مسلم بن عقبہ
واقعہ حرہ میں قتل عام کرنے والا | |
---|---|
کوائف | |
نام | مسلم بن عقبہ |
پورا نام | مسلم بن عقبۃ بن ریاح بن اسعد مُرِّیّ |
لقب/کنیت | مُسرِف • مجرم |
شہرت | خونخوار |
وفات | 64ھ |
علمی معلومات | |
دیگر معلومات | |
پیشہ | حکمران • سپہ سالار |
مُسْلِم بن عُقْبَہ (وفات: 64ھ) واقعہ حرہ میں مدینہ کے قیام کو کچلنے کے لئے بھیجی گئی اموی فوج کا سپہ سالار تھا۔ اسلامی تاریخ میں وہ ایک سفاک اور خونخوار شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ واقعہ حرہ کے قتل عام میں اس کے بدنما کردار کی وجہ سے اسے مُسرِف (زیادہ خون بہانے والا) اور مجرم قرار دیا گیا ہے۔
واقعہ حرہ اور مدینہ پر مسلم بن عقبہ کے تسلط کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے جن میں کئی صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے اموال کو لوٹ لیا گیا اور ان کی عورتوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔ منقول ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مدینہ کے لوگوں کو غلامی کی شرط پر یزید بن معاویہ کی بیعت پر مجبور کیا اور بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کر دیا۔
واقعہ حرہ کے دوران مسلم بن عقبہ کا امام سجادؑ کے ساتھ رویہ اور اس پر امامؑ کا رد عمل ان موضوعات میں سے ہے جن پر شیعہ محققین نے ائمۂ اہل بیت کی سیاسی حکمت عملی کے تناظر میں تحقیق کی ہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق مسلم بن عقبہ نے یزید کے حکم پر امام سجادؑ کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا اور انہیں یزید کی بیعت کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا۔ تاہم، بعض دیگر تاریخی منابع میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام سجادؑ نے خود غلامی کی شرط پر بیعت کی پیشکش کی تھی، لیکن اس قول کو متنازعہ اور جعلی قرار دیا گیا ہے۔
سلاطین | |
---|---|
عنوان | مدت سلطنت |
معاویہ بن ابی سفیان | 41-61ھ |
یزید بن معاویہ | 61-64ھ |
معاویہ بن یزید | 64-64ھ |
مروان بن حکم | 64-65ھ |
عبدالملک بن مروان | 65-86ھ |
ولید بن عبدالملک | 86-96ھ |
سلیمان بن عبدالملک | 96-99ھ |
عمر بن عبدالعزیز | 99-101ھ |
یزید بن عبدالملک | 101-105ھ |
ہشام بن عبدالملک | 105-125ھ |
ولید بن یزید | 125-126ھ |
ولید بن عبدالملک | 126-126ھ |
ابراہیم بن الولید | 126-127ھ |
مروان بن محمد | 127-132ھ |
مشہور وزراء اور امراء | |
مغیرۃ بن شعبہ ثقفی • زیاد بن ابیہ • عمرو عاص • مسلم بن عقبہ مری • عبیداللہ بن زیاد • حجاج بن یوسف ثقفی | |
ہم عصر شخصیات | |
علی بن ابی طالبؑ • حسن بن علیؑ • حسین بن علیؑ • علی بن الحسینؑ • محمد بن علی الباقرؑ • جعفر بن محمد الصادقؑ • زید بن علی • مختار بن ابی عبید ثقفی • عبد اللہ بن زبیر • مصعب بن زبیر • عبدالرحمن بن اشعث • یزید بن مہلب • خالد بن عبداللہ قسری • عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز • عبداللہ بن معاویہ علوی • ضحاک بن قیس شیبانی • ابوحمزہ مختار بن عوف خارجی • ابومسلم خراسانی • قحطبہ بن شبیب طایی | |
اہم واقعات | |
صلح امام حسن • واقعہ عاشورا • واقعہ حرہ • قیام مختار • قیام زید بن علی | |
تاریخی پس منظر اور خصوصیات
مُسْلِم بن عُقْبَہ حرہ کے واقعہ میں مدینہ کے لوگوں کے قیام کو کچلنے والی اموی فوج کا سپہ سالار تھا[1] اور اسلامی تاریخ میں اسے ایک خونخوار شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[2] اس قتل عام میں اس کے اہم کردار کی وجہ سے اسے مُسرِف (یعنی خونریزی میں اسراف کرنے والا) اور مجرم کہا گیا ہے۔[3] اہل مدینہ کے ساتھ اس کا پُرتشدد رویہ ایسا تھا کہ بعد میں مدینہ کے بعض حکمران، اپنی رعایا اور لوگوں کو ڈرانے اور محکوم بنانے کے لیے اپنے آپ کو مسلم بن عقبہ کا خونی رشتہ دار اور اس کے پیروکار کے طور پر متعارف کراتے تھے۔[4] مسلم بن عقبہ، شمر بن ذی الجوشن اور بُسر بن ارطاۃ اموی سپہ سالاروں میں انتہائی سنگدل شمار ہوتے تھے۔[5] مسلم بن عقبہ کا واقعہ حرہ کے دوران امام سجادؑ کے ساتھ رویہ اور اس پر امامؑ کا رد عمل ان موضوعات میں سے ہیں جن پر شیعہ علماء نے شیعہ ائمہ کے مختلف سیاسی حالات میں سیاسی رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے توجہ دی ہے۔[6]
مسلم بن عقبہ بن ریاح ابن اسعد مُرِّیّ دمشق کا رہنے والا تھا۔[7] کہا جاتا ہے کہ اس نے رسول اللہؐ کے دَور کو پایا تھا، لیکن آنحضرتؐ کے صحابہ میں اس کا شمار نہیں ہوتا ہے۔[8] مسلم بن عقبہ ایک اموی ذمہ دار اور سپاہ سالار تھا[9] اور صفین کی جنگ میں اس نے شام کی پیدل فوج پر کمان کی۔[10] ذرائع کے مطابق معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنی موت کے وقت انہیں اپنے بیٹے یزید تک اپنی سیاسی وصیت پہنچانے کے لیے مقرر کیا تھا۔[11]
بعض منابع میں مسلم بن عقبہ کی جسمانی خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے: ایک آنکھ، گلابی گال اور سفید بال، اور جب وہ چلتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے پاؤں کو کیچڑ سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔[12] مرتضی مطہری نے ایک نفسیاتی قاعدے (معاوضہ کے طریقہ کار) کی بنیاد پر اس کے اندر اس طرح کے نقائص کی موجودگی کو اس کی شدت پسندی اور تشدد کا سبب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس قاعدے کی بنیاد پر جس میں کوئی عیب ہو وہ چاہتا ہے ہر قیمت پر اس کی تلافی کرے اور بعض اوقات اپنے عیب کی تلافی دوسروں کو دبانے اور انہیں نیچا دکھانے میں ڈھونڈتا ہے۔[13]
واقعہ حرہ میں کردار
مسلم بن عقبہ حرہ کے واقعہ میں اموی فوج کا سپہ سالار تھا؛ واقعہ حرہ کو واقعہ کربلا کے بعد ناقابل بیان[14] اور سب سے ہولناک واقعہ قرار دیا گیا ہے۔[15] اہل مدینہ کے قیام کے بعد یزید بن معاویہ نے اس قیام کو کچلنے کے لیے مسلم بن عقبہ کی کمان میں ایک لشکر بھیجا۔[16] بعض ذرائع کے مطابق یزید نے فوج کو روانہ کرتے ہوئے مسلم بن عقبہ سے مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرنے کی تاکید کی۔[17] اس نے بھی وعدہ کیا کہ مدینہ پہنچتے ہی ان سے بیعت یا موت دونوں میں سے ایک مانگے گا۔[18] مدینہ کے لوگوں کی استقامت کو شکست دینے اور شہر کے سقوط کے بعد مسلم بن عقبہ نے تین دن تک اپنی فوج کے لئے لوگوں کی جان و مال اور ناموس کو آزاد کر دیا۔[19]
حرہ کی جنگ اور مسلم بن عقبہ کے مدینہ پر غلبہ کے نتیجے میں مدینہ کے بہت سے لوگ مارے گئے جن میں رسول اللہؐ کے صحابہ بھی شامل تھے،[20] ان کے املاک کو لوٹ لیا گیا[21] اور ان کی عورتوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔[22] منقول ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مدینہ کے لوگوں کو غلامی کی شرط پر یزید بن معاویہ کی بیعت پر مجبور کیا اور بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کر ڈالا۔[23] بیان کیا گیا ہے کہ حرہ کے واقعہ کے بعد مسلم بن عقبہ بعض اوقات "خلیفہ کی اطاعت" اور "معاشرے کو محفوظ رکھنے" کے لیے ایسا کام کرنے پر خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔[24] رسول جعفریان کے مطابق، اس کا یہ عمل شامیوں میں رائج عقیدے سے متاثر تھا جسے امویوں نے پھیلایا تھا کہ خلیفہ کی اطاعت اور برادری کی حفاظت ہر حال میں (یہاں تک کہ مذہبی اور اخلاقی شرائط کو مدنظر رکھے بغیر) ضروری ہے۔[25]
تاریخ طبری کے مطابق مسلم بن عقبہ مدینہ کی طرف سفر کے آغاز سے ہی بیمار تھا۔[26] مدینہ میں تحریک کو دبانے کے بعد وہ عبداللہ ابن زبیر کی قیادت میں مکہ میں لوگوں کی تحریک کو دبانے کے لیے چل پڑا، لیکن وہ آدھے راستے میں (ابوا[27] یا مُشَلَّل میں[28]) مر گیا۔[29] اس کی وفات سنہ 64ھ کے محرم کے آخر میں درج کیا گیا ہے۔[30] کہا جاتا ہے کہ اس کی تدفین کے بعد لوگوں نے اس کی قبر کھودی اور لاش کو قبر سے نکال کر لٹکا دیا اور اس پر پتھر اور تیر پھینکے۔[31]
« | مسلم بن عقبہ کے شر سے بچنے کے لیے امام سجاد (ع) کی دعا: "اے پالنے والے، تو نے مجھ پر کتنی نعمتیں نازل کی ہیں، اور ان کے مقابلے میں میرا شکر ادا کرنا بہت کم تھا، اور تو نے مجھے کتنی مصیبتوں میں مبتلا کیا، اور ان کے لئے میرا صبر کم تھا۔" پس اے معبود جس کی نعمتوں کی فراوانی میں میرا شکر بہت کم تھا، لیکن تو نے میری مدد کرنے سے ہاتھ نہیں اٹھایا، اے وہ عطا کرنے والا جس کا احسان کبھی ختم نہیں ہوتا، اور اے بے شمار نعمتوں کے مالک محمدؐ اور ان کی آل پر درود بھیج، اور اس آدمی کے شر کو مجھ سے دور کر۔ پس میں نے تجھے اس کے سامنے رکھا (اور میں تجھ سے مانگتا ہوں کہ اسے میری طرف آنے سے روک دے) اور میں اس کے شر اور اذیت سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔"[32] | » |
مسلم بن عقبہ اور امام سجادؑ
تاریخی مآخذ میں اس بارے میں کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ کے دوران امام سجادؑ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا[33] وہ مختلف اور غیر موافق سمجھا گیا ہے۔[34] بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے یزید بن معاویہ کے کہنے پر امام سجادؑ کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔[35] یزید کے اس حکم کی وجہ امامؑ کا اس قیام میں ملوث نہ ہونا قرار دیا گیا ہے۔[36]
دوسرے ذرائع بیان کرتے ہیں کہ مسلم بن عقبہ کا ارادہ امام سجادؑ کی تعظیم اور احترام کرنا نہیں تھا اور امامؑ کے آنے سے پہلے وہ غصے میں امامؑ اور ان کے آبا و اجداد کو ناروا کہتا تھا؛ لیکن جب امامؑ پہنچے تو آپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔[37] مسلم بن عقبہ سے رویے میں اس تبدیلی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب میں کہا ہے کہ یہ تبدیلی اس کی مرضی سے نہیں تھی بلکہ اس خوف کی وجہ سے تھی جو امامؑ کے لیے ان کے دل میں بسا ہوا تھا۔[38] مسعودی[39] اور شیخ مفید[40] کے مطابق، رویے میں یہ تبدیلی اس دعا کی وجہ سے تھی جو امامؑ نے مسلم ابن عقبہ کے شر سے بچنے کے لیے پڑھی تھی۔ اہل سنت مورخین طبری اور ابن اثیر نے لکھا ہے کہ امام سجادؑ نے مسلم ابن عقبہ کے خوف سے مروان بن حکم اور عبد الملک ابن مروان جیسے لوگوں سے پناہ لی تھی؛ اس کے باوجود مسلم نے امامؑ سے کہا تھا کہ اگر یزید کا حکم نہ ہوتا تو میں ان دونوں کی شفاعت کے باوجود آپ کو قتل کر دیتا۔[41] بعض علماء نے دلائل ذکر کر کے اس روایت (امام کا مروان اور اس کے بیٹے کی پناہ لینا) کو ضعیف قرار دیا ہے۔[42]
امام سجادؑ کے ساتھ مسلم بن عقبہ کے رویے کے بارے میں ایک اور مسئلہ امامؑ کا اس کی بیعت کرنے کا طریقہ ہے۔[43] بعض ذرائع بیان کرتے ہیں کہ مسلم بن عقبہ نے علی ابن حسینؑ اور عبداللہ ابن عباس کے ایک بیٹے کے علاوہ باقی ہر ایک سے یزید کی غلامی کی بنا پر بیعت لی۔[44] اس نقل کے برخلاف یعقوبی سے منقول ہے کہ امام سجادؑ نے اپنی تجویز کے تحت غلامی کی شرط پر مسلم بن عقبہ کی بیعت کی۔[45] مدینہ کے لوگوں نے امامؑ کی بیعت کو دیکھ کر کہا: "چونکہ رسول خداؐ کے فرزند نے ایسی شرط پر بیعت کی ہے، تو ہم موت سے بچنے کے لیے کیوں نہ بیعت کریں!"[46] سید جعفر شہیدی نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسی روایت مدینہ کے امراء کی اولاد نے گھڑ لی ہے تاکہ اس طرح سے ان کے آبا و اجداد سے بندگی کی شرط پر لی جانے والی بیعت کی قباحت کو کم کریں۔[47]
حوالہ جات
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص483۔
- ↑ عقاد، ابوالشہداء الحسين بن علی(ع)، 1415ھ، ص162-163۔
- ↑ عقاد، ابوالشہداء الحسين بن علی(ع)، 1415ھ، ص162-163۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص375۔
- ↑ عقاد، ابوالشہداء الحسين بن علی(ع)، 1415ھ، ص162-163؛ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص746۔
- ↑ مطہری، حماسہ حسینی، 1382شمسی، ج2، ص 123؛ شہیدی، زندگانی علی بن الحسین(ع)، 1367شمسی، ص84-86؛ جعفریان، تاریخ خلفاء، 1382شمسی، ص620۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص102۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص102۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص467؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج3، ص381۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص12؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج3، ص294۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص323۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید: عقاد، ابوالشہداء الحسين بن علی(ع)، 1415ھ، ص163۔
- ↑ مطہری، حماسہ حسینی، 1382شمسی، ج2، ص94۔
- ↑ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص246۔
- ↑ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، 1893م، ص306۔
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج6، ص233-234۔
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص232۔
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص232۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص250؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص491؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج6، ص234۔
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص237-238۔
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص237-238۔
- ↑ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص246۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص251؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج4، ص79۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج5، ص331؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج5، ص337۔
- ↑ جعفریان، تاریخ خلفاء، 1382شمسی، ص577۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص483۔
- ↑ ابن عبد ربہ، العقد الفريد، 1407ھ، ج5، ص139۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج5، ص337۔
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص241؛ ابوحنیفہ دینوری، اخبارالطوال، 1373شمسی، ص267؛ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص71۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص496؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج4، ص123۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج5، ص331-332؛ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص242۔
- ↑ مفید، الارشاد، تہران، ج2، ص151۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید: مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70-71۔
- ↑ زاہدی توچائی، «تأملی در اخبار ملاقات امام زین العابدین(ع) با مسلم بن عقبہ در قیام حرہ»، ص93۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص493-494؛ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص484؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج3، ص381۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70-71۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70-71۔
- ↑ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص151۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص493؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج4، ص119۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ زاہدی توچائی، «تأملی در اخبار ملاقات امام زین العابدین(ع) با مسلم بن عقبہ در قیام حرہ»، ص96-98۔
- ↑ زاہدی توچائی، «تأملی در اخبار ملاقات امام زین العابدین(ع) با مسلم بن عقبہ در قیام حرہ»، ص93۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ج3، 1409ھ، ص70؛ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ ، 1385ھ، ج4، ص119-120۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص251۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج5، ص
- ↑ شہیدی، زندگانی علی بن الحسین(ع)، 1367شمسی، ص85-86۔
مآخذ
- ابن اثیر، محمد بن علی، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابن اثیر، محمد بن علی، الكامل فی التاريخ ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
- ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق مفید محمد قمیحہ و عبدالمجید ترحینی، بیروت، دار الکتب العلميۃ، 1407ھ۔
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
- ابن قتیبہ دینوری، عبد اللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، 1410ھ۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، تحقیق خلیل شحادہ، بیروت، دارالفکر، بی تا.
- ابوحنیفہ دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق جمال الدین شیال و محمد عبد المنعم عامر، قم، منشورات رضی، 1373ہجری شمسی۔
- بلاذری، احمد بن يحيى، جمل من انساب الاشراف، تحقيق محمد باقر المحمودی، بيروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1394-1400ھ۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، 1409ھ۔
- جعفریان، رسول، تاریخ خلفاء (از رحلت پیامبر تا زوال امویان) قم، انتشارات دلیل ما، 1382ہجری شمسی۔
- زاہدی توچائی، محمد حسن، «تأملی در اخبار ملاقات امام زین العابدین(ع) با مسلم بن عقبہ در قیام حرہ»، در مجلہ پژوہش ہای قرآن و حدیث، شمارہ 1، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ولایت، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1380ہجری شمسی۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح، بیروت، دار صادر، 1417ھ۔
- شہیدی، سید جعفر، زندگانی علی بن الحسین(ع)، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1367ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، بی نا، بی تا.
- عقاد، عباس محمود، ابو الشہداء الحسين بن علی(ع)، تحقیق: محمد جاسم الساعدی، تہران، المجمع العالمی للتقريب بين المذاہب الإسلاميۃ (مدیریۃ النشر و المطبوعات)، 1415ھ۔
- مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، تہران، انتشارات صدرا، 1382ہجری شمسی۔
- مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، لیدن (ہلند)، مطبعۃ بريل، 1893م.
- مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق یوسف اسعد داغر، قم، مؤسسۃ دار الہجرۃ، 1409ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، قم، المؤتمر العالمی لألفيۃ الشيخ المفيد، 1413ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، انتشارات اسلامیہ، بی تا.
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی تا.