میر داماد

ویکی شیعہ سے
(محمد باقر استرآبادی سے رجوع مکرر)
میر داماد
کوائف
مکمل ناممیر برہان‌ الدین محمد باقر بن محمد حسینی استر آبادی
لقب/کنیتمیر داماد، معلم ثالث
تاریخ ولادت970 ھ
تاریخ وفات1041ھ
مدفننجف
نامور اقرباءمحقق کرکی
علمی معلومات
اساتذہحسین بن عبد الصمد حارثی
شاگردملا صدراسید احمد عاملیسلطان العلماء
تالیفاتالقبساتتقویم الایمانالرواشح السماویہ
خدمات


میرداماد میر محمد باقر بن محمد حسینی استر آبادی (متوفی 1041 ھمیر داماد کے نام سے مشہور، صفویہ دور حکومت کے شیعہ فلسفی تھے۔ آپ شیخ بہائی کے معاصر اور حکمت متعالیہ کے روح رواں ملا صدرا کے استاد تھے۔

میر داماد معلم ثالث کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ آپ ان مسلمان فلاسفہ میں شمار کئے جاتے ہیں جو ملا صدرا کے حکمت متعالیہ کی شکل گیری میں مؤثر تھے۔ آپ ایک جامع صفات علماء میں شمار کئے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے زمانے میں بہت سارے علوم من جملہ فلسفہ، کلام، طبیعیات، ریاضیات، فقہ اور اصول میں مہارت رکھتے تھے۔

میر داماد کے قلمی آثار کی تعداد 100 سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہیں جن میں قبسات فلسفہ میں آپ کی سب سے اہم تصنیف قرار دی جاتی ہے۔ آپ کی فلسفیانہ روش میں عقل و عرفان دونوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ اصالت ماہیت اور "حدوث دہری" فلسفے میں آپ کے دو مشہور نظریات میں سے ہیں۔ آپ عربی اور فارسی میں شعر و شاعری بھی کیا کرتے تھے اور آپ کا تخلص اِشراق تھا۔

سوانح حیات

برہان‌ الدین میر محمد باقر میر داماد سنہ 969[1]یا 970ھ[2] کو متولد ہوئے۔ آپ کے والد شمس‌ الدین محمد حسینی استر آبادی محقق کَرَکی کے داماد تھے اسی بنا پر آپ داماد کے نام سے مشہور ہوئے۔ اسی بنا پر محمد باقر بھی میر داماد کے نام سے معروف ہوئے۔[3] استاد البشر[4] اور معلم ثالث[5] آپ کے دوسرے القاب میں سے ہیں۔

میر داماد سالوں سال مشہد میں علوم عقلی اور نقلی کی تحصیل میں مشغول رہے۔ اس کے بعد کچھ مدت کے لئے قزوین اور کاشان میں زندگی گزارنے کے بعد آخری کار اصفہان میں قیام پذیر ہوئے۔[6] آپ شیخ بہایی کے معاصر تھے اور کہا جاتا ہے کہ شاہ عباس صفوی کے یہاں آپ خاص مقام کے حامل تھے۔[7]

میر داماد نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں شاہ صفی صفوی کے ساتھ عتبات عالیات کی زیارت کے لئے عراق کا سفر کیا[8] اور آقا بزرگ تہرانی کے مطابق آپ نے سنہ 1041 ھ کو کربلا اور نجف کے درمیان وفات پائی اور نجف میں مدفون ہوئے۔[9] کتاب ریحانۃ الادب میں اس کے علاوہ 1040 اور 1042 ھ کی تاریخ بھی آپ کی تاریخ وفات کے طور پر ذکر کی گئی ہے۔[10]

علمی مقام و منزلت

جاپانی اسلام شناس اور محقق قرآن ایزوتسو میر داماد کو سب سے بڑا مسلمان فلسفی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق میر داماد ایک جامع صفات عالم تھے اور تمام رائج اسلامی علوم جیسے فلسفہ، کلام، طبیعیات، ریاضیات، فقہ، اصول فقہ، حدیث اور تفسیر پر مکمل تسلط رکھتے تھے۔[11] اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ میر داماد کا معلم ثالث (ارسطو معلم اول اور فارابی معلم ثانی کے بعد میر داماد کو معلم ثالث کہا جاتا ہے) کے لقب سے معروف ہونا ان کی علمی مقام و منزلت کی طرف اشارہ ہے۔[12]

شہید مطہری بھی میر داماد کو فلسفی، فقیہ، ریاضی‌ دان، ادیب، رجالی اور ایک جامع صفات شخصیت کے طور پر توصیف کرتے ہیں۔[13] اعیان الشیعہ کے مطابق میر داماد مغربی علوم پر بھی مسلط تھے۔[14]

ایزوتسو اس بات کے معتقد ہیں کہ میر داماد کا فلسفہ ملا صدرا کی (حکمت متعالیہ) اور اصفہان کے فلسفی مکاتب سے متأثر تھا؛ اس طرح کہ میر داماد کے فلسفے کو سمجھے بغیر مذکورہ فلسفی مکاتب کو سمجھنا ناممکن ہے۔[15]

میر داماد شاعر بھی تھے، فارسی اور عربی زبان میں شاعری کرتے تھے اور اور شاعری میں ان کا تخلص اِشراق تھا۔[16]

میر داماد کی فلسفی روش

ایزوتسو کے مطابق میر داماد جہاں عقلی براہین پر اعتماد رکھتے تھے وہاں عرفانی شہود کے بھی قائل تھے۔ میر داماد عقلی روش میں مکتب مشاء کے پیروکار تھے اور عرفان میں آپ سہروردی سے متأثر تھے۔ اسی بنا پر آپ کے فلسفے میں حکمت مشاء اور حکمت اشراق کے درمیان پیوند اور سازگاری برقرار ہوتی ہے۔[17]

میر داماد اصالت وجود اور اصالت ماہیت کے مسئلے میں سہروردی کی پیروی میں اصالت ماہیت کے قائل تھے۔[18] فلسفہ میں آپ کا سب سے مشہور نظریہ "حدوث دَہری" ہے۔[19] ابن ‌سینا اور ان کے بعد آنے والے فلاسفہ اس بات کے قائل تھے کہ عالم عقول بھی خداوند عالم کی طرح قدیم یعنی ازلی ہیں اور عالم عقول اور خدا کے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ خدا واجب‌ الوجود ہے اور عالم عقول ممکن‌ الوجود؛[20] لیکن میر داماد، عالم عقول کو قدیم نہیں بلکہ حادث سمجھتے تھے۔[21] میر داماد کے مطابق عالم عقول کا حدوث، نہ حدوث زمانی ہے اور نہ عالم عقول ذہنی امور ہیں جیسا کہ ابن سینا وغیرہ تصور کرتے ہیں؛ بلکہ عالم عقول واقعی اور نفْس‌ الامری امور ہیں اور "دہر" کے مرتبہ وجود میں واقع ہیں۔[22]

تحریر میں پیچیدگی

میر داماد کی علمی اور نثری تحریریں پیچیدہ اور دیر فہم ہیں۔ انہوں نے بہت زیادہ پیچیدہ کلمات اور نامانوس تعبیریں استعمال کی ہیں، عربی اور فارسی اصطلاحات کو باہم مخلوط کرنے کے ساتھ ساتھ چہ بسا عام تحریری قواعد و ضوابط کی بھی رعایت نہیں کی ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات جدید لغات کو بھی وضع ‌کئے ہیں۔[23]

مذکورہ وجوہات کی بنا پر اکثر عوام الناس ان کی تحریروں کو صحیح سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے اپنے اوپر تنقید کرنے والوں میں سے ایک کے جواب میں کہا ہے کہ: "اس حد تک شعور رکھنا چاہئے کہ میری باتوں کو سمجھنا ہنر ہے نہ یہ کہ مجھ سے جدال کرے اور اس کا نام بحث و مباحثہ رکھا جائے۔"[24]

ہانری کُربَن کے مطابق میر داماد کی تحریری روش ان کے فلسفے کی کمزوری یا سادہ ادبیات کو استعمال کرنے میں ان کی ناتوانی کی دلیل نہیں بلکہ انہوں نے یہ کام فلسفہ کے مخالفین کے گزند سے محفوظ رہنے کے لئے عمدا انجام دیا ہے۔[25] میر داماد کے تحریروں میں موجود پیچیدگیوں کے بارے میں بعض داستانیں بھی نقل ہوئی ہیں۔[26]

اساتذہ

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق میر داماد نے علوم نقلی میں اپنے ماموں عبد العالی کَرکَی (محقق کَرکَی کے بیٹے) اور حسین بن عبد الصمد حارثی (شیخ بہایی کے والد) سے کسب فیض کرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں سے اجازہ روایت لیا ہے۔[27] ابو الحسن عاملی اور عبد على بن محمود خادم جاپلقى اس سلسلے میں ان کے دیگر اساتذہ میں سے ہیں۔[28]

شہید مطہری لکھتے ہیں کہ علوم عقلی میں میر داماد کے اساتذہ نامعلوم ہیں۔[29] ان کے بقول صرف کتاب "تاریخ عالم‌ آرای عباسی" میں فخر الدین استر ابادی سماکی کو آپ کا استاد جانا گیا ہے۔ محدث قمی نے بھی ان کو میر داماد کا استاد قرار دیا ہے؛ اس کے باوجود بعض نے اس میں بھی تردید ظاہر کی ہیں۔[30]

شاگرد

میر داماد کی مشہور کتاب، قبسات

شہید مطہری کے مطابق میر داماد کے بعض شاگرد درج ذیل ہیں:

  1. ملا صدرا، حکمت متعالیہ کے بانی
  2. سلطان ‌العلماء معروف بہ خلیفۃ السلطان
  3. شمس‌ الدین گیلانی معروف بہ ملا شمسا
  4. سید احمد عاملی (میر داماد کے داماد و خالہ ‌زاد)
  5. قطب‌ الدین اِشکوری (محبوب‌ القلوب کے مصنف)
  6. سید امیر فضل ‌اللہ استر آبادی۔[31]

آثار

تفصیلی مضمون: فہرست آثار میر داماد

میر داماد کے قلمی آثار کی تعداد 100 سے بھی زیادہ شمار کی جاتی ہیں۔[32] ان آثار میں ان کی کتابیں، رسالے، شرحیں اور حاشے شامل ہیں۔[33] کتاب ریحانۃ الادب میں ان کی 48 کتابوں کا نام لیا گیا ہے۔[34] کتاب قبسات کو میر داماد کا فلسفی شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. اوجبی، میر داماد، ۱۳۸۹ش، ص۱۷۲؛ بہ نقل از نخبۃ المقال، ص۹۸۔
  2. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۵، ص۶۷۔
  3. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۵، ص۶۷۔
  4. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۵، ص۶۷۔
  5. سبزواری، شرح‌ المنظومہ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۲م، ج۲، ص۲۸۸۔
  6. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ محقق، ص۱۱۔
  7. امین، اعیان‌ الشیعہ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م، ج۹، ص۱۸۹۔
  8. قمی، الفوائد الرضویہ، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۶۷۷۔
  9. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ج۵، اسماعیلیان، ص۶۸۔
  10. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج۶، ص۶۱-۶۲۔
  11. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۱۴-۱۱۵۔
  12. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۱۴۔
  13. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۵۰۹۔
  14. امین، اعیان ‌الشیعہ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م، ج۹، ص۱۸۹۔
  15. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۱۵۔
  16. امین، اعیان‌ الشیعہ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م، ج۹، ص۱۸۹۔
  17. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۱۵-۱۱۶۔
  18. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۲۴-۱۲۵۔
  19. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ فضل ‌الرحمن، ص۱۲۸۔
  20. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ فضل‌ الرحمن، ص۱۳۲۔
  21. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ فضل‌ الرحمن، ص۱۲۸۔
  22. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ فضل ‌الرحمن، ص۱۳۳-۱۳۴۔
  23. میر داماد، جذوات و مواقیت، ۱۳۸۰ش، مقدمہ علی اوجبی، صفحہ سی و سہ تا سی و چہار۔
  24. میر داماد، جذوات و مواقیت، ۱۳۸۰ش، مقدمہ علی اوجبی، صفحہ سی و چہار۔
  25. میر داماد، جذوات و مواقیت، ۱۳۸۰ش، مقدمہ علی اوجبی، صفحہ سی و شش۔
  26. ملاحظہ کریں: میر داماد، جذوات و مواقیت، ۱۳۸۰ش، مقدمہ علی اوجبی، صفحہ سی و چہار تا سی و شش۔
  27. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۵، ص۶۷۔
  28. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۵، ص۶۸۔
  29. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۵۰۹۔
  30. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۵۹۰-۵۱۰۔
  31. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۵۱۲-۵۱۳۔
  32. نورانی، مصنفات میر داماد، ۱۳۸۱، مقدمہ مہدی محقق، ج۱، صفحہ بیست و شش۔
  33. اوجبی، میر داماد، ۱۳۸۹ش، ص۱۷۲۔
  34. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج۶، ص۶۰-۶۱۔
  35. میر داماد، القبسات، ۱۳۶۷ش، مقدمہ ایزوتسو، ص۱۱۴-۱۱۵۔

مآخذ

  • افندی اصفہانی، میرزا عبداللہ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، تحقیق سید احمد حسینی، قم، خیام، ۱۴۰۱ھ۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعہ، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم۔
  • امین، محسن، اعیان‌ الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
  • اوجبی، علی، میر داماد، تہران، مرکز پژوہش کتابخانہ، موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۹ش۔
  • قمی، عباس، الفوائد الرضویہ فی احوال علماء المذہب الجعفریہ، تحقیق ناصر باقری بیدہندی، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، ۱۳۸۷ش۔
  • محقق سبزواری، شرح ‌المنظومہ، تصحیح حسن حسن‌ زادہ آملی، تہران، نشر ناب، چاپ اول، ۱۳۶۹ش۔
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتاب فروشی خیام، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، ۱۳۷۷ش۔
  • میر داماد، میر محمد باقر، جذوات و مواقیت، تصحیح و تحقیق علی اوجبی، تہران، میراث مکتوب، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔
  • میر داماد، میر محمد باقر، القبسات، بہ‌اہتمام دکتر مہدى محقق، دکتر سید على موسوى بہبہانى، پروفسور ایزوتسو و دکتر ابراہيم دیباجی، ‏تہران، دانشگاہ تہران، چاپ دوم، ۱۳۶۷ش۔
  • نورانی، عبد اللہ، مصنفات میر داماد؛ مشتمل بر دہ عنوان از کتاب‌ہا و رسالہ‌ہا و اجازہ‌نامہ‌ہا و نامہ‌ہا، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۸۱ش۔