چودہ معصومین

نامکمل زمرہ
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر مستند
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(چودہ معصومینؑ سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


چودہ معصومین شیعوں کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ پیغمبر اکرمؐ، حضرت فاطمہ(س) اور اپنے بارہ اماموں پر اطلاق کرتے ہیں جو ان کے مطابق معصوم اور ہر قسم کے گناہ اور غلطی سے مبرا ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد آیت تطہیر، آیت اولو الامر، حدیث ثقلین اور دیگر کئی آیات اور روایات سے مستدل ہیں۔

منابع میں چودہ معصومین کا عنوان ذکر نہیں ہوا لیکن بعض احادیث میں چودہ معصومین کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ من جملہ یہ حدیث جس میں حضرت آدم اور دوسرے مخلوقات کی خقلقت سے پہلے چودہ انوار کی خلقت کا ذکر آیا ہے۔

چودہ معصومین کا مقام

چودہ معصومین شیعوں کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ پیغمبر اکرمؐ، حضرت فاطمہ(س) اور اپنے بارہ اماموں پر اطلاق کرتے ہیں اور یہ عنوان ان ہستیوں کی عصمت کے صفت سے لیا گیا ہے[حوالہ درکار]

شیعہ امامیہ کے مطابق چودہ معصومینؑ تمام گناہوں چاہے کبیرہ ہوں یا صغیرہ ا ور ہر قسم کے سہو اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں۔[1]

منابع میں چودہ معصومین کا عنوان ذکر نہیں ہوا لیکن بعض احادیث میں چودہ معصومینؑ کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ من جملہ یہ کہ ایک حدیث میں «کَشَجَرَ‌ۃٍ طَيِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْ‌عُہَا فِی السَّمَاءِ؛ (ترجمہ: شجرۂ طیبہ (پاکیزہ) درخت کی مانند ہے۔ جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔»)[2] نقل ہوا ہے کہ شجرہ سے مراد رسول خداؐ ہے جن کا نسب بنی‌ ہاشم میں ثابت ہے۔ اس کی اصلی شاخ امام علیؑ،‌ اس کا عنصر اور بنیاد حضرت فاطمہ(س) اور اس کی فرعی شاخیں اور پھل دیگر ائمہ ہیں۔[3]

ایک حدیث میں امام باقرؑ[4] اور امام صادقؑ[5] سے بھی نقل ہوا ہے کہ خدا نے حضرت آدم کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے چودہ انوار کو اپنی عظمت کی نور سے خلق کیا۔ پوچھا گیا کہ یہ چودہ انوار کون ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: محمدؐ، علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ اور ان کی نسل سے 9 امام ہیں۔

شیعوں کے مطابق چودہ معصومین خدا کی تمام مخلوقات سے افضل اور برتر ہیں اور خدا کے یہاں سب سے محبوب‌ اور عظیم ہستیاں ہیں۔[6] ان کی مودت و محبت تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔[7] شیعہ تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی امامت و رہبری کا مقام و منصب اہل‌ بیتؑ سے مخصوص ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے دینی مسائل میں اہل‌ بیتؑ کی طرف رجوع کریں۔[8]

اسم القاب کنیت مقام ولادت تاریخ پیدائش محل تولد تاریخ شہادت سنہ محل شہادت علت شہادت محل دفن
محمد بن عبداللہ رسول اللہ ابوالقاسم پیغمبر اسلام 12 یا 17 ربیع الاول ۱ عام الفیل- ۵۶۹م مکہ 28 صفر ۱۱ہجری قمری-۶۳۲م مدینہ -- مدینہ
فاطمہ زہرا- صدیقہ- بتول ام ابیہا- ام الائمہ مادر ائمہ 8 جمادی الثانی ۵ بعثت مکہ 3 جمادی الثانی ۱۱ ہجری قمری مدینہ شیعوں کے مطابق ابوبکر کی خلافت کیلئے بیعت لینے کے واقعے میں عمر کی طرف سے مورد ظلم واقع ہوا اور شہادت پر فائز ہوئیں نامعلوم
علی بن ابیطالب امیرالمؤمنین اباالحسن- ابوتراب شیعوں کا پہلا امام 13 رجب ۳۰ عام الفیل مکہ (کعبہ) 21 رمضان ۴۰ ہجری قمری کوفہ ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں مسجد کوفہ کے محراب میں شہید ہوئے نجف
حسن بن علی مجتبی ابامحمد دوسرا امام 15 رمضان ۲ یا ۳ ہجری قمری مدینہ 28 صفر ۵۰ ہجری قمری مدینہ معاویہ کی ترغیب پر اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کے ہاتھوں مسموم ہوئے مدینہ(بقیع)
حسین بن علی سید الشہداء اباعبداللہ تیسرا امام 3 شعبان ۳ یا ۴ ہجری قمری مدینہ 10 محرم عاشورا 61 ہجری قمری کربلا یزید کی فوج سے لڑتے ہوئے اپنے با وفا اصحاب کے ساتھ شہید ہوئے کربلا
علی بن الحسین سجاد، زین العابدین اباالحسن چوتھا امام 5 شعبان ۳۸ ہجری قمری مدینہ 25 محرم ۹۵ ہجری قمری مدینہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے مدینہ(بقیع)
محمد بن علی باقر العلوم ابا جعفر پانچواں امام ۱ رجب ۵۷ ہجری قمری مدینہ 7 ذی الحجہ ۱۱۴ ہجری قمری مدینہ ہشام بن عبدالملک کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے مدینہ(بقیع)
جعفر بن محمد صادق اباعبداللہ چھٹا امام 17 ربیع‌الاول ۸۳ ہجری قمری مدینہ 25 شوال ۱۴۸ ہجری قمری مدینہ منصور کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے مدینہ(بقیع)
موسی بن جعفر کاظم اباالحسن ساتواں امام 7 صفر ۱۲۸ ہجری قمری مدینہ 25 رجب ۱۸۳ ہجری قمری کاظمین ہارون الرشید کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے کاظمین
علی بن موسی رضا اباالحسن آٹھواں امام 11 ذی القعدہ ۱۴۸ ہجری قمری مدینہ 30 صفر ۲۰۳ ہجری قمری طوس مشہد مأمون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے مشہد
محمد بن علی تقی، جواد اباجعفر نواں امام 10 رجب ۱۹۵ ہجری قمری مدینہ 30 ذی القعدہ ۲۲۰ ہجری قمری کاظمین معتصم عباسی کے حکم سے اپنی بیوی ام فضل بنت مأمون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے کاظمین
علی بن محمد ہادی، نقی اباالحسن دسواں امام 15 ذی الحجۃ ۲۱۲ ہجری قمری مدینہ(صریا) 3 رجب ۲۵۴ ہجری قمری سامرا المعتز باللہ کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے سامرا
حسن بن علی زکی، عسکری ابامحمد گیارہواں امام 10 ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری قمری مدینہ 8 ربیع الاول ۲۶۰ ہجری قمری سامرا المعتمد باللہ کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے سامرا
حجۃ بن الحسن قائم اباالقاسم بارہواں امام 15 شعبان ۲۵۵ ہجری قمری سامرا آغاز امامت 9 ربیع الاول ۲۶۰ ہجری قمری آپ اب بھی خدا کے اذن سے زندہ اور لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. عصمت پیامبر(ص) کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالہيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵و۱۵۶؛ لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۰. عصمت حضرت فاطمہ(س) کے لئے ملاحظہ کریں: سیدمرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵؛ سبحانی، الاہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۲۹. عصمت ائمہ(ع) کے لئے ملاحظہ کریں:‌ علامہ حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالہيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵؛ مجلسی، امام شناسی، ۱۳۸۴ش، ص۴۹-۶۱.
  2. سورہ ابراہیم،‌ آیہ ۲۴.
  3. ملاحظہ کریں:‌ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۵۹و۶۰.
  4. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۴و۵،‌ ح۷.
  5. شیخ صدوق،‌کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۳۳۵و۳۳۶، ح۷.
  6. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳.
  7. مظفر، عقائدالامامیہ، ۱۳۸۷ش، ص۷۲؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۱.
  8. ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱ و ۲۳۲.

مآخذ

  • سبحانی، جعفر، الاهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل،‌ قم، مرکز العالمی للدراسات الاسلامیه، چاپ سوم، ۱۴۱۲ق.
  • ‌ سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعه: ترجمه کتاب دلیل المرشدین الی الحق الیقین، ترجمه جواد محدثی، تهران، نشر مشعر، ۱۳۸۶ش.
  • ‌ شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویه، الاعتقادات، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویه، کمال الدین و تمام النعمة، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق.
  • صفار، محمد بن حسن، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، تحقیق و تصحیح محسن کوچه باغی، قم،‌ کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالهیات، تعلیقه جعفر سبحانی، قم،‌ مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش.
  • فیاض لاهیجی، سرمايه ايمان در اصول اعتقادات، تصحیح صادق لاریجانی، تهران، الزهراء، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
  • مجلسی، محمد باقر، امام شناسی(مجلد پنجم حیات القلوب)، قم، سرور، چاپ ششم، ۱۳۸۴ش.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
  • ‌ مظفر، محمدرضا، عقائد الامامیه، تحقیق حامد حنفی، قم، انتشارات انصاریان، چاپ دوازدهم، ۱۳۸۷ش.
  • موسوی زنجانی، سید ابراهیم، عقائد الامامیه، الاثنی عشریة، بیروت، مؤسسه الاعلمی، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق.