ابراہیم بن حضرت محمدؐ
رسول خدا کے فرزند ابراہیم کی قبر | |
| کوائف | |
|---|---|
| مکمل نام | ابرہیم بن محمد بن عبداللہؐ |
| تاریخ پیدائش | ذی الحجہ سنہ 8 ہجری |
| محل زندگی | مدینہ |
| نسب/قبیلہ | قریش، بنی ہاشم |
| اقارب | پیغمبر اکرم (ص)، ماریہ قبطیہ |
| وفات | سنہ 10 ہجری |
| مدفن | جنت البقیع |
| دینی معلومات | |
ابراہیم بن محمدؐ (8۔10ھ) رسول اللہ اور ماریہ قبطیہ کے فرزند ہیں جن کی وفات پیدائش کے 18 مہینے بعد ہوئی۔ ان کی ولادت کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ بے حد خوش ہوئے اور آپؐ نے اپنے بیٹے ابراہیم کے لئے عقیقہ کیا۔
ابراہیم کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا، رسول خداؐ نے اپنے بیٹے کی وفات اور اس فطری امر کے باہمی ارتباط کی نفی۔ ابراہیم کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔
پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بیٹے کی وفات پر گریہ کیا اور اپنی زبان پر آیت استرجاع جاری فرمایا۔ فقہاء ابراہیم کی موت پر پیغمبر اکرمؐ کے گریہ کرنے کے واقعے سے میت پر گریہ کرنے کے جواز کے لئے استدلال کرتے ہیں۔
نسب اور ولادت
| اولاد رسول اللہؐ |
|---|
|
قاسم (وفات: بعثت سے قبل) |
ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیغمبر اسلام کے فرزند ہیں۔[1]
ابراہیم سنہ 8 ہجری کو ذی الحجہ کے مہینے میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔[2] پیغمبر نے اپنے صحابہ سے فرمایا: میرے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے اور میں نے اپنے جد حضرت ابراہیم کے نام پر اس نومولود کا نام ابراہیم رکھا ہے۔[3]
پیغمبر اکرمؐ نے ابراہیم کی پیدائش کے ساتویں روز ان کے لئے عقیقہ کیا۔ ان کے سر کے بال منڈوائے اور ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی فقیروں میں بطور صدقہ تقسیم کی۔[4]
ابراہیم کی ولادت سے رسول اللہؐ کو بہت خوشی حاصل ہوئی[5] اور جبرائیل نے آپؐ کو «اباابراہیم» کے لقب سے خطاب کیا۔[6] اسی طرح رسول اللہؐ نے اپنے ساتھ اس نومولود بچے کی ظاہری مشابہت کی طرف بھی اشارہ فرمایا تھا۔[7]
قابلہ اور دایہ
تاریخی منابع کے مطابق ابراہیم کی قابلہ سَلمی (رسول اللہ کی خادمہ) تھی۔ سلمی کے شوہر ابورافع نے یہ خوشخبری رسول اللہؐ کو دی، تو آپ نے انہیں ایک غلام انعام میں عطا کیا۔[8] ابراہیم کی پیدائش کے بعد انصار کی کئی خواتین ابراہیم کو دودھ پلانے کے لئے تیار ہوئیں، لیکن آخرکار رسول اللہؐ نے اُم بردہ بنت منذر بن زید کو ابراہیم کی دایہ مقرر کیا۔[9]
وفات

ایک قول کے مطابق ابراہیم کی وفات دہم یا آخر ربیع الاول سنہ 10 ہجری میں 16 ماہ کی عمر میں ہوئی۔[10] ایک اور قول کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر 18 ماہ تھی۔[11] تیسرے قول کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر ایک سال دس مہینے اور آٹھ دن تھی۔[12]
ناسا سائٹ کی مشہور اور تاریخی سورج گرہن کی معلومات کے مطابق ابراہیم کی وفات کے وقت جو سورج گرہن ہوا وہ 27 جنوری 632 عیسوی کو پیش آیا تھا، جو ہجری تاریخ کے مطابق 25 شوال 10 ہجری کے برابر ہے۔[13]
ابراہیم کو بقیع میں عثمان بن مظعون (وفات 2 ہجری) کے قبر کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔[14] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مزار پر پتھر رکھا اور قبر پر پانی چھڑکایا۔[15]
بیان ابن شہر آشوب
ابن شہرآشوب نے کتاب مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلامؐ اپنے بیٹے ابراہیم اور نواسے حسین علیہ السلام کو گود میں لیے بیٹھے تھے، اتنے میں جبرائیل نازل ہوئے اور اللہ کا پیغام پہنچایا: "خداوند سلام بھیجتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے، ایک کو دوسرے پر قربان کر دو۔" پیغمبر نے امام حسین علیہ السلام کو منتخب کیا اور اس انتخاب کی وجہ یہ بیان کی کہ "میں حسین کی موت پر فاطمہ اور علی کی تکلیف کے مقابلے میں ابراہیم کی موت پر اپنی تکلیف کو ترجیح دیتا ہوں۔" اس روایت کے مطابق، ابراہیم اس واقعے کے تین دن بعد وفات پا گئے۔[16]
پیغمبر کا ردعمل
ابراہیم کی وفات پر پیغمبر نے گہرے غم و اندوہ کا اظہار کیا اور آپؐ نے اس مصیبت پر گریہ کرتے ہوئے فرمایا: "آنکھیں روتی ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے، لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خدا کو ناراض کرے۔"[17] ایک اور روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر نے ایک پہاڑ کی طرف رخ کیا اور گہرے غم و اندوہ کے ساتھ فرمایا:
- "اے پہاڑ! اگر جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ تمہارے ساتھ ہوتا تو تم ٹکرے ٹکرے ہو جاتا۔ لیکن ہم وہی چیز کہتے ہیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے: إِنَّا لِلّہِ وَ إِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ وَ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔"[18]
پیغمبر کے اس عمل سے سوگ منانے کی مشروعیت پر استدلال
فقہا ابراہیم کی وفات پر پیغمبر کے رونے اور گریہ کرنے کی روایت کو بنیاد بنا کر مردوں پر رونے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ صاحب جواہر (وفات 1266 ہجری) کہتے ہیں کہ بہت سی احادیث مردوں پر رونے اور نوحہ پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں، منجملہ ان میں پیغمبر کے اپنے بیٹے ابراہیم پر رونے کی روایت شامل ہے۔[19]
ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن
ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا، کچھ لوگوں نے اس فطری واقعے کو ابراہیم کی موت سے منسوب کیا، لیکن پیغمبر نے اس تصور کو رد کرتے ہوئے فرمایا: "سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں، یہ کسی انسان کی موت یا زندگی کے لیے نہیں رکتے۔"[20] شہید مطہری کے بقول، پیغمبر اکرمؐ نے اپنے الہی اہداف تک پہنچنے کے لئے لوگ کی جہالت اور نادانی سے استفادہ نہیں کیا بلکہ لوگوں کے علم و معرفت میں اضافہ کرنے کے ذریعے ان کی ہدایت کرنا چاہتے تھے۔[21]
ابراہیم فرزند رسول اللہ کی زیارت
زیارت ابراہیم کا مطلب ہے ان سے مخصوص زیارت نامہ پڑھنا ہے، جو کتاب مفاتیح الجنان میں مذکور ہے۔[22] زیارت کا متن یوں ہے:
| متن | ترجمه |
| «السَّلامُ عَلی رَسُولِ اللَّہِ، السَّلامُ عَلی نَبِیِّ اللَّہِ، السَّلامُ عَلی حَبِیبِ اللَّہِ، السَّلامُ عَلی صَفِیِّ اللَّہِ، السَّلامُ عَلی نَجِیِّ اللَّہِ، السَّلامُ عَلی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّہِ، سَیّدِ الْانْبِیاءِ وَخاتَمِ الْمُرْسَلِینَ، وَخِیَرَہِ اللَّہِ مِنْ خَلْقِہِ فِی ارْضِہِ وَسَماءِہِ، السَّلامُ عَلی جَمِیعِ انْبِیاءِہِ وَرُسُلِہِ، السَّلامُ عَلَی الشُّہَداءِ وَالسُّعَداءِ وَالصَّالِحِینَ، السَّلامُ عَلَیْنا وَعَلی عِبادِاللَّہِ الصَّالِحِینَ، السَّلامُ عَلَیْکَ ایَّتُہَا الرُّوحُ الزَّاکِیَہُ، السَّلامُ عَلَیْکَ ایَّتُہَا النَّفْسُ الشَّرِیفَہُ، السَّلامُ عَلَیْکَ ایَّتُہَا السُّلالَہُ الطَّاہِرَہُ، السَّلامُ عَلَیْکَ ایَّتُہَا النَّسَمَہُ الزَّاکِیَہُ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ خَیْرِ الْوَری، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ النَّبِیّ الْمُجْتَبی، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْمَبْعُوثِ الی کافَّہِ الْوَری، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْبَشِیرِ النَّذِیرِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ السِّراجِ الْمُنِیرِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْمُؤَیَّدِ بِالْقُرْآنِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْمُرْسَلِ الَی الْإِنْسِ وَالْجانِّ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ صاحِبِ الرَّایَہِ وَالْعَلامَہِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الشَّفِیعِ یَوْمَ الْقِیمَہِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَابْنَ مَنْ حَباہُ اللَّہُ بِالْکَرامَہِ، السَّلامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَہُ اللَّہِ وبَرَکاتُہُ، اشْہَدُ انَّکَ قَد اخْتارَ اللَّہُ لَکَ دارَ انْعامِہِ قَبْلَ انْ یَکْتُبَ عَلَیْکَ احْکامَہُ، اوْ یُکَلّفَکَ حَلالَہُ وَحَرامَہُ، فَنَقَلَکَ الَیْہِ طَیّباً زاکِیاً مَرْضِیّاً طاہِراً مِنْ کُلِّ نَجَسٍ، مُقَدَّساً مِنْ کُلِّ دَنَسٍ، وَبَوَّأَکَ جَنَّہَ الْمَأْوی، وَرَفَعَکَ الَی الدَّرَجاتِ الْعُلی، وَصَلَّی اللَّہُ عَلَیْکَ صَلاہً تَقَرُّ بِہا عَیْنُ رَسُولِہِ، وَتُبَلّغُہُ اکْبَرَ مَأْمُولِہِ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ افْضَلَ صَلَواتِکَ وَازْکیہا، وَانْمی بَرَکاتِکَ وَاوْفیہا، عَلی رَسُولِکَ وَنَبِیِّکَ وَخِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ، مُحَمَّدٍ خاتَمِ النَّبِیّینَ، وَعَلی مَنْ نَسَلَ مِنْ اوْلادِہِ الطَّیّبِینَ، وَعَلی مَنْ خَلَّفَ مِنْ عِتْرَتِہِ الطَّاہِرِینَ، بِرَحْمَتِکَ یا ارْحَمَ الرَّاحِمِینَ، اللَّہُمَّ انّی اسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍصَفِیِّکَ، وَابْراہِیمَ نَجْلِ نَبِیِّکَ انْ تَجْعَلَ سَعْیِی بِہِمْ مَشْکُوراً، وَذَنْبِی بِہِمْ مَغْفُوراً، وَحَیاتِی بِہِمْ سَعِیدَہً، وَعاقِبَتِی بِہِمْ حَمِیدَہً، وَحَوائِجِی بِہِمْ مَقْضِیَّہً، وَافْعالِی بِہِمْ مَرْضِیَّہً، وَامُورِی بِہِمْ مَسْعُودَہً، وَشُؤُونِی بِہِمْ مَحْمُودَہً، اللَّہُمَّ وَاحْسِنْ لِیَ التَّوْفِیقَ، وَنَفِّسْ عَنّی کُلَّ ہَمٍّ وَضِیقٍ، اللَّہُمَّ جَنِّبْنِی عِقابَکَ، وَامْنَحْنِی ثَوابَکَ، وَاسْکِنّی جِنانَکَ، وَارْزُقْنِی رِضْوانَکَ وَامانَکَ، وَاشْرِکْ لِی فِیصالِحِ دُعائِی والِدَیَّ وَوُلْدِی وَجَمِیعَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ، الْاحْیاءَ مِنْہُمْ وَالْامْواتَ، انَّکَ وَلِیُّ الْباقِیاتِ الصَّالِحاتِ، آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ.»[23] | سلام ہو اللہ کے رسول پر، سلام ہو اللہ کے نبی پر، سلام ہو اللہ کے محبوب پر، سلام ہو اللہ کے برگزیدہ پر، سلام ہو اللہ کے رازدار پر، سلام ہو محمد بن عبداللہ پر، جو تمام انبیاء کے سردار اور آخری رسول ہیں، اور اللہ کی مخلوق میں سے زمین و آسمان میں چنے ہوئے بہترین بندے ہیں۔ سلام ہو اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر، سلام ہو شہیدوں، نیک بختوں اور نیک کردار لوگوں پر، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر، سلام ہو تم پر، اے پاکیزہ روح، سلام ہو تم پر، اے باعزت جان، سلام ہو تم پر، اے پاکیزہ نسل، سلام ہو تم پر، اے خوشبودار روح، سلام ہو تم پر، اے بہترین خلقت کے فرزند، سلام ہو تم پر، اے چنے ہوئے نبی کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے اُس نبی کے بیٹے جو تمام لوگوں کے لیے بھیجے گئے، سلام ہو تم پر، اے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے روشن چراغ کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے قرآن سے تقویت یافتہ کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے جن و انس کی طرف بھیجے گئے کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے عَلَم اور پرچم کے مالک کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے قیامت کے دن شفاعت کرنے والے کے بیٹے، سلام ہو تم پر، اے اُس کے بیٹے جسے اللہ نے کرامت عطا فرمائی، سلام ہو تم پر اور اللہ کی رحمت و برکتیں ہوں تم پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ نے تمہارے لیے اپنی نعمتوں کے گھر کو اختیار کیا اس سے پہلے کہ تم پر کوئی حکم لاگو ہو، یا تم پر حلال و حرام کا کوئی بوجھ ڈالا جائے، پس اللہ نے تمہیں اپنی طرف اٹھا لیا پاکیزہ، پاک، پسندیدہ، ہر ناپاکی سے پاک، ہر گندگی سے منزہ، اور تمہیں جنت المأویٰ میں جگہ عطا کی، اور تمہیں اعلیٰ درجات میں بلند فرمایا، اور اللہ کی صلوات ہو تم پر — ایسی صلوات کہ جس سے اللہ کے رسول کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور وہ اپنی سب سے بڑی امید کو پالے۔ اے اللہ! اپنی بہترین، سب سے پاک، سب سے بڑھ کر برکت والی، اور سب سے مکمل صلوات نازل فرما اپنے رسول، اپنے نبی، اپنے چنے ہوئے بندے محمد ﷺ پر — جو خاتم النبیین ہیں — اور اُن کی پاکیزہ اولاد پر، اور اُن کے پاک اہل بیت پر۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں محمد، تیرے چنے ہوئے، اور ابراہیم، تیرے نبی کے بیٹے کے حق کے واسطے سے کہ: میری ان کے وسیلے سے کی گئی کوشش کو قبول فرما، میرے گناہوں کو ان کے وسیلے سے بخش دے، میری زندگی کو ان کے وسیلے سے خوشگوار بنا، میرا انجام ان کے وسیلے سے نیک بنا، میری حاجات ان کے وسیلے سے پوری فرما، میرے اعمال کو ان کے وسیلے سے پسندیدہ قرار دے، میرے تمام معاملات کو ان کے وسیلے سے خوشی بخش، اور میرے تمام امور کو ان کے وسیلے سے ستودہ کر دے۔ اے اللہ! میرے لیے بہترین توفیق عطا فرما، میرے ہر غم اور تنگی کو دور فرما، اے اللہ! مجھے اپنے عذاب سے بچا، مجھے اپنا ثواب عطا فرما، مجھے اپنی جنتوں میں جگہ دے، اپنی رضا اور امان عطا فرما، اور میری دعاؤں میں میرے والدین، میری اولاد، اور تمام مومن مرد و عورت کو شریک فرما — زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں — بے شک تو باقیات الصالحات کا مالک ہے، آمین یا رب العالمین۔ |
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص200۔
- ↑ آیتی، چکیدہ تاریخ پیامبر اسلام، 1378ش، ص215۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص108
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص107
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص450۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص450۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص450۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص107؛ ج8، ص212۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص108۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص115؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ج1، ص451
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص114؛ أنساب الأشراف، ج1، ص450
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص115؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص451۔
- ↑ «Solar Eclipses of Historical Interest»، سایت ناسا۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص115؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص451۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص115؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص451۔
- ↑ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص81
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1363ش، ج79، ص91؛ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص114۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص452۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج4، ص264-265۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص452؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1363ش، ج79، ص91۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، 1390شُ ج16، ص109۔
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1386ش، ص455-457۔
- ↑ در طواف دل، ص62-66۔
مآخذ
- آیتی، محمدابراہیم، چکیدہ تاریخ پیامبر اسلام، مشہد، بنياد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1378ہجری شمسی۔
- ابنسعد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1418ھ۔
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، قم، نشر علامہ، 1379ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- در طواف دل، مرکز تحقیقات حج، نشر مشعر۔
- قمی، عباس، مفاتیح الجنان، 1386ش، تہران، مشعر۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، تہران، انتشارات اسلامیۃ، چاپ دوم، 1363ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران و قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
- «Solar Eclipses of Historical Interest»، سایت ناسا، تاریخ اخذ: 2 مہر 1304ہجری شمسی۔