معاویۃ بن ابی سفیان

نامکمل زمرہ
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر سلیس
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(معاویۃ بن ابوسفیان سے رجوع مکرر)
معاویۃ بن ابی سفیان
کوائف
مکمل ناممعاویہ بن ابی سفیان
کنیت/لقبابو عبد الرحمن
وجہ شہرتحاکم شام، صحابی
تاریخ/محل ولادتبعثت سے 5 سال پہلے، مکہ
محل زندگیمکہ، شام
نسببنی امیہ
مشہوررشتےدارابو سفیان، یزید بن معاویہ
مدفندمشق
دینی خدمات
اسلام لانافتح مکہ
کیفیتفتح مکہ کے موقع پر طلقا کی حیثیت سے اسلام قبول کرنا
جنگجنگ یمامہ

معاویۃ بن ابی سفیان (متوفی:60ھ) پہلا اموی خلیفہ ہے جو صلح امام حسن کے بعد سنہ 60 ہجری تک تقریبا بیس سال خلیفہ رہا اس کے دور حکومت میں دمشق دار الحکومت تھا۔ وہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لایا اور وہ طلقا میں سے تھا۔ ابوبکر کے زمانے میں سرزمین شام کے موقع پر وہاں حاضر تھا اور عمر بن خطاب کے زمانے میں اردن کا گورنر پھر پورے شام کا حاکم رہا۔ عثمان بن عفان کے خلاف شورش میں ان کے مدد چاہنے کے باوجود اس نے ان کی مدد نہیں کی۔ امام علی (ع) کی خلافت میں خون خواہی عثمان کے بہانے جنگ صفین بپا کی۔ شہادت امام علی (ع) کے بعد امام حسن سے صلح کر کے مکمل مسلمانوں کی خلافت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ دمشق کو اپنا پایہ تخت قرار دیا۔ اس کے دور خلافت میں اکثر فتوحات غربی اور شمال آفریقہ میں ہوئیں۔ شرقی سر زمینوں کی فتوحات کا زیادہ خواہان تھا۔ معاویہ نے خلافت کو سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ اپنے بیٹے یزید کی بیعت کیلئے اس نے بہت زیادہ کوشش کی۔ ملکی امور چلانے کیلئے جدید دیوان بنائے۔ خوارج کے فتنوں اور شیعوں کی شورشوں کو اس نے سر کوب کیا۔

زندگی

ابو عبد الرحمان معاویہ بن ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قریشی اموی بعثت سے 5 سال قبل پیدا ہوا۔ بعض نے سات سال اور تیرہ سال بعثت سے قبل اسکی پیدائش ذکر کی ہے۔[1] اسکی والدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف ہے۔

شکل و صورت کے لحاظ سے اسے خوبصورت اور سفید رنگ کا بیان کیا گیا ہے۔ منقول ہے کہ وہ اپنی ڈاڑھی کو سونے کی مانند سرخی مائل پیلے رنگ سے خضاب کرتا۔[2]مشہور قول کی بنا پر اس کے اسلام قبول کرنے کا زمانہ فتح مکہ ہے اور وہ طلقاء میں سے ہے۔[3] یوم القضاء بھی اسکے اسلام لانے کا دن ذکر ہوا۔دوسری نقل کی بنا پر وہ اپنے اسلام کو چھپاتا تھا۔[4]بعض نے اسے کاتبان وحی سے شمار کیا ہے۔[5] پیامبر خدا نے اسے نفرین کی کہ وہ کبھی سیر نہ ہو۔[6] معاویہ کی تعظیم و تکریم میں بہت زیادہ روایات جعل ہوئی ہیں۔[7]

ازواج پیغمبر کے بھائیوں میں سے صرف معاویہ کو خال المومنین کہا گیا۔ رسول خدا کی زوجہ ام حبیبہ معاویہ کی بہن تھی۔ اس لحاظ سے اسے خال المومنین کہا گیا۔[8]) معاویہ نے ابوبکر، عمر، عثمان اور اپنی بہن ام حبیبہ سے حدیث نقل کی ہے۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے اس سے روایت نقل کی ہے۔[9]

معاویہ نے جنگ یمامہ میں شرکت کی اور پھر اسکے بعد اپنے بھائی یزید کے ساتھ سپاه ابوبکر میں شام گیا۔ ساحلی شہر صیدا، عرقہ، جبیل، بیروت، عکا اور صور میں موجود تھا۔[10]

معاویہ نے عمر بن خطاب کا اعتماد حاصل کیا لہذا اس نے اردن کا گورنر اسکے بھائی یزید کو شام کی گورنری دی۔ طاعون کی بیماری میں اسکے بھائی کی وفات کے بعد شام کا تمام علاقہ اس کے حوالے کر دیا۔ عثمان بن عفان کو خلافت ملنے کے وقت تمام سرزمین کی گورنری معاویہ کے حوالے کر دی۔ عثمان کے قتل کے بعد حضرت امام علی (ع) کی بیعت سے انکاری ہوا خون عثمان کی خون خواہی کے بہانے امام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ شام کے لوگوں نے عثمان کی خونخواہی اور علی سے جنگ پر لوگوں سے بیعت لی۔[11] حکومت امام علی (ع) کے آخر تک یہ اختلاف جاری رہا۔ شہادت امام علی (ع) کے بعد معاویہ اور امام حسن (ع) کے درمیان صلح قائم ہوئی جس کے نتیجے میں امام حسن معاویہ کے حق میں حکومت سے کنارہ کشی کر لی۔[12] صلح امام حسن (ع) کے بعد آخر عمر تک خلیفہ مسلمین رہا۔

وفات

معاویہ کے بستر مرگ پر کے موقع پر یزید دمشق میں نہ تھا۔ اس نے ضحاک بن قیس اور مسلم بن عتبہ کو بلایا اور اپنی وصیت انکے حوالے کی اور اسکی موت کے متعلق رجب، ابتدائے رجب یا رجب کی 4،15،26،22 کے اقوال ملتے ہیں[13]۔ وہ امام حسین (ع)، عبدالله بن زبیر، عبدالله بن عمر اور عبد الرحمان بن ابی بکر جیسے مخالفین سے شدید پریشان تھا[14] اسے شام میں دفن گیا عباسیوں کے شام پر غلبے کے بعد جب اس کی نعش نکالنے کیلئے قبر کھودی گئی تو اس میں مٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔[15]

ابتدائی خلافتوں کا زمانہ

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

یزید بن ابی سفیان شامات کی فتح کے موقع پر سپہ سالار تھا۔ ابوبکر نے معاویہ کو اس کے بھائی کے ساتھ حکومت دی۔[16] اس کی فوت کے بعد عمر کے زمانے میں شام کی ولایت پر منصوب ہوا۔ بعض مؤرخین نے عمر کی جانب سے معاویہ کی نسبت سہل انگاری ہر حیرانگی کا اظہار کیا۔[17] حسن بصری کہتا ہے: معاویہ نے عمر کے زمانے سے ہی اپنے آپ کو خلافت کیلئے تیار کر لیا تھا۔[18] عمر نے تمام شامات معاویہ کے حوالے کر دیئے تھے۔[19] معاویہ کہتا تھا: خدا کی قسم! وہ تنہا عمر کے نزدیک ایسا مقام رکھتا تھا اس طرح لوگوں پر تسلط حاصل کر لیا۔[20] عثمان کے سامنے جب معاویہ کی نسبت اعتراضات ہوتے تو وہ کہتا کہ کس طرح اسے معزول کروں اسے تو عمر نے منصوب کیا ہے۔[21] عثمان کے دور میں، شام کا علاقہ پر امن علاقہ شمار ہوتا تھا۔ اس نے ورائے کوفہ اور ابوذر کو اسی جگہ جلاوطن کیا؛ گرچہ معاویہ نے اپنی شخصیت و حیثیت کی حفاظت اور لوگوں پر ان کے اثرات روکنے کیلیے انہیں شام سے نکال دیا۔[22] شام معاویہ کا تربیت شده علاقہ تھا۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جسکی حقیقت بنی امیہ کی حکومت کے دوران وہاں کے لوگوں کی اس سے وفاداری مکمل طور پر آشکار ہوئی۔ کہتے ہیں کہ بنی امیہ کے بزرگوں نے سفاح کے نزدیک گواہی دی کہ وہ بنی امیہ کے علاوہ کسی کو پیامبر (ص) کی اقوام سے نہیں سمجھتے ہیں۔[23]

معاویہ سے منقول ہوا کہ اس نے کہا: نحن شجرة رسول الله[24].اسی طرح اس نے کاتب وحی اور خال المومنین کے القاب کی کوشش کی تا کہ اس کی شخصیت میں استحکام پیدا ہو۔ وہ ان لوگوں کی تشویق کرتا جو اسکی شان میں روایات جعل کرتے اور وہ لوگوں میں اسکی ترویج کرتے۔[25]

عثمان کے خلاف شورش کا آغاز

معاویہ عثمان کے خلاف شروع ہونے والی شورش کی ابتدا سے ہی اس سے فائدہ اٹھانے کے در پے تھا۔ اس نے ایک وقت عثمان سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے پاس شام آ جائے تا کہ مخالفین کے ہاتھوں سے امان میں رہے۔ لیکن اس نے یہ تجویز قبول نہیں کی۔[26] جب شورش میں سختی اور شدت پیدا ہوئی تو معاویہ نے صرف یہی راہ دیکھی کہ عثمان قتل ہو جائے۔ اسی وجہ سے اس نے عثمان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی۔ یہانتک کہ عثمان سخت ترین حالات میں خود اس بات کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ایک عتاب آمیز خط اسے لکھا۔[27] عثمان کے بعد معاویہ نے امویوں کو اس کا وارث سمجھا اور اسی کی خونخواہی کے بہانے حضرت علی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ عثمان کے قتل کے بعد اس کی بیوی کے شام فرار ہونے کے بعد اس سے شادی کی خواہش کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا۔[28]

معاویہ نے حضرت علی کو لکھنے والے خطوط میں اس بات کا سہارا لیا: ہمارا خلیفہ عثمان مظلوم قتل ہوا اور خدا اسکے متعلق فرماتا ہے: جو کوئی مظلوم مارا جائے ہم اس کے ولی کیلئے قدرت فراہم کرتے ہیں۔ پس ہم عثمان اور اس کے بیٹوں کی نسبت اس خونخواہی کیلئے زیادہ سزاوار ہیں۔[29] معاویہ اپنے بہت زیادہ پروپیگنڈے میں اپنے آپ کو عثمان کا وارث کہتا تھا۔

امام علی(ع) کا عہد

برطرفی کی کوشش

امام علی(ع) نے خلافت کے آغاز میں ہی معاویہ کے نمائندے سے کہا: معاویہ سے کہو کہ میں اس کی شام پر امیری سے خوش نہیں ہوں اور لوگ کبھی اس کی خلافت کے متعلق رضایت نہیں دینگے۔[30] معاویہ نے جنگ جمل سے پہلے زبیر کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے اسکے لیے بیعت لی ہے، اگر عراق انکی ہمنوائی کرے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ زبیر معاویہ کے اس خط سے بہت خوش ہوا۔[31] معاویہ اس بات پر تھا کہ قریش کی سیاسی شخصیات میں سے خاص طور پر ایسی شخصیات کو چاہتا تھا کہ جو اس شورا میں موجود ہوں اور وہ انہیں اپنی جانب جذب کرے تاکہ ان سے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے۔ امام نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا شام میں موجود قرشیوں میں سے کوئی ایک بھی شورا میں قبول نہیں ہوئے ہیں اور خلافت ان کے لیے روا نہیں ہے۔[32] نیز معاویہ نے امام علی کو لکھے جانے والے خط میں شورا کا مسئلہ بیان کیا۔[33]

امام نے عبدالله بن عباس کو حکومت شام میں بھیجنا چاہا تو معاویہ کو خط لکھا۔ اس نے جواب میں امام کو ایک سفید کاغذ بھیجا۔معاویہ کے نمائندے نے امام سے کہا: میں ایسے لوگوں کی جانب سے آیا ہوں جو تمہارے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تم نے عثمان کو قتل کیا اور وہ تمہارے قتل کے سوا راضی نہیں ہیں۔[34] معاویہ جنگ جمل اور علی کے طلحہ، زبیر اور عائشہ کے مقابلے میں آنے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے امام کی قتل عثمان میں مداخلت کو زیادہ تبلیغ کرتا۔ [35] جنگ جمل کے بعد امام کوفہ میں مستقر ہوئے۔ سپاہ شام سے درگیری کے پیش نظر لوگوں سے بیعت لینا شروع کی، شام کے علاوہ تمام علاقوں نے امام کی بیعت کی۔ امام نے اپنے خطوط کے ذریعے معاویہ کو قانع اور اپنا مطیع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ عمر کی طرف سے منصوب ہونے کے استناد کی بنا پر امام کی اطاعت سے سر پیچی کرتا رہا۔[36] معاویہ نے امام سے چاہا کہ شام اور مصر اس کے حوالے کرے نیز اسکے بعد بیعت کیلئے امام کسی اور کو مقرر نہ کریں بلکہ وہ خود امام کے سامنے بیعت کرے گا۔ امام نے اس کے جواب میں کہا:لم یکن الله لیرانی اتخذ المضلین عضدا»[37]

معاویہ نے شام میں ایک گفتگو کے دوران کہا: علی مجھ سے کیسے خلافت میں برتر ہے؟ اگر حجاز کے لوگوں نے اسکی بیعت کی ہے تو شام کے لوگوں نے میری بیعت کی۔ حجاز اور شام برابر ہے۔ اس نے یہی کلمات امام کو ایک خط میں لکھے: جب تک حجاز کے لوگ حق کی رعایت کرتے رہے اس وقت تک وہ شام پر حاکم تھے۔ لیکن اب انہوں نے حق کو چھوڑ دیا ہے اب یہ حق شامیوں کا ہے۔ [38] امام نے جواب میں لکھا: تیری یہ بات:اہل شام اہل حجاز پر حاکم ہیں، قرشیوں میں سے کوئی ایسا شخص بتاؤ جسے شورا میں قبول کیا جائے یا اسکے لیے خلافت روا ہو۔ اگر تم ایسا دعوی کرو گے تو مہاجر و انصار تمہیں جھٹلائیں گے ... میری بیعت سب نے کی کسی کی اس میں مخالفت موجود نہیں ہے اور تجدید بیعت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ہے۔[39]

جنگ صفین

پس جب خط و کتابت اور معاویہ کو ہٹانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں [40] تو امام نے اس سے جہاد کا قطعی فیصلہ کیا۔ امام نے مہاجر و انصار میں سے اپنے بزرگ صحابیوں کو اپنے پاس بلایا۔ خطبہ پڑھا اور اسکے بعد انہیں جہاد کی دعوت دی۔ بالآخر سنہ 37 ہجری کے صفر کے مہینے میں صفین نامی جگہ پر جنگ ہوئی۔ شکست جب معاویہ کی فوج کے روبرو تھی تو انہوں نے قرآن نیزوں پر بلند کیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر امام علی کے بعض سپاہیوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نتیجے میں حَکَمیت کیلئے دونوں طائفوں کے درمیان حَکَم مقرر ہوئے اور جنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی۔[41]

جنگ صفین کے بعد

امام نے نہروان کے بعد دوبارہ کوشش کی کہ عراقیوں کو شام سے جنگ کیلئے تیار کریں۔ اس کام کیلئے تیار ہونے والے افراد کی تعداد کم تھی۔ امام نے لوگوں کی سستی میں خطبے دیے اور کہا: ۔[42] میں ایسے لوگوں میں گرفتار ہوا ہوں کہ جب حکم دیتا ہوں وہ عمل نہیں کرتے جب بلاتا ہوں تو جواب نہیں دیتے ہیں۔[43] معاویہ عراقیوں کی اس سستی سے آگاہ تھا۔ لہذا اس نے ان حالات میں امام علی کی حکومت کی تضعیف اور عراق میں اپنا راستہ ہموار کرنے کے لیے امام کے زیر تسلط علاقوں جزیرۃ العرب اور عراق کے کچھ علاقوں میں شب خون مارنے کا ارادہ کیا۔[44] معاویہ کہتا تھا: یہ قتل و غارت اور تاراجی عراقیوں کو خوفزدہ کرتی ہے اور جو امام کے مخالفین میں سے ہیں یا جو امام سے جدائی کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں اس کام کی ہمت دیتی ہے۔ جو اس دگرگونی سے بیمناک ہیں انہیں ہمارے پاس لاؤ۔ [45] ان حملوں اور شب خون غارات کے نام سے معروف‌ ہیں. ابواسحق ثقفی نے کتاب الغارات نے ان غارات کی فہرست میں کتاب تالیف کی ہے۔

سپاه شام کے ناجائز اقدام

ابواسحق ابراہیم ثقفی نے کتاب الغارات میں سپاه معاویہ کے دوسرے علاقوں پر حملوں کو اکٹھا کیا ہے۔

مصر پر حملہ

مصر وہ پہلا علاقہ ہے جہاں شام کی فوج نے تجاوز کرتے ہوئے حملہ کیا۔ مصر کے والی قیس بن سعد نے جنگ صفین میں امام کی ہمراہی کی۔ جنگ صفین کے بعد محمد بن ابی بکر حاکم مصر تھا۔ امام نے مصر کے حالات کی بنا پر مالک کو مصر بھیجا۔ معاویہ نے اسکی اطلاع پاتے ہوئے مالک بن اشتر کے قتل کا نقشہ تیار کیا اور مالک قلزم نامی جگہ شہید ہو گئے۔ معاویہ نے مصر کی حکومت کا وعدہ عمرو بن عاص کو دیا تھا۔ عمرو ایک عظیم لشکر کے ساتھ مصر روانہ ہوا۔ کنانہ بن بشر دو ہزار افراد کے ساتھ شہر سے باہر آیا اس نے جنگ کی قتل ہوا فوج نے شکست کھائی۔ محمد بن ابی بکر کے اطراف سے لوگ پراکندہ ہو گئے۔ شامی فوج کے ہراول دستے کے سربراہ معاویہ بن خدیج نے محمد کو ایک خرابہ میں پا کر ان کی گردن اڑا دی اور ان کے پیٹ میں مردار رکھ کر اسے آگ لگا دی۔[46] اس طرح مصر امام کی دسترس سے نکل گیا اور [[عمرو بن عاص|عمرو بن عاص]] سال ۴۳ تک ان پر حاکم رہا۔

بصرے پر حملہ

معاویہ نے عمرو بن عاص سے مشورے کے ساتھ عبدالله بن عامر حضرمی کو بصره روانہ کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان خون عثمان کی خونخواہی کے ذریعے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرے اور وہ اس شہر میں تصرف کرے۔ ابن عامر نے قبیلۂ بنی تمیم کو اکٹھا کیا۔ ضحاک بن عبدالله ہلالی نے امام علی کی حمایت میں اس پر اعتراض کیا لیکن اکثر تمیمیوں نے ابن عامر کی حمایت کی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ معاویہ نے ابن عامر سے چاہا تھا کہ وہ مضریوں پر اعتماد کرے یہ بات ازدیوں کی رنجش کا سبب بنی۔ بصرے کے نائب زیاد بن عبید نے عبدالله بن عباس کو خط لکھا جو اس وقت کوفہ میں تھا اور بصرے کا والی تھا۔ زیاد نے ازدیوں کی حمایت سے نماز جمعہ کا اقامہ کیا اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ وہ بنی تمیم کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔ امام نے زیاد بن ضبیعہ تمیمی کو بصرے میں بھیجا تا کہ وہ بنی تمیم کو ابن عامر کی حمایت سے روکے۔ بہت زیادہ کوششوں سے بنی تمیم ابن عامر کی حمایت سے دستبردار ہوئے۔ ان حالات میں وہ خوارج کے ہاتھوں میں قتل ہو گیا۔ امام نے جاریۃ بن قدامہ کی سرکردگی میں بنی تمیم کے پچاس افراد کو بصره بھیجا۔ اس نے شیعوں کیلئے امام کا خط پڑھا۔ جنگ ہوئی تو بنی تمیم شکست سے دوچار ہوئے۔[47]

عراق پر حملہ

معاویہ نے ضحاک بن قیس کو عراق بھیجا اور کہا کہ جہاں جاؤ وہاں قتل و غارت اور تباہی پھیلا دو، علی کے دوستوں کو قتل کرو اور جلدی سے اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جاؤ۔ ضحاک کوفہ آیا لوگوں کے اموال برباد کیے اور حجاج کے کاروان پر حملہ آور ہوا۔ امام نے حجر بن عدی کو 4000 افراد دے کر ضحاک کے پیچھے روانہ کیا۔ حجر نے اسے تدمر میں جا لیا جنگ ہوئی شامیوں کے ۱۹ افراد مارے گئے حجر کے ساتھیوں میں سے 2 شہید ہوئے۔ ضحاک رات کی تاریکی میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

نعمان بن بشیر کی سرکردگی میں فرات کے اطراف عین التمر پر حملہ معاویہ کا ایک اور ناجائز اقدام تھا۔ لیکن یہ حملہ معمولی سی جنگ اور نعمان کے فرار سے تمام ہو گیا۔ ان حملوں کے بعد عدی بن حاتم نے 2000 افراد کے ساتھ شام کے نچلے علاقوں کی زمینوں میں حملے کیے۔[48]

معاویہ نے دومۃ الجندل میں سپاہ بھیجی تا کہ ان سے زکات لیں۔ امام نے بھی مالک بن کعب کے ساتھ سپاہ بھیجی دونوں آمنے سامنے ہوئیں ایک دن جنگ کے بعد شام کی سپاہ شام واپس چلی گئی۔[49]

دیگر حملوں میں سے سفیان بن عوف غامدی کا چھ ہزار افراد کی معیت میں ہیت پر حملہ تھا۔ یہاں سے وہ انبار گئے۔ امام کے ساتھی شہر میں کم تھے۔ متجاوزین نے انبار شہر کو تباہ و برباد کیا۔ امام نے سعید بن قیس ہمدانی کو آٹھ ہزار افراد کے ساتھ شامیوں کے تعاقب میں روانہ کیا لیکن وہ انکے پہنچنے سے پہلے شام میں داخل ہو گئے۔[50]

حجاز پر حملہ

سال ۳۹ کے ایام حج میں معاویہ نے یزید بن شجره رہاوی کو مکہ میں بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو معاویہ کی طرف دعوت دے۔ امام نے اس سپاہ کے مقابلے میں معقل بن قیس ریاحی کو مکہ بھیجا۔ سپاه شام کسی درگیری کے بغیر مناسک حج کے بعد شام واپس چلی گی۔ معقل نے وادی القری تک ان کا تعاقب کیا۔ چند تن اسیر ہوئے جنکا بعد میں عراق کے قیدیوں سے تبادلہ کیا گیا۔[51]

معاویہ کی طرف سے بُسر بن ارطاة کی سربراہی میں حجاز اور یمن پر حملہ سخت ترین غارت گری تھی۔ معاویہ نے بسر سے چاہا کہ جہاں بھی علی کے شیعوں کو پائے انہیں قتل کر دے۔ یمن میں عثمان کے حامیوں نے عراق میں اختلافات کو دیکھتے ہوئے یمن کے حاکم عبیدالله بن عباس کے خلاف بغاوت کر دی اور اسکے لیے انہوں نے معاویہ سے مدد مانگی۔ بسر پہلے مدینہ گیا جہاں ابو ایوب انصاری قوت و قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے فرار کر گیا۔ بسر نے اسکا گھر جلا دیا اور لوگوں کو معاویہ کی بیعت پر اکسایا اور ابو ہریره کو شہر کا حاکم بنا دیا۔ پھر وہ مکہ اور طائف گیا۔ تبالہ میں شیعوں کی ایک جماعت کو قتل کیا۔ مکہ کے لوگوں نے خوف سے فرار اختیار کیا۔ بسر نے عبیدالله بن عباس کی بیوی بچوں کو اسیر کیا اور بیٹوں کے سر اڑا دیئے۔ پھر نجران گیا اور عبید اللہ کے سسر عبدالله بن عبد المدان کو قتل کیا۔ کچھ شیعوں نے دفاع کیا اور بہت سے قتل ہوئے۔ پھر ایک سو ایرانی شیعوں کو قتل کیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اس نے حضر موت کا رخ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں شیعوں کی کثیر تعداد ساکن تھی۔ بسر کے حملوں کی خبر پا کر امام نے جاریۃ بن قدامہ کو سپاہیوں کی معیت میں بسر کے تعاقب میں روانہ کیا۔ وہ جب مکہ پہنچا تو وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جاریہ کے کوفے واپس پہنچنے سے پہلے امام شہید ہو چکے تھے اور لوگ امام حسن کی بیعت کر چکے تھے۔[52]

اموی خلافت کی تشکیل

امام علی کی شہادت کے بعد بیت المقدس میں شام کے لوگوں نے معاویہ خلیفہ کی حیثیت سے بیعت کی اور اسے خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کرنے لگے۔[53] معاویہ پھر عراق کی طرف متوجہ ہوا۔ امام حسن عبد اللہ بن عباس سمیت 12000 افراد کے لشکر کے ہمراہ مدائن کی طرف روانہ ہوئے۔ جب لشکر ساباط پہنچا تو انہوں نے اپنے اصحاب کے متعلق خاص طو پر معاویہ کی جانب سے انہیں رشوت دینے اور عبید اللہ بن عباس کی دلجوئی کی کوشش کی وجہ سے تردید کا شکار ہوئے۔ پس امام حسن نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ معاویہ اور امام کے درمیان صلح کی بات چلی، امام حسن نے حکومت معاویہ کے حوالے کر دی۔ امام نے صلح میں شرط لگائی کہ معاویہ کے بعد حکومت انہیں واپس ملے گی۔ معاویہ صلح کے بعد کوفے میں آیا اور امام حسین و حسن نے اسکی بیعت کی۔ لوگوں کے اس اجتماع کی وجہ سے اس سال کا نام عام الجماعة رکھا گیا کیونکہ امت میں سے خوارج کے علاوہ سب نے ایک شخص کی بیعت کی تھی۔[54]

جاحظ اس سال معاویہ کے بادشاہ بننے، اعضائے شورا اور مہاجرین و انصار کی نسبت اسکی استبدادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: معاویہ نے اگرچہ اس سال کا نام عام الجماعۃ رکھا حالانکہ یہ سال عام فرقہ و قہر و جبر و غلبہ کا سال تھا۔ یہ وہ سال تھا کہ جس میں امامت ملوکیت میں، نظام نبوی نظام کسرائی میں تبدیل ہوا اور خلافت مغصوب اور قیصری ہوئی۔[55]

حکومت معاویہ اگرچہ پہلا حاکمیت کا تجربہ تھا کہ جس میں دینی و سیاسی، قبیلائی اور علاقائی اختلافات میں زور گوئی کے ذریعے اور سیاسی حیلوں کے توسط سے قدرت حاصل کی گئی تھی۔[56] معاویہ تصریح کرتا ہے کہ اس نے یہ خلافت کو لوگوں کی محبت، دوستی اور انکی رضایت سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے حاصل کی ہے۔[57]

بہر حال اس طرح اموی حکومت بن گئ اور معاویہ اس کا خلیفہ بنا۔ اس سلسلے نے ۹۱ سال (۱۳۲ق.-۴۱ق.) دوام پایا۔ اس میں ۱۴ نفر خلیفہ ہوئے۔[58]. پہلا معاویہ بن ابی سفیان اور آخری مروان بن محمد جعدی تھا۔[59]

خلافت سے پہلے کی کوششیں

معاویہ نے اگرچہ ظاہری طور پر اعلان کیا تھا کہ اسکی علی سے مخالفت خلافت کیلئے نہیں ہے۔ اس نے جنگ جمل سے پہلے زبیر بن عوام]] کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے بیعت لے لی ہے اگر عراق انکا ساتھ دے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ زبیر اس خط سے خوش ہوا۔[60] معاویہ نے لوگوں کے درمیان خلیفہ کے انتخاب کے درمیان مسلمانوں کے درمیان شورا کا نظریہ پیش کیا۔ معاویہ اس در پے تھا کہ قریش کی سیاسی شخصیات خاص طور پر شورا کے موجود افراد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس سے سیاسی مقاصد حاصل کرے۔ معاویہ نے یہ مسئلہ ایک خط میں امام علی کے سامنے بھی پیش کیا۔[61]

دیگر تاریخی منابع کے مطابق اس نے امیر المومنین کے نام سے نہیں بلکہ امیر کے نام سے بیعت کی لیکن امام علی کی شہادت کے بعد خلافت کا دعوی کیا اور لوگوں نے امیر المومنین کے نام سے اسکی بیعت کی۔[62] معاویہ نے حمص کے حاکم کو خط لکھا اور کہا لوگ جس نام سے اسکی بیعت کریں اسی نام سے لوگ بیعت کریں۔ حمص کے اشراف معاویہ کی امیر کے عنوان سے بیعت پر راضی نہیں ہوئے کہ خلیفہ کے بغیر عثمان کی خوانخواہی کیلئے نکلیں گے۔ پس اس لحاظ سے حمص کے وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے معاویہ کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کی۔ اس کے بعد شام کے لوگوں نے بھی خلیفہ کے عنوان سے اسکی بیعت کی۔[63]

معاویہ کے طلقا میں سے ہونے کی وجہ سے خلافت کا مسئلہ اس کیلئے دشواری پیدا کرتا تھا۔ معاویہ نے شام میں اپنے آپ کو «خال المؤمنین» اور «کاتب وحی» کے عنوانوں سے پہچنوایا تھا اور اس جہت سے اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔[64]

معاویہ کی سیاسی روش

معاویہ کی امام حسن(ع) کے ساتھ صلح کے ساتھ اس کی خلافت کا پہلا دور اختتام ہوا اور اموی دور حکومت کا آغاز ہوا۔ معاویہ کی حکومت کا پایہ تخت دمشق تھا۔ اس نے اپنے اہداف کے تحت اپنی حکومت کی بنیادیں فراہم کیں۔ اسکی اہم کوششیں عبارت ہیں: نظام سیاسی میں تبدیلی، فوج کے کردار کو اساسی محور قرار دینا، قبائل کا موازنہ اور چلانا، ولی عہدی کی ایجاد، مخالفین کی سرکوبی، خوش روئی کا مظاہرہ کرنا اور بزرگ شخصیات اسلامی کو بخشش و ہدایا دینا، جابر اور قدرتمند والیوں کے ذریعے امنیت ایجاد کرنا، حکومتی کاموں کو مستقیم ادارہ کرنا اور توسیع طلبانہ سیاستیں۔[65]

خلافت کے استحکام کیلئے دینی اصولوں کا استعمال

معاویہ نے اپنی خلافت کے استحکام کیلئے بعض دینی اصول بھی بروئے کار لاتا تھا ۔قدرت حاصل کرنے کیلئے اپنے آپکو خدا کی طرف سے (نمائندہ) سمجھتا تھا ۔کیونکہ تمام کام اسی کی طرف سے ہیں ۔[66] ایک زمانے میں معاویہ نے کہا: یہ خلافت خداوند کا امر اور اس کی قضاؤں میں سے قضائے الہی ہے ۔ [67]معاویہ نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق عائشہ کی مخالفت کے وقت کہا:یہ قضائے الہی ہے اور قضائے الہی میں کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ [68] بعض گزارشوں کے مطابق اسی نے عائشہ کو قتل کروایا۔ [69]بصرے اور کوفہے میں معاویہ کے حاکم زیاد بن ابیہ، نے اپنے معروف خطبے کے ضمن میں کہا :اے لوگوں !ہم سیاست کرنے والے ہیں اور آپ کے مدافع ہیں اور ہم تمہیں اس حکومت کی طرف سیاست کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔[70] یزید نے بھی اپنے پہلے خطبے میں کہا تھا : اسکا باپ بندگان خدا میں تھا ،خدا نے اس پر اکرام کیا اور است خلافت بخشی ....اور اب خدا نے وہ خلافت مجھے عطا کی ہے ۔[71] معاویہ کے سامنے عثمان کے بیٹے نے یزید کی ولایتعہدی پر اعتراض کیا اور کہا تو میرے باپ کی وجہ سے تخت نشین ہوئے ہو تو اس نے جواب میں کہا : یہ وہ ملک ہے جسے خدا نے ہمارے اختیار میں دیا ہے ۔[72]

معاویہ اپنے بارے میں لفظ مُلک کے استعمال سے خوش ہوتا۔معاویہ کہتا تھا : انا اول الملوک.[73] وہ شاہی نظام کو صرف ایک سیاسی نظام سمجھتا اور توضیح دیتا تھا : لوگوں کی دینداری کے ساتھ اس کا کوئی کام نہیں ہے ۔ اس سے منقول ہے : خدا کی قسم !میری جنگ اقامۂ نماز،زکات دینے اور حج کرنے کیلئے نہ تھی یہ کام تو تم انجام دیتے تھے ۔ میں نے تم پر امارت کیلئے جنگ کی اور خدا نے مجھے وہ دی حالانکہ تم اس پر ناخوش ہو۔ [74]

جعل حدیث

معاویہ کے دور حکومت میں جعل حدیث کا سلسلہ شروع ہوا یہانتک کہ بعض افراد اہل بیت کی مذمت میں احادیث جعل کرتے اور تو اسکی کی جانب سے انکی پشت پناہی کی جاتی ۔[75] معاویہ کی مدح میں اس قدر احادیث جعل ہوئیں کہ ابن تیمیہ بھی اس کا اقرار کرتا ہے ۔ وہ حدیث طیر کے رد میں لکھتا ہے :معاویہ کے فضائل میں بہت زیادہ احادیث جعل کی گئیں اور مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ حدیث کے اہل دانش نہ انہیں درست سمجھتے ہیں اور نہ اسے صحیح سمجھتے ہیں ۔ [76]

حکومتی سسٹم

معاویہ نے اپنی توانائی کے تحت حکومتی استفادے کیلئے سودمند اداری طریقے، دیوانوں کی ایجاد اور مفید وسائل بروئے کار لا کر ان سے فائدہ حاصل کیا ۔معاویہ کے دور حکومت میں دیوانوں کا تحول قابل مشاہدہ تھا۔روم اور ایران کے ساتھ ارتباط میں یہ امر مؤثر تھا۔اموی دفتری سسٹم میں اسے تکامل بخشے بغیر عمر بن خطاب کی پیروی کرتے تھے ۔ معاویہ نے اپنے پاس موجود رومی حکومت میں کام کرنے والے عیسائیوں مانند سرجون بن منصور رومی اور اسکے بیٹے منصور بن سرجون سے دیوان منظم کرنے میں مدد لی ۔[77]

معاویہ نے دیوان خاتم اور دیوان برید کے نام سے دو دیوان (ادارے) تاسیس کیے تا کہ خطوط مہر کے بغیر نہ رہیں اور خلیفہ کے علاوہ کوئی اور شخص ان کے اسرار سے آگاہ نہ ہو نیز خطوط جعل اور دگرگونی کا شکار نہ ہوں۔دیوان البرید میں خطوط کی ارسال و ترسیل کا کام کیا جاتا۔ دیوان خاتم کے لوگ ان خبروں کو حاصل کرتے جو صوبوں کے گورنر خلیفہ کی طرف بھجواتے تھے ۔ دیوان برید خلیفہ اور اسکے عاملوں وغیرہ کے درمیان ارتباط کو سرعت بخشنے کیلئے قائم کیا گیا ۔ان دو دیوانوں (اداروں) کے ملازمین خطوط کے ارسال و ترسیل کے علاوہ خلیفہ کے جاسوس بھی تھے جو گورنروں کی حرکات و سکنات کو زیر نظر رکھتے تھے اور اپنی معلومات خلیفہ کو پہنچاتے تھے ۔ معاویہ نے ان اداروں کیلئے خطیر رقم خرچ کی تھی۔

اہم واقعات

خوارج

معاویہ کے دور حکومت میں خوارج کی نسبت گورنروں کے شدت عمل اور سختی کے باوجود وہ مسلسل ان کی جانب سے ناآرام رہے۔ معاویہ امام علی کی نسبت خوارج سے زیادہ نفرت کرتا تھا اور خوارج معاویہ کو اسلام سے منحرف سمجھتے تھے ۔انکے اعمال نے اموی خلیفہ کو پریشان کیا اور وہ مسالمت آمیز راستوں کے مخالف تھے اسی وجہ سے معاویہ نے انہیں خشونت سے جواب دیا ۔

مرکز خلافت کے کوفہ سے دمشق منتقل ہونے کے ہمزمان خوارج نے معتدل تر اور سازگارتر راستہ اختیار کیا کہ جو حروریہ کی سرگرمیوں کا مرکز کوفے سے بصرہ کی طرف منتقل ، ان کی تحریک میں اندرونی گروہ بندی اور سستی اور ایک عقیدتی گروہ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ عقیدے کے لحاظ سے خوارج کی مختلف مشابہ گروہ بندی انکی فوجی طاقت پر منفی انداز میں مؤثر ہوئی اس سے اموی حکومت کو ان پر غلبہ حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ جنگ نہروان خوارج کی پہلی اور آخری جنگ تھی جس میں وہ ایک دشمن کے مقابلے میں ایک سربراہ کی سرکردگی میں اکٹھے ہوئے تھے اس کے بعد وہ پراکندہ ہوگئے ۔کوفہ کے خوارج نے فروة بن نوفل اشجعی کی سربراہی میں امام حسن اور معاویہ کی صلح کی مخالفت کی اور ابھی معاویہ کوفہ میں ہی تھا کہ انہوں نے اس پر شورش بپا کرتے ہوئے نخیلہ میں لشکر کشی کی جس کے نتیجے میں معاویہ کی سپاہ اور انکے درمیان جنگ ہوئی ۔[78]
سال ۴۳،میں مستورد بن علقمہ کی سرکردگی میں معاویہ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت ہوئی ۔ کوفہ کے حاکم مغیره بن شعبہ نے مذار نامی جگہ پر انہیں سرکوب کیا ۔

خوارج کے قبائل کی پراکندگی، اہل کوفہ،عراق میں معاویہ کی مرکزی حکومت کا انکے مقابلے میں سخت مؤقف اور کوفیوں کے شیعیان آل علی کی جانب میلان نے بھی خوارج کی سرکوبی میں مغیرہ کی مدد کی ۔ اگرچہ خوارج نے کوفیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کافی کوششیں کیں لیکن کوفیوں نے سیاسی منافع کی وجہ سے انکے ساتھ جنگ کرنے کو ترجیح دی ۔ کوفہ کے خوارج چند سال آرام کے ساتھ رہے یہانتک کہ سال ۵۸ میں حیان بن ظبیان سلمی نے شورش برپا کی ۔ ایک سال بعد باقیاء میں ہونے والی جنگ تمام خوارج قتل ہو گئے اور اس طرح یہ بغاوت دم توڑ گئی ۔[79]

بصرہ کے خوارج نیز کوفہ کے خوارج کی مانند کبھی کبھی شورشیں بپا کرتے تھے۔ وہاں سال ۴۱ میں سہم بن غالب اور خطیم باہلی کی قیادت میں قیام کیا ۔اموی حکمران ابن عامر نے انہیں سرکوب کیا ۔ ابن عامر کو خوارج کے ساتھ نرم برتاؤ کرنے کی وجہ سے معاویہ کی جانب سے برطرف ہونا پڑا۔ سال ۴۵ میں زیاد بن ابیہ بصرے کا حکمران بنا۔اس نے خوارج کے مقابلے میں سخت گیرانہ سیاست اختیار کی ۔ سال ۵۳ میں زیاد کے مرنے کے بعد خوارج کی سرگرمیاں پھر نئے سرے سے شروع ہوئیں لیکن سال55 ھ میں عبید اللہ بن زیاد کے حاکم بننے کے بعداس نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں زندانی اور قتل کیا ۔

عراق سے باہر کے سیاسی حالات

عراق سے باہر کے سیاسی حالات نے معاویہ کیلئے کوئی خاص مشکلات پیدا نہیں کیں ۔والیان کسی اعتراض کے روبرو ہوئے بغیر اپنی حکومتیں کرتے رہے ۔ عمرو بن عاص نے مصر، دو سال حکومت کی اور سال ۶۳ میں مر گیا پھر اس کا بیٹا عبدالله به مدت دو سال اسس کا جانشین رہا ۔پھر معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابی سفیان اور پھر معاویہ بن جدیج مصر کے حاکم رہے ۔

حجاز میں امام حسن، امام حسین، عبدالله بن زبیر و... جیسی قد آور اسلامی شخصیات تھیں۔ اس وجہ سے اس علاقے کو معاویہ مستقیم زیر نظر رکھتا تھا اور یہاں کے لوگوں کیلئے اموی خاندان کا والی بناتا تا کہ وہ اسکی سیاست کا اجرا کرے ۔ مدینہ کے امور مروان بن حکم اور سعید بن عاص کے ذریعے چلائے جاتے ۔ اس کے علاوہ غیر سیاسی مختلف سرگرمیوں جیسے مشاعرہ، موسیقی اور علوم دینی کی طرف لوگوں کو تشویق کرتا ۔ اس مسئلے نے مکہ اور مدینے کو معاشرتی اور اجتماعی لحاظ سے اہم ترین مراکز میں تبدیل کر دیا ۔

شیعہ

کسی شک و شبہ کے بغیر شیعہ معاویہ کے دشمنوں میں سے تھے . معاویہ اور اسکے عاملین اور والی مختلف شکلوں میں شیعوں کے روبرو ہوتے ۔

  • امام علی(ع) سے بیزاری پیدا کرنا: شیعوں کا مقابلہ کرنے کیلئے معاویہ کی اہم ترین روشوں میں سے ایک روش لوگوں کے درمیان امام علی سے بیزاری کو پیدا کرنا تھی ۔ معاویہ اور اسکے بعد کے دیگر اموی حاکمان معاشرے سے علی کے چہرے کو حذف کرنے خاطر انہیں ایک جنگجو اور خونریز شخص کے طور پر معرفی کرنے کیلئے سرگرم رہے ۔[80] محفلوں میں ان سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان پر لعن کرتے ۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہمعاویہ کی طرف علی کی مذمت میں جعلی اور من گھڑت احادیث کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔[81]
  • معاویہ اور اسکے بعد امیوں کے دور حکومت میں علی پر لعن اور دشنام درازی ایک متداول اور رائج رسم تھی یہانتک کہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ [82] چنانچہ جب مروان بن حکم سے سوال کیا گیا کہ منبروں پر علی کو ناسزا کہا جاتا ہے ؟اس نے جواب دیا :بنی امیہ کی حکومت علی کو گالیاں دئے بغیر استوار نہیں رہ سکتی ہے ۔ [83] معاویہ کہتا تھا: علی پر لعن و سب اس طرح پھیل جانا چاہئے کہ بچے اسی شعار کے ساتھ بڑے ہوں اور جوان اسی کے ساتھ بوڑھے ہوں۔کوئی شخص اسکی ایک بھی فضیلت نقل نہ کرے ۔ [84] معاویہ نے سمرة بن جندب کو چار لاکھ دینار دئے کہ وہ کہے :و هو الد الخصامبقرہ 204 علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ [85] اس نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت بنائی جو علی کی مذمت میں روایات کو جعل کرتے تھے ۔ ان میں سے ابوہریره، عمرو بن عاص، مغیره بن شعبہ اور عروه بن زبیر تھے ۔وہ خطبے کے آخر میں علی پر لعن کرتا اور اگر اسکے والی ایسا نہ کرتے تو انہیں عزل کر دیتا ۔معاشرے میں اس قدر خوف ہراس پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے بیٹوں کے نام علی نہیں رکھتے تھے۔
  • حجر بن عدی اور اسکے اصحاب کی شہادت: جب مغیره اور دوسرے لوگ کوفہ میں منبر پر علی کو لعن کرتے تھے ، حجر بن عدی کندی اور عمرو بن حمق خزاعی اور انکے ساتھی کھڑے ہو جاتے اور انکی لعن کو انکی طرف نسبت دیتے اور اس کے متعلق بات کرتے ۔مغیره کے بعد زیاد بن ابیہ حاکم کوفہ بنا۔وہ انکی گرفتاری کے در پے ہوا ۔ عمرو بن حمق خزاعی اور اسکے ساتھ چند افراد موصل فرار کر گئے جبکہ حجر بن عدی ۱۳ مردوں کے ساتھ اسیر ہو گیا اور انہیں معاویہ کی طرف روانہ کیا۔ زیاد نے معاویہ کو خط میں لکھا:ابو تراب علی کی کنیت ،پر لعن کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں اور والیوں پر دروغ باندھتے ہیں اس وجہ سے یہ اطاعت سے خارج ہو گئے ہیں ۔جب یہ اسیر مرج عذراء پہنچیں یہاں سے دمشق چند میل دور رہ گیا تھا تو معاویہ نے حکم دیا کہ انکی گردنیں اڑا دی جائیں ۔6 افراد کسی وساطت سے بچ گئے اور باقی 7افراد : حجر بن عدی کندی، شریک بن شداد حضرمی، صیفی بن فسیل شیبانی، قبیصہ ابن ضبیعہ عبسی، محرز بن شہاب تمیمی، کدام بن حیان عنزی کی گردنیں اڑا دی گئیں۔[86] عبدالرحمان بن حسان عنزی.[87]
  • حجر بن عدی اور اسکے ساتھیوں کی شہادت کی خبر امام حسین(ع) کیلئے نہایت گراں گزری لہذا آپ نے معاویہ کو ایک خط میں اس خشن آمیز رفتار اور اسکے قتل پر بہت سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔[88]
  • عائشہ نے بھی اس کام پر سخت نکتہ چینی کی تو معاویہ نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں امت کی اصلاح تھی۔عائشہ نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا:

سمعت رسول الله (صلی الله علیه و آله) یقول سیقتل بعذراء اناس یغضب الله لهم و اهل السماء[89] میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ عنقریب لوگ عذراء میں قتل ہونگے اور اہل آسمان اور خدا انکے قتل کی وجہ سے خشم آور ہونگے ۔

  • حسن بصری می گوید: معاویہ میں ایسی چار خصلتیں ہیں کہ ان میں ہر ایک معاویہ کی ہلاکت کیلئے کافی ہے :
  1. پہلی: کسی سے مشورے کے بغیر تلوار کے زور پر مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہو جانا جبکہ اس سے با فضیلت صحابہ موجود تھے ۔
  2. دوسری:اپنے دائم الخمر بیٹے کو جانشین بنانا کہ جو ہمیشہ ریشم پہنتا اور تنبور میں مشغول رہتا۔
  3. تیسری: زیاد کو اپنا بھائی کہنا جبکہ رسول خدا نے فرمایا تھا : الولد للفراش و للعاہر الحجرولد صاحب فراش کا ہے زنا کار کیلئے صرف پتھر ہیں ۔
  4. چوتھی: حجر کا قتل .[90] [اس وقت دو مرتبہ کہا :] ہائے افسوس حجر اور اس کے ساتھیوں پر۔ [91]
  • شیعوں پر سختی اور دباؤ :شام کے مقابلے میں معاویہ کی سیاست عراق کے شیعوں کی نسبت کارساز نہیں ہو سکی تھی۔ اس لئے اس نے قتل اور شکنجے دینے کے راستے کو اپنایا۔ امویوں نے اپنے دور میں شیعوں کیلئے ترابیہ کی اصطلاح رائج کی تھی۔[92]
  • امام علی کی حکومت کے دور حکومت سے ہی شیعیان علی کا کشتار شروع ہو گیا تھا ۔
  • معاویہ بسر بن ارطاة، سفیان بن عوف غامدی و ضحاک بن قیس کو عراق اور حجاز بھیجا اور ان سے تقاضا کیا کہ جہاں شیعہ پاؤ انہیں قتل کر دو۔
  • مغیره سال ۴۱ سے ۴۹ یا ۵۰ تک والیئ کوفہ رہا اور اس نے شیعوں کی نسبت تسامح سے کام لیتا تھا ۔اس طرح کوفہ کے سیاسی فضا میں آرام اور سکون تھا ۔ مغیره کی وفات کے بعد معاویہ نے بصرے کے والی زیاد بن ابیہ کو کوفہ کی امارت بھی دے دی ۔اس نے آتے ہی ان اسی (80) افراد کے ہاتھ کاٹ دئے جنہوں نے اسکی بیعت نہیں کی تھی ۔ مسلم بن زیمر اور عبدالله بن نجی ان شیعوں میں سے ہیں جو اس کے ہاتھوں شہید ہوئے . امام حسین حجر کی شہادت کے بعد معاویہ کو خط لکھا جس میں اسکی مظلومانہ شہادت کا تذکرہ کیا ۔[93]
  • کوفہ سمیت پورے عراق کے شیعوں کی سرکوبی کا حکم زیاد کو دیا گیا تھا ۔ ابن اعثم کہتا ہے : وہ مسلسل شیعوں کے تعقب میں رہتا جہاں انہیں انہیں قتل کرتا اس طرح بہت سے شیعہ اس کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔لوگوں کے ہاتھ و پاؤں کاٹ دیتا اور آنکھیں نکال دیتا ۔البتہ معاویہ نے بھی شیعوں کی ایک تعداد کو قتل کیا ۔ منقول ہوا ہے معاویہ نے خود دیا کہ شیعوں کی ایک جماعت کو صولی دیا جائے ۔ زیاد شیعیوں کو مسجد میں جمع کرتا اور انہیں کہا جاتا کہ علی سے بیزاری کا اعلان کریں ۔ امام حسن نے شیعوں کے ساتھ زیاد کے اس رویے کی شکایت کی لیکن معاویہ نے اسی طرح اپنے عمال کو لکھا:
تمہارے درمیان جو بھی علی سے دوستی کا متہم ہے اسے اپنے درمیان سے ہٹا دو حتاکہ اگر اس کام کیلیے پتھروں کے نیچے سے حدس اور بینہ ہی حاصل کر پڑے ۔

بیعتِ یزید

خلافت یزید کیلئے بیعت لینا دیگر مسائل کی نسبت اس بات کا باعث بنا کہ لوگ معاویہ کے مقابل کھڑے ہوں یا اس پر تنقید کریں ۔وہ اپنی خلافت کی جانشینی میں حضرت ابو بکر کی روش سے باہر نکل گیا تھا ۔[94] جس سسٹم کی اس نے بنیاد ڈالی تھی اس میں ضروری تھا کہ حکومت وراثتی ہونی چاہئے ۔ایک طرف ایسے کام کو عملی جامہ پہنانا آسان کام نہ تھا کیونکہ عرب اس سے پہلے موروثی نظام سے آشنا نہیں تھے تو دوسری طرف وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ اموی حکومت کے قیام میں تیس سال کی کوششوں کا ثمرہ ضائع نہ ہو جائے۔ معاویہ چاہتا تھا کہ انتخاب خلیفہ کا اختیار بنی امیہ میں باقی رہے ۔ اسی منظور اور مقصود کے پیش نظر اس نے یزید کا انتخاب کیا ۔دوسری طرف اس بات کا بھی قئل تھا حکومت کا دار الحکومت شام میں ہی رہے کیونکہ شامیوں کا رجحان بنی امیہ کی جانب تھا ۔ [95]

مشہور روایت کے مطابق مغیرة بن شعبہ نے معاویہ کے ذہن میں یہ بات ڈالی ۔ [96] البتہ معاویہ بھی یہی چاہتا تھا لیکن مغیره نے کھلم کھلا لوگوں کے درمیان اس موضوع کو بیان کیا۔ [97] زیاد بن ابیہ کا مؤقف ان سے مختلف تھا ۔ زیاد کی رائے میں یزید ایک سست شخص آدمی ہے ،خلافت کی نسبت شکار کو زیادہ دوست رکھتا ہے اس لئے وہ خلیفہ بننے کیلئے زیادہ مناسب نہیں ہے نیز اسکے مخالفین زیادہ طاقتور تھے۔[98]

معاویہ نے زیادہ کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہوئے امام حسن اور انکی اولاد اور اصحاب کے قیام کو روکنے کی خاطر یزید کی ولایت عہدی کے مسئلے کو کسی مناسب موقع کی انتظار میں مؤخر کر دیا۔ اسی دوران اس نے یزید کی ولی عہدی میں بننے والی رکاوٹ برگ شخصیات کو راستے ہٹا دیا۔ ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبیین مں لکھتا ہے : جب معاویہ نے نے یزید کو خلافت کیلے چننا اور لوگوں سے بیعت لینے کا ارادہ کیا تو مخفیانہ طور پر امام حسن اور سعد بن ابی وقاص کیلئے مخفیانہ زہر بھیجا لہذا وہ چند روز نہیں گزرے تھے کہ وہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔[99] یہانتک کہ بعض اقوال کی بنا پر عائشہ کو اسی وجہ سے قتل کروایا ۔ [100]

ولی عہدی کے اقدامات اور رکاوٹیں

یزید کی ولی عہدی میں درج ذیل اہم رکاوٹیں ہیں :

  • حجاز کی معروف شخصیات کو قائل کرنا خاص طور پر امام حسین، عبدالله بن زبیر، عبدالله بن عمر اور عبدالرحمان بن ابی بکر حتاکہ بعض اموی شخصیات مروان بن حکم اور سعید بن عاص. معاویہ نے ان شخصیات کو قائل کرنے کلئے مروان بن حکم کو خط میں لیکھا :یزید کا نام لئے بغیر لوگوں سےانکی رائے لو ۔جب مثبت جواب حاصل کیا تو مروان کو خط لکھا یزید کی جانشینی کی اطلاع لوگوں کو دے دو۔اسی طرح دوسرے عاملوں کو خط لکھا کہ شہروں سے یزید کی بیعت کیلئے وفد بھیجیں اور یزید کی مدح و سرائی کریں ۔ اسکے نتیجے میں عراق سمیت شام کے دوسرے بڑے شہروں سے اسکی بیعت کیلئے وفد دمشق آئے ۔
جلد ہی واضح ہو گیا کہ دوسرے اسلامی شہروں کی نسبت مدینہ یزید کی بیعت کا مخالف ہے ۔[101] امام حسین، عبدالله بن زبیر و عبدالله بن عمر نے یزید کی خلافت کیلئے حالات فراہم کرنے مخالفت کی ۔ مروان نے اس بات کی معاویہ کو اطلاع دی[102] یہ چار افراد موافق ہیں کہ اگر خلافت موروثی ہے تو وہ اس کام کیلئے یزید سے زیادہ زیادہ موزوں ہیں ۔ اگر برتر افراد کو خلیفہ ہونا چاہئے تو معاویہ کو چاہئے کہ اہل حجاز کی بیعت کرنے کیلئے معاویہ اقدام کرے ۔شروع میں ظاہری طور پر معاویہ نے نرمی اختیار کی ۔[103] اور لوگوں کو انعام و کرام دے کر اپنی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ عقیبہ اسدی اور عبدالله بن ہمام سلولی جیسے یزید سے نفرت رکھنے والے وہ شاعر ہیں جنہوں پیسوں کے بدلے میں اپنا مؤقف تبدیل کر لیا ۔ معاویہ نے سال ۵۶ میں قانونی طور پر یزید کی بیعت کا اعلان کیا اور دمشق میں اس کا جشن منایا گیا ۔ [104] معاویہ نے اہل حجاز کی نافرمانی روکنے کی خاطر مدینہ کا سفر کیا اور مخالفین یزید سے بیعت لے کر اسکی تضمین کرنا چاہئے ۔لیکن معاویہ کے مدینے کے نزدیک پہنچنے کے وقت مخالفین مکہ چلے گئے ۔اس بات معاویہ نہایت خشمگین ہوا اور اس نے مکہ جانے کا ارادہ کیا ۔ مسجدالحرام میں ان سے سخت لہجے میں کلام ہوئی ۔ مخالفین کے نمائندے کے طور پر ابن زبیر نے مخالفت کا اعلان اور یوں اسکی گفتگو کو ناکامی ہوئی ۔ اسکے بعد معاویہ نے امام حسین و عبدالله بن زبیر کے علاوہ دوسروں کو ڈرانے دھمکانے کے ذریعے بیعت پر بھارنا شروع کیا ۔ [105]
  • ذمہ داری کیلئے یزید کو تیار کرنا :اس کام کیلئے اسے روم کی طرف بھیجے گئے لشکر میں شامل کیا گیا تا کہ وہ فوج کی مدد کرے ۔ ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور ابوایوب انصاری جیسی بڑی شخصیات بھی اس کے ہمراہ بھیجی گئیں ۔ ان سے مقصد یزید کو ایک مجاہد بنا کر پیش کرنا تھا ۔[106]

خارجہ پالیسی

مأمون عباسی اور مدح معاویہ پر سزا

بنی عباس میں سے شیعیت کی طرف رجحان رکھنے والا ساتواں خلیفہمأمون سال ۲۱۱ھ میں اس شخص برات کا اعلان کرتا تھا جو معاویہ کی مدح کرتا اور ایسا کرنے والے شخص کیلئے ایک سزا مقرر کی گئی ۔ [107]

حوالہ جات

  1. موسوعہ حیاۃ الصحابہ من کتب التراث، ج ۵-۶، ص ۳۴۷۸
  2. تاریخ دمشق، ج ۱، ص ۳۴۹
  3. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۱، ص ۴۰۱
  4. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۴، ص ۴۳۳
  5. رک: ذہبی، شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۳ ، ص ۱۲۲
  6. مسند طیالسی، ش ۲۷۴۶؛ مسلم، ش ۲۶۰۴؛ نیز: أنساب الاشراف، ج ۴، ص ۱۲۵
  7. رک: شوکانی، الفواید المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ص ۴۰۳-۴۰۷
  8. رک: اسکافی، المعیار و الموازنہ، ص ۲۱ و تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص ۴۷۷، ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۵۹، ص ۱۰۳
  9. عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۸، ص ۱۰۵
  10. بلاذری، ابو العباس احمد بن یحیی بن جابر، فتوح البلدان، ص ۱۷۳
  11. یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۸۶؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۴، ص ۴۴۴
  12. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۶
  13. ابن کثیر،البدايہ والنہايہ ط إحياء التراث (8/ 152)، تاريخ بغداد و ذيولہ ط العلميہ (1/ 224)
  14. دینوری، ابو حنیفہ، الاخبار الطوال، ص ۱۷۲
  15. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ 5/78،دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔ابن طقطقی، الفخری فی الآداب السلطانیہ، 49، دار القلم العربي، بيروت؛ نویری، نہایۃ الأرب فی فنون الأدب، ج۲۲، ص۳۳؛ مقدسی، البدء والتاریخ، ج۶، ص۷۱
  16. رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴
  17. مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۴
  18. تثبیت دلائل النبوه، ص ۵۹۳
  19. مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۱۷، ۱۸، ۲۰؛ رسائل الجاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴
  20. العقد الفرید، ج ۱، ص ۱۵، ج ۵، ص ۱۱۴؛ مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۱۸
  21. انساب الاشراف، ج ۴، ص ۵۵۰
  22. نک: طبقات الکبری، ج ۴، ص ۲۲۹؛ الغدیر، ج ۶، ص ۳۰۴؛ ج ۹، ص ۳۷۳
  23. مروج الذہب، ج ۳، ص ۳۳؛ النزاع و التخاصم، ص ۲۸
  24. مختصر تاریخ دمشق، ج ۱۱، ص ۸۷
  25. نک: مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۵-۱۶؛ جس کا نمونہ یہ کہ رسول اللہ سے نقل ہے: الامناء عندالله ثلاثه: جبرئیل وأنا و معاویہ ابن عساکر نے ان روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
  26. ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۱۵۷
  27. ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، عہد الخلفاء الراشدین، ص ۴۵۰-۴۵۱؛ نیز رک: بلاذری، انساب الاشراف، ج ۴، ص ۱۹
  28. نثر الدر، ج ۴، ص ۶۲؛ بلاغات النساء، ص ۱۳۹؛ العقد الفرید، ج ۶، ص ۹۰
  29. نک: الغارات، ص ۷۰
  30. رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، صص ۳۴۵-۳۴۶
  31. نک: اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲
  32. وقعۃ صفین، ص ۵۸
  33. الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۲۱
  34. انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۱۱-۲۱۲
  35. رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۲۷۸
  36. الفتوح، ج ۲، ص ۳۸۰
  37. وقعة صفین، ص ۵۲؛ الفتوح، ج ۲، ص ۳۹۲
  38. الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۰-۴۲۹
  39. وقعۃ صفین، ص ۵۸؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۲
  40. وقعۃ صفین، ص ۱۱۰-۱۱۱؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۷۷-۴۸۰
  41. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۸۸
  42. نمونے کے طور پر دیکھیں: نهج البلاغہ، خطبہ ۳۹، ۱۳۱، ۱۸۰
  43. نہج البلاغہ، خطبہ ۳۹
  44. رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۳۲۳
  45. الغارات، ص ۱۷۶ (ترجمہ فارسی)
  46. الغارات، ج ۱، ص ۲۷۶-۲۸۹
  47. الغارات، ج ۲، ص ۳۷۳-۴۱۲
  48. الغارات، ج ۲، ص ۴۴۵-۴۵۹
  49. الغارات، ج ۲، ص ۴۵۹-۴۶۱
  50. الغارات، ص ۴۶۳-۵۰۳
  51. الغارات، ج ۲، ص ۵۰۴-۵۱۶
  52. رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ص ۳۳۲-۳۳۳
  53. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۶۳؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۱
  54. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۶؛ مقائسہ کریں: تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۸۷؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۳؛ ابوالفداء، اسماعیل بن علی عماد الدین صاحب حماة، المختصر فی اخبار البشر، ج۱، ص ۱۸۴
  55. جاحظ، رسالہ الجاحظ فی بنی امیہ، ص ۱۲۴، رسالہ النزاع و التخاصم کے ہمراہ چاپ ہوا
  56. محمد سہیل طقوش، دولت امویان،با اضافات رسول جعفریان، ترجمہ حجت الله جودکی، ص ۱۹
  57. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج ۴، ص ۸۱
  58. محمد بن علي بن محمد المعروف بابن العمراني، الإنباء في تاريخ الخلفاء،53، دار الآفاق العربيہ، القاہرة
  59. صَّلاَّبي،عَلي محمد محمد 1/297 ،الدولَۃ الأمويَّہ عَواملُ الازدہارِ وَتَداعيات الانہيار1/297،دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزيع، بيروت - لبنان؛ابن کثیر،البدایہ والنہايہ,8/288 طبع دار إحياء التراث العربي
  60. رک: امین، احمد، اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲
  61. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۲۱
  62. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۱۶۱؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۷
  63. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۰۰
  64. محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۲ -از افزوده‌ہای رسول جعفریان-
  65. محمدسہیل طقوش، دولت امویان، ترجمہ حجت اللہ جودکی، ص ۱۸
  66. کاندہلوی، حیاة الصحابہ، ج ۳، ص ۶۳
  67. ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۹، ص ۸۵:هذه الخلافة امر من امرالله و قضاء من قضاء الله
  68. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص ۲۰۵
  69. الصراط المستقیم، ج ۳، ص ۴۸
  70. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج ۴، ص ۱۸۰؛ جاحظ، ابوعثمان عمرو، البیان و التبیین، ج ۲، ص ۴۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۲۲۰
  71. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، چ۱، ص ۲۲۵؛ دینوری، ابو حنیفہ، الاخبار الطوال، ص ۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص ۲۹۹، ش ۷۹۸
  72. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۲۱۴
  73. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۲۳۲؛ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج ۱۱، ص ۱۴۷ (طبع ہند)
  74. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص ۴۶؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۴۳ و ۴۵
  75. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب
  76. ابن تیمیہ منہاج السنہ النبویہ، ج۷، ص۳۷۱
  77. صَّلاَّبي،عَلي محمد محمد 1/356 ،الدولَۃ الأمويَّہ عَواملُ الازدہارِ وَتَداعيات الانہيار1/297،دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزيع، بيروت - لبنان
  78. ابن الأثير ، الکامل فی التاریخ ،3/9،دار الكتاب العربي، بيروت - لبنان؛
  79. ابن الأثير ، الکامل فی التاریخ ،3/108،دار الكتاب العربي، بيروت - لبنان؛
  80. محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۸، از اضافات رسول جعفریان
  81. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب فصل في ذكر الأحاديث الموضوعة في ذم علي
  82. سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۲۴۳
  83. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۱۸۴ ؛ عَن عمر بن عَلی قَالَ: قَالَ مروان لعلی بن الْحُسَین: ما کانَ أحد أکف عَن صاحبنا من صاحبکم. قَالَ: فلم تشتمونه عَلَی المنابر؟!! قَالَ: لا یستقیم لنا هذا إلا بهذا
  84. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۵۷؛ العمانی، النصایح الکافیہ، ص ۷۲
  85. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۳۶۱
  86. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ اگرچہ یعقوبی نے افراد کی تعداد سات بیان کی ہے اور نام چھ افراد کے ذکر کئے ہے۔
  87. الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۰۷؛ طبری نے ۷ افراد کے نام ذکر کیے ہیں محرز بن شہاب کو تمیمی کی بجائے «سعدی منقری» کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔.
  88. دینوری، ص۲۲۳ـ۲۲۴؛ نیز رجوع کنید به طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹
  89. سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۲۴.
  90. ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، بیروت: دار صادر، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م.، ص۴۸۷.
  91. الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، بیروت: مؤسسہ الاعلمی، ص۲۰۸.
  92. عبید اللہ بن زیاد نے معاویہ کو خط لکھتے ہوئے حکومت بنی امیہ کے مخالفین جو حجر بن عدی اور اصحاب امام علی تھے،کے متعلق ترابیہ کا لفظ استعمال کیا ۔طبری،تاریخ الامم و الملوک3/228،دار الكتب العلميہ - بيروت
  93. محمد بن حبيب أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ)، المحبر،اسماء المصلبین الاشراف 479،طبع دار الآفاق الجديدة، بيروت
  94. عبدالطیف، عبدالشافی، العالم الاسلامی فی العصر الاموی، ص ۱۲۱
  95. محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۳۳
  96. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۳۰۱-۳۰۷
  97. محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۳۹، از اضافات رسول جعفریان
  98. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۳۰۲-۳۰۳
  99. مقاتل الطالبین، ج۱، ۱۳.
  100. الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، ج ۲، ص ۵۰۳؛ الصراط المستقیم، ج ۳، ص ۴۸
  101. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص ۲۵۰
  102. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۵۰
  103. خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۹۹-۲۰۲
  104. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۴۹
  105. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۵۱؛ ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص ۱۸۲-۱۹۱
  106. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۲۲۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج۵، ص ۲۳۲
  107. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح، ۱۹۹۷ء، ص۳۶۴؛علامہ عسکری، نقش ائمہ در احیای دین، ۱۳۸۲ہجری شمسی، ج۲، ص۴۱۰.

مآخذ

  • ابن اثیر، اسدالغابة فی معرفۃ الصحابہ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہرہ، 1970ـ1973؛ دارالکتاب العربی، بیروت: بی‌تا.
  • ابن کثیر، البدایہ و النہایہ.
  • ابن طقطقی، الفخری فی الآداب السلطانیہ، 49، دار القلم العربي، بيروت۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، 1415ـ1421/ 1995ـ 2001؛ دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت، بی‌تا.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی.
  • طبری، تاریخ الرسل و الملوک.
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت: مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات (نسخہ موجود در لوح فشرده مکتبہ اہل البیت، نسخہ دوم).
  • عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری.
  • بلاذری، ابوالعباس احمد بن یحیی بن جابر، فتوح البلدان.
  • ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ.
  • ابن عبدربہ، العقد الفرید.
  • ابن تیمیہ،أحمد(728ھ)، منہاج السنہ النبویہ، تحقیق د. محمد رشاد سالم، مؤسسہ قرطبہ، الطبعہ الأولی، 1406ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق: ابراہیم صالح، دارصادر بیروت، 1997ء۔
  • سیوطی، جلال الدین، الجامع الصغیر، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت، بی‌تا.
  • دینوری، احمدبن داوود، اخبار الطِّوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاہرہ، 1960، چاپ افست قم، 1368ہجری شمسی۔
  • طبری، تاریخ (بیروت)۔
  • علامه عسکری، مرتضی، نقش ائمہ در احیای دین، تہران، مرکز فرہنگی انتشاراتی منیر، 1382ہجری شمسی۔
  • کشی، محمدبن عمر، اختیار معرفہ الرجال، (تلخیص) محمدبن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد، 1348ہجری شمسی۔
  • نباطی، علی من محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، محقق رمضان، میخائیل، المکتبہ الحیدریہ، نجف، چاپ اول، 1384ھ۔
  • نویری، شہاب الدین أحمد بن عبد الوهاب(ق)، نهایة الأرب فی فنون الأدب، تحقیق مفید قمحیہ وجماعہ، دار الكتب العلمیہ - بیروت، الطبعہ: الأولی، 1424ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، تہران: علمی و فرہنگی، 1378ہجری شمسی۔