دعائے کمیل

ویکی شیعہ سے
(دعائے خضر سے رجوع مکرر)
دعائے کمیل
کوائف
دیگر اسامی:دعائے خضر
موضوع:خدا کی شناخت اور گناہوں کی مغفرت کی درخواست
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام علیؑ
راوی:کمیل بن زیاد نخعی
شیعہ منابع:مصباح المتہجداقبال الاعمالزاد المعاد
مخصوص وقت:شب جمعہپندرہ شعبان
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دعا و مناجات

دعائے کُمَیل وہ دعا ہے جسے کمیل بن زیاد نخعی نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے۔ یہ دعا معرفت خداوندی کے سلسلے میں اعلی و ارفع مضامین نیز اللہ تعالی سے گناہوں کی بخشش کی درخواست پر مشتمل ہے۔ علامہ مجلسی نے دعائے کمیل کو بہترین دعا قرار دی ہے۔ یہ دعا شیعیان اہل بیت کے ہاں رائج دعاؤں میں سے ہے جو نیمہ شعبان اور ہر شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔

کمیل

تفصیلی مضمون: کمیل بن زیاد نخعی

زیادہ تر علمائے رجال کمیل کو تابعی[1] کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں صحابہ کے سوانح نگاروں نے بھی ان کا نام صحابہ کے زمرے میں ذکر نہیں کیا ہے لیکن چونکہ ان کی نوجوانی کا کچھ حصہ آپؐ کے ایام حیات میں گذرا ہے لہذا ان کے صحابی ہونے کا احتمال قویّ ہے؛ کیونکہ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو اس کے مطابق آپؐ کے وصال کے وقت کمیل 18 سالہ نوجوان تھا۔ کمیل زیاد بن نہیک نخعی قبیلۂ نخع، اصحاب رسولؐ کے تابعین اور امام علی اور امام حسن مجتبی کے اصحاب خاص میں سے ہیں۔ وہ ان شیعیان اہل بیت میں سے ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے پہلے روز ہی آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی اور جنگ صفین سمیت امیرالمؤمنین کی جنگوں میں حاضر تھے۔ انہیں امیرالمؤمنینؑ کے صاحبِ سرّ جانا جاتا ہے۔ کمیل بن زیاد نخعی ان 10 افراد میں سے ہیں جنہیں عثمان نے کوفہ سے شام جلاوطن کیا تھا۔[2] کمیل سنہ 82 ہجری میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں قتل ہوئے۔[3]

چونکہ یہ دعا کمیل بن زیاد نے امام علیؑ سے نقل کی ہے، اسی لئے دعائے کمیل کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔

دعائے کمیل کی سند

دعائے کمیل کا ماخذ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد[4] ہے۔ شیخ طوسی نے اس دعا کو، دعائے خضر کے عنوان سے ماہ شعبان کے اعمال کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ شیخ طوسی فرماتے ہیں: "مروی ہے کہ کمیل بن زیاد نخعی نے امیرالمؤمنینؑ کو دیکھا جو نیمہ شعبان کی رات کو یہ دعا پڑھ رہے تھے؛ بعدازاں وہ اس مشہور دعا کو نقل کرتے ہیں"۔

سید ابن طاؤس نے دعائے کمیل کو اقبال الاعمال[5] میں، علامہ مجلسی نے زاد المعاد[6] میں اور کفعمی نے بلد الامین اور [7] مصباح[8] میں، نیمہ شعبان کے اعمال کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ شیخ عباس قمی نے بھی مفاتیح الجنان [9] میں دعائے کمیل کو مصباح المتہجد سے نقل کیا ہے اور علامۂ مجلسی[10] نے دعائے کمیل کو بہترین دعا قرار دیا ہے۔

مضامین

دعائے کمیل سے ایک اقتباس

فَهَبْنِي يَا إِلَهِي وَ سَيِّدِي وَ مَوْلاَيَ وَ رَبِّي صَبَرْتُ عَلَى عَذَابِكَ فَكَيْفَ أَصْبِرُ عَلَى فِرَاقِكَ‏ وَ هَبْنِي صَبَرْتُ عَلَى حَرِّ نَارِكَ فَكَيْفَ أَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِ إِلَى كَرَامَتِكَ‏ أَمْ كَيْفَ أَسْكُنُ فِي النَّارِ وَ رَجَائِي عَفْوُكَ

ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ص 586

حضرت علیؑ اس دعا کا آغاز اللہ کے نام سے کرتے ہیں اور اس کے بعد کئی فقروں میں اللہ کو اس کی رحمت، قدرت، جبروت، عزت، عظمت، سلطنت، ذات، اسماء، علم اور نور خداوندی کی قسم دیتے ہیں۔ اور پھر "یا نُورُ یا قُدُّوسُ یا أَوَّلَ الْأَوَّلِینَ وَیا آخِرَ الْآخِرِینَ" جیسے اسماء و صفات سے خدا کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتے ہیں اور انسان کے اعمال کے انجام کی یادآوری کراتے ہیں اور اللہ سے بخشش کی التجا کرتے ہیں۔

امیرالمؤمنینؑ اگلے فقرے میں اللہ کی یاد اور نام سے اس کی قربت طلب کرتے ہیں، خدا ہی کو اس کی درگاہ میں شفیع قرار دیتے ہیں اور اللہ سے اپنی بارگاہ میں قربت عطا کرنے، شکرگزاری کا طریقہ سکھانے کی دعا کرتے ہیں۔ اپنے نفس کو اللہ کے ذکر اور اس کی یاد کی تلقین کرتے ہیں اور اللہ سے خشوع و خضوع پانے کی درخواست کرتے ہیں اور بعض عبارات میں حق تعالی کی نسبت اپنے اشتیاق کی شدت کا اظہار کرتے ہیں۔

آپؑ دعا کو جاری رکھتے ہوئے اللہ کے عالم‏گیر پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور بعض عبارات کے ضمن میں اللہ کو ستار العیوب (خطائیں چھپانے والا) اور غفار الذنوب (گناہوں کا بخشنے والا) کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔

دعا کی اگلی شقوں میں، امیرالمؤمنینؑ اللہ کے ستار العیوب ہونے، بلاؤں کے ٹالنے، لغزشوں سے محفوظ رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور بیان فرماتے ہیں کہ بندہ تعریف و تمجید کا استحقاق نہیں رکھتا۔ آپؑ اشارہ کرتے ہیں کہ انسان کس قدر کمزور، ضعیف، ناقص اور بدحال ہے، بلائیں اور آزمائشیں کس قدر بھاری ہیں اور بندہ کس قدر مصیبتوں کا نشانہ، قصور وار، اور عاجز و بے بس ہے، آپ ان ساری نارسائیوں، نقائص اور مصائب سے اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے ان بلاؤں کو ٹال دینے کی درخواست کرتے ہیں اور اللہ کی عزت کو وسیلہ قرار دے کر اپنی التجائیں اور درخواستیں اس کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں اور تسویلِ نفس[11] اور تزئین شیطان[12] کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اللہ کے لطف و کرم کی ازلیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خداوند متعال یکتا پرستوں اور بندگی کرنے والے انسانوں کو جہنم میں نہیں جلاتا۔

بعدازاں امامؑ دنیا کی آزمائشوں کا آخرت کی بلاؤں سے موازنہ کراتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: "اے میرے مولا! اگر میں تیرے عذاب پر صبر کر ہی لوں تو تجھ سے دوری اور تیرے فراق پر کیونکر صبر کروں گا؟۔اور پھر اللہ کی رحمت پر بندہ مؤمن کی امید کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "کیا مؤمن اور کافر برابر ہیں۔" اور آخر میں اللہ کو اس کی صفات سے ندا کرتے ہیں اور خداوند متعال سے حاجتیں طلب کرتے ہیں۔

قرائت کا ثواب

امام خمینی(رح)

دعائے کمیل ایک عجیب دعا ہے، بہت زيادہ عجیب۔ دعائے کمیل کے بعض فقرے معمولی انسان سے صادر نہیں ہوسکتے

صحیفه امام، جلد 19 - صفحہ 64

سید بن طاؤس اپنی کتاب اقبال الاعمال میں[13] مصباح المتہجد میں شیخ طوسی کا کلام نقل کرنے کے بعد ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ کمیل بن زیاد نخعی کہتے ہیں: "ایک دن میں، مسجد بصرہ میں، اپنے مولا امام علیؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور آپؑ کے بعض دوسرے اصحاب بھی حاضر تھے؛ امام علیؑ سے پوچھا گیا کہ اس ارشاد ربانی کا کیا مطلب ہے:

"فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ترجمہ: اس (رات) میں فیصلہ ہوتا ہے ہر حکیمانہ بات کا۔[14]

تو آپؑ نے فرمایا: وہ نصف شعبان کی رات ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ید قدرت میں علی کی جان ہے، کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے سوا اس کے کہ جو کچھ بھی نیکی اور بدی میں سے اس پر گذرتا ہے، نصف شعبان کی رات کو ـ آخر سال تک ـ اس کے لئے تقسیم کیا جاتا ہے؛ اور جو بھی بندہ اس رات کو حالت عبادت میں شب بیداری کرے اور دعائے حضرت خضر کو پڑھ لے، اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔

کمیل کہتے ہیں: امیرالمؤمنین ؑ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے، میں رات کے وقت آپ ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے پوچھا: کس غرض سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: دعائے خضر کی طلب میں آیا ہوں۔ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: اے کمیل! جب اس دنیا کو ازبر کردو تو ہر شب جمعہ، یا ہر مہینے ایک بار یا کم از کم اپنی پوری زندگی میں ایک بار اس کو پڑھو تا کہ تمہارے امور کی کفایت ہو۔ خداوند متعال تمہاری مدد کرتا ہے، تمہارا رزق وسیع ہو جاتا ہے اور ہاں تم ہرگز مغفرت سے محروم نہیں ہوگے۔ اے کمیل! جس مدت سے ہمارے مصاحب ہو، یہی طویل مصاحبت ہی اس بات کا سبب بنی ہے کہ میں نے تمہیں اس قدر عظیم نعمت و کرامت سے نوازا ہے۔ اے کمیل لکھو: اَللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِرَحْمَتِک الَّتِی وَسِعَتْ کلَّ شَیءٍ ۔۔۔

فقہی حکم

جُنُب مرد یا عورت اور حائض عورت اگر دعائے کمیل پڑھنا چاہے تو احوط اور بہتر یہ ہے کہ آیت أَفَمَن كَانَ مُؤْمِناً كَمَن كَانَ فَاسِقاً لَّا يَسْتَوُونَ (ترجمہ: تو کیا جو مؤمن ہے، وہ مثل اس کے ہے جو بد اعمال ہو؟ وہ برابر نہیں ہیں)[؟–18]"۔ کو ـ جو کہ دعا میں شامل ہے ـ نہ پڑھے کیونکہ یہ سورہ سجدہ کی آیت ہے۔[15] تاہم بعض دوسرے فقہاء اس آیت کی تلاوت کو جنب اور حائض کے لئے حرام سمجھتے ہیں۔[16]

وقت قرائت

کتاب اقبال الاعمال میں سید بن طاؤس کے کہنے کے مطابق،دعائے کمیل[17] کا وقتِ قرائت نصف شعبان کی رات نیز شب جمعہ ہے اور ایران اور عراق سمیت دنیا بھر کے شیعیان اہل بیت کی رسم یہ ہے کہ وہ مذہبی مقامات پر اجتماعی صورت میں دعائے کمیل کی قرائت کرتے ہیں۔

شروح و تراجم

دعائے کمیل کی بعض شرحیں اور تراجم حسب ذیل ہیں:

  1. ترجمۂ دعائے کمیل، بقلم علامہ محمد باقر مجلسی؛
  2. شرح دعائے کمیل، بقلم میرزا ابوالحسن لاری، جو صاحب الذریعہ کے مصنف علامہ محمد محسن آقا بزرگ طہرانی کے ہم عصر تھے، جو علامہ مجلسی کی کتاب زاد المعاد کے حاشیے میں مندرج ہے؛
  3. شرح دعائے کمیل، بقلم مولی عبداللہ سبزواری (متوفی 1324 ھ‍) ـ جو حاج ملا ہادی سبزواری کے شاگرد تھے اور سنہ 1343 ھ‍ میں وفات پاچکے ہیں؛
  4. دعائے کمیل، از امام علی بن ابی طالبؑ جو دعا کے ترجمے اور شرع پر مشتمل ہے اور سنہ 1351 ھ‍ میں شائع ہوچکی ہے؛
  5. شرح دعائے کمیل، بقلم میرزا عباس دارابی، جو حاج ملا ہادی سبزواری کے شاگرد ہیں؛
  6. انیس اللیل در شرح دعائے کمیل، بقلم مرحوم حاج محمد رضا کلباسی؛
  7. دعائے کمیل و ندبہ، اس دنیا کا موزون و منظوم ترجمہ ہے؛ یہ منظوم ترجمہ ابوالقاسم امین زادہ نے کیا ہے جو تہران سے شائع ہوا ہے؛
  8. ترجمۂ دعائے کمیل، (بہ زبان اردو)، بقلم مولوی مقبول احمد، جو شیخ آقا بزرگ طہرانی کے ہم عصر تھے؛
  9. ترجمۂ دعائے کمیل، (بہ زبان انگریزی)، بقلم سید رضی ہندی، جو صاحب الذریعہ کے ہم عصر تھے؛
  10. ترجمۂ دعائے کمیل، بمع شرح دعا بقلم محمد علی مدرس چہاردہی(متوفی 1334 ھ‍
  11. شرح دعائے کمیل، عربی اور فارسی بقلم محمد ابراہیم سبزواری (متولد 1291 ھ‍
  12. شرح دعائے کمیل، بقلم میرزا ابوالقاسم بن حجت مامقانی ( ولادت 1285- وفات 1321 ھ‍
  13. شرح دعائے کمیل، بقلم سید ابوالمکارم موسوی زنجانی (متوفی 1320 ھ‍
  14. شرح دعائے کمیل، بعنوان مفتاح المراد؛
  15. شرح دعائے کمیل، بقلم میرزا محمد علی رشتی نجفی (متوفی 1334 ھ‍
  16. شرح دعائے کمیل، بقلم میرزا محمد تُنِکابُنی؛
  17. شرح دعائے کمیل، بقلم محمد نجف کرمانی مشہدی (متوفی 1292 ھ‍
  18. شرح دعائے کمیل، از میرزا یوسف خوانساری؛
  19. المصباح المنیر، بقلم: میرزا علی مشکینی، انھوں نے اس کتاب میں دعائے کمیل اور اس کا ترجمہ درج کیا ہے؛
  20. کمیل و نیایش، بقلم شیخ عباس مخبر دزفولی؛
  21. آہنگِ نیایش، بقلم شیخ احمد رجبی اصفہانی؛
  22. درمان روح و روان، بقلم شیخ محمد باقر ملبوبی؛
  23. شرح دعائے کمیل بقلم ابوتراب ہدائی؛
  24. کمیل مَحرَمِ اَسرارِ امیرالمومنین؛
  25. نفحات اللیل در شرح دعائے کمیل، بقلم محمد رضا کلباسی؛ اس کتاب کی تالیف سنہ 1375 ھ‍ مشہد مقدس میں مکمل ہو چکی ہے؛
  26. فی رحاب دعاء کمیل، بقلم سید محمد حسین فضل اللہ؛
  27. علی و کمیل، بقلم احمد زمردیان؛
  28. شرح دعائے کمیل، بقلم حسین انصاریان؛
  29. زمزمہ عاشقان، بقلم لطف الله میثمی؛
  30. ترجمۂ دعائے کمیل بقلم شہید مصطفی چمران؛
  31. دعائے کمیل، بقلم محمود بہشتی؛ یہ کتاب دعائے کمیل کا ترجمہ اور مختصر شرح پر مشتمل ہے؛
  32. نیایش عارفان، شرحِ حکمتِ و معنویتِ شیعی در دعائے کمیل بقلم محمد فنائی ِاشکَوَری۔[18]

دعائے کمیل اور ترجمہ

دعائے کمیل
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك بِرَحْمَتِك الَّتِي وَسِعَتْ كلَّ شَيءٍ وَبِقُوَّتِك الَّتِي قَهَرْتَ بِهَا كلَّ شَيءٍ وَخَضَعَ لَهَا كلُّ شَيءٍ وَذَلَّ لَهَا كلُّ شَيءٍ وَبِجَبَرُوتِك الَّتِي غَلَبْتَ بِهَا كلَّ شَيءٍ وَبِعِزَّتِك الَّتِي لايقُومُ لَهَا شَيءٌ وَبِعَظَمَتِك الَّتِي مَلَأَتْ كلَّ شَيءٍ وَبِسُلْطَانِك الَّذِي عَلاَ كلَّ شَيءٍ وَبِوَجْهِك الْبَاقِي بَعْدَ فَنَاءِ كلِّ شَيءٍ وَبِأَسْمَائِك الَّتِي مَلَأَتْ أَرْكانَ كلِّ شَيءٍ وَبِعِلْمِك الَّذِي أَحَاطَ بِكلِّ شَيءٍ وَبِنُورِ وَجْهِك الَّذِي أَضَاءَ لَهُ كلُّ شَيءٍ، يا نُورُ يا قُدُّوسُ يا أَوَّلَ الْأَوَّلِينَ وَيا آخِرَ الْآخِرِينَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تَهْتِك الْعِصَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَيرُ النِّعَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ الدُّعَاءَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلاَءَ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي كلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتُهُ وَكلَّ خَطِيئَةٍ أَخْطَأْتُهَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيك بِذِكرِك وَأَسْتَشْفِعُ بِك إِلَي نَفْسِك وَأَسْأَلُك بِجُودِك أَنْ تُدْنِينِي مِنْ قُرْبِك وَأَنْ تُوزِعَنِي شُكرَك وَأَنْ تُلْهِمَنِي ذِكرَك اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خَاشِعٍ أَنْ تُسَامِحَنِي وَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِك رَاضِيا قَانِعاً وَفِي جَمِيعِ الْأَحْوَالِ مُتَوَاضِعاً،

اَللَّهُمَّ وَأَسْأَلُك سُؤَالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فَاقَتُهُ وَأَنْزَلَ بِك عِنْدَ الشَّدَائِدِ حَاجَتَهُ وَعَظُمَ فِيمَا عِنْدَك رَغْبَتُهُ اللَّهُمَّ عَظُمَ سُلْطَانُك وَعَلاَ مَكانُك وَخَفِي مَكرُك وَظَهَرَ أَمْرُك وَغَلَبَ قَهْرُك وَجَرَتْ قُدْرَتُك وَلايمْكنُ الْفِرَارُ مِنْ حُكومَتِك،

اَللَّهُمَّ لاأَجِدُ لِذُنُوبِي غَافِراً وَلالِقَبَائِحِي سَاتِراً وَلا لِشَيءٍ مِنْ عَمَلِي الْقَبِيحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَيرَك لاإِلَهَ اِلّا أَنْتَ سُبْحَانَك وَبِحَمْدِك ظَلَمْتُ نَفْسِي وَتَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي وَسَكنْتُ إِلَي قَدِيمِ ذِكرِك لِي وَمَنِّك عَلَي اللَّهُمَّ مَوْلاَي كمْ مِنْ قَبِيحٍ سَتَرْتَهُ وَكمْ مِنْ فَادِحٍ مِنَ الْبَلاَءِ أَقَلْتَهُ وَكمْ مِنْ عِثَارٍ وَقَيتَهُ وَكمْ مِنْ مَكرُوهٍ دَفَعْتَهُ وَكمْ مِنْ ثَنَاءٍ جَمِيلٍ لَسْتُ أَهْلاً لَهُ نَشَرْتَهُ،

اَللَّهُمَّ عَظُمَ بَلاَئِي وَأَفْرَطَ بي سُوءُ حَالِي وَقَصُرَتْ بي اعْمَالِي وَقَعَدَتْ بي اغْلاَلِي وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِي بُعْدُ أَمَلِي (آمَالِي) وَخَدَعَتْنِي الدُّنْيا بِغُرُورِهَا وَنَفْسِي بِجِنَايتِهَا وَمِطَالِي يا سَيدِي فَأَسْأَلُك بِعِزَّتِك أَنْ لايحْجُبَ عَنْك دُعَائِي سُوءُ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلاتَفْضَحْنِي بِخَفِي مَا اطَّلَعْتَ عَلَيهِ مِنْ سِرِّي وَلاتُعَاجِلْنِي بِالْعُقُوبَةِ عَلَی مَا عَمِلْتُهُ فِي خَلَوَاتِي مِنْ سُوءِ فِعْلِي وَإِسَاءَتِي وَدَوَامِ تَفْرِيطِي وَجَهَالَتِي وَكثْرَةِ شَهَوَاتِي وَغَفْلَتِي،

وَكُنِ اَللَّهُمَّ بِعِزَّتِك لِي فِي كلِّ الْأَحْوَالِ رَءُوفاً وَعَلَي فِي جَمِيعِ الْأُمُورِ عَطُوفاً إِلَهِي وَرَبِّي مَنْ لِي غَيرُك أَسْأَلُهُ كشْفَ ضُرِّي وَالنَّظَرَ فِي أَمْرِي. إِلَهِي وَمَوْلاَي أَجْرَيتَ عَلَي حُكماً اتَّبَعْتُ فِيهِ هَوَی نَفْسِي وَلَمْ أَحْتَرِسْ فِيهِ مِنْ تَزْيينِ عَدُوِّي فَغَرَّنِي بِمَا أَهْوَی وَأَسْعَدَهُ عَلَی ذَلِك الْقَضَاءُ فَتَجَاوَزْتُ بِمَا جَرَی عَلَي مِنْ ذَلِك بَعْضَ (مِنْ نَقْضِ) حُدُودِك وَخَالَفْتُ بَعْضَ أَوَامِرِك فَلَك الْحَمْدُ عَلَي فِي جَمِيعِ ذَلِك وَلاحُجَّةَ لِي فِيمَا جَرَی عَلَي فِيهِ قَضَاؤُك وَأَلْزَمَنِي حُكمُك وَبَلاَؤُك،

وَقَدْ أَتَيتُك يا إِلَهِي بَعْدَ تَقْصِيرِي وَإِسْرَافِي عَلَی نَفْسِي مُعْتَذِراً نَادِماً مُنْكسِراً مُسْتَقِيلاً مُسْتَغْفِراً مُنِيباً مُقِرّاً مُذْعِناً مُعْتَرِفاً لاأَجِدُ مَفَرّاً مِمَّا كانَ مِنِّي وَلامَفْزَعاً أَتَوَجَّهُ إِلَيهِ فِي أَمْرِي غَيرَ قَبُولِك عُذْرِي وَإِدْخَالِك إِياي فِي سَعَةِ رَحْمَتِك اللَّهُمَّ فَاقْبَلْ عُذْرِي وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي وَفُكنِي مِنْ شَدِّ وَثَاقِي،

يا رَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي وَرِقَّةَ جِلْدِي وَدِقَّةَ عَظْمِي يا مَنْ بَدَأَ خَلْقِي وَذِكرِي وَتَرْبِيتِي وَبِرِّي وَتَغْذِيتِي هَبْنِي لاِبْتِدَاءِ كرَمِك وَسَالِفِ بِرِّك بي يا إِلَهِي وَسَيدِي وَرَبِّي أَ تُرَاك مُعَذِّبِي بِنَارِك بَعْدَ تَوْحِيدِك وَبَعْدَ مَا انْطَوَی عَلَيهِ قَلْبِي مِنْ مَعْرِفَتِك وَلَهِجَ بِهِ لِسَانِي مِنْ ذِكرِك وَاعْتَقَدَهُ ضَمِيرِي مِنْ حُبِّك وَبَعْدَ صِدْقِ اعْتِرَافِي وَدُعَائِي خَاضِعاً لِرُبُوبِيتِك،

هَيهَاتَ أَنْتَ أَكرَمُ مِنْ أَنْ تُضَيعَ مَنْ رَبَّيتَهُ أَوْ تُبْعِدَ مَنْ أَدْنَيتَهُ أَوْ تُشَرِّدَ مَنْ آوَيتَهُ أَوْ تُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاَءِ مَنْ كفَيتَهُ وَرَحِمْتَهُ وَلَيتَ شِعْرِي يا سَيدِي وَإِلَهِي وَمَوْلاَي أَ تُسَلِّطُ النَّارَ عَلَی وُجُوهٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِك سَاجِدَةً وَعَلَی أَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحِيدِك صَادِقَةً وَبِشُكرِك مَادِحَةً وَعَلَی قُلُوبٍ اعْتَرَفَتْ بِإِلَهِيتِك مُحَقِّقَةً وَعَلَی ضَمَائِرَ حَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِك حَتَّی صَارَتْ خَاشِعَةً وَعَلَی جَوَارِحَ سَعَتْ إِلَی أَوْطَانِ تَعَبُّدِك طَائِعَةً وَأَشَارَتْ بِاسْتِغْفَارِك مُذْعِنَةً مَا هَكذَا الظَّنُّ بِك وَلاأُخْبِرْنَا بِفَضْلِك عَنْك يا كرِيمُ يا رَبِ وَأَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِي عَنْ قَلِيلٍ مِنْ بَلاَءِ الدُّنْيا وَعُقُوبَاتِهَا وَمَا يجْرِي فِيهَا مِنَ الْمَكارِهِ عَلَی أَهْلِهَا عَلَی أَنَّ ذَلِك بَلاَءٌ وَمَكرُوهٌ قَلِيلٌ مَكثُهُ يسِيرٌ بَقَاؤُهُ قَصِيرٌ مُدَّتُهُ،

فَكيفَ احْتِمَالِي لِبَلاَءِ الْآخِرَةِ وَجَلِيلِ وُقُوعِ الْمَكارِهِ فِيهَا وَهُوَ بَلاَءٌ تَطُولُ مُدَّتُهُ وَيدُومُ مَقَامُهُ وَلايخَفَّفُ عَنْ أَهْلِهِ لِأَنَّهُ لايكونُ اِلّا عَنْ غَضَبِك وَانْتِقَامِك وَسَخَطِك وَهَذَا مَا لاتَقُومُ لَهُ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ يا سَيدِي فَكيفَ لِي وَأَنَا عَبْدُك الضَّعِيفُ الذَّلِيلُ الْحَقِيرُ الْمِسْكينُ الْمُسْتَكينُ يا إِلَهِي وَرَبِّي وَسَيدِي وَمَوْلاَي لِأَي الْأُمُورِ إِلَيك أَشْكو وَلِمَا مِنْهَا أَضِجُّ وَأَبْكي لِأَلِيمِ الْعَذَابِ وَشِدَّتِه‌ام لِطُولِ الْبَلاَءِ وَمُدَّتِهِ فَلَئِنْ صَيرْتَنِي لِلْعُقُوبَاتِ مَعَ أَعْدَائِك وَجَمَعْتَ بَينِي وَبَينَ أَهْلِ بَلاَئِك وَفَرَّقْتَ بَينِي وَبَينَ أَحِبَّائِك وَأَوْلِيائِك فَهَبْنِي يا إِلَهِي وَسَيدِي وَمَوْلاَي وَرَبِّي صَبَرْتُ عَلَی عَذَابِك فَكيفَ أَصْبِرُ عَلَی فِرَاقِك وَهَبْنِي (يا إِلَهِي) صَبَرْتُ عَلَی حَرِّ نَارِك فَكيفَ أَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِ إِلَی كرَامَتِك أَمْ كيفَ أَسْكنُ فِي النَّارِ وَرَجَائِي عَفْوُك،

فَبِعِزَّتِك يا سَيدِي وَمَوْلاَي أُقْسِمُ صَادِقاً لَئِنْ تَرَكتَنِي نَاطِقاً لَأَضِجَّنَّ إِلَيك بَينَ أَهْلِهَا ضَجِيجَ الْآمِلِينَ وَلَأَصْرُخَنَّ إِلَيك صُرَاخَ الْمُسْتَصْرِخِينَ وَلَأَبْكينَّ عَلَيك بُكاءَ الْفَاقِدِينَ وَلَأُنَادِينَّك أَينَ كنْتَ يا وَلِي الْمُؤْمِنِينَ يا غَايةَ آمَالِ الْعَارِفِينَ يا غِياثَ الْمُسْتَغِيثِينَ يا حَبِيبَ قُلُوبِ الصَّادِقِينَ وَيا إِلَهَ الْعَالَمِينَ،

أَ فَتُرَاك سُبْحَانَك يا إِلَهِي وَبِحَمْدِك تَسْمَعُ فِيهَا صَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فِيهَا بِمُخَالَفَتِهِ وَذَاقَ طَعْمَ عَذَابِهَا بِمَعْصِيتِهِ وَحُبِسَ بَينَ أَطْبَاقِهَا بِجُرْمِهِ وَجَرِيرَتِهِ وَهُوَ يضِجُّ إِلَيك ضَجِيجَ مُؤَمِّلٍ لِرَحْمَتِك وَينَادِيك بِلِسَانِ أَهْلِ تَوْحِيدِك وَيتَوَسَّلُ إِلَيك بِرُبُوبِيتِك يا مَوْلاَي فَكيفَ يبْقَی فِي الْعَذَابِ وَهُوَ يرْجُو مَا سَلَفَ مِنْ حِلْمِك أَمْ كيفَ تُؤْلِمُهُ النَّارُ وَهُوَ يامُلُ فَضْلَك وَرَحْمَتَك،

أَمْ كيفَ يحْرِقُهُ لَهِيبُهَا وَأَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَهُ وَتَرَی مَكانَه‌ام كيفَ يشْتَمِلُ عَلَيهِ زَفِيرُهَا وَأَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَه‌ام كيفَ يتَقَلْقَلُ بَينَ أَطْبَاقِهَا وَأَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَه‌ام كيفَ تَزْجُرُهُ زَبَانِيتُهَا وَهُوَ ينَادِيك يا رَبَّه‌ام كيفَ يرْجُو فَضْلَك فِي عِتْقِهِ مِنْهَا فَتَتْرُكهُ (فَتَتْرُكهُ) فِيهَا هَيهَاتَ مَا ذَلِك الظَّنُّ بِك وَلاالْمَعْرُوفُ مِنْ فَضْلِك وَلامُشْبِهٌ لِمَا عَامَلْتَ بِهِ الْمُوَحِّدِينَ مِنْ بِرِّك وَإِحْسَانِك،

فَبِالْيقِينِ أَقْطَعُ لَوْ لامَا حَكمْتَ بِهِ مِنْ تَعْذِيبِ جَاحِدِيك وَقَضَيتَ بِهِ مِنْ إِخْلاَدِ مُعَانِدِيك لَجَعَلْتَ النَّارَ كلَّهَا بَرْداً وَسَلاَماً وَمَا كانَ لِأَحَدٍ فِيهَا مَقَرّاً وَلامُقَاماً لَكنَّك تَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُك أَقْسَمْتَ أَنْ تَمْلَأَهَا مِنَ الْكافِرِينَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ وَأَنْ تُخَلِّدَ فِيهَا الْمُعَانِدِينَ وَأَنْتَ جَلَّ ثَنَاؤُك قُلْتَ مُبْتَدِئاً وَتَطَوَّلْتَ بِالْإِنْعَامِ مُتَكرِّماً،

أَفَمَن كَانَ مُؤْمِناً كَمَن كَانَ فَاسِقاً لَّا يَسْتَوُونَ اِلهي وَسَيدي فَاَسْئَلُك بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَها وَبِالْقَضِيةِ الَّتي حَتَمْتَها وَحَكمْتَها وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَيهِ اَجْرَيتَها اَنْ تَهَبَ لي في هذِهِ اللَّيلَةِ وَفي هذِهِ السّاعَةِ كلَّ جُرْمٍ اَجْرَمْتُهُ وَكلَّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ وَكلَّ قَبِيحٍ اَسْرَرْتُهُ وَكلَّ جَهْلٍ عَمِلْتُهُ كتَمْتُهُ اَوْ اَعْلَنْتُهُ اَخْفَيتُهُ اَوْ اَظْهَرْتُهُ وَكلَّ سَيئَةٍ اَمَرْتَ بِاِثْباتِهَا الْكرامَ الْكاتِبينَ اَلَّذينَ وَكلْتَهُمْ بِحِفْظِ ما يكونُ مِنّي وَجَعَلْتَهُمْ شُهُوداً عَلَی مَعَ جَوارِحي وَكنْتَ اَنْتَ الرَّقيبَ عَلَی مِنْ وَراَّئِهِمْ وَالشّاهِدَ لِما خَفِي عَنْهُمْ وَبِرَحْمَتِك اَخْفَيتَهُ وَبِفَضْلِك سَتَرْتَهُ وَاَنْ تُوَفِّرَ حَظّي مِنْ كلِّ خَيرٍ اَنْزَلْتَهُ اَوْ اِحْسانٍ فَضَّلْتَهُ اَوْ بِرٍّ نَشَرْتَهُ اَوْ رِزْقٍ بَسَطْتَهُ اَوْ ذَنْبٍ تَغْفِرُهُ اَوْ خَطَاءٍ تَسْتُرُهُ يا رَبِّ يا رَبِّ يا رَبِّ،

يا اِلهي وَسَيدي وَمَوْلاي وَمالِك رِقّي يا مَنْ بِيدِهِ ناصِيتي يا عَليماً بِضُرّي وَمَسْكنَتي يا خَبيراً بِفَقْري وَفاقَتي يا رَبِّ يا رَبِّ يا رَبِّ اَسْئَلُك بِحَقِّك وَقُدْسِك وَاَعْظَمِ صِفاتِك وَاَسْماَّئِك اَنْ تَجْعَلَ اَوْقاتي مِنَ اللَّيلِ وَالنَّهارِ بِذِكرِك مَعْمُورَةً وَبِخِدْمَتِك مَوْصُولَةً وَاَعْمالي عِنْدَك مَقْبُولَةً حَتّی تَكونَ اَعْمالي وَاَوْرادي كلُّها وِرْداً واحِداً وَحالي في خِدْمَتِك سَرْمَداً،

يا سَيدي يا مَنْ عَلَيهِ مُعَوَّلي يا مَنْ اِلَيهِ شَكوْتُ اَحْوالي يا رَبِّ يا رَبِّ يا رَبِّ قَوِّ عَلی خِدْمَتِك جَوارِحي وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزيمَةِ جَوانِحي وَهَبْ لِي الْجِدَّ في خَشْيتِك وَالدَّوامَ فِي الاِتِّصالِ بِخِدْمَتِك حَتّی اَسْرَحَ اِلَيك في مَيادينِ السّابِقينَ وَاُسْرِعَ اِلَيك فِي الْبارِزينَ وَاَشْتاقَ اِلی قُرْبِك فِي الْمُشْتاقينَ وَاَدْنُوَ مِنْك دُنُوَّ الْمُخْلِصينَ وَاَخافَك مَخافَةَ الْمُوقِنينَ وَاَجْتَمِعَ في جِوارِك مَعَ الْمُؤْمِنينَ اَللّهُمَّ وَمَنْ اَرادَني بِسُوَّءٍ فَاَرِدْهُ وَمَنْ كادَني فَكدْهُ وَاجْعَلْني مِنْ اَحْسَنِ عَبيدِك نَصيباً عِنْدَك وَاَقْرَبِهِمْ مَنْزِلَةً مِنْك وَاَخَصِّهِمْ زُلْفَةً لَدَيك فَاِنَّهُ لاينالُ ذلِك اِلّا بِفَضْلِك وَجُدْلي بِجُودِك وَاعْطِفْ عَلَي بِمَجْدِك،

وَاحْفَظْني بِرَحْمَتِك وَاجْعَلْ لِساني بِذِكرِك لَهِجاً وَقَلْبي بِحُبِّك مُتَيماً وَمُنَّ عَلَي بِحُسْنِ اِجابَتِك وَاَقِلْني عَثْرَتي وَاغْفِرْ زَلَّتي فَاِنَّك قَضَيتَ عَلی عِبادِك بِعِبادَتِك وَاَمَرْتَهُمْ بِدُعاَّئِك وَضَمِنْتَ لَهُمُ الاِجابَةَ فَاِلَيك يا رَبِّ نَصَبْتُ وَجْهي وَاِلَيك يا رَبِّ مَدَدْتُ يدي فَبِعِزَّتِك اسْتَجِبْ لي دُعاَّئي وَبَلِّغْني مُناي وَلاتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِك رَجاَّئي وَاكفِني شَرَّ الْجِنِّ وَالاِنْسِ مِنْ اَعْدآئي،

يا سَريعَ الرِّضا اِغْفِرْ لِمَنْ لايمْلِك اِلّا الدُّعاَّءَ فَاِنَّك فَعّالٌ لِما تَشاَّءُ يا مَنِ اسْمُهُ دَوآءٌ وَذِكرُهُ شِفاَّءٌ وَطاعَتُهُ غِنی اِرْحَمْ مَنْ رَأسُ مالِهِ الرَّجاَّءُ وَسِلاحُهُ الْبُكاَّءُ يا سابِغَ النِّعَمِ يا دافِعَ النِّقَمِ يا نُورَ الْمُسْتَوْحِشينَ فِي الظُّلَمِ يا عالِماً لايعَلَّمُ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَافْعَلْ بي ما اَنْتَ اَهْلُهُ وَصَلَّی اللّهُ عَلی رَسُولِهِ وَالاْئِمَّةِ الْمَيامينَ مِنْ الِهِ وَسَلَّمَ تَسْليماً كثيراً۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

اے میرے معبود! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں تیری رحمت کے واسطے، جو ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے؛ اور تیری قوت کے واسطے، جو کے ذریعے تو نے ہر چیز کو مقہور کرديا ہے، اور ہر شیئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور ہر شیئے اس کے سامنے خوار ہوچکی ہے؛ اور تیرے جبروت کے واسطے، جس کے ذریعے تو ہر شیئے پر غالب ہوا ہے اور تیری عزت کے واسطے جس کے سامنے کوئی بھی چیز ٹہر نہیں سکتی اور تیری ‏عظمت کے واسطے جو ہر شیئے کو پر کئے ہوئے ہے؛ اور تیری سلطنت کے واسطے جو ہر چیز پر برتری پا چکی ہے، اور تیرے جلوے کے واسطے جو باقی رہے گا ہر شیئے کی فناء کے بعد؛ اور تیرے اسماء کے واسطے جو ہر شیئے کی بنيادوں کو مالامال کرچکے ہیں اور تیرے علم کے واسطے جو محیط ہے ہے شیئے پر اور تیری ذات کے نور کے ساتھ جس کی کرنوں سے ہر شیئے تابندہ ہوچکی ہے،
اے نور، اے وہ جو ہر عیب سے پاک ہے، اور اے وہ جو اول الاولین (ہر آغاز کا آغاز)، اور آخر الآخرین (ہر آخر کا آخر) ہے؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو جو میری حرمت کی پردہ دری کرتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو جو بدبختياں نازل کرتی ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو نعمتوں کو دگرگوں کردیتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو دعا کو (تیری بارگاہ تک پہنچنے سے) باز رکھتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گاہوں کو جو بلاؤں کو اتار دیتے ہیں،
اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان تمام گناہوں کو جن کا میں مرتکب ہوا اور تمام خطاؤں کو جن سے میں آلودہ ہوا؛ اے اللہ! میں تیرے ذکر اور تیری ياد سے تیری قربت طلب کرتا ہوں، اور تیری ناخوشنودی سے تیری بارگاہ میں تیری شفاعت طلب کرتا ہوں؛ اور تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے اپنے جود و کرم سے اپنی بارگاہ کی قربت عطا فرما اور تیری شکرگزاری کی توفیق دے اور اپنی ياد مجھے الہام کر دے؛ اے اللہ! تجھ سے التجا کرتا ہوں، ایک منکسر، خوار و مطیع اور عاجز بندے کی التجا، کہ تو میرے ساتھ رواداری برتے، اور مجھ پر رحم کر دے اور جو کچھ تو نے میری قسمت میں لکھا ہے، اس پر مجھے راضی و قانع کردے، اور تمام احوال میں منکسرالمزاج اور متواضع قرار دے،
خدايا! تجھ سے التجا کرتا ہوں، اس شخص کی سی درخواست جو بہت ہی نادار اور تنگدست ہوچکا ہے، اور نہایت سختیوں اور مصائب کے وقت اپنی حاجتوں کو تیری درگاہ میں اتار چکا ہے اور اس کی رغبت اس شیئے کی جانب بڑھ چکی ہے جو تیرے پاس ہے؛ اے اللہ! تیری فرمانروائی بہت عظیم، تیرا رتبہ بہت بلند اور تیری تدبیر نہاں، اور تیرا فرمان آشکار، تیرا قہر غالب، تیری قوت نافذ اور تیری حکومت سے فرار ہونا ناممکن ہے،
اے اللہ! میں تیری ذات کے سوا، اپنے گناہوں کے لئے کوئی بخشندہ، اپنی بدکاریوں کے لئے کوئی پردہ پوش اور میری برائیوں کو خوبصورتی میں بدل دینے والا، نہیں پاتا؛ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو پاک و منزّہ ہے اور میں تیری حمد و ثناء کرتا ہوں؛ میں نے اپنے اوپر ستم روا رکھا ہے، اور نادانی کی وجہ سے جری ہوچکا ہوں، اور تیری طرف سے میری دیرینہ یاد اور میرے اوپر تیرے احسان کی وجہ سے پرسکون ہوگیا ہوں؛ اے اللہ! اے میرے سید و سرور! تو کس قدر زیادہ میری برائیوں کو چھپاغے رکھا اور کس قدر بھاری مصیبتیں تو نے مجھ سے پلٹا دیں اور کس قدر لغزشیں تھیں جن سے تو نے مجھے بچائے رکھا، اور کس قدر ناگواریاں جنہیں تو نے مجھ سے دور کر دیا، کس قدر ناپسندیدہ مسائل اور وقائع تھے جنہیں تو نے مجھ سے دور کردیا اور کس قدر اچھی اور پسندیدہ تعریفیں تھیں جن کے میں قابل نہ تھا لیکن تو نے میرے نام پر لوگوں کے درمیان پھیلا دیا،
اے اللہ! میری آزمائشیں عظيم ہوچکی ہیں اور میرے حال کی بدیاں حد سے گذر چکی ہیں اور میرے کردار نے مجھے خوار کردیا ہے، اور میرے اعمال ناقص اور کوتاہ ہوچکے ہیں، اور گناہوں اور خواہشات کی زنجیروں نے مجھے مفلوج کردیا ہے، اور دنیا کی دور و دراز خواہشوں نے مجھے ہر منفعت سے باز رکھا ہے، اور دنیا نے مکر و فریب کے ذریعے اور میرے نفس نے جرم و جنایت کی وجہ سے مجھے ـ اور توبہ مؤخر کرنے کے حوالے سے ـ فریب دے رکھا ہے؛ اے میرے خدائے بزرگ و برتر اور اے میرے سید و آقا! اپنی عزت و جلالت کے واسطے، میرے برے اعمال (کہیں) تجھ کو میری دعا کی اجابت سے باز نہ رکھیں، اور تو میری خفیہ اور نہاں قباحتوں کے ذریعے ـ جن سے صرف تو آگہی رکھتا ہے ـ مجھے رسوا اور بےآبرو نہ کرے، اور تقصیر و نادانی، شہوتوں اور غفلتوں پر مبنی افعال جیسے گناہوں کی بنا پر ـ جن کا میں نے اپنی خلوتوں میں ارتکاب کیا ہے ـ میری عقوبت و سزا میں عجلت سے کام نہ لے،
اے اللہ! تو ہر حال میں میرے ساتھ مہربانی کرتے رہنا اور اپنی عزت کے واسطے ہر حال میں میرے اوپر رأفت و شقفت روا رکھنا؛ اور تمام امور میں مجھے اپنی مہربانی اور عطوفت میں شامل کئے رکھنا؛ اے میرے معبود اور اے میرے پروردگار! تیرے سوا کون ہے میرا جس سے میں اپنی پریشانیوں کے ازالے اور اپنے امور میں لطف اور فضل کی نگاہ کئے رکھنے کی التجا کرسکوں؟ اے میرے معبود اور اے میرے آقا و مولا! تو نے مجھے پر ایسا حکم جاری کیا جس میں میں نے اپنے نفس کی پیروی کی اور اپنے دشمن (نفس امارہ اور شیطان) کی صف آرائیوں اور وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھا جس نے نافرمانیوں کو میری نظروں میں جلوہ گر کیا، اور مجھے دھوکا دیا اور میرے اختیار اور ارادے نے اس سلسلے میں اس (نفس اور شیطان) کے ساتھ تعاون کیا، حتی کہ میں نے اپنے ان اعمال میں تیری بعض حدود کو پامال کر گیا اور تیرے احکام کی حدود سے تجاوز کیا اور تیرے احکامات و اوامر کی خلاف ورزی کی؛ اب ان تمام امور میں تیری حمد و ثناء کرتا ہوں؛ اور میرے پاس ان تمام امور میں جن میں تیری قضاء کی بنا پر مجھ پر جاری ہوا ہے اور تیرے فرمان اور تیری آزمائش نے مجھے اس کا پابند کردیا ہے،
اور اس کے باوجود اے میرے پروردگار! میں کوتاہی اور تقصیر اور اپنے نفس پر ستم کے بعد، معذرت خواہی اور پشیمانی اور شکستہ دلی، (نیز) عفو و درگذر اور مغفرت کی التجا اور توبہ اور زاری اور اپنے گناہوں کی تصدیق و اعتراف کے ساتھ، تیری درگاہ میں پلٹ کر آیا ہوں، جو کچھ میں نے کیا ہے نہ تو اس سے میرے لئے فرار کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ایسا کوئی مقام ہے جس میں اپنے امور کی اصلاح کے لئے پناہ پاؤں، سوا اس کے، کہ تو میرا عذر قبول فرما دے، اور مجھے اپنی رحمت کی وسعتوں میں پناہ دے؛ اے اللہ! تو میرا عذر قبول فرما اور میری بدحالی پر رحم فرما اور گناہوں کی مضبوط قید و بند سے مجھے رہائی عطا فرما،
اے میرے پروردگار! میرے جسم کی بےبسی، میرے بدن کی جلد کی نزاکت اور میری ہڈیوں کی نرمی پر رحم فرما۔ اے وہ جس نے میری خلقت، میری یاد، میری تربیت اور مجھ پر نیکی کرنے اور مجھے کھلانے پلانے کا آغاز کیا تھا، اب مجھے اپنے اسی ابتدائی کرم اور مجھ پر اپنے سابقہ احسانات کے واسطے بخش دے؛ اے میرے خدا اور اے میرے آقا اور اے میرے پروردگار! کیا تو ـ تیری یکتائی پر اقرار کے بعد، اور بعدازاں کہ میرا دل تیری معرفت کی نور سے روشن ہوا اور میری زبان اس کی روشنی میں تیرے ذکر پر گویا ہوئی، اور بعدازاں کہ میرا ضمیر تیری محبت اور عشق سے لبریز ہوا اور اعتراف میں صداقت اور تیری ربوبیت کے آگے میری عاجزانہ درخواست کے بعد، ـ مجھے دوزخ کی آگ سے عذاب دے گا!
مجھے یقین نہیں آتا، کیونکہ بہت ہی بعید ہے اور تو اس سے کہیں بزرگوارتر اور کریم تر ہے، کہ اپنے دست پروردہ بندے کو تباہ کردے یا جس کو تو نے اپنے قریب کردیا ہے اس کو اپنے سے دور کردے، یا جس کو تو نے پناہ دی ہے اس کو نکال باہر کرے، یا جس کی حمایت و کفایت تو نے کی ہے، اور اس پر رحم کیا ہے بلاؤں اور آزمائشوں کی لہروں کے سپرد کردے؟! کاش مجھے معلوم ہوتا اے میرے آقا و اے میرے معبود اور اے میرے مولا! کیا تو آگ کو ان چہروں پر مسلط کرے گا جو تیری عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے ہیں، اور ان زبانوں پر جو سچائی کے ساتھ تیری یکتائی، نیز تیرے شکر و سپاس پر گویا ہوئیں؛ اور ان دلوں پر جنہوں نے تحقیق کی بنا پر تیری ربوبیت کا اقرار و اعتراف کیا، اور ان ضمیروں پر جن کو تیری معرفت نے پر کر دیا ہے یہاں تک کہ وہ تیرے سامنے خاضع ہوچکے ہیں اور ان اعضاء و جوارح پر اشتیاق کے ساتھ تیری عبادت کے مقامات کی طرف دوڑ دوڑ کر گئے ہیں اور اقرار و اعتراف کرتے ہوئے تیری مغفرت کی التجاء کرتے رہے ہیں؛ حیرت ہوگی کہ تو ان کو آگ میں جلا دے! ہرگز ایسا گمان نہیں ہے تیری ذات پر اور نہ ہی تیرے فضل و کرم کے سلسلے میں ایسی بات کی خبر ہم تک پہنچی ہے۔ اے کریم اور اے میرے پروردگار! جبکہ تو دنیا کے چھوٹی سی مصیبتوں اور غم و اندوہ اور سزاؤں ـ او جو کچھ ان مسائل میں مبتلا افراد پر ان کی وجہ سے گذرتی ہے ـ کے سامنے میری بے بسی اور کمزوری کو جانتا ہے؛ حالانکہ (اس دنیا کے) ان مصائب اور بلاؤں کا دوام ناچیز اور اس کی مدت تھوڑی ہے،
تو پھر آخرت کی بلاؤں اور اُس دنیا میں میرے جسم و جان کے اوپر شدید ناگواریوں کے نزول کو میں کیونکر برداشت کرسکوں گا، حالانکہ ان کی مدت طویل اور بقاء ابدی ہے، اور ان بلاؤں میں مبتلا افراد کے لئے ان میں کوئی رعایت نہ ہوگی کیونکہ اس عذاب کا سرچشمہ صرف اور صرف تیرا قہر و غضب اور انتقام ہے جس کے سامنے آسمان و زمین میں بھی ٹہرنے کی قوت نہیں ہے؛ اے میرے آقا! تو میں کیسے برداشت کروں اس عذاب کو جبکہ میں تیرا بےبس، حقیر، ذلیل، مسکین، مفلوج اور عاجز و بےیار و مددگار بندہ ہوں۔ اے میرے خدا، اے میرے پروردگار اور میرے آقا و مولا! میں تجھ سے اپنے امور کی کن کن سختیوں کی شکایت کروں اور کون سی دشواری سے تیری درگاہ میں آہ و نالہ اور گریہ و زاری کروں، عذاب کی دردناکیوں اور اس کی شدت سے یا پھر اس عذاب کی بقاء اور طویل المدتی سے؟ پس اگر تو مجھے تیرے دشمنوں کے زمرے میں عقوبت و سزا میں مبتلا کرے اور اپنے عذاب کے مستحق افراد کے ساتھ محشور کرے، اور اپنے دوستوں اور خاصان درگاہ سے جدا کردے، تو اس حال میں اگر میں تیرے دوزخ کے عذاب پر صبر کر بھی لوں تو اے میرے خدا اور میرے آقا و مولا اور اے میرے پروردگار، تیرے فراق اور تجھ سے جدائی کو کیونکر برداشت کرسکوں گا؛ اور اگر تیری آگ کی حرارت پر صبر کر بھی لوں، تو تیرے فضل و کرم سے چشم پوشی کو برداشت کرسکوں گا؟ یا میں کیونکر آگ میں بسیرا کروں گا جبکہ میں تیرے بے انتہا عفو و رحمت کی امید رکھتا ہوں؟
تو تیری عزت کے واسطے اے میرے آقا و مولا! سچائی کے ساتھ قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر تو مجھے بولتی زبان کے ساتھ دوزخ میں بسا دے تو میں اہل دوزخ کے درمیان شکوہ گروں اور آرزمندوں کی مانند تیری درگاہ میں آہ و فریا کروں گا اور تیری بارگاہ میں چیخوں گا، چلاؤں گا گریہ کرنے والوں کی مانند، اور رؤوں گا کھو دینے والوں کی مانند، اور تجھ کو پکاروں گا کہ اے اہل ایمان کے یاور تو ہے کہاں؟ اے عارفوں کی امید و آرزو کی انتہا، اے سچوں کے دلوں کے محبوب اور اے عالمین کے معبود،
کیا واقعی ایسا ہے، اے خدائے پاک و منزّہ اور اے صفات حمیدہ کے مالک، کہ تو سنتا رہے ایک مسلمان بندے کی فریاد کو جو تیرے احکامات کی خلاف ورزی کی وجہ سے قید کیا جا چکا ہے، اور اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھ چکا ہے اور دوزخ کے طبقات و درکات میں اپنے جرم و جنایت کے بموجب محبوس ہوچکا ہے، حالانکہ وہ تیری بےانتہا رحمت کی توقع اور امید کے ساتھ آہ و نالہ کررہا ہے، ایسے شخص کی آہ کی مانند جو تیری رحمت کی امید و آرزو رکھتا ہے اور تجھ کو اہل توحید کی زبان سے پکار رہا ہے اور تیری بارگاہ میں تیری ربوبیت سے توسل کررہا ہے؛ اے میرے مولا! وہ کس طرح عذاب میں مبتلا رہے جبکہ وہ تیری سابقہ نیکیوں اور بردباریوں کی امید رکھے ہوئے ہے، یا پھر کس طرح تیری آگ اس کو ستاتی رہے جبکہ وہ تیرے بےانتہا فضل و رحمت کا آرزومند ہے؟
یا پھر کس طرح آگ کے بھڑکتے شعلے اس کو جلا دیں گے جبکہ تو اس کی فریاد سن رہا ہے اور اس کا مقام دیکھ رہا ہے، یا کس طرح تیری آگ اس پر حاوی ہوگی جبکہ تو اس کی بےبسی سے آگاہ ہے، یا کس طرح وہ دوزخ کے طبقوں اور درکات میں اس جانب اور اس جانب گھسیٹا جائے گا جبکہ تو اس کی سچائی کو جانتا ہے، یا کیونکہ تیرے عذاب کے فرشتے اس کو غیظ و غضب سے اس کو ہانکتے چلے جائیں گے جبکہ وہ تجھ کو یا رب یارب کہہ کر، صدائیں دے رہا ہے، یا کیونکر ممکن ہے کہ وہ دوزخ سے رہائی کے سلسلے میں تیری بخشش کی امید رکھے اور تو اس کو وہیں اسی حال پر چھوڑ دے؟ یہ سارے امور تیری بندہ نوازی سے بہت بعید ہیں، ہرگز ہمارا گمان تیری ذات کے بارے میں ایسی نہیں ہے اور نہ ہی تیرے فضل کے بارے میں کسی نے ایسی کوئی بات کی ہے، اور نہ ہی یہ سب، یکتاپرستوں کے ساتھ نیکی اور احسان پر مبنی تیرے سلوک سے شباہت رکھتا ہے۔
پس میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ اگر تیری ربوبیت کے منکرین کو عذاب میں مبتلا کرنے کے حوالے سے تیرا فرمان نہ ہوتا، اور تیرے دشمنوں کے دائمی طور پر آگ میں جلتے رہنے کے بارے میں تیرا حکم جاری نہ ہوتا، تو بےشک تو پورے جہنم کو سرد کریتا اور اس کو سلامتی میں بدل دیتا، اور کسی کو بھی اس میں مسکن نہ دیتا، لیکن تو، جس نے اپنے مقدس ناموں کی قسم اٹھائی کہ دوزخ کو کافروں سے بھر دے گا خواہ وہ کافر جنّات میں سے خواہ انسانوں میں سے، اور معاندین اور اپنے دشمنوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے اندر بسائے رکھے گا، لیکن تو نے ـ کہ تیری ثناء نمایاں اور تیری شان اعلی ہے ـ خود ہی اپنی ثناء کا آغاز کیا اور اپنی کریمانہ نعمتوں سے سب کو نوازا،
تو کيا جو مؤمن ہے، وہ مثل اس کے ہے جو فاسق (بد اعمال) ہو؟ وہ برابر نہیں ہیں اے میرے خدا اور میرے آقا! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں تیرے اس مقام قدرب کے واسطے سے جو تو نہ مقدر کیا ہے اور اس تیری قضائے مبرم اور فرمان کے واسطے سے، جس کو تو حتمیت کا رتبہ دیا ہے اور تو نے اس کو جس پر جاری کیا اس پر غالب آیا، کہ اسی رات اور اسی گھڑی مجھ کو بخش دے اور مجھ سے درگذر کردے ہر اس جرم کو جس کا میں نے ارتکاب کیا، اور ہر اس گناہ کو جس سے میں آلودہ ہوا، اور ہر کار بد کو جو میں نے چھپ کر انجام دیا ہر اس عمل کو جو میں نے جہالت کی وجہ سے خفیہ یا آشکارا انجام دیا، اور ہر برے عمل کو جنہیں ثبت کرنے کا حکم تو نے اپنے عزت دار کاتبوں کو دیا ہے، اور انہیں میرے اعضاء و جوارح کے ہمراہ، میرے اعمال کا گواہ قرار دیا اور ان فرشتوں کے اوپر تو خود میری نگرانی کرتا رہا، اور ان اعمال و افعال کا شاہد، جنہیں تو نے یقینا اپنی رحمت سے ان سے چھپائے رکھا اور اپنے فضل سے نہاں کیا، تو ان سب پر قلم بخشش پھیر دے؛ اور التجا کرتا ہوں کہ مجھے حظ وافر اور وسیع حصہ عطا کر ہر اس شیئے سے جو تو اتار دیتا ہے، اور ہر اس احسان سے جو تو روا رکھتا ہے، یا ہر اس نیکی سے جس کو تو توسیع دیتا ہے، یا ہر اس رزق سے جس کو تو پھیلا دیتا ہے، یا ہر وہ گناہ جو تو بخش دیتا ہے، یا ہر خطا جس کی تو پردہ پوشی کرتا ہے، اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار!
اے میرے معبود، اور اے میرے آقا اور اے میرے مولا اور میرے صاحب اختیار، اے وہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری زمام ہے، اے میری حالت زار اور میری بےبسی و ناداری سے واقف و آگاہ، اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار، اے میرے پرودگار! تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تیری حقیقت کے واسطے اور تیری ذات مقدسہ اور اعلی ترین صفات و اسماء کے واسطے، میرے دن رات کے اوقات کو اپنی یاد سے معمور و آباد کر دے اور انہیں اپنی بندگی کی خدمت میں مصروف رکھے، اور میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول کردے، حتی کہ میرے تمام اعمال و کردار اور میرے اذکار و اوراد مربوط، ہمآہنگ، یک جہت اور خالص ہوجائیں اور میرا حال تیری خدمت میں ہمیشہ کے لئے مصروف رہے،
اے میرے آقا! اے وہ جس پر میرا پورا پورا بھروسا اور توکل ہے، اے وہ واحد و احد ذات اقدس، جس کی طرف میں اپنی حالت زار کا شکوہ لے کر آتا ہوں، اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار! میرے اعضاء و جوارح کو اپنی خدمت و عبودیت کی خاطر، قوت بخش دے، اور میرے دل اور میرے ارکانِ وجود کو عزم و ہمت دے کو محکم اور ثابت رکھے، اور اپنے خوف و خشیت میں میری سعی و کوشش کو مستحکم کردے، اور اپنی خدمت میں میرے دوام کو پیوستہ رکھ دے، تا کہ میں تیری طاعت کے میدانوں میں سابقین سے سبقت حاصل کروں اور تیری درگاہ کی طرف دوڑ کر آنے والوں سے اگے بڑھوں، اور صاحبان اشتیاق کے زمرے میں تیری قربت کے حصول کا مشتاق رہوں، اور صاحبان خلوص کی مانند تیرے قریب آؤں اور صاحبان یقین کی مانند تیرا خوف اپنے دل میں بسا دوں، اور تیرے مقام قرب میں صاحبان ایمان کے ساتھ ہم نشین رہوں؛ بار خدایا! اور جو بھی میرا بد اندیش ہے، تو ہی اس کو سزا دے، اور جو بھی میرے خلاف مکاری کرے اس کو کیفر کردار تک پہنچا دے، اور مجھے اور اپنے لطف و رحمت کے واسطے سے اپنے بہترین بندوں کا نصیب عطا فرما اور اپنے مقرّب ترین بندوں اور خاصّان درگاہ کا رتبہ عطا فرما، (اور مجھے یقین ہے) کہ تیرے فضل و رحمت کے بغیر کوئی بھی اس رتبے تک نہیں پہنچ سکتا، تو اپنی بخشش کو میرے شامل حال فرما اور اپنے مجد و عظمت کے واسطے مجھ پر مہربانی فرما۔
اور اپنی رحمت واسعہ کے سائے میں دنیا اور آخرت میری حفاظت فرما اور میری زبان کو اپنے ذکر سے گویا رکھ، اور میرے دل کو اپنی محبت سے اپنا شیدائی بنا دے، اور نیک جواب سے مجھ پر احسان فرما، میری لغزشوں کو نظر انداز کردے اور میرے گناہوں کو بخش دے، کیونکہ تو نے اپنے بندوں کو اپنی بندگی اور عبودیت حکم دیا ہے اور اپنی بارگاہ میں دعا اور التجا کا فرمان دیا ہے، اور تو نے ہی ان کی دعا و التجا کی استجابت کی ضمانت دی۔ تو اے میرے پروردگار! میں نے دعا کے ساتھ تیری طرف رخ کیا اور اپنا دست احتیاج صرف تیری طرف بڑھایا؛ تو میں تجھ کو تیری ‏عزت کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری دعا کو مستجاب فرما دے، اور مجھے میری آرزو تک پہنچا دے، اور میری امید کو اپنے فضل و کرم سے ناامید نہ کرے، اور مجھے میرے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، خواہ وہ (دشمن) جنات سے ہوں یا بنی نوع انسان سے،
اے وہ جو اپنے بندوں سے بہت جلدی خوشنود ہوتا ہے، اس بندے کو بخش دے جو تیری درگاہ میں دعا تضرع اور زاری کے سوا کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہے، پس تو جو ـ جو کچھ بھی چاہے انجام دینے والا ہے ـ، اے وہ جس کا نام دکھی انسانوں کے لئے دوا اور جس کی یاد بیماروں کی شفا اور تیری طاعت و بندگی دنیا و ما فیہا سے بےنیازی ہے، رحم فرما اس بندے پر جس کا پورا سرمایہ، تیری رحمت و مغفرت کی امید ہے اور جس کا ہتھیار محض گریہ و بکاء ہے؛ اے نعمتوں کو برسانے والے، اے بلا‎‎ؤں اور مصیبتوں کو دور والے، اے وہ جو تاریکیوں میں وحشت زدہ افراد کی روشنی ہے اور اے وہ عالم جس کو سکھایا پڑھایا نہیں جاتا، درود بھیج محمد آلؑ محمد پر اور میرے ساتھ وہ سلوک روا رکھ جس کا تو لائق ہے؛ اور درود و سلام ہو اللہ کا اس کے رسول گرامی پر اور با برکت ائمہ پر جو آپؐ کے خاندان سے ہیں۔

حوالہ جات

  1. تابعی وہ لوگ ہیں جو رسول خداؐ کا زمانہ نہیں پاسکے ہیں یا جنہوں نے آپؐ سے حدیث نقل نہیں کی ہو۔
  2. تاریخ‏ الطبری/ترجمہ، ج‏6، ص2195، 2199۔
  3. رجوع کریں: ناظم زادہ قمی، اصحاب امام علی ؑ، ص1011 – 1018۔
  4. طوسی، مصباح المتهجد، ص584۔
  5. ابن طاؤوس، اقبال الاعمال، ص220۔
  6. مجلسی، زاد المعاد، ص60۔
  7. کفعمی، بلد الامین، ص267۔
  8. کفعمی، مصباح [جس کا دوسرا نام 'جنّة الامان الواقيه و جنة الايمان الباقيه' ہے]، ص737۔
  9. محدث قمی، مفاتیح الجنان، ص112۔
  10. مجلسی، زاد المعاد، ص60۔
  11. تسویل نفس: نفس کا برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا
  12. تزئین شیطان: شیطان کا گناہوں کو مزین اور دلفریب بنا کر پیش کرنا۔
  13. سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ص220۔
  14. سورہ دخان،آیت نمبر4۔
  15. یزدی، عروه الوثقی، ج 1، ص514۔513۔
  16. امام خمینی، تعلیقہ علی عروۃ الوثقی، ص141، رجوع کریں: مراجع کی توضیح المسائل۔
  17. ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ص220۔
  18. اشکوری، نیایش عارفان، ص89 تا 87۔

مآخذ

  • ابن طاووس، اقبال الأعمال، بیروت، چاپ اعلمی، 1417ق/1996ء۔
  • خمینی، روح اللہ، تعلیقۃ علی عروۃ الوثقی، تہران، موسسہ نشر و تنظیم آثار امام خمینی، 1386ش/1428ء۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، چاپ علاء الدین اعلمی، 1418ق/1998ء۔
  • فنایی اشکوری، محمد، نیایش عارفان شرح حکمت و معنویت شیعی در دعای کمیل، قم، شیعہ‌ شناسی، 1386ش۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، تہران، مرکز نشر فرہنگی رجاء، 1369ش۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، البلد الامین و الدّرع الحصین ، بیروت : چاپ علاء الدین اعلمی، 1418ق/1997ء۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح، بیروت، چاپ علاءالدین اعلمی، 1414ق/1994ء۔
  • مجلسی، محمد باقر، زاد المعاد، بیروت، چاپ علاء الدین اعلمی، 1423ق/2003ء۔
  • ناظم‌ زادہ قمی، سید اصغر، اصحاب امام علی (ع)، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، 1386ش۔
  • یزدی، محمد کاظم، عروۃ الوثقی، ج 1، قم، جامعہ مدرسین، 1417ھ۔

بیرونی روابط