خرابہ شام

ویکی شیعہ سے

خرابہ شام، دمشق کے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے جہاں یزید بن معاویہ نے اسیران کربلا کو قید کر رکھا تھا۔ منابع میں اس جگہے کی توصیف میں اسے بغیر چھت اور خستہ حال دیوار، خرابہ بتایا گیا ہے۔ حضرت رقیہ کی شہادت اس جگہ پر پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔

وجہ تسمیہ اور محل وقوع

یزید بن معاویہ نے اسیران کربلا کو دمشق میں ایک خستہ حال عمارت میں قید رکھا جسے عاشورا اور اس سے مربوط منابع میں خرابہ شام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شیخ مفید کے نقل کے مطابق اسیران کربلا کو جس مکان میں قید رکھا گیا تھا وہ یزید کے محل سے متصل کوئی خرابہ تھا۔[1]

احادیث میں اس کا تذکرہ

بعض احادیث میں خرابہ شام سے متعلق جو وضاحتیں آئیں ہیں ان کے مطابق یہ مکان بغیر چھت خستہ حال دیواروں پر مشتمل ایک خرابہ تھا۔[2] اسی طرح منہال بن عمرو اور امام سجادؑ کے درمیان ہونے والی گفتگو جسے سید نعمت اللہ جزایری نے نقل کیا ہے، میں اس مکان کی توصیف میں آیا ہے کہ اس مکان پر کوئی سائبان نہیں تھا اور اس کے اندر سورج کی دھوپ پڑتی تھی۔[3] اسی وجہ سے آیا ہے کہ اسیران کربلا مکان میں سردی اور گرمی سے محفوظ نہیں تھے۔[4] اسیران کربلا میں سے بھی بعض کہتے تھے کہ یزید نے ہمیں اس مکان میں اسلئے بھیجا تھا تاکہ گرمی اور سردی سے ہمیں اذیت پہنچے۔[5] یوں یہ چیز ہماری موت کا سبب بنے۔[6]۔

اسیران کربلا، خرابہ شام میں

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خرابہ میں اسیران کربلا کی حالت مناسب نہیں تھی۔ سورج کی دھوپ انہیں اذیت پہنچاتی تھی۔[7] سورج کی تمازت سے ان کے چہرے جل گئے تھے[8] اور اسی حالت میں امام حسینؑ کے اوپر نوحہ اور گریہ و زاری کرتے تھے۔[9] اسی طرح بعض احادیث میں آیا ہے کہ یزید نے اس خرابے پر ایسے افراد کو نگہبانی پر مامور کیا ہوا تھا جن کو عربی زبان بالکل نہیں آتی تھی۔[10]۔

اسیران کربلا کی اس خرابہ میں مدت اقامت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض منابع کے مطابق انہیں اتنی مدت وہاں پر رکھا گیا تھا کہ دھوپ اور سردی کی وجہ سے ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا تھا۔[11] جبکہ بعض مورخین کے مطابق انہیں ایک ہفتہ یہاں قید رکھا گیا تھا۔[12]۔

یہاں رونما ہونے والے واقعات

جس وقت اسیران کربلا خرابہ شام میں قید تھے وہاں کچھ واقعات رونما ہوئی ہیں ان میں سے اہم واقعات درج ذیل ہیں:

شہادت حضرت رقیہ

بعض منابع کے مطابق امام حسینؑ کی ایک چھوٹی بیٹی اس خرابے میں رحلت کر گئی۔ اطلاعات کے مطابق اس بچی نے اپنے بابا کے پاس جانے کی ضد کی۔ اس موقع پر یزید کے حکم سے امام حسینؑ کا سر مبارک اس بچی کے پاس بھیجا گیا، بچی نے بابا کا سر اپنے دامن میں لیا اور اس قدر گریہ کیا کہ اس دنیا سے رحلت کی گئی۔[13] بعض منابع میں اس بچی کا نام رقیہ کہا گیا ہے۔[14] مشہور یہی ہے کہ حضرت رقیہ سے منسوب مقبرہ اسی خرابے میں بنایا گیا تھا۔

سکینہ کا خواب

بعض منابع کے مطابق حضرت سکینہ نے اسیران کربلا کے دمشق پہنچنے کے چوتھے دن ایک خواب دیکھا۔[15] ابن نما حلی کے مطابق حضرت سکینہ نے خواب دیکھا کہ پیغمبر اسلامؐ، حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت عیسی امام حسینؑ کی زیارت کیلئے کربلا جا رہے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ اپنے محاسن ہاتھوں میں لئے زمین پر گرتے سنبھلتے تشریف لے جا رہے تھے۔ اسی طرح حضرت فاطمہ، حوا، آسیہ، مریم اور خدیجہ بھی آئیں ہوئی تھیں اور حضرت زہرا کی یہ حالت تھی کہ ہاتھوں کو سر پر رکھے گرتے سنبھلتے جا رہی تھیں۔ حضرت سکینہ کہتی ہیں کہ میں حضرت زہراء سے لپٹ کر رونے لگی تو حضرت زہراء نے فرمایا میری جان سکینہ! بس کرو تمہارے رونے کی آواز نے میرا کلیجا جلا کر رکھ دیا ہے اور میرے دل کی دھڑکن بند ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ تمہارے بابا حسینؑ کا خون بھرا پیرہن ہے جسے میں اپنے سے جدا نہیں کرونگی یہاں تک کہ خدا سے ملاقات کروں۔[16]

اس کے وجود میں تردید

بعض شیعہ محققین، اسیران کربلا کو اس خرابے میں رکھے جانے کو رد کرتے ہیں۔ محمد ہادی یوسفی غروی معتقد ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں اہل بیتؑ کے لئے ایک خاص مقام و مرتبہ تھا اور لوگ انہیں ایک خاص احترام کے قائل تھے جس کی بنا پر یزید کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اہل بیتؑ کو اس جیسے خرابے میں رکھے۔ اس بنا پر یزید، اہل بیتؑ کے لئے اپنے محل میں جگہ دینے پر مجبور ہوا۔ البتہ یزید کا محل "محلۃ الخراب" نامی جگہ پر واقع تھا۔[17] بعض منابع میں یہ بھی آیا ہے کہ یزید نے یہاں تک کہ اپنے گھر میں بھی مجلس بر پا کیا اور اس مجلس میں اسیران کربلا کو بھی دعوت دیا اور انہں اپنے محل میں جگہ دیا۔[18]

ادبیات اور فرہنگ میں اس کا تذکرہ

خرابہ شام کا تذکرہ ادبیات عاشورا خاص کر مرثیوں، نوحوں اور ذکر مصائب وغیرہ میں ہوتا ہے۔ عام طور پر حضرت رقیہ اور اسیران کربلا کا شام میں قیام کے ذکر کے ساتھ خرابہ شام کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ ان مصائب میں اسیران کربلا کے شام میں اقامت گاہ کو خرابہ قرار دیتے ہوئے اس میں سورج کی دھوپ پڑنے کا تذکرہ ملتا ہے۔

صبا بہ پیر خرابات از خرابہ شامببر ز کودک زار این جگر گداز پیام
اے باد صبا! شام کے ویرانے سے اس گریہ کناں بچے کا پیغام اس پیر خرابات کیلئے لے کے جا
ای پدر ز من زار ہیچ آگاہیکہ روز من شب تار است و صبح روشن شام
اے بابا جان! کیا آپ میرے حالت زار سے باخبر ہیں؟ میرے دن راتوں میں اور صبح شام میں تبدیل ہوا ہے[19]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۲۔
  2. قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب ، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴۵۔
  3. جزایری، انوار النعمانیۃ، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۶؛ قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص ۱۰۰۱۔
  4. شیخ صدوق، امالی، ص۱۶۷-۱۶۸، مجلس ۳۱، ح۴؛ ابن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۸۸؛ مجلسی بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۴۰۔
  5. قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب ، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴۵۔
  6. بحرانی، مدینۃ معاجز الائمۃ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۲۶۴۔
  7. جزایری، انوار النعمانیۃ، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۶؛ قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص ۱۰۰۱۔
  8. ابن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۸۸۔
  9. ابن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۸۸۔
  10. بحرانی، مدینۃ معاجز الائمۃ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۲۶۴۔
  11. شیخ صدوق، امالی، ص۱۶۷-۱۶۸، مجلس ۳۱، ح۴؛ ابن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۸۸؛ مجلسی بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۴۰۔
  12. ہاشمی نوربخش، با کاروان شام، ۱۳۸۹ش، ص۹۸۔
  13. طبری، کامل بہائی، ۱۳۸۳ش، ص۵۲۳۔
  14. شاہ عبدالعظیمی، الإیقاد، بی‌تا، ص۱۷۹۔
  15. قمی، منتہی الآمال، ج۲، ص۱۰۰۵-۱۰۰۶؛ ابن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۸۸-۱۸۹۔
  16. ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۱۰۵-۱۰۶۔
  17. بررسی تحلیلی سیر مقتل نگاری عاشورا، مؤسسہ فرہنگی فہیم، بازبینی: ۶ آبان ۱۳۹۶ش۔
  18. خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۸۲۔
  19. کمرہ‌ای، در کربلا چہ گذشت، ۱۳۸۱ش، ص۶۶۴۔

منابع

  • ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب علیہم السلام، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق۔
  • ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، تہران، جہان، ۱۳۴۸ش۔
  • ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، قم، مدرسہ امام مہدی، ۱۴۰۶ق۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، مدینۃ معاجز الائمۃ الاثنی‌عشر، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۳ق۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، قم، انوارالمہدی، ۱۴۲۳ق۔
  • شاہ عبدالعظیمی، سید محمد علی، الإیقاد، بی‌تا۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۸ش۔
  • طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہائی، مرتضوی، تہران، ۱۳۸۳ش۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی‌ الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم، دلیل ما، ۱۳۷۹ش۔
  • قطب‌ الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، ۱۴۰۹ق۔
  • کمرہ‌ای، محمد باقر، در کربلا چہ گذشت ترجمہ نفس المہموم، قم، مسجد جمکران، ۱۳۸۱ش۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، داراحیاء، ۱۴۰۳ق۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • ہاشمی نور بخش، حسین، با کاروان شام، تہران، مشعر، ۱۳۸۹ش۔