مدرسہ ناظمیہ

ویکی شیعہ سے
مدرسہ ناظمیہ
حوزہ علمیہ
ابتدائی معلومات
بانیسید ابو الحسن رضوی لکھنوی
تاسیس1890ء
استعمالحوزہ علمیہ
محل وقوعلکھنؤ، اترپردیش ہندوستان
دیگر اسامیمشارع الشرایع • جامعہ ناظمیہ • مشارع العلوم
مربوط واقعاتانگریزوں کی طرف سے مدرسے کی بندش
مشخصات
موجودہ حالتفعال
معماری


مدرسہ ناظمیہ یا جامعہ ناظمیہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں ایک شیعہ مذہبی درس گاہ اور ثقافتی ادارہ ہے جس کی بنیاد سنہ 1890ء میں لکھنؤ کے سید ابو الحسن رضوی نے رکھی۔ یہ مدرسہ ایک دینیات سنٹر تھا جسے انگریزوں نے بند کردیا اور بعد میں سید ناظم حسین کے تعاون سے دوبارہ کھل گیا جس کے بعد یہ ناظمیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ناظمیہ میں دینی تعلیم ابتدا سے ہی پڑھائی جاتی ہے نیز مدرسے میں طلاب اور اساتذہ کو سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ تدریس اور تبلیغ کے علاوہ فلاحی سرگرمیاں بھی مدرسہ ناظمیہ کی فعالیتوں میں شامل ہیں۔

تعارف

مدرسہ ناظمیہ ہندوستان میں واقع لکھنؤ کے سب سے قدیم اور اہم ترین شیعہ مدرسوں میں سے ایک ہے۔[1] اس مدرسے کا اپنا مستقل تعلیمی نصاب ہے۔ مدرسہ ہر سال متعدد علما کرام کو تبلیغ پر بھی بھیجتا ہے۔[2] اس مدرسے میں دینی تعلیم کو ابتدا سے کتاب رسائل و مکاسب تک پڑھائی جاتی ہے۔ مدرسہ ہاسٹل اور کلاس روم پر مشتمل ہے نیز طلاب کو درسی کتابیں، کھانا اور کپڑے بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔[3] مدرسہ ناظمیہ کی سب سے اعلی تعلیمی سند کو "ممتاز الافاضل" کہا جاتا ہے۔[4]

مدرسہ ناظمیہ نے بہت سارے طلاب اور علما کی تربیت کی ہے یہاں کے فارغ التحصیل علما میں مرزا محمد اطہر، سید علی نقی نقوی، عدیل اختر اور سید نجم الحسن رضوی کے نام سر فہرست ہیں۔[5] مدرسہ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ فلاحی اور خیراتی کام بھی کرتا ہے جس میں شیعہ مذہبی شخصیات اور اداروں کی مالی معاونت اور مستحق بیماروں کا علاج معالجہ شامل ہیں۔[6] مدرسہ ناظمیہ میں فارسی زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔[7]

ناظمیہ مدرسے کا اندرونی منظر

مدرسہ ناظمیہ کے اخراجات کو ریاست اترپردیش کی حکومت ادا کرتی ہے۔[8]

تاریخچہ

حوزہ علمیہ ناظمیہ لکھنؤ میں سنہ 1890ء میں قائم ہوا[9] جس کے بانی لکھنؤ کے شیعہ عالم دین سید محمد ابو الحسن رضوی (وفات: 1313ھ) ہیں جو ابو صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔[10]

مدرسہ کے بند ہونا اور دوبارہ احیاء

مدرسہ ناظمیہ میں پتھر کا کتیبہ

مدرسہ ناظمیہ ایک طویل عرصے سے ہندوستان میں ایک دینیات سنٹر کے طور پر کام کر رہا تھا اور ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور اودہ کی شیعہ حکومت کے کمزور ہونے کی وجہ سے یہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکا اور کچھ عرصے بعد اسے بند کر دیا گیا۔[11] مدرسے کی بحالی کے لیے سید ابو الحسن رضوی نے اپنے شاگردوں کو جمع کر کے ان سے مدد طلب کی۔ سید ناظم حسین، جو صاحب علی خان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے اپنا گھر عطیہ کیا اور اس کا نام "مَشارعُ الشَّرایع" رکھا گیا جو بعد میں "ناظمیہ" میں بدل گیا۔[12] مفتی محمد عباس کے صاحبزادے سید احمد علی (متوفی 1389ھ) بھی کچھ عرصے کے لیے مدرسہ ناظمیہ کے سرپرست رہے اور ان کی کوششوں اور اہل ہند اور ایران اور عراق میں مقیم مراجع تقلید کی مالی تعاون سے مدرسے کو دوبارہ رونق آگئی۔[13]

مدرسے کی سرپرستی

مدرسے کے مدیر اور سرپرست سید حمید الحسن (امیرالعلماء) ہیں جنہوں نے سنہ 1969ء کو نجف سے واپسی کے بعد سے یہ ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ ان کے بیٹے مولانا سید فریدالحسن ناظمیہ عربی کالج کے ڈائریکٹر ہیں۔ [14]

حوالہ جات

  1. عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنی عشری در گسترہ جہان، ص122۔
  2. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397ش، ص132۔
  3. بیضون، الشیعہ فی العالم، 1411ق، ج2، ص41۔
  4. فیضان، مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند، ص219۔
  5. «میرزا محمد اطہر»، علمائے ہند ویب سائٹ؛ محمدی، «جریان شناسی علمی و دینی در ہند»۔
  6. عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنی عشری در گسترہ جہان، ص122۔
  7. عامر، زبان و ادب فارسی در ہند، ص189۔
  8. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397ش، ص132؛ «جامعہ ناظمیہ»، علمائے ہند ویب سائٹ۔
  9. عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنی عشری در گسترہ جہان، ص122۔
  10. محمدی، «جریان شناسی علمی و دینی در ہند»، ص138؛ جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397ش، ص419۔
  11. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397ش، ص419۔
  12. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397ش، ص419۔
  13. محمدی، «جریان شناسی علمی و دینی در ہند»، ص147۔
  14. «جامعہ ناظمیہ»، علمائے ہند ویب سائٹ۔

مآخذ

  • بیضون، لبیب، الشیعہ فی العالم، بی نا، 1411ق.
  • «جامعہ ناظمیہ»، علمائے ہند ویب سائٹ، تاریخ مشاہدہ: 14 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • جعفری محمدی، غلام جابر، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، قم، امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • رضایی، حسن، حضور علمی شیعیان در جہان، قم، امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • عامر، خان محمد، زبان و ادب فارسی در ہند، نامہ پارسی سال چہارم، بہار 1378 - شمارہ 1۔
  • عرب احمدی، امیربہرام، شیعیان خوجہ اثنی عشری در گسترہ جہان، قم، شیعہ شناسی۔
  • فیضان، جعفرعلی، مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند (1857ء تا 1947ء)، تاریخ اسلام، بہار 1399 - شمارہ 81۔
  • محمدی، محسن، «جریان شناسی علمی و دینی در ہند؛ علما و اندیشمندان شیعہ در منطقہ»، دوفصلنامہ جریان شناسی دینی - معرفتی در عرصہ بین الملل، شمارہ 7، بہار 1394ہجری شمسی۔
  • میرزا محمد اطہر، علمائے ہند ویب سائٹ، تاریخ مشاہدہ: 14 آذر 1402ہجری شمسی۔