مندرجات کا رخ کریں

عالم ذر

ویکی شیعہ سے

عالمِ ذر اُس نظریے کا نام ہے جس میں نوعِ بشر سے اللہ کی ربوبیت کے عہد و پیمان کے مقام سے متعلق بحثیں ہوتی ہیں؛ اس نظریے کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیوی زندگی سے پہلے ذروں کی صورت میں پیدا کیا اور اپنی ربوبیت کے بارے میں ان سے عہد لیا۔ علماء کے مابین عالمِ ذر کی حقیقت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ کچھ اسے یقینی اور ناقابلِ انکار مانتے ہیں جبکہ کچھ اسے ناقابلِ قبول امر شمار کرتے ہیں۔

عالمِ ذر کا موضوع اس لیے علمائے دین کی توجہ کا مرکز بنا کہ انسانی تخلیق میں حالات کے حوالے سے فرق پایا جاتا ہے اور ان میں نابرابری کی وجہ سے عدل الہی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ عالمِ ذر کے نظریے کے مطابق، اگر کوئی شخص اس دنیا میں غیر مناسب خاندان، غیر مطلوب یا منفی خصوصیات کے حامل پیدا ہوا ہے تو یہ سب اُس امتحان کا نتیجہ ہے جو اس نے عالمِ ذر میں دیا تھا۔ جبکہ نیک افراد نے چونکہ وہاں ربوبیتِ خدا کی گواہی جلد اور دوسروں سے بہتردی اس لیے دنیا میں انہیں بہتر حالات نصیب ہوئے۔

عالمِ ذر کے حامی اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن، متعدد احادیث اور عقلی دلائل پیش کرتے ہیں، جبکہ مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات، روایات کی سند اور مضمون کو ضعیف قرار دیتے ہوئے عقلی بنیاد پر اس نظریے کے تضاد کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔ میثاقِ الٰہی کے بارے میں متبادل نظریات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً کچھ علما کے نزدیک، انسانوں کی ربوبیتِ خدا پر گواہی دینے سے مراد انسانی فطرت ہے جو اللہ کے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔ کچھ نے عالمِ ملکوت کا ذکر کیا ہے جہاں انسان علمِ حضوری کے ذریعے اللہ کی شناخت حاصل کرلیتا ہے۔ بعض کے نزدیک میثاقِ الٰہی سے مراد وہ باطنی شعور ہے جو عقلِ انسانی سے پیدا ہوتا ہے۔

عالم ذر کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے ایک اہم تالیف "المقاصد العلیۃ فی المطالب السنیۃ" (بلند مقاصد پر اہم اور برگزیدہ مباحث) ہے، جوشیعہ فقیہ اور متکلم علامہ عبد الحسین امینی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کے دو سو سے زائد صفحات آیتِ میثاق کی تفسیر پر مشتمل ہیں۔

اہمیت اور مفہوم

عالمِ ذر ان نظریات میں سے ایک ہے جو میثاقِ الٰہی کے مقام سے متعلق ہے۔[1] اس نظریے کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے عالمِ ذر میں ہر انسان کے لیے ایک نہایت چھوٹا جسم (ذرّہ) پیدا کیا اور اس میں اُس کی روح داخل کی گئی۔ یہ جسم، جو پہلے سے ہر فرد کے لیے مقدر تھا، مٹی سے گارے کی شکل میں بنایا گیا اور اُسی عالم میں حقیقی طور پر وجود میں آیا۔ روح کے ان چھوٹے جسموں میں داخل ہونے سے، جو حضرت آدمؑ کی صلب سے نکالے گئے تھے، انسانی تخلیق مکمل ہوئی۔[2] اس نظریے کے مطابق، عالمِ ذر میں انسان نے اللہ سے اپنے عہد کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔[3] روایات میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذرات کی شکل میں موجود انسانوں سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا: ہاں! تو ہی ہمارا پروردگار ہے۔ اس مکالمے کے بعد، سب کو دوبارہ حضرت آدمؑ کے وجود میں لوٹا دیا گیا۔[4]

اس بات پر علما میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا عالمِ ذر کو انسانی حیات کے ایک مرحلے کے طور پر مانا جائے یا نہیں۔ بعض اسے تسلیم کرتے ہیں اور اسے دین کی مسلّمہ حقیقت اور ناقابلِ انکار امر سمجھتے ہیں۔[5] جبکہ بعض اس کی موجودگی کو سراسر رد کر دیتے ہیں۔[6] کچھ علما کا کہنا ہے کہ میثاقِ الٰہی کے لیے اس عالم کا ہونا ضروری ہے، لیکن اس کی تفصیلات کے بارے میں ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔[7]

"ذرّ" کہلانے کی وجہ

کہتے ہیں کہ چونکہ یہ عالم ذر میں جسم نہایت چھوٹے تھے، اس لیے انہیں "ذر" کہا گیا اور اسی وجہ سے حضرت آدمؑ کی اولاد کو بھی "ذُرّیت" کہا گیا ہے۔[8] اس کے برعکس، علامہ طباطبائی کے نزدیک انسانوں کو ذروں سے تشبیہ دینے کی وجہ ان کے جسموں کی چھوٹائی نہیں، بلکہ ان کی تعداد کا بہت زیادہ ہونا ہے (جس طرح چیونٹیاں بہت زیادہ ہوں تو ذرات کی شکل میں نظر آتی ہیں)۔ روایات میں یہی تشبیہ استعمال ہوئی، جس کی بنا پر اسے عالمِ ذر کہا جانے لگا۔[9]

عدلِ الٰہی اور تخلیق میں فرق کا جواب

عالمِ ذر کا مسئلہ اس سوال کے جواب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے حالات میں فرق کیوں ہے؟۔ اس کی وضاحت یہ کہ، دنیا میں انسان کی حالت کا تعلق اُس انتخاب اور امتحان سے ہے جو اُس نے عالمِ ذر میں دیا تھا۔ اسی لیے انبیاء اور اولیا نے چونکہ اُس عالم میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر ربوبیتِ الٰہی کی گواہی دی تھی دنیا میں بلند مقام پایا۔[10] اسی طرح، اگر کوئی شخص اس دنیا میں غیرمناسب خاندان، غیر مناسب حالات یا منفی خصوصیات کے حامل پیدا ہوا ہے تو یہ عالمِ ذر میں اُس کے اپنے امتحان کا نتیجہ ہے۔[11]

عوالمِ ذر، اظلال اور ارواح

عالمِ ذر کے علاوہ روایات میں دنیا سے پہلے عالمِ اَرواح اور عالمِ اَظلال کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک یہ تمام اصطلاحات ایک ہی عالم کو بیان کرتی ہیں۔[12] کچھ علما دو عوالم کے قائل ہیں؛ عالم ذر اور عالم ارواح؛ جبکہ عالمِ اَظلال دراصل عالمِ اَرواح ہی ہے۔[13] ایک تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اَرواح، اَظلال اور ذر؛ یہ تینوں الگ الگ عوالم کے طور پر وجود رکھتے تھے۔[14]

عالمِ ذر یا عوالمِ ذر

عالمِ ذر سے متعلق بعض روایات میں[15] "ذرِ اوّل" کا لفظ آیا ہے۔ اسی بنا پر بعض علما نے کہا ہے کہ عالمِ ذر ایک نہیں بلکہ کئی تھے۔[16] بعض علما نے کچھ روایات کے مطابق یہ تحلیل پیش کی ہے کہ دو عوالمِ ذر موجود تھے: پہلا، حضرت آدمؑ کی تخلیق سے پہلے جب تمام انسانوں کو ذروں کی شکل میں مٹی سے پیدا کیا گیااور ان سے عہد لیا گیا؛ دوسرا، حضرت آدمؑ کے زمین پر آنے کے بعد جب ان کی نسل ان کی پشت سے نکالی گئی اور دوبارہ ان سے توحید اور ولایت الہی پر میثاق لیا گیا۔[17]

موافقین کے دلائل

کچھ مفکرین کا عقیدہ ہے کہ عالمِ ذر ان مراحل میں سے ایک ہے جن سے انسان دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ ان کے مطابق قرآن و روایات میں واضح دلائل ملتے ہیں جو اس عالم کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اور عقل بھی اس کا انکار نہیں کرتی۔[18] اس لیے آیات و احادیث کو ان کے ظاہری معنی میں لینا چاہیے اور انہیں دوسرے معانی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔[19] شیعہ علما میں سے شیخ صدوق (وفات:381ھ)،[20] محمد امین استرآبادی (وفات: 1036ھ)،[21]، محمد صالح مازندرانی (وفات: 1081ھ)،[22]، شریف لاہیجی (وفات: 1088 الی 1091ھ)،[23]، شیخ حر عاملی (وفات: 1104ھ)،[24]، علامہ مجلسی (وفات: 1110ھ)،‌[25]، مراد بن علی تفرشی (حیات تا 1110ھ)،[26]، سید علی خان شیرازی (وفات: 1120ھ)،[27]، سید نعمت اللہ جزائری (وفات: 1112ھ)،[28]، حبیب اللہ خویی (وفات: 1324ھ)[29] اور علامہ عبد الحسین امینی (وفات: 1390ھ)[30]اس کے قائلین میں شامل ہیں۔

قرآن سے استدلال

علامہ امینی نے عالم ذر کے اثبات پر 19 آیات قرآنی استدلال کیا ہے۔[31] علما نے درج ذیل آیات سے عالمِ ذر پر استدلال کیا ہے:

  • سورہ اعراف آیت 172: اللہ نے بنی آدم کی پشت سے ان کی ذریت نکالی اور ان سے ربوبیت کا اقرار لیا۔[32] شریف لاہیجی کہتے ہیں کہ آیت قرآنی کا ظاہری مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نسل بنی آدم کو حضرت آدم کی پشت سے نکالا، قرآن کا یہ ظاہر ان روایات سے متصادم نہیں ہے جن میں کہا گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ کی پشت سے نکالے گئے، کیونکہ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے پیدا ہوتی ہے، جو بالآخر حضرت آدمؑ تک جاپہنچتی ہے۔[33]
  • وہ آیات جو خدا کی معرفت کو فطری قرار دیتی ہیں، عالمِ ذر کی دلیل کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔[34]
  • سورہ انسان کی آیت 1 سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان نے دنیا سے پہلے ایک وقت گزارا ہے،[35] جو عالمِ ذر کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔[36]
  • سورہ اعراف آیت 101 اور سورہ یونس آیت 74 میں آیا ہے کہ جو لوگ پہلے ایمان نہیں لائے، وہ بعد میں بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ کہا گیا ہے کہ یہ "پہلے ایمان نہ لانے" کا تعلق عالمِ ذر سے ہے۔[37]
  • سورہ یٰس آیت 60 اور 61 کے مطابق انسانوں سے شیطان کی پیروی نہ کرنے اور خدا کی بندگی کرنےکا عہد لیا گیا ہے۔[38]

روایات سے استدلال

شیخ حر عاملی کے مطابق عالمِ ذر سے متعلق روایات حدِ تواتر سے بڑھ کر ہیں اور ان پر ہونے والے اعتراضات اتنے کمزور ہیں کہ بچے بھی ان کا جواب دے سکتے ہیں۔[39] شیعہ اخباری عالم دین سید نعمت اللہ جزائری کے مطابق اس موضوع پر 500 سے زیادہ روایات موجود ہیں جن میں صحیح، حسن اور موثق احادیث شامل ہیں۔ وہ ان روایات کو تاویل کرنے والے علما جیسے شیخ مفید، سید مرتضی اور امین الاسلام طبرسی پر تعجب ظاہر کرتے ہیں۔[40] حبیب اللہ خوئی کہتے ہیں کہ عقلی بنیادوں پر عالم ذر کو ناممکن کہنا بے بنیاد بات ہے کیونکہ کثیر اور متواتر روایات اس کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی روایات میں آیت میثاق کو عالم ذر سے متعلق جانا گیا ہے۔[41] علامہ امینی نے عالم ذر سے متعلق 40 روایات کے راویوں کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے۔[42]

عالم ذر سے متعلق روایات مختلف پہلوؤں کی حامل ہیں: بعض روایات میں بندوں کی قلبی و وجدانی معرفتِ ربوبیت کو بیان کیا گیا ہے جو دنیا میں معرفت کے لیے شرط متقدم کی حیثیت رکھتی ہے۔[43] کچھ روایات میں آیا ہے کہ حضرت آدمؑ کی پشت سے ذروں کی شکل میں ذریت نکالی گئی اور اسی حالت ان سے میثاق لیا گیا۔[44] کچھ روایات میں اس عہد کے مقام کو بھول جانے اور ایک دن اس کی یاد آنے کا ذکر ملتا ہے۔[45] بعض میں اسے فطرت[46] یا طینت[47] کے ساتھ ایک مانا گیا ہے۔ ان روایات میں ربوبیت کے ساتھ رسالتِ نبی اکرمؐ اور ولایتِ اہل بیتؑ پر بھی عہد لینے کی تصریح ملتی ہے،[48] حتیٰ کہ امام مہدیؑ کی نصرت کے لیے انبیاء سے عہد لینے کا بھی بیان ملتا ہے۔[49]

عقلی دلیل

عبد الحسین امینی کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا کی معرفت تک پہنچنے کے امکان سے عالمِ ذر اور عالمِ ارواح کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر انسان نے پہلے یہ عوالم نہ دیکھے ہوتے تو دنیا میں شناخت ربوبیت ممکن نہ ہوتی کیونکہ ملکوت کا شہود اور اس کی معرفت مادّی حجاب کی وجہ سے ناممکن ہوجاتی ہے۔[50] محمد حسین طباطبائی اس استدلال کو رد کرتے ہیں کہ اگر خدا کی معرفت کے لیے عالمِ ذر ضروری تھا تو حضرت آدمؑ اور حضرت حوا اس سے مستثنیٰ کیوں رہے؟ اگر وہ بغیر اس کے معرفت حاصل کر سکتے ہیں تو ان کی اولاد بھی پیدائش کے وقت معرفت پا سکتی تھی، پھر عالمِ ذر کی ضرورت کیا ہے؟[51]

مخالفین کے دلائل

عالمِ ذر کے وجود کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مختلف دلائل کی روشنی میں آیات و روایات کو اس معنی میں قبول نہیں کیا جا سکتا جو موافقین پیش کرتے ہیں۔ شیعہ علماء میں سے بعض جنہوں نے عالمِ ذر کو تسلیم نہیں کیا، یہ ہیں: شیخ مفید (وفات: 413ھ)،[52] سید مرتضی (وفات: 436ھ)،[53] شیخ طوسی (وفات: 460ھ)،[54] شیخ طبرسی (وفات: 548ھ)،[55] محمد محسن فیض کاشانی (وفات: 1091ھ)،[56] سید عبدالحسین شرف الدین (وفات: 1377ھ)،[57] سید محمد حسین طباطبائی (وفات: 1402ھ)،[58] سید عبد الاعلی سبزواری (وفات: 1414ھ)،[59] ناصر مکارم شیرازی (پیدائش: 1926ء)[60] اور عبد اللہ جوادی آملی (پیدائش: 1933ء)۔[61]

عالمِ ذر اور آیتِ میثاق کے ظاہر میں تضاد

وجود عالم ذر کے مخالفین کے تجزیے کے مطابق، آیتِ میثاق، نظریۂ عالمِ ذر کو رد کرتی ہے؛کیونکہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ آدم کی اولاد کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہیں کہ ہم اس معاملے سے بے خبر تھے، یا یہ عذر پیش نہ کریں کہ چونکہ ہمارے باپ دادا مشرک تھے، اس لیے ہم بھی انہی کے دین پر چلتے رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت تمام بنی آدم کے بارے میں نہیں، بلکہ صرف ان لوگوں سے متعلق ہے جن کے باپ مشرک تھے۔[62]

مخالفین کے مطابق، آیت کے آخر میں عہد کے ذکر کی دلیل، عالمِ ذر کے وجود کو قبول کرنے سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ آیت میں عہد کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ حق سے لاعلمی کا عذر پیش نہ کریں۔ اگر یہ عہد عالمِ ذر میں ہوا ہوتا، تو دنیا میں کوئی بھی عاقل انسان اسے یاد نہ رکھتا، اور یوں یہ اتمامِ حجت نہیں ہوسکتا۔[63]

روایاتِ عالمِ ذر کا جائزہ

مخالفین کے نزدیک، عالمِ ذر سے متعلق روایات صحیح السند نہیں ہیں اور ان حجیت کی حامل نہیں ہیں۔[64] تفسیرِ نمونہ کے محققین کے مطابق، شیعہ اور سنی دونوں کے حدیثی ماخذ میں عالمِ ذر سے متعلق کئی روایات موجود ہیں جو بظاہر متواتر لگتی ہیں، لیکن جب اسناد اور راویوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے بہت سی روایات تکراری ہیں اور ایک ہی راوی سے مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہیں۔ اس طرح ان کی اصل تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بظاہر لگتی ہے۔ مزید یہ کہ ان کے مضامین میں بھی خاصا اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض روایات عالمِ ذر کے وجود کو ثابت کرتی ہیں اور بعض اس کے مخالف ہیں۔ ان میں سے اکثر کی اسناد مضبوط نہیں ہیں۔ نتیجتاً ان پر اطمینان کے ساتھ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔[65] شیعہ مفسر قرآن عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق، اگرچہ کچھ روایات صحیح السند بھی ہیں، مگر محض یہ کافی نہیں، کیونکہ روایات کو قرآن، سنتِ معصومینؑ اور عقلی براہین کے مطابق ہونا چاہیے اور بعض روایات کا ظاہر اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔[66]

عقلی دلائل

مخالفین نے عقلی بنیادوں پر بھی عالمِ ذر کے نظریے کو رد کیا ہے:

  • ایک تحلیل کے مطابق، عالمِ ذر کو ماننے کا لازمہ یہ ہے کہ ہمیں تناسخ کو بھی ماننا ہوگا، کیونکہ اس عقیدے کے تحت روح پہلے ایک ذرّی بدن سے جڑتی ہے اور پھر دنیاوی بدن میں آتی ہے۔[67] اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ روح ذرّی بدن سے جڑی رہتی ہے اور پیدائش تک وہی بدن نشوونما پاتا ہے، اس بنا پر یہ مراحل تناسخ کا مصداق نہیں بنتے ہیں۔[68]
  • اقرار لینا، مکلف بنا دینا اور امتحان لینا اسی وقت معنی رکھتا ہے جب مکلف میں عقل ہو۔ اگر عالمِ ذر میں انسانوں کے پاس عقل تھی، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سب نے اسے فراموش کر دیا ہو؟[69]
  • دنیا میں بچوں پر تکلیف (شرعی ذمہ داری) نہیں، نہ ان کا امتحان ہوتا ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ذرّی بدن میں امتحان سے گزریں؟[70] سید ابن طاؤوس (وفات: 664ھ) اس کا جواب یوں دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ آدم کی اولاد کی پشت سے جو ذرات نکالے گئے، ان کے لیے پہلے سے ہی عقل اور روح پیدا کی گئی ہو، جیسے قیامت میں متکبر لوگوں کو ذرے کی شکل میں محشور کیا جائے گا۔[71]
  • علامہ طباطبائی کے تجزیے کے مطابق، انسان کا تصدیقی علم (علمِ حصولی) اندرونی تبدیلیوں اور بیرونی و باطنی حسی تجربات کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ یہ حواس مادی بدن پر منحصر ہیں اور صرف دنیاوی جسمانی زندگی میں ہی وجود میں آتے ہیں۔[72]

مقام میثاق سے متعلق دیگر نظریات

عالمِ ذر کو میثاقِ الٰہی کا مقام ماننے والے نظریے کے علاوہ بھی اس بارے میں کئی آراء موجود ہیں: عقلی نظریہ: اس کے مطابق میثاق ایک اندرونی آگاہی ہے جو عقل و تفکر سے حاصل ہوتی ہے۔[73] وحی کا نظریہ: اس کے مطابق میثاق، انبیاء کے پیغام سے ماخوذ ایک عہد ہے۔[74] تمثیلی نظریہ: اس نظریے کے مطابق آیت کو ایک تصوراتی تصویر سمجھا جاتا ہے جو عقلی حجت کو ظاہر کرتی ہے۔[75] سید حیدر آملی (وفات: 787ھ) اور شیخ بہائی (وفات: 1031ھ) نے اسے عالمِ ارواح سے متعلق قرار دیا ہے جو انسان کی مادی تخلیق سے پہلے کا مرحلہ ہے۔[76] ایک گروہ کے مطابق: میثاق انسان کے وجود کے تمام مراتب میں جاری رہتا ہے۔[77] ملا صدرا (وفات: 1050ھ) کے نزدیک، میثاق کا تعلق عقلی مرتبہ اور افلاطونی مُثُل سے ہے۔[78] علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے انسان کا ایک وجود عالمِ ملکوت میں ہوتا ہے جہاں وہ بلاواسطہ خدا کو شہودی انداز میں دیکھتا اور اس کی وحدانیت سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہ شناخت حضوری ہوتی ہے، استدلال سے حاصل نہیں۔[79] فطرت کا نظریہ، جسے سید مرتضی اور عبد اللہ جوادی آملی نے بیان کیا، یہ کہتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کی بنیاد پر خدا کو جانتا اور اس کا اقرار کرتا ہے۔[80]

ترجمہ: کتاب مقاصد علیّہ

مونو گرافی

عالمِ ذر ہمیشہ سے شیعہ علما کا مورد توجہ موضوع رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں: عبد الحسین امینی نے اپنی کتاب "المَقاصِد العَلِیَّۃ فی المطالب السَنِیَّۃ" میں قرآن کی چار آیات کی تشریح و تفسیر کی ہے۔ ان میں سے ایک آیت، آیتِ میثاق ہے جس کی تفسیر میں انہوں نے 200 سے زیادہ صفحات میں عالمِ ذر کے موضوع پر بحث کی ہے۔[81] آقا بزرگ تہرانى (وفات: 1389ھ) نے اس تفسیر کو علامہ امینی کی ایک مستقل تصنیف قرار دیا ہے۔[82] اس کتاب کا فارسی ترجمہ بُشریٰ طباطبائی یزدی نے کیا ہے۔[83] اسی طرح آقا بزرگ تہرانى نے احمد احسائی کے ایک علمی رسالہ "رسالۃ فی علۃ خلق عالم الذر" کا بھی ذکر کیا ہے۔[84]

اس موضوع پر دیگر چند کتب:

  • عالم ذر و عوالم پیش از دنیا(فارسی): «عالم ذرّ و عوالم پیش از دنیا از ادیان و آیین‌ہا» کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ؛ علی افضلی نے اس مجموعے کو مرتب کیا ہے؛ [85]
  • سَدّ المَفَرّ علی مُنکِر عالَمِ الذّر؛ مصنف: محمد باقر علم‌ الہدی؛[86]
  • جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان؛ مصنف: محمد بیابانی اسکویی؛[87]
  • عالم ذر؛ آغاز شگفت‌انگیز زندگی انسان؛ مصنف: محمدرضا اکبری؛[88]
  • عالمُ الذر؛ حقیقۃ ام خیال؛ مصنف: مالک مصطفی وہبی عاملی؛[89]
  • عالم ذر؛ مصنف: حسین صدری‌نیا۔[90]

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392شمسی، ج31، ص74۔
  2. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص433۔
  3. صدری‌نیا، عالم ذر، 1388شمسی، ص49۔
  4. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص6-13؛ ابن‌ ابی‌ حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1‍419ھ، ج5، ص1612-1613۔
  5. ملاحظہ کیجیے: شیخ حر عاملی، الفصول المہمۃ في أصول الأئمۃ، 1418ھ، ج1، ص425؛ جزایری، نورالبراہین، 1417ھ، ج2، ص184-185۔
  6. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، المسائل السرویۃ، 1413ھ، ص46؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص315-316۔
  7. ملاحظہ کیجیے: خوئی، صراط النجاۃ فی اجوبۃ الاستفتائات، 1416ھ، ج1، ص469؛ مصباح یزدی، معارف قرآن (1-3)، 1386شمسی، ص48۔
  8. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص433۔
  9. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص324۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص441؛ مازندرانی، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، 1382ھ، ج8، ص17-19۔
  11. اکبری، عالم ذر: آغاز شگفت انگيز زندگی انسان، 1387شمسی، ص141-151۔
  12. ملاحظہ کیجیے: آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج4، ص259-260 و ج5، ص361-362؛ شیخ بہایی، الأربعون حديثا، 1431ھ،‌ ص78۔
  13. ملاحظہ کیجیے: استرآبادی، الحاشیۃ علی اصول الکافی، 1430ھ، ص177؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيّد الساجدين‏، 1409ھ، ج1، ص304۔
  14. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص136۔
  15. ملاحظہ کیجیے: قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص340؛ صفار، بصائر الدرجات في فضائل آل محمّد(ص)، 1404ھ، ج1، ص85؛ نعمانی، الغیبۃ، 1397ھ، ص189۔
  16. ملاحظہ کیجیے: مازندرانی، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، 1382ھ، ج8، ص13۔
  17. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص434۔
  18. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص442۔
  19. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص516۔
  20. شیخ صدوق، الہدایۃ، 1418ھ، ص24-25۔
  21. استرآبادی، الحاشیۃ علی اصول الکافی، 1430ھ، ص177۔
  22. مازندرانی، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، 1382ھ، ج7، ص121 و ص124 و ص128 و ج8، ص38۔
  23. شریف لاہیجی، تفسیر شریف لاہیجی، 1373شمسی، ج2، ص123-127۔
  24. شیخ حر عاملی، الفصول المہمۃ في أصول الأئمۃ، 1418ھ، ج1، ص425۔
  25. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج5، ص257؛ مجلسی، مرآۃ العقول في شرح أخبار آل الرسول‏، 1404ھ، ج5، ص16-161۔
  26. تفرشی، حاشیہ بر من لایحضرہ الفقیہ، بہ نقل از: خواجویی، جامع‌ الشتات، 1418ھ، ص68۔
  27. کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيّد الساجدين‏، 1409ھ، ج1، ص304۔
  28. جزایری، نورالبراہین، 1417ھ، ج2، ص184-185۔
  29. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ في شرح نہج البلاغۃ، 1400ھ، ج2، ص147۔
  30. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص136-138۔
  31. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص196-234۔
  32. ملاحظہ کیجیے: بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج2، ص72-73؛ مجلسی، مرآۃ العقول في شرح أخبار آل الرسول، 1363شمسی، ج7، ص36-37؛ جزایری، الأنوار النعمانيۃ، 1429ھ، ج1، ص201۔
  33. شریف لاہیجی، تفسیر شریف لاہیجی، 1373شمسی، ج2، ص123۔
  34. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص442۔
  35. ملکی میانجی، توحید الإمامیۃ، 1415ھ، ص125۔
  36. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص445۔
  37. رشتی، اصول العقائد، 1430ھ، ص62؛ محمدی ری‌‌شہری، موسوعۃ العقائد الإسلامیۃ فی الکتاب و السنۃ، 1429ھ، ج3، ص58۔
  38. طیب، أطیب البیان في تفسیر القرآن، 1378شمسی، ج12، ص422۔
  39. شیخ حر عاملی، الفصول المہمۃ في أصول الأئمۃ، 1418ھ، ج1، ص425۔
  40. جزایری، نورالبراہین، 1417ھ، ج2، ص184-185۔
  41. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ في شرح نہج البلاغۃ، 1400ھ، ج2، ص147۔
  42. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص270-289۔
  43. عیاشی، تفسير العيّاشي، 1380ھ، ج2، ص39-40؛ برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص241؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص71-72؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص330؛ شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص118۔
  44. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص13۔
  45. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص118۔
  46. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص12۔
  47. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص6-7۔
  48. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1،‌ ص133۔
  49. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص12۔
  50. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص136-138۔
  51. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص317-318۔
  52. شیخ مفید، المسائل السرویۃ، 1413ھ، ص46۔
  53. سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص376۔
  54. شیخ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص29۔
  55. طبرسی، مجمع‌البیان، 1408ھ، ج4، ص765۔
  56. فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ص502۔
  57. شرف الدین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، 1432ھ، ص16-17۔
  58. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص315-316۔
  59. سبزواری، مواہب الرحمن في تفسير القرآن، 1414ھ، ج5، ص30۔
  60. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج7، ص8۔
  61. جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392شمسی، ج31، ص74-89۔
  62. سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص376۔
  63. شیخ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص29؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص312۔
  64. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص312۔
  65. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج7، ص9-10۔
  66. جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392شمسی، ج31، ص89۔
  67. شیخ مفید، المسائل السرویۃ، 1413ھ، ص46؛ شیخ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص29۔
  68. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، ص487۔
  69. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص113-114؛ شیخ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص29۔
  70. شیخ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص28۔
  71. ابن‌طاووس، سعد السعود للنفوس منضود، دار الذخائر،‌ ص202۔
  72. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص316۔
  73. شیخ مفید، المسائل العکبریۃ، 1413ھ، ص113؛ سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377؛ فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ص502؛ شرف الدین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، 1432ھ، ص16-17۔
  74. سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص27-28۔
  75. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص176؛ ابوحیان، البحر المحیط في التفسیر، 1420ھ، ج5، ص218-220۔
  76. آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج4، ص259-260 و ج5، ص361-362؛ شیخ بہایی، الأربعون حديثا، 1431ھ،‌ ص78۔
  77. ملاحظہ کیجیے: قاضی سعید قمی، شرح الاربعین، 1412ھ، 365-367؛ سبزواری، مواہب الرحمن في تفسير القرآن، 1414ھ، ج5، ص30۔
  78. صدرالدین شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366شمسی، ج2، ص243۔
  79. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص318-321۔
  80. سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377-378؛ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392شمسی، ج31، ص119۔
  81. امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص131-336۔
  82. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1408ھ، ج4، ص323۔
  83. امینی، مقاصد علیہ: در بیان مراد چہار آیہ قرآن کریم، 1401شمسی، شناسنامہ کتاب۔
  84. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1408ھ، ج15، ص328۔
  85. افضلی، عالم ذر و عوالم پیش از دنیا، 1403ش، شناسنامہ کتاب۔
  86. علم الہدی، سد المفر علی منکر عالم الذر، 1433ق، شناسنامہ کتاب۔
  87. بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394شمسی، شناسنامہ کتاب۔
  88. اکبری، عالم ذر: آغاز شگفت انگيز زندگی انسان، 1387شمسی، شناسنامہ کتاب۔
  89. عاملی، عالم الذر: حقیقۃ أم خیال، 1433ھ، شناسنامہ کتاب۔
  90. صدری‌نیا، عالم ذر، 1388شمسی، شناسنامہ کتاب۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • آملی، حیدر بن علی، تفسیر المحیط الأعظم و البحر الخضم في تأویل کتاب اللہ العزیز المحکم، قم، نور علی نور، 1428ھ۔
  • ابوحیان، محمد بن یوسف، البحر المحیط في التفسیر، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
  • ابن‌ابی‌حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، 1‍419ھ۔
  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، سعد السعود للنفوس منضود، قم، دار الذخائر،‌ بی‌تا۔
  • استرآبادی، محمدامین بن محمدشریف، الحاشیۃ علی اصول الکافی، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحديث. سازمان چاپ و نشر، 1430ھ۔
  • افضلی، علی، عالم ذر و عوالم پیش از دنیا، تہران، موسسہ پژوہشی حکمت و فلسفہ ایران، 1403ہجری شمسی۔
  • اکبری، محمدرضا، عالم ذر: آغاز شگفت انگيز زندگی انسان، قم، انتشارات مسجد جمکران، 1387ہجری شمسی۔
  • امینی، عبدالحسین، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، قم، دارالتفسیر، 1434ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، مقاصد علیہ: در بیان مراد چہار آیہ قرآن کریم، ترجمہ بشری طباطبایی یزدی، تہران، بنیاد محقق طباطبایی، 1401ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، دارالکتب الإسلامیۃ، 1371ھ۔
  • برقی، احمد بن محمدبن خالد، المحاسن، قم،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، 1371ھ۔
  • بلخی، مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • بیابانی اسکویی، محمد، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، تہران، موسسہ فرہنگی نبأ، 1394ہجری شمسی۔
  • جزایری، نعمۃاللہ بن عبداللہ، الأنوار النعمانيۃ، بیروت، دار القاری، 1429ھ۔
  • جزایری، نعمۃاللہ بن عبداللہ، نورالبراہین، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم. مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1417ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، قم، اسراء، 1392ہجری شمسی۔
  • خوئی، ابوالقاسم، صراط النجاۃ فی اجوبۃ الاستفتائات، با تعلیقات جواد تبریزی، قم، دفتر نشر برگزيدہ، 1416ھ۔
  • خواجویی، اسماعیل بن محمدحسین، جامع‌ الشتات، بی‌جا، بی‌نا، 1418ھ۔
  • رشتی، کاظم بن قاسم، اصول العقائد، بیروت، دارامہجۃ البیضاء، 1430ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
  • سبزواری، عبدالاعلی، مواہب الرحمن في تفسير القرآن، قم، مکتب سماحۃ آیۃ اللہ العظمی السید السبزواری، 1414ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، تفسیر الشریف المرتضی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، 1431ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، دارالقرآن کریم، 1405ھ۔
  • شرف الدین، عبدالحسین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، بیروت، مؤسسۃ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، 1432ھ۔
  • شریف لاہیجی، محمد بن علی، تفسیر شریف لاہیجی، تہران، دفتر نشر داد، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ بہایی، محمد بن عزالدین، الأربعون حديثا، قم، جماعۃ العلماء و المدرسين في الحوزۃ العلميۃ بقم المقدسۃ، 1431ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ في أصول الأئمۃ، قم، موسسہ معارف اسلامى امام رضا(ع)، 1418ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الہدایۃ، قم، موسسہ امام ہادی(ع)، 1418ھ۔
  • شیخ صدوق، محمدبن علی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، 1398ھ۔
  • شیخ صدوق، محمدبن علی، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، 1385ھ۔
  • شیخ طوسی،‌ محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل السرویۃ، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل العکبریۃ، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • صدرالدین شیرازی، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، قم، بیدار، 1366ہجری شمسی۔
  • صدری‌نیا، حسین، عالم ذر، تہران، سایہ روشن، 1388ہجری شمسی۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات في فضائل آل محمّد(ص)، قم، مكتبۃ آيۃ اللہ المرعشي النجفي‏، 1404ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، الاعلمی فی المطبوعات، 1393ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌البیان، بیروت، دارالمعرفۃ، 1408ھ۔
  • طیب، عبدالحسین، أطیب البیان في تفسیر القرآن، تہران، نشر اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • عاملی، مالک مصطفی وہبی، عالم الذر: حقیقۃ أم خیال، بغداد، مكتبۃ الكلمۃ الطيبۃ، 1433ھ۔
  • علم الہدی، محمدباقر، سد المفر علی منکر عالم الذر، بیروت، دارالعلوم، 1433ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، مکتبۃ العلميۃ الاسلاميۃ، 1380ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى‏، الوافی، اصفہان، كتابخانہ امام أمير المؤمنين على(ع)‏، 1406ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، 1404ھ۔
  • کبیر مدنی شیرازی، سیدعلی‌خان بن احمد، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيّد الساجدين‏، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم. مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1407ھ۔
  • مازندرانی، محمدصالح بن احمد، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، 1382ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، بیروت، دار إحياء التراث العربي‏، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول في شرح أخبار آل الرسول، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1363ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول في شرح أخبار آل الرسول‏، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1404ھ۔
  • محمدی ری‌‌شہری، محمد، موسوعۃ العقائد الإسلامیۃ فی الکتاب و السنۃ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحديث. سازمان چاپ و نشر، 1429ھ۔
  • مروارید، حسنعلی، تنبیہات حول المبدأ و المعاد، مشہد، آستانۃ الرضويۃ المقدسۃ. مجمع البحوث الإسلاميۃ، 1418ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، معارف قرآن (1-3): خداشناسی، کيہان‌شناسی، انسان‌شناسی، قم، موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • ملکی میانجی، محمدباقر، توحید الإمامیۃ، تہران، وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی. موسہ چاپ و انتشارات، 1415ھ۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، تہران، نشر صدوق، 1397ھ۔
  • ہاشمی خویی، حبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ في شرح نہج البلاغۃ‏، تہران، مکتبۃ الإسلاميۃ، 1400ھ۔