مسخ
مَسْخ عذاب کی ایک قسم ہے جس سے انسان حیوان کی شکل اختیار کرتا ہے۔ مسخ میں انسان کی ماہیت تبدیل نہیں ہوتی بلکہ صرف ظاہری شکل اور صورت حیوان میں بدل جاتی ہے۔ اسلامی مآخذ میں مسخ کے بہت سارے موارد ذکر ہوئے ہیں جن میں اصحاب سبت کا قصہ زیادہ مشہور ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق اصحاب سبت بنی اسرائیل کا ایک گروہ تھا جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے پر بندر کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ اسلامی روایات کے مطابق قیامت کے دن بھی مسخ ہوتے ہیں اور بعض گناہگار لوگ بندر، سور اور دیگر حیوانات کی شکل میں محشور ہوتے ہیں۔
بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جس مسخ کا تذکر ہوا ہے وہ ایک تمثیل ہے جس کا معنی یہ ہے کہ بعض لوگ گناہ کی وجہ سے حیوانی صفت اپنا لیتے ہیں؛ لیکن اکثر مفسرین اس بات کو نہیں مانتے اور ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ظاہری شکل ہی تبدیل ہوتی ہے۔
مسخ اور تناسخ
مسخ کسی چیز کی ظاہری شکل و صورت کسی نامناسب اور برے شکل میں بدلنے کو کہا جاتا ہے۔[1] مسخ تناسخ سے مختلف ہے۔ تناسخ کا مطلب روح کا بدن سے جدا ہونے کے بعد کسی دوسرے بدن سے وابستہ ہونے کو کہا جاتا ہے، لیکن مسخ میں روح بدن سے جدا نہیں ہوتی بلکہ صرف ظاہری شکل و صورت بدل کر حیوانی شکل اختیار کرتی ہے۔[2]
مسخ اور انسانی ماہیت
مسلم علما کا کہنا ہے کہ انسانی ظاہری شکل و صورت میں تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی حقیقت بھی تبدیل ہوجاتی ہو۔[3] لہذا مسخ کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی انسان ختم ہو جائے اور بندر کا ایک فرد بن جائے یا انسانی روح کسی بندر کے بدن میں پھونکی جائے[4] بلکہ مسخ سے مراد یہ ہے کہ ایک شکل پر دوسری شکل آجائے؛ یعنی انسانی حقیقت اپنی جگہ باقی رہے اور بندر کی شکل اختیار کرے۔ اسی لیے اس پر بندری انسان کا اطلاق ہونا چاہیے۔ [5]
شہید مطہری اس مطلب کو یوں بیان کرتے ہیں: "قیامت کے دن جس شکل میں بھی ہونگا اسی بدن میں یا کسی اور بدن میں سو فیصد وہ میں ہی ہوں؛ صرف یہ ممکن ہے کہ میری شکل تبدیل ہوجائے۔ اگر قیامت میں مجھے میری روحی خصوصیات کے مطابق مسخ بھی کریں اور حیوانی شکل میں محشور کریں تب بھی وہ میں ہی ہوں لیکن کسی حیوانی شکل میں ہوں۔"[6]
قرآن کی نظر میں مسخ
قرآن مجید کی بعض آیات میں بعض انسانوں کے مسخ کی بات آئی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ مائدہ کی آیت نمبر 60 میں بعض انسانوں کا بندر اور خنزیر کی شکل میں بدلنے کا تذکرہ ہوا ہے۔[7] اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت 65 کے مطابق اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ اصحاب سبت کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے ہفتے کے دن مچھلی پکڑنے پر مسخ کر کے بندر کی شکل میں تبدلی کردیا۔[8]
بعض حواریوں کا مسخ ہونا
قرآنی آیات کے مطابق حضرت عیسی کے حواریون نے اللہ تعالی سے آسمانی مائدہ طلب کیا[9] اور اللہ تعالی نے ان کے دعا کی استجابت کی خبر دینے کے بعد کہا: اگر آسمانی مائدہ نازل ہونے کے بعد کوئی کافر ہوگیا تو اسے ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا جس میں کسی کو بھی مبتلا نہیں کیا ہے۔[10] بعض مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے کہ حواریوں نے آسمانی مائدہ نازل ہونے کے باوجود خیانت کیا اور اللہ تعالی نے انہیں مسخ کیا؛[11] لیکن علامہ طباطبائی جیسے بعض دوسرے مفسرین نے اس گروہ کے مسخ ہونے کو قبول نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قرآن کی دیگر آیات کے خلاف ہے۔[12]
مسخ کی کیفیت
دنیا میں مسخ کیسے وجود میں آتا ہے اس بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اکثر مفسروں کا کہنا ہے کہ قرآن میں مسخ سے مراد یہ ہے کہ انسانی جسم میں بھی تبدیلی آتی ہے؛ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ مسخ میں صرف باطنی شکل تبدیل ہوتی ہے اور انسانی چہرہ اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔
مجاہد بن جبیر (متوفی 102 ھ) کا کہنا ہے: قرآن میں جس مسخ کا تذکر ہوا ہے وہ ایک تمثیل ہے جس طرح سے «کمَثَلِ الْحِمارِ یحْمِلُ أَسْفاراً»[؟–؟] (ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے بڑی بڑی کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں)[13] کی آیت ہے۔[14] عبدالرزاق کاشانی سے بھی منقول ہے کہ یہ مسخ صرف انسان کے باطن سے مربوط ہے۔ دوسرے لفظوں میں مسخ شدہ یہودی ظاہری طور پر تو انسان تھے لیکن حقیقت میں ان میں سے نہیں تھے۔[15]
اہل سنت معاصر مفسرین رشید رضا اور محمد عبدہ[16] کا بھی ایسا ہی نظریہ ہے۔[17]
البتہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر مفسروں کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں مسخ اپنی حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جسم میں بھی مسخ انجام پاتا ہے اور انسان کی ظاہری شکل بھی بدل جاتی ہے۔[18] علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ متواتر روایات، مسخ کے اس معنی پر دلالت کرتی ہیں۔[19]
اس نظریے کے حامیوں نے مسخ محال ہونے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب انبیاء ؑ سے معجزے کو مان لیا ہے تو کسی عمل کا خارق العادہ ہونا اس کے محال ہونے کی دلیل نہیں بنتی ہے بلکہ معجزے کی ایک شرط بھی خارق العادہ ہونا ہی ہے۔[20]
قیامت میں انسان کا مسخ ہونا
بعض احادیث کے مطابق، قیامت میں بعض گروہ مسخ ہو کر حیوانوں کی شکل میں محشور ہونگے۔ مثال کے طور پر روایت میں آیا ہے کہ ایک دن معاذ بن جبل نے آیت مجیدہ «یوْمَ ینْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْواجاً»[؟–؟] (جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم لوگ فوج در فوج آؤ گے۔)[21] کے بارے میں رسول اللہؐ سے سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا: «ان میں سے بعض بندر کی شکل میں، بعض خنزیر کی شکل میں ۔۔۔ محشور ہونگے۔[22]
امام باقرؑ کی ایک روایت میں بھی آیا ہے کہ جو لوگ قدَر الہی کو جھٹلاتے ہیں وہ لوگ اپنی قبروں سے بندر اور خنزیر کی شکل میں اٹھیں گے۔[23]
روح مسخ ہونا
بعض اسلامی دانشمندوں کا کہنا ہے کہ انسان روحی اور معنوی اعتبار سے مسخ ہوکر حیوان میں بدل جاتا ہے۔ بعض مفسروں نے قرآن مجید کی تعبیر «أُولئِک کالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَل»[؟–؟] (یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (اور گئے گزرے) ہیں۔)[24] کو اسی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔[25]
مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کی انسانیت اس کی اخلاقی خصوصیات سے وابستہ ہے اگر کسی میں ایک وحشی حیوان کی صفات اور اخلاق ہو تو وہ حقیقت میں مسخ ہوچکا ہے۔[26]
روایات میں مسخ کے بعض مصادیق
شیعہ اور اہل سنت کی بعض کتابوں کے مطابق، قرآن مجید میں مذکور مسخ کے مصادیق کے علاوہ بھی کچھ فرد یا افراد کے مسخ ہونے کی باتیں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے اپنی کتاب الخصال میں بچھو، چمگادڑ، ریچھ سمیت 13 حیوانات کا نام ذکر کیا ہے جو پہلے انسان تھے اور پھر مسخ ہوکر اس شکل میں تبدیل ہوئے ہیں۔[27]اسی طرح تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت عالم طبرانی نے بھی رسول اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں مستقبل میں بعض مسلمانوں کا مسخ ہوکر بندر اور خنزیر کی شکل میں تبدیل ہونے کا تذکرہ ہے۔[28]
مسخ شدہ انسانوں کی عاقبت
اسلامی احادیث کے مطابق قرآن میں جن لوگوں کے مسخ ہونے کا تذکرہ ہوا ہے، وہ صرف تین دن زندہ رہے اور ان کی نسل باقی نہیں رہی ہے۔[29] صدرالمتألہین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ موجودہ حیوانات حضرت آدم کی نسل سے نہیں ہیں اور مسخ شدہ افراد تین دن کے بعد مر گئے ہیں قبل اس کے کہ ان کی حیوانی حالت میں کوئی نسل پیدا ہوجائے۔[30]
حوالہ جات
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۵۔
- ↑ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۹۵۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۶۸ش، ج۴، ص۷۰۳؛ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۱۴۸۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۱۴۸۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۱۳۲۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۶۸ش، ج۴، ص۷۰۳۔
- ↑ مکارم، شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۴، ص۴۴۳۔
- ↑ مکارم، شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۹۷۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ ۱۱۲۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ ۱۱۵۔
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۳۴۲؛ عیاشی، کتاب التفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۵۱۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۲۳۹۔
- ↑ سورہ جمعہ، آیہ ۵۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۲۶۴۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۱۳۳۔
- ↑ مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۲۱۔
- ↑ ملاحظہ کریں: رشید رضا، المنار، ۱۹۹۰م، ج۱، ص۲۸۵۔
- ↑ مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۲۱۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ش، ج۵۸، ص۱۱۱۔
- ↑ شاکر و میری، «ماہیت عذاب مسخ در آموزہہای دینی»، ص۳۰۔
- ↑ سورہ نبأ، آیہ۱۸۔
- ↑ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۹، ص۱۷۵۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۲۱۲۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۷۹۔
- ↑ میرجہانی، تفسیر ام الکتاب، ص۲۷۰۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۶۸ش، ج۲۳، ص۱۰۵۔
- ↑ شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۴۹۳۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۲۴۵و۲۴۶۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۷۱۔
- ↑ صدرالمتألہین، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۳، ص۴۶۸۔
مآخذ
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، محقق و مصحح: میر دامادی، جمالالدین، بیروت، دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع،دار صادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ھ۔
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: عطیۃ، علی عبدالباری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، اسراء، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
- رشید رضا، المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۹۰ء۔
- سبحانی، جعفر، منشور عقائد امامیہ، قم، موسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
- شاکر، محمدکاظم، میری سیدسعید، ماہیت عذاب مسخ در آموزہہای دینی، تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ۲، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
- شیخ صدوق، الخصال، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۲شمسی ہجری۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، محقق و مصحح: مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
- صدرالمتألہین، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، تحقیق: محمد خواجوی، انتشارات بیدار، قم، چاپ دوم، ۱۳۶۶شمسی ہجری۔
- طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرانی، أبوالقاسم، المعجم الکبیر، محقق: حمدی بن عبد المجید السلفی، قاہرہ، ابنتیمیہ، ۱۴۱۵ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ:محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق و مصحح: ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ اول، ۱۳۶۴شمسی ہجری۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
- مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
- میرجہانی سیدحسن، تفسیر ام الکتاب، تہران، صدر، بیتا۔