیان کریں گے آخر ہم غیر حاضر تو تھے نہیں۔(7) اور اس دن وزن (اعمال کا تولا جانا) بالکل حق ہے پس جس کے پلے بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے۔(8) اور جس کے پلے ہلکے ہوں گے۔وہ اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ناانصافی کرتے تھے۔(9) اور ہم نے تمہیں زمین میں تمکین دی (اقتدار و اختیار دیا) اور اس میں تمہارے لئے زندگی گزارنے کے سامان فراہم کئے۔مگر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔(10) بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا اور پھر تمہاری صورت گری کی اس کے بعد فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔(11) (خدا نے) فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو تجھے کس چیز نے روکا؟ کہا میں اس (آدمؑ) سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔(12) ارشاد ہوا۔تو پھر تو یہاں سے نیچے اتر جا۔کیونکہ تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو یہاں رہ کر تکبر و غرور کرے۔بس یہاں سے نکل جا۔یقینا تو ذلیلوں میں سے ہے۔(13) کہا۔مجھے اس دن تک مہلت دے جب سب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔(14) فرمایا: اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے۔(15) کہا چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو اب میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھوں گا۔(16) پھر میں ان کے آگے کی طرف سے اور ان کے پیچھے کی جانب سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا (اور انہیں ورغلاؤں گا) اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔(17) فرمایا: ذلیل اور راندہ ہوکر یہاں سے نکل جا میں تجھے اور اسے جو ان میں سے تیری پیروی کرے گا تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔(18) اور اے آدمؑ! تم اور تمہاری بیوی دونوں اس بہشت میں رہو۔اور جہاں سے چاہو (اور جو چیز دل چاہے) کھاؤ۔مگر اس درخت کے پاس نہ جانا۔ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤگے۔(19) تو شیطان نے جھوٹی قسم کھا کر ان دونوں کو وسوسہ میں ڈالا۔تاکہ ان کے وہ ستر والے مقام جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھے ظاہر کر دے اور کہا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں صرف اس لئے اس درخت سے روکا ہے کہ کہیں فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔(20) اور اس نے دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہارے سچے خیرخواہوں میں سے ہوں۔(21) اس طرح اس نے ان دونوں کو فریب سے مائل کر دیا (اور اس طرح جنت) کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں تک پہنچا دیا۔پس جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا۔تو ان کے جسم کے چھپے ہوئے حصے نمودار ہوگئے اور وہ جنت کے پتوں کو جوڑ کر اپنے یہ مقام (ستر) چھپانے لگے تب ان کے پروردگار نے ان کو ندا دی۔کیا میں نے تمہیں اس درخت کے پاس جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔(22) اس وقت ان دونوں نے کہا۔اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔اور اگر تو درگزر نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔(23) ارشاد ہوا! تم دونوں (بہشت سے) نیچے اترو۔تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت معلوم تک تمہارا زمین میں ہی ٹھکانہ اور سامانِ زیست ہے۔(24) (یہ بھی فرمایا) اسی زمین میں تم نے جینا ہے اور وہیں مرنا ہے اور پھر اسی سے دوبارہ نکالے جاؤگے۔(25) اے اولادِ آدمؑ! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے قابلِ ستر حصوں کو چھپاتا ہے اور (باعث) زینت بھی ہے۔اور تقویٰ و پرہیزگاری کا لباس یہ سب سے بہتر ہے یہ (لباس بھی) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔(26) اے اولادِ آدم! (ہوشیار رہنا) کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا۔اور ان کے جسم سے کپڑے تک اتروا دیئے تھے تاکہ ان کے جسم کے قابلِ ستر حصے ان کو دکھا دے یقینا وہ (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمہیں جس طرح اور جہاں سے دیکھتا ہے تم انہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتے بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔(27) اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور خدا نے (بھی) ہمیں یہی حکم دیا ہے اے رسول کہیئے کہ یقینا کبھی اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ پر ایسی بات کی تہمت لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے؟ (28) اے رسولؑ کہو! میرے پروردگار نے مجھے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ اپنے چہرہ کو سیدھ پر رکھو ہر نماز کے وقت اور اسی کو پکارو دین کو اسی کے لئے خالص کرکے جس طرح اس نے پہلی بار تمہیں پیدا کیا تھا اسی طرح تم (اس کے حضور پلٹ) کر جاؤگے۔(29) ایک گروہ کو تو اس نے ہدایت دے دی ہے اور ایک گروہ پر گمراہی ثبت ہوگئی ہے۔انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور پھر وہ (اپنے متعلق) خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔(30) اے اولادِ آدم! ہر نماز کے وقت زینت کرو اور کھاؤ پیو۔اور اسراف (فضول خرچی) نہ کرو۔کیونکہ وہ بے شک اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔(31) (اے رسول ان لوگوں سے) کہو کہ اللہ کی زیب و زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہے کس نے حرام کیا ہے؟ اور کھانے کی اچھی اور پاکیزہ غذاؤں کو (کس نے حرام کیا ہے؟)! وہ تو دراصل ہیں ہی اہلِ ایمان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور خاص کر قیامت کے دن تو خالص انہی کے لئے ہیں۔اسی طرح ہم اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔(32) تم کہہ دو! میرے پروردگار نے صرف بے حیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے خواہ ظاہری ہوں یا باطنی۔اور اثم (ہر گناہ یا شراب) کو اور کسی پر ناحق زیادتی کو اور یہ کہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جس کا تمہیں علم و یقین نہ ہو۔(33) اور ہر امت (قوم) کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔پس جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو نہ وہ ایک ساعت کے لیے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ایک ساعت آگے بڑھ سکتے ہیں۔(34) اے اولادِ آدم اگر تمہارے پاس تم ہی سے میرے کچھ رسول آئیں جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں (اور میرے احکام تم تک پہنچائیں) تو جو شخص پرہیزگاری اختیار کرے گا۔اور اپنی اصلاح کرے گا۔ان کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(35) اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں تکبر کریں گے وہی لوگ جہنم والے ہوں گے جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(36) اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے (خود جھوٹی باتیں گھڑ کر اس کی طرف منسوب کرے) یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے، ایسے لوگوں کو نوشتۂ کتاب (اپنے مقدر) کا حصہ تو ملے گا۔لیکن جب ان کے پاس ہمارے فرستادہ (فرشتے) ان کی روحوں کو قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو وہ ان سے کہیں گے۔(آج) وہ کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ وہ تو ہم سے غائب ہوگئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ بے شک وہ کافر تھے۔(37) ارشاد ہوگا تم بھی اسی جہنم میں داخل ہو جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے جن و انس کے گروہ داخل ہو چکے ہیں (اور) جب بھی کوئی (جہنم میں) داخل ہوگا تو اپنے ساتھ (پیش رو) گروہ پر لعنت کرے گا۔یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے (سب واصلِ جہنم ہو جائیں گے) تو بعد والا گروہ پہلے گروہ کے بارے میں کہے گا اے پروردگار! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا اس لئے انہیں دوزخ کا دوگنا عذاب دے۔ارشاد ہوگا ہر ایک کے لئے دونا عذاب ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔(38) اور ان کا پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا۔کہ (اگر ہم مستوجبِ الزام تھے) تو پھر تم کو ہم پر کوئی فضیلت تو نہ ہوئی؟ بس (ہماری طرح) تم بھی اپنے کئے کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔(39) یقینا جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر و غرور کیا۔ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔اور اس وقت تک وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہیں گزر جائے گا ہم اسی طرح مجرموں کو بدلہ دیا کرتے تھے۔(40) ان کا بچھونا بھی جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی جہنم کا ہم اسی طرح ظالموں کو بدلہ دیتے ہیں۔(41) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے یہی لوگ جنتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(42) اور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔جو تم انجام دیا کرتے تھے۔(43) اور جنتی لوگ دوزخیوں کو ندا دیں گے کہ ہمارے پروردگار نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے تو سچا پا لیا ہے کیا تم نے بھی اس وعدہ کو جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا سچا پایا ہے؟ وہ (جواب میں) کہیں گے ہاں تب ایک منادی ان کے درمیان ندا کرے گا کہ خدا کی لعنت ان ظالموں پر۔(44) جو اللہ کے راہ سے (لوگوں کو) روکتے رہے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے رہے ہیں۔اور وہ آخرت کا انکار کرتے رہے ہیں۔(45) اور ان دونوں (بہشت و دوزخ) کے درمیان پردہ ہے (حدِ فاصل ہے) اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچان لیں گے۔اور وہ بہشت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلام ہو اور یہ لوگ (ابھی) اس میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔حالانکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں گے۔(46) اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔(47) اور پھر اعراف والے لوگ (دوزخ والے چند آدمیوں کو) آواز دیں گے جنہیں وہ علامتوں سے پہچانتے ہوں گے۔کہ آج تمہاری جمعیت اور تمہارا غرور و پندار کچھ کام نہ آیا اور تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔(48) (پھر کچھ مستحقین جنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہیں گے) کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اللہ ان تک اپنی کچھ بھی رحمت نہیں پہنچائے گا۔(پھر ان مستحقین جنت سے کہیں گے) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ۔نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم مغموم ہوگے۔(49) اور دوزخ والے بہشت والوں کو پکاریں گے کہ تھوڑا سا پانی یا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھانے کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ ہماری طرف انڈیل دو وہ (جواب میں) کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔(50) جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا لیا تھا اور جنہیں زندگانئ دنیا نے دھوکہ دیا تھا آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح انہوں نے آج کے اس دن کی حاضری کو بھلا دیا تھا۔اور جیسے وہ ہماری آیتوں کو برابر جھٹلاتے رہے تھے۔(51) اور بے شک ہم ان کے پاس ایک ایسی کتاب لائے ہیں جسے ہم نے پورے علم کے ساتھ خوب واضح کر دیا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لئے برابر ہدایت و رحمت ہے۔(52) کیا یہ لوگ اس (قرآن کی دھمکی) کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں؟ (کہ سامنے آئے) حالانکہ جس دن اس کا انجام (سامنے) آئے گا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اس کو بھلایا ہوگا کہیں گے بے شک ہمارے پروردگار کے رسول ہمارے پاس سچائی کے ساتھ آئے تھے تو کیا آج ہمارے لئے کچھ سفارشی ہیں؟ جو ہماری سفارش کریں یا (یہ ممکن ہے کہ) ہمیں دوبارہ واپس بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم (پہلے) کیا کرتے تھے اس کے خلاف کچھ اور (نیک عمل) کریں؟ یقینا انہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور وہ افترا پردازیاں جو وہ کیا کرتے تھے آج ان سے گم ہوگئیں۔(53) بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔پھر عرش کی جانب متوجہ ہوا (اور کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض ہوا) جو رات سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے۔کہ اسے تیزی کے ساتھ جا پکڑتی ہے۔اور جس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔کہ وہ سب طبعی طور پر اس کے حکم کے تابع ہیں خبردار! پیدا کرنا اور حکم دینا اس سے مخصوص ہے۔بابرکت ہے اللہ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔(54) اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرو۔بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔(55) اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔اور خدا سے خوف اور امید کے ساتھ دعا کرو۔بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں سے قریب ہے۔(56) وہ وہی (خدا) ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری کے لئے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ بستی کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں اور پھر وہاں پانی برسا دیتے ہیں۔اور پھر ہم اس کے ذریعہ سے طرح طرح کے پھل نکالتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو (بھی زندہ کرکے) باہر نکالیں گے شاید کہ تم عبرت اور نصیحت حاصل کرو۔(57) اور جو زمین عمدہ و پاکیزہ ہوتی ہے خدا کے حکم سے اس کی نبات (پیداوار) خوب نکلتی ہے اور جو خراب اور ناکارہ ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی خراب اور بہت کم نکلتی ہے ہم اسی طرح شکر گزار قوم کے لیے اپنی نشانیاں الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں۔(58) ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا۔تو انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی اللہ نہیں ہے۔یقینا مجھے تمہاری نسبت ایک بڑے سخت دن (قیامت) کے عذاب کا اندیشہ ہے۔(59) ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔ہم تو تم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔(60) نوح نے کہا اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں تو سارے جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(61) تمہیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں (اور تمہاری خیر خواہی کے لیے) تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔(62) کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس وعظ و نصیحت کا پیغام آیا ہے۔تاکہ وہ تمہیں (خدا کے عذاب سے) ڈرائے! اور تاکہ تم پرہیزگار بنو۔اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(63) (مگر) ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا۔(جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ہم نے انہیں اور جو کشتی میں ان کے ساتھ تھے ان کو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کر دیا بے شک وہ اندھے (بے بصیرت) لوگ تھے۔(64) اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہود کو بھیجا۔انہوں نے کہا! اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔آخر تم پرہیزگاری کیوں اختیار نہیں کرتے؟ (65) ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہم تمہیں حماقت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔(66) ہود نے کہا! اے میری قوم، مجھ میں کوئی حماقت نہیں ہے بلکہ میں تو سارے جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(67) تمہارے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔اور تمہارا امانتدار ناصح ہوں۔(68) کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس وعظ و نصیحت کا پیغام آیا ہے تاکہ وہ تمہیں (خدا کے عذاب سے) ڈرائے اور یاد کرو (خدا کے اس احسان کو) کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا۔اور (تمہاری) خلقت میں یعنی قوت و طاقت اور قد و قامت میں زیادتی اور وسعت عطا کی پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم (ہر طرح) فلاح پاؤ۔(69) انہوں نے کہا (اے ہود ؑ) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے چلے آئے ہیں اگر تم سچے ہو تو۔ہمارے پاس لاؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔(70) اس (ہود) نے کہا (سمجھ لو کہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب نازل ہوگیا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (از خود) رکھ لئے ہیں۔جن کے متعلق اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔اچھا تو پھر تم (خدا کے عذاب کا) انتظار کرو مَیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔(71) پس (آخرکار) ہم نے اپنی رحمت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی (بچا لیا) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہیں تھے ان کی جڑ ہی کاٹ دی۔(72) اور قومِ ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح کو بھیجا۔انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے پروردگار کی طرف سے (میری صداقت کا) ایک خاص معجزہ آچکا ہے جو یہ اللہ کی خاص اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک (قدرتی) نشانی (معجزہ) ہے اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چَرتی پھرے۔اور (خبردار) اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا (اسے تکلیف نہ پہنچانا) ورنہ دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔(73) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قومِ عاد کا جانشین بنایا۔اور تمہیں زمین میں رہنے کے لئے ٹھکانا دیا کہ تم نرم اور ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔اور زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو۔(74) قوم کے بڑے لوگوں نے جو متکبر تھے۔ان کمزور لوگوں سے کہا جو ایمان لائے تھے۔کیا تم جانتے ہو صالح واقعی اپنے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں انہوں نے کہا بے شک ہم تو اس (پیغام) پر ایمان لائے جسے دے کر ان کو بھیجا گیا ہے۔(75) (یہ سن کر) متکبر مزاج بڑے کہنے لگے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے کافر و منکر ہیں۔(76) پھر انہوں نے اس اونٹنی کو پئے کر دیا (اس کی کونچیں کاٹ دیں) اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی و سرتابی کی اور کہا اے صالح! اگر تم رسولوں میں سے ہو تو پھر ہمارے پاس لاؤ وہ (عذاب) جس کی ہمیں دھمکی دیتے ہو۔(77) پس انہیں زلزلہ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔(78) پس وہ (صالح) یہ کہتے ہوئے وہاں سے منہ موڑ کر نکل گئے اے میری قوم! میں نے تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تم کو نصیحت کی مگر تم نصیحت کرنے والے خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔(79) اور ہم نے لوط کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسا بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ ایسا کام تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔(80) یعنی تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو؟ تم بڑے حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو۔(81) ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے کہ انہیں اس بستی سے نکال دو۔یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔(82) تو ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سوا ان کی بیوی کے نجات دی (بچا لیا) ہاں البتہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔(83) اور ہم نے ان پر (پتھروں) کی بارش برسائی تو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا؟ (84) اور ہم نے مدین کی طرف ان کے (قومی) بھائی شعیب کو بھیجا۔انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو۔اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔یقینا تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلا نشان بھی آچکا ہے۔پس ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی (خرید کردہ) چیزیں کم نہ دیا کرو۔اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو۔(85) اور ہر راستے پر اس طرح نہ بیٹھو کہ تم (راہ گیروں) کو ڈراؤ دھمکاؤ اور ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے روکو۔اور اس راہ میں کجی تلاش کرو۔اور وہ وقت یاد کرو۔جب تم تھوڑے تھے تو اس (خدا) نے تمہیں بڑھا دیا اور دیکھو کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوتا رہا ہے۔(86) اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس پر ایمان نہیں لایا تو صبر کرو۔یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(87) اور ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا۔اے شعیب ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم لوگ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ۔شعیب نے کہا اگرچہ ہم اسے ناپسند ہی کرتے ہوں؟ (88) جب اللہ نے ہمیں تمہارے مذہب سے نجات دے دی ہے۔اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے مذہب میں واپس آجائیں تو پھر تو ہم نے اللہ پر جھوٹا بہتان باندھا۔اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ جو ہمارا پروردگار ہے چاہے ہمارا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ہمارا اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔اے ہمارے پروردگار! تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(89) اور ان کی قوم کے ان سرداروں نے جو کافر تھے آپس میں کہا کہ اگر تم شعیب کی پیروی کروگے تو نقصان اٹھاؤگے۔(90) سو زلزلہ نے انہیں آپکڑا جس کے بعد وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔(91) جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہ (اس طرح برباد ہوئے کہ) گویا کبھی ان گھروں میں بستے ہی نہ تھے۔جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی نقصان اٹھانے والے ثابت ہوئے۔(92) (اس وقت) وہ ان سے منہ موڑ کر چلے اور کہا اے میری قوم! میں نے تو یقیناً اپنے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے تھے اور تمہیں نصیحت بھی کی تھی تو (اب) کافر قوم (کے عبرتناک انجام) پر کیونکر افسوس کروں؟ (93) اور ہم نے کبھی کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے باشندوں کو (ان کی تکذیب پر پہلے) سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ تضرع و زاری کریں۔(94) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب بڑھے (اور پھلے پھولے) اور کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی کبھی تکلیف اور کبھی راحت یونہی پہنچتی رہی ہے۔تو ایک دم ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو سکا۔(95) اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔لیکن انہوں نے جھٹلایا۔لہٰذا ہم نے ان کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔(96) آیا ان بستیوں والے اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آجائے جبکہ وہ سو رہے ہوں؟ (97) یا کیا بستیوں والے اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے (چاشت کے وقت) آجائے جبکہ وہ کھیل کود رہے ہوں؟ (98) کیا یہ لوگ اللہ کے عذاب یا اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہوگئے ہیں۔حالانکہ اللہ کے عذاب یا اس کی خفیہ تدبیر سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو گھاٹا اٹھانے والے ہوں۔(99) کیا ان لوگوں پر جو پہلے اہل زمین کی تباہی کے بعد زمین کے وارث بنے ہیں یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کو گناہوں کی وجہ سے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگا دیتے کہ وہ سن (سمجھ) نہ سکیں۔(100) یہ وہ بستیاں ہیں کہ جن کی کچھ خبریں ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں بے شک ان کے پاس ان کے رسول کھلے ہوئے نشان (معجزے) لے کر آئے۔مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ اس بات پر ایمان لاتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے۔اللہ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے۔(101) اور ہم نے ان کی اکثریت میں عہد و پیمان کی پاسداری نہیں پائی اور ہم نے اکثر کو فاسق و فاجر پایا ہے۔(102) پھر ہم نے ان (نبیوں) کے بعد موسیٰ کو اپنی نشانیاں (معجزے) دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔مگر انہوں نے ان (نشانیوں) کے ساتھ ظلم کیا (انکار کر دیا) دیکھو مفسدین کا کیا برا انجام ہوا؟ (103) اور موسیٰ نے کہا اے فرعون میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(104) میرے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہوں میں تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں۔پس تو بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) میرے ساتھ بھیج دے۔(105) فرعون نے کہا اگر تم کوئی معجزہ لائے ہو تو اگر تم سچے ہو تو اسے پیش کرو۔(106) پس انہوں نے اپنا عصا پھینک دیا اور وہ یکایک کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔(107) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا۔تو وہ ایک دم دیکھنے والوں کے لیے سفید اور روشن تھا۔(108) قومِ فرعون کے سرداروں نے (یہ منظر دیکھ کر) کہا کہ یہ شخص (موسیٰ) بڑا ماہر جادوگر ہے۔(109) (اس پر فرعون نے کہا) یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دینا چاہتا ہے تو تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ (110) ان لوگوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے بھائی کو روک رکھیے۔اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے۔(111) جو ہر بڑے ماہر جادوگر کو لے آئیں۔(112) چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو یقینا ہم ایک بڑے معاوضے کے حقدار ہوں گے۔(113) فرعون نے کہا ہاں۔اور اس کے علاوہ تم ہمارے مقرب بارگاہ لوگوں میں سے ہو جاؤگے۔(114) انہوں نے کہا اے موسیٰ یا تم (پہلے) پھینکو یا پھر ہم ہی پھینکتے ہیں۔(115) انہوں نے (جواب میں) کہا تم ہی پھینکو! پھر جب انہوں نے (اپنی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا (ان کی نظر بندی کر دی) اور انہیں خوف زدہ کر دیا اور انہوں نے بڑا زبردست جادو پیش کیا۔(116) ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا پھینکو۔تو یکایک وہ (اژدھا بن کر) ان کے طلسموں (جادو کے جھوٹے سانپوں) کو نگلنے لگا۔(117) (نتیجہ یہ نکلا کہ) حق ثابت ہوگیا۔اور جو جھوٹے کاروائی کر رہے تھے وہ باطل ہوگئی۔(118) اس طرح وہ (فرعون اور فرعونی) مغلوب ہوئے اور ذلیل و رسوا ہوکر رہ گئے۔(119) اور تمام جادوگر (کسی غیبی طاقت سے) سجدہ میں گرا دیئے گئے۔(120) اور کہنے لگے ہم سارے جہانوں کے پروردگار پر ایمان لائے۔(121) جو موسیٰ و ہارون کا پروردگار ہے۔(122) فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے ہو اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش ہے جو تم لوگوں نے کی ہے۔تاکہ تم شہر کے باشندوں کو اس سے باہر نکالو۔عنقریب تمہیں (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا۔(123) میں تمہارے ہاتھ پاؤں کو مختلف سمتوں سے کاٹ دوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔(124) انہوں نے کہا (ہمیں کیا پروا ہے) ہم لوگ بہرحال اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔(125) اور تم ہم سے صرف اس بات کا انتقام لینا چاہتے ہو کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئی ہیں۔(پھر یوں دعا کی) اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے سچے مسلمان (فرمانبردار) ہوں۔(126) قومِ فرعون کے سرداروں نے کہا! تو موسیٰ اور اس کی قوم کے آدمیوں کو اس لئے چھوڑے رکھے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلاتے رہیں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کو چھوڑتے رہیں۔اس (فرعون) نے (چین بجبین ہوکر) کہا ہم عنقریب ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم (پوری طرح) ان پر غالب ہیں۔(127) موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا! تم اللہ سے مدد طلب کرو۔اور صبر و تحمل سے کام لو بے شک زمین اللہ کی ہے۔وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور اچھا انجام تو پرہیزگاروں کا ہی ہے۔(128) ان لوگوں (بنی اسرائیل) نے کہا ہم آپ کے آنے سے پہلے بھی ستائے جاتے رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔انہوں نے کہا! عنقریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنائے گا (تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا) تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ (129) اور ہم نے فرعونیوں کو قحط اور پھلوں کی پیداوار کی کمی میں گرفتار کیا کہ شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔(130) (مگر ان کی حالت یہ تھی کہ) جب خوش حالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے اور جب بدحالی آتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست اور فالِ بد قرار دیتے۔حالانکہ ان کی نحوست اور بدشگونی خدا کے ہاں ہے لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔(131) اور انہوں نے (موسیٰ سے) کہا تم جو بھی نشانی (معجزہ) ہمارے سامنے لے آؤ اور اس سے ہمیں مسحور کرنا چاہو ہم پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔(132) پھر ہم نے بھیجا ان پر عذاب، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کی صورت میں) یہ کھلی ہوئی نشانیاں تھیں مگر وہ پھر بھی تکبر اور سرکشی ہی کرتے رہے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔(133) اور جب کبھی ان پر کوئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا کرو۔جس کا اس نے تم سے وعدہ کر رکھا ہے۔اگر تم نے یہ عذاب ہم سے ٹلوا دیا۔تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔(134) تو جب ہم وہ عذاب ایک مقررہ مدت تک ہٹا دیتے جس تک وہ بہرحال پہنچنے والے تھے۔تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ دیتے۔(135) تب ہم نے ان سے اس طرح انتقام لیا کہ انہیں سمندر میں غرق کر دیا۔کیونکہ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کی طرف سے غفلت برتتے تھے۔(136) اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو وارث (اور مالک) بنایا جن کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔اور وارث بھی اس مشرق و مغرب کا بنایا جس میں ہم نے برکت دی ہے اور اسی طرح آپ کے پروردگار کا وہ اچھا وعدہ پورا ہوگیا جو اس نے بنی اسرائیل سے کیا تھا کیونکہ انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا تھا اور ہم نے اسے مٹا دیا جو کچھ فرعون اور اس کی قوم والے کرتے تھے اور برباد کر دیئے وہ اونچے مکان جو وہ تعمیر کرتے تھے۔(137) اور جب ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے اس پار اتار دیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا جو اپنے (خود ساختہ) معبودوں کی پرستش میں مگن بیٹھی تھی۔انہوں نے کہا اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک الٰہ بنا دیں جیسے ان کے الٰہ ہیں۔موسیٰ نے کہا تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔(138) جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ یقینا تباہ ہو کر رہے گا۔اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ باطل ہوکر رہے گا۔(139) کہا: کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی (اور) خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں تمام جہانوں کی قوموں پر فضیلت دی۔(140) اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات عطا کی۔جو تمہیں بدترین عذاب کا مزہ چکھاتے تھے تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔(141) اور ہم نے موسیٰ سے (توراۃ دینے کے لیے) تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا اور اسے مزید دس (راتوں) سے مکمل کیا۔اس طرح ان کے پروردگار کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوگئی اور جناب موسیٰ نے (کوہ طور پر جاتے وقت) اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میرے جانشین بن کر رہو۔اور اصلاح کرتے رہو اور (خبردار) مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا۔(142) اور جب جنابِ موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آگئے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا۔تو انہوں نے کہا پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کر سکوں۔ارشاد ہوا تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکوگے۔مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو۔اگر یہ (تجلئِ حق کے وقت) اپنی جگہ پر برقرار رہا تو پھر امید کرنا کہ مجھے دیکھ سکوگے پس جب ان کے پروردگار نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر گئے۔اور جب ہوش میں آئے تو بولے پاک ہے تیری ذات! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں (کہ تو نظر نہیں آتا)۔(143) ارشاد ہوا اے موسیٰ میں نے تمہیں اپنی پیغمبری اور ہمکلامی کے لیے تمام لوگوں سے منتخب کیا ہے پس جو چیز (توراۃ) میں نے تمہیں عطا کی ہے اسے لو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔(144) اور ہم نے موسیٰ کے لیے ان تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ہے۔پس اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو لے لیں (اس کے احکام پر کاربند ہو جائیں) میں عنقریب تم لوگوں کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھا دوں گا۔(145) جو لوگ ناحق خدا کی زمین میں سرکشی کرتے ہیں میں اپنی نشانیوں سے ان کی نگاہیں پھرا دوں گا۔وہ اگر ہر معجزہ بھی دیکھ لیں۔تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔اور اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے اپنا راستہ نہیں بنائیں گے۔اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو (فوراً) اسے (اپنا) راستہ بنا لیں گے ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتتے رہے۔(146) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے پس انہیں جزا یا سزا نہیں دی جائے گی مگر انہی اعمال کی جو وہ (دار دنیا میں) کرتے تھے۔(147) اور موسیٰ کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر چلے جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے (ان کو گلا کر) ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا (نہ سوچا) کہ وہ نہ ان سے بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی راہنمائی کر سکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (معبود) بنا لیا اور وہ (اپنے اوپر) سخت ظلم کرنے والے تھے۔(148) پھر جب وہ نادم ہوئے اور کفِ افسوس مَلنے لگے اور محسوس کیا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں۔تو کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔(149) اور جب موسیٰ خشمناک اور افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے۔تو فرمایا: اے قوم! تم نے میرے بعد بہت ہی بری جانشینی کی۔کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کر لی (وعدہ خداوندی چالیس راتوں کے پورا ہونے کی انتظار بھی نہ کی) اور پھر (للہی جوش میں آخر تورات کی) تختیاں (ہاتھ سے) پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کا سر ہاتھ میں لے کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔انہوں نے کہا اے میرے ماں جائے! قوم نے مجھے کمزور اور بے بس کر دیا تھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں پس تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔اور نہ ہی مجھے ظالم گروہ کے ساتھ شامل کرو۔(150) تب موسیٰ نے کہا۔پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔(151) بے شک جن لوگوں نے گو سالہ کو (اپنا معبود) بنایا۔عنقریب ان پر ان کے پروردگار کا غضب نازل ہوگا۔اور وہ دنیاوی زندگی میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور ہم بہتان باندھنے والوں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔(152) اور جو لوگ برے کام کریں اور پھر توبہ کر لیں۔اور ایمان لے آئیں تو یقینا تمہارا پروردگار اس (توبہ و ایمان) کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔(153) اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا۔تو انہوں نے تختیاں اٹھا لیں تو ان کی کتابت (تحریر) میں اپنے پروردگار سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی۔(154) ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہونے کے لیے موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا پھر جب ایک سخت زلزلہ نے انہیں آپکڑا (اور وہ ہلاک ہوگئے) تو موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو پہلے ہی ہلاک کر دیتا اور مجھے بھی۔کیا تو ایسی بات کی وجہ سے جو ہمارے چند احمقوں نے کی ہے ہم سب کو ہلاک کرتا ہے؟ یہ نہیں ہے مگر تیری طرف سے ایک آزمائش! اس کی وجہ سے تو جسے چاہتا ہے (توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے تو ہی ہمارا ولی و سرپرست ہے۔ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین مغفرت کرنے والا ہے۔(155) اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں (ہم نے تجھ سے لو لگائی ہے) ارشاد ہوا (میرے عذاب کا یہ حال ہے کہ) جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت (کا یہ حال ہے کہ وہ) ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔پس میں رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کریں گے (برائیوں سے بچیں گے) اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور ہماری آیتوں (نشانیوں) پر ایمان لے آئیں گے۔(156) جو اس پیغمبرؑ کی پیروی کریں گے جو نبیِ امی ہے جسے وہ اپنے ہاں توراۃ و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے جو ان کے لیے پاک و پسندیدہ چیزوں کو حلال اور گندی و ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔پس جو لوگ اس (نبیِ امی) پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی مدد و نصرت کی اور اس نور (روشنی) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے یہی لوگ فوز و فلاح پانے والے ہیں۔(157) اے پیغمبر! (لوگوں سے) کہو اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔جس کے لیے سارے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے پس اللہ پر ایمان لاؤ۔اور اس کے نبیِ امی رسول پر۔جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات (کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔(158) اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کو حق کے راستہ پر چلاتا ہے اور حق کے ساتھ منصفانہ فیصلہ کرتا ہے۔(159) اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی جب ان کی قوم نے ان سے پینے کے لیے پانی مانگا کہ ایک (خاص) چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔اور ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان پر ابر کا سایہ کیا اور (غذا کے لیے) ان پر من و سلویٰ نازل کیا (اور ان سے کہا) کھاؤ ان پاک اور پسندیدہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں۔انہوں نے (نافرمانی و ناشکری کرکے) ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے ہی اوپر ظلم و زیادتی کرتے رہے۔(160) (وہ وقت یاد کرو) جب ان (بنی اسرائیل) سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں جاکر آباد ہو جاؤ اور وہاں جہاں سے تمہارا جی چاہے (غذا حاصل کرکے) کھاؤ اور حطۃ حطۃ کہتے ہوئے سجدہ ریز ہوکر (عاجزی سے جھکے ہوئے) شہر کے دروازہ میں داخل ہو جاؤ۔تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔اور جو نیک کردار ہیں ان کو مزید اجر سے نوازیں گے۔(161) مگر ان میں سے جو ظالم تھے انہوں نے وہ کلمہ بدل دیا ایسے کلمہ سے جو مختلف تھا اس کلمہ سے جو ان سے کہا گیا تھا (اور حطۃ کی جگہ حنطہ حنطہ کہنا شروع کیا، ان کی اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا۔اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔(162) اور (اے پیغمبر) ان سے اس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔جبکہ وہ (بنی اسرائیل) ہفتہ کے دن خدا کی مقرر کردہ حد سے باہر ہو جاتے تھے۔جبکہ ہفتہ کے دن مچھلیاں ابھر ابھر کر سطح آب پر تیرتی ہوئی آجاتی تھیں اور جس دن ہفتہ نہیں ہوتا ہے (باقی دنوں میں) تو نہیں آتی تھیں۔ان کی نافرمانی کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے اس طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے۔(163) اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا (ان لوگوں سے جو ہفتہ کے دن شکار کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے) کہ تم ایسے لوگوں کو (بے فائدہ) کیوں نصیحت کرتے ہو۔جن کو خدا ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے؟ انہوں نے (جواب میں) کہا کہ ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت پیش کر سکیں (کہ ہم نے اپنا فریضۂ امر و نہی ادا کر دیا ہے) اور اس لئے کہ شاید یہ لوگ اس روش سے پرہیز اختیار کریں۔(164) آخرکار جب ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو ان کو کی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے رہتے تھے اور باقی سب ظالموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے سخت عذاب میں گرفتار کیا۔(165) (جب یہ عذاب بھی ان کو سرکشی سے باز نہ رکھ سکا) اور وہ برابر سرکشی کرتے چلے گئے ان چیزوں کے بارے میں جن سے ان کو روکا گیا تھا تو ہم نے کہا بندر ہو جاؤ ذلیل اور راندے ہوئے۔(166) اور (اے پیغمبرؑ) یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا تھا (کہ اگر یہ لوگ اپنی سیاہ کاریوں سے باز نہ آئے) تو خدا ان پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کرے گا جو انہیں بدترین عذاب میں گرفتار کریں گے یقینا تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے۔(167) اور ہم نے ان کو زمین میں مختلف فرقوں کی صورت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ان میں سے ناپائیدار ہوگا کچھ لوگ تو نیک ہیں اور کچھ اس کے خلاف اور طرح کے (بدکار) ہیں۔اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات میں مبتلا کرکے آزماتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔(168) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے اور کتابِ الٰہی کے وارث بنے جو (دین فروشی کرکے) دنیائے دوں کے مال و متاع اور ساز و سامان جمع کرتے اور سمیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امید ہے کہ ہم بخش دیے جائیں گے اور اگر اتنا ہی اور عارضی ساز و سامان ان کے ہاتھ لگ جائے تو اسے بھی بے دریغ لے لیتے ہیں۔کیا ان سے کتاب (توراۃ) والا یہ عہد و پیمان نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی نسبت حق کے سوا اور کوئی بات نہیں کہیں گے؟ اور یہ خود کتاب میں پڑھ چکے ہیں جو اس میں لکھا ہے اور آخرت والا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (169) اور جو لوگ کتابِ الٰہی سے تمسک رکھتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں۔بے شک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر و ثواب ضائع نہیں کریں گے۔(170) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ہلا کر (اور جڑ سے اکھاڑ کر)۔اس طرح ان کے اوپر بلند کیا۔کہ گویا سائبان ہے اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ ان پر گرا ہی چاہتا ہے ( اور ان سے کہا کہ) جو کچھ (کتاب) ہم نے تمہیں عطا کی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ لو۔اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو۔تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(171) اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا (جو نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والی تھی) اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا ہاں بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے (یہ کاروائی اس لئے کی تھی کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔(172) یا کہو کہ (خدایا) شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا۔اور ہم تو ان کے بعد ان کی نسل سے تھے (اس لئے لاچار ان کی روش پر چل پڑے) تو کیا تو ہمیں اس (شرک) کی وجہ سے ہلاک کرے گا جو باطل پرستوں نے کیا تھا۔(173) اسی طرح ہم اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (حق کی طرف) رجوع کریں۔(174) (اے رسولؑ) ان لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان کرو جس کو ہم نے اپنی بعض نشانیاں عطا کی تھیں مگر وہ ان سے عاری ہوگیا (وہ جامہ اتار دیا) پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔اور آخرکار وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔(175) اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کی وجہ سے اس کا مرتبہ بلند کرتے۔مگر وہ تو زمین (پستی) کی طرف جھک گیا۔اور اپنی خواہشِ نفس کا پیرو ہوگیا۔تو اب اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی ہانپتا ہے اور یونہی چھوڑ دو تب بھی ایسا کرتا ہے۔(زبان لٹکائے ہانپتا ہے) یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (اے رسول) تم یہ قصص و حکایات سناتے رہو شاید وہ غور و فکر کریں۔(176) کیا بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔اور جو خود اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔(177) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہی میں چھوڑ دے وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔(178) اور کتنے جن و انسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے (یعنی ان کا انجامِ کار جہنم ہے) ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں۔ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (اور گئے گزرے) ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو بالکل غافل و بے خبر ہیں۔(179) اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں اسے انہی کے ذریعہ سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں۔عنقریب انہیں ان کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔(180) ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتا ہے اور اسی کے مطابق (لوگوں کا) فیصلہ کرتا ہے۔(181) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا ہم انہیں بتدریج (آہستہ آہستہ ان کے انجام بد کی طرف) لے جائیں گے کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔(182) اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں بے شک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔(183) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ ان کے ساتھی (پیغمبر اسلامؑ) میں ذرا بھی جنون نہیں ہے۔وہ تو بس کھلم کھلا (خدا کے عذاب سے) ڈرانے والا ہے۔(184) کیا ان لوگوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی میں اور ان چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں کبھی غور و فکر نہیں کیا؟ اور کبھی نظر اٹھا کر ان کو نہیں دیکھا؟ اور اس بات پر کہ شاید ان کا (مقررہ) وقت آگیا ہو۔تو اب وہ اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟ (185) جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت نہیں کر سکتا اور وہ (خدا) انہیں چھوڑ دیتا ہے تاکہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔(186) (اے رسول) لوگ آپ سے قیامت کی گھڑی کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار کے ہی پاس ہے اسے اس کا وقت آنے پر وہی ظاہر کرے گا۔وہ گھڑی آسمانوں اور زمین میں بڑی بھاری ہے (وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو ان میں رونما ہوگا) وہ نہیں آئے گی تمہارے پاس مگر اچانک۔لوگ اس طرح آپ سے پوچھتے ہیں جیسے آپ اس کی تحقیق اور کاوش میں لگے ہوئے ہیں؟ کہہ دو۔کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے۔لیکن اکثر لوگ یہ حقیقت جانتے نہیں ہیں۔(187) (اے رسولؑ) کہہ دو۔کہ میں اپنے نفع و نقصان پر کوئی قدرت و اختیار نہیں رکھتا۔مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور (زندگی میں) مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔میں تو بس (نافرمانوں کو) ڈرانے والا اور ایمانداروں کو خوشخبری دینے والا ہوں۔(188) اللہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک متنفس (جاندار) سے پیدا کیا۔اور پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا (شریک حیات) بنایا۔تاکہ وہ (اس کی رفاقت میں) سکون حاصل کرے۔پھر جب مرد عورت کو ڈھانک لیتا ہے۔تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے جسے لئے وہ چلتی پھرتی رہتی ہے اور جب وہ بوجھل ہو جاتی ہے (وضعِ حمل کا وقت آجاتا ہے) تو دونوں (میاں بیوی) اپنے اللہ سے جو ان کا پروردگار ہے دعا مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں صحیح و سالم اولاد دے دی تو ہم تیرے بڑے شکر گزار ہوں گے۔(189) مگر جب وہ ان دونوں کو صحیح و سالم فرزند عطا کر دیتا ہے۔تو یہ دونوں اس کی عطا کردہ چیز (اولاد) میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔اللہ اس سے بہت برتر ہے جو مشرک کرتے ہیں۔(190) آیا یہ ان کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود کسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔(191) اور وہ نہ ان کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی مدد پر قادر ہیں۔(192) اور اگر تم ان کو سیدھے راستہ کی طرف بلاؤ تو وہ تمہارے پیچھے قدم نہیں اٹھا سکتے۔تمہارے لئے برابر ہے کہ ان کو بلاؤ یا خاموش رہو (دونوں باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے)۔(193) (اے کافرو) یقینا وہ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر (اور خدا سمجھ کر) پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح (خدا کے) بندے ہیں۔اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو (کہ ان میں مافوقِ بشریت طاقتیں ہیں) تو انہیں پکارو۔پھر تو انہیں چاہیے کہ تمہاری دعا و پکار کا جواب دیں۔(194) آیا ان (بتوں) کے پاؤں ہیں کہ جن سے وہ چلتے ہوں آیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہوں کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں اور کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں۔(اے پیغمبرؑ) کہو کہ تم اپنے تمام شریکوں کو پکارو۔پھر میرے خلاف سب تدبیریں کرو اور مجھے بالکل مہلت نہ دو۔(195) میرا ولی و سرپرست وہ اللہ ہے جس نے (یہ) کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کا سرپرست اور کارساز ہے۔(196) اور جنہیں تم اللہ کے سوا خدا پکارتے ہو۔وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔(197) اور اگر انہیں سیدھے راستہ کی دعوت دو تو وہ تمہاری بات سنتے نہیں ہیں اور تم انہیں دیکھوگے کہ گویا وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں ہیں۔(198) (اے نبیؑ) عفو و درگزر سے کام لو۔اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے روگردانی کریں (ان سے نہ الجھیں)۔(199) اور اگر شیطان کی طرف سے جوش دلانے کی کوئی کوشش ہو تو خدا سے پناہ مانگیں۔یقینا وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔(200) جو لوگ پرہیزگار ہیں جب انہیں کوئی شیطانی خیال چھو بھی جائے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور یادِ الٰہی میں لگ جاتے ہیں اور ان کی بصیرت تازہ ہو جاتی ہے (اور حقیقتِ حال کو دیکھنے لگتے ہیں)۔(201) اور جو شیطانوں کے بھائی بند ہیں تو وہ (شیاطینِ انسی و جنی) ان کو گمراہی میں کھینچتے لئے جاتے ہیں اور (انہیں گمراہ کرتے ہیں) کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔(202) (اے پیغمبرؑ) جب تم ان کے سامنے (ان کا کوئی مطلوبہ) معجزہ لے کر نہ جاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے خود کوئی معجزہ کیوں نہ منتخب کر لیا؟ (یعنی اپنی مرضی سے کیوں نہ بنا لیا؟) کہہ دیجیے کہ میں تو صرف اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے (اس میں میری پسند کا کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سامانِ ہدایت اور سراسر رحمت ہے۔(203) اور (اے مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر (توجہ سے) سنو اور خاموش ہو جاؤ تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔(204) اور (اے پیغمبرؑ) صبح و شام اپنے پروردگار کو یاد کرو۔اپنے دل میں عجز و انکساری اور خوف و ہراس کے ساتھ۔اور زبان سے بھی چِلائے بغیر (یعنی دھیمی آواز کے ساتھ) اور (یادِ خدا سے) غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔(205) جو تمہارے پروردگار کے خاص مقرب ہیں وہ کبھی اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں (اس کی پاکی بیان کرتے ہیں)اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتے ہیں۔(206)

پچھلی سورت: سورہ انعام سورہ اعراف اگلی سورت:سورہ انفال

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


نوٹ

  1. بصرہ اور شام کے قراء کے مطابق 205 آیات ہیں؛ کیونکہ وہ لوگ المص کو مستقل ایک آیت نہیں سمجھتے ہیں۔(طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۶۰۸)

حوالہ جات

  1. خرمشاهی، «سوره اعراف»، ص۱۲۳۸.
  2. محققیان، «سوره اعراف»، ص۶۸۸.
  3. محققیان، «سوره اعراف»، ص۶۸۸.
  4. فیروز آبادی، بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، المکتبة العلمیة، ج۱، ص۲۰۳-۲۰۴.
  5. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
  6. محققیان، «سوره اعراف»، ص۶۸۸.
  7. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۳۸۔
  8. سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ۱۴۰۷ق، ج۱،ص۱۳۸.
  9. دروزة، التفسیر الحدیث، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۳۶۱-۳۶۲.
  10. 10.0 10.1 طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۶.
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲، ج۴، ص۷۹۳؛ الجزیری، الفقہ علی المذاهب الاربعہ، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۶۰۴.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۷۴.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۷۵.
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۳۷۹.
  15. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، طبع1، 1392شمسی۔
  16. واحدی نیشابوری، أسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۲۸.
  17. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۸؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۰.
  18. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۵، ص۴۲۳.
  19. واحدی نیشابوری، أسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۲.
  20. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج۵، ص۶۷.
  21. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۱.
  22. خامہ گر، «سورہ اعراف»، ص۶۶.
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۱۶۹.
  24. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۱۴-۱۱۵.
  25. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۱۷۰.
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۱۷۰.
  27. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴، ج۳، ص۳۲۸.
  28. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۱۵.
  29. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، چ۶، ص۳۵۵.
  30. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، چ۶، ص۳۵۵.
  31. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۲۳۸-۲۳۹.
  32. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۳، ص۶۷.
  33. مغنیه، تفسیر الكاشف، ۱۴۲۴ق، ج۳، ص۳۲۹.
  34. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۱۸۴.
  35. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۱۲۱.
  36. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۴، ص۹۰؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۸، ص۲۰۴.
  37. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۱۲۹.
  38. سورہ اعراف:96
  39. مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۳۱۷.
  40. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۳۹؛ ابن فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۹۴؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۳۷۱.
  41. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۴؛ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۳ق، ص۴۱۰.
  42. سورہ اعراف: 96
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۲۶۵.
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۲۶۵.
  45. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۲۰۱.
  46. سورہ اعراف: 142
  47. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۳۳۹.
  48. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۳۳۹.
  49. ابن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۳۵.
  50. سورہ اعراف: 172
  51. بعض محققین، فرہنگ‌ نامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۴ش، ص۱۸۳.
  52. طیب حسینی، دانشنامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۶ش، ص۸۳.
  53. طیب حسینی، دانشنامه علوم قرآنی، ۱۳۹۶ش، ص۸۳.
  54. جوادی آملی، بررسی آیه میثاق، شماره ۵۹، آذر و دی ۱۳۶۵.
  55. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۵.
  56. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۵.
  57. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۳، ص۲۱۶.
  58. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۷، ص۲۹۱؛ جوادی آملی، بررسی آیہ میثاق، ۱۳۶۵ش، شماره۵۹.
  59. جوادی آملی، بررسی آیه میثاق، ۱۳۶۵ش، شماره ۶۰.
  60. جوادی آملی، بررسی آیه میثاق، ۱۳۶۵ش، شماره ۶۰.
  61. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۷، ص۲۹۱.
  62. معینی، «آیات الاحکام»، ص۱.
  63. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۶۰۸.
  64. بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۵۱۵.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنۃ، مصحح جواد قيومى اصفہانى، قم، دفتر تبليغات اسلامى‏، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی،‌ تہران، دار الکتب الإسلامی، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابوالفتوح رازى، حسين بن على‏، روض الجنان و روح الجنان في تفسير القرآن‏، مشہد، آستان قدس رضوى، بنياد پژوہشہاى اسلامى‏، ۱۴۰۸ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، محقق محمدباقر بہبودی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، بی تا.
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، بنیاد بعثت، تہران، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
  • جریزی، عبدالرحمن، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، ۱۴۰۶ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ علوم قرآن، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ‫۱۳۹۴ھ۔
  • جوادی آملی، بررسی آیہ میثاق، دورہ ۱۳۶۵، شمارہ ۵۹، مہر و آبان ۱۳۶۵.
  • خامہ‌گر، محمد، درایتی، محمدحسن، «سورہ اعراف»، در دائرہ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ اعراف» در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
  • دروزۃ، محمدعزہ، التفسیر الحدیث، بیروت، دار الغرب الاسلامی، ۱۴۲۱ھ۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہاى تفسير و علوم قرآن‏، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بكر، الإتقان في علوم القرآن‏، بیروت، دار الكتاب العربی، ۱۴۲۱ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: قصیرعاملی، احمد، دار احیاء التراث العربی، بیروت، بی تا.
  • طوسی، محمد بن الحسن، مصباح المتہجّد، بیروت، موسسہ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی‏، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • طیب حسینی، سیدمحمود و دیگران، دانشنامہ علوم قرآنی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۹۶شمسی ہجری۔
  • فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، بیروت، الکتبۃ العلمیۃ، بی تا.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز درس‌ہای قرآن کریم، ۱۳۸۳شمسی ہجری۔
  • قرشی، سید علی اکبر، تفسیر احسن الحدیث، بنیاد بعثت، تہران، چاپ سوم، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، اسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول، تحقیق: رسولی محلاتی، سید ہاشم، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • محققیان، رضا، «سورہ اعراف»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶شمسی ہجری۔
  • معینی، محسن، «آیات الاحکام»، تحقیقات اسلامی، سال دوازدہم، شمارہ ۱ و ۲، تہران، بہار و تابستان ۱۳۷۶.
  • واحدى على بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق، كمال بسیونى، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ھ۔

بیرونی روابط